تقدیر کا بیاں, عقائد و کلام, فتاوی رضویہ

رسالہ ثلج الصدر لایمان القدر

رسالہ
ثلج الصدر لایمان القدر
(۲۵ ۱۳ھ)
(سینے کی ٹھنڈک ، ایمان تقدیر کے سبب)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مسئلہ ۱۲۱ : از ضلع کھیری ملک اودھ موضع کٹوارہ مرسلہ سید محمد مظفر حسین صاحب خلف سید رضا حسین صاحب ،تعلقدار کٹوارہ ۲۸،محرم الحرام ۱۳۲۵ھ
چہ می فرمایند علمائے دین دریں مسئلہ (کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں ،ت) قرآن میں جس آیت کے معنی یہ ہیں کہ “اے محمد !ان اشخاص کو زیادہ ہدایت مت کرو، ان کےلئے اسلام کے واسطے مشیت ازلی نہیں ہے ، یہ مسلمان نہ ہوں گے “۔

اور ہر امر کے ثبوت میں اکثر آیات قرآنی موجود ہیں ، تو پس کیونکر خلاف مشیت پروردگار کوئی امر ظہور پذیر ہوسکتا ہے ، کیونکہ مشیت کے معنی ارادہ پروردگار عالم کے ہیں ، تو جب کسی کام کا ارادہ اللہ تعالی نے کیا تو بندہ اس کے خلاف کیونکر کرسکتا تھا۔ اور اللہ نے جب قبل پیدائش کسی بشر کے ارادہ اس کے کافر رکھنے کا کرلیا تھا توا ب وہ مسلمان کیونکر ہوسکتا ہے یھدی من یشاء ۱؂ کے صاف معنی یہ ہیں کہ جس امر کی طرف اس کی خواہش ہوگی وہ ہوگا ۔ پس انسان مجبور ہے اس سے باز پرس کیونکر ہوسکتی ہےکہ اس نے فلاں کام کیوں کیا، کیونکہ اس وقت اس کو ہدایت ازجانب باری عزاسمہ ہوگی وہ اختیار کرے گا۔ علم اور ارادہ میں بین فرق ہے، یہاں من یشاء سے اس کی خواہش ظاہر ہوتی ہے۔ پھر انسان باز پرس میں کیوں لایاجائے، پس معلوم ہوا کہ جب اللہ پاک کسی بشر کو اہل جنان سے کرنا چاہتا ہے تو اس کو ایسی ہی ہدایت ہوتی ہے۔

(القرآن الکریم ۲/ ۲۷۲)

الجواب : اللھم ھدایۃ الحق والصواب ، ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذھدیتنا وھب لنا من لدنک رحمۃ انک انت الوھاب، رب انی اعوذبک من ھمزات الشیٰطین واعوذ بک رب ان یحضرو ن۔ اے اللہ ! میں تجھ سے حق اور درستگی کا طلبگار ہوں ، اے ہمارے رب ! ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر بعد اس کے کہ تو نے ہمیں ہدایت دی ، اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا کر، بیشک تو ہے بڑا دینے والا، اے میرے رب! تیری پناہ شیاطین کے وسوسوں سے ، اور اے میرے رب ! تیری پناہ اس سے کہ وہ میرے پاس آئیں ۱۲(ت)

اللہ عزوجل نے بندے بنائے ، اور انھیں کان، آنکھ ،ہاتھ ،پاؤں ، زبان وغیرہا آلات و جوارح عطافرمائے اور انھیں کا م میں لانے کا طریقہ الہام کیا۔ اور ان کے ارادے کا تابع وفرماں بردار کردیا کہ اپنے منافع حاصل کریں اور مضرتوں سے بچیں ۔
پھر اعلی درجہ کے شریف جوہر یعنی عقل سے ممتاز فرمایا جس نے تمام حیوانات پر انسان کا مرتبہ بڑھایا۔ عقل کو ان امور کے ادراک کی طاقت بخشی ۔ خیر وشر، نفع وضرر یہ حواس ظاہری نہ پہچان سکتے تھے ۔ پھر اسے بھی فقط اپنی سمجھ پر بے کس وبے یاور نہ چھوڑا ، ہنوز لاکھوں باتیں جن کو عقل خودادراک نہ کرسکتی تھی ، اور جن کا ادراک ممکن تھا ان میں لغزش کرنے ،ٹھوکر کھانے سے پناہ کے لئے کوئی زبردست دامن ہاتھ میں نہ رکھتی تھی۔ لہذا انبیاء بھیج کر ، کتابیں اتار کر ذراذرا بات کا حسن و قبح خوب جتاکر اپنی نعمت تمام وکمال فرمادی کسی عذر کی جگہ باقی نہ چھوڑی ” لئلا یکون للناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل” ۱؎ (کہ رسولوں کے بعداللہ کے یہاں لوگوں کو کوئی عذر نہ رہے ت)

(۱؂ القرآن الکریم ۴/ ۱۶۵)

حق کا راستہ آفتاب سے زیادہ واضح ہوگیا ۔ ہدایت وگمراہی پر کوئی پردہ نہ رہا ” لا اکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی” ۔۱؂ کچھ زبردستی نہیں دین میں بے شک خوب جدا ہوگئی ہے نیک راہ گمراہی سے (،ت)

(۱؂القرآن الکریم ۲ / ۲۵۶)

باایں ہمہ کسی کا خالق ہونا، یعنی ذات ہو یا صفت ، فعل ہو یاحالت ، کسی معدوم چیز کو عدم سے نکال کر لباس وجود پہنا دینا، یہ اسی کاکام ہے ، یہ نہ اس نے کسی کے اختیار میں دیا نہ کوئی اس کا اختیار پاسکتا تھا، کہ تمام مخلوقات خود اپنی حد ذات میں نیست ہیں ، ایک نیست دوسرے نیست کو کیا ہست بناسکے ، ہست بنانا اسی کی شان ہےجو آپ اپنی ذات سے ہست حقیقی وہست مطلق ہے ، ہاں یہ اس نے اپنی رحمت اور غنائے مطلق سے عادات اجراء فرمائے کہ بندہ جس امر کی طر ف قصد کرے اپنے جوارح ادھر پھیرے ،مولا تعالی اپنے ارادہ سے اسے پیدا فرمادیتا ہے مثلا اس نے ہاتھ دئےان میں پھیلنے ،سمٹنے ،اٹھنے ، جھکنے کی قوت رکھی ، تلوار بنائی ، اس میں دھار ، اور دھار میں کاٹ کی قوت رکھی ۔ اس کا اٹھانا ،لگانا ، وار کرنا بنایا،د وست دشمن کی پہچان کو عقل بخشی ، اسے نیک وبد میں تمیز کی طاقت عطا کی ، شریعت بھیج کر قتل حق و ناحق کی بھلائی برائی صاف جتادی ۔ زید نے وہی خدا کی بتائی ہوئی تلوار ،خدا کے بنائے ہوئے ہاتھ ،خداکی دی ہوئی قوت سے اٹھانے کا قصد کیا ۔ وہ خدا کے حکم سے اٹھ گئی اور جھکاکر ولید کے جسم پر ضرب پہنچانے کا ارادہ کیا ، وہ خدا کے حکم سے جھکی او رولید کے جسم پر لگی ۔ تو یہ ضرب جن امور پر موقوف تھی سب عطائے حق تھے، اور خود جو ضرب واقع ہوئی بارادہ خدا واقع ہوئی ۔ اور اب جو اس ضرب سے ولید کی گردن کٹ جانا پیدا ہوگا یہ بھی اللہ کے پیدا کرنے سے ہوگا ۔ وہ نہ چاہتا تو ایک زید کیا تمام انس وجن وملک جمع ہو کرزور کرتے تو اٹھنا درکنار ، ہرگز جنبش نہ کرتی اور اس کے حکم سے اٹھنے کے بعد اگر وہ نہ چاہتا تو زمین ،آسمان ، پہاڑ سب ایک لنگر بنا کر تلوار کے پیپلے(نوک) پر ڈال دیے جاتے ، نام کو بال برابر نہ جھکتی ۔ اور اس کے حکم سے پہنچنے کے بعد اگر وہ نہ چاہتا گردن کٹنا تو بڑی چیز ہے ممکن نہ تھا کہ خط بھی آتا۔

لڑائیوں میں ہزاروں بار تجربہ ہوچکا کہ تلواریں پڑیں اور خراش تک نہ آئی ،گولیاں لگیں اور جسم تک آتے آتے ٹھنڈی ہوگئیں ، شام کو معرکہ سے پلٹنے کے بعد سپاہیوں کے سر کے بالوں میں سے گولیاں نکلی ہیں ۔ تو زید سے جو کچھ واقع ہوا سب خلق خدا و بارادہ خدا تھا ۔ زید کا بیچ میں صرف اتنا کام رہا کہ اس نے قتل ولید کا ارادہ کیا اور اس طرف اپنے جوارح کو پھیرا اب اگر ولید شرعا مستحق قتل ہے تو زید پر کچھ الزام نہیں رہا بلکہ بارہا ثواب عظیم کا مستحق ہوگا کہ اس نے اس چیز کا قصد کیا اور اس طرف جوارح کو پھیرا جسے اللہ عزوجل نے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے اپنی مرضی ، اپنا پسندیدہ کام ارشاد فرمایا تھا۔ اور اگر قتل ناحق ہے تو یقینا زید پر الزام ہے اور عذاب الیم کامستحق ہوگا کہ بمخالفت حکم شرع اس شےکا عزم کیا ، اور اس طرف جوارح کو متوجہ کیا جسے مولی تعالی نے اپنی کتابوں کے واسطے سے اپنے غضب اپنی ناراضی کاحکم بتایا تھا ، غرض فعل انسان کے ارادہ سے نہیں ہوتا بلکہ انسان کے ارادہ پر اللہ کے ارادہ سے ہوتا ہے یہ نیکی کا ارادہ کرے اور اپنے جوارح کوپھیرے اللہ تعالی اپنی رحمت سے نیکی پیدا کردے گا اور یہ برے کا ارادہ کرے اور جوارح کو اس طرف پھیرے اللہ تعالی اپنی بے نیازی سے بدی کو موجود فرما دے گا ۔ دو پیالیوں میں شہد اور زہر ہیں اور دونوں خود بھی خدا ہی کے بنائے ہوئے ہیں ، شہد میں شفاء ہے اور زہر میں ہلاک کرنے کا اثر بھی اسی نے رکھا ہے ۔ روشن دماغ حکیموں کو بھیج کر بتا بھی دیا ہے، کہ دیکھو یہ شہد ہے اس کے یہ منافع ہیں اور خبردار ! یہ زہر ہے اس کے پینے سے ہلاک ہوجاتا ہے ۔ ان ناصح اور خیر خواہ حکمائے کرام کی یہ مبارک آوازیں تمام جہان میں گونجیں اور ایک ایک شخص کے کان میں پہنچیں ۔ اس پر کچھ نے شہد کی پیالی اٹھاکر پی اور کچھ نے زہر کی ۔ ان اٹھانے والوں کے ہاتھ بھی خدا ہی کے بنائے ہوئے تھے ، اور ان میں پیالی اٹھا نے ، منہ تک لے جانے کی قوت بھی اسی کی رکھی ہوئی تھی ۔منہ اور حلق میں کسی چیز کو جذب کرکے اندر لینے کی قوت ۔ اور خود منہ اور حلق اور معدہ وغیرہ سب اس کےمخلوق تھے ، اب شہد پینے والوں کے جوف میں شہد پہنچا، کیا وہ آپ اس کا نفع پیدا کرلیں گے ؟ یا شہد بذات خود خالق نفع ہوجائے گا؟ حاشا ہر گز نہیں ، بلکہ اس کا اثر پیدا ہونا یہ بھی اسی کے دست قدرت میں ہے اور ہوگا تو اسی کے ارادہ سے ہوگا ۔ وہ نہ چاہے تومنوں شہد پی جائے کچھ فائدہ نہیں ہوسکتا، بلکہ وہ چاہے تو شہد زہر کا اثردے ، یونہی زہر والوں کے پیٹ میں زہر جاکر ، کیا وہ آپ ضرر کی تخلیق کرلیں گے یا زہر خود بخود خالق ضرر ہوجائیگا، حاشا ہر گز نہیں بلکہ اس کا اثر پیدا ہونا یہ بھی اسی کے قبضہ اقتدار میں ہے اور ہوگا تو اسی کے ارادے سے ہوگا ، بلکہ وہ چاہے تو زہر شہد ہوکر لگے ،باایں ہمہ شہد پینے والے ضرور قابل تحسین وآفرین ہیں ، ہر عاقل یہی کہے گا کہ انھوں نے اچھا کیا ،ایسا ہی کرنا چاہے اور زہر پینے والے ضرور لائق سزا و نفریں ہیں ، ہر ذی ہوش یہی کہے گا کہ یہ بد بخت خودکشی کے مجرم ہیں۔

دیکھو اول سے آخر تک جو کچھ ہو اسب اللہ ہی کے ارادے سے ہوا ۔ اور جتنے آلات اس کام میں لئے گئے سب اللہ ہی کے مخلوق تھے اور اسی کے حکم سے انھوں نے کام دیے، جو تمام عقلاء کے نزدیک ایک فریق کی تعریف ہے اور دوسرے کی مذمت ، تمام کچہریاں جو عقل سے حصہ رکھتی ہوں ان زہر نوشوں کو مجرم بنائیں گی ،پھر کیوں بناتی ہیں ، نہ زہر ان کا پیدا کیا ہوا نہ زہر میں قوت اہلاک ان کی رکھی ہوئی ، نہ ہاتھ ان کا پیداکیا ہوا نہ اس کے بڑھانے اٹھانے کی قوت ان کی رکھی ہوئی ، نہ دہن وحلق ان کے پیدا کئے ہوئے نہ ان میں جذب و کشش کی قوت ان کی رکھی ہوئی ،نہ حلق سے اتر جانا ان کے ارادے سے ممکن تھا ،آدمی پانی پیتا ہے اور چاہتا ہے کہ حلق سے اترے مگر اچھو ہو کر نکل جاتا ہے اس کا چاہانہیں چلتا۔ جب تک وہی نہ چاہے جو صاحب سارے جہاں کا ہے۔

اب حلق سے اترنے کے بعد تو ظاہر ی نگاہوں میں بھی پینے والے کا اپنا کوئی کام نہیں ،خون میں اس کا ملنا اور خون کا اسے لے کر دورہ کرنا اور دورہ میں قلب تک پہنچنا اور وہاں جاکر اسے فاسد کردینا یہ کوئی فعل نہ اس کے ارادے سے ہے نہ اس کی طاقت سے بہتیرے زہر پی کر نادم ہوتے ہیں ، پھر ہزار کوشش کرتے ہیں جو ہونی ہے ہوکر رہتی ہے ۔ اگر اس کے ارادہ سے ضرر ہوتا تو اس ارادہ سے باز آتے ہی زہر باطل ہوجانا لازم تھا، مگر نہیں ہوتا تو معلوم ہوا کہ اس کا ارادہ بے اثر ہے پھر اس سے کیوں باز پرس ہوتی ہے ؟ ہاں ، باز پرس کی وہی وجہ ہے کہ شہد اور زہر اسے بتادیے تھے ، عالی قدر حکمائے عظام کی معرفت سے نفع نقصان جتادیے تھے ، دست ودہاں وحلق اس کے قابو میں کردیے تھے ، دیکھنے کو آنکھ ،سمجھنے کو عقل اسے دے دی تھی ، یہی ہاتھ جس سے اس نے زہر کی پیالی اٹھا کر پی ، جام شہد کی طرف بڑھاتا اللہ تعالی اسی کا اٹھنا پیداکردیتا ، یہاں تک کہ سب کام اول تا آخر اسی کی خلق و مشیت سے واقع ہو کر اس کے نفع کے موجب ہوتے مگرا س نے ایسا نہ کیا بلکہ کاسہ زہر کی طرف ہاتھ بڑھایا ور اس کے پینے کا عزم لایا وہ غنی بے نیاز دونوں جہان سے بے پروا ہے وہاں تو عادت جاری ہورہی ہے کہ یہ قصد کرے اور وہ خلق فرمادے ، اس نے اسی کا سہ کا اٹھنا اور حلق سے اترنا دل تک پہنچنا وغیرہ وغیرہ پیدا فرمادیا پھر یہ کیونکر بے جرم قرار پا سکتا ہے۔ انسان میں یہ قصد و ارادہ واختیار ہونا ایسا واضح و روشن وبدیہی امر ہے جس سے انکار نہیں کرسکتامگر مجنون ، ہر شخص سمجھتا ہے کہ مجھ میں اور پتھر میں ضرور فرق ہے ہر شخص جانتا ہے کہ انسان کےچلنے پھرنے ،کھانے پینے ، اٹھنے بیٹھنے وغیرہ وغیرہ افعال کے حرکات ارادی ہیں ہر شخص آگاہ ہےکہ انسان کا کام کرنے کے لئے ہاتھ کو حرکت دینا اور وہ جنبش جو ہاتھ کو رعشہ سے ہو ، ان میں صریح فرق ہے ہر شخص واقف ہےکہ جب وہ اوپر کی جانب جست کرتا اوراس کی طاقت ختم ہونےپر زمیں پر گرتا ہے ان دونوں حرکتوں میں تفرقہ ہے اوپر کودنا اپنے اختیار و ارادہ سے تھا اگر نہ چاہتا نہ کودتا اور یہ حرکت تما م ہوکر اب زمیں پر آنا اپنے ارادے واختیار سے نہیں۔

ولہذا اگر رکنا چاہے تو نہیں رک سکتا ، بس یہی ارادہ ، یہی اختیار جو ہر شخص اپنے نفس میں دیکھ رہا ہے عقل کے ساتھ اس کا پایا جانا، یہی مدار امر و نہی وجزا وسزا وعقاب وپرسش وحساب ہے ، اگرچہ بلاشبہہ بلا ریب قطعا یقینا یہ ارادہ واختیار بھی اللہ عزوجل ہی کا پیدا کیا ہو ا ہے جیسے انسان خود بھی اسی کا بنایا ہوا ہے آدمی جس طرح نہ آپ سے آپ بن سکتا تھا نہ اپنے لئے آنکھ ، کان ، ہاتھ، پاؤں ،زبان وغیرہا بنا سکتا تھا ، یو نہی اپنے لئے طاقت ، قوت ،ارادہ ،اختیار بھی نہیں بنا سکتا ، سب کچھ اس نے دیا اور اسی نے بنایا ، مگر اس سے یہ سمجھ لینا کہ جب ہمارا ارادہ و اختیار بھی خدا ہی کا مخلوق ہے تو پھر ہم پتھر ہوگئے قابل سزاوجزاوباز پرس نہ رہے ، کیسی سخت جہالت ہے ، صاحبو ! تم میں خدا نے کیا پیدا کیا ؟ ارادہ و اختیار ، تو ان کے پیدا ہونے سے تم صاحب ارادہ ۔ صاحب اختیار ہوئے یا مضطر ، مجبور ،ناچار ،صاحبو ! تمھاری اور پتھر کی حرکت میں فرق کیا تھا، یہ کہ وہ ارادہ واختیار نہیں رکھتا اور تم میں اللہ تعالی نے یہ صفت پیدا کی عجب عجب کہ وہی صفت جس کے پیدا ہونے نے تمھاری حرکات کو پتھر کی حرکات سے ممتاز کردیا ،اسی کی پیدائش کو اپنے پتھر ہوجانے کا سبب سمجھو یہ کیسی الٹی مت ہے ؟ اللہ تعالی نے ہماری آنکھیں پیدا کیں ان میں نور خلق کیا اس سے ہم انکھیارے ہوئے نہ کہ معاذاللہ اندھے یونہی اس نے ہم میں ارادہ و اختیار پیدا کیا اس سے ہم اس کی عطاکے لائق مختار ہوئے ،نہ کہ الٹے مجبور۔

ہاں یہ ضرور ہے کہ جب وقتا فوقتا ہر فرد اختیار بھی اسی کی خلق اسی کی عطا ہے ہماری اپنی ذات سے نہیں تو مختار کردہ ہوئے خود مختار نہ ہوئے پھر اس میں کیا حرج ہے ؟ بندے کی شان ہی نہیں کہ خودمختار ہوسکے نہ جزا وسزا کے لئے خود مختار ہونا ہی ضرور ۔ ایک نوع اختیار چاہیے ، کس طرح ہو ، وہ بداہۃ حاصل ہے۔

آدمی انصاف سے کام لے تو اسی قدر تقریر ومثال کافی ہے شہد کی پیالی اطاعت الہی ہے اور زہر کا کاسہ اس کی نافرمانی اور وہ عالی شان حکماء انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام ۔ اور ہدایت اس شہد سے نفع پانا ہے کہ اللہ ہی کے ارادے سے ہوگا اور ضلالت اس زہر کا ضرور پہنچنا کہ یہ بھی اسی کے ارادے سے ہوگا مگر اطاعت والے تعریف کئے جا ئیں گے اور تمرد (سرکشی) والے مذموم وملزم ہو کر سزا پائیں گے۔

پھر بھی جب تک ایمان باقی ہے یغفرلمن یشاء ۔ ۱؂ (جسے چاہے بخش دے ۔ت) باقی ہے۔

(القرآن الکریم ۲ / ۲۸۴)

والحمد للہ رب العٰلمین ، لہ الحکم و الیہ ترجعون ۔ اور سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو پروردگار ہے تمام جہانوں کا ، حکم اسی کا ہے اور اسی کی طرف تمھیں لوٹنا ہے۔(ت)
قرآن عظیم میں یہ کہیں نہیں فرمایا کہ ان اشخاص کو زیادہ ہدایت نہ کرو ۔۔۔۔ ہاں یہ ضرور فرمایا ہے کہ ہدایت ضلالت سب اس کے ارادہ سے ہے ، اس کا بیان بھی ہوچکا اور آئندہ ان شاء اللہ تعا لی اور زیادہ واضح ہوگا۔

نیز فرمایا: ان الذین کفروا سواء علیہم ء انذرتھم ام لم تنذرھم لا یؤمنون۔ ۱؂ وہ علم الہی میں کافر ہیں انھیں ایک سا ہے چاہے تم ان کو ڈراؤ یا نہ ڈراؤ وہ ایمان نہ لائیں گے۔

(۱؂ القرآن الکریم ۲ / ۶)

ہمارے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم تمام جہان کے لئے رحمت بھیجے گئے جو کافر ایمان نہ لاتے ان کا نہایت غم حضورصلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو ہوتا، یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے فرمایا: فلعلک باخع نفسک علی اٰثارھم ان لم یؤمنوا بھذا الحدیث اسفا ۔ ۲؂ شاید تم ان کے پیچھے اپنی جان پر کھیل جاؤگئے اس غم میں کہ وہ اس کلام پر ایمان نہ لائیں ۔

(۲؂ القرآن الکریم ۱۸ / ۶)

لہذا حضور کی تسکین خاطر اقدس کو یہ ارشاد ہوا ہےکہ جو ہمارے علم میں کفر پر مرنے والے ہیں والعیاذ باللہ تعالی وہ کس طرح ایمان نہ لائیں گے ، تم اس کا غم نہ کرو۔لہذا یہ فرمایا کہ تمھارا ” سمجھانا نہ سمجھانا “ان کو ” یکساں ہے ۔ یہ نہیں فرمایا کہ ” تمھارے حق میں ” یکساں ہے ، کہ ہدایت معاذاللہ امر فضول ٹھرے ۔ ہادی کا اجر اللہ پر ہے ، چاہے کوئی مانے نہ مانے ۔

وما علی الرسول الا البلاغ المبین ۔ ۳؂ اور رسول کےذمہ نہیں مگر صاف پہنچادینا (ت)

(۳؂ القرآن الکریم ۲۴ /۵۴)

وما اسئلکم علیہ من اجر ان اجری الا علی رب العالمین ؕ۴؂ اور میں تم سے اس پر کچھ اجرت نہیں مانگتا ، میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہاں کا رب ہے .

(۴؂القرآن الکریم ۲۶/ ۱۰۹)

اللہ خوب جانتا ہے اور آج سے نہیں ازل الآزال سے کہ اتنے بندے ہدایت پائیں گے اور اتنے چاہ ضلالت میں ڈوبیں گئے،مگر کبھی اپنے رسولوں کو ہدایت سےمنع نہیں فرمایا کہ جو ہدایت پانے والے ہیں ان کے لئے سبب ہدایت ہوں اور جو نہ پائیں ان پر حجت الہیہ قائم ہو ۔ وللہ الحجۃ البالغۃ (اور اللہ ہی کی حجت پوری ہے ۔ت)

ابن جریر عن انس رضی اللہ تعالی عنہ قال لما بعث اللہ تعالی موسی علیہ الصلاۃ والسلام الی فرعون نودی لن یفعل ، فلم افعل ؟ فقال فناداہ اثنا عشر ملکا من علماء الملئکۃ : امض لما امرت بہ ، فانا جھدنا ان نعلم ھذا فلم نعلمہ ۔۱؂ ابن جریر نے حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ جب سیدنا موسی علیہ الصلاۃ والسلام کو مو لی عزوجل نے رسول کرکے فرعون کی طرف بھیجا موسی علیہ السلام چلے تو ندا ہوئی مگر اے موسی فرعون ایمان نہ لائے گا ، موسی نے دل میں کہا پھر میرے جانے سے کیا فائدہ ہے ؟ اس پر بارہ علماء ملائکہ عظام علیہم السلام نےکہا اے موسی آپ کو جہاں کا حکم ہے جائیے ، یہ وہ راز ہے کہ باوصف کوشش آج تک ہم پر بھی نہ کھلا ۔

(۱؂)

اور آخر نفع بعثت سب نے دیکھ لیا کہ دشمنان خدا ہلاک ہوئے ،دوستان خدا نے ان کی غلامی ، ان کے عذاب سے نجات پا ئی ایک جلسے میں ستر ہزار ساحر سجدہ میں گرگئے اور ایک زبان بولے : اٰمنا برب العالمین رب موسی وھارون ۲؂ ہم اس پر ایمان لائے جو رب ہے سارے جہاں کا ، رب ہے موسی وہارون کا .

(۲؂ القرآن الکریم ۷/ ۱۲۱و۱۲۲)

مولی عزوجل قادر تھا اور ہے کہ بے کسی نبی وکتاب کے تمام جہان کو ایک آن میں ہدایت فرمادے۔ ولو شاء اللہ لجمعھم علی الھدی فلا تکونن من الجٰھلین ۳؂ اور اللہ چاہتا تو انہیں ہدایت پر اکٹھا کردیتا تو اے سننے والے ! تو ہرگز نادان نہ بن ۔

(۳؂ القرآن الکریم ۶/ ۳۵)

مگر اس نے دنیا کو عالم اسباب بنایا ہے اور ہر نعمت میں اپنی حکمت بالغہ کے مطابق مختلف حصہ رکھا ہے وہ چاہتا تو انسان وغیرہ جانداروں کو بھوک ہی نہ لگتی ، یا بھوکے ہوتے تو کسی کا صرف نام پاک لینے سے ، کسی کا ہوا سونگھنے سے پیٹ بھرتا ، زمین جوتنے سے روٹی پکانے تک جو سخت مشقتیں پڑتی ہیں کسی کو نہ ہوتیں ،مگر اس نے یونہی چاہا اور اس میں بھی بے شمار اختلاف رکھا کسی کو اتنا دیا کہ لاکھوں پیٹ اس کے در سے پلتے ہیں، اورکسی پر اس کے اہل وعیال کے ساتھ تین تین فاقےگزرتے ہیں ۔

غرض ہر چیز میں اھم یقسموں رحمۃ ربک ۔ نحن قسمنا بینھم ۴؂ ( کیا تمھارے رب کی رحمت وہ بانٹتے ہیں ،ہم نے ان میں ان کی زیست کا سامان دنیا کی زندگی میں بانٹا ۔ت)

(۴؂ القرآن الکریم ۴۳/ ۳۲)

کی نیرنگیاں ہیں۔ احمق ،بد عقل،یا اجہل بددین وہ اس کے ناموس میں چون وچرا کرےکہ یوں کیوں کیا یوں کیوں نہ کیا؟ سنتا ہے اس کی شان ہے یفعل اللہ مایشاء ۵؂ اللہ جو چاہے کرتا ہے

(۵؂ القرآن الکریم ۱۴ / ۲۷)

اس کی شان ہے ان اللہ یحکم مایرید ۶؂ اللہ جو چاہے حکم فرماتا ہے ۔

(۶؂ القرآن الکریم ۵ /۱)

اس کی شان ہے لا یسئل عما یفعل وھم یسئلون ۱ ؂ وہ جو کچھ کرے اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں اور سب سے سوال ہوگا

(۱؂القرآن الکریم ۲۱ /۲۳)

زید نے روپے کی ہزار اینٹیں خریدیں ، پانچسو ۵۰۰ مسجد مں لگائیں، پانسو ۵۰۰ پاخانہ کی زمین اور قد مچوں میں کیا اس سے کوئی الجھ سکتا ہے کہ ایک ہاتھ کی بنائی ہوئی ، ایک مٹی سے بنی ہوئی ،ایک آوے سے پکی ہوئی ایک روپے کی مول لی ہوئی ہزار اینٹیں تھیں ، ان پانسو میں کیا خوبی تھی کہ مسجد میں صرف کیں ، اور ان میں کیا عیب تھا کہ جائے نجاست میں رکھیں اگر احمق اس سے پوچھے بھی تو وہ یہی کہے گا کہ میری ملک تھیں میں نے جو چاہا کیا۔

جب مجازی جھوٹی ملک کا یہ حال تو حقیقی سچی ملک کا کیا پوچھنا۔ ہمارا اور ہماری جان ومال اور تمام جھان کا وہ ایک اکیلا پاک نرالا سچا مالک ہے۔ اس کے کام ، اس کے احکام میں کسی کو مجال دم زدن کیا معنی ! کیا کوئی اسکا ہمسر یا اس پر افسر ہے جو اس سے کیوں اور کیا کہے۔مالک علی الاطلاق ہے ، بے اشتراک ہے ، جو چاہا کیا اور جو چاہے کرے گا، ذلیل فقیر بے حیثیت حقیر اگر بادشاہ جبار سے الجھے تو اسکا سر کھجایا ہے ، شامت نے گھیرا ہے اس ہر عاقل یہی کہے گا کہ او بد عقل ، بے ادب !اپنی حد پر رہ ، جب یقینا معلوم ہے کہ بادشاہ کمال عادل اور جمیع کمال صفات میں یکتا وکامل ہے تو تجھے اس کے احکام میں دخل دینے کی کیا مجال! ؂

گدائے خاک نشینی تو حافظا مخروش نظام مملکت خویش خسرواں دانند ۲؂ (تو خاک نشینی گداگر ہے اے حافظ ! شور مت کر ، اپنی سلطنت کے نظام کو بادشاہ جانتے ہیں ت)

(۲؂ دیوان حافظ ردیف شین معجمہ سب رنگ کتا ب گھر دہلی ص ۲۵۸)

افسوس کہ دنیوی ، مجازی ،جھوٹے بادشاہوں کی نسبت تو آدمی کو یہ خیال ہو اور ملک الملوک بادشاہ حقیقی جل جلالہ کے احکام میں رائے زنی کرے ، سلاطین تو سلاطین اپنا برابر زئی بلکہ اپنے سے بھی کم رتبہ شخص بلکہ اپنا نوکر یا غلام جب کسی صفت کا استاد ماہر ہو اور خود یہ شخص اس سے آگاہ نہیں تو اس کے اکثر کاموں کو ہر گز نہ سمجھ سکے گا، یہ اتنا ادراک ہی نہیں رکھتا ، مگر عقل سے حصہ ہے تو اس پر معترض بھی نہ ہوگا۔ جان لے گا کہ یہ اس کام کا استاد وحکیم ہے ، میرا خیال وہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔

غرض اپنی فہم کو قاصر جانے گانہ کہ اس کی حکمت کو ۔ پھر رب الارباب ، حکیم حقیقی ، عالم السر والخفی عزجلالہ کے اسرار میں خوض کرنا اور جو سمجھ میں نہ آئے اس پر معترض ہونا اگر بے دینی نہیں جنون ہے۔ اگر جنون نہیں بے دینی ہے ، والعیاذ باللہ رب العالمین۔

اے عزیز ! کسی بات کو حق جاننے کےلئے اس کی حقیقت جاننی لازم نہیں ہوتی ، دنیا جانتی ہے کہ مقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے ، اور مقناطیسی قوت دیا ہوا لوہاستارہ قطب کی طرف توجہ کرتا ہے۔ مگر اس کی حقیقت و کنہ کوئی نہیں بتا سکتا کہ اس خا کی لوہے اور اس افلاکی ستارے میں کہ یہاں سے کروڑوں میل دور ہے باہم کیاالفت ؟ اور کیونکر اسے اس کی جہت کا شعور ہے ؟ اور ایک یہی نہیں عالم میں ہزاروں ایسے عجائب ہیں کہ بڑے بڑے فلاسفہ خاک چھان کر مرگئے اور ان کی کنہ نہ پائی۔ پھر اس سے ان باتوں کا انکار نہیں ہوسکتا ،آدمی اپنی جان ہی کو بتائے وہ کیا شیئ ہے جسے یہ ” میں ” کہتا ہے ، اور کیا چیز جب نکل جاتی ہے تو یہ مٹی کا ڈھیر بے حس وحرکت رہ جاتاہے۔

اللہ جل جلالہ فرقان حکیم میں فرماتا ہے : وماتشاؤون الا ان یشاء اللہ رب العالمین ۔ ۱؂ تم کیا چاہو ، مگر یہ کہ چاہے اللہ رب سارے جہان کا۔

(۱؂ القرآن الکریم ۸۱/۲۹)

اور فرماتا ہے : ھل من خالق غیر اللہ ۲؂ کیا کوئی اور بھی کسی چیز کا خالق ہے سوا اللہ کے

(۲؂القرآن الکریم ۳۵/۳)

اور فرماتا ہے : لھم الخیرۃ ۳؂ اختیا ر خاص اسی کو ہے

(۳؂القرآن الکریم ۲۸/ ۶۸ و؂ القرآن الکریم ۳۳ / ۳۶)

اور فرماتا ہے : الا لہ الخلق والا مر تبرک اللہ رب العالمین ۴؂ سنتےہو پیداکرنا اور حکم دینا اسی کے لیے ہے بڑی برکت والاہے اللہ مالک سارے جہان کا ۔

(۴؂القرآن الکریم ۷/ ۵۴)

یہ آیات کریمہ صاف ارشاد فرمارہی ہیں کہ پید ا کرنا ، عدم سے وجود میں لانا خاص اسی کا کام ہے ، دوسرے کو اس میں اصلا (بالکل) شرکت نہیں ، نیز اصل اختیار اسی کا ہے ، نیز بے اس کی مشیت کے کسی کی مشیت نہیں ہوسکتی۔

اور وہی مالک ومولی جل وعلا اسی قرآن کریم میں فرماتا ہے: ذلک جزینھم ببغیھم وانا لصٰد قون۔ ۱؂ یہ ہم نے ان کی سرکشی کا بدلہ انھیں دیا ، اور بیشک بالیقین ہم سچے ہیں۔

(۱؂ القرآن الکریم ۶/ ۱۴۶)

اور فرماتا ہے: وماظلمنٰھم ولکن کانوا انفسھم یظلمون ۔۲؂ ہم نے ان پر کچھ ظلم نہ کیا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے

(۲؂القرآن الکریم ۱۶/ ۱۱۸)

اور فرماتا ہے : اعملوا ما شئتم انہ بما تعملون بصیر ۔۳؂ جو تمھارا جی چاہے کئے جاؤ اللہ تمھارے کاموں کو دیکھ رہا ہے۔

(۳؂ القرآن الکریم ۴۱/ ۴۰)

اورفرماتا ہے: وقل الحق من ربکم فمن شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر انا اعتدنا للظٰالمین نارا احاط بھم سرادقھا۔۴؂ اے نبی ! تم فرمادو کہ حق تمھارے رب کے پاس سے ہے تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے بیشک ہم نے ظالموں کے لئے وہ آگ تیار کررکھی ہے جس کے سراپردے انھیں گھیریں گے ہر طرف آگ ہی آگ ہوگی ۔

(۴؂القرآن الکریم ۱۸ /۲۹)

اور فرماتا ہے: قال قرینہ ربنا ما اطغیتہ ولٰکن کا ن فی ضلال بعید ط قال لا تختصموا لدی وقد قدمت الیکم بالوعید ط ما یبدل القول لدی وما انا بظلام للعبید۔ ۱؂ کافر کا ساتھی شیطان بولا اے رب ہمارے! میں نے انھیں سرکش نہ کردیا تھا یہ آپ ہی دور کی گمراہی میں تھا ، رب عزوجل نے فرمایا میرے حضور فضول جھگڑا نہ کرو، میں توتمھیں پہلے ہی سزا کا ڈر سنا چکا تھا ، میرے یہاں بات بدلی نہیں جاتی ،اور نہ میں بندوں پر ظلم کروں۔

(۱؂القرآن الکریم ۵۰/ ۲۷و۲۹)

یہ آیتیں صاف ارشاد فرمارہی ہیں کہ بندہ خود ہی اپنی جان پرظلم کرتا ہے وہ اپنی ہی کرنی بھرتا ہے وہ ایک حرام کا اختیار وارادہ ضرور رکھتا ہے ، اب دونوں قسم کی سب آیتیں قطعا مسلمان کا ایمان ہیں۔ بے شک بے شبہ بندہ کے افعال کاخالق بھی خدا ہی ہے ۔ بے شک بندہ بے ارادہ الہیہ کچھ نہیں کرسکتا ،اور بے شک بندہ اپنی جان پر ظلم کرتا ہے ،بے شک وہ اپنی ہی بداعمالیوں کے سبب مستحق سزا ہے۔
یہ دونوں باتیں جمع نہیں ہوسکتیں مگر یونہی کہ عقیدہ اہل سنت وجماعت پرایمان لایاجائے ، وہ کیا بات ہے؟ وہ جو اہل سنت کے سردار ومولی امیر المؤمنین علی مرتضی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم نے انہیں تعلیم فرمایا ۔

ابو نعیم حلیۃ الاولیاء میں بطریق امام شافعی عن یحیی بن سلیم امام جعفر صادق سے ،وہ حضرت امام باقر ،وہ حضرت عبداللہ بن جعفر طیار ، وہ امیر المؤمنین مولی علی رضی اللہ تعالی عنھم سے راوی : انہ خطب الناس یوما (فذکر خطبتہ ثم قال) فقام الیہ رجل ممن کان شھد معہ الجمل ، فقال یاامیر المؤمنین اخبرنا عن القدر ، فقال بحر عمیق فلا تلجہ ، قال یا امیر المؤمنین اخبرنا عن القدر ، قال سر اللہ فلا تتکلفہ، قال یا امیر المؤمنین اخبرنا عن القدر ، قال اما اذا ابیت فانہ امر بین امرین لا جبر ولا تفویض ، قال یا امیر المؤمنین ان فلانا یقول بالاستطاعۃ ، وھو حاضرک ، فقال علی بہ فاقاموہ، فلما راٰہ سل سیفہ قدر اربع اصابع ، فقال الاستطاعۃ تملکھا مع اللہ او من دون اللہ ؟ وایاک ان تقول احدھما فترتد فاضرب عنقک ، قال فما اقول یا امیر المؤمنین قال قل املکھا باللہ الذی ان شاء ملکنیھا۔ ۱؂

یعنی ایک دن امیر المؤمنین خطبہ فرمارہے تھے ، ایک شخص نے کہ واقعہ جمل میں امیر المؤمنین کے ساتھ تھے کھڑے ہوکر عرض کی : یا امیر المؤمنین ! ہمیں مسئلہ تقدیر سے خبر دیجئے ، فرمایا : گہرا دریا ہے اس میں قدم نہ رکھ، عرض کی : یا امیر المؤمنین ! ہمیں خبر دیجئے ،فرمایا : اللہ کا راز ہے زبردستی اس کابوجھ نہ اٹھا ۔عرض کی : یا امیرا لمؤمنین ہمیں خبر دیجئے فرمایا : اگر نہیں مانتا تو ایک امر ہے دو امروں کے درمیان ، نہ آدمی مجبور محض ہے نہ اختیار اسے سپرد ہے ۔ عرض کی : یا امیر المؤمنین فلاں شخص کہتا ہے کہ آدمی اپنی قدرت سےکام کرتا ہے ، اور وہ حضور میں حاضر ہے ، مولی علی فرمایا: میرے سامنے لاؤ ، لوگوں نے اسے کھڑا کیا۔جب امیر المؤمنین نے اسے دیکھا تیغ مبارک چار انگل کے قدر نیام سے نکال لی اور فرمایا : کام کی قدرت کا توخدا کے ساتھ مالک ہے یا خدا سےجدا مالک ہے ؟ اور سنتا ہے خبردار ان دونوں میں سے کوئی بات نہ کہنا کہ کافر ہوجائیگا اور میں تیری گردن ماردوں گا ۔ اس نے کہا : یا ا میر المؤمنین ! پھر میں کیا کہوں ؟فرمایا: یوں کہہ کہ اس خدا کے دیے سے اختیار رکھتا ہوں کہ اگر وہ چاہے تو مجھے اختیار دے بے اس کی مشیت کے مجھے کچھ اختیار نہیں۔

(۱؂ حلیۃ الاولیاء )

بس یہی عقیدہ اہلسنت ہے کہ انسان پتھر کی طرح مجبور محض ہے نہ خود مختار ، بلکہ ان دونوں کے بیچ میں ایک حالت ہےجس کی کنہ راز خدا اور ایک نہایت عمیق دریا ہے۔ اللہ عزوجل کی بے شمار رضا ئیں امیر المؤمنین علی پر نازل ہوں کہ ان دونوں الجھنوں کو دوفقروں میں صاف فرمادیا ، ایک صاحب نے اسی بارےمیں سوال کیا کہ کیا معاصی بھی بے ارادہ الہیہ واقع نہیں ہوتے ؟ فرمایا تو کیا کو ئی زبردستی اس کی معصیت کرلے گا افیعصی قھرا یعنی وہ نہ چاہتا تھا کہ اس سے گناہ ہو مگر اس نے کرہی لیا تو اس کا ارادہ زبردست پڑا معاذاللہ خدا بھی دنیا کےمجازی بادشاہوں کی طرح ہوا کہ وہ ڈاکوؤں ، چوروں کابہتیرا بندوبست کریں پھر بھی ڈاکو اور چور اپنا کام کر ہی گزرتے ہیں۔حاشا وہ ملک الملوک بادشاہ حقیقی قادر مطلق ہر گز ایسا نہیں کہ اس کےملک میں بے اس کےحکم کےایک ذرہ جنبش کرسکے ، وہ صاحب کہتے ہیں فکانما القمنی حجرا۲؂ مولی علی نے یہ جواب دے کر گویا میرے منہ میں پتھر رکھ دیا کہ آگے کچھ کہتے بن ہی نہ پڑا۔

(۲؂ قول مولی علی )

عمرو بن عبید معتزلی کہ بندے کے افعال خداکے ارادہ سےنہ جانتا تھا کہ خود کہتا ہے کہ مجھے کسی نے ایسا الزام نہ دیا جیسا ایک مجوسی نےدیا جو میرے ساتھ جہاز میں تھا ،میں نے کہا تو مسلمان کیوں نہیں ہوتا ؟ کہا خدا نہیں چاہتا،میں نے کہا خدا تو چاہتا ہے مگر شیطان تجھے نہیں چھوڑتے ، کہا تو میں شریک غالب کے ساتھ ہوں ، اسی ناپاک شناعت کے رد کی طرف مولی علی نے اشارہ فرمایا کہ وہ نہ چاہے تو کیا کوئی زبردستی اس کی معصیت کرلے گا؟۔ باقی رہا اس مجوسی کا عذر ، وہ بعینہ ایسا ہے کہ کوئی بھوکا ہے بھوک سے دم نکالا جاتا ہے ،کھاناسامنے رکھا ہے اور نہیں کھاتا کہ خدا کا ارادہ نہیں ، اس کا ارادہ ہوتا تو میں ضرور کھالیتا ، اس احمق سے یہی کہا جائے گا کہ خدا کا ارادہ نہ ہونا تونے کاہے سے جانا ؟ اسی سے کہ تو نہیں کھاتا ، تو کھانے کا قصد توکر، دیکھ تو ارادہ الہیہ سے کھانا ہوجائے گا۔ ایسی اوندھی مت اسی کوآنی ہے جس پر موت سوار ہے۔ غرض مولی علی نے یہ تو اس کا فیصلہ فرمایا کہ جو کچھ ہوتا ہے بے ارادہ الہیہ نہیں ہوسکتا ۔

دوسر ی بات کہ جزاوسزا کیوں ہے ! ۔ اس کا یوں فیصلہ ارشاد ہوا ، ابن ابی حاتم و اصبہانی و لالکائی وخلعی حضرت امام جعفر صادق وہ اپنے والد ماجد حضرت امام باقر رضی اللہ تعالی عنھما سےروایت کرتے ہیں ، قال قیل لعلی بن ابی طالب ان ھٰھنا رجلا یتکلم فی المشیئۃ فقال لہ علی یا عبداللہ خلقک اللہ لما یشاء او لما شئت ؟ قال بل لمایشاء قال فیمرضک اذا شاء أو اذا شئت ؟ قال بل اذا شاء ، قال فیمیتک اذا شاء او اذا شئت ؟ قال اذا شاء ، قال فیدخلک حیث شاء او حیث شئت ؟ قسال بل حیث یشاء ، قال واللہ لو قلت غیر ذلک لضربت الذی فیہ عیناک بالسیف ۔ ثم تلا علی : وماتشاؤون الا ان یشاء اللہ ھو اھل التقوی واھل المغفرۃ ۱؂

مولی علی سے عرض کی گئی کہ یہاں ایک شخص مشیت میں گفتگو کرتا ہے ، مولی علی نے اس سے فرمایا ، اےخدا کےبندے ! خدا نے تجھے اس لئے پیدا کیا جس لئے اس نے چاہا یا اس لئے جس لئے تو نے چاہا ؟کہا : جس لئے اس نے چاہا ، فرمایا :تجھے جب وہ چاہے بیمارکرتا ہے یا جب تو چاہے ؟ کہا :بلکہ جب وہ چاہے ۔فرمایا: تجھے اس وقت وفات دے گا جب وہ چاہے یا جب تو چاہے ؟ کہا جب وہ چاہے۔فرمایا: توتجھے وہاں بھیجے گاجہاں وہ چاہے یا جہاں تو چاہے ؟ کہا : جہاں وہ چاہے ، فرمایا: خدا کی قسم تو اس کے سوا کچھ اور کہتا تو یہ جس میں تیری آنکھیں ہیں (یعنی تیراسر) تلوار سےمار دیتا ۔ پھر مولی علی نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی : ” اور تم کیا چاہو مگر یہ کہ اللہ چاہے وہ تقوی کا مستحق اور گناہ عفو فرمانے والا ہے ۔”

(۱؂ الدر المنثور بحوالہ ابن ابی حاتم واللالکائی فی السنۃ الخلفی فی فوائدہ عن علی تحت الآیۃ ۲۲ /۲۳ دار احیاء التراث العربی بیروت ۶ /۱۸و۱۹)

خلاصہ یہ کہ جو چاہا کیا اور جو چاہے گا کرے ، بناتے وقت تجھ سے مشورہ نہ لیا تھا بھیجتے وقت بھی نہ لے گا ،تمام عالم اس کی ملک ہے ، اورمالک سے دربارہ ملک سوال نہیں ہوسکتا۔

ابن عساکر نے حارث ہمدانی سےروایت کی ایک شخص نے آکر امیر المؤمنین مولی علی سے عرض کی : یاامیرالمؤمنین !مجھے مسئلہ تقدیر سے خبر دیجئے ۔فرمایا : تاریک راستہ ہے اس میں نہ چل ۔عرض کی : یا امیرالمؤمنین !مجھے خبر دیجئے ۔فرمایا: گہرا سمندر ہے اور اس میں قدم نہ رکھ ،عرض کی :یا امیرالمؤمنین ! فرمایا اللہ کا راز ہے تجھ پر پوشیدہ ہے اسے نہ کھول ، عرض کی :یا امیرالمؤمنین !مجھے خبر دیجئے ۔فرمایا : ” ان اللہ خالقک کما شاء او کما شئت ” اللہ نے تجھے جیسا اس نے چاہا بنایا یا جیسا تو نے چاہا؟ عرض کی : جیسا اس نے چاہا : فرمایا : ” فیستعملک کما شاء او کما شئت ” توتجھ سےکام ویسا لے گا جیسا وہ چاہے یا جیسا تو چاہے ؟عرض کی : جیساوہ چاہے ۔فرمایا : ” فیبعثک یوم القیٰمۃ کما شاء او کما شئت ” تجھے قیامت کے دن جس طرح وہ چاہے گا اٹھائے گا یا جس طرح تو چاہے ؟ ۔کہا : جس طرح وہ چاہے ۔ فرمایا : “ایھا السائل تقول لا حول ولا قوۃ الا بمن ” اے سائل! تو کہتا ہے کہ نہ طاقت ہے نہ قوت ہے مگر کس کی ذات سے ؟۔ کہا: اللہ علی عظیم کی ذات سے ۔ فرمایا تو اس کی تفسیر جانتا ہے ؟۔ عرض کی ” امیرالمؤمنین کو جو علم اللہ نے دیا ہے اس سے مجھے تعلیم فرمائیں۔فرمایا : “ان تفسیرھا لا یقدر علی طاعۃ اللہ ولا یکون قوۃ فی معصیۃ اللہ فی الامرین جمیعا الا باللہ ” اس کی تفسیر یہ ہے کہ نہ طاعت کی طاقت ، نہ معصیت کی قوت دونوں اللہ ہی کے دیے سے ہیں ۔ پھر فرمایا: ” ایھا السائل الک مع اللہ مشیۃ او دون اللہ مشیۃ ، فان قلت ان لک دون اللہ مشیۃ ، فقد اکتفیت بھا عن مشیۃ اللہ وان زعمت ان لک فوق اللہ مشیۃ فقد ادعیت مع اللہ شرکا فی مشیتہ ” اے سائل : تجھے خدا کے ساتھ اپنے کام کا اختیار ہے یا بے خدا کے ؟ اگر تو کہے کہ بے خدا کے تجھے اختیار حاصل ہے تو تونے ارادہ الہیہ کی کچھ حاجت نہ رکھی ، جو چاہے خود اپنے ارادے سےکرلے گا ، خدا چاہے یا نہ چاہے ، اور یہ سمجھے کہ خدا سےاوپر تجھے اختیار حاصل ہے تو تونے اللہ کے ارادے میں اپنے شریک ہونے کا دعوی کیا ۔ پھر فرمایا : ایھا السائل اللہ یشج ویداوی فمنہ الداء ومنہ الدواء اعقلت عن اللہ امرہ ” ۔ اے سائل : بیشک اللہ زخم پہنچاتا ہے اور اللہ ہی دوادیتاہے تو اسی سےمرض ہے اور اسی سے دوا ، کیوں تو نے اب تو اللہ کا حکم سمجھ لیا ؟۔ ا س نے عرض کی : ہاں ۔حاضرین سے فرمایا : الاٰن اسلم اخوکم فقوموا فصافحوا ” اب تمھارا یہ بھائی مسلمان ہو ا، کھڑے ہو اس سے مصافحہ کرو ۔ پھر فرمایا: لو ان عندی رجلا من القدریۃ لاخذت برقبتہ ثم لا ازال اجرھا حتی اقطعھافانھم یھود ھذہ الامۃ ونصاراھا ومجوسھا” اگر میرے پاس کوئی شخص ہو جو انسان کو اپنے افعال کا خالق جانتااور تقدیر الہی سے وقوع طاقت ومعصیت کا انکا رکرتاہو تو میں اس کی گردن پکڑ کردبوچتا رہوں گا یہاں تک کہ الگ کاٹ دوں ، اس لئے کہ وہ اس امت کےیہودی اور نصرانی ومجوسی ہیں۔

یہودی اس لئے فرمایا کہ ان پر خدا کا غضب ہے اور یہود مغضوب علیہم ہیں ، اور نصرانی ومجوسی اس لئے فرمایا کہ نصاری تین خدا مانتے ہیں ، مجوسی یزدان واہرمن دو خالق مانتے ہیں ، یہ بے شمار خالقوں پر ایمان لارہے ہیں کہ ہر جن و انس کو اپنے افعال خالق گارہے ہیں ، و العیاذباللہ رب العالمین ۔

یہ اس مسئلہ میں اجمالی کلا م ہے، مگر ان شاء اللہ تعالی کافی و وافی وشافی جس سے ہدایت والے ہدایت پائیں گے اور ہدایت اللہ ہی کےہاتھ ہے ، وللہ الحمد و اللہ سبحٰنہ و تعالی اعلم

رسالہ
ثلج الصدر لایمان القدر
ختم ہوا