رافضِت, رسائل فتاوی رضویہ, صحابہ و اہل بیت علیہم الرضوان, عقائد و کلام, فتاوی رضویہ, فضائل و خصائص

رسالہ حضور نے کس کو اپنا جانشین بنایا؟

رسالہ
غایۃ التحقیق فی امامۃ العلی والصدیق (۱۳۳۱ھ)
(تحقیق کی انتہاء حضرت علی مرتضٰی اورحضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہما کی امامت کے بارےمیں )
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ رب محمد صلی علیہ وسلّما

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں :
مسئلہ۲۲:اول: رسول مقبول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہٖ وعترتہ وسلم نے وقتِ رحلت یا کسی اوروقت اپنے بعد اپنا جانشین کس کو مقرر کیا؟

الجواب

جانشینی ونیابت دو قسم ہے :
اول ۱: جزئی مقید کہ امام کسی خاص کام یا خاص مقام پر عارضی طور پرکسی خاص وقت کے لئے دوسرے کو اپنانائب کرے ، جیسے بادشاہ کالڑائی میں کسی کو سردار بنا کر بھیجنا یا کسی کوضلع کی حکومت دینا یا تحصیل خراج پر مامورکرنا ،یا کہیں جاتے ہوئے انتظام شہر سپردکرجانا، اس قسم کا استخلاف صریح حضورپرنورسید یوم النشورصلی اللہ تعالٰی علیہ وعلٰی آلہ وعترتہٖ وازواجہ وصحابتہ اجمعین وبارک وسلم سے بازرہا واقع ہوا، جیسے بعض غزوات میں امیر المومنین صدیق اکبربعض میں حضرات اسامہ بن زید۔ غزوہ ذات السلاسل میں حضرت عمروبن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہم کو سپہ سالاربنا کر بھیجا۔تحصیل زکوٰۃ پر امیر المومنین فاروق اعظم وحضرت خالد بن ولید وغیرہما رضی اللہ تعالٰی عنہم کو مقرر فرمایا۔یہ بھی یقینا حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نیابت تھی کہ اخذصدقات اصل کام حضور والا صلوات اللہ تعالٰی علیہ وعلٰی آلہٖ واصحابہ کا ہے ۔قال تعالی: خذ من اموالھم صدقۃ تطھرھم وتزکیھم بھا وصل علیھم ان صلاتک سکن لھم۔۱؂ اے محبوب ان کے مال میں سے زکوٰۃ تحصیل کروجس سے تم انہیں ستھرا اورپاکیزہ کردواوران کےحق میں دعائے خیر کرو بے شک تمہاری دعاان کے دلوں کا چین ہے ۔(ت)

(۱؂ القرآن الکریم ۹/۱۰۳)

تعلیم قرآن ودین کے لئے قرائے کرام شہدئے عظام کو مقرر فرمایا۔ حضرت عتاب بن اسید کو مکہ معظمہ ، حضرت معاذ بن جبل کو ولایت جَنَد ، حضرت ابو موسٰی اشعری کو زبید و عدن، حضرت ابوسفیان والد امیرمعاویہ یا حضرت عمرو بن حزم کو شہر نجران، حضرت زیاد بن لبید کو حضرموت، حضرت خالد سعید اموی کو صنعا، حضرت عمرو بن العاص کو عمان کاناظم صوبہ کیا۔باذان بن سباسان کیانی مغل کو صوبہ داری یمن پر مقرر رکھا۔ امیر المومنین مولی علی کرماللہ تعالٰی وجہہ کو ملک یمن کا عہد ۂ قضا بخشا۔۸ ھ میں حضرت عتّاب ، ۹ ھ میں حضرت ابو بکرصدیق اکبر کو امیر الحاج بنایا۔ بعض وقائع میں امیر المومنین فاروق اعظم ، بعض میں حضرت معقل بن یسار، بعض میں حضرت عقبہ کو حکم قضا دیا۔ غزوۂ تبوک کو تشریف لے جاتے وقت امیر المومنین علی مرتضٰی کو اہلبیت کرام، اورغزوہ بدر میں حضرت ابولبابہ ، اورتیرہ غزوات واسفار کو نہضت فرماتے حضرت عمرو ابن ام مکتوم کو مدینہ طیبہ کا امیر ووالی فرمایا۔ازانجملہ غزوہ ابواء کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا پہلا غزوہ تھا وغزوہ بواط وغزوہ ذی العبّرہ وغزوہ طلب کر زبن جابر وغزوۂ سویق وغزوۂ غطفان وغزوۂ احد وغزوۂ حمرا ء الاسد وغزوہ نجران وغزوہ ذات الرقاع وسفرحجۃ الوداع کہ حضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا پچھلا سفر تھا رضی اللہ تعالٰی علیہم اجمعین۔

لخصنا کل ذٰلک من صحیح البخاری وشروحہ ولمواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ وشرحہا للزرقانی والاصابۃ فی تمییز الصحابۃ للامام الحافظ العسقلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین۔ یہ سب ہم نے تلخیص کی صحیح بخاری اوراس کی شرحوں ، مواہب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ اوراسکی شرح زرقانی اورحافظ ابن حجر عسقلانی کی تصنیف الاصابہ فی تمییزالصحابہ سے ۔ اللہ تعالٰی ان سب پر رحمت نازل فرمائے۔(ت)
دوم کلی مطلق کہ حیات مستحلف سے جمع نہیں ہوسکتی یعنی امام کا اپنے بعد کسی کیلئے امامت کبرٰی کی وصیت فرمانا اس کا نص صریح علی الاعلان بتصریح نام حضور اعلٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نےکسی کے واسطے نہ فرمایا، ورنہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم ضرورپیش کرتے اورقریش وانصار میں دربارہ خلافت مباحثے مشاورے نہ ہوتے، امیر المومنین امام الاشجعین اسد اللہ الغالب علی مرتضٰی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم سے باسانید صحیحہ قویہ ثابت کہ جب ان سے عرض کی گئی استخلف علینا ہم پر کسی کو خلیفہ کردیجئے ۔ فرمایا : لاولٰکن اترککم کما ترککم رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں کسی کو خلیفہ نہ کروں گا بلکہ یونہی چھوڑوں گا جیسے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم چھوڑگئے تھے

اخرجہ الامام احمد ۱؂ بسند حسن والبزاربسندی قوی والدارقطنی وغیرہم (اس کو امام احمد نے بسند حسن اوربزارنے بسند قوی اوردارقطنی وغیرہم نے رویت کیا۔ت)

(۱؂مسند امام احمدبن حنبل عن علی رضی اللہ تعالٰی عنہ المکتب اسلامی بیروت۱۳۰/۱)
(الصواعق المحرقۃ الباب الاول الفصل الخامس دارالتکب العلمیۃ بیروت ص۷۰)
(کشف الاستارعن زوائد البزارباب فی قتلہ حدیث۲۵۷۲موسسۃ الرسالۃ بیروت ۲۰۳/۳)
(کنزالعمال بحوالہ ک وابن السنی حدیث۳۶۵۶۲موسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۳ / ۱۸۹ )

بزار کی روایت میں بسندصحیح ہے حضرت مولٰی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ نے فرمایا: مااستخلف رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فاستخلف علیکم ۲؂ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کسی کو خلیفہ نہ کیا کہ میں کروں۔

(۲؂ الصواعق المحرقۃ بحوالہ البزارالباب الاول الفصل الخامس دارالکتب العلمیۃ بیروت ص۷۰)

دارقطنی کی روایت میں ہے ، ارشادفرمایا : دخلنا علٰی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فقلنا یارسول اللہ استخلف علینا قال لا، ان یعلم اللہ فیکم خیرا یول علیکم خیرکم قال علی رضی اللہ تعالٰی عنہ فعلم اللہ فینا خیرا فولی علینا ابابکر (رضی اللہ تعالٰی علیہم اجمعین۱؂ ) ہم نے خدمت اقدس حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضرہوکر عرض کی: یارسول اللہ ہم پر کسی کو خلیفہ فرمادیجئے ۔ ارشاد ہوا: نہ ، اگر اللہ تعالٰی تم میں بھلائی جانے گا تو جوتم سب میں بہتر ہے اسے تم پر والی فرمادے گا۔حضرت مولی علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: رب العزۃ جل وعلانے ہم میں بھلائی جانی پس ابوبکر کوہمارا والی فرمایا رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین۔

(۱؂ الصواعق المحرقہ بحوالہ الدارقطنی الباب الاول الفصل الخامس دارالکتب العلمیۃ بیروت ص۷۰)

امام اسحٰق بن راہو یہ ودارقطنی وابن عساکر وغیرہم بطرقِ عدیدہ واسانید کثیرہ راوی، دوشخصوں نےامیر المومنین مولٰی علی کرم للہ وجہہ الکریم سے ان کے زمانہ خلافت میں دربارۂ خلافت استفسارکیا اعھدعھدہ الیک النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ام رائ رایتہ ۔کیا یہ کوئی عھد وقرارداد حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی طرف سے ہے یا آپ کی رائے ہے بلکہ ہماری رائے ہے اما ان یکون عندی عھد من النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عھدہ الی فی ذٰلک فلا، واللہ لئن کنت اول من صدق بہ فلاکون اول من کذب علیہ رہا یہ کہ اسباب میں میرے لئے حضور پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کوئی عہدہ قرارداد فرمادیا ہو سو خدا کی قسم ایسا نہیں اگر سب سے پہلے میں نے حضور کی تصدیق کی تو میں سب سے پہلے حضور پر افتراء کرنے والا نہ ہوں گا ولو کان عندی منہ عھد فی ذٰلک ماترکت اخابنی تیم بن مرۃ وعمر بن الخطاب یثوبان علٰی منبرہ ولقاتلتھما بیدی ولولم اجد الابردتی ھذہ اوراگر اسباب میں حضور والا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف سے میرے پا س کوئی عہد ہوتا تو میں ابوبکر وعمر کو منبر اطہر حضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر جست نہ کرنے دیتا اوربیشک اپنے ہاتھ سے ان سے قتال کرتا اگرچہ اپنی اس چادر کے سواکوئی ساتھی نہ پاتا ولٰکن رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لم یقتل قتلا ولم یمت فجأہ مکث فی مرضہ ایاما ولیا لی یاتیہ المؤذن فیؤذنہ بالصلاۃ فیا مرا بابکر فیصلی بالناس وھو یری مکانی ثم یاتیہ المؤذن فیؤذنہ بالصلاۃ فیامر ابابکر فیصلی بالناس وھو یری مکانی بات یہ ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم معاذاللہ کچھ قتل نہ ہوئے نہ یکایک انتقال فرمایا بلکہ کئی دن رات حضور کو مرض میں گزرے ، مؤذن آتا نماز کی اطلاع دیتا، حضور ابوبکر کو امامت کا حکم فرماتے حالانکہ میں حضور کے پیش نظر موجودتھاپھر مؤذن آتا اطلاع دیتا حضور ابوبکر ہی کو امامت دیتے حالانکہ میں کہیں غائب نہ تھا

ولقد ارادت امرأۃ من نسائہ ان تصرفہ عن ابی بکر فابی وغضب وقال “انتن صواحب یوسف مرواابابکر فلیصل بالناس اورخدا کی قسم ازواج مطہرات میں سے ایک بی بی نے اس معاملہ کو ابوبکر سے پھیرنا چاہاتھا، حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے نہ مانا اورغضب کیا اورفرمایا تم وہی یوسف (علیہ السلام)والیاں ہو ابوبکر کو حکم دو کہ امامت کرے

فلما قبض رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نظر نا فی امورنا فاخترنا لدنیا نامن رضیہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لدیننا فکانت الصلٰوۃ عظیم الاسلام وقوام الدین ، فبایعنا ابابکر رضی اللہ تعالٰی عنہ فکان لذٰلک اھلالم یختلف علیہ منا اثنان پس جبکہ حضورپرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انتقال فرمایا ہم نے اپنے کاموں میں نظر کی تو اپنی دنیایعنی خلافت کے لئے اسے پسندکرلیا جسے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلمنے ہمارے دین یعنی نماز کے لئے پسند فرمایاتھاکہ نماز تو اسلام کی بزرگی اوردین کی درستی تھی لہذا ہم نے ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بیعت کی اوروہ اس کے لائق تھےہم میں کسی نے اس بارہ میں خلاف نہ کیا۔ یہ سب کچھ ارشاد کر کے حضرت مولٰی علی کرم اللہ وجہہ الاسنٰی نے فرمایا:

فادیت الٰی ابی بکر حقہ وعرفت لہ طاعتہ وغزوت معہ فی جنودہ وکنت اٰخذ اذا اعطانی واغزو اذا غزانی واضرب بین یدیہ الحدودبسوطی ۱؂۔ پس میں نے ابوبکر کو ان کا حق دیا اوران کی اطاعت لازم جانی اوران کے ساتھ ہوکر ان کے لشکروں میں جہاد کیا جب وہ مجھے بیت المال سے کچھ دیتے میں لے لیتا اور جب مجھے لڑائی پر بھیجتے میں جاتا اورانکے سامنے اپنے تازیانہ سے حد لگاتا_____________۔

(۱؂تاریخ دمشق الکبیر ترجمہ ۵۰۲۹ علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳۳۷/۴۵ تا ۳۳۹)
(الصواعق المحرقۃ بحوالہ الدارقطنی وابن عساکر واسحٰق بن راہویہ الباب الاول الفصل الخامس دارالکتب العلمیۃ ص۷۰تا۷۲)

پھر بعینہٖ یہی مضمون امیرالمومنین فاروق اعظم وامیر المومنین عثمان غنی کی نسبت ارشاد فرمایا، رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین۔ہاں البتہ اشارات جلیلہ واضحہ بارہافرمائے ، مثلاً:
(۱) ایک بار ارشادہوا میں نے خواب دیکھا کہ میں ایک کنویں پر ہوں اس پر ایک ڈول ہے میں اس سے پانی بھرتارہا جب تک اللہ نے چاہا پھر ابو بکر نے ڈول لیا دورایک بار کھینچا پھر وہ ڈول ایک پل ہوگیا جسے چرسہ کہتے ہیں اسے عمر نے لیا تو میں نے کسی سردار زبردست کو اس کام میں انکے مثل نہ دیکھا یہاں تک کہ تمام لوگوں کو سیراب کردیا کہ پانی پی پی کر اپنی فرودگاہ کو واپس ہوئے ۔ رواہ الشیخان۱؂۔ عن ابی ھریرۃ وعن ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم (اس کو شیخین نے ابو ہریرہ اورابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روایت کیا۔ت)

(۱؂صحیح البخاری فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۵۱۷ ، ۵۱۹ ،۵۲۰)
(صحیح البخاری کتاب التعبیر قدیمی کتب خانہ کراچی ۱۰۳۹/۲و۱۰۴۰)
(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل عمر قدیمی کتب خانہ کراچی ۲۷۵/۲)
( الصواعق المحرقۃ بحوالہ الشیخین الباب الاول الفصل الثالث دارالکتب العلمیۃ بیروت ص۳۹و۴۰)

(۲) امیر المومنین مولی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ فرماتے ہیں میں نے بارہا بکثرت حضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ ہوا میں اورابوبکروعمر ، کیا میں نے اورابوبکر وعمر نے ، چلا میں اورابوبکر ۔رواہ الشیخان ۲؂عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما (اس کو شیخین نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ت)

(۲؂صحیح البخاری فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم قبیل مناقب عمر قدیمی کتب خانہ کراچی ۵۱۹/۱)
(مشکوٰۃ المصابیح بحوالہ متفق علیہ باب مناقب ابی بکر وعمر رضی اللہ عنہما قدیمی کتب خانہ کراچی ص۵۵۹)

(۳) ایک بار حضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا آج کی رات ایک مرد صالح (یعنی خود حضور پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم)نے خواب دیکھا کہ ابوبکر رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے متعلق ہیں اور عمر ابوبکر سے اورعثمان عمر سے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں جب ہم خدمت اقدس حضور والا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے اٹھے آپ میں تذکرہ کیا کہ مرد صالح تو حضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہیں اوربعض کا بعض سے تعلق وہ اس امر کا والی ہونا جس کے ساتھ حضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مبعوث ہوئے ہیں، رواہ عنہ ابوداودوالحاکم۳؂ (اس کو جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ابوداوداورحاکم نے روایت کیا۔ت)

(۳؂سنن ابی داود کتاب السنۃ باب فی الخلفاء آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۲۸۱)
(المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ داراالفکر بیروت ۳ / ۷۱ ،۷۲ و۱۰۲ )

(۴) انس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں مجھے بنی المصطلق نے خدمت حضور سید المرسلمین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں بھیجاگیا حضور سے دریافت کروں حضور کے بعد ہم اپنے اموال زکوٰۃ کس کے پاس بھیجیں، فرمایا ابو بکر کے پاس۔ عرض کی اگر انہیں کوئی حادثہ پیش آجائے تو کسے دیں؟فرمایاعمر کو۔عرض کی جب ان کا بھی واقعہ ہو۔ فرمایا عثمان کو۔ رواہ عنہ فی المستدرک وقال ھٰذا حدیث صحیح الاسناد۱؂ (اس کو انس رضی اللہ عنہ سے حاکم نے مستدرک میں روایت کیا اور فرمایا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔ت)

(۱؂المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ دارالفکر بیروت۷۷/۳)

(۵)ایک بی بی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اورکچھ سوال کیا،حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ پھر حاضر ہو۔انہوں نے عرض کی آؤں اورحضور کو نہ پاؤں ۔ فرمایا مجھے نہ پائے تو ابو بکر کے پاس آنا۔۔۔۔۔

رواہ الشیخان۲؂ عن جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالٰی عنہ (اس کو شیخین نے جبیربن مطعم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)

(۲؂صحیح البخاری مناقب اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم فضائل ابی بکر رضی اللہ عنہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۵۱۶ )
(صحیح البخاری کتاب الاحکام باب الاستخلاف قدیمی کتب خانہ کراچی ۱۰۷۲/۲)
(صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب من فضائل ابی بکر قدیمی کتب خانہ کراچی ۲۷۳/۲)

(۶)یونہی ایک مرد سے ارشادفرمایا مروی کہ میں نہ ہوں تو ابوبکر کے پاس آنا ۔ عرض کی جب آنہیں نہ پاؤں ۔فرمایا تو عمر کے پاس۔عرض کی جب وہ بھی نہ ملیں ۔فرمایا تو عثمان کے پاس۔

اخرجہ ابو نعیم۳؂فی الحلیۃ والطبرانی عن سھل بن ابی حیثمۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ (ابو نعیم نے حلیہ میں اورطبرانی نے سہل بن ابی حیثمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اس کی تخریج کی۔ت)

(۳؂ازالۃ الخفاء عن سہل بن ابی حثمۃ فصل پنجم مقصد اول سہیل اکیڈیمی لاہور۱۲۴/۱)

(۷)ایک شخص سے کچھ اونٹ قرضوں خریدے یہ واپس جاتاتھا کہ مولی علی کرم اللہ وجہہ ملے حال پوچھا ۔ اس نے بیان کیا ۔ فرمایا حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت میں پھر حاضرہو اورعرض کی اگر حضو کوکوئی حادثہ پیش آجائے تو میری قیمت کون اداکرے گا ۔ فرمایا ابوبکر۔پھر دریافت کرایااورجو ابوبکر کو کچھ حادثہ پیش آئے تو کون دے گا۔فرمایا عمر۔پھر دریافت کرایاانہیں بھی کچھ حادثہ درپیش ہو۔ فرمایا

ویحک اذا مات عمر فان استطعت ان تموت فمت ہائے نادان جب عمر مرجائے تو اگرمرسکے تو مرجانا ۔ رواہ الطبرانی ۱؂فی الکبیر عن عصمۃ بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ وھسنہ الامام جلال الدین سیوطی (طبرنای نے کبیر میں اس کو عصمہ بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا اور امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے اس کو حسن قراردیا۔ت)

(۱؂المعجم الکبیرحدیث۴۷۸المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۱۸۱/۱۷)

(۸)انہیں اشارات جلیلہ سے ہے حضورپُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ایام مرض وفات اقدس میں صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اپنی جگہ امامت مسلمین پر قائم کرنا اوردوسرے کی امامت پر راضی نہ ہونا غضب فرمانا جس سے امیر المومنین مولٰی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم نے استناد فرمایاکہ رضیہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لدیننا افلا نرضاہ لدنیا نا ۲؂ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انہیں چن لیا ہمارے دین کی پیشوائی کو، کیاانہیں ہم پسند نہ کریں اپنی دنیا کی امامت کو۔ت)

(۲؂الصواعق المحرقۃ بحوالہ ابن سعدالباب الاول الفصل الرابع دارالکتب العلمیۃ بیروت ص۴۳ ،۷۱ ،۹۳)

(۹)اورنہایت روشن صریح کے قریب نص وتصریح وہ ارشاد اقدس ہے کہ امام احمد وترمذی نے بافادہ تحسین اورابن ماجہ وابن حبان وحاکم نے بافادۂ تصحیح اورابوالمحاسن رویانی نے حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالٰی عنہما اورترمذی وحاکم نے حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالٰی عنہ اورطبرانی نے حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالٰی عنہ اورابن عدی نے کامل میں اورحضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا کہ حضورپرنورسید یوم النشور صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلٰی آلہ واصحابہ وبارک وسلم نے فرمایا: انی لاادعری مابقائی فیکم فاقتدوابالذین من بعدی ابی بکر۳؂۔ وفی لفظ اقتداوابالذین من بعدی من اصحابی ابی بکر وعمر۱؂ میں نہیں جانتا میرا رہنا تم میں کب تک ہو لہذا تمہیں حکم فرماتاہوں کہ میرے ان دوصحابیوں کی پیروی کرو جو میرے بعد ہوں گے ابو بکر وعمر رضی اللہ تعالٰی عنہما۔

(۳؂مسند احمد بن حنبل حدیث حذیفہ بن الیمان المکتب الاسلامی بیروت ۵/ ۳۸۵ و۳۹۹ و۴۰۲)
(جامع الترمذی ابواب المناقب مناقب ابی بکر وعمار بن یاسر امین کمپنی دہلی ۲/ ۲۰۷و۲۲۱)
(سنن ابن ماجہ فضل ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی ص ۱۰)
(کنزالعمال حدیث ۳۳۱۱۵موسسۃ الرسالہ بیروت ۶۴۰/۱۱)
(مواردالظمآن حدیث۲۱۹۳المطبعۃ السلفیۃ ص۵۳۹)
(۱؂ الکامل لابن عدی ترجمہ حماد بن دلیل دار الفکر بیروت ۲ /۶۶۶)
(المستدر للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ دار اکفر بیروت ۳ / ۷۵)
(کنز العمال حدیث ۷۵۶۲۳وموسستہ الرسالہ بیروت ۱۱ /۵۶۰و۷۵۵)
(المعجم الکبیر حدیث ۶۲۴۸المکتبۃ الفیصلیہ بیروت ۹ /۶۸)
(مسند احمد بن حنبل عن حذیفہ المکتب الاسلامی بیروت ۵ٖٖٖ /۳۸۲)

(۱۰)ایک بار آخر حیات اقدس میں نص صریح بھی فرمادینا چاہاتھا پھر خدا اور مسلمانوں پر چھوڑ کر حاجت نہ سمجھی ، امام احمد وامام بخاری وامام مسلم ام المومنین صدیقہ محبوبہ سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وعلیھم وعلیہا وسلم سے راوی کہ وہ ارشاد فرماتی ہیں : قال لی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فی مرضہ الذی مات فیہ ادعی لی اباک واخاک حتی اکتب کتابا فانی اخاف ان یتمنی متمن ویقول قال انا اولی ویابی اللہ والمو منون الا ابا بکر۲؂۔ حضرت اقدس سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جس مرض میں انتقال فرمانے کو ہیں اس میں مجھ سے فرمایا اپنے باپ اور بھائی کو بلالے کہ میں ایک نوشتہ تحریر فرمادوں کہ مجھے خوف ہے کوئی تمنا کر نیوالا تمنا کرے اور کوئی کہنے والا کہہ اٹھے کہ میں زیادہ مستحق ہوں او راللہ نہ مانے گا اور مسلمان نہ مانیں گے مگر ابوبکر کو ۔

(۲؂صحیح البخاری کتاب المرض ۲/ ۸۴۶ وکتاب الاحکام باب الاستخلاف ۲ /۱۰۷۲ قدیمی کتب خانہ کراچی)
(صحیح مسلم کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، باب من فضائل ابی بکر قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/۲۷۳)
(مسند احمد بن حنبل عن عائشہ رضی اللہ عنہا المکتب الاسلامی بیروت ۶ / ۱۴۴)
(الصواعق المحرقۃ الباب الاول الفصل الثالث دار الکتب العلمیہ بیروت ص۳۷)

امام احمد کے ایک لفظ یہ ہیں کہ فرمایا ادعی لی عبدالرحمن بن ابی بکر اکتب ابی بکر کتابا لا یختلف علیہ احد ثم قال دعیہ معاذ اللہ ان یختلف المومنون فی ابی بکر۳؂ عبدالرحمن بن ابی بکر کو بلا لوکہ میں ابوبکر کے لئے نوشتہ لکھ دو ں کہ ان پر کوئی اختلاف نہ کرے ۔ پھر فرمایا: رہنے دو خدا کی پناہ کہ مسلمان اختلاف کریں ابوبکر کے بارے میں ۔

صلی اللہ تعالی علی الحبیب والہ وصحبہ وبارک وسلم ۔ واللہ سبحنہ وتعالی اعلم وعلمہ احکم ۔

(۳؂الصواعق المحرقۃ الباب الاول الفصل الثالث دار الکتب العلمیہ بیروت ص۳۷)
(مسند احمد بن حنبل عن عائشہ رضی اللہ عنہا المکتب الاسلامی بیروت۶ /۱۴۴)