عقائد و کلام, فتاوی رضویہ, میلاد پاک

مجلس مبارک و قیام

تحریر رسالہ شمس السّالکین دربارہ مجلس مبارک و قیام

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
الحمدﷲ وکفی وسلام علٰی عبادہ الذین اصطفی لاسیما الحبیب المصطفٰی واٰلہ وصحبہ اولی الصدق والصفا، فقیر غفرلہ المولی القدیر نے مولٰینا مولوی ابونصر حکیم محمد یعقوب صاحب حنفی قادری رامپوری کا یہ مختصر وکافی فتوٰی مسمّٰی بہ شمس السالکین مطالعہ کیا، مولٰی عزوجل مولٰینا کی سعی جمیل قبول فرمائے اور اس فتوٰی کو حقیقۃً سالکین راہِ ہُدٰی کے لیے آفتاب نورانی بنائے۔ مجلس مبارک و قیام اہلِ محبت کے نزدیک تو اصلاً محتاجِ دلیل نہیں۔ اہلِ حجت میں جو انصاف پر آئیں قرآن عظیم قولِ فیصل و حاکم عدل ہے،

اﷲ عزوجل فرماتا ہے: قل بفضل اﷲ وبرحمتہ فبذٰلک فلیفر حوا ۱ ؎ تم فرمادو کہ اﷲ کے فضل اور اس کی رحمت ہی پر لازم ہے کہ خوشیاں مناؤ۔(ت)

اور فرماتا ہے: وذکرھم بایّام اﷲ ۲ ؎ انہیں اﷲ کے دن یاد دلاؤ۔(ت)

اور فرماتا ہے : وامّابنعمۃ ربّک فحدّث ۳ ؎ اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔(ت)

اور فرماتا ہے : انّا ارسلٰنک شاھدا و مبشرا ونذیرا لتؤمنوا باﷲ ورسولہ وتعزر وہ و توقروہ ۔۴؂ اے نبی بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا، تاکہ اے لوگو! تم اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو۔(ت)

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۱۰/ ۵۸ ) ( ۲ ؎القرآن الکریم ۱۴/ ۵)
( ۳ ؎القرآن الکریم ۹۳/ ۱۱) ( ۴ ؎القرآن الکریم ۴۸/ ۸و ۹)

اور فرماتا ہے: فالذین اٰمنوا بہ وعزروہ و نصروہ واتبعواالنور الذی انزل معہ اولئک ھم المفلحون ۔۵؂ تو وہ جو اس پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اُسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اُترا، وہی بامراد ہوئے۔(ت)

اور فرماتا ہے: لئن اقمتم الصلوۃ واتیتم الزکوۃ واٰمنتم برسلی وعزر تموھم واقرضتم اﷲ قرضا حسنا لاکفرن عنکم سٰیاتکم ولادخلنکم جنّٰت تجری من تحتہا الانھٰرفمن کفر بعد ذٰلک منکم فقدضل سواء السبیل ۱؂، اگر تم نماز قائم رکھو اور زکوۃ دو اور میرے رسولوں پر ایمان لاؤ اور ان کی تعظیم کرو اور اﷲ کو قرض حسن دو بےشک میں تمہارے گناہ اتاردوں گا اورضرور تمہیں باغوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے نہریں رواں پھر اس کے بعد جو تم میں سے کفر کرے وہ ضرور سیدھی راہ سے بہکا(ت)

(۵ ؎ القرآن الکریم ۷/ ۱۵۷) ( ۱ ؎القرآن الکریم ۵/۱۲)

پہلی تینوں آیتوں میں حکم فرماتا ہے کہ اﷲ کے فضل اور اس کی رحمت پرشادیاں مناؤ، لوگوں کو اﷲ کے دن یاد دلاؤ، اﷲ کی نعمت کا خُوب چرچا کرو۔ اﷲ کا کون سا فضل و رحمت، کون سی نعمت اس حبیب کریم علیہ وعلٰی آلہ افضل الصلوۃ والتسلیم کی ولادت سے زائد ہے کہ تمام نعمتیں تمام رحمتیں تمام برکتیں اسی کے صدقے میں عطا ہوئیں۔اﷲ کا کون سا دن اس نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ظہور پر نور کے دن سے بڑا ہے، تو بلاشبہہ قرآن کریم ہمیں حکم دیتا ہے کہ ولادتِ اقدس پر خوشی کرو۔ مسلمانوں کے سامنے اُسی کا چرچا خوب زور شور سے کرو، اسی کا نام مجلس میلاد ہے، بعد کی تین آیتوں میں اپنے رسولوں خصوصا سیدا لرسل صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم کا حکم مطلق فرماتا ہے، اور قاعدہ شرعیہ المطلق یجری علٰی اطلاقہ ۔۲؂ ( مطلق اپنے اطلاق پر جاری ہوتا ہے۔ت) جو بات اﷲ عزوجل نے مطلق ارشاد فرمائی وہ مطلق حکم عطا کرے گی جو جو کچھ اس مطلق کے تحت میں داخل ہے سب کو وہ حکم شامل ہے بلاتخصیص شرع جو اپنی طرف سے کتاب اﷲ تعالٰی کے مطلق کو مقید کرے گا تو وہ کتاب اللہ کو منسوخ کرتا ہے جب ہمیں تعظیم حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا حکم مطلق فرمایا تو جمیع طرق تعظیم کی اجازت ہوئی جب تک کسی خاص طریقے سے شریعت منع نہ فرمائے۔ یونہی رحمت پر فرحت ایامِ الہی کا تذکرہ ، نعمتِ ربانی کا چرچا یہ بھی مطلق ہیں جس طریقہ سے کیے جائیں سب امتثال امرالہٰی ہیں جب تک شرع مطہر کسی خاص طریقہ پر انکار نہ فرمائے۔ تو روشن ہوا کہ مجلس و قیام پر خاص دلیل نام لے کر چاہنا یا بعینہ اُن کا قرون ثلثہ میں وجود تلاش کرنا نِری اوندھی مت ہی نہیں بلکہ قرآن مجید کو اپنی رائے سے منسوخ کرنا ہے۔ اﷲ عزوجل تو مطلق حکم فرمائے اور منکرین کہیں کہ وہ مطلق کہا کرے ہم تو خاص وہ صورت جائز مانیں گے جسے بالتخصیص نام لے کر جائز کیا ہو یا جس کا بہیئت کذائی قرون ثلٰثہ میں وجود ہوا ہو انّا اﷲ وانّا الیہ راجعون ۔۱؂ ( ہم اﷲ کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھرنا ہے۔ت)

(۲ ؎ التوضیح والتلویح فصل حکم المطلق مطبع میرمحمد کراچی ۱ /۱۶۹)
( ۱ ؎ القرآن الکریم ۲/ ۱۵۷)

عقل و دین رکھتے تو جو طریقہ اظہارِ فرحت و تذکرہ نعمت و تعظیم سرکار رسالت دیکھتے اس میں یہ تلاش کرتے کہ کہیں خاص اس صورت کو اﷲ و رسول نے منع تو نہیں فرمایا، اگر اُس کی خاص ممانعت نہ پاتے یقین جانتے کہ یہ اُنہیں احکام کی بجا آوری ہے جو ان آیاتِ کریمہ میں گزرے، مگر آدمی دل سے مجبور ہے، محبوب کا چرچا محب کا چین، اور اس کی تعظیم آنکھوں کی ٹھنڈک، اور جس دل میں غیظ بھرا ہے وہ آپ ہی ذکر سے بھی جلے گا تعظیم سے بھی بگڑے گا۔ دوست دشمن کی یہ بڑی پہچان ہے، آخر نہ دیکھا کہ دل کی دبی نے بھڑک کر کہاں تک پھونکا ، جانتے ہو کہ اب یہ منکران مجلس و قیام کون ہیں، ہاں ہاں وہی ہیں جو اول تو اتنا کہتے تھے کہ وہ بڑے بھائی ہم چھوٹے بھائی، ان کی سروری ایسی ہی ہے جیسے گاؤں کا پدھان یا قوم کا چودھری ، اُن کی تعریف ایسی ہی کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے کی کرتے ہو بلکہ اس سے بھی کم، باتوں مثالوں میں چوڑھے چمار سے تشبیہ بھی دے بھاگتے تھے کہ یہ سب اوروں سے بہت زائد ان کی دھرم پوتھی تقویۃ الایمان میں مصرح ہیں اور اب تو اور بھی کھیل کھیلے کہ ان کے علم سے شیطان کا علم زیادہ ہے ۔۲؂ جیسا علم غیب ان کو ہے ایسا تو ہر پاگل ہر چوپائے کو ہوتا ہے۳؂ وغیرہ وغیرہ کلماتِ ملعونہ۔

( ۲؎ البراہین القاطعۃ بحث علم غیب مطبع لے بلاسا واقع ڈھور ص۵۱)
( ۳ ؎ حفظ الایمان قدیمی کتب خانہ کراچی ص ۱۳ و دعوتِ فکر مکتبہ اعلٰیحضرت لاہور ص۷۲)

مسلمانو! یہ ہیں جو آج تمہارے سامنے مجلس مبارک و قیام سے منکر ہیں اب تو سمجھو کہ علتِ انکار کیا ہے واﷲ واﷲ بغضِ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ، دیکھو خبردار ہوشیار یہ ہیں وہ جن کی خبر حدیث میں دی تھی کہ ذیاب فی ثیاب ۔۴؂ بھیڑیئے ہوں گے کپڑے پہنے، یعنی ظاہر میں انسانی لباس اور باطن میں گرگ خنّاس ۔ اے مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی بھولی بھیڑو! اپنے دشمن کو پہچانو، نہیں نہیں تمہارے دشمن نہیں تمہارے پیارے مالک صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے دشمن جنہوں نے وہ ملعون گالیاں محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں لکھیں، چھاپیں اور آج تک اُن پر مصر ہیں۔

قد بدت البغضاء من افواھھم وما تخفی صدورھم اکبر ۔۱؂ ان کی عداوتِ شدیدہ تو اُن کی باتوں سے ظاہر ہوگئی اور وہ جو اُن کے دلوں میں چھپی ہے بہت زائد ہے۔

(۴؂)
( ۱ ؎ القران الکریم ۳/ ۱۱۸)

جو بظاہر اُن خبیث گالیوں کے خود مرتکب نہیں ان سے پوچھ دیکھئے کہ جن خبثاء نے مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو یوں منہ بھر کر گالیاں دیں وہ مسلمان رہے یا کافر ہوگئے، دیکھو ہر گز ہر گز انہیں کافر نہ کہیں گے بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مقابل اُلٹی اُن کی حمایت کو تیار ہوجائیں گے، تاویلیں گھڑیں گے بات بنائیں گے، حالانکہ علمائے کرام حرمین شریفین بالاتفاق اُن تمام دشنامیوں کو ایک ایک کا نام لے کر فرماچکے کہ۔ من شک فی عذابہ وکفرہ فقد کفر ۲ ؎ جو ان کے عذاب اور کافر ہونے میں شک کرے وہ بھی کافر ہے،

( ۲ ؎ حسام الحرمین مکتبۃ نبویہ لاہور ص۱۳ مکتبہ اہل سنت بریلی ص ۹۴)

مسلمانو! جب نوبت یہاں تک پہنچ چکی پھر اُسے مجلس یا قیام یا کسی مسئلہ اسلام میں بحث کا کیا موقع رہا۔ کافروں مرتدوں کو اسلامی مسائل میں دخل دینے کا کیا حق۔ مگر یہ ساری دقت اس کی ہے کہ بھائیو تم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے دشمنوں کو ابھی نہ پہچانا، ان کے پاس بیٹھتے ہو، ان کی بات سنتے ہو، ان کی تحریریں دیکھتے ہو، دیکھو یہ تمہارے حق میں زہر ہے، دیکھو تمہارے پیارے مولٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہ واﷲ تم سے بڑھ کر تم پر مہربان ہیں، تمہیں ارشاد فرمارہے ہیں کہ:

فایّاکم وایّا ھم لایضلونکم ولایفتنونکم ۳ ؎ اُن سے دور بھاگو انہیں اپنے سے دُور کردو کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں کہیں وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں۔ والعیاذ باﷲ تعا لٰی۔

( ۳ ؎ صحیح مسلم باب النہی عن الروایۃ عن الضعفاء قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۰)

بھائیو ! مصطفٰی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے دامن سے لپٹا رہنا اچھا ہے یا معاذ اﷲ ان کے دشمن کے پھندے میں پڑنا۔ اﷲ تعالٰی اُن کا دامن نہ چھڑائے دنیا میں نہ آخرت میں، آمین وصلی اللہ تعالٰی علٰی سیدنا ومولٰینا محمد والہ وصحبہ اجمعین آمین۔