عقائد و کلام, فتاوی رضویہ

اعلی حضرت کی طرف منسوب فتوی

 

مسئلہ ۱۶۸:

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
نحمدہ، ونصلی علی رسول الرؤف الرحیم
امابعد ! سوال ازفاضلِ اجل عالمِ بے بدل حضرت مولانا مولوی محمد احمد رضا خان صاحب ساکن بریلی عم فیضہ الصوری والمعنوی۔ محذومی مکرمی معظمی مفخمی حضرت حامی دین متین مولانا مولوی محمد احمد رضا خان صاحب دام محبتکم، بعد السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ واضح رائے عالی ہو کہ ہمارے یہاں شہر احمد آباد میں ایک رسالہ آٹھ صفحہ کا مطبع حمیدی پریس واقع احمد آباد بازار کا لوپور میں چھپ کر شائع ہوا ہے۔ اس کے مشتہر مولوی شیر محمد بن شاہ محمد ساکن احمد آباد محلہ مرزا پور متصل قصابانِ گاؤ ہیں۔ اور اس میں رسالہ کی اشاعت کی تاریخ یہ لکھی ہے” مورخہ ۲ جمادی الاخری ۱۳۳۰ ھ روز وشنبہ” اور اس رسالہ کے صفحہ ۵ سے صفحہ ۷ تک ایک فتوٰی ہے اور وہ فتوٰی تاریخ ۱۱ جمادی الاولٰی یوم الاربعا ۱۳۲۴ھ کو لکھا گیا ہے۔

 

جناب مولانا صاحب ! دست بستہ خدمت میں عرض یہ ہے کہ چھپا ہوا فتوٰی آپ کی خدمت میں رجسٹرڈ حاضر کیا جاتا ہے۔ یہ فتوٰی آپ نے تحریر فرمایا ہے یا نہیں؟ یہاں بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ مولانا احمد رضا خان صاحب نے یہ فتوٰی نہیں لکھا۔ یہ فتوٰی مولانا صاحب کی طرف منسوب کردیا ہے۔ مولانا اس فتوٰی کے لکھنے سے انکار فرماتے ہیں۔ یہ فرمانا ان حضرات کا صحیح ہے یا غلط ہے؟ اور یہ فتوٰی آپ نے چھ سال پہلے لکھا ہے یا نہیں، اور ہم نے آپ کا قلمی مہر کیا ہوا فتوٰی بھی مولوی شیر محمد صاحب کے پاس دیکھا ہے اس کو ہم سچا سمجھیں یا نہیں؟آپ ہم کو سمجھا دیجئے رب العالمین آپ کو اجرِ عظیم و ثواب ِ جزیل عطا فرمائے گا۔

رقیمہ آپ کا خادم مہرباز خاں بن محمد خاں ساکن احمد آباد محلہ جمال پور کھاڑیہ متصل مسجد دادی بی مورخہ ۲۵جمادی الثانی ۱۳۳۰ھ چہار شنبہ ۔

 
الجواب : فقیر غفرلہ المولٰی القدیرجب جمادی الاولٰی ۱۳۲۴ھ میں بعدِ سفر مدینہ طیبہ کراچی آیا اور وہاں سے احباب احمد آباد لانے پر مصر ہوئے۔ یہاں میرے معظم دوست حامیِ سنت ماحی بدعتِ مولانا مولوی نذیر احمد صاحب مرحوم و مغفور کے دو معزز شاگردوں مولوی عبدالرحیم صاحب و مولوی علاؤ الدین صاحب سلہما اﷲ تعالٰی میں نزاع تھی، دو فریق ہورہے تھے۔ اور اس سے پہلے مولوی علاؤ الدین صاحب غریب خانہ پر تشریف لائے تھے اور ایک رسالہ پیش کیا جس میں مولوی عبدالرحیم صاحب پر سخت الزام قائم کرنے چاہے حتی کہ نوبت بہ تکفیر پہنچائی تھی، فقیر نے انہیں سمجھایا اور اس رسالہ کی اشاعت سے باز رکھا اور ان الزامات کی غلطی پر دوستانہ متنبہ کیا۔ الحمدﷲ مولوی علاؤ الدین صاحب نے گزارشِ فقیر کو قبول کیا مگر باہم فریق بندی اس وقت تک تھی کہ فقیر حج سے واپس آیا اس وقت مولوی عبدالرحیم صاحب نے یہ سوال پیش کیا جس کا میں نے وہ جواب لکھا ، وہ جواب میرا ہی ہے مگر اس وقت کی حالت سے متعلق تھا۔ میں نے اس جواب ہی میں بتادیا تھا کہ مولوی علاؤ الدین صاحب نے مولوی عبدالرحیم صاحب کی تکفیر عناداً نہ کی تھی بلکہ مسئلہ ان کی سمجھ میں یوں ہی آیا تھا جس سے انہوں نے بعد تفہیم فقیر رجوع کی تو ان پر کوئی حکم سخت نہیں، ہاں اگر وہ بعد اس کے کہ حق سمجھ لیے پھر بلاوجہ شرعی تکفیر کی طرف رجوع کریں تو اُس وقت حکم سخت ہونا لازم ہے۔ اس کے بعد وہیں ایام اقامت فقیر میں فریقین فیصلہ فقیر پر راضی ہوئے اور بحمداللہ تعالٰی باہم صلح کرادی گئی ،میں نے اس وقت تک صلح شکن نہ پایا بلکہ قریب زمانہ میں جب کہ بعض فساد پسندوں نے تکفیر مولوی عبدالرحیم صاحب کا باطل و بے معنی غلغلہ پھر اٹھایا اور پرانا مہمل اشتہار مولوی قندھاری نے دوبارہ کسی شخص وزیر الدین کے نام سے چھاپا، اور مولوی عبدالرحیم صاحب کو دفع فتنہ کے لیے یہاں کے فتوٰی کی ضرورت ہوئی ہے اور اس پر ان سے واقعات پوچھے گئے جس کا مفصل جواب انہوں نے ہفتم ذی الحجۃ ۱۳۲۹ھ کو بھیجا، اُس خط میں بھی یہ لفظ موجود ہیں ” احمد آباد میں آپ کے قدم مبارک کراچی سے رونق افروز ہوئے تھے اور آپ نے صلح بندی کی اور مولوی علاؤ الدین صاحب کی کرائی تھی، جب سے اب تک بحمداﷲ تعالٰی صلح ہے وہ میرے موافق ہیں انتہی بلفظہ” اس کے بعد میرا یہی فتوٰی جواب شیر محمد صاحب نے چھاپا مولوی عبدالرحیم نے اس کی نقل مجھے بھیجی تھی اور اس میں سے اُن تمام سطروں پر کہ مولوی علاوہ الدین صاحب کے متعلق تھیں سُرخی سے قلم پھیر دیا کہ اب اُن کی ضرورت نہیں ۔مولوی علاؤ الدین صاحب کا جو خط فقیر کے نام آیا اس میں وہ بھی تصریح کرتے ہیں کہ ہم اس وقت تک بدستور صلح پر قائم ہیں ۔ یوں ہی اس سے بھی تازہ تر عنایت نامہ جناب شاہ صاحب وجیہی علوی میں ہے، پھر فقیر نہیں کہہ سکتا کہ اس فتوے کے چھاپنے کی کیا ضرورت ہوئی اور اس سے کیا نفع ہوسکتا ہے، اس میں تو مولوی علاؤ الدین صاحب پر حکم سخت ہونا اس شرط سے مشروط تھا کہ وہ بعد کشف شبہہ تکفیر مسلم کی طرف معاذ اﷲ پھر عود کریں، جب یہ شرط نہیں تو ہر گز اس فتوے سے نہ مولوی علاؤ الدین صاحب کو ضرر نہ چھانپے والے کو نفع ، اور خدانخواستہ شرط متحقق ہوئی تو اس کا حال اﷲ جانتا ہے۔ بالجملہ یہ امر دین ہے اور دین میں کسی کی رعایت نہیں۔ دونوں صاحب میرے دوست ہیں اور دونوں صاحب ذی علم اور ایک استاد کے شاگرد ہیں، میں امید کرتا ہوں کہ بدستور صلح پر قائم ہوں گے جیسا کہ دونوں صاحبوں کی تحریر سے مجھے معلوم ہوا، ورنہ جس طرف سے نقض عہد واقع ہو وہ ضرور اپنے حکمِ شرعی کا مستحق ہوگا کائنا من کان (جو کوئی بھی، ت) فریقین اس آیہ کریم کو پیش نظر رکھیں۔

” وقل لعبادی یقولواالتی ھی احسن ان الشٰیطن ینزغ بینھم ان الشیطٰن کان للانسان عدوامبیناo(۱ ؎۔واﷲ تعالٰی اعلم “۔ اور میرے بندوں سے فرمادو وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو، بے شک شیطان ان کے درمیان فساد ڈال دیتا ہے، بے شک شیطان آدمی کا کھُلا دشمن ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔(ت)

(۱؂ القرآن الکریم ۱۷/ ۵۳)