عقائد متعلقہ ذات و صفات الٰہی, عقائد و کلام, فتاوی رضویہ

جسمیتِ باری تعالٰی کے قائل فاجر

قوارع القہارعلی المجسمۃ الفجّار ۱۳۱۸ھ
جسمیتِ باری تعالٰی کے قائل فاجروں پر قہر فرمانے والے ( اللہ تعالٰی) کی طرف سے سخت مصیبتیں)
ملقب بلقب تاریخی
ضربِ قہاری
(۱۸ ۱۳ ھ)

بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
سبحٰنک یا من تعالٰی عما یقول المجسمۃ الظالمون علواکبیرا ٭ صلّ و سلم وبارک علی من اتانا بشیراً و نذیراً ٭ داعیا الیک باذنک سراجاً منیراً ٭ وعلٰی اٰلہ وصحابتہ واھلسنتہ وجماعتہ کثیراکثیرا۔

پاک ہے تو اے وہ ذات جو بلند ترین ہے اس بات سے جو جسم ثابت کرنے والے ظالم لوگ کہتے ہیں، رحمت، سلامتی اور برکت فرما اس شخصیت پر جو ہمارے پاس بشیر و نذیربن کر تشریف لائے اور تیری طرف دعوت دینے والے تیرے حکم سے روشن چراغ ہیں اور اُن کی آل و صحابہ و اہلسنت و جماعت پر کثرت در کثرت سے(ت)

اللہ عزوجل کی تنزیہ میں اہلسنت و جماعت کے عقیدے

(۱) اﷲ تعالٰی ہر عیب و نقصان سے پاک ہے۔
(۲) سب اس کے محتاج ہیں وہ کسی چیز کی طرف کسی طرح کسی بات میں اصلاً احتیاج نہیں رکھتا۔
(۳) مخلوق کی مشابہت سے منزہ ہے۔
(۴) اس میں تغیر نہیں آسکتا ، ازل میں جیسا تھا ویسا ہی اب ہے اور ویسا ہی ہمیشہ ہمیشہ رہے گا ، یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ پہلے ایک طور پر ہو پھر بدل کر اور حالت پر ہوجائے۔
(۵) وہ جسم نہیں جسم والی کسی چیز کو اس سے لگاؤ نہیں۔
(۶) اُسے مقدار عارض نہیں کہ اِتنا یا اُتنا کہہ سکیں، لمبا چوڑا یا دَلدار یا موٹا یا پتلا یا بہت یا تھوڑا یا گنتی یا تول میں بڑا یا چھوٹا یا بھاری یا ہلکا نہیں۔
(۷) وہ شکل سے منزّہ ہے، پھیلا یا سمٹا، گول یا لمبا، تکونا یا چوکھونٹا، سیدھا یا ترچھا یا اور کسی صورت کا نہیں۔
(۸) حد و طرف و نہایت سے پاک ہے اور اس معنی پر نامحدود بھی نہیں کہ بے نہایت پھیلا ہوا ہو بلکہ یہ معنی کہ وہ مقدار وغیرہ تمام اعراض سے منزہ ہے ، غرض نامحدود کہنا نفی حد کے لیے ہے نہ اثبات بے مقدار بے نہایت کے لیے۔
(۹) وہ کسی چیز سے بنا نہیں۔
(۱۰) اس میں اجزا یا حصے فرض نہیں کرسکتے۔
(۱۱) جہت اور طرف سے پاک ہے جس طرح اُسے دہنے بائیں یا نیچے نہیں کہہ سکتے یونہی جہت کے معنی پر آگے پیچھے یا اُوپر بھی ہر گز نہیں۔
(۱۲) وہ کسی مخلوق سے مل نہیں سکتا کہ اس سے لگا ہوا ہو۔
(۱۳)کسی مخلوق سے جُدا نہیں کہ اُس میں اور مخلوق میں مسافت کا فاصلہ ہو۔
(۱۴) اُس کے لیے مکان اور جگہ نہیں۔
(۱۵) اُٹھنے، بیٹھنے، اُترنے، چڑھنے، چلنے، ٹھہرنے وغیرہا تمام عوارض جسم و جسمانیات سے منزّہ ہے۔

محل تفصیل میں عقائد تزیہہ بے شمار ہیں، یہ پندرہ ۱۵ کہ بقدر حاجت یہاں مذکور ہوئے اور انکے سوا ان جملہ مسائل کی اصل یہی تین عقیدے ہیں جو پہلے مذکور ہوئے اور ان میں بھی اصل الاصول عقیدہ اولی ہے کہ تمام مطالب تنزیہیہ کا حاصل و خلاصہ ہے ان کی دلیل قرآن عظیم کی وہ سب آیات ہیں جن میں باری عزوجل کی تسبیح وتقدیس و پاکی و بے نیازی و بے مثلی و بے نظیری ارشاد ہوئی آیات تسبیح خود کس قدر کثیر ووافر ہیں۔

وقال تعالٰی : الملک القدوس السلٰم ۔۱؂ بادشاہ نہایت پاکی والا ہر عیب سے سلامت ۔ وقال تعالٰی: فان اﷲ غنی عن العٰلمین ۔۲؂ بے شک اﷲ سارے جہان سے بے نیاز ہے۔ وقال تعالٰی : ان اﷲ ھوالغنی الحمید ۔۳؂ بے شک اللہ ہی بے پروا ہے سب خوبیوں سراہا، وقال تعالٰی : لیس کمثلہ شیئ ۔۴؂ اس کے مثل کوئی چیز نہیں ۔ وقال تعالٰی: ھل تعلم لہ سمیا ۔۵؂ کیا تو جانتا ہے اس کے نام کا کوئی ، وقال تعالٰی : ولم یکن لہ کفواً احد ۶؂ اس کے جوڑ کا کوئی نہیں۔

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۵۹/ ۲۳ ) ( ۲ ؎ القرآن الکریم ۳/ ۹۷) ( ۳ ؎القرآن الکریم ۳۱/ ۲۶)
( ۴ ؎ القرآن الکریم ۴۲/ ۱۱) ( ۵ ؎ القرآن الکریم ۱۹/ ۶۵ ) ( ۶ ؎ القرآن ا لکریم ۱۱۲/ ۴)

ان مطالب کی آیتیں صدہا ہیں، یہ آیاتِ محکمات ہیں، یہ اُم الکتاب ہیں، ان کے معنی میں کوئی خفا و اجمال نہیں، اصلاً دقت واشکال نہیں جو کچھ ان کے صریح لفظوں سے بے پردہ روشن وہویدا ہے بے تغیر وتبدیل بے تخصیص وتاویل اس پر ایمان لانا ضروریاتِ دین اسلام سے ہے، وباﷲ التوفیق ۔

آیاتِ متشابہات کے باب میں اہلسنت کا اعتقاد

قال اﷲ تعالٰی (اﷲ تعالٰی نے فرمایا): ھو الذی انزل علیک الکتٰب منہ اٰیت محکمٰت ھن ام الکتٰب و اٰخرمتشٰبھٰت فاما الذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ماتشابہ منہ ابتغاء الفتنۃ وابتغاء تاویلہ oومایعلم تاویلہ الا اﷲ م و الراسخون فی العلم یقولون اٰمنّا بہ کل من عند ربنا وما یذکرالا اولوالالباب ۔۱؂ (موضح القرآن میں اس کا ترجمہ یوں ہے۔ وہی ہے جس نے اتاری تجھ پر کتاب اس میں بعض آیتیں پکی ہیں سو جڑ ہیں کتاب کی، اور دوسری ہیں کئی طرف ملتی، سوجن کے دل ہیں پھرے ہوئے وہ لگتے ہیں ان کے ڈھب والیوں سے ، تلاش کرتے ہیں گمراہی اور تلاش کرتے ہیں اُن کی کل بیٹھانی ، اور ان کی کل کوئی نہیں جانتا سوائے اﷲ کے، اور جو مضبوط علم والے ہیں سوکہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے سب کچھ ہمارے رب کی طرف سے ہے، اور سمجھائے وہی سمجھے ہیں جن کو عقل ہے۔۲؂

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۳/ ۷)
( ۲ ؎ موضح القرآن ترجمہ و تفسیر شاہ عبدالقادر ۱۲۱ تاج کمپنی لاہور ص ۶۲)

اور اس کے فائدے میں لکھا : اللہ صاحب فرماتا ہے کہ ہر کلام میں اﷲ نے بعضی باتیں رکھی ہیں جن کے معنی صاف نہیں کھلتے تو جو گمراہ ہو اُن کے معنی عقل سے لگے پکڑنے اور جو مضبوط علم رکھے وہ ان کے معنی اور آیتوں سے ملا کر سمجھے جو جڑ کتاب کی ہے اس کے موافق سمجھ پائے تو سمجھے اور اگر نہ پائے تو اﷲ پر چھوڑ دے کہ وہی بہترجانے ہم کو ایمان سے کام ہے ۳؂انتہی۔

( ۳؎ موضح القرآن ترجمہ و تفسیر شاہ عبدالقادر ۱۲۱ تاج کمپنی لاہور ص ۶۲)

اقول: ( میں کہتا ہوں ، ت) بات یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے قرآن مجید اتارا ہے ہدایت فرمانے اور بندوں کو جانچنے آزمانے کو، یضل بہ کثیرا ویھدی بہ کثیر اً ۔۴؂ اسی قرآن سے بہتوں کو گمراہ فرمائے اور بہتیروں کو راہ دکھائے۔

( ۴ ؎ القرآن الکریم ۲/ ۲۶)

اس ہدایت وضلالت کا بڑا منشا قرآن عظیم کی آیتوں کا دو قسم ہونا ہے: محکمات جن کے معنی صاف بے دقت ہیں جیسے ا ﷲ تعالٰی کی پاکی و بے نیازی و بے مثلی کی آیتیں جن کا ذکر اوپر گزرا، اور دوسری متشا بہات جن کے معنٰی میں اشکال ہے یا تو ظاہر لفظ سے کچھ سمجھ ہی نہیں آتا جیسے حروفِ مقطعات الم وغیرہ یا جو سمجھ میں آتا ہے وہ اﷲ عزوجل پر محال ہے، جیسے الرحمن علٰی العرش استوی ۔۵؂ (وہ بڑا مہروالا اس نے عرش پر استواء فرمایا۔ت) یا ثم استوٰی علی العرش ۔۶؂ (پھر اس نے عرش پر استواء فرمایا۔ت)

( ۵ ؎ القرآن الکریم ۲۰/ ۵)( ۶ ؎ القرآن الکریم ۷/ ۵۴ و ۱۰/ ۳ وغیرہ )

پھر جن کے دلوں میں کجی و گمراہی تھی وہ تو ان کو اپنے ڈھب کا پاکر ان کے ذریعہ سے بے علموں کو بہکانے اور دین میں فتنے پھیلانے لگے کہ دیکھو قرآن میں آیا ہے اﷲ عرش پر بیٹھا ہے، عرش پر چڑھا ہوا ہے، عرش پر ٹھہر گیا ہے۔ اور آیاتِ محکمات جو کتاب کی جڑ تھیں اُن کے ارشاد دل سے بھلادیئے حالانکہ قرآن عظیم میں تو استواء آیا ہے اور اس کے معنی چڑھنا، بیٹھنا، ٹھہرنا، ہونا کچھ ضرور نہیں یہ تو تمہاری اپنی سمجھ ہے جس کا حکم خدا پر لگا رہے۔ ما انزل اﷲ بھا من سلطٰن ۔۱؂ (اللہ تعالٰی نے اس پر کوئی دلیل نازل نہ فرمائی۔ت)

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۱۲/ ۴۰)

اگر بالفرض قرآن مجید میں یہی الفاظ چڑھنا، بیٹھنا، ٹھہرنا آتے تو قرآن ہی کے حکم سے فرض قطعی تھا کہ انہیں ان ظاہری معنی پر نہ سمجھو جو ان لفظوں سے ہمارے ذہن میں آتے ہیں کہ یہ کام تو اجسام کے ہیں اور اﷲ تعالٰی جسم نہیں مگر یہ لوگ اپنی گمراہی سے اسی معنی پر جم گئے انہیں کو قرآن مجید نے فرمایا۔ الذین فی قلوبھم زیغ ۔۲؂ ان کے دل پھرے ہوئے ہیں۔

( ۲ ؎ القرآن الکریم ۳ /۷)

اور جو لوگ علم میں پکے اور اپنے رب کے پاس سے ہدایت رکھتے تھے وہ سمجھے کہ آیات محکمات سے قطعاً ثابت ہے کہ اللہ تعالٰی مکان وجہت و جسم و اعراض سے پاک ہے بیٹھنے، چڑھنے، بیٹھنے سے منزہ ہے کہ یہ سب باتیں اس بے عیب کے حق میں عیب ہیں جن کا بیان ان شاء اللہ المستعان عنقریب آتا ہے اور وہ ہر عیب سے پاک ہے ان میں اللہ عزوجل کے لیے اپنی مخلوق عرش کی طرف حاجت نکلے گی اور وہ ہر احتیاج سے پاک ہے ان میں مخلوقات سے مشابہت ثابت ہوگی کہ اٹھنا، بیٹھنا، چڑھنا، اترنا، سرکنا ٹھہرنا اجسام کے کام ہیں اور وہ ہر مشابہت خلق سے پاک ہے تو قطعاً یقیناً ان لفظوں کے ظاہری معنی جو ہماری سمجھ میں آتے ہیں ہر گز مراد نہیں، پھر آخر معنی کیا لیں۔ اس میں یہ ہدایت والے دوروش ہوگئے۔

اکثر نے فرمایا جب یہ ظاہری معنی قطعاً مقصود نہیں اور تاویلی مطلب متعین و محدود نہیں تو ہم اپنی طرف سے کیا کہیں، یہی بہتر کہ اس کا علم اﷲ پر چھوڑیں ہمیں ہمارے رب نے آیاتِ متشابہات کے پیچھے پڑنے سے منع فرمایا اور ان کی تعیین مراد میں خوض کرنے کو گمراہی بتایا تو ہم حد سے باہر کیوں قدم دھریں، اسی قرآن کے بتائے حصے پر قناعت کریں کہ امنا بہ کل من عند ربنا ۔۳؂ جو کچھ ہمارے مولٰی کی مراد ہے ہم اس پر ایمان لائے محکم متشابہ سب ہمارے رب کے پاس سے ہے،

(۳ ؎ القرآن الکریم ۳/ ۷)

یہ مذہب جمہورائمہ سلف کا ہے اور یہی اسلم واولٰی ہے اسے مسلک تفویض و تسلیم کہتے ہیں، ان ائمہ نے فرمایا استواء معلوم ہے کہ ضرور اللہ تعالٰی کی ایک صفت ہے اور کیف مجہول ہے کہ اس کے معنی ہماری سمجھ سے وراء ہیں، اور ایمان اس پر واجب ہے کہ نص قطعی قرآن سے ثابت ہے اور سوال اس سے بدعت ہے کہ سوال نہ ہوگا مگر تعیین مراد کے لیے اور تعین مراد کی طرف راہ نہیں اور بعض نے خیال کیا کہ جب اﷲ عزوجل نے محکم متشابہ دو قسمیں فرما کر محکمات کو ھنّ ام الکتب۱؂ فرمایا کہ وہ کتاب کی جڑ ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ ہر فرع اپنی اصل کی طرف پلٹتی ہے تو آیہ کریمہ نے تاویل متشا بہات کی راہ خود بتادی اور ان کی ٹھیک معیار ہمیں سجھادی کہ ان میں وہ درست وپاکیز ہ احتمالات پیدا کرو جن سے یہ اپنی اصل یعنی محکمات کے مطابق آجائیں اور فتنہ و ضلال و باطل و محال راہ نہ پائیں۔ یہ ضرور ہے کہ اپنے نکالے ہوئے معنی پر یقین نہیں کرسکتے کہ اللہ عزوجل کی یہی مراد ہے مگر جب معنی صاف و پاکیزہ ہیں اور مخالفت محکمات سے بری و منزہ ہیں اور محاورات عرب کے لحاظ سے بن بھی سکتے ہیں تو احتمالی طور پر بیان کرنے میں کیا حرج ہے اور اس میں نفع یہ ہے کہ بعض عوام کی طبائع صرف اتنی بات پر مشکل سے قناعت کریں کہ انکے معنی ہم کچھ نہیں کہہ سکتے اور جب انہیں روکا جائے گا تو خواہ مخواہ ان میں فکر کی اور حرص بڑھے گی۔

ان ابن ادم(عہ) لحریص علٰی مامنع ۲؂ انسان کو جس چیز سے منع کیا جائے وہ اس پر حریص ہوتا ہے۔(ت)

عہ: رواہ الطبرانی ۳؂ ومن طریقہ الدیلمی عن ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔ اس کو طبرانی نے روایت کیا اور دیلمی نے طبرانی کے طریق پر ابن عمر رضی اللہ عنہما سے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔(ت)

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۳/ ۷)
( ۲ ؎ الفردوس بماثورالخطاب حدیث ۸۸۵ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۲۳۱)
( ۳ ؎ کشف الخفاء بحوالہ الطبرانی حدیث ۶۷۴ ۱/ ۱۹۹)

اور جب فکر کریں گے فتنے میں پڑیں گے گمراہی میں گریں گے، تو یہی انسب ہے کہ ان کی افکار ایک مناسب و ملائم معنی کی طرف کہ محکمات سے مطابق محاورات سے موافق ہوں پھیردی جائیں کہ فتنہ و ضلال سے نجات پائیں یہ مسلک بہت علمائے متاخرین کا ہے کہ نظر بحال عوام اسے اختیار کیا ہے اسے مسلک تاویل کہتے یہ علماء بوجوہ کثیر تاویل آیت فرماتے ہیں ان میں چار وجہیں نفیس و واضح ہیں۔

اول: ا ستواء بمعنی قہرو غلبہ ہے، یہ زبان عرب سے ثابت و پیدا ہے عرش سب مخلوقات سے اوپر اور اونچا ہے اس لیے اس کے ذکر پر اکتفا فرمایا اور مطلب یہ ہوا کہ اﷲ تمام مخلوقات پر قاہر و غالب ہے۔

دوم : استواء بمعنی علو ہے، اور علو اﷲ عزوجل کی صفت ہے نہ علو مکان بلکہ علو مالکیت و سلطان، یہ دونوں معنی امام بیہقی نے کتاب الاسماء والصفات میں ذکر فرمائے جس کی عبارات عنقریب آتی ہیں۔ ان شاء اﷲ تعالٰی

سوم : استواء بمعنی قصد وارادہ ہے ، ثم استوٰی علی العرش یعنی پھر عرش کی طرف متوجہ ہوا یعنی اس کی آفرینش کا ارادہ فرمایا یعنی اس کی تخلیق شروع کی، یہ تاویل امام اہلسنت امام ابوالحسن اشعری نے افادہ فرمائی۔ امام اسمعیل ضریر نے فرمایا : انہ الصواب ۱ ؎ یہی ٹھیک ہے ، نقلہ الامام جلال الدین سیوطی فی الاتقان (عہ) ( اس کو امام جلال الدین سیوطی نے اتقان میں نقل کیا ہے۔ت)

عہ: قالہ الفراء والا شعری وجماعۃ اھل المعانی ثم قال یبعدہ تعدیتہ بعلٰی ولوکان کما ذکروہ لتعدی بالٰی کما فی قولہ تعالٰی ثم استوی علی السماء ۔۲؂وفیہ ان حروف المعانی تنوب بعضہا عن بعض کما نص علیہ فی الصحاح وغیرھا و قدروی الامام البیہقی فی کتاب الاسماء والصفات عن الفراء ان تقول کان مقبلا علٰی فلان ثم استوی علیّ یشاتمنی والیّ سواء علٰی معنی اقبل الیّ وعلیّ ۔۳؂ ۱۲ منہ۔ فراء ،اشعری اور اہل معانی کی ایک جماعت کا یہ قول ہے، پھر امام سیوطی نے کہا کہ یہ قول اس کے علٰی کے ساتھ متعدی ہونے سے بعید ہے اگر مطلب وہی ہوتا جو انہوں نے ذکر کیا ہے تو یہ الٰی کے ساتھ متعدی ہوتا جیسا کہ اﷲ تعالٰی کے ارشاد ثم استوٰی الٰی اسماء میں ہے، مگر اس پر یہ اعتراض ہے کہ حروف ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے رہتے ہیں، جیسا کہ صحاح وغیرہ میں اس پر نص کی گئی ہے، اور امام بیہقی نے کتاب الاسماء والصفات میں فراء سے روایت کیا ہے مثلاً تو کہے کہ وہ فلاں کی طرف متوجہ تھا پھر وہ مجھے برا بھلا کہتے ہوئے میری طرف متوجہ ہوا یعنی چاہے استوی الیّ کہے یا استوی علی دونوں برابر ہیں۔۱۲ منہ (ت)

(۱؂ الاتقان فی علوم القرآن النوع الثالث والا ربعون فی المحکم والمتشابہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۶۰۵)
(۲؂ الاتقان فی علوم القرآن النوع الثالث والا ربعون فی المحکم والمتشابہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۶۰۵)
(۳؂کتاب الاسماء والصفات باب ماجاء فی قول اﷲ تعالٰی الرحمن علی العرش استوٰی المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۱۵۴)

چہارم : استواء بمعنی فراغ وتمامی کار ہے یعنی سلسلہ خلق وآفرینش کو عرش پر تمام فرمایا اس سے باہر کوئی چیز نہ پائی،دنیا وآخرت میں جو کچھ بنایا اور بنائے گا دائرہ عرش سے باہر نہیں کہ وہ تمام مخلوق کو حاوی ہے۔ قرآن کی بہترتفسیر وہ ہے وہ قرآن سے ہو۔ استواء بمعنی تمامی خود قرآن عظیم میں ہے،

قال اﷲ تعالٰی: ولمابلغ اشدّہ واستوٰی ۔۱؂ جب اپنی قوت کے زمانے کو پہنچا اور اس کا شباب پورا ہوا۔

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۲۸/ ۱۴)

اسی طرح قولہ تعالٰی: کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْاَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوۡقِہٖ ۔۲؂ جیسے پودا کہ اس کا خوشہ نکلا تو اس کو بوجھل کیا تو وہ موٹا ہوا تو وہ اپنے تنے پر درست ہوا۔(ت) میں استواء حالتِ کمال سے عبارت ہے، یہ تاویل امام حافظ الحدیث ابن الحجر عسقلانی نے امام ابوالحسن علی بن خلف ابن بطال سے نقل کی اور یہ کلام امام ابوطاہرقزوینی کا ہے کہ سراج العقول میں افادہ فرمایا، اور امام عبدالوہاب شعرانی کی کتاب الیواقیت میں منقول ۔۳؂

( ۲ ؎ القرآن الکریم ۴۸/ ۲۹)
( ۳ ؎ الیوقیت والجواہر بحوالہ سراج العقول المبحث السابع مصطفی البابی مصر ۱/ ۱۰۲)

اقول: ( میں کہتاہوں، ت) اور اس کے سوا یہ ہے کہ قرآن عظیم میں یہ استواء سات جگہ مذکور ہوا، ساتوں جگہ ذکر آفرینش آسمان و زمین کے ساتھ اور بلافصل اُس کے بعد ہے، سورہ اعراف وسورہ یونس علیہ الصلوۃ والسلام میں فرمایا۔ اِنَّ رَبَّکُمُ اللہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ۔۴؂ تمہارا رب وہ ہے جس نے آسمانوں ا ور زمین کو پیدا کیا چھ دنوں میں پھر عرش پر استوا فرمایا(ت)

( ۴ ؎ القرآن الکریم ۱۰/ ۳)

سورہ رعد میں فرمایا: اَللہُ الَّذِیۡ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیۡرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ۔۱؂ اﷲ تعالٰی وہ ذات ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستون کے بلند کیا تم دیکھ رہے ہو پھر عرش پر استواء فرمایا (ت)

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۱۳/ ۲)

سورہ طٰہٰ میں فرمایا: تَنۡزِیۡلًا مِّمَّنْ خَلَقَ الْاَرْضَ وَالسَّمٰوٰتِ الْعُلٰی ؕ﴿۴﴾ اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی ﴿۵﴾ ۲؂ قرآن نازل کردہ ہے اس ذات کی طرف سے جس نے پیدا کیا زمین کو اور بلند آسمانوں کو، وہ رحمن ہے جس نے عرش پر استوا فرمایا۔(ت)

(۲ ؎ القرآن الکریم ۲۰/ ۴ و ۵)

سورہ فرقان میں فرمایا : الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَا فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ۔ ۳؎ وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو اور ان دونوں کے درمیان کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر استواء فرمایا (ت)

( ۳ ؎ القرآن الکریم ۲۵/ ۵۹)

سور حدیدمیں فرمایا : ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ۔۴؂ و ہ جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر استواء فرمایا(ت)

(۴ ؎ القرآن الکریم ۵۷/ ۴)

یہ مطالب کہ اول سے یہاں تک اجمالاً مذکور ہوئے صدہا ائمہ دین کے کلمات عالیہ میں ان کی تصریحات جلیہ ہیں انہیں نقل کیجئے تو دفتر عظیم ہو، اور فقیر کو اس رسالہ میں التزام ہے کہ جن کتابوں کے نام مخالف گمنام نے اغوائے عوام کے لیے لکھ دیئے ہیں اس کے رَد میں انہی کی عبارتیں نقل کرے کہ مسلمان دیکھیں کہ وہابی صاحب کس قدر بے حیا، بیباک ، مکار، چالاک ، بددین، ناپاک ہوتے ہیں کہ جن کتابوں میں اُن کی گمراہیوں کے صریح رَد لکھے ہیں انہی کے نام اپنی سند میں لکھ دیتے ہیں۔ع

چہ دلاورست دزدے کہ بکف چراغ دارد

(چور کیسا دلیر ہے کہ ہاتھ میں چراغ لیے ہوئے ہے۔ت)

مباحث آئندہ میں جو عبارات ان کتابوں کی منقول ہوں گی انہیں سے ان شاء اللہ العظیم یہ سب بیان واضح ہوجائیں گے یہاں صرف آیات متشابہات کے متعلق بعض عبارات نقل کروں جن سے مطلب سابق بھی ظاہر ہو اور یہ بھی کھل جائے کہ آیہ کریمہ الرحمن علی العرش استوٰی آیات متشابہات سے ہے، اور یہ بھی کہ جس طرح مخالف کا مذہب نامہذب یقیناً صریح ضلالت اور مخالف جملہ اہل سنت ہے۔ یونہی اجمالاً اس آیت کے معنی جاننے پر مخالف سلف صالح وجمہور ائمہ اہلسنت وجماعت ہے۔

(۱) موضح القرآن کی عبارت اوپر گزری۔
(۲) معالم و مدارک و کتاب الاسماء و الصفات وجامع البیان کے بیان یہاں سُنئے کہ یہ پانچوں کتابیں بھی اُنہیں کتب سے ہیں جن کا نام مخالف نے گن دیا۔

معالم التنزیل میں ہے: اما اھل السنۃ یقولون الاستواء علی العرش صفۃ ﷲ تعالٰی بلا کیف یجب علی الرجل الایمان بہ ویکل العلم فیہ الی اﷲ عزوجل ۔۱؂ یعنی رہے اہلسنت ، وہ یہ فرماتےہیں کہ عرش پر استواء اﷲ عزوجل کی ایک صفت بے چونی و چگونگی ہے، مسلمان پر فرض ہے کہ اُس پر ایمان لائے اور اس کے معنی کا علم خدا کو سونپے ۔

(۱؂ معالم التنزیل تحت الآیۃ ۷/ ۵۴ دارالکتب العلمیہ بیروت ۲/ ۱۳۷)

مخالف کو سُوجھے کہ اُسی کی مستند کتاب نے خاص مسئلہ استواء میں اہلسنت کا مذہب کیا لکھا ہے شرم رکھتا ہے تو اپنی خرافات سے باز آئے اور عقیدہ اپنا مطابق اعتقاد اہلسنت کرے۔

(۳) اُسی میں ہے: ذھب الاکثرون الی ان الواو فی قولہ ، والراسخون واو للاستئناف وتم الکلام عند قولہ و مایعلم تاویلہ الاّ اﷲ وھو قول ابی بن کعب وعائشۃ وعروۃ بن الزبیر رضی اللہ تعالٰی عنہم، وروایۃ طاؤس عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنھما وبہ قال الحسن واکثر التابعین واختارہ الکسائی والفراء والاخفش (الٰی ان قال) ومما یصدق ذلک قراء ۃ عبداللہ ان تاویلہ الا عند اﷲ والراسخون فی العلم یقولون اٰمنّاو فی حرف ابی ویقول الراسخون فی العلم اٰمنّا بہ، وقال عمر بن عبدالعزیز فی ھٰذہ الایۃ انتھی علم الراسخین فی العلم تاویل القرآن الٰی ان قالواٰمنّا بہ کل من عند ربنا وھٰذا القول اقیس فی العربیۃ واشبہ بظاہر الاٰیۃ ۔۱؂

یعنی جمہور ائمہ دین صحابہ و تابعین رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کا مذہب یہ ہے کہ والراسخون فی العلم سے جدا بات شروع ہوئی پہلا کلام وہیں پوُرا ہوگیا کہ متشابہات کے معنی اﷲ عزوجل کے سوا کوئی نہیں جانتا ،
یہی قول حضرت سیدّ قاریان صحابہ ابی بن کعب اور حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ اور عروہ بن زبیررضی اللہ تعالٰی عنہم کا ہے، اور یہی امام طاؤس نے حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا، اور یہی مذہب امام حسن بصری و اکثر تابعین کاہے، اور اسی کو امام کسائی وفراء واخفش نے اختیار کیا اور اس مطلب کی تصدیق حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اس قراء ت سے بھی ہوتی ہے کہ آیات متشابہات کی تفسیر اﷲ عزوجل کے سوا کسی کے پاس نہیں، اور پکے علم والے کہتے ہیں ہم ایمان لائے اور ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قراء ت بھی اسی معنی کی تصدیق کرتی ہے۔ امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا ان کی تفسیر میں محکم علم والوں کا منتہائے علم بس اس قدر ہے کہ کہیں ہم ان پر ایمان لائے سب ہمارے رب کے پاس سے ہے اور یہ قول عربیت کی رُو سے زیادہ دلنشین اور ظاہر آیت سے بہت موافق ہے۔

( ۱ ؎ معالم التنزیل تحت الآیۃ ۳/ ۷ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱/ ۲۱۴ و ۲۱۵)

(۱۳) امام ابوالقاسم لالکائی کتاب السنہ میں سیدنا امام محمد سردار مذہب حنفی تلمیذ سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی کہ فرماتے: اتفق الفقہاء کلھم من المشرق الی المغرب علی الایمان بالقرآن و بالاحادیث التی جاء بہا الثقات عن رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی صفۃ الرب من غیر تشبیہ ولا تفسیر فمن فسر شیئا من ذلک فقد خرج عما کان علیہ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم و فارق الجماعۃ فانہم لم یصفوا ولم یفسرواولکن اٰمنوا بما فی الکتاب والسنۃ ثم سکتوا ۔۲؂ شرق سے غرب تک تمام ائمہ مجتہدین کا اجماع ہے کہ آیات قرآن عظیم و احادیث صحیحہ میں جو صفاتِ الہیہ آئیں ان پر ایمان لائیں بلاتشبیہ و بلا تفسیر تو جو ان میں سے کسی کے معنی بیان کرے وہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے طریقے سے خارج اور جماعتِ علماء سے جدا ہوا اس لیے کہ ائمہ نے نہ ان صفات کا کچھ حال بیان فرمایا نہ اُن کے معنی کہے بلکہ قرآن و حدیث پر ایمان لا کر چپ رہے۔

( ۲ ؎ کتاب السنۃ امام ابوالقاسم لالکائی)

طرفہ یہ کہ امام محمد کے اس ارشاد و ذکر اجماع ائمہ امجاد کو خود ذہبی نے بھی کتاب العلو میں نقل کیا اور کہا محمد سے یہ اجماع لالکائی اور ابو محمد بن قدامہ نے اپنی کتابوں میں روایت کیا بلکہ خود ابن تیمیہ مخذول بھی اُسے نقل کرگیا۔ وﷲ الحمد ولہ الحجۃ السامیۃ ( حمد ﷲ تعالٰی کے لیے ہے اور غالب حجت اسی کی ہے۔ت)

(۱۴) نیز مدارک میں زیر سورہ طٰہٰ ہے: والمذھب قول علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ الاستواء غیر مجہول والتکیف غیر معقول والایمان بہ واجب والسوال عنہ بدعۃ لانہ تعالٰی کان ولا مکان فھو علی ما کان قبل خلق المکان لم یتغیر عما کان ۔۱؂ مذہب وہ ہے جو مولٰی علی کرم اﷲ وجہہ الکریم نے فرمایا کہ استواء مجہول نہیں اور اس کی چگونگی عقل میں نہیں آسکتی اُس پر ایمان واجب ہے اور اس کے معنی سے بحث بدعت ہے اس لیے کہ مکان پیدا ہونے سے پہلے اﷲ تعالٰی موجود تھا اور مکان نہ تھا پھر وہ اپنی اُس شان سے بدلا نہیں یعنی جیسا جب مکان سے پاک تھا اب بھی پاک ہے۔

( ۱ ؎ مدارک التنزیل (تفسیر النسفی) آیت ۳/ ۵ دارالکتاب العربی بیروت ۳ /۴۸)

گمراہ اپنی ہی مستند کی اس عبارت کو سوجھے اور اپنا ایمان ٹھیک کرے۔

(۱۵) اسی میں زیر سورہ اعراف یہی قول امام جعفر صادق و امام حسن بصری و امام اعظم ابوحنیفہ و امام مالک رضی اللہ تعالٰی عنہم سے نقل فرمایا ۔۲؂

( ۲ ؎ مدارک التنزیل (تفسیر النسفی) آیت ۷ /۵۴ دارالکتاب العربی بیروت ۲ /۵۶)

(۱۶) یہی مضمون جامع البیان سورہ یونس میں ہے۔ الاستواء معلوم والکیفیۃ مجہولۃ والسؤال عنہ بدعۃ ۔۳؂ استواء معلوم ہے اور اس کی کیفیت مجہول ہے اور اس سے بحث و سوال بدعت ہے۔(ت)

( ۳؎ جامع البیان محمد بن عبدالرحمن الشافعی آیۃ ۱۰/۳ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ ۱/ ۲۹۲)

(۱۷) یہی مضمون سورہ رعد میں سلف صالح سے نقل کیا کہ: قال السلف الاستواء معلوم و الکیفیۃ مجھولۃ ۔۴ ؎ سلف نے فرمایا : استواء معلوم ہے اور کیفیت مجہول ہے۔(ت)

( ۴ ؎ جامع البیان محمد بن عبدالرحمن الشافعی آیۃ ۱۳/ ۲ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ ۱/ ۳۴۵)

(۱۸) سورہ طٰہٰ میں لکھا ہے: سئل الشافعی عن الاستواء فاجاب اٰمنت بلاتشبیہ واتھمت نفسی فی الادراک وامسکت عن الخوض فیہ کل الامساک ۔۱؂ یعنی امام شافعی سے استواء کے معنی پوچھے گئے، فرمایا : میں استواء پر ایمان لایا اور وہ معنی نہیں ہوسکتے جن میں اﷲ تعالٰی کی مشابہت مخلوق سے نکلے اور میں اپنے آپ کو اُس کے معنی سمجھنے میں متہم رکھتا ہوں مجھے اپنے نفس پر اطمینان نہیں کہ اس کے صحیح معنی سمجھ سکوں لہذا میں نے اس میں فکر کرنے سے یک قلم قطعی دست کشی کی۔

( ۱ ؎ جامع البیان محمد بن عبدالرحمن الشافعی آیۃ ۲۰/ ۵ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ۲/ ۱۶و ۱۵)

(۱۹) سورہ اعراف میں لکھا: اجمع السلف علٰی ان استواء ہ علی العرش صفۃ لہ بلا کیف نؤمن بہ ونکل العلم الی اﷲ تعالٰی ۔۲؂ سلف صالح کا اجماع ہے کہ عرش پر استواء اﷲ تعالٰی کی ایک صفت بیچون و بے چگون ہے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور ان کا علم خدا کو سونپتے ہیں۔

( ۲ ؎ جامع البیان محمد بن عبدالرحمن الشافعی آیۃ ۷/ ۵۴ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ ۱ /۲۲۳)

(۲۰) طرفہ یہ کہ سورہ اعراف میں تو صرف اتنا لکھا کہ اس کے معنی ہم کچھ نہیں جانتے اور سورہ فرقان میں لکھا۔ قدمرفی سورۃ الاعراف تفصیل معناہ ۔۳؂ اس کے معنی کی تفصیل سورہ اعراف میں گزری۔

( ۳؎ جامع البیان محمد بن عبدالرحمن الشافعی آیۃ ۲۵/ ۵۹ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ ۲/ ۸۹)

یونہی سورہ سجدہ میں لکھا قدمر فی سورۃ الاعراف ۔۴؂ (سورہ اعراف میں گزرا۔ ت)

( ۴ ؎ جامع البیان محمد بن عبدالرحمن الشافعی آیۃ ۳۲/ ۴ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ ۲/ ۱۵۷)

یونہی سورہ حدید میں قد مرتفصیلہ فی سورۃ الاعراف وغیرھا ۔۵؂ (اس کی تفصیل سورہ اعراف وغیرہ میں گزر چکی ہے۔ت)

( ۵ ؎ جامع البیان محمد بن عبدالرحمن الشافعی آیۃ ۵۷ /۴ دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ ۲/ ۳۳۶)

دیکھو کیسا صاف بتایا کہ اس کے معنی کی تفصیل یہی ہے کہ ہم کچھ نہیں جانتے ، اب تو کھلا کہ وہابیہ مجسمہ کا اپنی سند میں کتاب الاسماء و معالم ومدارک وجامع البیان کے نام لے دینا کیسی سخت بے حیائی تھا ۔ ولاحول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔

وہابیہ مجسّمہ کی بددینی

صفات متشابہات کے باب میں اہلسنت کا عقیدہ تو معلوم ہولیا کہ ان میں ہمارا حصہ بس اس قدر ہے کہ اﷲ تعالٰی کی جو کچھ مراد ہے ہم اس پر ایمان لائے، ظاہر لفظ سے جو معنی ہماری سمجھ میں آتے ہیں ان سے اللہ تعالٰی یقیناً پاک ہے او ر مراد الہی پر ہمیں اطلاع نہیں لہذا ہم اُن کے معنی کچھ کہہ ہی نہیں سکتے یا بطورِ تاویل کچھ کہیں بھی تو وہی کہیں گے جو ہمارے رب کی شان قدوسی کے لائق اور آیاتِ محکمات کے مطابق اور اہلسنت کو اﷲ تعالٰی نے صراط مستقیم عطا فرمائی ہے وہ ہمیشہ راہ وسط ہوتی ہے اس کے دونوں پہلوؤں پر افراط و تفریظ دو ہولناک مہلک گھاٹیاں ہیں اسی لیے اکثر مسائل میں اہلسنت دو فرقہ متناقض کے وسط میں رہتے ہیں جیسے رافضی ناصبی یا خارجی مرجی یا قدری جبری یا باطنی ظاہری یا وہابی بدعتی یا اسمعیل پرست گورپر ست وعلٰی ہذا القیاس اسی طرح یہاں بھی دو فرقہ باطلہ نکلے معطلہ و مشبہہ ، معطلہ جنہیں جہمیہ بھی کہتے ہیں صفات متشابہات سے یکسر منکر ہی ہوگئے یہاں تک کہ ان کا پہلا پیشوا جعد بن درہم مردود کہتا کہ نہ اﷲ تعالٰی نے ابراہیم علیہ الصلوۃ والتسلیم کو اپنا خلیل بنایا نہ موسٰی کلیم علیہ الصلوۃ والتسلیم سے کلام فرمایا، یہ گمراہ لوگ اپنے افراط کے باعث اٰمنّا بہ کل من عند ربنا ۔۱؂ (ہم اس پر ایمان لائے سب ہمارے رب کی طرف سے ہے۔ت)سے بے بہرہ ہوئے ان کی طرف نقیض پر انتہائے تفریط میں مشبہہ آئے جنہیں حشویہ و مجمسہ بھی کہتے ہیں ان خبیثوں نے صاف صاف مان لیا کہ ہاں اللہ تعالٰی کے لیے مکان ہے جسم ہے جہت ہے۔ اور جب یہ سب کچھ ہے تو پھر چڑھنا اترنا اٹھنا بیٹھنا چلنا ٹھہرنا سب آپ ہی ثابت ہے ، یہ مردود وہی ہوئے جنہیں قرآن عظیم نے فی قلوبھم زیغ ۔۲؂ ( ان کے دلوں میں زیغ ہے۔ت)فرمایا اور گمراہ فتنہ پر داز بتایا تھا۔ وہابیہ ناپاک کو آپ جانیں کہ سب گمراہوں کے فضلہ خوار ہیں مختلف بدمذہبوں سے کچھ کچھ عقائد ضلالت لے کر آپ بھرت پورا کیا ہے یہاں بھی نہ چوکے، اور ان کے پیشوا اسمعیل نے صراط نا مستقیم میں جو اپنے جاہل پیر کی اللہ تعالٰی سے دوستانہ ملاقات اور ہاتھ سے ہاتھ ملا کر گڈ مارننگ (Good Morning) ثابت کی تھی۔ ( دیکھو کتاب مستطاب الکوکبۃ الشہابیہ علی کفریات ابی الوھابیہ) لہذا اس کے بعضے سپوت صاف صاف مجسمہ مبہوت کا مذہب ممقوت مان گئے اور اس کی جڑ بھی وہی ان کا پیشوائے قبیح اپنے رسالہ ایضاح الحق الصریح میں جما گیا تھا کہ اﷲ تعالٰی کو مکان وجہت سے پاک جاننا بدعت وضلالت ہے جس کے رَد میں کو کبہ شہابیہ نے تحفہ اثنا عشریہ شاہ عبدالعزیز صاحب کی یہ تحریر پیش کی تھی کہ اہل سنت و جماعت کے عقیدے میں اﷲ تعالٰی کے لیے مکان نہیں، نہ اس کے لیے فوق یا تحت کوئی جہت ہوسکتی ہے۱؂۔

( ۱؎القرآن الکریم ۳/ ۷) ( ۱؎القرآن الکریم ۳/ ۷)
( ۱ ؎ تحفہ اثنا عشریہ باب پنجم درالہٰیات سہیل اکیڈمی لاہور ص ۱۴۱)

اور بحرالرائق و عالمگیری کی یہ عبارت: یکفر باثبات المکان ﷲ تعالٰی ۲ ؎ یعنی اﷲ تعالٰی کے لیے مکان ماننے سے آدمی کافر ہوجاتا ہے۔

( ۲ ؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب السیر ، الباب التاسع نوری کتب خانہ پشاور ۲/ ۲۵۹)
(بحرالرئق کتاب السیرباب احکام المرتدین ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۵/ ۱۲۰)

اور فتاوٰی امام اجل قاضی خاں کی یہ عبارت: رجل قال خدائے برآسمان می داند کہ من چیز ے ندارم یکون کفرالان اﷲ تعالٰی منزہ عن المکان ۔۳؂ یعنی کسی نے کہا خدا آسمان پر جانتا ہے کہ میرے پاس کچھ نہیں کافر ہوگیا اس لیے کہ اﷲ تعالٰی مکان سے پاک ہے۔

( ۳ ؎ فتاوٰی قاضی خان کتاب السیرباب مایکون کفراً من المسلم نولکشور لکھنو ۴/ ۸۸۴)

اور فتاوٰی خلاصہ کی یہ عبارت: لوقال نردبان بنہ و بآسمان برآئے و باخدا جنگ کن یکفر، لانہ اثبت المکان ﷲ تعالٰی ۔۴؂ اگر کوئی یہ کہے نیزہ لے اور آسمان پر جا اور خدا سے جنگ کر، تو کافر ہوجائے گا کیونکہ اس نے اﷲ تعالٰی کے لیے مکان مانا۔(ت)( دیکھو کو کبہ شہابیہ)

( ۴ ؎ خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الفاظ الکفرفصل ۲ جنس ۲ مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۴/ ۳۸۴)

انہیں مجسمہ گستاخ کے تازہ افراخ سے ایک صاحب سہسوانی بکاسہ لیسی گمراہ ہزاری غلام نواب بھوپال قنوجی آنجہانی از سر نو اس فتنہ خوابیدہ کے بادی وبانی اور اس سُبوح قدوس جل جلالہ کی شان میں مدعی عیوب جسمی و مکانی ہوئے، چہارم محرم الحرام ۱۳۱۸ ہجریہ قدسیہ کو اس باب اور انہیں صاحب کے متعلق دو امر دیگر میں حضرت تاج المحققین عالم اہلسنت دام ظلہم العالی سے استفتاء ہوا حضرت نے نفس حکم بنہایت اجمال ارشاد فرمایا : پونے دو مہینے کے بعد بست و ششم ۲۶ صفر کو ان کے متعلق ایک پریشان تحریر گمراہی و جہالت و سفاہت و ضلالت کی بو لتی تصویر آئی ایسے ہذیانات کیا قابلِ التفات مگر حفظ عقائد عوام و نصرت سنت و اسلام کے لحاظ سے یہ چند سطور لوجہ اﷲ مسطور ، اہلِ حق بنگاہِ انصاف نظر فرمائیں اور امر عقائد میں کسی گمراہ مکار کے کہنے میں نہ آئیں۔ وما توفیقی الا باﷲ علیہ توکلت والیہ انیب۔ ( مجھے توفیق صرف اﷲ تعالٰی سے ہے اسی پر میں نے توکل کیا ہے اور اسی کی طرف میرا رجوع ہے۔ت)