رسالہ
رماح القہار علی کفر الکفار(۱۳۲۸ھ)
(قہار کا نیزہ مارنا کافروں کےکفر پر)
(تمہیدِ “خالص الاعتقاد”)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد ﷲ ھادی القلوب ÷ وافضل الصلوۃ والسلام علی النبی المطلع علی الغیوب ÷ المنّزہ من جمیع النقائص والعیوب ÷ وعلی اٰلہ و صحبہ المطھرین من الذنوب ÷ القاھرین علٰی کل شقی مفترکذوب ÷ صلوۃ وسلاما یتجدان بکل طلوع وغروب ÷
تمام تعریفیں اﷲ تعالٰی کے لیے جو دلوں کو ہدایت دینے والا ہے، اور افضل درود و سلام اس نبی کریم پر جو تمام غیبوں پر آگاہ اور تمام عیوب و نقائص سے پاک ہے اور آپ کی آل پر اور صحابہ پر جو گناہوں سے محفوظ اور ہر بدبخت افتراء پرداز ( جھوٹے) پر غالب ہیں ایسا درود و سلام جو ہر طلوع و غروب کے ساتھ متجدد ہوتا رہتا ہے۔) (ت)
اللہ عزوجل جن قلوب کو ہدایت فرماتا ہے اُن کا قدم ثبات جادہ حق سے لغزش نہیں کرتا اگر ذریت شیطان اپنے وسوسے شوشے کچھ ڈالتی بھی ہے تو ہر گز اس پر اعتماد نہیں کرتے کہ ان کے رب نے فرمادیا ہے : ان جاءکم فاسق بنبأ فتبیّنوا ۱ ؎۔ اگر کوئی فاسق تمہارے پاس خبر لائے تو فوراً تحقیق کرلو بے تحقیق اعتبار نہ کر بیٹھو۔
(۱ ؎ القرآن الکریم ۴۹ /۶)
پھر جب امر حق اپنی جھلک اُنہیں دکھاتا ہے فوراً ان کا وہ حال ہوتا ہے جو ا ن کے رب نے فرمایا : ان الذین اتقوا اذا مسھم طائف من الشیطٰن تذکروافاذاھم مبصرون ” ۲ ؎۔ بے شک وہ جو ڈر والے ہیں جب انہیں کسی شیطانی خیال کی ٹھیس لگتی ہے، ہوشیار ہوجاتے ہیں اسی وقت ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔(ت)
( ۲ ؎القرآن الکریم ۷ /۲۰۱)
معاً ہوشیار ہوجاتے اور ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں ابلیس لعین کی ذریت نے جو پردہ ڈالنا چاہا تھا دھواں بن کر اڑجاتا اور آفتابِ حق اپنی نورانی کرنوں سے شعاعیں ڈالنا چمک آتا ہے ۔ وہابیہ خذلہم اﷲ تعالٰی نے جب اﷲ واحد قہار اور اس کے حبیب سیدابرار صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی توہین و تکذیب اُس حد تک پہنچائی کہ ابلیس لعین کی ہزارہا سال کی کمائی پر فوق لے گئی ادھر اﷲ تبارک و تعالٰی نے اپنے بندہ عالم اہلسنت مجدد و دین و ملت د ام ظلہم الاقدس کو اُن خبثا کی سرکوبی پر مقرار فرمایا ، الحمدﷲ سرکوبی بھی وہ فرمائی جس سے عرب و عجم گونج اٹھے، اکابر علمائے کرام حرمین شریفین نے ان شیاطین کے اقوال تکذیب و توہین پر ان کو کافر مرتد زندیق ملحد لکھا اور صاف فرمادیا کہ ” من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر ” ۳ ؎۔ جو ایسوں کے ان اقوال پر مطلع ہو کر ان کے کفر و عذاب میں شک کرے وہ بھی انہیں طرح کافر ہے کہ اس نے اﷲ عزوجل کی عزت محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی عظمت کو ہلکا جانا اُن کے بدگویوں کو کافر نہ مانا،
( ۳ ؎حسام الحرمین علی منح الکفروالمین مطبع اہلسنت وجماعت بریلی ص ۹۴)
الحمد ﷲ یہ مبارک فتوٰی مسمّٰی بہ حسام الحرمین علی منحرالکفر والمین (۱۳۲۴ھ) ایسا بے نظیر مرتب ہوا جس نے وہابیت کے دلوں میں رعب ، قلعوں میں زلزلے ڈال دئے۔ پھر نفیس و بے مثال تمھید ایمان بآیات قرآن (۱۳۲۶ھ) اس محمدی خنجر پر اور الہٰی صیقل ہوئی جس نے خدا و رسول کے دشنام دہندوں کے سب حیلے مٹادیئے اور صاف صاف صرف قرآن عظیم کی آیتوں نے اُن پر حکمِ کفر لگادیئے۔ کافروں کے پاس اس کے جواب کیا ہوتے اور بے توفیق الہٰی توبہ کیونکر کرتے ناچار مکرو فریب ، جھوٹ ،کذب، تہمت افترا ، بہتان گالیوں، ہذیانوں پر اُترے جو عاجزوں کی پچھلی تدبیر ہے خادمان سنت نے گالیوں سے اعراض اور اپنی ذات سے متعلق تہمتوں افتراؤں سے بھی اغماض ہی کیا ، باقی دھوکے بازیوں کے جواب ظفر الدین الجید و کین کش پنجہ پیچ و بارش سنگی و پیکانِ جانگداز و ضروری نوٹس ونیا زمانہ و کشف راز وغیرہارسائل و اعلانات سے دیتے رہے ان رسالوں اشتہاروں کے جواب سے کفر پارٹی نے پھر ایک کان گونگا ایک بہرا رکھا اصلاً کسی بات کا جواب نہ دیا اور اپنی ٹائیں ٹائیں سے باز بھی نہ آئی جب دیکھا کہ یوں کام نہیں چلتا بالاخر مرتا کیا نہ کرتا پارٹی نے دو تدبیریں وہ بے مثال سوچیں کہ ابلیس العین بھی عش عش کر گیا کان ٹیک دیئے ان کے حسن پر غش کر گیا۔
تدبیر اوّل :
معاوضہ بالمثل یعنی علمائے اسلام نے کفر پارٹی کے کفر پر حرمین طیبین کا فتوٰی شائع فرمایا تمام اسلامی دنیا میں کفر پارٹی ملعونہ پر تُھو تُھو ہورہی ہے، پارٹی کے رنگ فق ہوئے، جگر شق ہوئے ، دَم اُلٹ گئے، کلیجے پھٹ گئے مگر قہر قہار کا کیا جواب۔ اچھا اس کا جواب نہیں ہوسکتا تو لاؤ جاہلوں کے پھسلانے احمقوں کے بہکانے کو انوکھے افتراء کے پاپڑ بیلیں ، معارضہ بالمثل کا جل کھیلیں یعنی پارٹی نے تو ضروریاتِ دین کا انکار کیا ہے اﷲ عزوجل کو جھوٹا کہا ہے ، ختم نبوت کا بکھیڑا اکھیڑا ہے، نئی نبوتوں کا راگ چھیڑا ہے، رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے علم سے کہیں اپنے بزرگ ابلیس لعین کے علم کو بڑھایا ہے، کہیں پاگلوں چوپایوں کے علم کو علم اقدس کے مثل بنایا ہے۔ شیطا ن لعین کو خدا کی صفت میں شریک ٹھہرایا ہے، ان باتوں پر علمائے اسلام سے کفر وارتداد کا حکم پایا ہے، دیکھو کسی نزعی اختلافی مسئلے میں عرب کے کسی مفتی کو ان علمائے کرام سے خلاف ہو تو اس کے متعلق کچھ لکھوائیں۔ اور اس میں گھناؤنی تہمتیں گندے افتراء اپنی طرف سے ملائیں ،اور بایں ہمہ حکم من مانتا نہ ملے تو حکم بھی جی سے نکال لیں افتراء کی مشین تو گھر میں چل رہی ہے خانگی سانچے میں ڈھال لیں ۔ بس نام کو کہیں بوئے خلاف ملنی چاہیے، پھر کیا ہے ابلیس دے اور ذریت لے، سوچتے سوچتے ایک مسئلہ علم خمس کا مِلا جس میں مدینہ طیبہ کے شافعی المذہب مفتی برزنجی صاحب کو شُبہ تھا اور ایک انہیں کو کیا یہ مسئلہ پہلے سے علمائے امت میں مختلف رہا ہے اکثر ظاہرین جانبِ انکار رہے اور اولیائے عظام اور ان کے غلام غلمائے کرام جانب اثبات واقرار رہے ، ایسے مسئلے میں کسی طرف تکفیر چہ معنی تضلیل کیسی تفسیق بھی نہیں ہوسکتی۔
مسلمانو ! مسائل تین قسم کے ہوتے ہیں۔
ایک ضروریات دین اُن کا منکر بلکہ اُن میں ادنٰی شک کرنے والا بالیقین کافر ہوتا ہے ایسا کہ جو اس کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر۔
دوم ضروریات عقائد اہلسنت، ان کا منکر بدمذہب گمراہ ہوتا ہے۔
سوم وہ مسائل کہ علمائے اہلسنت میں مختلف فیہ ہوں اُن میں کسی طرف تکفیر و تضلیل ممکن نہیں۔
یہ دوسری بات ہے کہ کوئی شخص اپنے خیال میں کسی قول کو راحج جانے خواہ تحقیقاً یعنی دلیل سے اسے وہی مرجح نظر آیا خواہ تقلید کہ اسے اپنے نزدیک اکثر علماء یا اپنے معتمد علیہم کا قول پایا۔ کبھی ایک ہی مسئلہ کی صورتوں میں یہ تینوں قسمیں موجود ہوجاتی ہیں۔
مثلاً اﷲ عزوجل کے لیے ید وعین کا مسئلہ : قال اﷲ تعالٰی یداﷲ فوق ایدیھم ۱ ؎۔ ( اﷲ تعالٰی نے فرمایا : ان کے ہاتھوں پر اﷲ کا ہاتھ ہے۔ت)
وقال تعالٰی : ولتصنع علی عینی ۲ ؎۔ اور اﷲ تعالٰی نے فرمایا : اور اس لیے کہ تو میری نگاہ کے سامنے تیار ہو۔ ت)
( ۱ ؎ القرآن الکریم ۴۸ /۱۰) ( ۲ ؎ القرآن الکریم ۲۰ /۳۹)
ید ہاتھ کو کہتے ہیں ، عین آنکھ کو۔ اب جو یہ کہے کہ جیسے ہمارے ہاتھ آنکھ ہیں ایسے ہی جسم کے ٹکڑے اﷲ عزوجل کے لیے ہیں وہ قطعاً کافر ہے اﷲ عزوجل کا ایسے یدو عین سے پاک ہونا ضروریات دین سے ہے، اور جو کہے کہ اس کے یدو عین بھی ہیں تو جسم ہی مگر نہ مثل اجسام، بلکہ مشابہت اجسام سے پاک و منزہ ہیں وہ گمراہ بددین کہ اﷲ عزوجل کا جسم و جسمانیات سے مطلقاً پاک ومنزہ ہونا ضروریات عقائد اہلسنت و جماعت سے ہے، اور جو کہے کہ اﷲ عزوجل کے لیے یدوعین ہیں کہ مطلقاً جسمیت سے بری و مبرا ہیں وہ اس کی صفات قدیمہ ہیں جن کی حقیقت ہم نہیں جانتے نہ اُن میں تاویل کریں وہ قطعاً مسلم سُنّی صحیح العقیدہ ہے اگر چہ یہ عدم تاویل کا مسئلہ اہلسنت کا خلافیہ ہے متاخرین نے تاویل اختیار کی پھر اس سے نہ یہ گمراہ ہوئے کہ وہ کہ اجر اعلٰی المظاہر بمعنی مذکور کرتے ہیں جس کا حاصل صرف اتنا کہ ” اٰمنّابہ کل من عندربنا” ۳ ؎۔ ( ہم اس پر ایمان لائے ، سب ہمارے رب کے پاس سے ہے۔ت)
( ۳؎ القرآن الکریم ۳ /۷)
بعینہ یہی حالت مسئلہ علم غیب کی ہے۔ اس میں بھی تینوں قسم کے مسائل موجود ہیں۔
(۱) اﷲ عزوجل ہی عالم بالذات ہے اُس کے بتائے ایک حرف کوئی نہیں جان سکتا۔
(۲) رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور دیگر انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو اﷲ عزوجل نے اپنے بعض غیوب کا علم دیا۔
(۳) رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا علم اوروں سے زائد ہے ابلیس کا علم معاذ اﷲ علم اقدس سے ہر گز وسیع تر نہیں۔
(۴) جو علم اﷲ عزوجل کی صفت خاصہ ہے جس میں اُس کے حبیب محمد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو شریک کرنا بھی شرک ہو وہ ہرگز ابلیس کے لیے نہیں ہوسکتا جو ایسا مانے قطعاً مشرک کافر ملعون بندہ ابلیس ہے۔
(۵) زید و عمرو ہر بچے پاگل ، چوپائے کو علمِ غیب میں محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مماثل کہنا حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی صریح توہین اور کھلا کفر ہے، یہ سب مسائل ضروریاتِ دین سے ہیں اور اُن کا منکر ان میں ادنٰی شک لانے والا قطعاً کافر، یہ قسمِ اول ہوئی۔
(۶)اولیاء کرام نفعنا اللہ تعالٰی ببرکاتھم فی الدارین کو بھی کچھ علومِ غیب ملتے ہیں مگر بوساطت رسل علیھم الصلٰوۃ والسلام۔ معتزلہ خذلھم اللہ تعالٰی کہ صرف رسولوں کے لیے اطلاع غیب مانتے اور اولیاء کرم رضی اللہ تعالٰی عنھم کا علومِ غیب کا اصلاًحصہ نہٰں مانتے گمراہ ومبتدع ہیں۔
(۷) اﷲ عزوجل نے اپنے محبوبوں خصوصاً سید المحبوبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلیہم وسلم کو غیوب خمسہ سے بہت جزئیات کا علم بخشا جو یہ کہے کہ خمس میں سے کسی فرد کا علم کسی کو نہ دیا گیا ہزار ہا احادیث متواترۃ المعنٰی کا منکر اور بدمذہب خاسر ہے، یہ قسم دوم ہوئی۔
(۸) رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو تعیینِ وقتِ قیامت کا بھی علم ملا۔
(۹) حضور کو بلا استثناء جمیع جزئیات خمس کا علم ہے۔
(۱۰)جملہ مکنونات قلم و مکتوبات لوح بالجملہ روزِ اول سے روزِ آخر تک تمام ماکان ومایکون مندرجہ لوحِ محفوظ اور اس سے بہت زائد کا عالم ہے جس میں ماورائے قیامت تو جملہ افراد خمس داخل اور دربارہ قیامت اگر ثابت ہو کہ اس کی تعیین وقت بھی درج لوح ہے تو اسے بھی شامل، ورنہ دونوں احتمال حاصل۔
(۱۱) حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو حقیقتِ روح کا بھی علم ہے۔
(۱۲) جملہ متشابہات قرآنیہ کا بھی علم ہے، یہ پانچوں مسائل قسم سوم سے ہیں کہ ان میں خود علماء و آئمہ اہل سنت مختلف رہے ہیں جس کا بیان بعونہ تعالٰی عنقریب واضح ہوگا ان میں مثبت و نافی کسی پر معاذ اﷲ کفر کیا معنی ضلال یا فسق کا بھی حکم نہیں ہوسکتا جب کہ پہلے سات مسئلوں پر ایمان رکھتا ہو اور ان پانچ کا انکار اُس مرض قلب کی بنا پر نہ ہو جو وہابیہ قاتلہم اﷲ تعالٰی کے نجس دلوں کو ہے کہ محمد رسول ا ﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے فضائل سے جلتے اور جہاں تک بنے تنقیص و کمی کی راہ چلتے ہیں ،
فی قلوبھم مرض فزادھم اﷲ مرضا ولا ھل السنۃ من اﷲ احمد رضا امین۔ ( ان کے دلوں میں بیماری ہے ان کی بیماری اور بڑھ گئی اور اہل سنت کے لیے اﷲ عزوجل کی طرف سے بہترین رضا ہو، آمین ! ت)
وہابیہ کی مکّاریاں
اب وہابیہ کی مکاریاں دیکھیے۔
اولاً : انہیں معلوم ہوا کہ سرکار اعظم مدینہ طیبہ میں مفتی شافعیہ کو باتباع اہلِ ظاہر بعض مسائل قسم سوم میں خلاف ہے، خبثاء کا اپنا خلاف تو مسائل قسم اول میں تھا انکار ضروریاتِ دیں و توہین حضور پر نور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کرکے خود انہیں مفتی شافعیہ و جملہ مفتیانِ کرام ہر دو حرم محترم کے روشن فتوؤں سے کافر مرتد مستحقِ لعنتِ ابد ٹھہر چکے تھے، جھٹ سب سے ہلکی قسم سوم میں خلاف لاڈالا۔ دو فائدے سوچ کر ایک یہ کہ جب مسئلہ خود اہلسنت کا خلافیہ ہے تو ادھر بھی عباراتِ علماء مل جائیں گی۔ ناواقفوں کے سامنے غُل مچانے کی گنجائش تو ہوگی، دوسرے سب سے بڑا جل یہ کہ مفتی صاحب سے کوئی تحریر ہاتھ آسکے گی جسے بزورِ زبان و زورِ بہتان حسام الحرمین کا معاوضہ ٹھہرا سکین اور گلے پھاڑ کر چیخننا شروع کیا کہ علمِ غیب میں مناظرہ کرلو۔ ہیے کی پھوٹوں سے کہیے کہ مسائل قسم اول تو اصل الاصول مسائل علم غیب ہیں۔ خبیثو! تم ان کے منکر ہو کر باجماع علمائے حرمین شریفین کافرٹھہرچکے ہو۔ انہیں چھوڑ کر سب سے ہلکے مسائل قسم سوم کی طرف کہاں رہے جاتے ہو جو خود ہم اہلسنت کے خلافیہ ہیں۔ پہلے مسلمان تو ہو لو پھر کسی فرعی مسئلہ کو چھیڑو۔ اس کی نظیر یہی ہوسکتی ہے کہ کوئی ملعون معاذ اﷲ اﷲ عزوجل کے لیے ہمارے ہی سے ہاتھ، پاؤں ، آنکھ، کان، گوشت ، پوست، استخواں سے مرکب مانے، اور جب اہل اسلام اس کی تکفیر کریں تو ید و عین میں مسئلہ خلافیہ تاویل و تفویض میں بحث کی آڑلے، اس سے یہی کہا جائے گا کہ ابلیس کے مسخرے تو توصراحۃً اُس قدوس متعالی عزجلالہ کو اپنا سا جسم مان کر کافر ہوچکا ہے تجھ سے اور اس مسئلہ خلافیہ اہلسنت سے کیا علاقہ۔ دجّال کے گدھے پہلے آدمی تو بن مسلمان تو ہو۔ پھر تفویض و تاویل پوچھیو، مسلمانو! ان خبثاء کے علمِ غیب رٹنے کا یہ حاصل ہے۔ تعسالھم واضل اعمالہم ( ان پر تباہی پڑے اور اللہ انکے اعمال برباد کرے۔ت)
ثانیاً پیش خویش یہ منصوبےگانٹھ کر ایک مقہور مخصوم آثم ماثوم (عہ) زنگی کافور موسوم کو (کہ مکہ معظمہ میں بعون اﷲ تعالٰی خائب و خاسر و ذلیل و مخصوم ہوچکا تھا یہاں تک کہ علمائے کرام حرم شریف نے اس کا نام ہی بدل کر مخصوم رکھ دیا تھا۔) متعین کیا کہ مکہ معظمہ میں تو چھل پیچ نہ چلا مجدد دین و ملت کے انوار علم نے حرم شریف کے کُوچے کو جگمگادیا ہے یہاں کے علمائے کرام بعون الملک العلام فریب میں نہ آئیں گے سرکار اعظم مدینہ طیبہ میں ہنوز “الدولۃ المکیۃ بالمادۃ الغیبیۃ (۱۳۲۳ھ) ” کا آفتاب طالع نہیں ہوا اور مفتی شافعیہ کو خمس میں اشتباہ ہے ہی وہاں جل کھیلیں، مخصوم ماثوم ہے، ذی ہوش سمجھا کہ اس قدر سے اپنی جگری چہیتوں کفر و ارتداد کی مصیبت بیتون کے اندرونی گہرے زخم جانکاہ کا کیا مرہم ہوگا کہ مسئلہ خود اہلسنت کا خلافیہ ہے بڑھ سے بڑھ اتنا ہوگا کہ مفتی صاحب اپنا قول مختار لکھ دیں اور دوسرے قول کو خلافِ تحقیق بتائیں، یہ تو آئمہ و علماء میں صحابہ کرام کے وقت سے آج تک برابر ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا اس سے کیا کام چلے گا، لہذا اس میں یہ نمک مرچ ملائے گئے کہ اعلٰیحضرت مجدد دین و ملت نے اپنے رسالہ میں علم رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو سوا علومِ ذات و صفات الہی کے جملہ معلوماتِ الہٰیہ غیر متناہیہ بالفعل کو بتفصیل تام محیط ٹھہرایا اور اس احاطہ میں علمِ الہٰی و علم نبوی میں صرف قدمِ و حدوث کا فرق بتایا ہے۔
عہ : ماثوم مجرم سزایافتہ کہ خدائے کیفر کردارش بکنارش نہاد ۱۲ ۔
مفتریوں پر کمالِ قہرِ الہٰی کا ثمر یہ کہ یہ من گھڑت باتیں رسالہ اعلٰیحضرت کی طرف نسبت کیں جس میں صراحۃً ان اباطیل کا روشن رَد ہے جس کا ذکر بعونہ تعالٰی عنقریب آتا ہے رسالے میں اگر ان باتوں کی نسبت ہاں ونہ، کچھ نہ ہوتا تو ان کا اس کی طرف منسوب کرنا سخت خبیث افتراء تھا نہ کہ رسالے میں بتصریح نام روشن و و اضح طور پر جن باتوں کا رد ہوا انہیں کو اس کی طرف نسبت کردیا جائے اس کی نظیر یہی ہوسکتی ہے کہ کوئی معلون کہے قرآن عظیم میں عیسٰی مسیح کو خدا لکھا ہے “ان اﷲ ھوالمسیح ابن مریم ” ۱ ؎۔ ( بے شک اﷲ مسیح ابن مریم ہی ہے۔ت)
(۱ ؎ القرآن الکریم ۵ /۱۷)
اس سے یہی کہا جائے گا کہ اوملعون مجنون ابلیس کے مفتون سوجھ کر قرآن عظیم میں ایسا فرمایا ہے یا اس کا رَد ارشا د ہوا ہے کہ : لقد کفر الذین قالوا ان اﷲ ھو المسیح ابن مریم قل فمن یملک من اﷲ شیئا ان ارادان یھلک المسیح ا بن مریم و امہ و من فی الارض جمیعا ۱۔ بے شک کافر ہیں وہ جو مسیح ابن مریم کو خدا کہتے ہیں تم فرمادو کہ کسی کو اﷲ پر کچھ اختیار ہے اگر وہ مسیح ابن مریم اور انکی ماں اور تمام اہل زمین کو فنا کردینا چاہیے۔
(۱ ؎ القرآن الکریم ۵ /۱۷)
اعلٰیحضرت نے یہ مبارک رسالہ مکہ معظمہ میں تصنیف فرمایا اکابر علمائے مکہ نے خواہش کرکے اس کی نقلیں لیں اس رسالہ کی قسم اول جناب مفتی برزنجی صاحب نے پڑھوا کر سنی حاش ﷲ ہزار ہزار بار حاش ﷲ زنہار معقول و مقبول نہیں کہ معاذ اﷲ خود حضرت ممدوح ایسے اخبث انجس افترائے ملعون تراشیں یا اُن کا تراشنا روا رکھیں بلکہ ضرور ضرور ان دل کے اندھوں نے اس مقدس مفتی کی ظاہری نابینائی سے فائدہ اٹھایا اور کوئی نہ کوئی کارروائی دھوکے فریب یا تحریف تصحیف کی عمل میں لائی گئی۔
انما یفتری الکذب الذی لایؤمنون ۲ ؎۔ (افتراء وہی باندھتے ہیں جو ایمان نہیں رکھتے۔ ت)
( ۲ ؎ القرآن الکریم ۱۶ /۱۰۵)
اپنے پرانوں المرجفون فی المدینۃ ۳ ؎۔ ( مدینہ میں جھوٹ اڑانے والوں۔ ت) کا ترکہ پایا۔ وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون ۴ ؎۔ ( اور اب جانا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے۔ت)
( ۳ ؎القرآن الکریم ۳۳ /۶۰) (۴؎ القرآن الکریم ۲۶ / ۲۲۷)
ثالثاً : خبثاء نے کھایا بھی اور کال بھی نہ کٹا : مفتی صاحب نے ان افترائی اقوال پر بھی اتنا ہی حکم دیا کہ غلط اور تفسیرقرآن پر بے دلیل جرأت ہے اشقیاء کے طائفہ بھر کی چھاتیاں پھٹ گئیں کہ ہائے ہائے رسول کے شہر میں خدا کا قہر سر پر اوڑھا اور کچھ کام نہ چلا۔ اب رامپور، بریلی ، دیوبند، تھانہ بھون ، انبیٹھ گنگوہ، دہلی، پنجاب وغیرہا کے سب پنج غیب جڑجڑا کر کمیٹیاں ہوئیں اور رائے پاس ہولی کہ ابلیسی مسخرو! تم اور غم کرو۔ ارے افترا کی مشین تو تمہارے گھر چل رہی ہے۔ مجددِ ملت پر افترا جوڑے تھے حضرت مفی صاحب پر جوڑتے ہوئے کیوں مرے جاتے ہو، بنا برآں پہلے افتراء میں وہ جو علوم ذات و صفاتِ الہٰی کا استثناء رکھا تھا اپنے ہی چھپے ہوئے رسالے غایۃ المامول سے اسے بھی اڑادیا جناب منور علی رامپوری اینڈ کو جو اس رسالہ غایۃ المامول کے لانے والے چھانپے والے ہیں مسلمان سب سے پہلے انہیں کی دن دہاڑے چوری اور سر زوری ملاحظہ فرمائیں ۔ رسالے کے صفحہ ۳ پر مفتی صاحب کی طرف منسوب عبارت تویہ چھاپی : ذھب فیہا ای صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علمہ محیط بکل شیئ حتی المغیبات الخمس وانہ لا یستثنٰی من ذلک الا العلم المتعلق بذات اﷲ تعالٰی وصفاتہ۔ اس کا عقیدہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا علم ہر شے کو محیط ہے حتی کہ مغیبات خمسہ کو بھی، اور وہ اﷲ تعالٰی کی ذات و صفات سے متعلق علم کے سوا کسی علم کو اس سے مستثنٰی نہیں کرتا۔ (ت)
جس میں علم متعلق بذاتِ الہٰی و صفاتِ الہی کا صریح استثناء موجود ہے اور اس عبارت کے منگھڑت خلاصہ کا ترجمہ آخر کتاب میں یوں چھاپا کہ “رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا علم بھی ایسا ہی محیط ہے جیسے اﷲ تعالٰی کا اور آپ کے علم اور اﷲ تعالٰی کے علم میں کوئی فرق نہیں سوائے حدو ث و قدم کے “۔
ملاحظہ ہو کہ وہ علم ذات و صفات کا استثناء یک لخت اڑ گیا ۔ اور بلا استثناء جمیع معلوماتِ الہیہ کو علم نبوی محیط ماننے کا بہتان جڑ گیا۔ بیجا بددین لوگ اکثر افتراء گانٹھا کرتے ہیں اس کا کچھ گلہ نہیں مگر۔
چہ دلاور است دُزدے کہ بکف چراغ دارد
( چور کتنا دلیر ہے کہ ہاتھ میں چراغ رکھتاہے ۔ت)
کاسماں اور ہی مزہ رکھتا ہے، جس کتاب میں تحریف کریں اسی کے ساتھ اسی کی پشت پر چھاپ دیں اور پھر سرِ بازار مسلمانوں کو آنکھیں دکھائیں۔ تف تف تف تف سے کیا ہوتا ہے جب خدا کی لعنت ہی کا خوف نہیں پھرا، پھر اس چالبازی کی کیا شکایت کہ مفتی صاحب کی طرف عبارت تو یہ منسوب کی ” العلنی علی رسالۃ ذھب فیھا” ، جس کا صاف مفادیہ کہ یہ مضمون اس رسالہ کا ہے، حالانکہ رسالہ میں اس کا صاف رَد لکھا ہے، اور باطنی طائفہ نجدیت کے امام (عہ: اسماعیل دہلوی کی صراط مستقیم میں) معصوم سفلی آسمان کذب و افتراء کے بدر منور اس کا ترجمہ یوں گانٹھتے ہیں ” اپنے دوسرے رسالہ علم غیب کی مجھ کو خبر دی اور اس کا یہ مدعا بیان کیا ۔” یعنی یہ مدعا زبانی بیان میں تھا نہ کہ رسالہ میں۔
تاکہ کوئی رسالہ کا تپانچہ دے کر جھوٹ بکنے والا لوٹ دے کر مفتریو رسالہ میں یہ قول لکھا ہے یا اس کا رَد کیا ہے۔ پھر اس ننھی سی کتر بیونت کا کیا گلہ کہ مفتی صاحب کی طرف عبارت تو یہ منسوب کی ” فلم ال جھدا فی بیان ان الآیۃ المذکورۃ لا تدل علی مدعاہ دلالۃ قطعیۃ ” جس کا صاف ترجمہ یہ ہے کہ میں نے اپنے چلتی اس بیان میں کمی نہ کی کہ آیت ان کے دعوٰی پر ایسی دلالت نہیں کرتی جو یقینی قطعی ہو۔ اب قصروہابیت کے منور محل کا چمکتا ترجمہ سنئے ۔ آیت مذکور ہ تمہارے دعوی کی دلیل نہیں ہوسکتی۔ کہاں نفی تیقن کہ یقینی طور پر اثبات نہیں اور کہاں استحالہ کی دلیل ہو ہی نہیں سکتی دو سطر کے ترجمہ میں یہ ڈھٹائیاں اور واں گھائیاں یہ دلربائیاں اور پھر دین و دیانت کا دعوٰی پر قرار ۔ ع
چوں وضوئے محکم بی بی تمیز
( بی بی تمیز کے محکم مضبوط وضو کی طرح۔ت)
پھر یہ شرمیلی جھانولی تو خاص انعام دینے کے قابل کہ اسی صفحہ ۳ عبارت مفتی صاحب میں قادیانی ، پھر طائفہ امیریہ امیر حسن سہسوانی ، پھر طائفہ نذیریہ نذیر حسین دہلوی ، پھر طائفہ قاسمیہ قاسم نانوتوی ، پھر رشید احمد گنگوہی، پھر اشرف علی تھانوی، یہ سارے کے سارے نام بنام مذکور تھے اور ان سب پر جب کہ وہ اقوال ان کے ہوں احکام کفر و ضلال مسطور تھے، تنِ وہابیت کی منور جان جو سرمائی نظروں سے اس کے ترجمہ پر آئیں تو یوں جھلک دے کر الوپ ہوجائیں کہ ہندوستان میں کچھ لوگ گمراہ اور اہلِ کفر ہیں جو ایسا ایسا کہتے ہیں منجملہ ان کے غلام احمد قادیانی وغیرہ وغیرہ ملاحظہ ہو اپنے پانچوں کو کیا وغیرہ وغیرہ کے پردے میں بٹھایا، وغیرہ کی خاک ڈال کر بلی کی طرح چھپایا ہے غرض ؎
عیّار ہو مکّار ہو جو آج ہو تم ہو بندے ہو مگر خوفِ خدا نہیں رکھتے
_______________________________
ارے بیباک! کیا کہنا ہے تیری اس وغیرہ کا یہی پردہ ہے سارے ایر غیر ا نتھُّو خیرا کا
بریلی کے وہابیہ بھی انہیں حضرت کی چال پر پھول کر اپنی بتیاں والی تحریر سر بازار تشہیر کر ابیٹھے۔ مسلمانوں نے پانسو روپے انعام کا اشتہار دیا اگر ایک ہفتہ میں اپنے افتراؤں کا ثبوت دے دیں۔ معیاد گزری اور اس سے دو چند زمانہ گزرا، اور پھر سہ چند تک نوبت پہنچی مگر کسی مفتری کذب کے لب نہ کھلے : فبھت الذی کفر ، واﷲ لایھدی القوم الظالمین ۱ ؎۔ تو ہوش اڑ گئے کافر کے، اور اﷲ راہ نہیں دکھاتاظالموں کو۔ ت)
( ۱ ؎ القرآن الکریم ۲ /۲۵۸)
بیس (۲۰) روز بعد بعض بے حیا پردہ نشینوں نے کسی اپنے سعید کی فرضی آڑ سے دیوبندی کمیٹیوں کا نتیجہ چھاپا۔ پہلے دو اندھیر تھے تو اس میں افترابرافترا، افترا برافترا کے ڈھیر تھے اور واقعی کوئی ملعون طائفہ اپنے لعنتی افتراؤں کا ثبوت کہاں سے لائے سوا اس کے کہ لعنتوں پر لعنت ، غضبوں پر غضب اوڑھے، اس پر مسلمانوں نے العذاب البئیس علی انجس حلائل ابلیس ان پر نازل کیا اور تین ہزار روپے کا اعلان دیا اور ان کی مہلت تین ہفتے کردی اور برسم شہادت ان کے الفاظ کی ٹوکری در بھنگی وغیرہ سب کے ظاہر پیر تھانوی صاحب کے سردھردی ، اگرچہ برسوں کا تجربہ شاہد ہے کہ وہ تین توڑے دیکھ کر بھی لب نہ(عہ) کھولیں گے۔ اُن کی مہر دہن جب ٹوٹے کہ کچھ گنجائش سوجھے، خیر ایک تدبیر تو کفر پارٹی کی یہ تھی۔ دوسری تدبیر لعنتِ تحمیر اشد ملعونی کی بولتی تصویر فلک شیطنت کی بدر منیر ابلیس لعین کی بڑی ہمشیر اﷲ و رسول پر حملہ کے لیے کفر پارٹی کی ننگی شمشیر، یعنی رسالہ ملعون و شقی ظلماً مسمّٰی سیف النقی۔ اس خبیثہ ملعونہ رسالہ نے وہ طرز اختیار کی کہ وہابیہ خذلہم اﷲ تعالٰی پر سے ۳۵ برس کا قرضہ ایک دم میں اُتروادے،
عہ : یہی واقع ہوا دس برس سے زیادہ گزرے تھانوی صاحب خاموش باختہ ہوش۔
آستانہ علویہ رضویہ سے پینتس سال کامل ہوئے کہ وہابیہ کا رداشاعت پارہا ہے اور آج تک بفضل وھاب جل و علا لاجواب رہا ہے۔ کسی گنگوہی ، نانوتوی ، انبٹھی ، تھانوی ، دیوبندی، دہلوی، امرتسری کو تاب نہ ہوئی کہ ایک حرف کا جواب لکھیں اور جب مطالبہ جواب کتب کا نام آیا ہے، متکلمین طائفہ نے جو مناظرہ رٹ رہے ہیں وہ وہ چک پھیریاں لیں، وہ وہ اڑان گھاٹیاں دکھائیں جن کا بیان رسالہ الاستمتاع بذوات القناع سے ظاہر شریفہ ظریفہ رشیدہ رسیدہ نے اپنے اقبال وسیع سے ان کے ادبار پر وضیق کو ایسی فراخی حوصلہ کی لَے سکھائی ہے کہ چاہیں تو ایک ایک منٹ میں اپنے خصموں کی ایک ایک کتاب کا جواب لکھ دیں۔ اور وہ بھی بے مثل و لاجواب لکھ دیں یعنی خصم کا جو قول چاہیں نقل کریں اور اس کے مخالف جتنی عبارات چاہیں خصم کے آباء واجداد و مشائخ کی طرف سے گھڑلیں اور ان کی تصانیف کے نا م بھی تراش لیں، ان کے مطبع بھی اپنے افترائی سانچے میں ڈھال لیں اور سر بازار بکمال حیا آنکھیں دکھانے کو ہوجائیں کہ تم تو کہتے ہو اور تمہارے والد ماجد اس کے خلاف فلاں کتاب میں یوں فرماتے ہیں، تمہارے جدامجد کا فلاں کتاب میں یہ ارشاد ہے ۔ فلاں مشائخ کرام فلاں فلاں کتاب میں یوں فرماگئے ہیں ان کتابوں کے یہ یہ نام ہیں، فلاں فلاں مطبع میں چھپی، ان کے فلاں فلاں صفحہ پر یہ عبارات ہیں ، کہیے اس سے بڑھ کر پکا اور کامل ثبوت اور کیا ہوگا۔ اور بعنایتِ الہٰی حقیقت دیکھئے تو ان کتابوں کا اصلاً کہیں روئے زمین پر نام و نشان نہیں ، نِری من گھڑت خیالی تراشیدہ خوابہائے پریشان جن کی تعبیر فقط اتنی کہ ” لعنۃ اﷲ علی الکذبین ۱ ؎۔ (جھوٹوں پر اﷲ کی لعنت ، ت)
( ۲ ؎ القرآن الکریم ۳ /۶۱)
نامہ اوّل :
بسم اللہ الرحمن الرحیم، وبہ نستعین ونصلی ونسلم علٰی نبیہ الکریم
حضرت مولٰینا وبالفضل اولٰنا دام ظلہم وبرکاتہم وعمر ہم۔
از حقر سید حسین حیدر بعد تسلیم نیاز عرض خدمت عالی اینکہ نوازش نامہ عالی عرض دار لایا ۔معزز فرمایا اوتعالٰی ذاتِ والا کو بایں تجدید و تاسیس دین متین سلامت رکھے اس صدی کے مجدد اﷲ تعالٰی نے ہمارے سب کے واسطے ذات ِ عالی کو بھیجاہے رسائل عنایت فرمودہ جناب میں نے حرف بحرف پڑھے اور تمام دن انہیں کے مطالعہ میں گزرتا ہے اگرچہ اس مسئلہ میں جو کچھ میں نے وقتاً فوقتاً آپ کی زبان سے سنا تھا اسی حبلِ متین کو مضبوط پکڑے ہوئے تھا اب اس تقریر والا نے تو میرے اس عقیدہ کو ایسا فولاد کردیا ہے کہ جس کا بیان نہیں، فتوٰی انباء المصطفٰی نے بوجہ اپنی طبع (عہ)کے مجھ کو کوئی فائدہ نہیں دیا اور نہ اس تحریر کے بعد مجھ کو حاجت رہی ، نسخہ” تمہیدِ ایمان” کو دیکھ کر میں اپنی مسرت کا حال کیا عرض کروں علمائے حرمین شریفین نے جو کچھ تحریر فرمایا وہ مشتے نمونہ خروار ہے اور میرا یہی عقیدہ ہے اخوت اسلامی ورشتہ خاندانی سے قطع نظر کرکے ابتداء سے میرا یہی عقیدہ ہے کہ اب ہندوستان و عرب میں آپ کا مثل نہیں ہے اور یہ امر بلا مبالغہ میرے دل میں راسخ ہوگیا ہے وہ لوگ جن سے اس بات میں مجھ سے گفتگو ہوئی تھی ابھی تک مجھ کو نہیں ملے ہیں اب وہ ملیں تو رسالہ حرمین طیبین دکھاؤں اور جواب لُوں میں ے دیوانِ نعمت برادرم حسن رضا خان صاحب مرحوم کو لکھا مرحوم مجھ سے وعدہ فرماگئے تھے کہ بعد طبع تجھ کو ضرور بھیجوں گا اللہ تعالٰی ان کو اپنی آغوش رحمت میں رکھے مورخہ ۷ ربیع الثانی یوم دوشنبہ رسائل مطبوعہ جدید مجھ کو ضرور مع دیوان بھیج دیں آج کل انہیں سے دل بہلتا ہے مکرر وہی مطالعہ میں رہتے ہیں اللہ تعالٰی آ پ کو زندہ و سلامت رکھے زیادہ نیاز فقط ، احقر سید حسین حیدر از لکھنؤ جھوائی ٹولہ ، مکان حکیم حسن رضا مرحوم۔
اس مدت میں رسائل کین کشن پنجہ پیچ و بارش سنگی و پیکان جانگداز بھی بفضلہ تعالٰی تیار ہوگئے کہ حسب الحاکم مع دیوان نعت شریف مصنف حضرت مولٰنا مولوی حاجی حسن رضا خان صاحب رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ روانہ خدمت حضرت والا کیے گئے ادھر اس مدت میں حضرت والا کو وہ مخالفین بھی مل گئے جن کو یہ الہٰی تلواریں دکھا کر حضرت نے پسپا کیا، اور یہ دوسرا نامہ نامی احضا فرمایا:
عہ : مراد آباد کی طبع دوم کا بہت ناقص چھپا تھا کہ پڑھنے میں دقت تھی۱۲۔
نامہ دوم
حضرت مولٰنا و بالفضل والمجد اولٰنا مدظلہم وبرکاتہم علٰی سائر المسلمین ، بعد تسلیم نیاز آنکہ پولندہ دیوان نعت شریف مع رسائل عطیہ حضور پہنچے اﷲ آپکو زندہ رکھے جن لوگوں سے میری گفتگو ہوئی تھی وہ انہیں مرضی حسن در بھنگی کے اتباع میں ہیں بارش سنگی و اشتہارات میں نے سب سنائے۔اس پر بڑا تعجب ظاہر کیا، میں نے کہا کہ مولٰنا صاحب نے مناظرہ سے انکار نہ فرمایا ، بلکہ ان شرائط پر مباحثہ و مناظرہ تمام طائفہ سے فرمایا، اشتہارات وغیرہ دیکھ کر کہا کہ یہ اُن تک پہنچے نہیں ورنہ وہ ایسے نہ تھے کہ رسالہ کا جواب فوری نہ دیتے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ تو پرانا منجھا ہوا سچ ہے کہ ڈاک لُٹ گئی۔ اُس پر کہا کہ اب ہم تحریر کرتے ہیں رسائل کا نام وغیرہ جو جواب آئے گا۔ آپ ( عہ)کو مطلع کریں گے۔ پھر کہا کہ مولوی صاحب کو لازم نہ تھا کہ علمائے دین کی تکفیر کرتے قلم ان کا بہت تیز ہے۔ میں نے کہا کہ یہ قوم اعداء اﷲ پر جہاد کے لیے پیدا ہوئی ہے۔ اب تلوار نہیں رہی تو خدائے تعالٰی نے وہی کاٹ چھانٹ ان کے قلم کو عطا فرمادی ہے۔ اثنائے ذکر میں یہ بھی کہا کہ مولوی رشید احمد صاحب کے ایک شآگرد کے مقابلہ میں مولوی صاحب کا سارا عرب دشمن ہوگیا اگر وہاں سے چلے نہ آتے تو بڑی مشکل پڑتی۔ میں نے کہا یہ ہی ایک فقرہ آ پ نے سچ فرمایا ہے آپ کے مضمون کی شہادت جو علماءِ حرمین نے دی ہے وہ میرے پاس ہے اسے دیکھ لیجئے کیسا بڑا لکھا مگر اس طرح کا کوئی فقرہ آپ نکال لائیں تو میں مانوں، عبارات میں نے پڑھنا شروع کیں۔ اور اُن حیا دارون کا رنگ متغیر ہونا شروع ہوا میں لاحول پڑھ کر اٹھ کھڑا ہوا فقط ۲۹۔۴ ۔ ۱
مسلمانو ۔ حضرات کی عیاریاں مکاریاں حیا داریاں ملاحظہ کیں حضرت والا سید صاحب قبلہ دامت برکاتہم کی طرح جس بندہ کو خدا عقل و ایمان و انصاف دے گا وہ ان مکاروں ابلیس شعاروں پر لاحول ہی پڑھ کر اٹھے گا۔
اب بعونہ تعالٰی خالص الاعتقاد مطالعہ کیجئے اور اپنے ایمان و یقین و محبت و غلامی حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو تازگی دیجئے۔
والحمدﷲ رب العٰلمین وافضل الصلوۃ واکمل السلام علٰی سیدنا و مولٰنا والہ وصحبہ وابنہ وحزبہ اجمعین امین
سید عبدالرحمن غفرلہ
(عہ : اب تک ان صاحبوں نے بھی کروٹ نہ لی تو وہ سب کو ایک ہی مرض الموت لاحق ہے۱۲)