رسالہ
الزلال الانقی من بحر سبقۃ الاتقی
(سب (امتیوں ) سے بڑے پر ہیز گار کی سبقت کے دریا سے صاف ستھرامیٹھا پانی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قال تعالی وابتغوا الیہ الوسیلۃ ۱
احمدرضا نقی علی رضا علی طیب ذکی بان یفضل الشیخین والضجیعین الجلیلین والامیرین الوزیرین فی درجات علیۃ علیہ فباح بہ وافصح وبینہ واوضح ، ولوح بہ وصرح نادیا الیہ لسانہ و طیبا بہ جنانہ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے اور اللہ تعالی کی طرف وسیلہ دھونڈو ۔ پاک بر تر نبی (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وصحبہ وسلم)کی رضائے احمد (سب سے زیادہ سراہی ہوئی رضا مندی) پسندیدہ بر تر پاک سھترے کے لئے ہے جو شیخین گرامی مرتبت مصطفٰی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پہلو میں لیٹنے والے دونوں امیروں اور وزیروں کی درجات بلند وبالا میں فضیلت مانتا ہے تو اس کو خوب واضع اور ظاہر کیا ہے اور اس کو مبین اور روشن کیا ہے اور اس کی تلویح وتصریح کی اس طرح کہ اس کی زبان اس عقیدہ کی طرف بلاتی اور اس کا دل اس پر خوش ہے ۔
(۱القرآن الکریم ۵/۳۵)
اذلم تکن بحمد اللہ من الکبر وحب الجاہ ذرۃ لدیہ اصفہ وصفا اجدبہ رشفا من بحر نعت مصطفی کانت لہ الجائل وزانت بہ الفضائل وازد انت لہ الفواضل فیہ کان بدؤھا والیہ کان فیئھا فلا تنتمی الا الیہ ولا تنتھی الا الیہ انعتہ بمحا مد تکون لی مصاعد الی ذروۃ حمد واحد لہ الحمد کلہ دقہ وجلہ وکثرہ وقلہ واولہ واخرہ باطنہ وظاھرہ یرفع من یشاء ویضع اذمیزان الفضل بیدیہ قولی ھذا اقول و فی مید ان الحمد اجول ۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ قال تعالی لہ الحمد فی الاولی والاخرۃ۱ اس لئے کہ بحمد اللہ تکبر و محبت جاہ سے کوئی ذرہ اس کے پاس نہیں ، میں اس کی ایسی تعریف کر وں جس سےاس مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کے بحر نعت کے قطرے لوں جس کے لئے بزرگیاں ہیں او رفضیلتیں اس سے مزین ہیں اور عظیم نعمتیں اس کی مطیع ، تو اسی سے ان کا آغاز اور انتہی کی طرف ان کی رجوع تواسی کی طرف منسوب ہوں اور اسی کی طرف منتہی ہوں میں اوصاف حمیدہ سے اس کی تعریف بیان کرتا ہوں جو حمد یکتا کی بلندی تک پہنچنے کے لئے میرا زینہ بنیں ۔ سب تعریفیں اسی کو سزاوار تھوڑی اور بہت اول وآخر طاہر وباطن جس کوچاہے بلند فرمائے اور جس کو چاہے پست کرے اور لئے کہ فضل کی ترازو اس کے دست قدرت میں ہے ، میں اپنی یہ بات کہہ کر میدان حمد میں جولان کروں بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے ۔ اللہ ہی کےلئے حمد ہے دنیا وآخرت میں۔
(۱ القرآن الکریم ۲۸ /۷۰)
والحمد للہ رب العلمین حمد امنیعا علی ان فضل نبینا علی العلمین جمیعا واقامہ یوم القیٰمۃ للمذنبین شفیعا ، وحبا کل من راہ ولو لحظۃ من بعید فضلا وسیعا ، ووعد من وقع فی واحد من الصحابۃ حمیما وضریعا، واختار منہم الاربعۃ الکرام عناصر الاسلام و ائمۃ الانام اختیاراً بدیعاً ، وبنی ترتیب الخلافۃ علی ترتیب الفضیلۃ وغلط من عکس غلط شنیعا ، فصلی اللہ وسلم وبارک وترحم علی حبیب القلوب وطبیب الذنوب والہ الا طہار وصحبہ الاخیار انہ کان بصیرا سیمعا ، صلوۃ اعظام یتلوھا سلام وسلام اکرام تعقبہ صلوۃ وتشیع کلا برکۃ وزکوۃ الی الابد تشییعا ، واشھد ان الا لہ سیدہ ومولا ہ ما اعظمہ واعلاہ اکبرہ واجلہ وحدہ لا شریک لہ الہًا رفیعاً ، وان محمد ا عبدہ ورسولہ ورحمتہ و رفدہ ، اجملہ واکملہ ، وبدین الحق ارسلہ لیمحوکل علۃ ویعلوالدین کلہ علوا سریعا۔ سب تعریفین اللہ کے لئے جو پروردگار ہے سب جہانوں کا اللہ کے لئے حمد بلند ہے اس پر کہ اس نے ہمارے نبی ( صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ) کو سب جہانوں پر فضیلت دی ،ا ور انہیں قیامت کے دن گنہگار وں کا شفیع مقرر کیا ، اور ہر مسلمان کو جس نے انہیں ایک لخطہ دور سے بھی دیکھا وسیع فضل دیا اور ان کے صحابیوں کے بد گویوں کو جہنم کے گرم پانی اور آگ کے کانٹوں کی غذا کی وعید سنائی اور ان صحابہ سے چار بزرگوں کہ اسلام کے عناصر اور مخلوق کے امام ہیں بے مثال انتخاب کیا اور خلافت کی ترتیب فضیلت کی ترتیب پر رکھی اور جس نے ترتیب الٹی اس نے بری غلطی کی ، تو اللہ صلوۃ وسلام بھیجے اور رحمت وبرکت اتارے دلوں کے پیارے اور گناہوں کے چارہ ساز اور ان کی آل پاک اور نیک صحابہ پر ، بیشک وہی سننے والا جاننے والا ہے عظمت کا درود جس کے پیچھے سلام چلے اور تکریم کا سلام جس کے پیچھے درود آئے ، اور دونوں کو برکت وافزائش ہمیشہ کے لئے قوت دے ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک ان کاخدا ان کا آقا ومولٰی کس قدر بلند وبر ترا اور بالا و اعلی ہے ، یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ، عظمت الا معبود ہے ، اور بے شک محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اس کے خاص بندے اور اللہ کے رسول ہیں اور اس کی رحمت اور اس کی عطا ہیں ۔ اللہ نے انہیں سچے دین کے ساتھ بیجا تا کہ وہ ہر خرابی مٹائیں اور سب دینوں پرجلد غالب آئیں۔
وبعد فہذا ان شاء اللہ منحۃ عالیۃ وسلعۃ غالیۃ و رحمہ ربانیۃ لانزغۃ شیطانیۃ ، واوراق ان رأیت قلیلۃ وان وعیت جلیلۃ ، اذا قرات ھانت ، واذا فھمت لانت ، وان انصفت زانت ، وان تعسفت بانت ، بعد حمد وصلوۃ ان شاء اللہ پر گراں قدرعطا او ربیش بہا متاع اور ربان رحمت ہے نہ کہ شیطانی وسوسہ ، اور یہ اوراق دیکھوتوتھوڑےہیں اورانہیں یادکرلو تو گر انقدر ہیں اور پڑھو تو آسان اور سمجھو تو سہل ، اور انصاف کرو تو سنوارین اور تعصب بر تو تو جدار ہیں ، اور یہ جنات عالیہ ہیں جن کے خوشے جھکے ہوئے ہیں ، ان میں اونچے تخت ہیں اور چنے ہوئے کوزے اور قالین بچھے ہوئے اور چاند نیاں ہیں پھیلی ہوئی ،
(۱ القرآن الکریم ۶۹ /۲۲و۲۳) (۲ القرآن الکریم ۸۸ /۱۳تا۱۶)
قبولہا القبول من قبل الفحول ، وزینتہا الرد من اھل الحسد فیما من کل الثمرات ، وجنا الجنات ، عنب التحقیق ورطب التدقیق ، وجوز الحقائق و لوز الدقائق تؤتی الفریقین اکلہا مرتین مرۃ عسلا لارباب السنن ، واخری ثما لا (عہ) لا صحب الفتن فیہا عیون حکمۃ تسمی سلسبیلا ، فان شئت ریا فقم سل سبیلا ، ماء ھا صاف وشاف وکاف ھُلَاھِلُ(عہ۱) مرولمن یستقیہ وھلھل(عہ۲) مرولمن یتقیہ۔ اس کی ضیا فضلا کو مقبول ومنظور اور اس کی زینت یہ ہے کہ اہل حسد اسے قبول نہ کریں ۔ اس میں سب باغوں کے ہر قسم کے پھل ہیں ۔تحقیق کےانگور اور تدقیق کی تروتازہ کھجور اور حقائق کے ناریل اور دقائق کے بادام ، یہ اپنےپھل دو بار دیتی ہے ایک بار سنیوں کے لئے ایسا پھل جو شہد کی طرح میٹھا ہو ، اور دوسری بارگمراہوں کے لئے ایسا پھل جو ان کے لئے مہلک زہر ہو ۔اس میں حکمت کے چشمے ہیں جن کا سلسبیل نام ،۔۔۔۔۔۔ اگر تو سیرانی چاہتا ہے تو اٹھ راستہ تلاش کر ، اس کا پانی صاف اور شانی اور کافی ہے پینے والے کےلئے بہت کثیر اور ستھرا جس سے وہ سیراب ہوجاءیں اور جو اس سے بچے اس کیلئے زہر قاتل ہے کہ اس کو ہلاک کر دے ،
عہ: بضم الثاء السم المنقح کذا فی المعجم الوسیط
عہ۱ : بضم الہاء الماء الکثیر الصافی المعجم الاوسیط۔
عہ ۲: الھلھل ،السم القتال ،المعجم الوسیط
فیالہا من جنۃ فی ظلہا جنۃ للانس والجنۃ من شمس الافتتان وحریق المراء اصلھا ثابت وفرعہا فی السماء ۱تولی سقی اشجارھا وفتق ازھار ھا واجتناء ثمارھا عبدہ الکل علیہ والمتفاق فی کل امر الیہ عبد المصطفی الشہیر باحمد رضا المحمدی دینا والسنی یقینا والحنفی مذھبا والقادری منتسبا والبرکاتی مشربا والبریلوی مسکنا والمدنی البقیعی ان شاء اللہ مدفنا ، فالعدنی الفردوسی برحمۃ اللہ موطنا ، کان اللہ لہ وحقق املہ واصلح عملہ و جعل اخراہ خیر امن اولاہ ابن الامام الھمام ، والفاضل الطمطام والبحر الطام والبد رالتام ، حامی السنن وماحی الفتن ، ذی تصانیف رایقۃ وتوالیف فایقۃ شریفۃ منیفۃ لطیفۃ نظیفۃ بقیۃ السلف ، حجۃ الخلف ، ناصح الامۃ ، کاشف الغمۃ ، حامی حمی الرسالۃ عن کید اھل الضلالۃ ، تو یہ کیسی جنت ہے جس کے سایہ میں انسانوں اور جنوں کیلئے گمراہی کی دھوپ اور آئش جدل (ہٹ دھرمی سے امان ہے ، اس کی جڑجمی ہوئی اور اس کی شاخیں آسمان میں اس کے درختوں کی آبیاری اور اس کے پھول کھلانے اور پھل چننے کا کام اللہ کے محتاج بندے سرانجام دیتے ہیں اور ہر کام میں اس کے فقیر بندے عبدا لمصطفی عرف احمد رضا ، جودین کے اعتبار سے محمد ی ہے اور عقیدہ کے اعتبار سے سنی اور مذہبا حنفی ہے اور قادری انتساب ہے اور ارادۃ برکاتی او رمسکنا بریلوی اور مدفن کے لحاظ سے ان شاء اللہ مدینہ والا بقیع پاک والا اور اللہ کی رحمت سے مقام ابدی کے لحاظ سے بہشتی فردوسی نے خود انجام دیا۔ اللہ اس کا ہوا اور اس کی امید بر لائے اور اس کے عمل نیک کرے اور اس کی عاقبت اس کی دنیا سے بہتر فرمائے (احمد رضا) ابن امام ہمام فاضل عظیم ، دریائے موجزن وماہ تمام ، حامی سنت ، ماحی بد عت ، صاحب تصانیف پسند یدہ وتو الیف فاضلہ وبلند رتبہ ولطیفہ صافیہ ، بقیۃ السلف ،حجۃ الخلف ، ناصح امت ، دافع کربت ، نگہبانی حدود رسالت از مکر اہل ضلالت ،
(۱القرآن الکریم ۱۴ /۲۴)
ومما قلت فی بابہ معتذرا الی جنابہع
فواللہ لم یبلغ ثنائی کمالہ ولکن عجزی خیر مدحی لمالہ
فذالبحر لو لا ان للبحر ساحلا وذالبدر لولا للبد ر یخشی مالہ۔ اور میں نے ان کے باب میں ان کی جناب میں معذرت کے طور پر عرض کیا ہے ۔ع
اس کے کمال تک نہ پہنچا مرابیاں پر بہترین مدحت ہے عجز کی زباں
ساحل اگر نہ ہو تو وہ بحر بیکراں کھٹھکا نہ ہو غروب کا تو بد ر ہرماں
سیدی ومولائی وسندی ماوای العالم العلم علامۃ العالم مولانا المولوی محمد نقی علی خان القادری البرکاتی الاحمدی الرسولی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ بالنضرۃ والسرور لقاہ ابن العارف العریف ،السید الغطر یف شمس التقی ، بد ر النقی ، نجم الھدی ، علامۃ الوری ذی البرکات المتکاثرہ والکرامات المتواترہ ، والترقیات الرفیعۃ والتنزلات البدیعۃ، و قلت فی شانہ راجیا لاحسانہ ع
اذا لم یکن فضل فماالنفع بالنسب وھل یصطفی خبث وان کان من ذھب
والکننی ارجوالرضا منک یا رضا وانت علی فازولی والی الرتب
حصنی وحرزی وذخری وکنزی ذی القدر السنی والفخر السمی مولانا المولوی محمد رضا علی خان النقشبندی قدس اللہ سرہ وافاض علینا برہ امین یا رب العلمین ، سیدی ومولائی وسندی ،ملجائی کوہ علم ، علامہ عالم ، مولانا مولوی محمد نقی علی خاں قادری برکاتی احمدی رسولی ، اللہ ان سے راضی ہو اور انہیں راضی کرے اور انہیں تازگی وفرحت دے ۔ ابن عارف مدبر سید وسردار کریم شمس تقوی ماہ تمام تقدس نجم ہدایت علامہ خلقت صاحب بر کات کثیر وکرامات مستمرہ ودرجات عالیہ ومنازل بدیعہ میں نے ان کی شان میں ان کے انعام کا امید وار ہو کر کہا ع
معدوم ہوکرم و کس کام کا نسب زر کا بھی میل ہو تو مقبول ہو وہ کب
لیکن امید وار رضا تجھ سے ہوں رضا ا ورتو علی ہے مجھ کو دے عالی قدر رتب
میرے حرزجان اور میری امان اور میرے کنز وذخیرہ صاحب قدر علی وفخر گرامی مولانا مولوی محمد رضا علی خاں نقشبندی اللہ ان کا باطن منزہ فرمائے اور ہم پر ان کا فیض جاری فرمائے ، آمین یارب العلمین ۔
حملنی علی تصنیفہا واحسان تالیفہا باحصان تر صیفہا مارا یت ان قد زاغت اقدام وزلت اقوام وضلت افہام عما رفعت لہ الرایات الی رفع الغایات ، واشمغ النہایات من تو افر الایات و تظافر الاخبار وتواتر الاثار من العترۃ الاطہار والصحابۃ الکبار والاولیاء الاخیار والعلماء لا بر ار من تفضیل الشیخین علی ابن الحسنین رضی اللہ تعالی عنہم ، وجعلنا لہم ومنہم حتی بلغنی ان بعض من قادۃ الخمین والظن غیر امین الی اقتداء العمین فی ازدراء الثمین واجتبا المھین تعلق بشکوک سخیفۃ لا لطیفۃ والا نظیفۃ وانما ھی کطعام من ضریع لایسمن ولا یغنی من جو ع ۱فیما توافق علیہ سادۃ النقی وقادۃ التقی من الاجتجاج بکریمۃ ” وسیجنبہا الا تقی۱
وقام بعرضہا کلہا اوبعضہا احد المتدخلین فی عداد الاذکیا ء علی بعض العصریین من النبلاء ، و لم اعلم الام دارت رحی التقریر ، وعلی ای شق برک البعیر ، فاشتد ذلک علی وعظم امرہ لدی فاستخرت اللہ تعالی فی عمل کتاب یبین الجواب عن کل اریتاب ویکشف النقاب عن وجہ الصواب ، مع اطلاعی علی قصور باعی وقصر ذاعی ، عدم الظفر من اسفار التفاسیر الابشیئ نزل یسیر ولو لا الا ما اقاسیہ من ھجوم ھموم و عموم غموم وتباعد اغراض وتوارد اعراض ، وما لا محیض عنہ لمسلم من ایذاء موذ و ایلام مولم کما اخبر النبی الاکرم صلی اللہ علیہ وسلم بید ان الفقیر العانی عاین عین اعیان المعانی تفیض علیّ فیضا مدرارا واتثج الی ثجا کبار ، افقوی ظنی ان صاحب التوفیق سیقوی الضعیف علی بایطیق فاختلست الفرصۃ خمسۃ ایام من آخر الشھر المبارک ذی الحجۃ الحرام ، حتی جاءت بحمد اللہ کما تری تروق الناظروتجلو البصائرکاشفۃ عن وجوہ غوانی من حسان معانی لم تقرع الاذان ،ونفائس تحقیق وعرائس تدقیق لم یطمثھن قبلی انس ولاجان فان صدق ظنی فکل مافیہ غیر ماانمیہ مما سمع بہ فکری الفاتر ، وادی الیہ نظری القاصر والانسان کما تعلم مساوق الخطاء والنسیان ، فما کان صوابا فمن اللہ الرحمان ،وانا ارجو اللہ سبحنہ فیہ ، وماکان خطا فمنی ومن الشیطان وانا ابری الی اللہ عن مساویہ ، ویابی اللہ العصمۃ فی کل معنی وکلمۃ الا لکتابہ الاعظم وکلام رسولہ الاکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ، ولما کان فض ختامہا وطلوع بدر تمامہا للیلۃ بقیت من المائۃ الثالثۃ عشر من سنی ھجرۃ سیدالبشر علیہ من الصلوات انما ھا ومن التحیات ازکاھا ناسب ان اسمیہا ”الزلال الانقی من بحر سبقہ الاتقی ”لیکون العلم علما علی العام واللہ تعالی ولی الانعام ، وھو الخامس عشر من تصانیفی فی علوم الدین نفعنی اللہ تعالی بھا و سائر المسلمین وجعلہا نورابین یدی و حجۃ لی لاعلی ، انہ علی مایشاء قدیر و بالاجابۃ جدیر و حسبنا اللہ ونعم الوکیل ، ولاحول ولاقوۃ الاباللہ العلی العظیم ۔ مجھے اس کتاب کی تصنیف اور اس کی تالیف خوب اور اس کی ترتیب کو محکم کرنے پر اس امر نے اکسایا جو میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ منحرف ہوئے اور کچھ قسم پھسلے او رکچھ ذہن اس سے گمراہ ہوئے جس کےلئے نہایت بلندی تک علم بلند کئے گئے آیات ، اخبار اور آثار کی کثرت سے اور اس پر صحابہ کبار ، اہل بیت اطہار ، پیشوایان اخیار او ر علماء ابرار کا اجماع ہوچکا یعنی شیخین ابوبکر وعمر کی فضیلت ابو الحسنین علی پر اللہ ہمیں ان کے لئے کرے اور انہیں میں ہمیں رکھے یہاں تک کہ مجھے خبر پہنچی کہ جن لوگو ں کو ظن نے کھینچا اور ظن امین نہیں اندھوں کی اقتداء اور قیمتی چیز (عہ۱) کی تحقیراورذلیل(عہ۲) چیز کے انتخاب کی طرف وہی شبہات کہ نہ لطیف ہیں نہ نظیف ستھرے ، بلکہ آگ کے کانٹوں کی غذا کی طرح ہے کہ ” نہ فربہ کریں نہ بھوک سے بےنیاز کریں” کا سہارا اس میں لیتا ہے جس پر سردار ان تقدس وتقوی کا اتفاق ہے یعنی کریمہ “وسیجنبہا الاتقی” سے فضیلت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ پر حجت قائم کرنا اور ان شبہات کو ایک شخص نے جواذکیا ء کے شمار میں دخیل ہونا چاہتا ہے ، فضلاء میں سے ایک ہمعصر پر پیش کیا اور مجھے معلوم نہ ہوا کہ تقریر مدعی کی ہوچکی کب تک چلی اور اونٹ کس کروٹ بیٹھا تو یہ مجھے دشوار گزار اور اس کا معاملہ میرے نزدیک بڑا ہوگیا تو میں نے اللہ سے استخارہ کیا ایک کتاب کی تصنیف میں جوہر شبہ کا روشن جواب دے اور صواب کے چہرے سے نقاب اٹھادے باوجود یہ کہ میں اپنے قصور طاقت اور بساط کی قلت اور کتب تفاسیرسے بہت تھوڑا میسر ہونے سے واقف ہوں اور اگر سوائے اندوہ وغم کے ہجوم اور اغراض کی دوری اور امراض کے وورد پیہم کے اور موذی کی ایذا جس سے کسی مسلم کو چھٹکارا نہیں جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے خبر دی ، کچھ نہ ہو تو اس کا م سے یہی مانع ہوتا مگر اس فقیر ذلیل نے دیکھا کہ معانی نفیسہ کا چشمہ اس کے قلب پر سراٹے سے ابل رہا ہے اور وہ بڑی مقدار میں اس کی طرف بہہ کر آرہے ہیں تو میرا گمان غالب ہو اکہ مالک توفیق (خدا) اس ضعیف کو اس کی قوت دے گا جس کی اسے قدرت نہیں تو میں نے ماہ مبارک ذوالحجۃ الحرام سے آخری پانچ دن کی فرصت لی یہاں تک کہ یہ کتاب بحمد اللہ ایسی ظاہر ہوئی جیسی کہ تم دیکھتے ہو جو دیکنے والے کو خوش کرتی ، بصیر تو ں کو جلا بخشتی ہے ، اور ایسے خوشتر معانی (جوکانوں سے نہ ٹکرائے) سے پردے ہٹاتی ہے جو خوبان بے نیاز آرائش کے چہرے ہیں اور تحقیق کی نفیس صورتیں اور تدقیق کی دلہنیں ہیں جنہیں مجھ سے پہلے کسی آدم نے چھوانے کسی جن نے ، تو اگر میرا گمان سچا ہو تو سوائے اس کے جس کی میں کسی کی طرف نسبت کرو ں اس میں جو کچھ ہے وہ میر ی فکر قاصر کی دین ہے اور اس تک میری کو تا ہ نظر پہنچی ہے اور انسان جیساکہ تم جانتے ہو خطا ء ونسیان کے ساتھ چلتاہے ، تو جو درست ہو وہ خدائے رحمان کی طرف سے ہے ، اور میں اس کے سبب اللہ سے امید وار ثواب ہوں ، اور جو خطا ہو تو وہ میری اور شیطان کی جانب سے ہے اور میں اللہ کی طرف اس کی بدیوں سے براءت کرتا ہوں ، اور اللہ ہر معنی اور ہر کلمہ میں عصمت ( خطا سے محفوظ ہونا ) اپنی کتاب معظم اور اننے رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے کلام کے سوا کسی کے لئے نہیں چاہتا اور جب اس رسالہ کی مہر اختتام کی شکست اور اس کے تمام کاماہ تمام اس ایک رات میں طلوع ہوا جو سید البشر کی ہجرت کے سالوں میں سے تیرھویں صدی میں باقی تھی اور پر درود وں میں سب درودو ں سے بڑھتا درود اور تحیات میں سب سے فزوں تحیت ہو مناسب ہے کہ اس کا نام “الزوال الانقی من بحر سبقۃ الاتقی” رکھو ں تا کہ نام سال تصنیف کی نشانی ہوجائے اور اللہ تعالی ہی ولی نعمت ہے اور یہ میری نصانیف سے پندرہویں تصنیف ہے علوم دین میں ،اللہ تعالی مجھے اور باقی مسلمانوں کو اس سے نفع بخشے ،اور اللہ تعالی اسے میرے مابعد کیلئے نور بنائے اور میرے حق میں حجت نہ میرے خلاف وہ جو چاہے کرسکتا ہے ، اور قبول دعا اسی کو سزا وار ہے اور اللہ ہمیں کافی ہے اور وہ کیا ہی اچھا کار ساز ہے او ربدی سے پھرنا اور نیکی کی طاقت اللہ علو وعظمت والے ہی سے ہے ۔
(۱ القرآن الکریم ۸۸/۶و۷) (۱ القرآن الکریم ۹۶/ ۱۷)
(عہ ۱: یعنی عقیدہ صحیحہ موافق اہلسنت وجاعت)
(عہ ۲ : یعنی گمراہی )
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم ط
قال ربنا تبارک وتعالی ”یایھاالناس انا خلقنکم من ذکر وانثی وجلعنکم شعوبا وقبائل التعارفوا ان اکرمکم عند اللہ اتقکم ان اللہ علیم خبیر۱ ہمارا رب تبارک وتعالی فرماتاہے: ” اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مر د اور ایک عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو ، بے شک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیز گار ہے ۔ بے شک اللہ جاننے والا خبر دار ہے ”
(۱ القرآن الکریم ۴۹/۱۳)
اراد اللہ سبحنہ وتعالی ردما کانت علیہ الجاھلیۃ من التفاخر بالاباء والطعن فی الانساب وتعلی النسب علی غیرہ من الناس حتی کا نہ عبدلہ اواذل ، وکان بدء ھذہ النزعۃ اللئیمۃ من الذلیل الخسیس عد و اللہ ابلیس اذ قال ” انا خیر منہ خلقتنی نار وخلقتہ من طین”۱
فرد اللہ سبحنہ وتعالی علیہم بان اباکم واحد وامکم واحدۃ فانہ تعالی ” خلقکم من نفس واحدۃ و وخلق منہا زوجہا وبث منھما رجالا کثیرا ونساء۲ فما منکم من احد الا وھو یدلی بمثل مایدلی بہ الاخر سواء بسواء ، فلا مساغ للتفاضل فی النسب والتفاخر بالام والاب ، واما ما رتبنا کم علی اجیال تحتھا شعوب تحتہا قبائل فانما ذالک لتعارفو ا فتصلو اارحامکم ولا ینتمی احد الی غیر ابیہ ، لا لان تتفاخر وا ویزدری بعضکم بعضا نعم ان اردتم التفاضل فالفضل عند نا بالتقوی فکلما زاد الانسان تقوی زاد کرامۃ عند ربہ تبارک وتعالی ، فاکرمکم عند نامن کان اتقی لامن کان انسب ۔ ان اللہ علیم بکرم النفوس وتقواھا خبیر بھم النفوس فی ھواھا۔ ( ترجمہ رضویہ)اللہ تعالی کی مراد اس طور کا رد ہے جس پر اہل جاہلیت چلتے تھے کہ باپ دادا پر فخر کرتے اور دو سروں کے نسب پر طعنہ زن ہوتے اور نسب کی وجہ سے آدمی دوسرے آدمی پر ایسی تعلی کرتا گویا کہ وہ اس کا غلام بلکہ اس سے بھی زیادہ خوار ہے ، اور اس ذلیل طریقہ کی ابتداء ذلیل خسیس ابلیس سے ہوئی جس نے کہا تھا کہ اے رب ۔ میں آدم سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا اور آدم (علی نبینا وعلیہ السلام)کو مٹی سے بنایا ، تو اللہ نے ان کایوں رد فرمایا کہ تمہارا باپ ایک ہے ارو تمہاری ایک ہے اس لئے کہ اللہ تعالی نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کی بیوی کو بنایا اور ان دونوں سے بہت سارے مرد اور عورتیں پھیلادئے تو تم میں ہر ایک اپنی اصل سے وہی اتصال رکھتا ہے جو دوسرا رکھتا ہے تو نسب میں ایک کو دوسرے پر فضیلت کی راہ نہیں اور ماں باپ سے ایک دوسرے پر فخر کی مجال نہیں رہا یہ کہ ہم نے تمہیں اصول پر مرتب کیا جن کے نیچے ان کی شاخیں ہیں اور ان کے نیچے قبیلے ہیں تو یہ محض اس لئے کہ آپس میں پہچان رکھو تو اپنے قریبی عزیزوں سے ملو اور کوئی باپ کے سوا اور کی طرف منسوب نہ ہونہ اس لئے کہ تم نسب پر گھمنڈ کر و ، اور ایک دوسرے کو حقیر جانے ، ہاں اگر فضلیت چاہو تو فضیلت ہمارے یہاں تقوی (پر ہیزگاری سے ہے تو جب انسان پرہیز گاری میں بڑھے اپنے رب کے یہاں عزت میں بڑھے ۔ تو ہمارے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پر ہیز گار ہے نہ کہ وہ جوبڑے نسب والا ہے بے شک اللہ تعالی نفوس کی عزت اور ان کی پر ہیز گاری کو جانتا ہے اور نفوس کی اپنی خواہش میں کوشش سے خبر دار ہے۔
(۱ القرآن الکریم ۷ /۱۲ و ۳۸ /۶۶) (۲القرآن الکریم ۴ /۱)
قال البغوی قال ابن عباس نزلت فی ثابت بن قیس وقولہ للرجل الذی لم یفسح لہ ” ابن فلانۃ یعیرہ بامہ قال النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم من الذاکرفلانہ ”؟ فقال ثابت انا یا رسول اللہ ، فقال انظر فی وجوہ القوم ، فنظر ، فقال مارایت یا ثابت ؟قال رایت احمر وابیض واسود ، قال فانک لاتفضلہ الا فی الدین والتقوی ” فنزلت فی ثابت ھذہ الایۃ و فی الذی لم یتفسح لہ ”یایھا الذین امنو اذا قیل لکم تفسحوا فی المجالس فافسحوا ” وقال مقاتل لما کان یوم فتح مکۃ امر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بلا لا حتی علا علی ظہرالکعبۃ واذن ، فقال عتاب بن اسید بن ابی العیص : الحمد للہ الذی قبض ابی حتی لم یر ھذا الیوم ۔ وقال الحارث بن ھشام اما وجد محمد غیر ھذا الغراب الاسود موذنا ۔ وقال سہل بن عمرو ان یرد اللہ شیئا یغیرہ ۔ وقال ابوسفیان انی لا اقول شیئا اخاف ان یخبر بہ رب السماء فاتی جبریل فاخبر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بما قالو فدعا ھم وسالھم عما قالوا فاقروا فانزل اللہ تعالی ھذہ الابۃ وزجرھم عن التفاخر بالانساب والتکاثر بالاموال والازراء بالفقراء ۱ امام بغوی نے فرمایاکہ حضرت ابن عباس (رضی ا للہ تعالی عنہما) نے فرمایا یہ آیت حضرت ثابت بن قیس (رضی اللہ تعالی عنہ) کے بارے میں اور ان کے اس شخص سے جس نے ان کے لئے مجلس میں جگہ کشادہ نہ کی فلانی کا بیٹا کہنے کے باب میں اتری تو نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا ، کو ن ہے جس نے فلانی کو یا د کیا ؟ حضرت ثابت نے عرض کیا وہ میں ہوں یا رسول اللہ ۔ تو حضور (علیہ الصلوۃ والسلام) نے فرمایا : لوگو ں کے چہروں میں بغور دیکھو ۔ تو انہوں نے دیکھا ۔ پھر فرمایا : اے ثابت ۔ تم نے کیا دیکھا ؟ عرض کی : میں نے لال ، سفید اور کالے چہرے دیکھے ۔ سرکار (علیہ السلام والتحیۃ المدرار) نے فرمایا : تو بے شک تمہیں ان پر فضیلت نہیں مگر دین اور تقوی میں ۔ تو حضرت ثابت کے لئے یہ آیت اتری اور جنہوں نے مجلس میں کشادگی نہ کی تھی ان کے حق میں ارشاد نازل ہوا: اے ایمان والو۔ جب تم سے کہا جائے مجلسوں میں جگہ دو تو جگہ دو ۔ اور مقاتل کا قول ہے کہ جس دن مکہ فتح ہوا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا ( کہ اذان دیں) تو وہ کعبہ کی چھت پر چڑھے اور انہوں نے اذان کہی ، تو عتاب بن اسید بن ابی العیص نے کہا: اللہ کے لئے حمد ہے جس نے میرے باپ کو اٹھالیا ور انہوں نے یہ دن نہ دیکھا ۔ اور حارث بن ہشام نے کہا : کیامحمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اس کا لے کوے کے سوا کوئی اذان دینے والا نہ ملا ۔ اور سہل بن عمرو نے کہا: اللہ کو اگر کوئی چیز ناپسند ہوگی وہ اسے بدل دے گا ۔ اور ابوسفیان بولے : میں کچھ نہیں کہتا مجھے خوف ہے کہ آسمان کا رب انہیں خبر دار کر دے گا ۔ تو جبریل (علی بنینا وعلیہ السلام) نازل ہوئے پھر رسول اللہ صلی ا للہ تعالی علیہ وسلم کو ان لوگوں کی باتیں بتادیں تو حضور (علیہ الصلوہ والسلام) نے ان سے ان کے اقوال کی بابت پوچھا تو انہوں نے اقرار کیا ، تو اللہ نے یہ آیت اتاری اور انہیں نسب پر فخر اور اموال پر گھمنڈ اور فقراء کی تحقیر سے منع فرمایا۔
(۱ معالم التنزیل ( تفسیر البغوی) تحت الایۃ ۴۹/۱۳ دارالکتب العلمیہ بیروت ۴/۱۹۵)
قال العلامۃ النسفی فی المدارک تبعا للزمخشری فی الکشاف عن یزید بن شجرۃ مررسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فی سوق المدینۃ فرای غلاما اسود یقول من اشترانی فعلی شرط ان لا یمنعی من الصلوات الخمس خلف رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ، فاشتراہ بعضہم فمرض فعادہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ، ثم توفی فحضر دفنہ فقالوا فی ذلک شیئا فنزلت ۱۔ علامہ نسفی نے زمخشری کی اتباع کرتے ہوئے مدارک میں فرمایا یزید بن شجرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم مدینہ کے بازار میں گزرے تو ایک سیاہ فام غلام دیکھا جو کہتا تھا مجھے جو خرید ے تو اس شرط پر خریدے کہ مجھے رسول اللہ صلی ا للہ تعالی علیہ وسلم وآلہ وسلم کے پیچھے پنجگانہ نمازسے نہ روکے گا ۔ تو اسے کسی نے خرید لیا ۔ پھروہ بیمار پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اس کی عیادت کو تشریف لائے ، پھر اس کی وفات ہوگئی تو سرکار اس کے دفن میں رونق افروز ہوئےتو لوگو ں نے اس بار ے میں کچھ کہا تو یہ آیت اتری۔
(۱مدارک التنزیل تفسیر النسفی تحت الایۃ ۴۹ /۱۳ دار الکتاب العربی بیروت ۴ /۱۷۳)
وبالجملۃ فمحصل الایۃ نفی التفاخر بالانساب وان الکرم عند اللہ تعالی انما ینال بالتقوی فمن لم یکن تقیا لم یکن لہ حظ من الکرامۃ وسلبہ کلیا لایصح الاعن کافر اذکل مؤمن یتقی اکبر الکبائر الکفر و الشرک ، ومن کان تقیا کان کریما ومن کان اتقی کان اکرم عند اللہ تعالٰی ، ولعلک تظن ان سردنا تلک الروایات فی شان النزول مما لا یغنینا فیما نحن بصددہ ، ولیس کذالک بل ھو ینفعنا فی نفس الاحتجاج وتکسر بہ سورۃ بعض الاوھام ان شاء اللہ تعالی ، کما ستطلع علیہ ، فانتظر ، ھذہ مقدمۃ۔ مختصر یہ کہ آیت کریمہ کا حاصل نسب پر فخر کی نفی ہے اور یہ کہ اللہ کے یہاں عزت تقوی ہی سے ملتی ہے ، تو جو متقی نہیں اس کے لئے عزت سے کچھ حصہ نہیں اور تقوی کا سلب کلی طو رپر کافر کے سوا کسی سے نہیں ، اس لئے کہ ہر مومن اکبر الکبائر کفر و شرک سے بچتا ہے اور جو متقی ہوگا وہ باعزت ہوگا اور جو زیادہ تقوی والا ہوگا وہ زیادہ عزت دار اپنے رب کے یہاں ہوگا ۔ اور شاید تمہیں گمان ہو کہ ہمارا ان روایتوں کو ذکر کرنا اس مدعی میں جس کے ثابت کرنے کے ہم درپے ہیں ہمیں نفع بخش نہیں حالانکہ با ت ہوں نہیں بلکہ وہ ہمیں نفس استدلال میں فائدہ دے گا اور ہم اس سے کچھ وہمیوں کا زور توڑ ینگے ان شاء اللہ تعالی ، جیسا کہ تم عنقریب اس پر مطلع ہوگے ، تو انتظار کرو ، یہ ایک مقدمہ ہے۔
والمقدمۃ الاخری
قال اللہ سبحنہ و تعالی: وسیجنبہا الاتقی ،الذی یؤتی مالہ یتزکی ، وما لاحد عندہ من نعمۃ تجزی الا ابتغاء وجہ ربہ الاعلی ولسوف یرضی ۱
اجمع المفسرون من اھل السنۃ والجماعۃ علی ان الایۃ نزلت فی الصدیق رضی اللہ تعالی عنہ وانہ ھو المراد بالاتقی ۔ اور دوسرا مقدمہ یہ ہے
اللہ تعالی نے فرمایا: اور بہت اس سے دور رکھا جائے گا جو سب سے بڑا پرہیز گار جو اپنا مال دیتا ہے کہ ستھرا ہوا ور کسی کا اس پر کچھ احسان نہیں جس کابدلہ دیا جائے صرف اپنے رب کی رضا چاہتا ہے جو سب سے بلند ہے اور بے شک قریب ہے کہ وہ راضی ہوگا اہل سنت وجماعت کے مفسرین کا اجمال ہے اس پر کہ یہ آیت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں اتری اور الاتقی سے وہی مراد ہے ۔
(۱ القرآن الکریم ۹۲/ ۱۷تا ۲۱)
اخرج ابن ابی حاتم والطبرانی ان ابا بکر اعتق سبعۃ کلھم یعذب فی اللہ فانزل اللہ تعالی قولہ وسیجنبہا الاتقی الی اخرالسورۃ۲، ابن ابی حاتم وطبرانی نے حدیث روایت کی کہ ابو بکر (رضی اللہ تعالی عنہ) نے ان سات کو آزاد کیا جو سب کے سب اللہ کی راہ میں ستائے جاتے تھے تو اللہ نے اپنا فرمان (وسیجنبہا الاتقی تا آخر سورۃ) نازل فرمایا۔
(۲الصواعق المحرقۃ بحوالہ ابن حاتم والطبرانی الباب الثالث الفصل الثانی دار الکتب العلمیہ بیروت ص ۹۸)
(الدر المنثور بحوالہ ابن حاتم والطبرانی تحت الایۃ ۹۲ /۱۷تا۲۱ دار احیاء التراث العربی ۸ /۴۹۳)
( الحاوی اللفتاوی الفتاوی القرآنیۃ سورۃ اللیل الفصل الاول دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۳۲۷)
قال البغوی قال ابن الزبیر وکان ابو بکر یبتاع الضعفۃ فیعتقہم ،فقال ابوہ : ای بنی لوکنت نبتاع من یمنع ظہر ک ؟ قال منع ظہری ارید ، فنزل ”وسیجنبہا الاتقی ”الی اخر السورۃ ، وذکر محمد بن اسحق قال کان بلال لبعض بنی جمع وھو بلال بن رباح واسم امہ حمامۃ وکان صادق الاسلام وطاہر القلب وکان امیۃ بن خلف یخرجہ اذا حمیت الظہیرۃ فیطرحہ علی ظہرہ ببطحاء مکۃ ، ثم یامر بالصخرۃ العظیمۃ فتوضع علی صدرہ ، ثم یقول لہ لاتزال ھکذا حتی تموت او تکفر بمحمد (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) ویقول وھو فی ذلک البلاء احد احد ،وقال محمد بن اسحاق عن ھشام بن عروۃ عن ابیہ قال مربہ ابوبکر یوما وھویضنعون بہ ذلک و کانت دار ابی بکرفی بنی جمع فقال لامیۃ لاتتقی فی ھذا المسکین ؟ قال : انت افسد تہ فانقدہ مما تری ، قال ابوبکر افعل عندی غلام اسود واجلدمنہ واقوی علی دینک اعطیکہ ؟ قال قدفعلت فاعطا ہ ابوبکر غلامہ واخذہ فاعتقہ ، ثم اعتق معہ علی الاسلام قبل ان یہاجر ست رقاب بلال سابعہم ، عامر بن فہیرۃ (رضی اللہ تعالی عنہ) شہد بد را و اُحُدا وقتل یوم بئر معونۃ شہید ا ، وام عمیس و زھرۃ فاصیب بصرھا و اعتقہا فقال قریش ما اذھب بصرھا الا اللات والعزی فقالت : کذبوا وبیت اللہ ما تضر اللات و العزی وما تنفعا ن ، فرد اللہ تعالی الیہا بصرھا و اعتق النہدیۃ وابنتہا وکانتا لامراۃ من بنی عبد الدار فمر بھما وقد بعثتہما سید تھما تطحنان لہا وھی تقول واللہ لا اعتقکما ابدا فقال ابوبکر کلا یا ام فلان ، فقالت کلا انت افسد تھما فاعتقھما ، قال فبکم ؟ بکذا وکذا قال قد اخذتھما وھما حرتان ، ومر بجاریۃ بنی المؤمل وھی تعذب فابتا عہا فاعتقہا ۔ بغوی نے فرمایا کہ ابن الزبیر کا قول ہےکہ ابو بکررضی اللہ تعالی عنہ کمزور وں کو خرید تے پھر انہیں آزاد کردیتے ۔ تو ان سے ان کے والدین نے کہا : اے بیٹے ۔ ایسے غلاموں کو خرید تے ہوتے جو تمہاری حفاظت کرتے ۔ ابوبکر نے فرمایا میں اپنی حفاظت ہی چاہتا ہوں ۔ تو یہ آیت تا آخر سورت نازل ہوئی ۔ اور محمد بن اسحق نے ذکر کیا بلال (رضی اللہ تعالی عنہ) قبیلہ بنی جمح کے غلام تھے اور ان کانام بلال بن ربا ح ہے اور ان کی ماں کانام حمامہ ہےاور بلال (رضی اللہ تعالی عنہ) اسلام میں سچے تھے اور پاک دل تھے ، اور امیہ بن خلف انہیں باہر لا تا جب گرم دوپہر ہوتی تو انہیں پیٹھ کے بل مکہ کے ریتلے میدان میں ڈال دیتا پھر بڑی چٹان لانے کا حکم دیتاتو ان کے سینہ پر رکھدی جاتی پھر کہتا ، تم ایسے ہی پڑے رہوگے یہاں تک کہ مرجاؤ یا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کافر ہو ۔ اور حضرت بلال احد احد فرماتےحالانکہ وہ اس بلا میں ہوتے ۔ اور محمد بن اسحق نے ہشام بن عروہ سے روایت کی انہوں نے اپنے باپ سے روایت کی انہوں نے فرمایا ابو بکر(رضی اللہ تعالی عنہ) کاگز رایک دن بلال (رضی اللہ عنہ) کے پاس سے ہوا اور وہ لوگ بلال(رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ یہی بر تا ؤ کررہے تھے اور ابوبکر (رضی اللہ تعالی عنہ) کا گھر بنو جمح میں تھا تو آپ نے فرمایا کہ کیا تو (امیہ بن خلف) اس بیچارے کے معاملہ میں اللہ سے نہیں ڈرتا، تو امیہ نے کہا آپ نے اسے بگاڑا ہے تو آپ اس گت سے اسے بچالیں جو آپ دیکھ رہے ہیں ۔ ابوبکر (رضی اللہ تعالی عنہ) نے فرمایا: میں بچائے لیتا ہوں میرے پاس ایک غلام ہے سیاہ فام جو بلال (رضی اللہ تعالی عنہ ) سے زیادہ اور طاقتو ر ہے اور تیرے دین پر ہے وہ تجھے دے دوں ۔ امیہ بولا : مجھے منظور ہے تو ابوبکر ( رضی اللہ تعالی عنہ) کولے لیا تو انہیں آزاد کر دیا پھر ان کے ساتھ اسلام کی شرط پر ہجرت سے پہلے چھ غلامون کوآزاد کیا ، انکے ساتویں بلال ہیں ، عامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالی عنہ جو جنگ بد واحد میں شریک ہوئے اور بئر معونہ کی جنگ میں قتل ہوکر شہید ہوئے ، اور ام عمیس وزھرہ کی آنکھ جاتی رہی ، جب انہیں ابوبکر (رضی اللہ تعالی عنہ) نے آزاد فرمایا ، تو قریش بولے کہ انہیں لات وعزی نے اندھا کیا ہے ، تو آپ بولیں : قریش ،کعبہ کی قسم جھوٹے ہیں لات وعزی نہ ضرر دے سکیں نہ فائدہ پہنچا سکیں ۔ تو اللہ نے انہیں ان کی بینائی پھیر دی ۔ اور نہدیہ اور اس کی بیٹی کو آزاد کیا اور یہ دونوں بنی عبدالدار کی ایک عورت کی لونڈیاں تھیں ، تو صدیق اکبر (رضی ال لہ تعالی عنہ) ان کے پاس سے گزرے اور ان کی آقا عورت نے انہیں بھیجا تھا کہ اس کا آٹا پیسیں اور وہ عورت کہتی تھی کہ خدا کی قسم ۔ تمہیں کبھی آزاد نہ کرو ں گی۔تو ابو بکر(رضی اللہ تعالی عنہ) نے فرمایا : اے ام فلان ۔ ہر گز نہیں ۔ وہ بولی : ہرگز نہیں ، آپ نے ان دونوں کو بگاڑا ہے تو آپ آزاد کریں ۔ صدیق نے فرمایا: تو کتنے دام پر بیچتی ہے ؟ وہ بولی : اتنے اور رائے دام پر ۔ ابوبکر (رضی اللہ تعالی عنہ) نے فرمایا: میں انے ان دونوں کو لیا اور یہ دونوں آزاد ہیں ، اور آپ کا گزر بنو مؤمل کی ایک لونڈی کے پاس سے ہواجب اس پر ظلم ہو رہا تھا تو اسے خرید کر اسے آزاد کردیا ،
وقال سعید بن المسیب بلغنی ان امیۃ بن خلف قال لابی بکر فی بلال حین قال اتبیعہ ؟ قال نعم ابیعہ بنسطاس وکان نسطاس عبد الابی بکر صاحب عشرہ الاف دینار ، غلمان وجوار و مواش وکان مشر کا حملہ ابوبکر علی الاسلام ان یکون مالہ لہ ، فابی فابغضہ ابو بکر ، فلما قال لہ امیۃ ابیعہ بغلامک نسطاس ، اغتنمہ ابوبکر وباعہ منہ فقال المشرکون ما فعل ذلک ابوبکر الا لید ، کانت لبلال عندہ فانزل اللہ تعالی وما لاحد عندہ من نعمۃ تجزی ۱۔ اور سعید بن المسیب (رضی اللہ تعالی عنہ) نے فرمایا کہ مجھے خبر پہنچی کہ امیہ بن خلف نے ابوبکر(رضی اللہ تعالی عنہ) سے بلال کے معاملہ میں اس وقت جب انہوں نے اس سے پوچھا کہ کیا بلال کو فروخت کرے گا ؟ کہا : ہاں میں اسے نسطاس سید نا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا غلام جو دس ہزار دینار اور بہت سے لونڈی اور غلام اور چوپایوں کا مالک تھا کے بدلے بیچتا ہوں اور ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے چاہا تھا کہ نسطاس اسلام لے آئے اوراس کا مال اسی کا ر ہے ، تو وہ نہ مانا تو حضرت ابوبکر نے اس کو مبغوض جانا ، پھر جب امیہ نے کہا: بلال کو میں آپ کے غلام کے بدلے دیتا ہوں ۔ ابوبکر نے اس بات کو غنیمت جانا اور نسطاس کو امیہ کے ہاتھ بیچ دیا ، تو مشرکین بولے ،ابوبکر ( رضی اللہ تعالی عنہ ) نے ایسا صرف اس لئے کیا ہے کہ بلال (رضی اللہ تعالی عنہ)کا ان پر کوئی احسان ہے ، تو اللہ تعالی نے یہ آیت اتاری “ومالا حد عندہ “الخ یعنی اور اس پر کسی کا کچھ احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جائے۔
(۱ معالم التنزیل (تفسیر البغوی) تحت الایۃ ۹۲ /۱۷ تا ۲۱ دار الکتب العلمیہ ۴ /۶۴۔۴۶۳)
وذکر العلامۃ ابو السعود فی تفسیرہ قدروی عطاء والضحاک عن ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما وذکر قصۃ شراء بلال واعتقاقہ قال فقال المشرکون مااعتقہ ابوبکر الالید کانت عندہ فنزلت ۲اھ ملخصا اور علامہ ابوالسعود نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا کہ عطا اور ضحاک نے ابن عباس رضی ا للہ تعالی عنہما سے روایت کیا ( اس روایت میں خریداری بلال اور ان کے آزاد ہونے کا قصہ ذکر کیا پھر کہا) تو مشرکین بولے : ابوبکر نے بلال کو ان کے کسی احسان ہی کی وجہ سے آزاد کیا ہے تو یہ آیت (مندرجہ بالا)اتری اھ ملخصا۔
(۲ارشاد العقل السلیم تحت الایۃ ۹۲ /۱۹ داراحیاء التراث العربی ۹ /۱۶۸)
وفی الازالۃ عن عروۃ ان ابابکر الصدیق اعتق سبعۃ کلہم یعذب فی اللہ بلا لا وعامر بن فہیرۃ النھدیۃ وابنتہا وزنیرۃ وام عیسی وامۃ بنی المؤمل ، وفیہ نزلت وسیجنبہاالا تقی ۳ الی اآخر السورۃ۔ اور ازالہ میں عروہ سے ہے کہ ابوبکر صدیق ( رضی اللہ تعالی عنہ) نے سات کو آزاد کیا ، ان سب پر اللہ کی راہ میں ظلم توڑا جاتا تھا وہ بلال و عامر بن فہیرہ اور نہدیہ اور اس کی بیٹی اور زنیرہ اور ام عیسی اوربنی مؤمل کی کنیز ہیں اور انہیں کیلئے آیت اتری وسیجنبہا الاتقی اور اس سے (دوزخ) بہت دور رکھاجائے گا جو سب سے بڑا پرہیز گار ہے ۔ تا آخر سورت۔
(۳ازالۃ الخفا عن خلافۃ الخلفاء فصل ہشتم مقصد اول مسلک اول سہیل اکیڈمی لاہور ۱ /۳۰۱)
وعن عامر بن عبداللہ بن الزبیر عن ابیہ قال قال ابو قحافۃ لابی بکر اراک تعتق رقابا ضعافا فلوانک اذا فعلت مافعلت اعتقت رجالا جلدًا یمنعونک ویقومون دونک فقال یا ابت انما ارید وجہ اللہ فنزلت ھذہ الایۃ “فاما من اعطی واتقی الی قولہ وما لاحد عندہ من نعمۃ تجزی الا ابتغاء وجہ ربہ الاعلی ولسوف یرضی”۱۔ اور عامر بن عبداللہ بن الزبیر سے روایت ہے وہ اپنی باپ سے روای ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ حضرت ابوقحانہ نے ابوبکر (رضی اللہ تعالی عنہ) سے فرمایا : میں تمہیں دیکھتا ہوں کہ کمزور غلامون کو آزاد کرتے ہوتو کاش ۔ تم تندرست و توانا غلام آزاد کرتے جو تمہاری حفاظت کرتے اور جنگ میں تمہاری سپر ہوتے ۔ تو ابوبکر ( رضی اللہ تعالی عنہ) نے فرمایا ؛ اے میر ے باپ ۔میں تو صر ف اللہ کی رضا چاہتا ہوں تو یہ آیت نازل ہوئی
فامامن اعطی واتقی
یعنی جس نے دیا اور پرہیز گار ی کی ۔۔ اللہ تعالی کےقول وما لاحد عندہ من نعمۃ تجزی تک یعنی اس پر کسی کا احسان نہیں جس کا بدلہ دی اجائے صرف اپنے رب کی رضا چاہتا ہے جو سب سے بلند ہے ، اور بے شک قریب ہے کہ وہ راضی ہوگا۔
(۱ازالۃ الخفا عن خلافۃ الخلفاء فصل ہشتم مقصد اول مسلک اول سہیل اکیڈمی لاہور ۱/ ۳۰۱ )
وعن سعید بن المسیب قال نزلت ”ومالاحد عندہ من نعمۃ تجزی”فی ابی بکر عتق ناسا لم یلتمس منہم جزاء ولاشکورا ستۃ او سبعۃ منہم بلال وعامر بن فہیرۃ ۲ اور حضرت سعید ابن المسیب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ آیۃ کریمہ سے ”ومالاحد عندہ من نعمۃ تجزی”ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں اتری کہ انہوں نے کچھ لوگوں کو آزاد کیا اُن سے نہ بدلہ چاہا نہ شکرگزاری، وہ آزاد شدہ چھ یا سات تھے ، انہیں میں بلال وعامر بن فہیرہ رضی اللہ تعالی عنہما تھے۔
(۲ازالۃ الخفا عن خلافۃ الخلفاء فصل ہشتم مقصد اول مسلک اول سہیل اکیڈمی لاہور ۱/ ۳۰۱ )
وعن ابن عباس فی قولہ تعالٰی ” وسیجنبہا الاتقی” قال ھو ابوبکر الصدیق ۳۔ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے ” وسیجنبہا الاتقی” کی تفسیر میں ہے فرمایا وہ ابوبکرصدیق ہیں( آیت میں جن کا ذکر ہے ) ۔
(۳ازالۃ الخفا عن خلافۃ الخلفاء فصل ہشتم مقصد اول مسلک اول سہیل اکیڈمی لاہور ۱/ ۳۰۱ )
قلت وقد اخرج ابن ابی حاتم ابن مسعود ( رضی ا للہ تعالی عنہ ان ابابکر اشتری بلالا من امیۃ بن خلف ببردۃ وعشرۃ اواق فاعتقہ للہ تعالی ، فانزل اللہ تعالی ھذہ الآیۃ : ای ان سعی ابی بکر و امیہ و ابی لمفترق فرقانا عظیما فشتان مابینہما۱
وقد قال السید ابن السدید عما ربن یاسر رضی اللہ تعالی عنہما فی اشتراء الصدیق بلا لا واعتاقہ شعراً ع
جزی اللہ خیر اعن بلال وصحبہ عتیقا واخزی فاکہا وابا جہل
عشیۃ ھما فی بلال بسوء ۃ ولم یحذر امام یحذر المرء ذو العقل
بتوحید رب الانام وقولہ شہدت بان اللہ رب علی مھل
فان تقتلونی فاقتلونی فلم اکن لاشرک بالرحمن من خیفۃ القتل
فیا رب ابراھیم والعبد یونس وموسی وعیسی نجنی ثم تملی
لمن ظل یھوی الغی من ال غالب علی غیر برکان منہ ولا عدل۲
ھذا وقد قال البغوی فی الاتقی یعنی ابابکر الصدیق فی قول الجمیع۱ میں کہتا ہوں اور ابن ابی حاتم نے ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے بسند خود روایت کی کہ امیہ بن خلف اورابی بن خلف سے حضرت ابوبکر نے حضرت بلال کو ایک چادر اور دس اوقیہ سونے کے عوض خریدا پھر انہیں خاص اللہ کے لئے آزاد کر دیا تو اللہ تعالی نے یہ آیت اتاری جس کا مطلب یہ ہے ” بے شک تمہاری کوشش مختلف ہے ” یعنی ابوبکر ( رضی اللہ تعالی عنہ) اور امیہ اور ابی بن خلف کی کوششوں میں عظیم فرق ہےتو ان میں بون بعید ہے اور سردار بن سردار عمار بن یاسر رضی ا للہ عنہما نے ابوبکر صدیق کے بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو خرید کر آزاد کرنے کے بارے میں یہ اشعار کہے جن کا ترجمہ درج ذیل ہے ع
اللہ جزائے خیر دے بلال اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے عتیق ( ابوبکر کو اور امیہ اور ابوجہل کو رسوا کر ے ، وہ شام یاد کرو جب ان دونوں نے بلال کا برا چاہا اور اس سے نہ ڈرے جس سے ذی عقل آدمی ڈرتا ہے ، انہوں نے بلال کا برا اس لئے چاہا کہ بلال نے خلق کے خدا کو ایک جانا اور نے اس نے یہ کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ میرا رب ہے ، میں اس پر مطمئن ہوں تو اگر تم مجھے قتل کرو تو اس حال میں قتل کروگے کہ میں رحمان کا شریک نہیں ٹھہراتا قتل کے ڈرے سے تو اے ابراہیم اور اپنے بندے یونس اور موسی وعیسی کے رب ۔ مجھے نجات دے ، پھر اسے مہلت نہ دے جو ناحق ظالمانہ آل غالب کی گمراہی کی آرزو کئے جاتا ہے )۔اسے یاد رکھو اور امام بغوی نے الاتقی کی تفسیر میں کہا اس لفظ سے خدا کی مراد سب مفسرین کے قول کے بموجب ابوبکر صدیق ہیں۔
(۱ الصواعق المحرقۃ بحوالہ ابن ابی حاتم الباب الثالث الفصل الثانی دار الکتب العلمیہ بیروت ص ۹۹)
(۲لباب التاویل فی معافی التنزیل (تفسیر خازن) تحت الایۃ۱۷ /۹۲ درا الکتب العلمیہ بیروت۴/ ۴۳۶ )
(۱ معالم التنزیل ( تفسیر البغوی) تحت الایۃ ۱۷/۹۲ دار الکتب العلمیہ بیروت ۴ /۴۶۳)
وقال الرازی فی مفاتیح الغیب ” اجمع المفسرون منا علی ان المراد منہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ”۲۔ امام رازی نے مفاتیح الغیب میں فرمایا ہم سنیوں کے مفسرین کا اس پر اجماع ہے کہ اتقی سے مراد ابوبکر رضی ا للہ تعالی عنہ ہیں”
(۲مفاتیح الغیب الغیب (التفسیر الکبیر) تحت الایۃ ۹۲/ ۱۷ المطبعۃ البہیۃ المصر یۃ مصر ۳۱ / ۲۰۵)
ونقل ابن حجر فی الصواعق عن العلامۃ ابن الجوزی اجمعوا انہا نزلت فی ابی بکر ۳۔حتی بلغنی ان الطبرسی مع رفضہ لم یسغ لہ انکارہ فی تفسیر ہ مجمع البیان ، والفضل ماشہدت بہ الاعدء ، الحمد للہ رب العلمین ۔ صواعق میں ابن حجر نے علامہ ابن الجوزی سے نقل کیا علماء اس پر متفق ہیں کہ یہ آیت ابوبکر کے حق میں نازل ہوئی۔ یہاں تک کہ مجھے خبر پہنچی کہ طبرسی کو باوجود رفض اپنی تفسیرمجمع البیان میں اس کا انکار نہ بن پڑا اور فضل وہی ہے جس کی شہادت دشمن دیں ، والحمد للہ رب العلمین۔
(۳الصواعق المحرقہ الباب الثالث الفصل الثانی ، دار الکتب العلمیہ بیروت ص ۹۸)
ثم ان الا مام الفاضل فخر الدین الرازی حاول فی تفسیرہ اثباث ان الایۃ لا تصلح الا للصدیق بطریق النظر والاستد لال علی ماھو دابہ رحمہ اللہ تعالی فقال ”اعلم ان الشیعۃ باسر ھم ینکرون ھذہ الروایۃ ویقولون انہا نزلت فی حق علی ابن ابی طالب علیہ السلام والدلیل علیہ قولہ تعالی”ویؤتون الزکوۃ وھم راکعون ، فقولہ ”الاتقی الذی یؤتی مالہ یتزکی ” اشارۃ الی مافی تلک الایۃ من قولہ ”یؤتون الزکوۃ وھم راکعون ” ولما ذکر ذلک بعضہم فی محضری قلت اقیم الدلالۃ العقلیۃ علی ان المراد من ھذہ الایۃ ابوبکر ، وتقریر ھا ان المراد من ھذا الاتقی ھو افضل الخلق ، فاذا کان کذالک وجب ان یکون المراد ابوبکر، فہاتان المقد متان متی صحتاصح المقصود ، انما قلنا ان المراد من ھذا الاتقی افضل الخلق لقولہ تعالی” ان اکرمکم عند اللہ اتقا کم” والا کرم ھو الافضل فدل علی ان کل من کان اتقی وجب ان یکون الافضل ، فثبت ان الاتقی المذکور ھہنا الابد وان یکون افضل الخلق عند اللہ تعالی ، فنقول لابد و ان یکون المراد بہ ابا بکر لان الامۃ مجمعۃ علی ان افضل الخلق بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم تعالی علیہ وسلم اما ابو بکر اوعلی ، ولایکمن حمل ھذہ الایۃ علی علی بن ابی طالب فتعین حملہا علی ابی بکر ، وانما قلنا انہ لایمکن حملہا علٰی علی بن ابی طالب لانہ تعالی قال فی صفۃ ھذا الاتقی ”وما لاحد عندہ من نعمۃ تجزی ” وھذا الوصف لایصدق علی علی ابن ابی طالب لانہ کان فی تر بیۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم لانہ اخذہ من ابیہ وکان یطعمہ ویسقیہ و یکسوہ ویر بیہ ، وکان الرسول صلی اللہ علیہ وسلم منعما علیہ نعمۃ یجب جزاء ھا اما ابوبکر فلم یکن للنبی علیہ الصلوۃ والسلام نعمۃ دنیویۃ بل ابوبکر کان ینفق علی الرسول الصلوۃ والسلام بلی کان للرسول علیہ الصلوۃ والسلام علیہ نعمۃالھدایۃ والارشاد الی الدین ، الا ان ھذا لایجزی لقولہ تعالی” مااسئلکم علیہ من اجر ” والمذکور ھہنا لیس مطلق النعمۃ بل نعمۃ تجزی ، فعلمنا ان ھذہ الایۃ لاتصلح لعلی بن ابی طالب ، واذا ثبت ان المراد بھذہ الایۃ من کان افضل الخلق ، وثبت ان ذالک الافضل من الامۃ اما ابوبکر اوعلی ، وثبت ان الآیۃ غیر صالحۃ لعلی تعین حملہا علی ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہ ، وثبت دلالۃ الایۃ ایضا علی ان ابا بکر افضل الامۃ۱ اھ ملخصاً۔ پھر امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ تعالی نے اپنی عادت کے مطابق اپنی تفسیرمیں عقلی استدلال و نظر کی راہ سے یہ بات ثابت کرنےکی کوشش فرمائی کہ آیت کامفہوم صدیق اکبر کے سوا کسی کے لئے نہیں بنتا ، تو انہوں نے فرمایا تمہیں معلوم ہوکہ تمام شیعہ اس روایت کے منکر ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ آ یت علی بن ابی طالب کے حق میں اتری ہے اور اس کی دلیل اللہ کا فرمان ہے ویؤتون الزکوہ وھم راکعون یعنی وہ رکوع کی حالت میں زکوہ دیتے ہیں تو اللہ تعالی کا قول الاتقی الذی یؤتی مالہ یتزکی یعنی وہ سب سے بڑا پرہیز گار جو ستھرا ہونے کو اپنا مال دیتا ہے ، اسی وصف کی طرف اشارہ ہے جو اس آیت میں مذکورہو ا یعنی اللہ کا یہ فرمانا ” ویؤتون الزکوہ ” الایۃ اور جب ایک رافضی نے یہ بات میری مجلس میں کہی میں نے کہا میں اس پر دلیل عقلی قائم کروں گا کہ اس آیت سے مراد صرف ابوبکر ہیں ، اور تقریر دلیل یوں ہے کہ مراد اس بڑے پرہیز گار سے وہی ہے جو سب سے افضل ہے ، تو جب معاملہ ایسا ہے تو ضروری ہے کہ اس سے مراد بس ابوبکر ہوں ، تو جب یہ دونوں مقدمے صحیح ہونگے دعوی درست ہوگا ۔ اور ہم نے یہ اسی لئے کہاکہ اس بڑے پرہیز گار سے مراد سب سے افضل ہے کہ اللہ تعالی کا قول ہے ”اللہ کے یہاں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہو ۔”اور اکرم ہی افضل ہے ۔ تو آیت نے بتایا کہ ہر وہ شخص جو سب سے زیادہ پرہیزگا ر ہوگا ضروری ہے کہ وہ سب سے زیادہ مرتبے والا ہو ، تو ثابت ہوگیا کہ سب سے بڑا پرہیزگار جس کا یہاں (آیت میں) ذکر ہو ا ضروری ہے کہ اللہ کے یہاں سب سے افضل ہو۔ اب ہم کہتے ہیں کہ ساری امت اس پر متفق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلق سے افضل ابوبکر ہیں یا علی۔اور یہ ممکن نہیں کہ یہ آیت علی پر محمول کی جائے تو ابوبکر کے لئے اس کا مصداق ہونا متعین ہوگیا، اور ہم نے یہ اسی لئے کہا کہ آیت کو علی پر محمول کرنا ممکن نہیں کہ اللہ تعالی نے اس سب سے بڑے پرہیز گار کی صفت میں فرمایا ہے ومالاحد عندہ من نعمۃ تجزی یعنی اس پر کسی کا احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جائے ، اور یہ وصف علی بن ابی طالب پر صادق نہیں آتا اس لئے کہ وہ نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی تربیت میں تھے بایں سبب کہ نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے علی کو ان کے باپ سے لے لیا تھا او رحضور انہیں کھلاتے بلاتے ، پہناتے اور پالتے تھے اور حضور (رسول )صلی اللہ تعالی علیہ وسلم علی کے ایسے محسن ہیں کہ ان کے احسان کابدلہ واجب ہو ا۔ رہے ابوبکر ، تو حضور ( نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) کا ان پر دنیوی احسان نہیں بلکہ ابوبکر رسول علیہ الصلوۃ والسلام کا خرچ اٹھاتے تھے ، ہاں کیوں نہیں ابوبکر پر رسول علیہ الصلوۃ والسلام کا دین کی طرف ہدایت و ارشاد کا احسان ہے ۔ مگر یہ ایسا نہیں جس کا بدلہ دیا جائے اس لئے کہ اللہ تعالی نے فرمایا (حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کی حکایت کرتے ہوئے ) میں تبلیغ پر تم سے کچھ اجر نہیں مانگتا ۔ اور یہاں مطلق احسان کا ذکر نہیں بلکہ بات اس احسان کی ہے جس کا بدلہ دیا جائے تو ہم نے جان لیا کہ آیت کا یہ معنی علی بن ابی طالب کے لئے نہیں بتنا ، اور جب یہ ثابت ہے کہ مراد اس آیت کی وہی ہے جو افضل خلق ہے ، اور یہ ثابت ہے امت میں سب سے افضل یا ابوبکر ہیں یا علی ، اور یہ ثابت ہوچکا ہے کہ مفہوم آیت علی کے شایاں نہیں اس کا مصداق ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے متعین ہوگیا اور آیت کی دلالت اس پر بھی ثابت ہوگئی کہ ابوبکر ساری امت سے افضل ہیں اھ ملخصا۔
(۱ مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر) ۹۲/ ۱۷ المطبعۃ البہیۃ المصر یۃ مصر ۳۱ / ۲۰۵و ۲۰۶)
قلت اماما ذکر الفاضل الامام ان علیا رضی اللہ تعالی عنہ کا فی تربیۃ النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وانہ اخذہ من ابیہ فقد ذکرہ محمد بن اسحق وابن ھشام وھذا الفظ ابن اسحق ”حدثنی عبداللہ بن ابی نجیح عن مجاھد بن جبیر ابی الحجاج قال کان من نعمۃ اللہ تعالی علی علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ مما صنع اللہ تعالی لہ وارادہ بہ من الخیر ان قریشا اصابتہم ازمۃ شدید ۃ وکان ابوطالب ذاعیال کثیر فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم للعباس عمہ وکان من ایسر بنی ہاشم یا عباس ان اخاک ابا طالب کثیر العیال ، وقد اصاب الناس ماتری من ھذہ الازمۃ فانطلق بنا الیہ، فلنخفف عنہ من عیالہ آخذ من بنیہ رجلا وتاخذ انت رجلا ، فنکلہما عنہ قال العباس نعم فانطلقا حتی اتیا الی ابی طالب ، فقالا لہ انا نرید ان نخفف عنک من عیالک حتی ینکشف عن الناس ماھم فیہ ، فقال لھما ابو طالب اذا ترکتما لی عقیلا فاصنعا ما شئتما ، فاخذ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم علیاً فضمہ الیہ واخذ العباس جعفرا فضمہ الیہ فلم یزل علی رضی اللہ تعالٰی عنہ مع رسول اللہ صلی ا للہ تعالی علیہ وسلم حتی بعثہ اللہ تبارک وتعالی نبیا فاتبعہ علی وآمن بہ علی وصدقہ ولم یزل جعفر عند العباس حتی اسلم و استغنی عنہ ۱انتھٰی۔ میں کہتاہوں کہ رہی یہ بات جو فاضل امام (فخر الدین رازی علیہ الرحمہ) نے فرمائی کہ علی رضی اللہ تعالی عنہ حضور نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی تربیت میں تھے اور آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے انہیں ان کے والد سے لے لیا تھا تو اس کا ذکر محمد ابن اسحق وابن ہشام نے کیا ہے اور محمد بن اسحق کے الفاظ یوں ہیں : مجھ سے عبداللہ بن ابی نجیح نے حدیث بیان کی انہوں نے روایت کی مجامد بن جبیر ابی الحجاج سے انہوں نے فرمایا کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ پر اللہ تعالی کے احسان کے قبیل سے وہ ہے ، جو اللہ تعالی نے ان کے ساتھ کیا اور ان کی بھلائی کا ارادہ فرمایا وہ یہ کہ قریش پر سخت تنگی پڑی اور ابو طالب کی اولاد بہت تھی اس لئے رسول اللہ صلی ا للہ تعالی علیہ وسلم نے اپنے چچا عباس (رضی اللہ تعالی عنہ ) سے فرمایا اور وہ بنی ہاشم کے بڑے مالداروں میں سے تھے ، اے عباس ۔آپ کے بھائی ابو طالب کی اولاد بہت ہے اور لوگو ں پر جو یہ سختی پڑی ہے وہ آپ دیکھ رہے ہیں تو ہمارے ساتھ ابو طالب کے یہاں چلئے کہ ہم ان کی اولاد کا بوجھ کم کریں ان کے بیٹوں سے ایک آدمی میں لے لوں اور ایک آدمی آپ لے لیں تو ہم دونوں ان کی کفالت کریں ۔ حضرت عباس نے عرض کی : جی ہاں ۔ تو دونوں حضرات چل کر ابو طالب کے پاس تشریف لائے تو ان سے کہا: ہم چاہتے ہیں کہ جب تک لوگو ں کی مصیبت ( جس میں وہ مبتلا ہیں) دور ہو آپ سے آپ کی اولاد کا بوجھ کم کردیں ۔ تو ابو طالب ان سے بولے: اگر تم میرے لئے عقیل کو چھوڑ دو تو تم جو چاہو کر و۔ تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے علی کو لے کر اپنے سینے سے لگایا اور حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے جعفر کولیا اور چمٹالیا ۔ تو علی رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ساتھ رہے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے سرکا ر کو نبی مبعوث فرمایا تو حضرت علی ان پر ایمان لائےاور ان کو سچا مانا اور جعفر عباس کے پاس رہے یہاں تک کہ اسلام لاکر ان سے بے نیاز ہوگئے اھ ۔
(۱السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ذکر ان علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ دار ابن کثیر بیروت الجز ء اول والثانی ص۲۴۶)
قلت وتمام النعمۃ الکبری بتزویج البتول الزھراء صلوات اللہ علی ابیہا الکریم وعلیہا واماما ذکر من ان ابابکر کان ینفق علی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فہذا اوضح و اظہر عند من لہ خبرۃ بالاحادیث والسیر۔ اخر ج الامام احمد و البخاری عن ابن عباس عن النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قال : انہ لیس من الناس احد امن علی فی نفسہ ومالہ من ابی بکر بن ابی قحافۃ ولوکنت متخذا من الناس خلیلا لا اتخذت ابابکر خلیلا ولکن خلۃ الاسلام افضل سدوا عنی کل خوخۃ فی ھذاالمسجد غیر خوخۃ ابی بکر۱ میں کہتا ہوں اور نعمت کبری کی تکمیل بتو ل زہرا (فاطمہ) صلوات اللہ علی ابیہا الکریم و علیہا سے شادی ہوکر ہوئی ۔ اور یہ جو ذکر کیا کہ حضرت ابوبکر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا خرچ اٹھاتے تھے ۔ تو یہ اس کے نزدیک جس کو احادیث وکتب سیرت سے واقفیت ہے بہت واضح اور خوب ظاہر ہے ۔ امام احمد و بخاری نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے روایت کیا کہ حضور نے فرمایا: لوگو ں میں سے کوئی شخص نہیں جس کا اپنے جان ومال میں مجھ پر زیادہ احسان ہو سوا ابوبکر بن قحافہ کے ، اگر میں لوگوں میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو خلیل بناتا ، لیکن اسلامی خلت اور محبت افضل ہے ، اس مسجد میں ابوبکر کے دروازہ کے سوا سب دروازے بند کرو۔
(۱صحیح البخاری کتاب الصلوۃ باب الخوخۃ والممر فی المسجد قدیمی کتب خانہ کراچی ۶۷/۱)
(مسند احمد حنبل عن ابن عباس المکتب الاسلامی بیروت ۱/۲۷۰)
واخرج الترمذی عن ابی ھریرۃ عن النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم مالاحد عندنا ید الاوقد کا فیناہ ماخلا ابابکر فان لہ عندنا یدا یکافیہ اللہ بہا یوم القیٰمۃ واما نفعنی مال احد قط مانفعنی مال ابی بکر ولوکنت متخذا خلیلا لاتخذت ابا بکر خلیلا الا وان صاحبکم (ای محمد اصلی اللہ تعالی علیہ وسلم) خلیل اللہ۱ اور ترمذی نے (اپنی سند سے) ابوہریرہ (رضی اللہ تعالی عنہ )سے حدیث ذکر کی وہ نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں ( کہ سرکار علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا) ہر شخص کے احسان کا بدلہ ہم نے اسے دے دیا سوائے ابوبکر کے کہ ان کا ہم پر وہ احسان ہے جس کابدلہ انہیں اللہ تعالی قیامت کے دن دے گا ، اور مجھے کسی کے مال نے وہ فائدہ نہ دیا جو فائدہ مجھے ابوبکر کے مال نے دیا ، اور اگرمیں کسی کو دو ست بناتا تو ضرور ابوبکر کو دو ست بناتا ، اور خبر دار تمہارے صاحب (محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ) اللہ تعالی کے دوست ہیں ۔”
(۱جامع الترمذی ابواب المناقب مناقب ابی بکر الصدیق رضی اللہ تعالی عنہ امین کمپنی دہلی ۲۰۷/۲)
واخرج ایضا عن علی رضی اللہ تعالی عنہ النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم : رحم اللہ تعالی ابابکر زوجنی ابنتہ وحملنی الی دار الھجرۃ و اعتق بلالا من مالہ۲۔ اور ترمذی نے علی رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی حدیث ذکر کی انہوں نے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے روایت فرمائی : ”اللہ ابوبکر پر رحمت کرے مجھ سے اپنی بیٹی کا عقد کیا اور مجھے دار ا الہجرۃ (مدینہ) میں لائے اور اپنے مال سے بلال( رضی اللہ تعالی عنہ)کو خرید کر آزاد کیا ۔”
(۲ جامع الترمذی ابواب المناقب مناقب علی رضی اللہ تعالی عنہ امین کمپنی دہلی ۲۱۳/۲)
واخرج الامام احمد و ابن ماجۃ عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم : مانفعنی مال قط مانفعنی مال ابی بکر ، فبکی ابوبکر وقال ھل انا ومالی الا لک یا رسول اللہ ۳۔ اورامام احمد وابن ماجہ نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے نبی صلی اللہ تعالی تعالی علیہ وسلم کی یہ حدیث روایت کی مجھے کبھی کسی کے مال نے وہ فائدہ نہ دیا جو ابوبکر کے مال نے مجھے دیا، تو ابوبکر رودیئے اور عرض کی: یا رسول اللہ ! میں اور میرا مال آپ ہی کا تو ہے ۔”
(۳ سنن ابن ماجہ باب فضل ابی بکر الصدیق رضی اللہ تعالی عنہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۰)
( مسند احمد بن حنبل عن ابی ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۲/ ۲۵۳)
واخرج الطبرانی عن ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما عن النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم مااحد اعظم عندی یدا من ابی بکر واسانی بنفسہ ومالہ وانکحنی ابنتہ۱ اور طبرانی نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے انہوں نے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے یوں حدیث روایت کی ” مجھ پر ابو بکر سے بڑھ کر کسی کا احسان نہیں ، اس نے اپنی جان ومال سے میرا ساتھ دیا اور مجھ سے اپنی بیٹی کا نکاح کیا ۔”
(۱المعجم الکبیر حدیث ۱۱۴۶۱ المکتبۃ الفیضیلۃ بیروت ۱۹۱ٖٖ/۱۱)
واخر ج ابویعلی من حدیث ام المؤمنین الصدیقۃ رضی اللہ تعالی عنہا مرفوعا مثل حدیث ابن ماجۃ عن ابی ھریرۃ قال ابن حجر قال ابن کثیر مروی ایضا من حدیث علی اوبن عباس وجابربن عبداللہ و ابی سعید الخدری رضی اللہ تعالٰی عنھم واخرجہ الخطیب عن ابن ا لمسیب مرسلا وزاد وکان صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یقضی فی مال ابی بکر کما یقضی فی مال نفسہ ۔ واخرج ابن عساکر من طرق عن عائشۃ وعروۃ ان ابابکر اسلم یوم اسلم لہ اربعون الف دینار وفی لفظ اربعون الف درہم فانفقہا علی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم۲ اورابو یعلی نے ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی حدیث مرفوع حدیث ابن ماجہ براویت ابوہریرہ کے مثل (یعنی انہیں الفاظ سے) روایت کی ۔ ابن حجر نے فرمایا کہ ابن کثیر کا قول ہے کہ یہ حدیث علی وابن عباس وجابر بن عبداللہ وابو سعید خدری سے بھی مروی ہے اور خطیب نے اسے ابن المسیب سے مرسل روایت کیا ور اتنا زیادہ کیا : ” اور آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ابوبکر کے مال سے اپنا قرض ادا فرماتے جس طرح اپنے مال سے ادا فرماتے ۔اورابن عساکر نے متعد د سندوں سے حضرات عائشہ وعروہ سے روایت کیا ہے کہ ابوبکر جس دن اسلام لائے ان کے پاس چالیس ہزار دینار تھے ،اور ایک روایت میں ہے چالیس ہزار درہم تھے ، تو ابوبکر نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر اٹھا دیا اھ ۔
(۲ الصواعق المحرقۃ الباب الثانی الفصل الثانی ، دار الکتب العلمیہ بیروت ص ۱۱۲)
قلت ومروی اٰیضا من حدیث سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کما اخرجہ الامام ابن عدی فی الکامل انبأنا المولی الثقۃ الحجۃ مفتی الحنفیۃ بمکۃ المحمیۃ امام الفقہاء و المحدیثن سیدی واستاذی مولانا عبدالرحمن بن عبداللہ بن عبدالرحمن السراج عن جمال العلماء السلف الخیر فی منصب الافتاء مولانا جمال بن عبداللہ بن عمر المکی عن خاتمۃ الحفاظ والمحدثین مولانا محمد عابد بن الشیخ احمد علی السندی ثم الزبیدی ثم المدنی عن المولی محمد صالح الفلانی العمر ی عن الشیخ محمد بن السنۃ الفلانی الفاروقی عن مولای السید الشریف محمد بن عبداللہ عن الفاضل المحدث سیدی علی الاجہوری عن الامام شمس الدین الرملی عن شیخ الاسلام زید الدین زکریا الانصاری عن علامۃ الوری جبل الحفظ شہاب الدین ابی الفضل احمد حجر العسقلانی عن ابی علی محمد بن احمد المہدوی عن یونس بن ابی اسحق عن ابی الحسن علی بن المقیر انا ابوالکریم الشھر زوری انا اسمعیل بن مسعد ۃ الجرجانی انا ابو القاسم حمزۃ بن یوسف السھمی الجر جانی وابوعمر و عبد الرحمن بن محمد الفارسی انا ابو احمد عبداللہ بن عدی الجرجانی نا الحسین بن عبدالغفار الازدی نا سعید ابن کثیر بن غفیر نا الفضل بن مختار عن ابان عن انس قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لابی بکرما اطیب مالک منہ بلال موذنی وناقتی التی ھاجرت علیہا وزجنتی ابنتک و واسیتنی بنفسک ومالک کانی انظر الیک علی باب الجنۃ تشفع لامتی ۱۔ میں کہتا ہوں یہ حدیث سیدنا انس بن مالک سے بھی مروی ہے جیسا کہ امام عدی نے کامل میں اپنی سند سے روایت کیا ہے (سند حدیث مذکور)ہمیں خبر دی مولی ثقہ حجۃ مفتی حنفیہ بمکہ محمیہ پیشوائے فقہاء ومحدثین سیدی واستاذی عبدالرحمن بن عبداللہ بن عبدالرحمن سراج نے انہوں نے جمال علماء سلف خیر فی منصب الافتاء (یعنی منصب افتاء میں مفتیوں کے لئے اچھے پیشرو) مولانا جمال بن عبداللہ بن عمر مکی سے روایت کی انہوں نے خاتمۃ الحفاظ والمحدثین مولانا محمد عابد بن شیخ احمد علی سندی ثم زبیدی ثم مدنی سے روایت کی انہوں نے مولی محمد صالح فلانی عمر ی سے انہوں نے شیخ محمد بن السنۃ فلانی فاروقی سے انہوں نےمولائی سید شریف محمد بن عبداللہ سےا نہوں نے فاضل محدث سیدی علی اجہوری سےانہوں نے امام شمس الدین رملی سے انہوں نے شیخ الاسلام زین الدین زکریا انصاری سے انہوں نے علامہ عالم کو ہ حفظ شہاب الدین ابوالفضل احمد بن حجر عسقلانی سےا نہوں نے ابوعلی محمد بن احمد مہدوی سے انہوں نے یونس بن اسحاق سے انہوں نے ابوالحسن علی بن مقیر سے انہوں نے کہا ہمیں خبر دی ابوکریم شہر زوری سے ہمیں خبر دی اسمعیل بن مسعدہ بن جرجانی نے ہمیں خبر دی ابوالقاسم حمزہ بن یوسف سہمی جرجانی اور ابوعمر وعبدالرحمن بن محمد الفارسی نے ہمیں خبردی اور ابواحمد عبداللہ بن عدی جرجانی نے ہم سے حدیث بیان کی حسین بن عبدالغفار ازدی نے ہم سے حدیث بیان کی سعید بن کثیر بن غفیر نے ہم سے حدیث بیان کی فضل بن مختار نے ابان سے انہوں نے روایت کی انس سے انہوں نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ابوبکر سے فرمایا : تمہارا مال کتنا ستھرا ہے اسی سے میرا موذن بلال ہے اور میری اونٹنی ہے جس پر میں نے ہجرت کی اور تم نے اپنی دختر میرے نکاح میں دیا اور اپنی جان ومال سے میری مدد کی گویا میں تمہیں دیکھ رہا ہوں جنت کے دروازہ پر کھڑے ہو میری امت کیلئے شفاعت کررہے ہو۔
(۱ الکامل لابن عدی ترجہہ ابان بن ابی عیاش دار الفکر بیروت ۳۷۵/۱)
(الکام لابن عدی ترجمہ الفضل بن مختار بصری دار الفکر بیروت ۶/ ۲۰۴۱)
ھذا وقد ا سقصینا الکلام عی ھذین الفصلین الذین اشار الیہما النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فی تلک الاحادیث اعنی مواساۃ الصدیق النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بنفسہ ومالہ فصلین من الباب الثانی من کتا بنا الکبیر فی التفضیل علی غایۃ التحقیق والتفصیل فارجع الیہ ان احببت ھذا تقریر ماذکر الفاضل الرازی وقد اور دہ الامام ابن حجر ایضا فی الصواعق وارتضاہ۔ یہ تو ہوا اور ہم نے ان دونوں فصل پر ( یعنی صدیق کا نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی مدد جان ومال سے کرنا) جن کی طرف نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ان احادیث میں اشارہ فرمایا ۔ کامل گفتگو اپنی کتاب کبیر ، جو باب تفضیل میں ہے کے باب دوم کی دوفصلوں میں نہایت تحقیق و تفصیل کے ساتھ کی ہے اس کا مطالعہ کرلو اگر چاہو ، یہ کلام اس کلام کی تائید ہے جو فاضل رازی نے ذکر کیا ، اور امام رازی کا یہ کلام امام ابن حجر میں صواعق محرقہ بھی لائے اور اسے پسند فرمایا۔
قلت ولمنا قش ان یناقش فیہ باربعۃ وجوہ ینتظمہا وجہان الاول انا لانسلم ان ابابکر لم یکن علیہ احمد نعمۃ تجزی فان من اعظم المنعمین علی الانسان والدیہ قال تعالی ”ان اشکرلی ولو الدیک ۱۔
ومعلوم ان لاشکر الا بمقابلۃ النعمۃ و نعم الوالدین من النعم الدنیویۃ التی تجری فیہا المجاز اہ دون الدینیۃ التی قال اللہ تعالی فیہا قل ماسئلکم علیہ من اجر ۲
و”ان اجری الاعلی رب العلمین ۳
علی انا نعتقد ان النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قد تمت لہ خلافۃ اللہ العظمی ونیا بتہ الکبری فیدہ الکریمۃ علیا واید ی العلمین سفلی ۔ میں کہتا ہوں کسی کو مجال ہے کہ اس میں چار وجہ سے بحث کرے جن کو دو وجہیں گھیر ے ہیں پہلی وجہ یہ کہ ہمیں تسلیم نہیں کہ ابوبکر پر کسی کا ایسا احسان نہ تھا جس بدلہ دیا جائے اس لیئے کہ انسان پر بڑے محسنوں میں اس کے ماں باپ ہیں ۔ اللہ تعالی کا راشاد ہے : حق مان میرا او راپنے ماں باپ کا ۔ اور یہ معلوم ہے کہ شکر نعمت کے مقابل ہی ہوتا ہے اور والدین کے احسانات ان دینوی احسانات سے ہیں جن میں بدلہ دینا جاری ہے اور یہ دینی احسانات نہیں ہیں جن کی بابت اللہ کافرمان ہے ( حضو ر اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا) میں تم سے اس پر کچھ اجرت نیہں مانگتا میرا اجر تو جہانوں کے پروردگار پر ہے ، اس کے علاوہ ہمارا عقیدہ ہے کہ نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے لئے اللہ تعالی کی خلافت عظمی اور نیابت کبری کامل ہوچکی تو ان کا دست کرم بالا اور سب جہانوں کے ہاتھ پست ،
(۱ القرآن الکریم ۳۱/ ۱۴) (۲ القرآن الکریم ۲۵ / ۵۷ و۳۸/ ۸۶) (۳القرن الکریم ۲۶ / ۱۰۹ و ۱۲۷ و۱۴۵ و ۱۶۴ و ۱۸۰)
جعل سبحنہ و تعالی خزائن رحمتہ ونعمہ وموائد جودہ وکرمہ طوع یدیہ ،و مفوضۃ الیہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ینفق کیف یشاء وھو خزانۃ السر و موضع نفوذ الامر فلا تنال برکۃ الامنہ ولا ینقل خیر الاعنہ کما قال صلی اللہ تعالی عیہ وسلم انما انا قاسم واللہ المعطی ۱۔ فہو الذی یقسم الخیرات والبر کات وسائر النعماء والآلاء فی لارض والسماء والملک والملکوت والاول والاخروالباطن والظاھر ایقنت بھا جما ھیر الفضلاء العظام ومشاھیر الاولیاء الکرام کما حققتہ فی رسالتی الملقبۃ بسلطنۃ المصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ، وفیہا من المباحث الفائقۃ والمدارک الشائقۃ ماتقربہ الاعین وتلذبہ الاذان وتنشرح بہ الصدور والحمد اللہ رب العلمین فاذن ماکان لابی بکر اور غیر ہ من مال وبلوغ امال الابعطاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، فلم تنحصر النعم النبویۃ علی صاحبہا الصلوۃ والتحیۃ فی النعم الدینیۃ التی لاتجزی فکما ان علیا لم یصلح وموردا للایۃ فکذالک ابوبکر سواء بسواء ۔ اللہ تعالی نے اپنی رحمت اور کل نعمت کے خزانے اور اپنے فیض وکرم کے خوان ان کے ہاتھوں کے مطیع کردئے ، اور یہ سب انہیں سونپ دیا جیسے چاہیں خرچ کریں ،اوروہ راز الہی کا خزانہ اور اس کے حکم کی جائے نفاذ ہیں تو برکت انہیں سے ملتی ہے اور خیر انہیں سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا: میں تو بانٹتا ہوں اور اللہ دیتا ہے ۔تو وہی خیرات وبرکات اور ساری نعمتیں آسمان و زمین وملک وملکوت اول آخر باطن وظاہر میں بانٹتے ہیں اس پر فضلاء عظام اور مشہور اولیائے کرام کے جمہور کا یقین ہے جیسا کہ میں نے اپنے رسالہ سلطنۃ المصطفٰی میں تحقیق کی اس میں کچھ ایسے مباحث فاضلہ اور پسندیدہ دلائل ہیں کہ ان سے آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں اور کان لطف اندوز ہوتے ہیں اور سینے کھلتے ہیں ، تو جب یہ بات ہے ( کہ ساری برکت ونعمت مصطفٰی علیہ التحیۃ والثناء کے سبب ہے) تو ابوبکر کو جو کچھ مال ومنال حاصل ہو اوہ نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی عطا سے ہی حاصل ہو الہذا نبوی احسانات علی صاحبہا الصلوۃ والتحیۃ ان دینی احسانات میں منحصر نہیں جن کا بدلہ نہیں دیا جاتا تو جس طر ح علی(رضی اللہ تعالی عنہ) آیت کے مصداق نہ ٹھہرے اسی طر ح ابوبکر بھی یکسا ں طور پر آیت کے مصداق نہیں ۔
(۱ صحیح البخاری کتاب العلم باب من یرد اللہ خیر الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ / ۱۶)
( صحیح البخاری کتاب الجہاد باب قول اللہ تعالی فان قدمہ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۴۳۹)
(صحیح البخاری کتاب الاعتصام باب قول النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لاتزال طائفۃ من امتی قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۰۸۷)
اقول : والجواب عن اما اولا فلانہ ان صح ماذکر تم لتعطلت الایۃ راسا ولم یوجد لہا مصداق ابدا اذ لیس فی الصحابۃ من لم یلدہ ابواہ او لم ینعم علیہ النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فی دینہ ودنیاہ ۱۔ میں کہتا ہوں اس اعتراض کا جواب اول تو یہ ہے کہ اگر یہ صحیح ہوجو آپ نے ذکر کیا تو آیت سرے سے معطل ہوجائے گی اور کبھی اس کا کوئی مصداق نہ پایا جائے گا اس لئے کہ صحابہ میں کوئی ایسا نہیں جو اپنے ماں باپ سے پیدا نہ ہو یا اس پر نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے دین ودنیا کا کوئی احسان نہ فرمایا ہو۔
(۱صحیح مسلم کتاب العتق باب فضل عتق الوالد قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۴۹۵)
( سنن ابی داؤد کتاب السنۃ باب فی بر الوالدین آفتاب علم پریس لاہور ۲/ ۳۴۳)
واما ثانیا وھو الحل فلان نعم الدنیا لیست کلہا مما تجزی اذا لمجاز اۃ ھو المکافات وحاصل نعمۃ الوالدین ان اللہ سبحنہ وتعالی جعلہا سببا لایجادہ وخروجہ من ظلمۃ العدم الی نور التکون ، وبھما جعلہ بشرا حسینا بعد ان کان ماء مہینا وھذا مما لایمکن ان یجازی اذا لیس فی وسع احد ان یحیی ابویہ اویکونہما بعد ان لم یکونا ولذلک قال النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لایجزی ولد والدہ الاان یجدہ مملوکا فیشتر یہ فیعتقہ اخر جہ مسلم وابوداؤد والترمذی۱ونسائی وابن ماجۃ فاشار صلی اللہ تعالی علیہ وسلم الی بعض المجازاۃ علی حسب مایدخل تحت الامکان فان الرق موت حکما اذبہ تتعطل الاھلیۃ ویلتحق الانسان العاقل البالغ بالبہائم فالعتق کانہ احیاء لہ و اخراج من ظلمۃ البھیمیۃ الی نور الانسانیۃ فعن ھذ عد ادا ء لبعض حقوقہما وکذالک النعم النبویۃ علی صاحبہا الصلوۃ والتحیۃ علی حسب ماقر ر نا علیک لیست مما تجزی وتجری فیہ ذاک بھذا الانہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فی ذلک المقام الرفیع والمنصب البدیع انما یتصرف علی خلافۃ الملک المقتدر تبارک و تعالی و نعم الملک لاتجزی فان الاحسان لایجازی الا بالاحسان کما نطق بہ القرآن العظیم ومایجازی بہ العبد لابد وان یکون ایضا من عطا یا ہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فکان مکافات عطائہ بعطائہ وھو غیر معقول وعن ھذا نعتقد ان اداء شکر اللہ سبحنہ وتعالی بعمنی فراغ الذمۃ منہ محال عقلا اذا لشکر نعمۃ اخری فلیشکر ھا حتی یخرج عن عہدتہ ویتسلسل الی مالایتناھی ، فثبت ان الدلیل لا غبار علیہ من ھذاالوجہ ۔ اور جواب دوم اور وہی حل ہے یہ کہ دنیا کے سب احسان ایسے نہیں جن کا بدلہ دیاجاتا ہو اس لئے کہ احسان کابدلہ یہ ہے کہ احسان کے مساوی اس کی جزا دے ، اور والدین کے احسان کا حاصل یہ ہے کہ اللہ سبحنہ وتعالی نے انہیں بچہ کی ایجاد اور عدم کی ظلمت سے نور ہستی میں آنے کا سبب بنایا ہے اور ان کے سبب سے اس کے بعد کہ وہ بے وقعت پانی تھا خوبصورت انسان بنایا ، اور یہ احسان کا بدلہ نہیں ہوسکتا یوں کہ کسی کی مجال نہیں کہ وہ اپنے والدین کو زندہ کردے ، یا عدم کے بعد انہیں موجود کردے ، اسی لئےنبی صلی اللہ تعالی تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بچہ اپنے ماں باپ کا بدلہ نہیں چکا سکتا مگر یہ کہ اسے غلام پائے تو اسے خرید کر آزاد کردے ۔” یہ حدیث مسلم وابوداؤد وترمذی ونسائی وابن ماجہ نے اپنی سندوں سے رویت کی تو نبی صلی ا للہ تعالی علیہ وسلم نے تھوڑے بدلہ کی طرف (جو موافق مقدور بشر ہو ) اشارہ فرمایا اس لئے کہ غلامی موت کے حکم میں ہے اس وجہ سے کہ اس کے سبب آدمی کی اہلبیت معطل ہوجاتی ہے اور عاقل بالغ انسان جانوروں سے مل جاتا ہے لہذا اسے آزاد کرنا گویا کہ اس کو زندہ کرنا اور بہیمیت کی تاریکی سے انسانیت کی روشنی میں لے آناہے ، اسی لئے ماں باپ کو آزاد کرنا اس کے بعض حقوق کی ادائیگی میں شمار ہوا ، اسی طر ح نبوی احسانات علی صاحبہا الصلوۃ والتحیۃ جیسا کہ ہم نے تمہارے لئے ثابت کیا ایسے نہیں جن کا بدلہ دیاجائے اور ان میں یہ مقولہ جاری ہو کہ یہ اس احسان کا بدلہ ہے اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم تو اس مقام رفیع اور اس منصب بے نظیر میں بادشاہ قادر تبارک وتعالی کی خلافت پر فائز ہو کر متصرف ہیں اور بادشاہ کی نعمتوں کا بدلہ نہیں ہوتا ، اس لئے کہ بدلہ بغیر احسان کے نہیں ہوتا ، جیسا کہ اس پر قرآن عظیم ناطق ہے ، اور بندہ احسان کا جو بدلہ دے گا لامحالہ وہ بھی سر کار علیہ الصلوۃ والسلام کی عطا سے ہوگا تو سرکار کی عطا کی مکافات سرکاری عطا سے ہوگی ، اور یہ معقول نہیں، یہیں سے ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ سبحنہ وتعالی کا شکر بہ معنی براء ت ذمہ از شکر عقلا محال ہے اس لئے کہ شکر نعمت دیگر ہے تو بندہ اس دوسری نعمت کا شکرکرے کہ عہدہ بر آہو اور یہ سلسلہ شکر کانہایت کو نہ پہنچے تو ثابت ہو ا کہ دلیل اس وجہ سے بے غبار ہے
(۱ جامع الترمذی ابواب البر و الصلۃ باب ماجاء فی حق الوالدین امین کمپنی دہلی۲/ ۱۳)
( سنن ابن ماجۃ ابواب الادب باب بر الوالدین ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲۶۸)
( مشکوۃ المصابیح کتاب العتق باب اعتاق العبد المشترک الفصل الاول قدیمی کتب خانہ کراچی ص۲۹۴)
الثانی : ان المقدمۃ القائلۃ ان الامہ مجمعۃ علی ان افضل الخلق بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلماما ابوبکر اوعلی رضی اللہ تعالی عنہما۔
مدخول فیہا اذھناک فرقتان اخریان تدعی احدھما تفضیل سیدنا الفاروق رضی اللہ تعالی عنہ علی جمیع الامۃ ، ومستند ھا مایروی عن النبی صلی ا للہ تعالی علیہ وسلم ، انہ قال ماطلعت الشمس علی رجل خیر من عمر۱ وعنہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لوکان بعدی نبی لکان عمر بن خطاب ۲ دوسری وجہ : یہ ہے کہ یہ مقدمہ جس کا مضمون ی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے بعد افضل یا ابوبکر ہیں یا علی رضی اللہ تعالی عنہما ۔ اس پر اجماع امت ہے ۔
اس پر اعتراض کو مجال ہے اس لئے کہ یہاں دو فرقے اور ہیں ، ان میں کا ایک دعوی کرتا ہے کہ سیدنا فاروق رضی اللہ تعالی عنہ ساری امت سے افضل ہیں ، اور اس کی دلیل وہ حدیث ہے جو نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے مروی ہے کہ ” حضرت عمر سے بہتر کسی آدمی پر سورج طلوع نہیں ہوا ۔ اور آپ سے مروی ہے ، کہ : اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر نبی ہوتے ۔
(۱ کنز العمال حدیث ۳۲۷۳۹موسستہ الرسالہ بیروت ۱۱/ ۵۷۷)
( ۲جامع الترمذی البواب المناقب باب مناقب عمر رضی اللہ تعالی عنہ امین کمپنی دہلی ۲ /۲۰۹)
وعنہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ان اللہ تعالی باھی باھل عرفۃ عامۃ وباھی لعمر خاصۃ۳ وان کان الاستدلال بہا و بامثالہا لایقوم علی ساق اما روایۃ اودرایۃ اومعا کاستمساک المفضلۃ بحدیث علی خیر البشر وحدیث الطیر و حدیث الاستخلاف فی غزوۃ تبوک وماضا ھاھا فمنہا کذب مختلق ومنہا منکر واہٍ ومنہا ما یایفید ہم شیئا وکذلک مضت سنۃ اللہ فی کل مبتدع یحتج ولا حجۃ ویجنح حیث لامحجۃ۔ اور حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے روایت ہے کہ” اللہ تعالی نے عرفات میں جمع ہونے والوں پر عام طور سے فخر فرمایا اور عمر سے خاص طور سے مباہات فرمائی ۔ اگر چہ اس روایت سے اور اس کے مشابہ روایتوں سے دلیل پائے ثبات پر قائم نہیں ہوتی یا بلحاظ روایت یا بلحاظ درایت یا دونوں کے لحاظ سے ، جیسے تفضیلیہ کا حدیث علی خیر البشر علی سب انسانوں سے افضل ہیں اور حدیث طیر اور غزوہ تبوک کے زمانہ میں سرکار علیہ الصلوۃ والسلام کا علی (رضی اللہ تعالی عنہ) کو اپنا خلیفہ مقرر رفمانے کی روایت سے تمسک کا حال ہے کہ ان میں کچھ تو نری تراشیدہ جھوٹ ہیں اور کچھ منکر واہی ( راویان ثقہ کے مقابل روایان غیر ثقہ کی روایات ضعیف ہیں) اور کچھ انہیں بالکل فائدہ مند نہیں اور یو نہی اللہ تعالی کی سنت ہر بد مذہب کے حق میں ہوئی کہ وہ استدلال کرے حالانکہ دلیل نہیں اور وہاں کا قصد کرے جہاں راستہ نہیں ۔
( ۳ کنزالعمال حدیث ۳۲۷۲۵مؤسستہ الرسالہ بیروت ۱۱/ ۵۷۵)
( کنزالعمال حدیث ۳۵۸۵۸مؤسستہ الرسالہ بیروت ۱۲/ ۵۹۶)
والفرقہ الاخری تدعی تفضیل سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالی عنہما وکان ملحظہم وان لم یعط ففضہم قولہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فیہ اب عم الرجل صنو ابیہ ، وھو حدیث احسن اخرجہ الترمذی۱وغیرہ عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ ولاشک انہ رضی اللہ تعالی عنہ شیخ المسلمین وسیدھم ومقدمہم وقائد ھم وعزنفوسہم وتاج رؤسہم حتی الخلفاءالاربعۃ من ھذا الوجہ کما ان حضرۃ البتول الزھراء واخاھا السید الکریم ابراھیم علی ابیھما وعلیہما الصلوۃ التسلیم افضل الامۃ مطلقا من جہۃ النسب واجزائیۃ وکرامۃ الجوہر والطینۃ۔ اور دوسرافرقہ سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالی عنہما کو سب سے افضل کہتا ہے ، گویا انکے مد نظر اگرچہ ان کی مراد نہیں دیتا اس بارے میں حضور صلی اللہ تعالی عنہ کا عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے بابت قول ہے کہ آدمی کا چچا اس کے باپ کی مثل ہے ۔ اور یہ حدیث حسن ہے جسے ترمذی وغیرہ نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ۔ اور کچھ شک نہیں کہ حضرت عباس رضی ا للہ تعالی عنہ شیخ المسلمین ہیں اور ان کے سردار ہیں اور ان کے صدر وقائد اور ان کی آبر واوران کے سر وں کا تاج ہیں ۔اس وجہ سے چاروں خلفاء پر بھی انہیں فضیلت ہے ۔ جیسے حضرت فاطمہ زہر اور ان کے بھائی سید ابراہیم ان کے ولد اور ان پر صلوۃ وسلام ہو ، روئے نسب وجزئیت وکرامت جوہر وطینت تمام امت سے افضل ہیں ۔
(۱جامع الترمذی ابواب المناقب مناقب عم النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم العباس امین کمپنی دہلی ۲/ ۲۱۷)
وبالجملہ فلا یتعین احد من الشقوق الاربعۃ الابابطال الثلثۃالباقیۃ جمیعا فکیف قلتم ان الایۃ لما لم تلتئم علی علی تعین ابوبکر مصد اقالہا علی ان المسائل السمعیۃ لاتنال الامن قبل السمع۔ بالجملہ ان چار شقون سے کوئی شق باقی تین وجوہ کو باطل کئے بغیر متعین نہیں ہوگی تو آپ نے کیونکر فرمایا کہ آیت کریمہ جب علی پر صادق نہ آئی تو ابوبکر اس کا مصداق متعین ہوئے علاوہ اس کے مسائل سمعیہ دلیل سمعی ہی سے حاصل ہوتے ہیں۔
فالناظر المتفحص الامذھب لہ قبل ان ینظر فی دلیل فیظہر لہ سبیل فان کان تمام الدلیل موقوفا علی (التمذھب) بمذھب لزم الدور وھذ انظیر ما اجبنا بہ عن استدلال الائمۃ الشافعیۃ علی افتراض الترتیب فی الوضوء بد خول الفاء علی الوجوہ وعدم القائل بالفصل کما ھو مذکور فی الخلافیات۔ تو صاحب نظر وجستجو کا کوئی مذہب اس سے پہلے نہیں ہوتا کہ وہ دلیل میں غور کرے تو کوئی راہ اس کو روشن ہوجائے تو اگر دلیل کا تام ہونا کسی مذہب سازی پر موقوف ہوتو دور لازم آئے گا اور یہ اس جواب کی نظیر ہے جو ہم نے ائمہ شافعیہ کی اس دلیل کے جواب میں کہا جو انہوں نے وضو میں فرضیت ترتیب پر آیت کریمہ میں وجوہ پر دخول فاء اور قائل بالفصل کے معدوم ہونے سے قائم کی جیسا کہ خلافیات میں مذکور ہے ۔
اقول : والجواب عنہان مستند نا الاول الذی علیہ المعول فی ھذ الباب اجماع الصحابۃ والتابعین لہم بالحسان رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کما نقلہ الامام الشافعی ثم البیہقی ثم اخرون ودلت علیہ احادیث عند البخاری وغیرہ کما فصلتہ فی الکتاب واقمت الدلیل الجلیل علی ان الاجماع تام کامل لم یثبت شذ وذمنہ ولاندور ، وان الخلاف الذی ذکرہ ابو عمر بن عبدالبر فلیس مما یعرج علیہ اویلتفت الیہ الا روایۃوالادرایۃ وان سلمنافالسواد االعظم مبتوع واتباع الشاذ ممنوع ، وھذا القدر یکفینا للتمذھب فانتفی الدور نعم حدیث الفرقتین قوی صحیح لیکن لا یخل بالمقصود فان عمر و عباسا رضی اللہ تعالی عنہما لم یکونا سلما حین نزول الایۃ کما یظہر بالرجوع الی التاریخ ، فلم یقصدا بالایۃ قطعا وبہ بطل الشقان الباقیان واٰل الدلیل الی الاحصان والارصان والحمد للہ ولی الاحسان غایۃ الامر ان الفاضل المستدل لم یطلع ھذین القولین اولم یعتد بہما لتنا ھیہما فی السقوط والشذوذعلی أنا بحمد اللہ بعد ما ثبت الاجماع علی ان الصدیق ھو المراد فی غنی عن ھذہ التجشمات کما لا یخفی اذا ثبت ھذا فنقول وصف اللہ سبحنہ وتعالی الصدیق بانہ اتقی و صف الاتقی بانہ الکرم انتجت المقدمتان ان الصدیق اکرم عند اللہ تعالی والافضل والاکرم والارفع درجۃ والاعلی مکانۃ کلہا الفاظ معتورۃ علی معنی واحد ، فثبت الفضل المطلق الکلی للصدیق واللہ تعالی ولی التوفیق ، ھذا تقریر الدلیل بحیث یشفی العلیل ویروی الغلیل والحمد للمولی الجلیل واعلم ان ھذا الاحتجاج اطبقت علیہ کلمات العلماء سلفا وخلفا وار تضوہ وتلقوہ بالقبول تلیدا و طارفا ولا شک انہ لجدیر بذلک لکن المفضلۃ لہم کلام فیہ بثلثۃ وجوہ نذکر ھا نرد ھا بحیث لایبقی ولا یذر بتوفیق اللہ العلی الاکبر ۔ میں کہتا ہوں اور اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اس بات میں ہماری اولین سند جس پر ہمارا اعتماد ہے جملہ صحابہ اور اچھے طریقے پر ان کے تمام پیر وان کا تابعین کا اجماع ہے جیسا کہ امام شافعی پھر بیہقی پھر دیگرائمہ نے اسے نقل کیا اور اس پر بخاری وغیرہ کی احادیث دلالت کرتی ہیں جیسا کہ میں نے اپنی کتاب میں مفصل بیان کیا ہے اور اس امر پر میں نے دلیل جمیل قائم کی کہ اجتماع تام کا مل ہے اور اس سے کسی کا خلاف ثابت نہیں اور یہ کہ جو خلاف علامہ ابوعمر بن عبدا لبر نے ذکر کیا نہ روایت کے لحاظ سے نہ درایت کے لحاظ سے وہ اس قابل ہے کہ نظراس پر گزرے یا اس کی طرف مڑکے دیکھا جائے ۔ اور اگر ہم مان لیں تو سواد اعظم ہی کی اتباع ہوگی اور شاذ ونادر کی اتباع ممنوع ہوگی اور اتنی بات ہمیں مذہب قرار دینے کو کافی ہے تو دور نہ رہا ، ہا ں ان دوفرقوں کی (جو حضرت عمر وعباس کی فضلیت پاتے ہیں) حدیث قوی وصحیح ہے ، لیکن مقصود میں خلل انداز نہیں اس لئے کہ عمر و عباس آیت کے نزول کے وقت مسلمان نہ تھے ، جیساکہ مطالعہ تاریخ سے ظاہر ہے ، تو یہ دونوں قطعی آیت کے مقصود ہی نہ ہوئے ، اور اسی وجہ سے باقی دو شقیں باطل ہوگئیں اور آخر کار دلیل مضبوط ومستحکم رہی، اس معاملہ کی نہایت کا ریہ کہ فاضل مستد ل کو تو ان دونوں مذہبوں کا علم نہ ہوا یا اس وجہ سے کہ سقوط وندرت میں حد کو پہنچے ہونےکی وجہ سے انہیں شمار ہی نہیں فرمایا ، مزید برآں بحمد اللہ اس پر اجماع کہ صدیق ہی مراد آیت ہیں کہ ثابت ہونے کے بعد ہم ان تکلفات سے بے نیاز ہیں ، جیسا کہ ظاہر جب یہ بات ثابت ہوچکی تو ہم کہتے ہیں اللہ تعالی نے صدیق کا وصف بیان فرمایا کہ وہ اتقی ہیں اور اتقی کا وصف بتایا کہ وہ اکرم ہے ان دو مقدموں نے نتیجہ دیا کہ صدیق اللہ تعالی کے نزدیک اکرم (سب سے افضل )ہیں اور افضل اکرم اور ارفع درجۃ اور اعلی منزلۃ یہ سب الفاظ ایک ہی معنی پر صادق آتے ہیں ، لہذا فضل مطلق کلی صدیق کیلئے ثابت ہے اور اللہ تعالی ہی تو فیق کا مالک ہے اور تم جان لو کہ اس استدلال پر جملہ علماء سلف وخلف کا اتفاق ہے اور سب نے اسے پسند کیا اور قبول کے ہاتھوں لیا ہے اور کوئی شک نہیں کہ یہ اس کے قابل ہے ،لیکن تفضیلیہ کو اس میں تین وجوہ سے کلام ہے ہم ان وجہوں کو خدائے بزرگ و بر تر کی توفیق کے سہارے ذکر کرتے ہیں اور ان کا ایسا رد کرتے جو کوئی شبہ باقی نہ چھوڑے اور کوئی شک نہ رہے ۔
فنقول الشبہۃ الاولی ان من المفسر ین من فسر الاتقی بالتقی کمافی المعالم والبیضاوی وغیرھما من التفا سیر فسقط الاحتجاج عن اصلہ اقول ولا علینا ان نمھد اولا مقدمات تعینک ان شاء اللہ تعالی فی الجواب عن ھذا الاتیاب ثم نرفع الحجاب عن وجہ الصواب بتوفیق العلیم الوھاب فاستمع لما یلقی علیہ ۔ ہم کہتے ہیں کہ پہلا شبہہ یہ ہے کہ بعض مفسرین نے اتقی کی تفسیر تقی (صفت مشبہ جس میں فضیلت دوسرے پر ملحوظ نہٰیں کہ صرف تقوی سے اتصاف ہے ) سے کی جیسا کہ معالم وبیضا وی وغیرہما تفاسیر میں ہے تو استدلال جس کی بنیا د اتقی کے اسم تفضیل ہونے پر تھی ) جڑ سے اکھڑا پڑا ، میں کہتا ہوں ہمارا کوئی حرج نہیں اس میں کہ ہم پہلے کچھ ایسے مقدمات کی تمہید اٹھائیں جو جواب میں ان شاء اللہ تعالی تمہاری مدد کریں پھر ہم خدائے دانا وبخشندہ کی تو فیق کے سہارے چہرہ صواب سے حجاب اٹھائیں تو سنو جو تم سے کہا جائے۔
المقدمۃ الاولی ماتظافرت لادلۃ من العقل والنقل و ناھیک بھما اما مین علی ان الالفاظ لاتصرف عن ظواھر ھا مالم تمس حاجۃ شدیدۃ لاتندفع الابہ والا لم یکن ھذا تاویلا بل تغییرا وتبدیلا ولو فتح باب التصرفات من دون ضرورۃ تلجئ لارتفع الامان عن النصوص کما لایخفی وھذ بغایۃ ظہور ہ اغنانا عن تجشم اقامۃ الدلیل علیہ حتی ان بعض العلماء ادرجوہ فی متون العقائد وانہ لَحَقِیق بہ فان قصاری ھمم المبتد عین عن اخر ھم انما ھو صرف النصوص عن الظواھر وارتکاب تاویلا ت فاسدۃ واحتمالات کاسدۃ واعذار باردۃ فو جب علینا حسم مادتھا بایجاب حمل النصوص علی مایعطیہ ظاھرھا الابضرورۃ ابدا وھذ اظاہر جد ا ۔ پہلا مقدمہ عقل ونقل کی بکثرت دلیلیں (اور یہ دونوں امام تمہیں کافی ہیں) اس پر متفق ہیں کہ الفاظ کو اپنے ظاہر معنی سے پھیرنا منع ہے جب تک کہ سخت حاجت نہ ہو جو لفظ کو ظاہر معنی سے پھیرےبغیر دفع نہ ہو ورنہ یہ بے ضرورت پھیرنا تاویل نہ ہوگا بلکہ تغیر وتبدیل ٹھہرے گا اور اگر بے ضرورت پھیرنے کا دروازہ کھل جائے تو نصوص شرعیہ سے امان اٹھ جائے جیسا کہ پوشیدہ نہیں اور یہ مسئلہ چونکہ نہایت ظاہر ہے اس لئے اس نے ہمیں دلیل قائم کرنے کی زحمت سے بے نیاز کردیا ۔ بعض علماء نے اس عقائد کے متون میں رکھا ، اور یہ مسئلہ اس کا سز وار ہے اس لئے کہ سب بدمذہبوں کی ساری کوشش یہی ہے ، کہ عبارات شرعیہ ان کے ظاہر ی معنی سے پھیر دیں او رفاسدتاویلوں اور کھوتے احتمالوں اور نہ چلنے والے بہانوں کے مرتکب ہوں تو ہم پر واجب ہے کہ نصوص شرعیہ کو مقام ضرورت کے سوا ہمیشہ ان کے ظاہری معنی پر رکھنا واجب بتا کر ان تا ویلات کا مادہ کاٹ دیں ، اور یہ بات خوب ظاہر ہے۔
المقدمۃالثانیۃ : لیس کل مایذکر فی اکثر التفاسیر المتداولۃ واجب القبول وان لم یسا عدہ معقول ویؤیدہ منقول ، والوجہ فی ذلک ان التفسیر المرفوع وھو الذی لامحیص عن قبولہ ابدا نذر یسیر جدا لایبلغ المجموع منہ جزء اوجزئین۔ دوسرا مقدمہ : بہت سی متداول تفسیروں میں جو مذکورہوتا ہے وہ سب ایسا نہیں جس کا قبول کرنا ضروری ہو اگر چہ نہ کوئی دلیل عقلی اس کی معین ہو نہ کوئی دلیل شرعی اس کی موید ہو ، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تفسیر مرفوع ( جو سرکار علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمائی ) وہ بہت تھوڑی ہے جس کا مجموعہ دو جز بلکہ ایک جز کو بھی نہیں پہنچتا ۔
قال الامام الجوینی علم التفسیر عسیر یسیر اما عسرہ فظاھر من وجوہ اظہر ھا انہ کلام متکلم لم یصل الناس الی مرادہ بالسماع منہ ، ولا امکان للصول الیہ بخلاف الامثال والاشعار ونحوھا فان الانسان یمکن علمہ منہ اذاتکلم بان یسمع منہ اوممن سمع منہ ، واما القرآن فتفسیرہ علی وجہ القطع لایعلم الابان یسمع من الرسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وذلک متعذر الا فی ایات متعددۃ قلائل ، فالعلم بالمراد یستنبط بامارات ودلائل ،والحکمۃ فیہ ان اللہ تعالی اراد ان یتفکر عبادہ فی کتاب ، فلم یامر نبیہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بالتنصیص علی المراد فی جمیع آیاتہ ۱ اھ امام جو ینی کا قول ہے علم تفسیر مشکل اور کم ہے ، اس کا مشکل ہونا تو کئی وجوہ سے ظاہر ہے ، ان میں روشن تروجہ یہ ہے کہ وہ ایسے متکلم (عزجلالہ) کا کلام ہے جس کی مراد کو لوگ اس سے سن کر نہ پہنچے اور نہ اس کی طرف رسائی کا امکان ہے بخلاف امثال واشعار اور ان جیسی اور باتون کے کہ انسان کو بولنے والے کی مراد معلوم ہوسکتی ہے جب وہ بولے بایں طور کہ وہ اس سے خود سنے یا اس سے سنے جس نے اس سے سنا ہو ۔ رہی قرآن کی قطعی طور پر تفسیر تو وہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے سنے بغیر معلوم نہ ہوگی اور وہ (جو سرکار علیہ الصلوۃ والسلام سے سنا گیا )چند گنتی کی آیتوں کے ماسوا میں تعذر ہے تو مرد الہی کا علم امارات ودلائل سے مستخرج ہوتا ہے اور حکمت اس میں یہ ہے کہ اللہ تعالی نے چاہا کہ اس کے بندے اس کی کتاب میں غور وفکر کریں لہذا اپنے نبی (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم )کو اپنی تمام آیات کی مراد واضح طور پر بتانے کا حکم نہ دیا اھ
(۱ الاتقان بحوالہ الجوینی فصل الحاجۃ الی التفسیر دار الکتاب العربی بیروت ۲/ ۴۳۰)
وقال الامام الزرکشی فی البرھان للناظر فی القرآن لطلب التفسیر ماخذ کثیرۃ امہاتھا اربعۃ الاول النقل عن رسول اللہ صلی ا للہ تعالی علیہ وسلم وھذا ھوالطراز الاول لیکن یجب الحذر من الضعیف فیہ والموضوع فانہ کثیر ۲الخ۔ اور اما م زرکشی نے برہان میں فرمایا جو شخص قرآن میں تفسیر کے حصول کیلئے نظر کرتا ہے اس کے لئے بہت سے مراجع ہیں جن کے اصول چار ہیں ، اول وہ تفسیر جو نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے منقول ہو اور یہی پہلا نمایا ں طریقہ ہے ، لیکن اس میں ضعیف وموضوع سے احتراز واجب ہے اس لئے کہ وہ ( ضعیف وموضوع ) زیادہ ہے الخ ۔
(۲ البرہان فی علوم القرآن فصل فی امہات ماخذ التفسیر للناظر فی القرآن دار الفکر بیروت ۲/ ۱۵۶)
قال الامام السیوطی الذی صح من ذلک قلیل جدا بل اصل الوضوع منہ فی غایۃ القلۃ ،وکذلک الماثور عن الصحابۃ الکرام و التابعین لہم باحسان قلائل لہذہ الطوامیر الکبروالا قاویل الذاھبۃ شذر مذر فیہا لاخبر ولا اثر و انما حدثت بعدھم لما کثرت الاراء و تجاذبت الاھواء قام کل لغوی و نحوی وبیانی وکل من لہ مما رسۃ بشیئ من انواع علوم القرآن یفسر الکلام العزیز بما سمح بہ فکرہ وادی الیہ نظرہ ثم جاء الناس مہر عین وبجمع الاقوال مولعین فنقلوا ما وجدوا وقلیلا مانقد وا فعن ھذا جاء ت کثرہ الاقاویل ختلاط الصواب بالا باطیل ۔ امام سیوطی نے فرمایا جو ان کی طرف سے صحیح ہے وہ بہت کم ہے بلکہ اس میں اصل موضوع قلت ہی ہے ۔اور اسی طر ح وہ تفسیر جو صحابہ کرام اور ان کے تابعین نیکو کار سے منقول ہے وہ ان بڑے طوماروں اور ان اقوال کے مقابل کم ہیں جو مختلف راہوں میں چلے گئے اور ان کے لئے کوئی حدیث یا صحابی وتابعی کا قول نہیں ، یہ اقوال تو صحابہ وتابعین کے بعد ظاہر ہوئے ۔ جب خیالات بسیار ہوئے اور مذاہب میں کشاکش ہوئی تو ہر لغوی ہر نحوی اور ہر عالم بلاغت اور ہر وہ شخص جسے علوم قرآن کی قسموں سے کسی قسم کے علم کی ممارست تھی اس کلام سے کلام عزیز کی تفسیر کرنے لگا جو اس کی سمجھ تک تھا اور جس کی طرف اس کی نظر پہنچی۔ پھر لوگ رواں دواں اقوال کو جمع کرنے کے سائق ہوئے تو جوانہوں نے پایا اسے نقل کردیا اور تحقیق کم کی تو اسی سے اقوال کی کثرت اور حق کی ناحق سے آمیز ش آئی ۔
وذکر ابن تیمیۃ کما نقلہ الامام السیوطی قائلا انہ نفیس جدا لذلک وجہین، احدھما قوم اعتقدوا معانی ، ثم ارادو ا حمل الفاظ القرآن علیہا ۔ والثانی قوم فسروا القرآن بمجرد مایسوغ ان یریدہ من کان من الناطقین بلغۃ العرب من غیر نظر الی المتکلم بالقرآن والمنزل علیہ المخاطب بہ ، فالا ولون راعوا المعنی الذی رأوہ من غیر نظر الی ما یستحقہ الفاظ القرآن من الدلالۃ والبیان ۔ والاخرون راعوامجرد اللفظ و مایجوز ان یرید بہ العربی من غیر نظم الی ما یصلح للمتکلم وسیاق الکلام ۔ ثم ھوالاء کثیرا ما یغلطون فی احتمال اللفظ لذلک المعنی فی اللغۃ کما یغلط فی ذلک الذین قبلہم کما ان لاولین کثیر اما یغلطون فی صحۃ المعنی الذی فسروا بہ القرآن کما یغلط فی ذلک الاخرون وان کا ن نظر الاولین الی المعنی اسبق ونظر الاخرین الی اللفظ اسبق ، والا ولون صنفان نارۃ یسلبون لفظ القرآن مادل علیہ واریدبہ وتارۃ یحملونہ علی ما لم یدل علیہ ولم یردبہ ، وفی کلا الامرین قد یکون ماقصد وا نفیہ اواثباتہ من المعنی باطلا فیکون خطاھم فی الدلیل والمدلول وقد یکون حقا فیکون خطاھم فیہ فی الدلیل لا فی المدلول (الی ان قال) وفی الجملۃ من عدل عن مذاھب الصحابۃ والتابعین وتفسیرھم الی ما یخالف ذلک کان مخطئا فی ذلک بل مبتدعا لانہم کانوا اعلم بتفسیرہ ومعانیہ کما انہم اعلم بالحق الذی بعث اللہ بہ رسولہ ۱ اھ ملخصا۔ اور ابن تمییہ نے جیسا کہ امام سیوطی نے اس کا کلام یہ کہہ کر نقل کیا کہ وہ بہت نفیس ہے اس کی دو وجہیں ذکر کیں : پہلی وجہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کچھ معانی کو عقیدہ ٹھہرالیا ، پھر انہوں نے قرآن کے الفاظ کو ان پر رکھنا چاہا ۔ اور دوسری وجہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے قرآن کی تفسیر محض ان الفاظ سے کی جو کسی عربی زبان بولنے والے کی مراد ہوسکتے ہیں انہوں نے قرآن کے متکلم (باری تعالی) اور جس پر اترا اور جو اس کا مخاطب ہے کی طرف نظر نہ کی تو پہلی جماعت نے تو اس معنی کی رعایت کی جو ان کا عقیدہ تھا ، انہوں نے قرآن کے الفاط کے دلالت اور بیان جس کے وہ الفاظ سز اوار ہیں کہ نطر انداز کردیا ۔ اور دوسروں نے صرف لفظ او رجو عربی کی مراد ہوسکتا ہے اس کا لحاظ کیا قطع نطر اس سے کہ متکلم کے شایان کیا ہے اور سیاق کلام کیا ہے ۔ پھر یہ لوگ بسا اوقات لغت کے اعتبار سے لفظ کے اس معنی کو (جو انہوں نے مراد لئے ) محتمل ہونے میں خطا کرتے ہیں جیسا کہ ان کے پہلے والے بھی یہی غلطی کرتے ہیں جس طر ح یہ اگلے اسی معنی کی صحت میں غلطی کرتے ہیں جس سے انہوں نے قرآن کی تفسیر کی جیسا کہ دوسرے لوگ یہی خطا کرتے ہیں اگر چہ پہلے والوں کی نظر معنی کی طرف پہلے پہنچتی ہے اور دوسروں کی نظر لفظ کی طرف سبقت کرتی ہے اور پہلی جماعت دوصنف ہے کبھی تو لفظ قرآن سے اس کا مدلول ومراد چھین لیتے ہیں اور کبھی لفظ کو اس پر رکھتے ہیں جو اس کا معنی و مطلب نہیں اور دونوں باتوں میں کبھی وہ معنی جس کی نفی اثبات ان کا مقصود ہوتی ہے باطل ہوتا تو ان کی خطا لفظ و معنی دونوں میں ہوتی ہے اور کبھی حق ہوتا ہے تو ان کی خطا لفظ میں ہوتی ہے نہ کہ معنی میں ۔ ( ابن تمیہ نے یہاں تک کہا) مختصر یہ کہ جو صحابہ وتابعین اور ان کی تفسیر سے پھر کر ان کا خلاف اختیار کرے گا وہ اس میں بر سر خطا ہوگا بلکہ بد مذھب ہوگا اس لئے کہ صحابہ وتابعین کو قرآن کی تفسیر اس کے مطالب کا علم سب سے زیادہ تھا ، جس طر ح انہیں اس حق کی جس کے ساتھ اللہ نے اپنے رسول کو بھیجا خبر سب سے زیادہ تھی اھ ملخصا ۔
(۱ الاتقان فی علوم القرآن النوع الثامن والسبعون دار الکتاب العربی بیروت ۲/ ۴۴۱ و ۴۴۲)
ولذا قال الامام ابو طالب طبری فی اوائل تفسیرہ فی القول فی آداب المفسر ، ویجب ان یکون اعتمادہ علی النقل عن النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وعن اصحابہہ ومن عاصرھم ویتجنب المحدثات ۱ الخ۔
قال ابن تمیۃ ایضا کان النزاع بین الصحابۃ فی تفسیر القرآن قلیلا جد اوھو (و) ان کان بین التابعین اکثر منہ بین الصحابۃ فہو قلیل بالنسبۃ الی مابعد ھم۲الخ۔ اور اسی لئے امام ابو طالب طبری نے اپنی تفسیر کے مقدمہ میں آداب مفسر کے بیان میں فرمایا کہ ضروری ہے کہ مفسر کا اعتماد اس پر ہو جو نبی سلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور صحابہ وتابعین سے منقول ہے اور نئی باتوں سے بچے ۔ نیز ابن تمیہ کا قول ہےصحابہ کے درمیان قرآن کی تفسیر میں بہت کم اختلاف تھا اور تابعین میں اگر چہ اختلاف صحابہ سے زیادہ ہو امگر ان کے بعد والوں کی بہ نسبت تھوڑا تھا ،
(۱ الاتقان فی علوم القرآن النوع الثامن والسبعون دار الکتاب العربی بیروت ۲ /۴۳۵)
(۲الاتقان فی علوم القرآن بحوالہ ابن تمییہ النوع الثامن والسبعون دار الکتاب العربی بیروت ۲ /۴۳۷)
وقال السیوطی بعد ما ذکر تفاسیر القدماء ” ثم الف فی التفسیر خلایق فاختصر وا الاسانید ونقلوا الا قوال بتراً فدخل من ھنا الدخیل والتبس الصحیح بالعلیل ، ثم صارکل من یسنح لہ قول یوردہ ، ومن یخطر بیالہ شیئ یعتمد ہ ، ثم ینقل ذلک عنہ من یجیئ بعدہ ظانا ان لہ اصلا غیر ملتفت الی تحریرما وردعن السلف الصالح ومن یرجع الیہم فی التفسیر حتی رایت من حکی فی تفسیر قولہ تعالی غیر المغضوب علیہم ولاالضالین ”نحو عشرۃ اقوال ، وتفسیر ھا بالیہود والنصاری ھو الوارد عن النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وجمیع الصحابۃ والتابعین و اتباعہم حتی قال ابن ابی حاتم الااعلم فی ذلک اختلافا بین المفسرین ۱ (الی ان قال)فان قلت فای التفاسیر ترشد الیہ وتامر الناظر ان یعول علیہ۔ اور سیوطی علیہ الرحمہ نے قدماء کی تفسیروں کا ذکر فرمایا کہ فرمایا: پھر تفسیر میں بہت لوگو ں نے کتابیں تصنیف کیں تو انہوں نے سندوں کو مختصر کردیا اور ناتمام اقوال نقل کئے تو اس وجہ سے دخیل گھسا اور صحٰیح و غیر صحیح مخلوط ہوگئے پھر ہر شخص جس کے دل میں کوئی بات آئی اس کو ذکر کرنے لگا ۔اور جس کے فکر میں جو خطرہ گزرا وہ اس پر اعتماد کرنے لگا ۔ پھر اس کے بعد جو آتا رہا وہ اس کے یہ خیالات نقل کرتا رہا اور اس گمان میں کہ اس کی کوئی اصل ہے ،سلف صالحین اور ان لوگو ں سے جو تفسیر میں مرجع ہیں اور جو وارد ہوا اس کی تحقیق کی طرف توجہ نہ کی یہاں تک کہ میں نے ایسے شخص کو دیکھا جس نے غیر المغضوب علیہم ولاالضالین کی تفسیر میں تقریبا دس قول نقل کئے حالانکہ نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم او رتمام صحابہ وتابعین وتبع تابعین سے یہی منقول ہے کہ اس سے یہود و نصا ری مراد ہیں یہاں تک کہ ابن ابی حاتم نے فرمایا کہ مجھے مفسرین کے درمیان اس میں کسی کا اختلاف معلوم نہیں (یہاں تک انہوں نے کہا) اب اگر تم کہو تو کون سی تفسیر کی طرف آپ رہنمائی فرماتے ہیں اور ناظر کو کس پر اعتماد کا حکم دیتے ہیں۔
(۱ الاتقان فی علوم القرآن النوع الثمانون فی طبقات المفسرین د ار الکتاب العربی بیروت ۲/ ۴۷۴ و۴۷۵)
قلت تفسیر الامام ابی جعفر بن جریی الطبری الذی اجمع العلماء المعتبرون علی ان لہ یؤلف فی التفسیر مثلہ۲الخ۔ میں کہوں گا تفسیر امام ابو جعفر بن جریر طبری کی تفسیر معتمد علماء نے جس کے لئے بالاتفاق فرمایا کہ تفسیر میں اس کی جیسی کوئی تالیف نہیں ہوئی الخ۔
(۲ الاتقان فی علوم القرآن النور الثمانون فی طبقات المفسرین دار الکتاب العربی بیروت ۲/ ۴۷۶)
وفی المقاصد البر ھان والاتقان غیرھا عن الامام اجل احمد بن حنبل رضی ا للہ تالی عنہ قال ثلثہ لیس لہا اصل المغازی والملاحم والتفسیر ۳ اھ اور مقاصد، برہان اور اتقان وغیرہ میں امام اجل احمد بن حنبل رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا:تین کتابوں کی کوئی اصل نہیں ، کتب سیرو غزوات وتفسر اھ۔
(۳الاتقان فی علوم القرآن النوع الثامن والسبعون دار الکتاب العربی بیروت ۲ /۴۴۰)
قلت وھذا ان لم یکن جاریا علی اطلاقۃ لما(عہ) یشہد بہ الواقع الا انہ لم یقلہ ما لم یر الخلط غالبا علیہا کمالا یخفی وھذا فی زمانہ فیکف بما بعدہ وفی مجمع بحار الانوار عن رسالۃ ابن تیمیۃ ”وفی التفسیر من ھذہ الموضوعات کثیرہ کما یرویہ الثعلبی والواحدی والزمخشری فی فضل السور والثعلبی فی نفسہ کان ذاخیر ودین لکن کان حاطب لیل ینقل ماوجد فی کتب التفسیر من صحیح وضعیف وموضوع والواحدی صاحبہ کان ابصر منہ بالعربیۃ لکن ھو ابعد عن اتباع السلف ، والبغوی تفسیرہ مختصر من الثعلبی لکن صان تفسیرہ عن الموضوع والبدع ۱اھ،
وفیہ عن جامع البیان لمعین بن صیفی قد یذکرمحی السنۃ البغوی فی تفسیرہ من المعانی والحایات ما اتفقت کلمۃ المتاخرین علی ضعفہ بل علی وضعہ۲ اھ
وفیہ عن الامام احمد رحمۃ اللہ تعالی انہ قال فی تفسیر الکلبی من اولہ الی اخرہ کذب لایحل المنظر فیہا ۱اھ
عہ : لعلہ کما۔ الازہری غفرلہ
میں کہتا ہوں اگر چہ یہ بات اپنے اطلاق پر جاری نہیں جیسا کہ کہ واقعہ اس کاگواہ ہے مگر یہ بات یقینی ہے کہ امام احمد نے یہ بات نہ کہی جب تک ان کتابوں میں صحیح وسقیم کے خلط کا غلبہ نہ دیکھ لیا جیسا کہ ظاہر ہے اور یہ تو ان کے زمانہ میں تھا تو ان کے بعد کیسی حالت ہوئی ہوگی ۔ اور مجمع بحار الانوار میں رسالہ ابن تیمییہ سے منقول ہے اور تفسیر میں ان موضوعات سے بہت ہے جیسے وہ حدیثیں جو ثعلبی اور واحدی اور زمخشری سورتوں کی فضیلت میں روایت کرتے ہیں اور ثعلبی اپنی صفات میں صاحب خیر و دیانت تھے ، لیکن رات کے لکڑہارے کی طرح تھے کہ تفسیر کی کتابوں میں صحیح ، ضعیف، موضوع جو کچھ پاتے نقل کردیتے تھے ، اور ان کے ساتھی واحدی کو عربیت میں ان سے زیادہ بصیرت تھی لیکن وہ سلف کی پیرو ی سے بہت دور تھا،اور بغوی کی تفسیر ثعلبی کی تلخیص ہے ،لیکن انہون نے اپنی تفسیر کو موضاعات اور بد عتوں سے بچایاہے اور اسی میں جامع البیان مصنفہ معین بن صیفی سے ہے ” کبھی محی السنۃ بغوی اپنی تفسیر میں وہ مطالب و حکایات ذکر کرتے ہیں جسے متاخرین نے یک زبان ضعیف بلکہ موضوع کہا ہے ، اور اسی میں امام احمد رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے ہے کہ انہوں نے فرمایا : تفسیر کلبی میں شروع ہے آخرتک جھوٹ ہے اس کا مطالعہ حلال نہیں اھ۔
(۱ مجمع بحار الانوار نوع فی تعیین بعض الوضاع وکتبہم مکتبہ دار الایمان مدینۃ المنورۃ ۵ /۲۳۱)
(۲مجمع بحار الانوار نوع فی تعیین بعض الوضاع وکتبہم مکتبہ دار الایمان مدینۃ المنورۃ ۵ /۲۳۱)
(۱مجمع بحار الانوار نوع فی تعیین بعض الوضاع وکتبہم مکتبہ دار الایمان مدینۃ المنورۃ ۵ /۲۳۰)
وقد عد الخلیل فی الارشاد اجزاء قائل من التفسر صحت اسانید ھا وغالبھا بل کلہا لا توجد الان اللھم الانقول عنہا فی اسفارالمتاخرین ”قال وھذہ التفاسیر الطوال التی اسندوھا الی ابن عباس غیر مرضیۃ ورواتھا مجاھیل کتفسیر جو یبر عن الضحاک عن ابن عباس ۲الخ۔ وقال فاما ابن جریج فانہ لم یقصد الصحۃ وانما روی ماذکر فی کل ایۃ من الصحیح والسقیم ، وتفسیر مقاتل بن سلیمان فمقاتل فی نفسہ ضعفو ہ وقد ادرک الکبار من التابعین والشافعی اشار الی ان تفسیرہ صالح ۳۔ اور بے شک خلیلی نے ارشاد میں تھوڑے تفسیر کے جزا یسے شمار کئے جن کی سندیں صحیح ہیں اور ان کا اکثر بلکہ چند نقول ان کی متاخرین کی کتابوں مین ہیں ، ابن تمییہ نے کہا اور یہ لمبی تفسیر یں جن کی نسبت لوگوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے کی ہے ناپسندیدہ ہیں اور اس کے راوی مجہول ہیں جیسے تفسیر جویبر بر وایت ضحاک عن ابن عباس الخ۔ اور کہا رہے ابن جریح تو انہوں نے صحیح روایتوں کا قصد نہ کیاانہوں نے ہر آیت کی تفسیر میں جو کچھ صحیح وسقیم مذکورہو ا روایت کردیا ۔ اور مقاتل بن سلیمان کا علماء نے فی نفسہ ضعیف بتایا حالانکہ انہوں نے اکابر تابعین سے اور امام شافعی سے ملاقات کی یہ اشارہ ہے کہ ان کی تفسیر لائق قبول ہے اھ۔
(۲ الاتقان فی علم القرآن بحوالہ الخلیلی النوع الثمانون دار الکتاب العربی بیروت ۲/ ۴۷۰)
(۳ الاتقان فی علم القرآن بحوالہ الخلیلی النوع الثمانون دار الکتاب العربی بیروت ۲ /۴۷۱)
قال المولی السیوطی قدس اللہ سرہ واوھی طرقہ ( یعنی تفسیر ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما ) طریق الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباس فان انضم الی ذلک روایۃ محمد بن مروان السدی الصغیر فھی سلسلۃ الکذب وکثیر ا مایخرج منہا الثعلبی والواحدی ، ولکن قال ابن عدی فی الکامل للکلبی احادیث صالحۃ وخاصۃ عن ابی صالح وھو معروف بالتفسیر ولیس لاحد نفسیر اطول منہ ولا اشبع ، وبعدہ مقاتل بن سلیمان الا ان الکلبی یفضل علیہ لما فی مقاتل من المذاھب الردیئۃ وطریق الضحاک بن مزاحم عن ابن عباس منقطعۃ فان الضحاک لم یلقہ فان انضم الی ذلک روایۃ بشربن عمارۃ عن ابی روق عنہ فضعیفۃ لضعف بشر ، وقد اخرج من ھذہ النسخۃ کثیرا ابن جریر وابن ابی حاتم ، وان کان من روایۃ جویبر عن الضحاک فاشد ضعفا لان جویبرا شدید الضعف متروک ۱ الخ ۔ قال ورایت عن فضائل الامام الشافعی لابی عبد اللہ محمد بن احمد بن شاکر القطان انہ اخرج بسند ہ من طریق بن عبد الحکم قال سمعت الشافعی یقول لم یثبت عن ابن عباس فی التفسیر الاشبیہ بمائۃ حدیث ۱ امام سیوطی قدس سرہ نے فرمایا اورتفسیر ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی سب سے کمزور سند کلبی عن ابی صالح عن ابن عباس سے پھراگر اس کے ساتھ محمد بن مروان سدی صغیر کی روایت مل جائےتو یہ جھوٹ کا سلسلہ ہے ، او رایسا بہت ہوتا ہے کہ ثعالبی اور واحدی اس سلسلہ سےروایت کرتے ہیں ۔ لیکن ابن عدی نے کامل میں فرمایا کلبی کی احادیث قابل قبول ہیں اور خصوصا ابو صالح کی روایت سے اور وہ تفسیرکے سبب معروف ہیں اور کسی کی تفسیر ان سے زیادہ طویل اور بھر پور نہیں ، اور ان کے بعد مقاتل بن سلیمان ہیں ، مگر کلبی کو ان پر اس لئےفضیلت ہے کہ مقاتل کے یہاں ردی خیالات ہیں ، اور سند ضحاک بن مزاحم عن ابن عباس منقطع ہے اس لئے کہ ضحاک نے ابن عباس سے ملاقات نہ کی ، پھر اگر اس کے ساتھ روایت بشر بن عمارہ عن ابی روق مل جائے تو بوجہ ضعف بشر ضعیف ہے ، اس نسخہ سے بہت حدیثیں ابن جریر اور ابن حاتم نے تخریج کیں اور اگر جوبیر کی کوئی روایت ضحاک سے ہو تو سخت ضعیف ہے اس لئے کہ جوبیر شدید الضعف متروک ہے ، انہوں نے کہا اور میں نے فضائل امام شافعی مصنفہ ابو عبداللہ محمد بن احمد بن شاکر قطان میں دیکھا کہ انہوں نے اپنی سند بطریق ابن عبدالحکم روایت کیا کہ ابن عبد الحکم نے فرمایا میں نے امام شافعی کو فرماتے سنا کہ ابن عباس ( رضی اللہ تعالی عنہ )کی تفسیر میں تقریبا سو حدیثیں ثابت ہیں۔
(۱ الاتقان فی علوم القرآن النوع الثمانون دار الکتاب العربی بیروت ۲/ ۴۷۱ و ۴۷۲)
(۱ الاتقال فی علوم القرآن النوع الثمانون دار الکتاب العربی بیروت ۲/ ۴۷۲)
قلت وھذہ معالم التنزلیل للامام البغوی مع سلامۃ حالہابالنسبۃ الی کثیر من التفاسیر المتداولۃ ودنوھا الی المشرع الحدیثی یحتوی علی قناطیرمقنطر ۃ من الضعاف والشواذ والواھیات المنکرۃ وکثیرا ماتدو ر اسانیدھا علی ھولاء المذکور ین بالضعف والجرح کالثعلبی والواحدی والکلبی والسدی ومقاتل وغیرھم ممن قصصنا علیک اولم نقصص فماظنک بالذین لااعتناء لہم بعلم الحدیث ولااقتدار علی نقد الطیب من الخبیث کالقاضی البیضاوی وغیرہ ممن یحذو حذوہ ، فلا تسئل عما عندھم من ابا طیل لازمام لہا ولاخطام دع عنک ھذا یالیتہم اقتصرو ا علی ذلک لکن بعضہم تعدوا ماھنا لک وسلکوا مسالک تجر الی مہالک فادلجوا فی تفسیر القرآن ماتقف لہ الشعر وتنکرہ القلوب وتمجہ الاذن اذقرر واقصص الانبیاء الکرام والملئکۃ العظام علیہم الصلوۃ والسلام بما ینقض عصمتہم وینقص اویزیل عن قلوب الجہال عظمتہم کما یظہر علی ذلک من راجع قصۃ ادم وحواء وداؤد و اوریا وسلیمان والجسد الملقی والالقاء فی الامنیۃ والغرانقۃ العلی وھاروت و ماروت وما ببابل جری فباللہ التعوذ والیہ المشتکی فاصابھہم فی ذلک ما اصاب اھل السیر والملاحم فی نقل مشاجرات الصحابۃ ، اذجاء کثیر منہا مناقضا للدین وموھنا للیقین وازدارد خنا علی وخن وھنات علی ھنات ان اطلع علی کلامہم بعض من لیس عندہ آثار ۃ من علم ولامتانۃ من حلم فضل و اضل اما اغترارابکلما تہم جھلا منہ بما فیہ من الوبال البعید والنکال الشدید واما ظلما وعلوا لاجتراء ہ بذلک علی ابانۃ مافی قلبہ المرض من تنقیص الانبیاء وتفسیق الاولیاء فمضی علیہ الکبیر و نشاء علیہ الصغیر فاختل دین کثیر من الناقصین وصاروا شرا من العوام العامین اذلم یقدرو ا علی مطالعتہا فنجوا عن فتنتہا وقد بذل علماء نا النصح للثقلین فشد دو االنکیر علی کلا الفریقین اعنی التفاسیر والوھیۃ والسیر الداھیۃ فاعلنو اانکار ھا و بینوا عوارھا کالقاضی فی الشفاء والقاری فی الشرح والخفاجی فی النسیم والقسطلانی فی المواھب والزرقانی فی الشرح والشیخ فی المدارج وغیرھم فی غیرھا رحمۃ اللہ علیہم اجمعین ، والحمدللہ رب العالمین ، ولقد الان القول ابوحیان اذقال کما نقل الامام السیوطی ان المفسرین ذکرو ا مالا یصح من اسباب نزول واحادیث فی الفضائل و حکایات لاتناسب وتواریخ اسرائیلیۃ ولا ینبغی ذکر ھذا فی علم التفسیر۱انتہی ، میں کہوں گا اور یہ معالم التنزیل ہے جو امام بغوی کی تصنیف ہے ، باوصف یہ کہ بہت سی رائج تفسیروں کے مقابل غلطیوں سے محفوظ ہے اور طرفہ حدیث سے قریب ہے بہت ضعیف و شاذاور واہی منکر روایتوں پر مشتمل ہے اور ایسا بہت ہوتا ہے اس کی روایت کی سندیں ان پر دو رہ کرتی ہیں جن کانام ضعف وجرح کے ساتھ لیا جاتا ہے جیسے ثعلبی ، واحدی ، کلبی ، سدی اور مقاتل وغیرہم جن کا ہم نے تم سے بیان کیا اور جن کا بیان نہ کیا تو تمہارا گمان انکے ساتھ کیساہے جنہیں علم حدیث کا اہتمام نہیں اور ستھرے کو میلے سے الگ کرنے کی قدرت نہیں جیسے قاضی بیضاوی اور ان کے علاوہ جو بیضاوی کے طریقہ پر چلتے ہیں ، تو ان کے پاس ان باطل اقوال کا حال نہ پوچھو جن کے لئے نہ لگام ہے نہ بندش کی رسی ، اس خیال کو اپنے سے دور رہنے دو ، کاش یہ لوگ اسی پر بس کرتے ، مگر ان میں سے کچھ لوگ اس سے آگے بڑھے اور ایسے رستے چلے جو ہلاکتوں کی طرف کھینچ کرلے جائیں تو انہوں نے قرآن کی تفسیر میں ایسی باتیں داخل کردیں جن سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور دل انہیں ناپسندکرتے اور کان انہیں پھینکتے ہیں اس لئے انبیاء کرام وملائکہ عظام کے قصوں میں ایسی باتوں کو مقرر رکھا جن سے اس کی عصمت نہیں رہتی او رجاہلوں کے دل مین ان کی عظمت کم ہوجاتی ہے یا زائل ہوجاتی ہے ۔ چنانچہ یہ بات آدم و حوا وداؤد و اور یا اور سلیمان اور انکی کرسی پرپڑے ہوئے جسم اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی تلاوت کے دوران شیطان کے القاء اور غرانیق عُلی کے واقعات اور ہارو ت ومارو ت اور بابل کا ماجر ا کا مطالعہ کرنے والے پر ظاہر ہے تو اللہ ہی کی پناہ اور اسی سے ان کی شکایت ہے تو ان کو ان باتوں سے وہ مرض لگا جو مصنفین واقعات سیرت ومغازی کو صحابہ کے اختلافات کو نقل کرنے سے لگا اس لئے کہ بہت باتیں دین کے مخالف اور ایمان کو کمزو کرنے والی ان لوگو ں سے ظاہر ہوئیں اور فساد پر فساد اور خطاؤں پر خطائیں یوں بڑھ گئیں کہ ان لوگو ں کے کلام کی اطلاع کچھ ان لوگوں کو ہوگئی جن کے پاس نہ کچھ بچا کھچا علم تھا نہ عقل کی پختگی ، تو وہ خود گمراہ ہوئے اور اوروں کو گمراہ کیا یا تو ان کےکلمات سے دھوکا کر اس کے وبال شدید وسخت عذاب سے بے خبری میں یاظلم وسر کشی کی وجہ اسے اس لئے کہ ان باتوں سے انہیں اس کے اظہار کی جرات ہوئی جو انبیاء کی تنقیص اور اولیاء کی تفسیق ان کے دل میں تھی تو اس پر بڑے گزرے اور چھوٹے پر وان چڑھے اور یہ عامی لوگوں سے بدتر ہوگئےکہ عامیوں کو ان کتابوں کے معالعہ کی قدرت نہ تھی تو وہ ان کے فتنہ سے بچے رہے اور بے شک ہمارے علماء نے دونوں فریقوں کو بھر پور نصیحت کی چنانچہ انہوں نے دونوں فریق کی سخت مذمت کی یعنی واہی تفاسیر اور سیرت کی ناپسندیدہ کتابوں کی تو انہوں نے ان کتا بوں کا ناپسندیدہ ہونا ظاہر کیا اور ان کا عیب کھولا جیسے علامہ قاضی عیاض نے شفا میں اور علامہ خفا جی نے نسیم الریاض میں اور علامہ قسطلانی نے مواہب میں اور علامہ زرقانی نے اس کی شرح میں اور علامہ قاری نے شرح شفا میں اور شیخ (محقق عبد ا لحق محدث دہلوی) نے مدارج میں اور دو سروں نے دوسری تصانیف میں رحمۃ اللہ علیہم اجمعین والحمد للہ رب العلمین ، اور یقینا ابوحیان نے بات کو سہل ونرم کیا کہ انہوں نے کہا جیسا کہ امام سیوطی نے نقل کیا کہ مفسرین نے ایسے اسباب نزول اور فضائل میں وہ حدیثیں ثابت نہں اور نامناسب حکایات اور تواریخ اسرائیل کو ذکر کیا ہے حالانکہ اس کا ذکر تفسیر میں مناسب نہیں ،
(۱ الاتقان فی علوم القرآن النوع الثامن والسبعون دار الکتاب العربی بیروت ۲/ ۴۶۳)
واعلم ان ھناک اقواما یعتر یہم نزغۃ فلسفیۃ لما افنوا عمر ھم فیہا وظنوھا شیئا شھیا فیولعون بابداء احتمالات بعید ۃ ولولم یکن فیہا حلاوۃ ولا علیہا طلاوۃ حتی ذکر بعضہم فی قولہ تعالی ”وانشق القمر”۱ ماتعلقت بہ جہلۃ النصاری واخرون ممن یتلجلجون فی الایمان فیلہجون بکلمۃ الاسلام وفی قلوبہم من بغض النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وانکار معجزاتہ جبال عظام فانا للہ وانا الیہ راجعون ھذ االذی اعیی السیوطی حتی تبرا عنہا کلہا واقتصر علی الارشاد الی تفسیر ابن جریر کما مرنقلہ کما تضجرا الذھبی عن خلاعۃ اکثر السیر و التواریخ فعافھا عن اخر ھا واطمان الی دلائل البیہقی قائلا انہ النور کلہ وقد دبت ھذہ الفتنۃ الصماء والبلیۃ العمیاء الی کثیر من متاخری المتکلمین الذین اشتد عنایتھہم بالتفلسف الخبیث ولم یحصلو ابصیرۃ فی صناعۃ الحدیث حتی انہم یذکرون فی بعض المسائل فضلاعن الدلائل مالیس من السنۃ فی شی وامامابینہم من قیل وقال وکثرۃ السوال و الشبہ والجدال ، فکن حذورا و لاتسئل عن الخیر اوہ علی اللہ الشکوی۔ اور تم جان لو کہ اس جگہ کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں فلسفی وسوسےآتے ہیں اس لئے کہ انہوں نے اپنی عمر اس میں فناکی اور اسے مرغوب شے گمان کیا تو ان کو دور ازکاراحتمالوں کو ظاہر کرنے کی لت ہے اگر چہ ان میں شیر ینی ہو نہ ان پر رونق ہو ، یہاں تک کہ کسی نے قول باری تعالی وانشق القمر(اور چاند شق ہوگیا) کی تفسیر میں وہ بات ذکر کی جس سے جاہل نصرانی اور دوسرے وہ لوگ جوایمان میں ثابت نہیں اس لئے زبان سے کلمہ اسلام پڑھتے ہیں حالانکہ ان کے دلوں میں نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے عداوت اور ان کے معجزات کے انکار کے بڑے پہاڑ ہیں انا اللہ وانا الیہ راجعون (ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف پھرنا ہے) یہی سبب تھا کہ سیوطی اس درجہ عاجز ہوئے کہ تمام تفسیروں سے بیزاری فرمائی اور صرف تفسیر ابن جریر کی طرف رہنمائی پر بس کیا جیسا کہ اس کی حکایت گزری جس طرح ذہبی سیرت اور تاریخ کی اکثر کتا بوں کی بے شرمی سے پریشان ہوئے تو انہوں نے اول سے آخر تک سب کو چھوڑا اور دلائل بیہقی پر مطمئن ہوئے اور فرمایا وہ سراسر نورہے ، اور یہ شدید فتنہ اور ہمہ گیر بلا بہت سے متاخر متکلمین کی طرف سرایت کر گئی( جن کی زیادہ توجہ خبیث فلسفہ پرتھی) او رانہوں نے فن حدیث میں بصیرت حاصل نہ کی یہاں تک کہ یہ لوگ کچھ مسائل میں چہ جائیکہ دلائل میں وہ باتیں ذکر کرتے ہیں جو باتیں سنت سے نہیں ۔ رہ گیا کو کچھ ان کے درمیان قیل وقال اور کثرت سوال و شبہات وجدال ہیں۔
ان سے بہت ڈرتے رہو اور ان کی حالت نہ پوچھو آہ اللہ ہی سےفریاد ہے۔
(۱القرآن الکریم ۵۴/۱)
فلقد بلغ الامر الی ان الناظر فی تلک الکتب لایکاد یعرف ان ھذا مما جاء بہ ارسطو و افلاطون اوماجاء بہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقد ثقل صنیعہم ھذا علی العلماء المحتمین للدین ان الامام العامل بعلمہ سیدی الشیخ المحقق لما رای ذلک منہم فی مسئلۃ المعراج لم یتمالک نفسہ ان اغلظ القول فیہم الی سماھم ان سماھم ضالین مضلین ولم یکن بدعا فی ذلک بل سبقہ فی اقامۃ الطامۃ الکبری علیہم ائمۃ تشار الیہم بالبنان وتقوم بہم ارکان الایمان کما فصلہ الملاعلی القاری فی شرح الفقہ الاکبر ان شئت فطالعہ فانک اذا رایت ثم رایت عجبا کبیرا ومن ھذا القبیل ما ذکرہ بعضہم فی مشاجرات الصحابۃ رضی اللہ تعالی عنہم اذنسب القول بتفسیق کثیر منہم حتی بعض العشرۃ المبشرۃ ایضا الی کثیر من اھل السنۃ والجماعۃ وھم واللہ ماقالوا ولا اذنوا فالحق ان الدین لایقوم الا بالحدیث والحدیث مضلۃ الا للفقیہ والفقہ لایحصل باتباع الشبہ وتحکیم العقل السفیہ نجانا اللہ والمسلمین عن شر الجھل و شر العلم فان شر العلم ادھی وامر ولاحول ولا قوۃ الا باللہ العزیز الحکیم وانما اطبنا الکلام فی ھذاالمقام حوطا علی السنن وکراھۃ للفتن ان تروج علی المؤمنین او تر عرع الی الدین فیفسد الیقین الا فعض علیہ بالنواجذ فالنصیح غیر مفتون و ایاک ان تخالفہ و ان افتاک المفتون۔ اس لئے کہ نوبت یہا ں پہنچی ان کتابوں کو دیکھنے والا یہ جانتا ہوا نہیں لگتا ہے کہ یہ بات ارسطو اور افلاطون لائے یا یہ وہ ہے جسےمحمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لائے اور ان کا یہ معاملہ دین کےلئے حمیت والے علماء پر شاق گزار یہاں تک کہ امام عالم باعمل سیدی شیخ محقق (عبد الحق محدث دہلوی ) نے مسئلہ معراج میں جب ان کی یہ روش دیکھی تو انہیں اپنے اوپر قابو نہ رہاانہوں نے ان لوگو ں کے بابت سخت کلام فرمایا یہا ں تک کہ انہیں گمراہ و گمراہ گر کانام دیا اور اس میں وہ نت نئے نہیں بلکہ ان سے پہلے ان پر قیامت کبری ان پیشواؤں نے قائم کی جن کی طرف انگلیاں اٹھتی ہیں اور جن سے ایمان کے ستون قائم ہیں جیسا کہ ملا علی قاری نے شرح فقہ اکبرمیں میں اس کو مفصل بیان فرمایا ہے تم چاہو تو اس کا مطالعہ کرو اس لئے کہ جب تم اس مقام کو دیکھو گے توبڑی عجیب بات دیکھو گے ، اور اسی قبیل سے وہ ہے جو بعض لوگوں نے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کے اختلافات میں ذکر کیا ہے ، کہ انہوں نے ہبت صحابہ کے یہاں تک کہ دس صحابہ مژدہ یافتگان جنت میں سے کچھ کے فسق کا قول بہت سنی علماء کی طرف منسوب کردیا حالانکہ انہوں نے قطعا خدا کی قسم یہ بات نہ کہی نہ کسی کے لئے روارکھی تو حق یہ ہے کہ دین کا نظام تو حدیث سے ہے اور حدیث سے فقیہ کے سوا سب کو گمراہی کا اندشیہ ہے اور فقہ اثبات شبہات اور نادان عقل کو حاکم بنا کر حاصل نہیں ہوتا اللہ تعالی ہمیں اور سب مسلمانوں کو جہل کی شر اور علم کی شر سے بچائے اس لئے کہ علم کی شر بہت سخت اور بہت تلخ ہے اور برائی سے پھرنا اور نیکی کی قدرت اللہ ہی سے ہے جو غلبے والا حکمت والاہے اور ہم نے اس مقام میں کلام طویل سنت کی حفاظت کےلئے اور اس بات کی کراہیت کے سبب کیا کہ فتنے مسلمانوں میں راوج پائیں یا دین کی طرف چلے آئیں تو ایمان بگڑجائے ، سنتا ہے تو اس کو مضبوطی سے پکڑلو کہ نصیحت پکڑنے والا گمراہ نہیں ہوتا ، اور خبردار اس کی مخالفت نہ کرنا اگر چہ فتوی دینے والے فتوی دیں۔
ایقاظ مہم : اعیذک باللہ ان یستفزک الوھم عن الذی القینا علیک فتفتری علینا غیرہ اویوسوسک قلۃ الفہم انا لا نکترث للتفسیر ولا نلقی لہ بالا ولا نسلم لہ خیرہ وانما المعنی ان غالب الزبر المتد اولۃ لاتسلم من الدخیل وتجمع من الاقوال کل صحیح وعلیل فمجرد حکایتہا لایوجب التسلیم ولایصدالناقد عن نقد السقیم فماھی عندنا اسوء حالامن اکثر کتب الاحادیث اذنعاملہا مرۃ بالترک ومرۃ بالاحتجاج لما نعلم انہا ترد کل مورد فتحمل تارۃ عذبا فراتا وتاتی مرۃ بملح اجاج ، وبالجملۃ فالامر یدور علی نظافۃ الحدیث سندا ومتنا فاینما وجدنا الرطب اجتنینا وان کان فی منابت الحنظل وحیثما راینا الحنظل اجتنبنا وان نبت فی مسیل العسل ۔ ضروری تنبیہ : میں تمہیں اللہ کی پناہ میں دیتاہوں اس بات سے کہ تمہیں وہم اس بات سے ڈگمگادے جو ہم نے تم پر القاء کیا ، توتم ہم پر اس سے جدا بات کا بہتان باندھو یا فہم کی کمی یہ وسوسہ ڈالے کہ ہم تفسیر کی پرواہ نہیں کرتے اور اس کا ہمیں کوئی خیال نہیں اور ہم اس کی اچھی بات بھی نہیں مانتے ، مقصد صرف اتنا ہے کہ اکثر کتب متداولہ دخیل سے محفوظ نہیں اور وہ ہر صحیح وسقیم قول کو اکٹھا کرتی ہین تو ان کتابون میں کسی قول کی مجرد حکایت اس کا مان لینا واجب نہیں کرتی اور پر کھنے والوں کو کھوٹے کی پر کھ سے نہیں روکتی تو یہ ان کتابوں کاحال ہمارے نزدیک حدیث کی اکثر کتابوں سے زیادہ برا نہیں اس لئے کہ ہم ان کے ساتھ کبھی کسی قول کو چھوڑنے اور کبھی کسی کو حجت بنانے کا معاملہ کرتے ہیں یوں کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ ہر گھاٹ پر اترتی ہیں تو کبھی میٹھا پانی اٹھالیتی ہیں او رکبھی سخت کھاری پانی جس سے منہ جل جائے لاتی ہیں ، بالجملہ مدار کا ر حدیث کی نظافت (پاکیزگی) سند و متن کے لحاظ سے ہے تو جہاں کہیں ہم میٹھا پھل پائیں گے اسے چن لیں گے اگرچہ وہ کسی خراب جگہ اگاہواور جہاں کہیں کڑو اپھل دیکھیں گے تو اس کو چھوڈدیں گے اگر چہ وہ شہد کی نہر میں اگاہو۔
ولقد علمت ان اکثر ھذاالداء العضال انمادخل التفاسیر من باب الاعضال وفی امثال تلک المحال اذا لم یعرف السند یؤل الامر الی نقد المقال فما کان منہا یناضل النصوص ویرد المنصوص اوفیہ ازر اء بالرسل والانبیاء اوغیر ذلک ممالا یحتمل علمنا انہ قول مغسول وان کان بریئا من الافات نقیا من العاھات قبلناہ علی تفاوت عظیم بین قبول وقبول ولیس ھذا من باب مانہینا عنہ من الاجتراء علی التفسیر بالاراء ومعاذ اللہ ان نجتری علیہ فان علم التفسیر اشد عسیر ویحتاج فیہ الی ما لیس بحاصل ولا میسر کما قد فصل بعضہ العلامۃ السیوطی رحمۃ اللہ تعالی علیہ وکذلک اذا اتانا منہا مافیہ العدول عن ظاہر المدلول وصح ذلک عمن لا یسعنا خلافہ اوکانت ھناک خلۃ لا تنسد الابہ تعین القبول والا فدلالۃ کلام اللہ تبارک وتعالی احق بالتعویل من قال وقیل ھذاالذی قصد فلا تنقص ولا تزد ۔ اور یقینا تمہیں معلوم ہے کہ اس لاعلاج مرض کا بیشتر حصہ تفاسیر میں جہالت سند کے دروازہ سے گھسا اور ایسے مقامات میں جب سند معروف نہ ہو مآل کاربات کو پرکھنا ہے تو جوبات نصوص سے ٹکراتی اور منصوص کورد کرتی ہو یا اس میں رسل وانبیاء کی تنقیص ہو یا اور کوئی بات جو قابل قبول نہ ہو ہم جان لیں گے کہ یہ قول دھو دینے کے قابل ہے اور اگر خرابیوں سے بری ، علتوں سے پاک ہو ہم اسے قبول کرلیں گے باوجودیکہ اسے قبول کرنے میں اور دوسرے قول کو قبول کرنے میں عظیم تفاوت ہے اور تفسیر بالرائے کے باب سے نہیں ہے جس سے ہمیں روکا گیا، اور اللہ کی پناہ اس سے کہ ہم اس پر جرات کریں اس لئے کہ علم تفسیر سخت دشوار ہے اور اس میں اس کی حاجت ہے جو ہمیں حاصل نہیں اور نہ اس کا حاصل ہوناآسان ہے جیسا کہ ان علوم ضروریہ میں سے بعض کی تفصیل علامہ سیوطی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمائی ہے اور یونہی جب ہمیں ان میں کوئی قول ایسا پہنچے جس میں ظاہر معنی سے عدول ہو اور وہ اس سے ثابت ہو جس کا خلاف ہمیں نہیں پہنچتا یا کوئی حاجت ہو جو ظاہر سے عدول کے بغیر پوری نہ ہو تو اسے قبول کرنا متعین ہے ورنہ کلام الہی کی دلالت قیل وقال سے اعتماد کی زیادہ حقدار ہے یہی ہمارا مقصود ہے تو اس سے نہ کم کرو نہ زیادہ ۔
قال الامام السیوطی قال بعضہم فی جواز تفسیر القرآن بمقتضی اللغۃ روایتان عن احمد وقیل الکراھۃ تحمل علی صرف الایۃ عن ظاہر ھا الی معان خارجۃ محتملۃ یدل علیہا القلیل من کلام العرب ولا یوجد غالبا الافی الشعر و نحوہ ویکون المتبادر خلافہا۱ اھ” امام سیوطی علیہ الرحمۃ نے فرمایا : بعض علماء نے فرمایا کہ مقتضائے لغت کے مطابق قرآن کی تفسیر کے جواز میں امام احمد سے دو روایتں ہیں اور کچھ کا قول یہ ہے کہ کراہت اس پر محمول ہے کہ آیت کو اس کے ظاہری معنی سے پھیر کر ایسے معانی خارجہ محتملہ پر محمول کرے جن پر قلیل کلام عرب دلالت کرتا ہو اور وہ غالبا اور اس کے مثل کلام کے سوا عام بول چال میں نہ پائے جائیں اور ذہن کا تبادر اس کے خلاف ہو اھ۔
(۱ الاتقان فی علوم القرآن النوع الثامن والسبعون دار الکتاب العربی بیروت ۲/ ۴۴۴)
وقال عن برھان الزر کشی”کل لفظ احتمل معنیین فصا عدافہوالذی لایجوز لغیر العلماء الاجتہاد فیہ ، وعلیہم اعتماد الشواھد والدلائل دون مجرد الرأی ، فان کان احد المعنیین اظہر وجب الحمل علیہ الاان یقوم دلیل علی ان المراد ھو الخفی ۱اھ اور سیوطی نے برہان سے حکایت کیا : ہر وہ لفظ جو دو یا دو سے زائد معنی کا احتمال رکھے اس میں تو غیر علماء کو اجتہاد جائز نہیں اور علماء کو لازم ہے کہ وہ شواہد ودلائل پر بھروسہ کریں نہ کہ محض رائے پر ، تو اگر دو معنی میں سے ایک ظاہر تر ہے تو اسی پر محمول کرنا واجب ہے مگر یہ کہ دلیل قائم ہو کہ مراد خفی ہی ہے اھ۔
(۱ الاتقان فی علوم القرآن النوع الثامن والسبعون دار الکتاب العربی بیروت ۲/ ۴۵۳)
وقال قال العلماء یجب علی المفسران یتحری فی التفسیر مطابقۃ المفسر و ان یتحرز فی ذلک من نقص عما یحتاج الیہ فی ایضاح المعنی اوزیادۃ لاتلیق بالغرض ومن کون المفسرفیہ زیغ عن المعنی وعدول عن طریقہ وعلیہ بمراعاۃ المعنی الحقیقی والمجازی ، ومراعاۃ التالیف والغرض الذی سیق لہ الکلام۲ الخ۔ اورفرمایا: علماء کا قول ہے کہ مفسر پر واجب ہے کہ وہ تفسیر میں یہ تجویز کرے کہ تفسیر لفظ مفسر کے مطابق ہواور اس سے کم کرنے سے بچے جس کی حاجت تو ضیح مراد کے لئے ہو اور ایسے لفظ کو زیادہ کرنے سے احتراز کرے جو مقصد کے مناسب نہ ہو ، اور اس بات کی احتیاط رکھے کہ تفسیر میں معنی سے انحراف اور اس کی راہ سے عدول نہ ہو ، اور اس پرلازم ہے کہ معنی حقیقی ومجازی کی رعایت کرے اور ترکیب اور اس غرض کی جس کے لئے کلام ذکر کیا گیا رعایت رکھے۔
(۲ الاتقان فی علوم القرآن النوع الثامن والسبعون دار الکتاب العربی بیروت ۲/ ۴۶۱)
المقدمۃ الثالثۃ :کثیرا ماتری المفسرین یذکر بعضہم تحت الایۃ وجہا من التاویل والبعض الاخرون وجہا اخر وربما جمعوا وجوھا کثیرۃ وغالبہ لیس من باب الاختلاف اوالتردد المانع عن التمسک باحدھا لاسیما الاظہر الانور منہا و انماھو تفنن فی المرام ،اوبیان لبعض ماینتظمہ الکلام وذالک ان القرآن ذو وجوہ وفنون ولکل حرف منہ غصون وشجون و لہ عجائب لاتنقضی ومعان تمد ولا تنتہی فجاز الاحتجاج بہ علی کل وجوھہ و ھذا من اعظم نعم اللہ سبحنہ وتعالی علینا ومن ابلغ وجوہ اعجاز القرآن ولو کان الامر علی خلاف ذلک لعادت النعمۃ بلیۃ والاعجاز عجزا والعیاذ باللہ تعالی وقد وصف اللہ سبحنہ وتعالی القرآن بالمبین ، فلیس تنوع معاینہ کتذبذب المحتملات فی کلام مبھم مختلط لایستبین المراد منہ ، ولقد قال اللہ تبارک وتعالی قل لو کان البحر مدادا لکلمات ربی لنفد البحر قبل ان تنفد کلمات ربی ولو جئنا بمثلہ مددا ۱ مقدمہ سوم : مفسرین کو تم بہت دیکھوگے کہ ان میں سے کوئی آیت کے تحت کوئی وجہ تاویل ذکر کرتا ہے اور بعض دوسرے دوسری وجہ ذکر کرتے ہیں اور کبھی بہت سی وجوہ جمع کردیتے ہیں اور بیشتر وجوہ اختلاف وتردو کےباب سے نہیں جس میں سے کسی کو اخذ کرنا دوسری سے تمسک کا مانع ہو خصوصا ان میں جو ظاہرتر اور روشن تر ہو بلکہ یہ وجوہ بیان مقصد میں تفنن عبارت ہے یاکلام جن وجوہ کو شامل ہے اس میں سے کچھ کو بیان کردینا ہے اور یہ اس لئے کہ قرآن مختلف وجوہ رکھتا ہے اور اس کے ہر لفظ کے متعدد معانی ہیں اوراس کے عجائب ختم نہیں ہوتے اور معانی بڑھتے ہیں اور کسی حد پر نہیں تھمتے ، لہذا اس کی تمام وجوہ کو حجت بنانا جائز ہے اور یہ ہمارے لئے اللہ کی بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے اور قرآن کے اعجاز کے اسباب بلیغہ سے ایک سبب ہے ، او راگر معاملہ اس کے بر خلاف ہوتا تو نعمت مصیبت ہوجاتی اور اعجاز عجز ہوجاتاوالعیاذ باللہ تعالی ، اور اللہ تعالی نے قرآن کا وصف مبین فرمایا ہے تو اس کے معانی کا قسم قسم ہونا کلام مبہم میں جس کی مراد ظاہر نہ ہو ، محتملات کے تردد کی طرح نہیں اور یقینا اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے : اے محبوب ! تم فرماؤ اگر سمندر میرے رب کی باتوں کے لئے روشنائی ہوجائے تو سمندر ختم ہوجائے گا اور میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں گی اگر چہ ہم اس جیسا اور اس کی مدد کو لےآئیں ۔
(۱ القرآن الکریم ۱۸/ ۱۰۹)
وقال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم علی مااخرج ابو نعیم وغیرہ عن ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما القرآن ذلول ذو وجوہ فاحملوہ علی احسن وجوھہ ۱ اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا جیسا کہ ابو نعیم وغیرہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا قرآن نرم و آسان ہے مختلف وجوہ والا ہے تو اسے اس کی سب سے اچھی وجہ پر محمول کرو ۔
(۱الاتقان فی علوم القرآن بحوالہ ابی نعیم وغیرہ عن ابن عباس النوع الثامن والسبعون دار الکتاب العربی بیروت ۲/ ۴۴۷ و ۴۴۶ )
رضی اللہ تعالی عنہما کما اخرج ابن ابی حاتم عنہ ان القرآن ذوشجون وفنون وظہور وبطون لاتنقضی عجائبہ ولاتبلغ غایتہ ۲ الحدیث۔ اور سیدنا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا جیسا کہ ابن ابی حاتم نے ان سے روایت کی قرآن مختلف معانی ومطالب اور ظاہر ی وباطنی پہلو رکھتا ہے ، اس کے عجائب بے انتہا ہیں اس کی بلندی تک رسائی نہیں (الحدیث)
(۲الاتقان فی علوم القرآن النوع الثامن والسبعون دار الکتاب العربی بیروت ۲ /۴۶۰)
قال السیوطی قال ابن سبع فی شفاء الصدور ورد عن ابی الدرداء رضی اللہ تعالی عنہ انہ قال لایفقہ الرجل کل الفقہ حتی یجعل للقرآن وجوھا ، وقد قال بعض العلماء لکل ایۃ ستون الف فہم۳انتہی ملخصا ۔ سیوطی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ ابن سبع نے شفاء الصدور میں فرمایا کہ ابو الدرداء رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ آدمی اس وقت تک کامل فقیہ نہیں ہوتا جب تک کہ قرآن کے مختلف وجوہ نہ جان لے ، اور بعض علماء کا قول ہے کہ ہر آیت کے ساٹھ ہزار مفہوم ہیں۔
(۳الاتقان فی علوم القرآن بحوالہ ابی نعیم وغیرہ عن ابن عباس النوع الثامن والسبعون دار الکتاب العربی بیروت ۲ /۴۶۰)
وللہ در الامام البوصیری حیث یقول۔
لہا معان کموج البحر فی مدد وفوق جوھرہ فی الحسن والقیم
فلا تعد و لا تحصی عجائبہا ولا تسام علی الاکثار بالسام۴ اور امام بوصیر ی کی خوبی اللہ ہی کے لئے ہے کہ وہ فرماتے ہیں قرآنی آیات کے وہ معانی کثیر ہیں جیسے سمندر کی موج افزائش میں ، اور وہ حسن وقیمت میں سمندر کے گہرسے بڑھ کر ہیں تو ان آیتوں کے عجائب کی نہ گنتی ہوسکے نہ شمار میں آئیں ، اوراس کثرت کے باوجود ان سے اکتا نے کا معاملہ نہیں کیا جاتا ۔
(۴الکوکب الدریۃ فی مدح خیر البریۃ مرکز اہل سنت برکات رضا گجرات ، ہند، ص۴۰)
فثبت بحمد اللہ ان بعض معانیہ لاینافی بعضا ولا یوجب وجہ لوجہ رفضا من جراء ھذا تری العلماء لم یزالو محتجین علی احدالتاویلات ، ولم یمنعہم عن ذلک علمہم بان ھناک وجوھا اخر لاتعلق لہا بالمقام ، وعلام کان یصدھم وقد علموا ان القرآن حجۃ بوجوھہ جمیعا ولیس ھذا لاتفننا وتنویعا ھذا ھوالاصل العظیم الذی یجب المحافظۃ علیہ، اب بحمد اللہ ثابت ہوا کہ اس قرآن کا کوئی معنی دوسرے کے متنافی نہیں اور کوئی وجہ دوسری وجہ کو چھوڑدینا واجب نہیں کرتی اسی وجہ سے تم دیکھوگے کہ علماء ایک تاویل پر بنائے دلیل رکھتے ہیں اور اس بات سے باز نہیں رکھتا انہیں ان کا یہ علم کہ اس جگہ دوسری وجوہ بھی جن کو ان کے مقصد سے تعلق نہیں ، اور کا ہے کو بازر کھے حالانکہ انہیں خبر ہے کہ قرآن اپنی تمام وجوہ پر حجت ہے اور یہ اختلاف وجوہ تو محض تفنن کلام وتلون عبارت ہے ،
انبانا المولی السراج عن المفتی الجمال عن السنۃ السندی عن الشیخ صالح عن محمد بن السنۃ وسلیمان الدرعی عن الشریف محمد بن عبداللہ عن السراج بن الالجائی عن البدر الکرخی والشمس العلقمی کلھم عن الامام جلال الملۃ و الدین السیوطی قال فی الاتقان ناقلا عن ابن تیمیۃ الخلاف بین السلف فی التفسیر قلیلل وغالب مایصح عنہم من الخلاف یرجع الی اختلاف تنوع الاختلاف تضاد ۔ وذلک صنفان : ہمیں خبر دی مولی سراج نے مفتی جمال سے انہوں نے سندسندی سے انھوں نے شیخ صالح سے انھوں نے محمد بن السنۃ اور سلیمان درعی سے انہوں نے شریف محمد بن عبداللہ سے انہوں نے سراج بن الالجائی سے انہوں نے بدر کرخی وشمس علقمی سے ، ان سب نے جلال الملۃ والدین سیوطی سے روایت کی کہ انہوں نے اتقان میں ابن تیمیہ سے نقل فرمایا کہ تفسیر میں سلف کے درمیان اختلاف کم ہے اور اکثر اختلاف جو سلف سے ثابت ہے اختلاف طرز تعبیر کی طرف لوٹتا ہے متضادباتوں کا اختلاف نہیں اور یہ (تعبیروں کا اختلاف ) دو صنف ہے :
احدھما ان یعبر واحد منہم عن المراد بعبارۃ غیر عبارۃ صاحبہ تدل علی معنی فی المسمی غیر المعنی الاخر من اتحاد المسمی کتفسیر ھم الصراط المستقیم ” بعض بالقرآن ای اتباعہ وبعض بالاسلام فالقو لان متفقان لان دین الاسلام ھو اتباع القرآن ولکن کل منہا نبہ علی وصف غیر الوصف الاخر کماان لفظ الصراط یشعر بوصف ثالث ، وکذلک قول من قال ھو السنۃ والجماعۃ وقول من قال ھو طریق العبودیۃ وقول من قال ھو طا عۃ اللہ ورسولہ و امثال ذلک ، فھؤلاء کلھم اشاروا الی ذات واحدۃ ولکن وصفہا کل منہم بصفۃ من صفاتھا ۔ ان میں سے ایک صنف یہ کہ ان لوگو ں میں سے کوئی اپنی مراد کی تعبیر ایک عبارت سے کرے جو اس کے ساتھی کی عبارت سے جدا گانہ ہو اور معنی ایک ہو جیسے علماء نے الصراط المستقیم کی تفسیر کی کسی نے قرآن کہا یعنی قرآن کی پیروی اور کسی نے اسلام تو یہ دونوں قول ایک دوسرے کے موافق ہیں اس لئے کہ دین اسلام تو قرآن کی پیر وی ہے ۔ لیکن ان دونوں نے ایک دوسرے کے وصف سے جدا ایک وصف پر متنبہ کیا جیسے کہ لفظ صراط تیسرے وصف کی خبر دیتا ہے اسی طر ح اس کی بات جس نے یہ کہا تھا کہ صراط مستقیم مسلک اہل سنت و جماعت ہے اور اس کی بات جس نے کہا کہ وہ طریق بند گی ہے اور اس کا قول جو بولا کہ وہ اللہ ورسول (جل وعلا و صلی اللہ تعالی علیہ وسلم )کی اطاعت ہے او ر جیسے اس طر ح کے دوسرے اقوال اس لئے کہ ان سب نے ایک ذات کی طرف رہنمائی کی لیکن ہر ایک نے اس کی ایک صفت اس کی صفات سے بیان کردی۔
الثانی ان یذکر کل منہم من الاسم العام بعض انواعہ علی سبیل التمثیل وتنبیہ المستمع علی النوع ، لاعلی سبیل الحد المطابق للمحدود فی عمومہ و خصوصہ مثالہ مانقل فی قولہ تعالی ثم اورثنا الکتب الذین اصطفینا الایۃ فمعلوم ان الظالم لنفسہ یتناول المضیع للواجبات والمنتھک للحرمات والمقتصد یتناول فاعل الواجبات وتارک المحرمات ، والسابق یدخل فیہ من سبق فتقرب بالحسنات مع الواجبات فالمقتصدون اصحاب الیمین والسابقون السابقون اولئک المقربون ، ثم ان کلامنہم یذکر ھذا فی نوع من انواع الطاعات کقول القائل السابق الذی یصلی فی اول الوقت ،و المقتصد الذی یصلی فی اثنائہ والظالم لنفسہ الذی یؤخر العصر الی الاصفرا ر اویقول السابق المحسن بالصدقۃ مع الزکوۃ ، والمقتصد الذی یؤدی الزکاۃ المفر و ضۃ فقط ، والظالم مانع الزکوۃ ۱ دوسری صنف یہ ہے کہ ہر عالم لفظ عام کی کوئی قسم مثال کے اوپر ذکر کرے اور مخالف کو اس نوع پر متنبہ کرے اور اس نوع کو ذکر کرنا ذ ات اس کے عموم وخصوص میں ذات کی حد تام وتعریف تمام کےطور پرنہ ہووہ جو اللہ تعالی کے قول ثم اورثنا الکتب الذین اصطفینا الایۃ کی تفسیر میں منقول ہوا اس لئے کہ معلوم ہے کہ اپنے نفس پر ظلم کرنے والا اس کو شامل ہے جو واجبات کو ضائع کرے اور حرمتو ں کو توڑے اور مقتصد واجبات کی تعمیل اور محرمات کو تر ک کرنے والے کو شامل ہے او رسابق میں وہ داخل ہے جو سبقت کرے تو واجبات کے ساتھ حسنات سے اللہ کی قربت حاصل کرے تو مقتصد لوگ دہنے ہاتھ والے ہیں اور سابق سابق ہیں وہی اللہ کے مقرب ہیں پھر ان میں سے ہر عالم اس مثال کو انواع عبادات میں سے کسی قسم میں ذکر کرتا ہے جیسے کسی نے کہا : سابق وہ ہے جو اول وقت میں نماز پڑھے اورمقتصد وہ ہے جو درمیان وقت میں پڑھے اور ظالم وہ ہے جو عصر کو سورج زرد ہونے تک موخر کر دے ، اور کوئی کہے ، سابق وہ ہے جو صدقہ نفل زکوۃ کے ساتھ دے کرنیکی کرے ، او رمقتصد وہ ہے جو صرف زکوۃ فرض دے ، اور ظالم وہ ہے جو زکوۃ دنہ دے اھ۔
(۱ الاتقان فی علوم القرآن النوع الثامن والسبعون دار الکتاب العربی بیروت ۲ / ۴۳۸)
وعن الزرکشی ”ربما یحکی عنہم عبارات مختلفۃ الالفاظ فیظن من لافہم عندہ ان ذلک اختلاف محقق فیحکیہ اقوالا و لیس کذلک بل یکون کل واحد منہم ذکر معنی من الایۃ لکونہ اظہر عندہ ا و الیق بحال السائل وقد یکون بعضہم یخبر عن الشیئ بلازمہ ونظیرہ والاخر بمقصودہ وثمر تہ والکل یؤل الی معنی واحد غالبا۱الخ اور سیوطی نے زرکشی سے نقل کیا بسا اوقات علماء سے مختلف عبارتیں منقول ہوتی ہیں تو جو فہم نہیں رکھتا یہ گمان کرتا ہے کہ یہ اختلاف حقیقی ہے تو وہ اس کو کئی قول بنا کر حکایت کرتا ہے ، حالانکہ بات یوں نہیں ،بلکہ ہوتا یہ ہے کہ ہر عالم آیت کا ایک معنی ذکر کرتا ہے اس لئے کہ وہ اس کے نزدیک ظاہر تر یا حال سائل کے زیادہ شایاں ہوتا ہے او رکبھی کوئی عالم شے کا لازم یا اس کی نظیر بتاتا ہے اور دو سرا اس کا مقصود وثمرہ بتاتا ہے اور اکثر سب کا بیان ایک ہی معنی کی طرف لوٹتا ہے الخ۔
(۱ الاتقان فی علوم القرآن النوع الثامن والسبعون دار الکتاب العربی بیروت ۲ / ۴۴۴)
وعن البغوی والکواشی وغیر ھما التاویل صرف الایۃ الی معنی موافق لما قبلہا وبعد ھا تحتملہ الایۃ غیر مخالف للکتاب والسنۃ من طریق الاستنباط غیر محظور علی العلماء بالتفسیر کقولہ تعالی ”انفروا خفافا وثقالا” قیل شبابا وشیوخا ، وقیل اغنیاء وفقراء ، قیل عزابا ومتاھلین ، وقیل نشاطا وغیرنشاط وقیل اصحاء ومرضی وکل ذلک سائغ والایۃ تحتملہ۲الخ، وھذا فصل عمیق بعید لوفصلنا فیہ الکلام خرج بناء عما نحن بصددہ من المراد ، فیما اوردناہ کفایۃ الاولی الاحلام لاسیما من لہ اجالۃ نظر فی کلمات المفسرین وتمسکات العلماء بالقرآن المبین۔ اور سیوطی علیہ الرحمۃ نے بغوی وکواشی وغیر ہما سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ تاویل براہ استنباط آیت کو ایسے معنی کی طرف پھیرنا ہے جو اس کی اگلی آمد پچھلی آیت کے موافق ہو ، اور آیت اس کا احتمال رکھتی ہو اور وہ معنی کتاب و سنت کے مخالف نہ ہو ، ایسی تاویل ان لوگوں کو منع نہیں جنہیں تفسیر کا علم ہے ، جیسے اللہ تعالی کے قول ” انفروا خفافا وثقالا (یعنی کوچ کرو ہلکی جان سے چاہے بھاری دل سے) میں کسی نے کہا: بوڑھے اور جوان ۔ او ر کسی نے کہا غنی وفقیر ۔ اور کسی کا قول ہے ۔ شادی شدہ اور مجرد ۔ او رکسی کا قول ہے : چست وسست ۔ او رکسی نے کہا: صحت مند و بیمار (یعنی یہ سب کوچ کریں ) اور یہ تمام وجوہ بنتی ہیں اور آیت سب کی محتمل ہے اور یہ فصل وسیع وعریض ہے اگر ہم اس میں مفصل کلام کریں تو وہ کلام ہمیں ہمارے اس مقصود سے باہر کردے گا جس کے ہم درپے ہیں ، اور جو ہم نے ذکر کیا اس میں سمجھ والوں اور ان کے لئے جن کی نظر کلمات مفسرین اور علماء کے قرآن سے تمسکات میں رواں ہے ، کفایت ہے ۔
(۲ الاتقان فی علوم القرآن النوع الثامن والسبعون دار الکتاب العربی بیروت ۲ / ۴۴۸)
المقدمۃ الرابعۃ: ھذا التاویل الذی فتحنا ابواب الکلام علی ایہا نہ اعنی تفسیر الاتقی بالتقی انما ھو مروی عن ابی عبیدۃ کما صرح بہ العلامۃ النسفی رحمہ اللہ تعالی فی مدارک التنزیل ۱وحقائق التاویل وابوعبیدۃ ھذا رجل نحوی لغوی من الطبقۃ السابعۃ اسمہ معمر بن المثنی کان یری رأی الخوارج وکان سلیط اللسان وقاعا فی العلماء وتلمیذہ ابو عبیدالقاسم بن سلام احسن منہ حالا وابصر منہ بالحدیث انبأنا مفتی مکۃ سیدی عبدالرحمن عن جمال بن عمر عن الشیخ محمد عابد بن احمد علی عن الفلانی عن ابن السنۃ عن المولی الشرف عن محمد ابن ارکماش الحنفی عن حافظ ابن حجر العسقلانی قال فی التقریب معمر بن المثنی ابو عبیدۃ التیمی مولاھم البصری النحوی اللغوی صدوق اخباری و قدرمی برای الخوارج من السابعۃ مات سنۃ ثمان ومائتین وقیل بعد ذلک وقد قارب المائۃ ۲انتہی۔ چوتھا مقدمہ : یہ تاویل جس کے ضعف بتانے کے لئے ہم نے کلام کے دروازے کھولے (یعنی اتقی کی تفسیر تقی سے کرنا) یہ صرف ابو عبیدہ سے منقول ہے ۔ چنانچہ اس کی تصریح علامہ نسفی نے مدارک التنزیل میں کی ہے ، اور یہ ابوعبیدہ ایک آدمی ہے نحو ولغت کا عالم ، جوساتویں طبقہ پر ایک فرد ہے ، اس کانام معمر بن المثنی ہے ، خارجیوں کا عقیدہ رکھتا تھا ، اور یہ بدزبان علماء کا بدگو تھا ، اور اس کے شاگرد ابو عبید قاسم بن سلام کا حال اس سے اچھا تھا اور انہیں حدیث میں اس سے زیادہ بصیرت تھی ۔ مجھے مفتی مکہ سیدی عبدالرحمن نے جمال بن عمر سے خبردی انہوں نے شیخ محمد عابد بن احمد علی عن الفلانی سے روایت کی انہوں نے ابن السنۃ سے انہوں نے مولی شریف سے انہوں نے محمد بن ارکما ش حنفی سے انہوں نے حافظ ابن حجر عسقلانی سے روایت کی کہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے تقریب میں فرمایا معمر بن مثنی ابو عبیدہ تیمی بنوتیم کا آزاد کردہ ، بصری نحوی ، لغوی سچا ہے تا ریخ کا راوی ہے ، اورخوارج کے مذہب سے متہم کیا گیا ، طبقہ ہفتم کے علماء سے ہے ۲۰۸ھ میں انتقال ہوا ، اور بعض کا قول ہے کہ اس کے بعد وفات ہوئی اور عمر تقریبا سوسال ہوئی انتہی ۔
(۱مدارک التنزیل (تفسیر النسفی)تحت الایۃ ۹۲/ ۱۷ دار الکتاب العربی بیروت۴/ ۳۶۳)
(۲ تقریب التہذیب ترجمہ ۶۸۳۶معمر بن المثنی دار الکتب العلمیہ بیروت۲/ ۲۰۳)
وقد قال ابن خلکان کما نقل الفاضل عبد الحی فی مقدمۃ(عہ) الہدایۃ ابو عبید بغیرتاء مذکور فی باب الجنایات من کتاب الحج اسمہ القاسم بن سلام ذاباع طویل فی فنون الادب والفقہ ، قال القاضی احمد بن کامل کان ابوعبید فاضلا فی دینہ متفننا فی اصناف العلوم من القراء ات والفقہ العربیۃ والاخبار حسن الروایۃ صحیح النقل روی عن ابی زید والاصمعی وابی عبیدہ وابن الاعرابی والکسائی والفراء وغیرہم وروی الناس من کتبہ المصنفۃ بضعۃ وعشرین فی الحدیث والقراء ات و الامثال ومعانی الشعر وغریب الحدیث وغیر ذلک ویقال انہ اول من صنف فی غریب الحدیث ، اور ابن خلکان نے کہا جیسا کہ فاضل عبد الحی نے مقدمہ ہدایہ میں کہا : ابو عبید بغیرتا ء کتاب الحج کے باب الجنایات میں مذکور ہواان کا نام قاسم بن سلام ہے ادب کے فنون وفقہ میں بڑی دستر س رکھتے تھے ۔ قاضی احمد بن کامل نے فرمایا: ابو عبیداپنے دین میں فاضل مختلف علوم قراء ت وفقہ و عربیت وتاریخ کے ماہر تھے ان کی روایت حسن ہے اور نقل صحیح ہے انہوں نے ابو زید واصمعی وابو عبیدہ وابن الاعرابی وکسائی و فراء وغیرہم سے روایت کی اور لوگو ں نے ان کی تصنیفات سے حدیث وقراء ت وامثال ومعنی شعر و احادیث غریبہ وغیرہا میں تئیس سے انتیس تک کتابوں کو روایت کیا ، اور کہتے ہیں قاسم بن سلام نےسب سے پہلےغریب الحدیث میں تالیف فرمائی۔
عہ: فی الاصل بیاض وعبارۃ المقدمۃ منقولۃ من المترجم۱۲ النعمانی۔
وقال الہلال مَنَّ اللہُ تعالٰی علی ھذہ الامۃ باربعۃ فی زمانہم الشافعی فی فقہ الحدیث وباحمد بن حنبل فی المحنۃ ولولاہ لکفر الناس وبیحیی بن معین فی ذب الکذب عن الاحادیث وبابی عبید القاسم بن سلام فی غریب الحدیث و کانت وفاتہ بمکۃ وقیل بالمدینۃ سنۃ اثنتین اوثلث وعشرین ومائتین وقال البخاری سنۃ اربع وعشرین ۔ ویوجد فی بعض نسخ الھدایۃ فی الموضع المذکور ابو عبیدۃ بالتا ء واسمہ معمربن المثنی وقد ذکرنا ترجمتہ فی الاصل وقال العینی فی شرحہ ابو عبید اسمہ معمر بن المثنی التیمی ، وفی بعض النسخ ابو عبیدۃ بالتاء واسمہ القاسم بن سلام البغدادی ، والاول اصح انتھی ، وھذا مخالف لما فی تاریخ ابن خلکان وغیرہ من التواریخ المعتمد ۃ من ان ابا عبید بغیر التاء کنیۃ القاسم وبالتاء کنیۃ معمر۱۔ اور ہلال نے فرمایا اللہ تعالی نے اس امت پراپنے اپنے زمانہ میں چار شخصوں سے منت رکھی ، شافعی سے فقہ حدیث میں اور احمد بن حنبل سے ان کی آزمائش کے سبب(یعنی وہ آزمائش جس میں حضرت امام احمد بن حنبل زمانہ مامون میں مخالفت عقیدہ خلق قرآن کے سبب مبتلا ہوئے) اور اگر امام احمد نہ ہوتے تو لوگ کافر ہوجاتے ، اور یحیی بن معین سے یوں منت رکھی کہ انہوں نے احادیث سے دروغ کو الگ کردیا اورابوعبیدبن قاسم بن سلام سے غریب احادیث کو جمع کرنے میں ، ان کی وفات مکہ میں ہوئی ، اور ایک قول پر مدینہ میں ۲۲۳ھ یا ۲۲۲ھ میں ہوئی اور بخاری نے سن وفات ۲۲۴ھ میں فرمایا ، اور ہدایہ کے بعض نسخوں میں یوں ہے موضع مذکور میں ابو عبیدۃ بالتاء اور ان کا نام معمر بن مثنی ہے اور ہم نے اس کے حالات اصل میں ذکر کئے اور عینی نے شرح ہدایہ میں فرمایا ابو عبید معمر بن مثنی بن تیمی ہے ۔اور بعض نسخوں میں ابوعبیدۃ بالتاء ہے اور ان کانام قاسم بن سلام بغدادی ہے ، اور پہلا قول اصح ہے ۔ اور یہ بات اس کے مخالف ہے جو تاریخ ابن خلکان وغیرہ تواریخ معتمدہ میں ہے کہ عبیدبغیر تاء قاسم کی کنیت ہے اور تا ء کے ساتھ معمر کی کنیت ہے ۔
(۱مذیلۃ الدرایۃ لمقدمۃ الہداٰیۃ لعبد الحی مع الہدایۃ المکتبۃ العربیۃ کراچی ص۴)
واما قدماء العلماء ککنیف ملئ علما حامل تاج المسلمین نعال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سیدنا عبداللہ مسعود وحبر الامۃ سلطان المفسرین عبداللہ بن عباس وعروۃ بن زبیر وشقیقہ عبداللہ وافضل التابعین سعید بن المسیب رضی اللہ تعالی عہنم اجمعین فقد روینا لک ماقالوا فی الایۃ۔ رہے علمائے متقدمین جیسے علم سے بھرے ہوئے ظرف حامل تاج مسلمانان نقش پائے رسول ا للہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سیدنا عبداللہ بن مسعود اور عالم امت سلطان المفسرین عبداللہ بن عباس اور عروہ بن زبیر اور ان کے سگے بھائی عبداللہ اور افضل التابعین سعید بن المسیب رضی اللہ عنہم تو ہم آیت کریمہ کی تفسیر میں ان کے اقوال تمہارے لئے روایت کرچکے ۔
المقدمۃ الخامسۃ : لعلک یا من یفضل علیا علی الشیخین رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین تفرح وتمرح ان ھؤلاء المفسرین انما عدلوا عن الاتقی الی التقی کیلا یلزم تفضیل الصدیق رضی اللہ تعالی عنہ علی من عداہ وحاشاہم عن ذلک ، الاتری انہم کما فسروا الاتقی بالتقی کذلک اولوالاشقی بالشقی فاین ھذا من قصد ک الذمیم الذی ترید لاجلہ تغییر القرآن العظیم وانما الباعث لہم علی ذلک ماذکرہ ابو عبیدۃ بنفسہ۔ پانچواں مقدمہ : اے تفضیلیہ شاید تو خوش ہو اور فخر کرے یہ مفسرین اتقی سے تقی کی طرف اسی لئے پھرے کہ صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت ان کے ماسوا دوسرے صحابہ پر لازم نہ آئے اور وہ اس خیال سے بری ہیں ۔ کیا تو نہیں دیکھتا کہ انہوں نے جس طر ح اتقی کی تفسیر تقی سے کی یو نہی اشقی کی تاویل شقی سے کی تو مفسرین کی اس روش کو تیرے اس بد ارادے سے کیا علاقہ ہے جس کے لئے تو قرآن عظیم کو بدلناچاہتا ہے ،ان کے لیے اس تفسیر پر ابو عبیدہ کا قول مذکور باعث ہوا۔
انبانا سراج العلماء عن المفتی ابن عمر عن عابد سندی عن یوسف المزجاجی عن ابیہ محمد بن ا لعلاء عن حسن العجیمی عن خیر الدین الرملی عن العلامۃ احمد بن امین الدین بن عبد العال عن ابیہ عن جدہ عن العزعبد الرحیم بن الفرات عن ضیاء الدین محمد بن محمد الصنعانی عن قوام الدین مسعود بن ابراھیم الکرمانی عن المولی حافظ الدین ابی البرکات محمود النسفی قال فی مدارک التنزیل قال ابو عبیدۃ الاشقی بمعنی الشقی وھوالکافر ، والاتقی بمعنی التقی وھو المؤمن لانہ لایختص بالصلی اشقی الاشقیاء ولابا لنجاۃ اتقی الاتقیاء وان زعمت انہ تعالی نکر النار فاراد نارا مخصوصۃ بالاشقی ، فما تصنع لقولہ وسیجنبہا الاتقی الذی لان الاتقی یجنب تلک النار المخصوصۃ لا الاتقی منہم خاصہ ۱انتہی
ہمیں سراج العلماء نے خبردی مفتی ابن عمر سے انہوں نے روایت کی عابد سندی سے انہوں نے یوسف مزجاجی سے روایت کی انہوں نے اپنے باپ محمد بن علاء سے انہوں نے حسن العجیمی سے روایت کی انہوں نے خیر الدین رملی سے انہوں نے علامہ احمد بن امین الدین بن عبد العال سے انہوں نے اپنے باپ سے پھر اپنے دادا سے انہوں نے عز عبد الرحیم بن فرات سے انہوں نے ضیاء الدین محمد بن محمد صنعانی سے انہوں نے قوام الدین مسعود بن ابراہیم کرمانی سے انہوں نے مولی حافظ الدین ابو البر کات محمود نسفی سے روایت کیا کہ (علامہ نسفی نے) مدارک التنزیل میں فرمایا ابو عبیدہ نے کہا اشقی بمعنی شقی کے ہے اور وہ کافر ہے ، اوراتقی تقی کے معنی میں ہے اور اس سے مراد مومن ہے ، اس لئے کہ آگ میں جانا سب اشقیاء سے بڑھ کر شقی کی خصوصیت نہیں ہے اور نجات پانا سب پرہیز گار وں سے افضل کے لئے مخصوص نہیں ہے اور اگر تم کہو کہ اللہ تعالی نے نار کونکرہ فرمایا (اور نکرہ جب محل اثبات میں ہو تو اس سے مراد فرد مخصوص ہوتا ہے) تو اللہ تعالی کی مراد ایک مخصوص نارہے تو تم (یعنی اس سے بہت دور رکھا جائے گا سب سے بڑا پرہیز گار ) کے ساتھ کیا کرو گے اس لئے کہ ہر متقی اس نار مخصوص سے دور رکھاجائے گا نہ کہ خاص کر سب سے بڑا متقی۔
(۱مدارک التنزیل (تفسیر المدارک) تحت الایۃ۱۷ٖ/۹۲ دار الکتاب العربی بیروت ۳۲۳/۴)
وتلخیص المقام : ان قولہ سبحنہ وتعالی ”فانذرتکم نارا تلظی لایصلہا الاالاشقی الذی کذب وتولی”۲لایمکن اجراء ہ علی ظاھرہ لانہ یقتضی قصر دخول النار علی اشقی الاشقیاء من الکفار فیلزم ان لایدخلہا احد غیرہ کالفجار والکافرین القاصرین عنہ فی الشقاء والاستکبار وھذا باطل قطعا فاختار الواحدی و الرازی والقاضی المحلی وابوالسعود واخرون ماملحظہ ان لیس المراد بالاشقی رجل مخصوص یکون اشقی الاشقیاء بل المعنی من کان بالغا(عہ) فی الشقاء متناھیا فیہ وھم الکفار عن اخرھم لانسلاخہم عن السعادۃ بالمرۃ ، مقام تلخیص : یہ ہے کہ اللہ سبحنہ وتعالی کے قول فانذرتکم نارا تلظی لایصلہا الاالاشقی الذی کذب و تولی (تو میں تمہیں ڈراتا ہوں اس آگ سے جو بھڑک رہی ہے نہ جائے گا اس میں مگر بڑا بدبخت جس نے جھٹلایا اور منہ پھیرا ) کو اس کے ظاہر معنی پر جاری رکھنا ممکن نہیں اس لئے کہ اس کا تقاضایہ ہے کہ دوزخ میں وہی جائے جو کافرو ں میں سب بد نصیبو ں سے بڑا بد نصیب ہو تو لازم آئے گا کہ وہ فجار و کفار جو بد نصیبی اور گھمنڈمیں اس سے کم رتبے کے بد نصیب ہوں دو زخ میں نہ جائیں ، اور یہ قطعا باطل ہے ،لہذا واحدی و رازی وقاضی ومحلی وابو السعود اور دیگر مفسرین نے یہ اختیار کیا جن میں یہ لحاظ ہے کہ اشقی سے مراد کوئی خاص نہیں جو سب سے بڑا شقی ہو بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو شقاوت میں حد کو پہنچا ہواہو اور اس مفہوم کے مصداق سارے کافر ہیں اور وہ سعادت سے بالکل محروم ہیں ۔
(۲القرآن الکریم۹۲/۱۴ تا ۱۶)
عہ: قولہ بالغا فی الشقاء الخ” انت خبیر بانا قر رنا کلامہم بحیث یندفع عنہ یراد قوی کان یتخالج فی صدری تقریر الایراد ان المؤمن الفاجر لہ قسط من الشقاوۃ کما ان لہ قسطا عظیما من السعادۃ ، ولیس ان الشقاء یختص بالکفرۃ ، الاتری ان النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سمی الخبیث الشقی عبدالرحمن بن ملجم الذی قتل السید الکریم المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ وخضب الحیۃ الکریمۃ بدم راسہ الاقدس اشقی الاخرین کما ورد بطریق عدیدۃ عن سید نا علی کرم اللہ تعالی وجہہ وانما کان ھذاک الخبیث رجلا من الخوارج واذا کان الامر ھکذا فما لھولاء اولو الاشقی بالشقی ثم خصوہ بالکافرحتی عاد الاعتراض بخروج الفجار مع ان بعضہم یدخل النار قطعا ، فلوانہم اجروہ علی العموم یسلموا من ذاک وتقریر الجواب انہم لما فطموا الافعل عن معناہ الحقیقی اعنی الزائد فی الاتصاف بالمبدء علی کل من عداہ کرھوا ان یذھبو ا بہ مذھبا ابعد من حقیقۃ کل البعد ، فاردوا بہ البالغ فی الشقاء المتناھی فیہ ابقاء لمعنی الزیادۃ المدلول علیہا بصیغۃ التفضیل ، والوجہ فی ذلک ان ھناک ثلثۃ امور ، الاول الا تصاف بالمبدء وھو مفاد اسم الفاعل ، والثانی الکثرۃ فیہ و ھو مدلول صیغۃ المبالغۃ، و الثالث الزیادۃ فیہ عن غیرہ و ھوالموضوع لہ اسم التفضیل فالثانی و کالوسط بین الاول والثالث و العدول عن طرف الی طرف ابعد من المیل عن طرف الی الوسط فہذا الذی حملہم علی ذلک فیما اظن واللہ تعالی اعلم منہ عفااللہ تعالی عنہ امین۔ (قولہ بدبختی میں حد کو پہنچا ہو الخ) تم خبردار ہو کہ ہم نے ان علماء کے کلام کی تقریر اس طور پر کی جس سے وہ قوی اعتراض جو میرے سینے میں متردد تھا دفع ہوجائے ۔ اس اعتراض کی تقریر یہ ہے کہ مومن فاجر کے لئے بدبختی سے ایک حصہ ہے جیسا کہ اس کےلئے سعادت سے عظیم بہرہ ہے اورایسا نہیں کہ بد بختی کافروں کیلئے خاص ہے ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اس خبیث شقی عبدالرحمن بن ملجم کو جس نے سید کریم مرتضی علی رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کیا اور ان کی ریش مبارک کو ان کے سر اقدس کے خون سے رنگین کیا پچھلوں کا سب سے بڑا بدبخت فرمایا ، جیسا کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے متعدد سندوں سے روایت ہے اور یہ خبیث تو خارجیوں میں کا ایک شخص تھا(یعنی کافر نہ تھا بلکہ گمراہ تھا) اور جب بات ایسی ہے تو ان لوگو ں کو کیا ہوا جنہوں نے اشقی کی تاویل شقی سے کی پھر اسے کافر کےلئے مخصوص کیا تو اعتراض لوٹاکہ فاجر مسلمان اس حکم سے نکل گئے حالانکہ بعض فاجر مسلمان یقینا جہنم میں جائیں گئے تو اگر انہوں نے حکم عام رکھا ہوتا تو اس اعتراض سے بچ جاتے ، اور جواب کی تقریر یہ ہے کہ جب انہوں نے افعل ،(اسم تفضیل)کو اس کے حقیقی معنی سے مجرد کیا یعنی جو مصدر سے متصف ہونے میں اپنے ہر ماسوا سے زائد ہو تو انہیں یہ پسند نہ ہوا کہ اسم تفضیل کو ایسے مذہب پرلے جائیں جو اس کے حقیقی معنی سے بالکل دور ہو لہذا انہوں نے اشقی سے مراد لیا کہ بدبختی میں حد کو پہنچا ہو تا کہ زیادتی کا مفہوم جس پر صیغہ افعل تفضیل دلالت کرتا ہو باقی رکھیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس جگہ تین امور ہیں ، پہلا مصدر سے موصوف ہونا اور یہ اسم فاعل کا مفاد ہے اور دوسرا امر اس وصف میں کثرت اور یہ مبالغہ کے صیغہ کا مفہوم ہے ، اور تیسرا امر اس وصف میں دوسرے سے بڑھ جانا اور یہ وہ مفہوم ہے جس کے لئے اس تفضیل کی وضع ہے تو دوسرا جیسے اول وسوئم کے درمیان ہے اور ایک کنارے سے دوسرے کنارے کی طرف پھرنا ایک کنارے سے درمیان کی طرف مائل ہونے سے زیادہ دور ہے تو میرے گمان میں یہی ان کو اس پر باعث ہوا ، واللہ تعالی اعلم منہ عفا اللہ تعالی عنہ ۔آمین.
اما المؤمن الفاجر فان کان لہ وجہ الی الشقاء الزائل فوجہہ الاخر الی السعادۃ الابدیۃ وھی الایمان ،وھؤلاء القائلون لمارأوا مادۃ الایراد لم تنحسم اذدخول بعض الفجار ایضا مقطوع فزعوا الی تاویل الصلی باللزوم ، وزعم الواحدی انہ معناہ الحقیقی فقال کما نقل الرازی معنی”لایصلاھا” لایلزمہا فی حقیقۃ اللغۃ یقال صلی الکافر النار اذا لزمہامقایسا شدتھا وحرھا ، وعندنا ان ھذہ الملازمۃ لاتثبت الاالکافر اما الفاسق فاما ان لاید خلہا اوان دخلہا تخلص منہا ۱ انتہی رہا مومن فاجر تو اس کا ایک پہلو شقاوت فانیہ کی طرف ہے تو دوسرا ابدی سعادت کی طرف ہے اور وہ سعادت ابدی ایمان ہے ۔ اور ان لوگو ں نے جب یہ دیکھا کہ اعتراض کا مادہ بالکل ختم نہ ہوا اس لئے کہ بعض بد عمل مسلمانوں کا دوزخ میں جانا ہی قطعی امر ہے ۔ لہذ یہ لوگ صلی کی تاویل لزوم سے کرنے کی طرف راغب ہوئے ۔ واحدی نےکہا کہ لزوم اس کا حقیقی معنی ہے جیسا کہ امام رازی نے نقل کیا ہے کہ ”لایصلاھا ”کا معنی حقیقت لغت میں”لایلزمھا ”ہے کہتے ہیں کہ صلی الکافر النار جب وہ اس حال میں آگ کو لازم پکڑے درانحالیکہ اس کی شدت وحرارت کوبرداشت کرے ، اور ہماری رائے یہ ہے کہ یہ ملازمۃ فقط کافر کیلئے ثابت ہے ، رہا فاسق تو وہ یا تو اس میں داخل ہی نہ ہوگا یا داخل تو ہوگا مگر اس سے چھٹکارا پالے گا ۔ انتہی
(۱مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر) تحت الایۃٖ ۹۲/ ۱۵ تا ۱۶ المطبعۃ البہیۃ المصریۃ ۳۱/۲۰۴)
اقول : وما احسن ھذا تاویلا اواصفاہ لو لاان یکدرہ ماسأذکرہ قریبا فارتقب ورکن الرازی الی وجہ اخر من التاویل وھوان یخص عموم ھذا الظاہر بالایات الدالۃ علی وعید الفساق ۱ میں کہتا ہوں کہ یہ تاویل کس قدر اچھی ہے اور یہ رنگ کتنا صاف تھا اگر اس کو اس بات نے مکدر نہ کیا ہوتا جو میں عنقریب ذکر کروں گا ، تو انتظار کرو ، اور رازی ایک دوسری تاویل کی طر ف مائل ہوئے ، اور وہ یہ کہ اس کے ظاہر معنی کا عموم ان آیات کے ساتھ خاص ہو جو فساق کی وعید پر دلالت کرتی ہو۔
(۱مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر) تحت الایۃ ۱۵ٖ/۹۲و ۱۶ المطبعۃ البہیۃ المصریۃ مصر ۳/۲۰۴)
اقول : ھذا جمع بین التاویل والتخصیص وھو مستغنی عنہ اذ لوقیل بالتخصیص فکما دلت الایات علی وعید الفساق کذالک دلت علی ایعاد سائر الکفار بدلالۃ اظہر واجلی ۔ اللھم الاان یقال فیہ تکثیرالتخصیص جدا والقصر علی فردو احد اشد بعد وھذا(عہ) ولقد سلک القاضی الامام ابو بکر کما اثر عنہ الفخر الرازی فی مفاتیح الغیب مسلکا حسنا اذحاول ابقاء الاشقی علی معناہ الحقیقی اعنی من لایدانیہ احد فی الشقا ء وذکر لتصحیح الحصر وجھین یرتاح بھما اللبیب ویندحض کل شک مریب : میں کہتا ہوں یہ تاویل وتخصیص کو یکجا کرنا ہے اور اس کی حاجت نہیں اس لئے کہ اگر تخصیص کا قول کیا گیا تو جس طر ح آیات فساق کی وعید پر دلالت کرتی ہیں یونہی تمام کافروں کی وعید پر روشن اور صاف تر د لالت فرماتی ہیں۔ الہی! تو مدد فرما، مگر یہ کہاجاسکتا ہے کہ اس میں بہت زیادہ تخصیص لازم آئے گی ، اور ایک فرد پر منحصر کردینا بہت زیادہ مستبعد ہے یہ لو ، اور قاضی امام ابوبکر نے جیسا کہ امام فخر رازی نے مفاتیح الغیب میں نقل کیا ہے ایک اچھا مسلک اختیار کیا اس لئے کہ انہوں نے اشقی کو اس کے حقیقی معنی پر باقی رکھنے کی کوشش کی جن سے دانشمند چین پائے اور دھوکے میں ڈالنے والا ہر شک زائل ہوجائے :
عہ : اعلم ان العبد الضعیف لما فرغ من تحریر ھذہ المقدمات الخمس وبلغ الی ا خرما کتبنا فی جواب الشبۃ الاولی استعار تفسیر فتح العزیز المتعلق بجزء عم یتساء لون من بعض الاصدقاء فطالعت فیہ من ھذا المقام ورایت المولی الفاضل استاذ استاذی عبدالعزیز ذکر الدفع ھذاالایراد اعنی نقض الحصر فی الکفار بد خول بعض الفجار النار بوجھین اخرین جیدین الاول ان المراد بالنار نار مخصوصۃ بالکفار ، والثانی ان دخول بعض المومنین لما کان تطہیرا ، وتادیبا کان کلا دخول وانما الدخول کل الدخول دخول لیس بعدہ خروج فالحصر بھذا المعنی وھو حق صحیح بلا امتراء انتہی۔
تمہیں معلوم ہو کہ بندہ ناتواں جب ان پانچ مقدمات کی تحریر سے فارغ ہوا اور پہلےشبہہ کے جواب میں جو ہم نے لکھا اس کے آخرتک پہنچا تو ایک دوست سے تفسیر فتح ا لعزیز جو جز عم یتساء لون سے متعلق ہے عاریت لی تو میں نے اس میں اس مقام کا مطالعہ کیاا ور میں نے دیکھا کہ مولی فاضل استاذ استاذی عبدالعزیز نے اس اعتراض کے دفع کے لئے یعنی اس حصر کا کفارمیں بعض فجار کے آتش جہنم میں داخل ہونے سے منقوض ہونا دو اور بہتر وجہیں ذکر کیں ، پہلی یہ کہ نار سے مراد وہ نارہے جو کافروں کے لئے مخصوص ہے ۔ دوسری یہ کہ بعض مسلمانوں کا آگ میں جانا جبکہ ان کی تطہیر و تہذیب کے لئے ٹھہرا، تو یہ آگ میں جانا نہ جانے کے مثل ہے اور آگ میں بالکل جانا وہ جانا ہے جس کے بعد آگ سے نکلنا نہ ہوگا تو آیت کا حصر کفار میں اس معنی پر ہے اور بے شک حق و صواب ہے ۔
بالحاصل اقول ما انعمہما من وجہین وادفعہما لکل شین لکنک یا عریف انت خبیر بانہما یجریان ایضا بعد شیئ من تغیر العبارۃ فیما اذا حملنا الاشقی علی معناہ الحقیقی کما ستسمع منا ان شاء اللہ تعالی فیا لیت المولی الفاضل لما تنبہ علی ھذین کما تنبہنا تجنب التاویل کما اجتبینا اذ البد ایۃ بتاویل الاشقی بالشقی ثم التحصن بھذین الحصنین الما نعین عن اصل التاویل مما یفضی الی العجب فکان کمن تمنی غرضا ورمی غرضا فاخطا بعد کاد ان یصیب ، وما تو فیقی الا باللہ علیہ تو کلت و الیہ انیب ۱۲منہ عفا اللہ تعالی عنہ امین۔ الحاصل میں کہتا ہوں یہ دونوں وجہیں کس قدر اچھی ہیں اور ہر خرابی کی کیسی دافع ہیں ، لیکن اے جاننے والے ! تم خبردار کہ یہ دونوں وجہیں عبارت کی قدرے تفسیر کے بعد اس صورت میں بھی جاری رہتی ہیں جب ہم اشقی کو اس کے معنی حقیقی پر رکھیں جیسا کہ تم ہم سے سنوگے ان شاء اللہ تو کاش مولائے فاضل جب ہماری طرف ان دونوں وجہوں پر متنبہ ہوئے اسی طرح تاویل سے بچتے جیسے ہم بچے ، اس لئے کہ پہلے اشقی کی تاویل شقی سے کرنا پھر ان دو محکم وجہوں جو اصل تاویل سے مانع ہیں سے تمسک ایسی چیز ہے جو تعجب کا سبب ہے تو یہ ایسا ہوا جیسے کوئی ایک نشان چاہے اور دوسرے کو مارے تو نشانے پر تیر پہنچنے کے قریب ہو کر چوک جائے اور میری توفیق اللہ ہی سے ہے اس پر میں بھروسا کرتا ہوں اور اسی کی طرف جھکتا ہوں۔
الاول ان یکون المراد بقولہ تعالی” نارا تلظی” نارا مخصوصۃ من النیران لانہا درکات بقولہ تعالی ان المنفقین فی الدرک الاسفل من النار ” فالایۃ تدل علی ان تلک النار المخصوصۃ لایصلہا سوی ھذا الاشقی ، ولاتدل علی ان الفاسق وغیر من ھذا صفتہ من الکفار لایدخل سائر النیران ۱انتہی پہلی وجہ یہ کہ قول خدا تعالی نارا تلظی سے دوزخ کی آتشوں سے ایک مخصوص آتش مراد ہو اس لئے کہ آگ کے مختلف طبقے ہیں کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ”بے شک منافق آگ کے سب سے نچلے طبقے میں ہیں ، ”اب آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ مخصوص آگ میں یہی اشقی جائے گا اور اس کا یہ معنی نہیں کہ اس بڑے بدنصیب کے سوا دوسرے کافر اور فاسق آگ کے باقی طبقوں میں نہ جائیں انتہی۔
(۱مفاتیح الغیب(التفسیر الکبیر)تحت الایۃ ۹۲/ ۱۴و ۱۵ المطبعۃ البہیۃ المصریۃ مصر ۲۰۴/۳۱)
اقول : فکان کقولہ تعالی” ویتجنبہا الاشقی الذی یصلی النار الکبری۲
ای اعظم النیران جمیعا علی احد وجوہ التاویلات وردہ الرازی بان قولہ تعالی ”نارا تلظی” یحتمل ان یکون ذلک صفۃ لکل النیران وان یکون صفۃ لنار مخصوصۃ لکنہ تعالی وصف کل نار جہنم بھذا الوصف فی ایۃ اخری فقال ”انہا لظی نزاعۃ للشوی”۱ میں کہتا ہوں اللہ تعالی کے فرمان ”ویتجنبہا الاشقی الذی یصلی النار الکبری (دور رہے گا اس سے وہ بڑا بد نصیب جو بڑی آگ میں دھنسے گا) یعنی ایک تاویل پر سب سے بڑی آگ دلیل ہوگئی اور رازی نے اس قول کو یوں رد کیا کہ اللہ تعالی کے قول نارا تلظی میں احتمال ہے کہ وہ سب آتشوں کی صفت ہو اور ممکن ہے کہ مخصوص آتش کی صفت ہو۔ لیکن اللہ تعالی نے جہنم کی سب آتشوں کایہی وصف دوسری آیت میں فرمایا ، اس کا ارشاد گرامی ہے : ” انھا لظی نزاعۃ للشوی” وہ تو بھڑکتی آگ ہے کھال اتارلینے والی۔
(۲القرآن الکریم ۸۷/ ۱۱و ۱۲) (۱القران الکریم ۷۰/ ۱۵ٖو ۱۶)
اقول یترا أی من ھذہ العبارۃ للایراد وجہتان : میں کہتا ہوں اس عبارت سے اعتراض کی دو جہتیں نطر آتی ہیں ۔
الاولی ان الموردکانہ ظن ان القاضی الامام یدعی تخصیص النار بصفۃ التلظی کما یتخصص الغلام فی قولنا جاء نی غلام عاقل بصفۃ العقل ، ومن ھذا الطریق یقول ان المراد نار مخصوصۃ اعظم النیران فلا یراد ح ظاھر الورود اذ الاوصاف انما تخصص اذاکانت خصائص توجد فی فرد دون اخر والتلظی لایختص بناردون نار ۔ پہلی تو یہ ہے کہ گویا معترض نے یہ گمان کیا کہ قاضی امام ابوبکر آتش جہنم کے لپٹ مارنے کی صفت سے مخصوص ہونے کے مدعی ہیں اس طور پر جیسے غلام ہمارےقول جاءنی زید عاقل میں صفت عقل سے مخصوص ہے اور اس طریقے سے وہ فرماتے ہیں کہ مراد خاص آگ ہے جو سب سے بڑی آگ ہے ، تو اعتراض کا ورود اس صورت میں ظاہر ہے اس لئے کہ اوصاف ذات کے ساتھ اسی وقت خاص ہوتے ہیں جبکہ وہ اس فرد کا خاصہ ہو ں کہ دوسرے میں نہ پائے جائیں اور لپٹ مارنا ایسا نہیں کہ ایک آگ کی خاص صفت ہو دوسری کی نہ ہو ،
الاتری ان اللہ سبحنہ وتعالی وصف النار مطلقا “بانہا لظی نزاعۃ للشوی”۲ ولکن لم یکن القاضی الامام لیرید ھذا وانما ملحظہ الی ان التنکیر للتعظیم فقولہ تعالی نارا ای نارا عظیما لیس کمثلہ نارکانہ اشیر بالتنکیر الی انہا بشہرۃ امرھا وشیوع فزعہا واخذ اھوالہا بمجامع القلوب صارت بمثابۃ لاتسبق الاذھان الا الیہا ، فاغنت شہر تھا و انتشار ذکرھا عن تعریف اسمہا کما یفید ذلک تنکیر الملیک فی قولہ تعالی فی مقعد صدق عند ملیک مقتد ر ۱وتنکیر الظلم فی قولہ تعالی الذین امنوا ولم یلبسواایما نہم بظلم ۲ای ظلم لاظلم کمثلہ و ھو الشرک۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ سبحنہ وتعالی مطلقا آتش جہنم کا وصف بیان فرماتا ہے : انہا نزاعۃ للشوی(یعنی وہ توبھڑکتی آگ ہے کھال اتا رلینے والی) لیکن حضرت قاضی امام یہ معنی مراد لینے والے نہیں ان کا اشارہ تو اس طر ف ہے کہ نکرہ تعظیم کیلئے ہے تو اللہ تعالی کے فرمان نارا کا مطلب یہ ہے کہ وہ بڑی آگ ہے اس جیسی کوئی آگ نہیں ، گویا وہ اپنی حالت کی شہرت اور اس کی ہیبت کے عام چرچے اور اس کی ہولناکیوں کی پورے دلوں پر پکڑکے سبب اس مقام پر ہے کہ ذہن اسی کی طرف سبقت کرتے ہیں ، تو اس کی شہرت اور اس کے عام ذکر نے اس سے بے نیاز کردیا کہ اس کا نام لے کر اسے معین کیا جائے ، جس طرح یہی فائدہ لفظ ملیک اللہ تعالی کے قول ”فی مقعد صدق عند ملیک مقتدر” (یعنی سچ کی مجلس میں عظیم قدرت والے بادشاہ کے حضور) کا نکرہ ہونا دیتا ہے اور لفط ظلم اللہ تعالی کے قول
الذین امنوا ولم یلبسواایمانھم بظلم میں یہ فائدہ دیتا ہے یعنی ایسا ظلم کہ کوئی ظلم اس جیسا نہیں اور وہ ظلم شرک ہے ۔
(۲القران الکریم ۷۰/ ۱۵ٖو ۱۶) (۱القرآن الکریم ۵۴ /۵۵)(۲ القرآن الکریم ۸۲/۶)
انبانا مولانا السید حسین جمل اللیل امام الشافعیۃ بمکۃ المحمیۃ عن خاتمۃ المحدثین محمد عابد السندی عن صالح الفلانی عن محمد بن سنۃ عن احمد العجلی عن قطب الدین النہر والی عن ابی الفتوح عن یوسف الھروی عن محمد بن شاہ بخت عن ابی النعمان الختلانی عن الفربری عن محمد بن اسمعیل البخاری ثنا ابوعدی ثنا شعبۃ عن سلیمان عن ابراھیم عن علقمۃ عن عبدا للہ لما نزلت الذین امنوا ولم یلبسوا ایمانہم بظلم اولئک لہم الامن وھم مھتدون ۱قال اصحاب رسول اللہ تعالی علیہ وسلم اینا لم یظلم فنزل اللہ ان الشرک لظلم عظیم۔ ہمیں خبردی مولانا سیدنا حسین جمال اللیل نے جو مکہ میں امام شافعیہ ہیں وہ روایت کرتے ہیں خاتمۃ المحدثین محمد عابد سندی سے انہوں نے روایت کیا صالح فلانی سے انہوں نے روایت کی محمد بن سنہ سے انہوں نے احمد عجلی سے انہوں نے قطب الدین نہر والی سے انہو ں نے ابو الفتوح سے انہوں نے یوسف ہروی سے انہوں نے محمد بن شاہ بخت سے انہوں نے ابونعمان ختلانی سے انھوں نے فربری سے انھوں نے محمد بن اسمعیل بخاری سے ، بخاری نے فرمایا ہم سے ابو عدی نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے حدیث بیان کی انہوں نے سلیمان سے انہوں نے ابراہیم سے انہوں نے علقمہ سے علقمہ نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی کہ جب یہ آیت کریمہ
” الذین امنواولم یلبسو اایمانھم اولئک لہم الامن وھم مہتدون” (یعنی وہ جو ایمان لائے اور اپنے امان میں کسی ناحق کی آمیز ش نہ کی انہیں کے لئے ایمان ہے اور وہی راہ پر ہیں) نازل ہوئی ، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے اصحاب بولے ہم میں کون ایسا ہے جس نے ظلم نہ کیا ، اللہ تعالی نے آیہ کریمہ
” ان الشرک لظلم عظیم” (بےشک شرک بڑا ظلم ہے ۔ ت ) نازل فرمائی۔
(۱صحیح البخاری کتا ب التفسیر سورۃ الانعام ، باب قول تعالی ولم یلبسو ا ایمانھم بظلم قدیمی کتب خانہ کراچی۲/ ۶۶۶)
(انوارالتنزیل واسرار التاویل (تفسیر البیضاوی) ۸۲/۶ دار الفکر بیروت ۲/ ۴۲۶ و ۴۲۶)
اقول وھذا ھو الحصر الادعائی الذی وصفنا لک ولاشک انہ دائر سائر بین البلغاء یشہد بھذا من تتبع دواوین العرب وکلامہم فی المدح والھجاء ومعلوم ان الزمخشری لہ یدطولی وکعب علیا فی فنون الادب وصنائع الادباء فقول الرازی انہ ترک الظاھر من غیر دلیل۳انتہی غیر مستحسن وای شیئ اکبر دلالۃ من الاحتیاج الی تصحیح الکلام ولیس تاویل الاشقی بالشقی اقرب الی الظاھر من ھذا الحصر من شیوعہ و کثرۃ وقوعہ نظما ونثر ا وتصحیح الکلام قرینۃ کافیۃ فی امثال ھذا المقام الاتری انک اذا سمعت رجلا یقول زید ھو الکریم علمت اول وھلۃ من دون تامل ولامہلۃ ان مرادہ ان لیس کریم مثلہ لا ان لاکریم مثلہ وھذا ظاھر جدا ، ھذا مایتعلق بحکم الاشقی ، ولاشک ان الکلام ھہنامحتاج بظاھرہ الی تاویل او توجیہ لکن ابا عبیدۃ زاد فی الشطر نج بغلۃ ثم تتابع فی قوم من المتاخرین ینقلون کلامہ من دون تنقیح کما حکینا لک دیرنہم من کلام الامام العلامۃ السیوطی رحمہ اللہ تعالی حملہ علی ذلک ان ظن ان ایۃ الاتقی ایضا محتاجۃ الی التاویل حیث قال و ان زعمت انہ تعالی نکرالنار الی اخر الخ مانقلنا عنہ فلم یثبت ان اخذ الاتقی بمعنی التقی لیشمل کل مؤمن ووافقہ علی ذلک الزمخشری وغیرہ لکنہم لم یوافقہ علی التاویل کما سمعت وھذا کلام لایقوم علی ساق اذلیس فی قولہ تعالی وسیجنبہا الاتقی مایدل علی الحصر والقصر انما یصف اللہ سبحنہ وتعالی عبدا لہ اتقی بانہ یجنب النار و یبعد عنہا لاانہ لایجنب النار الاھو و رحم اللہ الرازی حیث تفطن لھذا فذکر فی الاشقی قولا انہ بمعنی الشقی ولم یذکرہ فی الاتقی راسابل صرح بخلافہ حیث قال “ھذا لایدل علی حال غیر الاتقی الا علی سبیل المفہوم والتمسک بدلیل الخطاب ۱ میں کہتا ہوں یہی وہ حصرا دعائی جس کا بیان ہم نے تم سے کیا اور کوئی شک نہیں کہ یہ بلغاء میں دائر وسائر ہے اس کی گواہی عرب کے دیوانوں کو اور مدح وہجو میں ان کےکلام کو خوب مطالعہ کرنے والا دے گا ، اور یہ معلوم ہے کہ زمخشری کو فنون ادب اور ادبیوں کی صنعتوں میں بڑی دسترس ہے اور اونچا درجہ حاصل ہے تو فخر رازی کا زمخشری پر یہ اعتراض کہ اس کی یہ توجیہ ظاہر کو بے دلیل چھوڑنا ہے انتہی خوب نہیں اور کلام کی تصحیح کی حاجت سے بڑی کو ن سی دلیل ہے اور اشقی کی تاویل شقی سے اس حصر کی بہ نسبت ظاہر سے نزدیک تر نہیں باوجود اس کے یہ حصر عرف میں شائع ہے اور نظم ونثر میں بکثرت واقع ہے اور تصحیح کلام کی حاجت اس جیسے مقامات میں قرینہ کا فیہ ہے ۔ کیا تم نہیں جانتے کہ جب تم کسی کو یہ کہتےسنو کہ زید ہی کریم ہے تو پہلی فرصت میں تم جان جاؤ گے کہ زید جیسا کوئی کریم نہیں نہ یہ کہ زید کے سواکوئی کریم نہیں اور یہ خوب ظاہر ہے تو یہ حکم اشقی سے متعلق تھا اور یہ کوئی شک نہیں کہ اس مقام پر کلام اپنے ظاہر سے تاویل یا توجیہ کا محتاج ہے لیکن ابوعبیدہ نے شطر نج کے مہروں میں بغلہ (خچر) بڑھا دیا پھر متاخرین میں سے کچھ لوگ پے در پے اس کا کلام بغیر تنقیح کے نقل کرتے رہے ، جیسا کہ ہم نے تم سے امام علامہ سیوطی کے کلام سے ان کی عادت کی حکایت کی ، اس کے لئے اس کا سبب یہ ہوا کہ اس نے یہ گمان کیاکہ وہ آیت بھی جس میں اتقی وارد ہوا تا ویل کی حاجتمند ہے اس لئے کہ اس نے کہا کہ اگر تم کہو کہ اللہ تعالی نے نار کو نکرہ فرمایاالخ تو کچھ دیر نہ ٹھہراکہ اتقی کو بمعنی تقی کے لیا تاکہ آیت ہر مومن کو شامل ہوجائے اور اسی بات میں زمخشری وغیرہ نے اس سے اتفاق کیا مگر اس کی تاویل میں ان لوگوں نے اس کی موافقت نہ کی جیسا کہ تو نے سنا اور یہ کلام پائے ثبات پر قائم نہیں اس لئے اللہ تعالی کے قول وسیجنبہا الاتقی میں کوئی لفظ نہیں جو حصر پر دلالت کرتا ہو ، اللہ تعالی تو اپنے ایک بندے کا وصف بیان فرماتا ہے جو سب سے بڑا پرہیز گار ہو ، یوں کہ وہ جہنم کی آتش سے بہت دور رکھا جائے گا یہ مطلب نہیں کہ جہنم کی آگ سے وہی بچایا جائے گا ۔ اور اللہ تعالی علامہ رازی پر اپنی رحمت فرمائے کہ انہوں نے اس امر کوسمجھ لیا لہذا اشقی میں ایک قول ذکر کیا کہ وہ بمعنی شقی کے ہے اور اتقی میں اسے بالکل ذکر نہ کیا بلکہ اس کے خلاف کی تصریح کی انہوں نے فرمایا یہ آیت کریمہ جس میں اتقی کے لئے بشارت ہے غیر اتقی کےحال پر دلالت نہیں کرتی مگر اپنے مفہوم کے اعتبار سے اور دلیل خطا ب سے تمسک کے طور پر الخ۔
(۳مفاتیح الغیب(التفسیر الکبیر)تحت الایۃ ۹۲/ ۱۷ المطبعۃ البہیۃ المصر یۃ مصر ۳۱/ ۲۰۴)
(۱مفاتیح الغیب(التفسیر الکبیر)تحت الایۃ ۹۲/۱۷ المطبعۃ البہیۃ المصر یۃ مصر ۳۱/ ۲۰۴)
اقول بل ولا یتمشی علی مذھب القائلین بمفہوم الصفۃ ایضا فان الکلام مسوق لمدح الاتقی کما یدل علیہ سبب النزول ومقام المدح والذم مستثنی عندھم ایضا کما ھو مذکور فی کتب الاصول فیا للعجب من القاضی البیضاوی الشافعی کیف تمسک ھہنا بالمفہوم ، مع انہ لیس محلہ بالاتفاق واشدالعجب من القاضی الامام ابی بکر الشافعی اذ زل قلمہ فمال الی افادۃ الحصر مع انہ یخالف ائمتہ فی القول بالمفہوم راسا ، وھکذا یرینا اللہ ایاتہ فی الافاق و فی انفسنا کیلا یغتر مغتر بدقۃ انظارہ ولا یسخر ساخر من عاثر فی افکارہ اذ نری کل صارم ینبو وکل جواد یکبو فعلام یزھو من یزھو وسقی اللہ عہد من قالوا وما ادراک من قالوا سادۃ کرام قادۃ الامۃ ابراھیم النخعی ومالک بن انس وغیرھما من الائمۃ اذ قالوا ولنعم ماقالوا کل احد ماخوذ من کلامہ ومردود علیہ الا صاحب ھذا القبر ۱صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نسال اللہ الوقایۃ فی البدایۃ والنہا یۃ ، والحمدللہ رب العالمین۔ میں کہتا ہوں بلکہ یہ بات ان کے مذہب پربھی نہیں چلتی جو مفہوم صفت کے قائل ہیں اس لئے کہ کلام مدحت اتقی کے لئے لایا گیا ہے جیسا کہ اس پر سبب نزول دلالت کرتا ہے اور ان لوگوں کے نزدیک مقام مدح وذم بھی مستثنی ہے جیسا کہ کتب اصول فقہ میں مذکور ہے تو قاضی بیضاوی شافعی پر تعجب ہے انہوں نے کیونکر مفہوم سے استدلال کیا حالانکہ بالاتفاق یہ اس کا محل نہیں ، اور سخت تعجب تو قاضی امام ابوبکر شافعی پر ہے کہ ان کے قلم نے لغزش کی تو وہ اس طر ف مائل ہوئے کہ آیت حصر کا فائدہ دیتی ہے حالانکہ وہ قول بالمفہوم میں اپنے ائمہ کے بالکل مخالف ہیں اور یو نہی اللہ ہمیں اپنی نشانیاں آفاق میں اور ہمارے نفوس میں دکھاتا ہے تا کہ کوئی اپنی باریک بینی پر مغرور نہ ہو اور کوئی ہنسنے والا اپنے افکار میں لغزش کرنے والے سے نہ ہنسے ، اس لئے کہ ہر تلوار اچٹتی ہے اور ہر گھوڑا گر تا ہے تو گھمنڈکرنیوالا کا ہے کو گھمنڈکرے اور اللہ تعالی ان کے زمانے کو سیراب کرے جنہوں نے فرمایا اور تمہیں کیا خبر وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے فرمایا سرداران بزرگ امت کے مقتدا ابراہیم ۔۔۔ ومالک بن انس وغیرہ ائمہ کہ انہوں نے فرمایا اور کیا خوب فرمایا کہ ہر شخص کی کو ئی بات مقبول ہوتی ہے اور کوئی نامقبول مگر اس قبر شریف کے ساکن یعنی حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کہ ان کی ہر بات قبول ہے ہم اللہ تعالی سے حفاظت مانگتے ہیں ابتداء وانتہاء میں ، والحمد للہ رب العالمین۔
(۱الیواقیت والجواہر المبحث التا سع والاربعون دار احیاء الثرات العربی بیروت ۲/ ۴۷۸ )
والان اٰن ان نستکمل الرد علی ابی عبیدۃ فیما فرعنہ وفیما اطمان علیہ فاقول وباللہ التوفیق زعم الرجل اولا ان تاویل الاشقی بالشقی ینجیہ عما فیہ اذ اٰل الکلام الی ان لایصلی النار الاکافر وھذا حق لاغبار علیہ۔ اور اب وقت آگیا ہے کہ ہم ابوعبیدہ کارد اس میں جس سے اس نے فرار اختیار کیا اور جس پروہ مطمئن ہوا تمام کریں ، تو میں کہتا ہوں اور اللہ سے ہی توفیق ہے اس شخص نے پہلے خیال یہ کیا کہ اشقی کی تاویل شقی سے اسے اس آفت سے نجات دے دے گی جس میں وہ مبتلاہے اس لئے کہ کلام کا مآل یہ ہوا کہ دوزخ کی آگ میں کافر ہی جائے گا۔اور یہ بات حق ہے جس پر کوئی غبار نہیں۔
قلنا نظر ت الموصوف وترکت الصفۃ یقول اللہ سبحنہ وتعالی لایصلہا الا الاشقی الذی کذب وتولی۱ومعلوم ان من الکفار من لم یکذب النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم مدۃ عمرہ لابجنانہ ولا بلسانہ وانما اکفر ہ ان سبق الکتاب و خذل التوفیق والعیاذ بوجہ المولی الکریم۔ ہم کہیں گے کہ تم نے موصوف کو دیکھا اور صفت کو چھوڑ دیا اللہ سبحنہ وتعالی فرماتا ہے لایصلہا الاالاشقی الذی کذب وتولی
( اس میں نہ جائے گا مگر وہ سب سے بڑابدبخت جس نے جھٹلایا اور منہ پھیرا) اور یہ معلوم ہے کہ کافروں میں وہ بھی ہیں جنہوں نے اپنی تمام عمر نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو نہ جھٹلایا نہ اپنے دل سے نہ اپنی زبان سے ، اس کا کفر تو یوں ہو اکہ اللہ کا لکھا غالب آیات اور توفیق الہی نے اس کا ساتھ نہ دیا اور مولائے کریم کی ذات کی پناہ ہے ۔
(۱القرآن الکریم ۹۲/ ۱۵ ٖ۔۱۶)
اقول: و ھذا ابو طالب عم رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم افنی عمرہ فی حفظہ وحمایتہ وبلغ الغایۃ القصوی من مجتہ وولایتہ قد کان حبہ صلی ا للہ تعالی علیہ وسلم اخذ بمجامع قبلہ ، حتی کا ن یفضلہ علی الاطفال الصغار من بنی صلبہ ، و لما بعث اللہ تعالی نبیہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فدعا المشرکین الی التوحید، وھجم علیہ الاعداء من کل شاء وبعید، قام ینا ضل عنہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فاعظم بر ہ ولازم نصرہ وقاسی ماقاسی من شدائد لاتحصی فی مہاجرۃ المشرکین من عشیرتہ الاقربین ۔ وھوالذی لما تما لات قریش علی المصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ونفر و اعنہ من یرید الاسلام انشاء قصیدۃ تدل علی عظم حبہ المصطفی وشدۃ بغضہ اعدائہ اللیام کما روی ابن اسحق وغیرہ من الثقات ومنہا ھذہ الابیات میں کہتا ہوں یہ ہیں ابو طالب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے چچا جنہوں نے اپنی عمر حضور صلی ا للہ تعالی علیہ وسلم کی حفاظت و حمایت میں فنا کردی اور وہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی محبت اور نصرت کی انتہائی حد کو پہنچے ، سرکار علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت نے ان کے پورے دل کو ایسا پکڑلیا تھا کہ اپنے صلبی کم سن بچو ں پر حضور علیہ السلام کو فضیلت دیتے تھے اور جب اللہ تعالی نے اپنے نبی علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تو سرکار نے مشرکین کو وحدانیت کی طرف بلایا اور دین کے دشمن ہرسمت دوردراز سے حملہ آور ہوئے ابو طالب ان کی حمایت کو کافرو ں سے لڑنے کو کھڑے ہوگئے تو سرکار کے ساتھ بڑی نیکی کی اور ہمیشہ ان کی مدد کی اوراپنے قریبی رشتہ دار مشرکون کی طرف سے کیسی بے شمار سختیاں جھیلیں ۔ یہ وہ ابو طالب تھے کہ جب سارے قریش مصطفے صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے مخالف ہوئے اور اسلام کے خواہشمندوں کو سرکار علیہ السلام سے دور کیا تو انہوں نے ایک قصیدہ کہا جو مصطفے صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بڑی محبت اور ان کے کمین دشمنان سے شدید عداوت کی دلیل ہے ، جیسا ابن اسحق نے معتمد راویوں سے روایت کیا ہے ۔ اسی قصید ہ کے یہ شعر ہیں:
اعبد مناف انکم خیر قومکم فلا تشرکوافی امر کم کل واغل
فقد خفت ان لم یصلح اللہ امرکم تکونوا کما کانت احادیث وائل
اعوذ بر ب الناس من کل طاعن علینا بسوء اوملح بباطل
ومن کاشح یسعی لنا بعبیۃ ومن ملحق فی الدین مالم یحاول
وثور ومن ارسی ثبیر امکانہ وراق لبر فی حراء ونازل۔
وبالبیت حق البیت فی بطن مکۃ وباللہ ان اللہ لیس بغافل
کذبتم وبیت اللہ نبزی محمدا ولما نطاعن دونہ وننا ضل
ونسلمہ حتی نصر ع حولہ ونذھل عن ابناء نا والحلائل
لعمری لقد کلفت وجدا باحمد واجبتہ داب المحب المواصل
فمن مثلہ فی الناس ای مؤمل اذا قاسہ الحکام عند التفاضل
حلیم رشید عاقل غیر طائش یوالی الاھا لیس عنہ بغافل
فواللہ لولا ان اجی بسبۃ تجر علی اشیاخنا فی المحافل
لکنااتبعنا ہ علی کل حالۃ من الدھر جدا غیر قول التہا زل
فاصبح فینا احمد فی ارومۃ تقصرعنہا سورۃ المتطاول
حدیث بنفسی دونہ وحمیتہ ودافعت عنہ بالذر او الکلا کل ۱ اے عبد مناف کے بیٹو ! تم ا پنی قوم میں سے بہتر ہو ، تو تم اپنے معاملہ میں ہر خسیس کو شریک نہ کرو ، بے شک مجھے اندیشہ ہے کہ اگر اللہ نے تمہارا حال ٹھیک نہ کیا تو تم وائل کے افسانوں کی طرح افسانہ ہوجاؤگے میں لوگوں کے رب کی پناہ چاہتا ہوں ہر برائی کا طعنہ دینے والے اور باطل پر اصرار کرنے والے سےاور کینہ پرور سے جو ہم پر گھمنڈ کی کوشش کرے اور اس سے جودین میں ایسی بات شامل کرے جو دین میں کبھی نہ پائی گئی ہو۔
اور کوہ ثور سے اور اس سے جس نے کو ہ ثبیر کو اپنی جگہ جمایا اور کوہ حرامیں عبادت کے لئے چڑھنے اوراترنے والے سے ۔اور اللہ تعالی کے سچے گھر کی قسم اور اللہ کی قسم ، بیشک اللہ تعالی بخبر نہیں۔ اللہ کے گھر قسم . اے کافرو . تم جھوٹے ہوا س گمان میں کہ ہم محمد (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم )کو چھوڑ دیں گے ۔ حالانکہ ابھی ہم نے حضور علیہ السلام کے گر دنیز و ں اور تیروں سے جنگ نہ کی اور کیا ہم محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو تمہارے سپرد کریں گے جب تک کہ اپنے بیٹوں او ر بیویوں سے غافل نہ ہوجائیں ۔ مجھے اپنی جان کی قسم . مجھے محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے شدید محبت ہے اور میں انہیں ایسا چاہتا ہوں جس طر ح پیہم چاہنے والے کی عادت ہوتی ہے۔ جب فیصلہ کرنے والے مقابلے کے وقت کسی کو ان پر قیاس کریں تو ان جیسا لوگو ں میں کون ہے جس کے لئے یہ امید ہو کہ وہ ان کاہم پلہ ہوگا۔ حلم والے رشد والے ، عقل والے ، طیش والے نہیں وہ بیوقوف وبے قدر سے محبت رکھتے ہیں جوان سے غافل نہیں۔ تو خدا کی قسم اگر اس کا اندیشہ نہ ہوتا کہ میں ایسا کام کرو ں جو ہمارے بزرگو ں پر محافل میں ملامت کا سبب بنے ۔ تو ہم نے زمانہ کی ہر حالت میں ان کی پیروی کی ہوتی تو یہ با ت سنجیدگی سے بے مذاق کے کہتا ہوں ۔تو احمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہمارے اندر ایسے عالی نسب ہیں جس کو فخرکرنے والے کی محبت پانے سے عاجز ہے۔ میں نے اپنی جان کو ان کے سپر د کردیا او ر ان کی حمایت کی اور سرداروں اور گر وہوں کے ذریعہ (یا سروں او رسینوں کے ذریعہ ) دشمنوں سے حضور کا بچا ؤ کیا ۔
(۱ السیرۃ النبویۃ سید احمد زینی دحلان باب وفاۃ عبدالمطلب المکتبۃ الاسلامیہ بیروت ۱/۸۳)
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام شعرابی طالب فی استعطاف قریش دار ابن کثیر بیروت الجزء الاول والثانی ص۲۸۰ تا ۲۷۲)
ولقد کان یتبرک بالنبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ویتوسل بہ الی اللہ تعالی فی الدعاء کما ید ل علیہ ماروی العلماء من سنۃ قریش وحدیث الاستسقا۲ وقد حث الناس علی اتباعہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم واخبر عن امور لم تقع فصدق سبحنہ وتعالی ظنہ ووقع کمثل اخبار ہ فوقع ولقد لہ موقع عظیم فی قلب النبی الکریم علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم حتی انہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لما جاء ہ اعرابی فقال یا رسول اللہ اتیناک وما لنا صبی یفط ولا بعیر یئط وانشد ابیاتا فقام صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یجر رداء ہ حتی صعد المنبر ورفع یدیہ الی السماء فواللہ ماردیدیہ بکریمتین حتی التقت السماء بابر اقہا وجاءوا یضجون الغر ق ، فضحک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم حتی بدت نواجذہ وتذکر قول ابی طالب فی مدحہ حیث یقول
اوبیض یستسقی الغمام بوجہہ ثمال الیتامی عصمۃ للارامل۱ ولقد کان یتبرک بالنبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ویتوسل بہ الی اللہ تعالی فی الدعاء کما ید ل علیہ ماروی العلماء من سنۃ قریش وحدیث الاستسقا۲ وقد حث الناس علی اتباعہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم واخبر عن امور لم تقع فصدق سبحنہ وتعالی ظنہ ووقع کمثل اخبار ہ فوقع ولقد لہ موقع عظیم فی قلب النبی الکریم علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم حتی انہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لما جاء ہ اعرابی فقال یا رسول اللہ اتیناک وما لنا صبی یفط ولا بعیر یئط وانشد ابیاتا فقام صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یجر رداء ہ حتی صعد المنبر ورفع یدیہ الی السماء فواللہ ماردیدیہ بکریمتین حتی التقت السماء بابر اقہا وجاءوا یضجون الغر ق ، فضحک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم حتی بدت نواجذہ وتذکر قول ابی طالب فی مدحہ حیث یقول
اوبیض یستسقی الغمام بوجہہ ثمال الیتامی عصمۃ للارامل۱
فقال للہ در ابی طالب لوکان حیالقرت عیناہ من ینشد نا قولہ ، فقال علی کرم اللہ تعالی وجہہ یا رسول کانک ترید قولہ وابیض یستسقی ، و ذکر ابیاتا فقال صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اجل کما اخر جہ البیہقی فی دلائل النبوۃ ۱ عن سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ فانظر الی قولہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ” للہ در ابی طالب” وقولہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم “لوکان حیا لقرت عینا ہ” وقولہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم من ینشد نا قولہ” ولم ینقل عنہ مرۃ انہ رد علی النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وکذبہ فیہ بل ھو القائل فی تلک القصیدۃ مخاطبا لقریش
لقد علموا ان ابننا لامکذب لدینا ولایعنی بقول الاباطل ۲ اور نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے برکت طلب کرتے اور دعا میں آنجناب علیہ الصلوۃ والسلام کو وسیلہ بناتے چنانچہ اس پر قریش کی قحط سالی اور سرکار علیہ الصلوۃ والسلام کے وسیلہ سے بارش طلب کرنے کا واقعہ جسے علماء نے روایت فرمایا ہے دلالت کرتا ہے اور بے شک ابو طالب نے لوگو ں کو سرکار علیہ الصلاۃ والسلام کی اتباع پر ابھارا اور ان باتوں کی خبر دی جو واقع نہ ہوئی تھیں تو ایسا ہی ہوا جیسا انہوں نے خبر دی اور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کے دل میں ان کے لئے مقام عظیم تھا یہاں تک کہ جب سرکار علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں ایک اعرابی نے آکرعرض کی کہ ہم سرکار کے پاس آئے ہیں اور حال یہ ہے کہ ضعف سے ہمارے بچوں کی آواز نہیں نکلتی اور ہمارے اونٹ لاغری سے کراہتے نہیں اور اس اعرابی نے سرکار کی مدح میں کچھ اشعار پڑھے تو سرکار علیہ الصلاۃ والسلام چادر اقدس کو گھیسٹتے ہوئے اٹھے اور منبر پر صعود فرمایا اور آسمان کی جانب اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے تو خدا کی قسم ابھی سرکار علیہ الصلوۃوالسلام نے اپنے ہاتھ نیچے نہ کئے تھے کہ آسمان بجلیوں سے بھر گیا اور اس قدر بارش ہوئی کہ لوگ پکارتے ہوئے آئے کہ ہم ڈوبے ، تو سرکار علیہ الصلوۃ والسلام نے تبسم فرمایا یہاں تک کہ دندان اقدس چمکے اور آپ کو اپنی تعریف میں ابوطالب کا قول یاد آیاجب انہوں نے عرض کیا تھا کہ
سرکار گورے ہیں جن کے چہرے سے بارش طلب کی جاتی ہے جو یتیموں کی ٹیک اور بیواؤں کا سہارا ہیں۔
پھرسرکار علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا : اللہ کے لئے ابو طالب کی خوبی ہے اگر وہ زندہ ہوتے تو ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتیں کون ہمیں ان کے شعر سنائے گا ۔ تو حضرت علی کرم اللہ تعالی وجہہ نے عرض کیا گویا سرکار کی مراد ان کا وہ قصیدہ ہے جسمیں انہوں نے عرض کی ” وہ گورے رنگ والے جن کے چہرے کے ذریعہ بارش طلب کی جاتی ہے۔ اور سید نا علی کرم اللہ تعالی وجہہ نے چند شعر پڑھے تو سرکار علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: ہاں میں یہی چاہتا تھا ۔جیسا کہ بیہقی نے دلائل النبوۃ میں سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا تو سرکار ابد قرار علیہ الصلوۃ والسلام کے قول ”للہ در ابی طالب ”(اللہ کےلئے ابوطالب کی خوبی ہے) کو دیکھو او رحضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے اس فرمان کو دیکھو کہ اگر ابوطالب زندہ ہوتے تو ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتیں، اور حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے اس ارشاد پر نظر کر و کہ ہمیں کون ابوطالب کے شعر سنائے گا ۔ اور ایک بار بھی منقول نہ ہوا کہ ابو طالب نے سرکار کی کسی بات کو رد کیا ہو یا سر کار کو جھٹلایاہو، بلکہ خود اسی قصید ہ میں قریش سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ خدا کی قسم لوگ جانتے ہیں کہ ہمارا فرزند ہمارے نزدیک ایسا نہیں کہ جھٹلایا جائے اور نہ اسے جھوٹی باتوں سے کام ہے ۔
(۲صحیح البخاری ابواب الاستسقاء باب سوال الناس الامام الاستسقاء قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۳۷)
(۱ صحیح البخاری ، ابواب استسقاء باب سوال الناس الامام الاستسقاء اذا قحطواقدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۳۷)
(دلائل النبوۃ للبیہقی باب الاستسقاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم دار الکتب العلمیہ بیروت ۶/ ۱۴۱)
(۱دلائل النبوۃ للبیہقی باب استسقاء النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم الخ دار الکتب العلمیۃ بیروت ۶/ ۱۴۱)
(۲ السیرۃ النبویۃ لسید احمد زینی دحلان باب وفاۃ عبد المطلب المکتبۃ الاسلامیۃ بیروت ۱/۸۳)
ولذا کان اھون اھل النار عذابا کما فی الصحاح و نفعتہ شفاعۃ الشفیع المرتجی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم حتی اخرج الی ضحضاح۱ علی خلاف من سائر الکافرین الذین لاتنفعہم شفاعۃ الشافعین ، ویالیتہ لواسلم لکان من افضل اصحاب النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ولکن قضاء اللہ لایرد وحکمہ الایعقب وللہ الحجۃ السامیۃ ولاحول ولاحوۃ الا باللہ العزیز الحکیم وقد فصلنا المسئلۃ فی بعض فتاونا واظہر نا بطلان قول من قال باسلامہ واذا کان ذلک ظہر ان الحصر فی الشقی المکذب ایضا غیر مستقیم الی ھذا اشار القاضی الامام حیث قال لایمکن اجراء ھذہ الایۃ علی ظاہر ھا ، ویدل علی ذلک ثلثۃ اوجہ ۔ اور اسی وجہ سے ابوطالب پر تمام دوزخیوں سے ہلکا عذاب ہے جیسا کہ صحیح حدیثوں میں وارد ہوا اور شفیع مرتجی (امید گاہ عاصیاں)صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شفاعت نے انہیں نے نفع دیا تو ان پر تخفیف کے لئے انہیں جہنم کے بالائی سرے پر رکھ دیا گیا اور یہ معاملہ ان کے ساتھ سارے کافرو ں کے بر خلاف ہے جنہیں شفیعوں کی شفاعت کام نہ دے گی اور کاش وہ ایمان لاتے تو نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے افضل صحابہ سے ہوتے ۔ لیکن اللہ کا لکھا نہیں ٹلتا او ر اس کاحکم نہیں بدلتا اور اللہ ہی کے لئے حجت بلند اور معصیت سے پھرنے کی قوت اورطاعت کی طاقت اللہ عزوجل حکیم کے دئےبغیر نہیں ، اور ہم نے اس مسئلہ کو اپنے بعض فتاوی میں تفصیل سے بیان کیا اور ابوطالب کے اسلام کے قائل کی رائے کا بطلان ظاہر کیا ہے اور جب یہ با ت یوں ہے تو ظاہر ہوا کہ حصر شقی مکذب (جھٹلانے والے) میں بھی درست نہیں اسی طرف امام ابوبکر نے اشارہ کیا چنانچہ انہوں نے فرمایا کہ اس آیت کو اس کے ظاہری معنی پر جاری کرنا ممکن نہیں اور اس پر تین و جوہ دلالت کرتی ہیں۔
(۱ صحیح البخاری کتاب المناقب باب قصہ ابی طالب قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۵۴۸)
احدھا انہ یقتضی ان لایدخل النار ”الا الاشقی الذی کذب وتولی”فوجب فی الکافر الذی لم یکذب و لم یتول ان لایدخل النار ۱ الخ۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ حصر اس کا مقتضی ہے کہ جہنم میں وہی کافر جائے گا جو سب سے بڑا بد بخت ہو جس نے نبی علیہ السلام والسلام کی تکذیب کی ہو اور ان کی سچائی کے دلائل میں نظر سے اعراض کرتا ہو، تولازم آیا کہ وہ کافر جس سے تکذیب واعراض سر زد نہ ہو (جیسے ابو طالب )جہنم میں نہ جائے۔
(۱ مفاتیح الغیب التفسیر الکبیرتحت الایۃ ۹۲/۱۵۔۱۶المطبعۃ البہیۃ المصر یۃ مصر ۳۱/ ۲۰۳)
قلت وبما قررنا المقال بان لک انخساف ماقال الرازی متعقبا للامام القاضی ان کل کافر لابد و ان یکون مکذبا للنبی فی دعواہ ویکون متولیا عن النظر فی دلالۃ صدق ذلک النبی ۲ الخ وظہر ایضا ان ھذ التاویل الذی ارتضاہ کثیر من المتاخرین ولایسد خلۃ ولا یشقی غلۃ وعلیک بتلطیف القریحۃ۔ میں کہتا ہوں جس طور پر اپنے مقالہ کی تکذیب کی اس سے امام رازی کے اس قول کا ضعف ظاہر ہوگیا جو انہوں نے امام قاضی پر بطور اعتراض کیا ہے کہ ہر کافر کا نبی کو اس کے دعوی میں جھٹلانا ضروری ہے اور اس نبی کے دلائل صدق میں نظر سے روگردانی اسے لازم ہے ، اور یہ بھی ظاہر ہوا کہ یہ تاویل جسے بہت سے متاخرین نے پسند کیا کوئی حاجت پوری نہیں کرتی نہ تشنگی کو اکساتی بھجاتی ہے اور تم لطافت طبع کو لازم پکڑو۔
(۲ مفاتیح الغیب التفسیر الکبیرتحت الایۃ ۹۲/ ۱۵۔۱۶ المطبعۃ البہیۃ المصر یۃ مصر ۳۱/ ۲۰۴)
وزعم ثانیا ان ایۃ الاتقی ایضا تفتقرالی التاویل لقرینتہا فارتکب ماکان فی مندوحۃ عنہ کما حققنا ۔ اور ثانیااسے گمان کیا کہ وہ آیت جو اتقی کے بارے میں ہے وہ بھی اپنے ساتھ والی آیت کی طرح محتاج تاویل ہے ، تو اس کا ارتکاب کیا جس سے وہ بے نیاز تھے جیسا کہ ہم نے تحقیق کی۔
وزعم ثالثا ان تاویل الاتقی بالتقی مما یفیدہ ویغنی زعما منہ ان غیر التقی المذکورفی الایۃ لایجنب النار۔ اور ثالثاگمان کیا کہ اس کا اتقی کو تقی کی طرف مؤول کرنااسے فائد ہ دے گا اور غنابخشے گا اس گمان کی بنا پر کہ اس کے نز د یک آیت میں مذکور تقی کے سواکوئی آتش دوزخ سے نہ بچایاجائے گا ۔
اقول ولا یرد علیہ ماسیظن ان این رحمۃ اللہ تعالی علیہ العصاۃ وقد اذنت نصوص قواطع ان کثیر ا من الفجار والمثقلین بالاوزار و الہالکین علی الاصرار لا یسمعون حسیس النار بمحض رحمۃ العزیز الغفار وفیض شفاعۃ الشفیع المختار صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ، اذا التقوی درجات وفنون اولہا اتقاء الکفر وھذا یستوی فیہ المؤمنون وقد افصح ابوعبیدۃ عن مرادہ اذقال الاتقی بمعنی التقی وھوالمؤمن۱انتہی۔ میں کہتاہوں اور اس پروہ سوال وارد نہیں ہوتا جس کا عنقریب وہ گمان کریگا کہ پھر اللہ تعالی کی رحمت گنہگاروں پر کہاں گئی حالانکہ قطعی دلیلیں بتاچکیں کہ بہت سے بد عمل اور گناہوں سے بوجھل اور مرتے دم تک گناہوں کے عادی محض رحمت عزیز غفار اور شفیع مختار صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شفاعت کے سبب آتش دوزخ کی بھنک تک نہ سنیں گے اس لئے کہ تقوی کے درجات و اقسام میں ان کا پہلا درجہ کفر سے بچنا ہے جس مومن برابر ہیں اور ابو عبیدہ نے اپنی مراد ظاہر کردی کہ اس نے کہا اتقی بمعنی تقی کے ہے اور تقی مومن ہے اھ۔
(۱ مدارک التنزیل التفسیر النسفی بحوالہ ابی عبیدہ تحت الایۃ ۹۲/ ۱۷ دار الکتاب العربی بیروت ۴/ ۳۶۳)
اقول وبہ اندفع مایترای من النقض بالصبیان والمجانین فان المراد بالتقی المؤمن والصبی ان عقل فاسلامہ معقول مقبول و الجنون ان طرء فیستصحب الایمان السالف والا فینسحب علیہما حکم الفطر ۃ الاسلامیۃ ۔ میں کہتا ہوں اس تقریر سے وہ اعتراض دفع ہوگیا جو بچو ں اور پاگلوں سے نقض کے ذریعہ اٹھتا معلوم ہوتا تھا اس لئے کہ تقی سے مراد مومن ہے اور بچہ اگر سمجھ والا ہے تو اس کا اسلام معقول اور مقبول ہے اور مجنون پر جنون اگر طاری ہے تو شرعا اس کاایمان سابق اس کے ساتھ مانا جائے گا ورنہ ان دونوں پر حکم فطرت اسلامیہ جاری (یعنی انہیں بہ حکم مسلمان جانیں گے )
لکنی اقول اولا فح ماذا تصنع بالام الداخلۃ علی الاتقی اذقد تقرر فی الاصول انہا ان لم تکن للعہد فللا ستغر اق۱ ومعلوم ان من المؤمنین من یعذب ولا یجنب ، ولاینفع ارادۃ اللزوم بالصلی اذا الکنایۃ للنار دون الصلی ولقد اغرب من تفطن لبعض من ھذا کالقاضی البیضاوی فحمل الکلام علی من یتقی الکفر و المعاصی اقول نعم الان یصح الاستغراق ولکن من للحصر المزعوم الذی یرتکب لاجلہ تاویل الاتقی ، اذمن الفجار من یجنب ولا یعذب کما ذکرنا وعلی ھذا یرد النقض ایضا بالصبی والمجنون ۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ اولا جب اتقی بعنی تقی کے ٹھہرا تو اس صورت میں اس لام کے ساتھ کیا معاملہ کروگے جو اتقی پر داخل ہے اس لئے کہ اصول میں مقرر ہوچکاہے کہ لام اگر عہد کے لئے نہ ہوگا تو استغراق کے لئے ہوگا ۔ اور یہ معلوم ہے کہ مومنون میں وہ ہیں جنہیں عذاب ہوگا اور وہ آتش دوزخ سے نہ بچائے گے او ریہ مفید نہیں کہ یصلی سے بجائے آگ میں جانے کے آگ کا لازم ہونا مراد لیا جائے اس لئے کہ یجنبہا (اس دوزخ سے دور کیا جائیگا میں ضمیر جہنم کی آگ کی طرف لوٹتی ہے نہ کہ صلی مصد ر کی طرف (جس کامعنی آگ میں جانا ہے) اور جس کاذہن ان باتوں مین سے بعض کی طرف پہنچا اس نے عجیب وغریب کام کیا جیسے قاضی بیضاوی ، تو انہوں نے کلام کو اس پر محمول کیا جو کفر اور گناہوں سے بچے لیکن اس حصر مزعوم کا مدد گار کون جس کی وجہ سے اتقی کی تاویل کا ارتکاب کیا جاتا ہے ، اس لئے کہ فاجروں میں وہ بھی ہے جو دوزخ کی آگ سے دور رہے گا اور اسے عذاب نہ ہوگا )
(۱التو ضیح والتلویح نورانی کتب خانہ پشاور ص۱۳۶)
واقول ثانیا اغمضنا ھذا کلہ وترکناکم وشانکم فاذھبوا بالکلام الی ما تشتہیہ انفسکم الا انکم اغفلتم الصفۃ ھہنا ایضا غفولکم عنہافی “الاشقی الذی کذب وتولی۱
فان اللہ سبحنہ وتعالی لم یرسل الاتقی ارسالا بل خصہ بالذی یؤتی مالہ یتزکی۲
ومعلوم ان التقی الفقیر لا مال لہ وانہ مجنب عن النار لاشک ، فان کان الکلام علی الحصر کما زعمتم فالحصر لم یستقیم بعد والا فما ذا یلجئکم الی التاویل والعدول عن ظاہر التنزیل ، عن ھذا نقول ان الوجہ ترک التکلف وصون اللفظین لاسیما الاتقی عن التغییر و التصرف لانعدام الحاجۃ فی احدی الآیتین و اندفاعہا بطریق اسلم فی الاخری کما یفیدہ الوجہان اللذان ذکرھما القاضی الامام مع ماشاھد نا ان التاویل یراد ولا مفاد ویقاد ولا ینقاد بید انی مایدر ینی لعل الجدال یوری نارا موقدۃ تطلع علی الافئد ۃ فیقوم قائل ان وجہی القاضی ایضا یعکرعلیہا بشی فلامناص من تشدید الارکان وتجدید الارصان علی حسب الامکان۔ اور ثانیا میں کہتاہوں کہ ہم نے ان تمام باتوں سے آنکھ میچی اور آپ کو آپ کے حال پر چھوڑا تو کلام کو جدھر چاہئے لے جائے مگر آپ لوگ یہاں بھی صفت سے غافل رہے جس طر ح اشقی(جس نے جھٹلایا اور منہ موڑا )کےمعاملہ میں آپ نے صفت سے غفلت کی اس لئے کہ اللہ تعالی نے اتقی کو مطلع نہ رکھا بلکہ اسے اس کے ساتھ خاص کیا جو اپنا مال ستھراہونے کو راہ خدا میں دے اور یہ معلوم ہے کہ تقی فقیر کے پاس مال نہیں ہے حالانکہ وہ آتش دوزخ سے بے شک دور رہے گا ۔ تو اگر کلام بر سبیل حصر ہے جیسا کہ آپ لوگو ں کا زعم ہے تو حصر تواب بھی درست نہیں ہوااور اگر حصر پر بناء نہیں تو آپ کو تاویل اور ظاہر تنزیل سے عدول کی طرف کون سی چیز مضطرکرتی ہے اسی سبب سے ہم کہتے ہیں کہ صحیح طریقہ یہی ہے کہ تکلف چھوڑا جائے اور دونوں لفظوں خصوصا اتقی کو تصرف وتغیر سے محفوظ رکھیں اس لئے کہ ایک آیت میں تاویل کی حاجت نہیں اور دوسری میں مسلک اسلم سے حاجت مند فع ہوجاتی ہے جیسا کہ ان دو وجہوں نے افادہ کیا جو قاضی امام نے ذکر فرمائیں باوجودیکہ ہم نے مشاہد ہ کیا ہے کہ تاویل مراد ہوتی ہے حالانکہ کوئی مفاد نہیں ہوتا اور وہ کھینچی جاتی ہے جبکہ وہ نہیں کھنچتی ۔ لیکن میں کیا جانوں شاید بحث روشن آگ کو بھڑ کائے جو دلوں پر چمکیں تو کوئی قائل کھڑا ہوجائے اور کہے کہ قاضی کی مذکورہ دووجہوں پر بھی کچھ غبار ہے لہذا ارکان کو مضبوط کرنا اور اشیاء کی تجدید بقد ر امکان ضروری ہے ۔
(۱القرآن الکریم ۹۲/ ۱۶)(۲ القرآن الکریم ۹۲/ ۱۸)
فاقول وربی ولی الاحسان یستبعد علی الوجہ الاول وصف الاتقی بانہ یجنب تلک النار الکبری فان مدح اکرم القوم بانہ لیس ارذل القوم مما لا یستملح ۔ تومیں کہتا ہوں او رمیرا رب ولی نعمت ہے ، پہلی وجہ پر اتقی کا یہ وصف بیان کرنا کہ وہ بڑی آگ سے دور رکھاجائے گا مستبعد ہے اس لئے کہ قوم کے بزرگ ترین کے لئے یہ کہنا کہ وہ رذیل ترین نہیں ہے اس میں کوئی ملاحت نہیں ہے۔
اقول والمخلص الاستخدام وھو شائع فی فصیح الکلام بل عدوہ والتوریۃ اشرف انواع البدیع ، بل منہم من قدمہ فی الشرف علی الجمیع کماذکر الامام العلامۃ السیوطی۱ ومنہ فی القران العظیم قولہ تعالی ولقد خلقنا الانسان من سلا لۃ من طین ثم جعلناہ نطفۃ فی قرار مکین ۲ میں کہتا ہوں اور اس سے نجات دہندہ وہ استخدام ہے اور وہ کلام فصیح میں شائع ہے ، بلکہ علماء نے استخدام وتوریہ (ف )کو بدیع کی سب سے عمدہ قسم شمار کیا ہے بلکہ بعض علماء نے استخدام کو شرف میں تمام اقسام بدیح پر مقدم رکھا ہے جیسا کہ علامہ سیوطی علیہ الرحمۃ نے ذکر کیا ہے ، او راس قبیل سے قرآن عظیم میں اللہ تعالی کا قول ہے “اور بے شک ہم نے آدمی کو چنی ہوئی مٹی سے بنایا پھر اسے پانی کی بوند کیا ایک مضبوط ٹھہراؤمیں”
ف: توریہ ابہام کو کہتے ہیں ، اور اس کی تعریف یہ ہے کہ ایک لفظ کو لیں جس کے دو معنی ہوں ایک قریب دوسرا بعید ، اور معنی قریب سے بعید معنی کا توریہ کریں ، او ر بعید معنی مراد ہو تو معنی قریب کو موری بہ اور معنی بعید کو موری علیہ کہتے ہیں
(۱الاتقان فی علوم القرآن النور الثامن والخمسون دار الکتاب العربی بیروت ۲/ ۱۵۳)
(۲ القرآن الکریم۲۳/ ۱۲و ۱۳)
المراد بالانسان ابو نا ادم علیہ السلام وبضمیر ولدہ ، ومنہ قولہ تعالی اتی امر اللہ فلا تستعجلو ہ۱
آیت میں انسان سے مراد ہم انسانوں کے باپ آدم علیہ السلام ہیں او رضمیر سے مراد ان کی اولاد ہے او راسی قبیل سے اللہ تعالی کاقول ہے کہ ” اللہ تعالی کا حکم آیا تو اس کی جلدی نہ مچاؤ۔
(۱ القرآن الکریم ۱۶/ ۱)
المراد بامر اللہ بعثۃ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم علی احد الوجوہ فی تاویلہ اخر ج ابن مردویۃ عن ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فی قولہ تعالی اتی امر اللہ قال محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ، والمراد بالضمیر قیام الساعۃ قالہ العلامۃ السیوطی۲ نفعنا اللہ تعالی بعلومہ ، امین۔ اس آیت میں ایک وجہ پر امر اللہ سے مراد محمدصلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ ہے ۔ ابن مردویہ نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا کہ اللہ تعالی کے قول “اتی امر اللہ”میں امر اللہ سے مراد محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہیں۔ او ر ضمیر سے مرادقیامت کا قائم ہے ، یہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ تعالی علیہ نے ذکر کیا ہے اللہ تعالی ہمیں ان کے علوم سے نفع بخشے آمین ۔
(۲الاتقان فی علوم القرآن النوع الثامن والخمسون دار الکتاب العربی بیروت۲ /۱۵۴)
اقول فان قلت اذا اردتم بالنار اعظم النیران المخصوص باشقی الاشقیاء فما انذار سائر الناس عنہ قلت المعنی ان شاء اللہ تعالی ان الاشقی انمابلغ ما بلغ من کمال الشقاء وسوء الجزاء وجہد البلاء بما ثا بر علیہ من اللداد و العناد والاصرار والاستکبار فاحذروا انتم یا ایہا الناس ان لم تنیبو االی الحق ودمتم کدوامہ ان تعادلوہ فی الشقاء فتلقوا اثاما کمثل اثامہ فکانت الایۃ علی حد قولہ تعالی فان اعرضوا فقل انذرتکم صاعقۃ مثل صاعقۃ عاد و ثمود ۱
فانہم انما اصابہم ما اصابہم لمثل ھذا الاعراض فماذا یؤمنکم ان مضیتم علی دابہم ان تعذبوا بعذابہم وحصل الانذار بانہ تعالی اخبر ان ھناک عدوا اشقی من یوجد ولہ جزاء اسوء مایکون والناس غیر دارین انہ من ھو ، ولم یذکر اللہ تعالی من صفاتہ الاالتکذیب و التولی ، فحق ان تنقطع قلب کل مکذب وینفلق کبد کل متول خوفا وفرقا ان یکون ھو ھو فمن ھذا الوجہ جاء الانذار لسائر الناس فاتقنہ فانہ من احسن السوانح بتو فیق الملک العلیم الفاتح جل جلالہ وھذا الکلام یجری بعضہ فی الوجہ الثانی ایضا لکن ھنا دقیقۃ غامضۃ وھی ان امثال ھذا الحصر الادعا ئی انما تناسب المقام اذا کان سوق الکلام لذم ھذاالاشقی الملام ، فکانہ قیل انہ بلغ من الشقاء مبلغا تضمحل دونہ سائرالشقاوات فکانہ لایلج النار الاھو،اما اذا سیق مساق الانذارلجمیع الکفارأوقصد ذٰلک ایضًامع قصد الذم فلعلہ لایستحسن حینئذ حصرالعقاب فی رجل واحد، میں کہتا ہوں اب اگر تم کہو جبکہ آپ نے آیت میں مذکور نار سے دوزخ کی سب سے بڑی آگ مراد لی جو تمام اشقیاء سے بد تر شقی کےلئے مخصوص ہے تو سب لوگو ں کو اسے ڈرانے کا کیا مقصد ہے ، تو میں کہوں گا کہ مقصد ان شاء اللہ تعالی یہ ہے کہ ہ وہ سب سے بڑا شقی کمال شقاوت اور بری جزا اور سخت بلا کے جس درجہ پر پہنچا اس کا سبب وہی کفر وعناد ہے اور ہر ناہت اور گھمنڈ ہے جس پر وہ قائم رہا تو اے لوگو ! تم ڈرو کہ اگر تم حق کو نہ مانو اور ناحق پر جمے رہو جیسا کہ وہ بڑ بدبخت جما رہا کہیں تم بد بختی میں اس کے برابر نہ جاؤ تو اس کے عذاب جیسا عذاب پاؤتویہ آیت اللہ تعالی کے قول” پھر اگر وہ منہ پھیریں تو تم فرماؤ کہ میں تمیہں ڈراتا ہوں ایک کڑک سے جیسی کڑک عاد اور ثمود پر آئی تھی ، کے طو رپر ہے اس لئے کہ عاد وثمود پر جو مصیبت اتری وہ اسی طو ر کے اعراض (روگردانی)کے سبب اتری تو تمہیں کون سی چیز بے خوف کرتی ہے ، اگر تم ان اگلوں کی عادت پر جمے رہو ان جیسا عذاب پانے سے یا سب کے لئے تنبیہ ہوگئ کہ اللہ تعالی نے بتایا کہ آخرت میں اللہ تعالی کا ایک دشمن نہایت بد بخت ہوگا اور اس کےلئے نہایت بد ترین سزا ہے اور لوگ نہیں جانتے کہ وہ کون ہے ، اور اللہ تعالی نے اس کی صفات میں سے جھٹلانے اور ،منہہ موڑنے کے سوا کچھ ذکر نہیں کیا تو بجا ہے کہ ہر جھٹلانے والے کا دل کٹ جائے اور ہر منہ موڑنے والے کا کلیجہ پھٹ جائے اس ڈر سے کہ کہیں وہ ہی نہ سب سے بڑا بد بخت ہو جس کی یہ سزا سنائی گئی تو اس وجہ سے یہ تخویف سے لوگو ں کےلئے آئی ، اس نکتہ کو یادر کھو کہ یہ بادشاہ علیم فاتح (علم والے عقدہ کھولنے والے جل جلالہ)کی تو فیق سے ایک اچھا خیال ہے اوریہ تقریرکچھ وجہ ثانی میں بھی جاری ہے ، لیکن یہاں ایک نہایت خفی نکتہ ہے اوہ یہ کہ ایسے حصرادعائی موقع کے مناسب اسی وقت ہوں گے جبکہ سیاقِ کلام اس بڑے بدبخت وقابل ملامت کی مذمت کے لئے ہو،تو گویا یوں فرمایاگیا کہ یہ شخص شقاوت کے اس درجہ تک پہنچا جس کے آگے سب شقاوتیں ہیچ ہیں تو گویا دوزخ میں اس کے سوا کوئی نہ جائے گا ، مگر جبکہ یہ کلام تمام کافروں کی تخویف کے لئے ہویا ،مذمت کے ساتھ یہ قصد بھی ہوتو شاید عذاب کو ایک شخص میں منحصربتانامستحسن نہیں
(۱ القرآن الکریم ۴۱ /۱۳)
تأمل فانہ موضعہ والعبدالضعیف لہذایجدنفسہ ارکن الی الوجہ الاول دون الثانی،وفیہ الغنیۃ وحصول المنیۃ،والحمدللہ معطی الامانی، ثم لما بلغت ھذا المقام رجعت العزیزی بعد ما استعرتہ من بعض الاعزۃ فرأیت المولٰی عبدالعزیز تجاوز اللہ تعالٰی عنا وعنہ تنبہ لہٰذاالاستبعاد الذی ذکرتہ فی الوجہ الاول وجھی القاضی وحق لہ ان یتنبہ لانہ العلم فی الذکاء والفطانۃ،ثم اجاب عنہ بجوابین:
الاول یقارب ما دنا التوفیق الیہ من القول بالاستخدام۔
والثانی ان التجنیب من تلک النارالمخصوصۃ بالکفارایضالہا عرض عریض وغآیۃ القصوی مختصۃ بالاتقی وسائرالمومنین وان کانوامجنبین لکن لاکمثلہ۱ ا نتہی معرّبًا۔ غورکروکہ یہ مقام غور ہے اوریہ بندۂ ناتواں اسی لئے خود کودوسری وجہ کے بجائے پہلی وجہ کی طرف زیادہ مائل پاتا ہے اور اسی میں بے نیازی اور مطلب کا حصو ل ہے اور اللہ تعالی کے لئے حمد ہے جو مرادیں عطافرماتاہے ، پھر میں جب اس مقام تک پہنچامیں نے تفسیر عزیزی اپنے بعض اعزہ سے عاریۃً لے کر دیکھی تو میں نے حضرت مولانا عبدالعزیزکو (اللہ تعالٰی ہمیں اورانہیں معاف فرمائے)دیکھا کہ وہ اس اعتراض کی طرف متنبہ ہوئے جو وجہ اول پر اعلٰی حضرت نے فرمایا اورانہیں متنبہ ہونا ہی چاہئے اس لئے کہ وہ ذکاوت وفطانت کا پہاڑہیں ، پھر اس کے دوجواب دیے:
پہلاتو وہی جو علماء نے اختیار فرمایا یعنی استخدام کا طریقہ۔
دوسرا یہ کہ اس نار سے دوررکھاجاناجو کافروں کے ساتھ خاص ہے اس میں بڑی وسعت ہے اور اس کی آخری حد اتقی کے لئے خاص ہے اورباقی مسلمان اگرچہ وہ بھی اس آگے سے دوررہیں گے لیکن اس کی طرح نہیں اھ۔
(۱ فتح العزیز (تفسیرعزیزی)تحت الآیۃ ۹۲/ ۱۷ مسلم بکڈپولال کنواں دہلی ص۳۰۴)
اقول الوجہ الوجہ الاول وعلیہ عندی المعول واما ماذکر من الوجہ الثانی فلیس بشیئ عندی وانکان ھو المرضی لدیہ حتی اورد الاول بصیغۃ التمریض وذٰلک لان کون التجنیب مقولا بالتشکیل مسلم فی مطلق النارالتی یمکن ان یدخلہابعض المومنین ومعنی العرض العریض فیہ کما یسبق الیہ ذھنی القاصرأن الذنوب مقتضاھا الأصلی الذی لوخلیت ھی وطبایعہا ماأقتضت الا ایاہ انما ھو اصابۃ الجزاء الذی اوعدبہ علیہاوھذاظاھر جدًّا،فکل من اذنب ذنباولو مرۃ استحق بذنبہ ھذا أن یؤاخذہ الملک جل جلالہ، ولا تقبض حسناتہ المکتاثرۃ علی العزیز االمقتدراذ نفع الحسنات انما یعودالیہ، فکیف یمن علی اللہ تعالٰی بما عملہ لنفع نفسہ، فکیف یجعلہ ذریعۃ الی ابطال منشورالجزاء عن رأسہ وقد قیل لہ بأفصح بیان ان کما تدین تدان۱ غایۃ الامران یقسم لبثہ فی الدارین علٰی مقدارلبثہ فی العملین کمًا وکیفاً، فیجوز ان تسمہ الناربما یعدل ھذا المقدار، وقد اعتقدنانحن معشر اھل السنۃ والجماعۃ رزقنا اللہ سبحٰنہ وتعالٰی حظ الرحمۃ والشفاعۃ أنہ تبارک وتعالٰی لہ ان یؤاخذعبدہ کل جریرۃ ولو صغیرۃ کما ان لہ ان یتجاوزعن کل کبیرۃ،فضل وذٰلک عدل وما اللہ بظلامٍ للعبید۔ میں کہتاہوں وجہ تو پہلی ہے اورمیرے نزدیک وہی معتمد ہے ، اورجو دوسری وجہ ذکر کی وہ میرے نزدیک کوئی چیز نہیں اگرچہ شاہ عبدالعزیزعلیہ الرحمہ کو دوسری پسند ہے کہ پہلی کو ایسے صیغہ سے ذکر کیا جس سے اس کے ضعف،کی طرف اشارہ ہوتاہے اس لئے کہ نار سے دوررہنااس کا کلی مشکک ہونا مطلق نار میں مسلم ہے جس میں بعض مومن داخل ہوسکتے ہں اورتجنیب(ناردوزخ سے دوررہنا)میں بڑی وسعت کا معنٰی جیسا کہ میرا ذہن قاصراس کی طرف سبقت کرتاہے کہ گناہوں کا وہ مقتضائے اصلی کہ اگر گناہ اپنی طبیعت کے ساتھ چھوڑ دئے جائیں تو اسی کا تقاضا کریں تو یہ ہے کہ بندہ کو وہ سزا ملے جس کی اسے گناہوں پر وعید سنائی گئی،اوریہ بہت ظاہر ہے ، تو ہر وہ شخص جس نے ایک بار بھی گناہ کیا اللہ تعالٰی کی پکڑکا مستحق ہے اوربندہ کی بکثرت نیکیاں خدائے غالب وقدیر کو مانع نہیں ہوسکتیں اس لئے کہ نیکیوں کا نفع تو بندہ ہی کو پہنچتاہے تو کیسے اللہ تعالٰی کو اپنے بھلے کے لئے کیے ہوئے کام کا احسان جتائے گا اورکیونکر اسے سزاکے دستور کوسرے سے باطل کرنے کا ذریعہ بنائے گا، حالانکہ بندہ کو خوب واضح بیان سے کہہ دیا گیا ہے کہ جیساتُو کرے گاویسا تجھے بدلہ دیا جائے گا،غایت امر یہ ہے کہ دنیا وآخرت میں بندہ کی مدت اقامت کو نیک وبد ہر دوعمل میں ٹھہرنے کی مقدار پر باعتبارقدروکیفیت تقسیم کریں توممکن ہے کہ اسے آگ اتنی مدت تک چھوئے جو اس کے مقدار عمل کے برابرہواورہم اہلسنت وجماعت (اللہ ہمیں رحمت وشفاعت سے نصیب عطا فرمائے)کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالٰی کو حق ہے کہ وہ بندے سے ہر جرم پرمواخذہ کرے اگرچہ صغیرہ ہو جس طرح کہ اس کو سزا وار ہے کہ ہرگناہ سے درگزرفرمائے اگرچہ کبیرہ ہو اوریہ اس کا فضل ہے اوروہ اس کا عدل اور اللہ بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔
(۱ کنزالعمال حدیث۴۳۰۳۲ موسسۃ الرسالہ بیروت ۱۵/ ۷۷۲)
ثم ان المولٰی جل وعلا بغٓایۃ عدلہ وضع الجزاء مشاکلاً للعمل ولذایدیم تنغیم المومن وتعذیب الکافر اذقد علم من نیتھما ومکنونات طویتہما أنھما عازمان علٰی ادامۃ ماھما من الکفر والایمان حتی لو دامو افی الدنیا لداموا علیہ الا تری الی قولہ تعالٰی”ولو ردوالعادوالما نھو اعنہ”۱ اسی لئے جنت میں مومنین کی آسائش اورجہنم میں کافر کا عذاب ہمیشہ ہوگا اس لئے کہ اللہ تعالٰی کو انکی نیت اورمخفی ارادے کا علم ہے کہ یہ دونوں اپنی اپنی حالت کفروایمان پر قائم ودائم رہنے کا عزم کئے ہوئے ہیں یہاں تک کہ اگر دنیا میں ہمیشہ رہتے اپنے حال پر ہمیشہ رہتے کیا تم اللہ کے فرمان کو نہیں دیکھتے “اوراگرواپس بھیجے جائیں تو پھر وہی کریں جس سے منع کئے گئے تھے”
(۱ القرآن الکریم ۶/ ۲۸)
ولذٰلک لما انسلخ ابوطالب عن الکفاربشراشرہ واثبت قدمیہ علٰی تلک الملۃ الخیبثۃ نجا الدیان سبحٰنہ وتعالٰی سائربدنہ من النار وسلط العذاب علٰی قدمیہ کما فی حدیث الشیخین۲ وغیرھما فقضیۃ المشاکلۃ أن من تساوت حسناتہ وسیأتہ یساوی لبثہ فی العذاب بلبثہ فی دار الثواب ومن اذنب ذنبا واحدا اذیق اثامہ ومن الم بسیئۃ ثم انقلع عنہا فجزاء ہ المشاکل ان یدنی الی النار ثم یبعدعنہا لیذوق من الفزع والغم قدر ماذاق من اللذۃ فی اللمم ھذا حکم العدل وحکم العدل ھو الاصل لکن المولی الجواد الکریم الذی “کتب علی نفسہ الرحمۃ”۱ وجعل لھا السبقۃ علی الغضب منۃ ونعمۃ تشفع الیہ شفیعان رفیعان وجیہان حبیبان لایردان ولا یخیبان رحمتہ الکاملۃ العامۃ الشاملۃ وھذا النبی الکریم المبعوث من الحرم بفیض الجود والکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وبارک وسلم فوعد بالطاف جمیلۃ ورحمات جلیلۃ فضلامن لدیہ من دون وجوب علیہ، وحاشاہ أن یجب علیہ شیئ”وھو یجیر ولا یجارعلیہ”۲ وبشر ان الحسنات یذھبن السیئات”۳ “وان اللمم معفوعنا ان شاء اللہ تعالٰی”ان ربک واسع المغفرۃ”۴ وان اللہ تجاوزلنا عما ھمت بہ انفسنا مالم نعمل اونتکلم وأن من تعادلت کفتاہ لم یدخل النار وان لا یھلک علی اللہ الماردمتمرد وھذا کلہ تفضل وتکرم من المولی الحی جلت اٰلاہ وتوالت نعماؤہ ولہ الحمد کما یحب ویرضی ۔ اورجب ابوطالب کفار سے تمام وکمال جدا ہوئے اوراپنے قدم اس خبیث ملت پر جمائے رکھے جزادینے والے رب سبحٰنہ وتعالٰی نے ان کے سارے بدن کو نار سے نجات دی اورعذاب کو ان کے قدموں پر مسلط فرمادیا جیسا کہ بخاری ومسلم وغیرہ کی حدیث میں ہے تو عمل وجزا میں مشاکلت کامقتضٰی یہ ہے کہ جس کی نیکیاں اوربرائیاں برابرہوں اس کا عذاب میں رہنا ثواب کے گھر میں رہنے کے برابرہوا، جو ایک گناہ کرے وہ اس کا عذاب چکھے اور جو برائی کے قریب جائے پھر اس سے جدارہے تو اس کی جزامشابہ عمل یہ ہے کہ وہ نار کے قریب کیاجائے پھر اس سے دور رکھاجائے تاکہ غم اورگھبراہٹ کا مزہ ارادۂ گناہ میں لذت کے بمقدارچکھے،یہ حکم عدل ہے اورحکم عدل ہی اصل ہے ، لیکن جُودوکرم والے مولٰی نے اپنے اوپر رحمت کولازم فرمایا اور اس کے لئے غضب پر سبقت رکھی اپنے کرم واحسان سے اس سے سفارش کی جورفعت وجاہت والے وپیارے شفیعوں نے جو نہ پھیرے جائیں نہ محروم ہوں ایک اللہ تعالٰی کی رحمتِ تمام وعام اوردوسرے یہ نبی کریم جو حرم سے فیض جودوکرم کے ساتھ مبعوث ہوئے تو اللہ تعالٰی نے جمیل مہربانیوں اورجلیل رحمتوں کا وعدہ فرمایا محض اپنے فضل سے نہ اس سببسے کہ اس پرکچھ واجب ہے اوروہ اس سے منزہ ہے کہ اس پرکچھ واجب ہوحالانکہ وہی پناہ دیتاہے اوراس کے خلاف کوئی پناہ نہیں دے سکتا۔ اوراس نے خوشخبری دی کہ نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں اوریہ کہ لمم (ارادہ گناہ) پر ہمیں معافی دے دی گئی بے شک تمہارے رب کی مغفرت وسیع ہے اوربیشک اللہ تعالٰی ان باتوں سے درگزر فرماتاہے جن کا ارادہ ہماے نفوس کرتے ہیں جب تک انکو انجام نہ دیں یا انہیں نہ بولیں اورجس کے دونوں پلے برابرہوں گے وہ نار میں نہ جائے گا ۔ اوریہ کہ اللہ تعالٰی کے یہاں صرف نہایت سرکش نرانافرمان ہی ہلاک ہوگا (یعنی کافر)اویہ سب مولائے غنی کریم کا فضل وکرم ہے۔اس کی نعمتیں جلیل ہیں اوراس کے احسان پیہم ہیں ، اور اسی کے لیے حمد ہے ۔ جیسی وہ چاہے اورپسند فرمائے ،
(۲صحیح البخاری کتاب المناقب باب قصہ ابی طالب قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۵۴۸)
(صحیح مسلم کتاب الایمان باب شفاعۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم لابی طالب قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۱۵)
(۱ القرآن الکریم ۶/ ۱۲)(۲القرآن الکریم ۲۳/ ۸۸)(۳ القرآن الکریم ۱۱/ ۱۱۵) (۴ القرآن الکریم ۵۱/ ۳۲)
فکل من اذنب او الم ثم جنبہ المولی النار فانما جنبہ علی استحقاق منہ لجزاء ماعملہ کما قال تبارک وتعالٰی “ان ربک لذومغفرۃ للناس علی ظلمھم،”۱ بل لامعنی للمغفرۃ الا تجاوزصاحب الحق عن استیفاء حقہ کلاً اوبعضًا فھذا تجنیب بعد تقریب وأنجاء بعد الجاء مع مافیہ ایضامن تفاوت الرتب کمالایخفی، اما الذی بلغ من التقوٰی غایتہ القصوی حتی تنزہ عن کل مایکرہ وفنی عن الخلق وبقی بالحق وارتفع شانہ عن اتیان عصیان ونظر بالرضی الٰی مایبغض الرحمٰن ، فہذا محال ان یکون من النارفی شیئ أو النارمنہ فی شئی لاسیما اتقی الاتقیاء وأصفی الاصفیاء الذی لم یزل من الحق بعین الرضا فی جمیع احوالہ، ولم یسوء النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فعلۃ من افعالہ ، فذاک العبدذاک العبد کلت الالسن عن شرح کمالہ وتاھت العقول فی تیہ جلالہ جالت وعالت، فبقیت تکبو ثم رجعت فسئلت فقالت ھو ھو، تو ہر وہ شخص جس نے گناہ کیا یا گناہ کے پاس جاکر رُک گیا پھر اللہ تعالٰی نے اسے نار سے دوررکھا تو اسے اس کے استحقاق کی جہت سے اس کے عمل کی جزا دینے کو دور رکھا چنانچہ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ “بے شک اللہ تعالٰی لوگوں کو بخشنے والا ہے انکے ظلم کے باوجود”بلکہ مغفرت کا معنی یہی ہے کہ صاحب حق اپنے حق کو لینےسے کلی یا جزوی طور پر درگزر کرے تو یہ نار سے قریب کر کے اس سے دوررکھنا ہے اورنار کی طرف لیجا کر اس سے بچاناہے اس کے باوجود اس میں رتبوں کا تفاوت ہے جیسا کہ پوشیدہ نہیں مگر جو تقوٰی کی سب سے آخری حد تک پہنچ گیا، یہاں تک کہ کہ ہر ناپسندیدہ بات سے دور رہا اورخلق سے فانی اورحق پر باقی ہوگیا اوراس کی شان معصیت کے ارتکاب سے اوررحمٰن کے مبغوض کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھنےسے بلند ہوگئی تو محال ہے کہ ایسے شخص کو نار سے علاقہ ہویا نارکو اس سے کوئی تعلق ہو خصوصاًوہ متقیوں کا متقی اورسارے اصفیاء سے زیادہ صاف باطن جس کے تما م احوال پرحق کی چشم رضا رہی، اورنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو جس کا کوئی کام بُرا نہ لگا تو یہی وہ خدا کا بندہ ہے یہی وہ خاص بندہ ہے زبانیں جس کے کمال کو بیان کرنے سے عاجز ہیں جس کی عظمت کے صحرا میں عقلیں گم ہیں اس میں عقلیں دوڑیں اورگھومتی پھریں،پھر گرتی پڑتی رہیں پھر لوٹیں تو ان سے پوچھاتو بولیں وہی وہ ہے ،
(۱ القرآن الکریم ۱۳/ ۶)
فغایۃ القول فیہ أنہ أولی العباد وأول المراد بقول الجواد”ان الذین سبقت لھم منا الحسنٰی اولٰئک عنہا مبعدون لایسمعون حسیسہا وھم فی ما اشتھت انفسھم خالدون لایحزنھم الفزع الاکبر وتتلقٰھم الملٰئکۃ ھذا یوم کم الذی کنتم توعدون” ۱ ھذا معنی العرض العریض للتجنبی من مطلق النار علٰی حسب مایطیقہ البیان، ولا یتاتی مثلہ فی النار المخصوصۃ بالکفاراذ انما ھی جزاء الکفر والمؤمنون کلھم متساوون فی التباعد عنہ اذ الکفر والایمان لایزید ان ولا ینقصان والمسئلۃ اجماعیۃ والنزاع لفظی فوجب ان یتساووافی البُعد عن جزاء الکفر ایضاً ، تو اس خاص بندہ کے بارے میں آخری بات یہ ہے کہ وہ سارے بندوں سے اولٰی اورخدائے جواد کے قول”بیشک وہ جن کے لئے ہمارا وعدہ بھلائی کا ہوچکا وہ جہنم سے دور رکھے گئے ہیں وہ اس کی بھنک نہ سنیں گے اوروہ اپنی من مانی خواہشوں میں ہمیشہ رہیں گے انہیں غم میں نہ ڈالے گی وہ سب سے بڑی گھبراہٹ اورفرشتے ان کی پیشوائی کو آئیں گے کہ یہ ہے تماہرا وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا”کی پہلی مرا دہے ، مطلق نار سے دوررکھنے میں جو بڑی وسعت ہے اس کا مقدوربیان کے مطابق یہ معنی ہے اورایسی بات اس نار کے بارے میں نہیں بنتی جو کفار کے ساتھ مخصوص ہے وہ تو کفر کی سزا ہے اورتمام مسلمان اس نار سے دور رہنے میں برابر ہیں اس لئے کہ کفر وایمان یہ دونوں وصف گھٹتے بڑھتے نہیں ہیں اور یہ مسئلہ(کفروایمان کا کم زیادہ نہ ہونا)اجتماعی ہے اوراختلاف لفظی ہے تو ضرری ہے کہ مسلمان کفر کی سزا سے دور رہنے میں بھی برابرہوں۔
(۱القرآن الکریم ۲۱/ ۱۰۱تا۱۰۳)
واما قولہ تبارک وتعالٰی “ھم للکفر یومئذٍ اقرب منھم للایمان”۱فھٰذابالنظر الی الظاھر اذ الاٰیۃ فی المنافقین لقولہ تعالٰی “یقولون بافواھھم مالیس فی قلوبھم واللہ اعلم بما یکتمون”۲ یعنی أنھم کانوا یتظاھرون بالایمان فیظن الجاھل بما فی السرائرا نھم مؤمنون ،لما کانوا یتباعدون بالسنھم عن الکفر ثم لما انخزلواعن عسکر المؤمنین وقالوا”لو نعلم قتالالاتبعناکم”۳ تخرق الحجاب وغلب علی الظنون انھم لیسوابمؤمنین مع تجویز ان یکون ھذا القول منھم تکاسلاً واخلادًا الٰی ارض الدعۃ،فھذامعنی القرب والبعد اوالمراد بالکفر والایمان اھلوھمااذتقلیلھم سوادالمومنین بالانعزال عنہم تقویۃ للمشرکین کذا قال المفسرون ھذا ماعندی، واللہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔ رہا اللہ تعالٰی کا قول”اس دن وہ ظاہری ایمان کی بہ نسبت کہیں کفر سے زیادہ قریب ہیں”تو یہ باعتبارظاہر کے ہے اسلئے کہ آیت منافقین کے بارے میں ہے اس وجہ سے کہ اللہ تعالٰی نے ان کے بارےمیں فرمایا: “اپنے منہ سے کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں اور اللہ کو معلوم ہے جو چھپا رہے ہیں۔”مطلب یہ ہے کہ منافقین ظاہری طور پر ایمان والے بنتے تھے تو ان کے دلوں میں چھپی بات سے بے خبر یہ گمان کرتا تھا کہ وہ مسلما ن چونکہ منافقین کفر سے دور ی ظاہر کرتے تھے پھر جب وہ مسلمانوں کے لشکر سے جداہوگئے اور بولے کہ”اگرہم لڑائی ہوتی جانتے توضرورتمہاراساتھ دیتے۔”ان کا پردہ فاش ہوگیا اورگمانوں پر غالب ہوگیا کہ یہ لوگ مسلمان نہیں اس احتمال کے ساتھ کہ منافقوں کی یہ بات سُستی اورآسائش کی زمین پکڑنے کی وجہ سے ہوتوقُرب اوربُعد کا یہ معنٰی ہے یا کفر وایمان سے مراد صاحبان کفر وایمان ہیں اس لئے کہ منافقوں کا مسلمان کے گروہ کو کم کرنا مسلمانوں کے لشکر سے جداہوکر مشرکوں کو تقویت دیناہے ایسا ہے مفسرین نے فرمایا ہے ، یہ ہے وہ جو میری رائے ہے، واللہ تعالٰی اعلم۔
(۱ القرآن الکریم ۳/ ۱۶۷)(۲القرآن الکریم ۳/ ۱۶۷)(۳ القرآن الکریم۳/ ۱۶۷)
وبالجملۃ فھبت نسائم التحقیق علی ان الوجہ ابقاء اللفظین علی ظاھر ھما، وانما تحتاج الی امرین لایعد شیئ منہما تکلفاًولاتغیرًا۔ خلاصہ یہ کہ اب تحقیق کی ہوائیں چلیں اس پرکہ وجہ تو یہی ہے کہ دونوں لفظوں کو انکے ظاہر پر رکھا جائے اورتمھیں حاجت صرف دو امر کی ہوگی اوران میں سے کوئی نہ تکلف کے شما ر میں ہے نہ تغیر کی گنتی میں۔
الاول ان تنکیرنارًاللتعظیم وھو کما تری شائع فی الکلام الفصیح قرانا وقدیما وحدیثا واخذ التلظی بمعنی اشد مایکون حملا للمطلق علی فردہ الکامل وھو ایضا منتشر مستطیر۔ پہلی بات یہ کہ یہاں “ناراً”نکرہ تعظیم کے لیے ہے اوریہ اسلوب جیسا کہ تم جانتے ہوقرآن وحدیث اورقدیم وجدید کلام فصیح میں شائع ہے اورتلظی (آگ کی بھڑک)مطلق کو فرد کامل پر محمول کرتے ہوئے سخت ترین بھڑکنے کے معنی میں لیاجائے اوریہ بھی خوب شائع ہے ۔
والثانی الاستخدام وھو کما سمعت اعلٰی اومن اعلی انواع البدیع او ارجاع الضمیر الی نفس الموصوف مجردا عن ۰الصفۃ وھذا لیس من التاویل فی شیئ علی ان غرضنا یتعلق باٰیۃ الا تقی ولا مساغ فیہ للتاویل بتا وقطعًاھکذاینبغی التحقیق واللہ ولی التوفیق والحمدللہ رب العالمین۔ اوردوسری بات استخدام، اوروہ جیسا کہ تم نےسنا اقسام بدیع میں سب سے اعلٰی ہے یا منجملہ اعلٰی اقسام کے ہے یا ضمیر کو نفس موصوف کی طرف بلا لحاظ صفت لوٹائیں اوریہ تاویل سے کوئی لگاؤنہیں رکھتا۔ علاوہ بریں ہماری غرض تو آیت اتقی سے ہے ، اوراس میں قطعًاتاویل کی گنجائش نہیں ۔ اسی طرح تحقیق چاہیےاوراللہ تعالٰی توفیق کا مالک ہے اورساری خوبیاں اللہ کےلئے جو مالک ہے سب جہانوں کا۔
اذا وعیت ھذا ودریت مافیہ وألقیت السمع وانت نبیہ ھان علیک الجواب عن ھٰذہ الشبھۃ الاولٰی بوجوہ۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی اورتم نے اس کے مضمون کو سمجھ لیا اورتم نے کان دھر ا اورتم ذہین ہو تو تمہیں اس پہلے شبہہ کا جواب چند وجوہ سے آسان ہے :
الاول ظاھر اللفظ واجب الحفظ الا بضرورۃ واین الضرورۃ ۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ لفظ کے ظاہری معنی کی حفاظت واجب ہے یعنی لفظ کو ظاہر سے پھیرنا جائز نہیں مگر بہ ضرورت، اورضرورت کہاں۔
الثانی ما مالوا الیہ لم یزدد الا قدحًافوجب ان نضرب عنہ صفحًا ، وابوعبیدۃ فیما عانٰی لا أصاب ولا أغنٰی فکیف نترک ظاھر قول اللہ سبحٰنہ وتعالٰی بقول رجل لم یکن معصوماً ولا صحابیاً ولا تابعیًا ولا سنّیا ولا مصیبًافی ماطلب ولا مجدیا فی ماالیہ ھرب۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جس تاویل کی طرف لوگ مائل ہوئے اس سے توقباحت ہی زیادہ ہوئی تو ضرور ہوا کہ ہم اس سے منہ پھیریں ، اورابوعبیدہ نے جو پاپڑبیلے اس کاوش میں وہ نہ صواب کو پہنچا اورنہ کوئی مفید بات کہی تو ہم اللہ تعالٰی کے قول کے ظاہری معنٰی کو ایسے شخص کے کہنے سے کیسے چھوڑدیں جو نہ معصوم تھا، نہ صحابی تھا، نہ تابعی ، نہ سنی ، نہ اپنے مطلب میں صواب کو پانے والا، نہ اپنے مَفَر میں نفع بخش۔
ایھا الناس انی سائلکم عن شیئ فہل انتم مخبرون أرأیتم لو ان الآیۃ وردت بلفظ التقی وفسرہ بالاتقی ابوعبیدۃ اللغوی فتعلقناہ بقولہ وندبناکم الی قبولہ ماذاکنتم فاعلین لکن الانصاف شیئ عزیز ولایؤتی الا ذاحظ عظیم۔ اے لوگو! میں تم سے ایک بات پوچھوں تو کیا جواب دوگے، مجھے بتاؤاگر آیت لفظ تقی کے ساتھ وارد ہوتی اورابو عبیدہ لغوی اسے اتقی سے تفسیر کرتا تو ہم اس کے قول سے چمٹ جاتے اورتمہیں اسے قبول کرنے کی دعوت دیتے اب تم کیا کرتے ، لیکن انصاف کمیاب شیئ ہے اوربڑے نصیب والے ہی کو ملتاہے ۔
الثالث سلمنا کونہ فی الاٰیۃ وجہًاوجیھًالکن ھو الوجہ فیہا بل وجھنا ھو الأوضح والأجلی ولا تنافی بین نجاۃ التقی ونجاۃ الا تقی والقرآن محتج بہ علی کل تاویل واحد الوجہین یوجب التفضیل والوجہ الاٰخر لاینافیہ فوجب القبول والقول بما فیہ۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ ہم نے آیت میں اس کا وجہ وجیہ ہونا مان لیا ، مگر آیت میں کیا یہی وجہ ہے ، بلکہ ہماری وجہ واضح تر اورزیادہ روشن ہے تقٰی اوراتقی کی نجات میں کوئی منافات نہیں ہے اورقرآن ہر تاویل پر حجت ہے ، اوردو وجہوں میں سے ایک تفضیل کی مقتضی ہے اوردوسری اس کی منافی نہیں تو قبول کرنا اوراس وجہ کے مضمون کا قائل ضروری ہے ۔
ولذٰلک تری علمائنا رحمھم اللہ تعالٰی لم یزالوا محتجین بالاٰیۃ الکریمۃ علی تفضیل العتیق الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ وھم ادری منا ومنکم بما قالہ أبو عبیدۃ وغیرہ ثم ھذالم یقعدھم عن سلوک تلک المسالک ولم ینکر علیھم احد ذٰلک فثبت ان مقصودنا بحمداللہ حاصل ومزعومکم بحول اللہ باطل، والحمدللہ رب العٰلمین ایاہ نرجو وبہ نستعین۔ اسی لئے ہمارے علماء رحمہم اللہ تعالٰی کو دیکھتے ہوکہ وہ اس آیت سے سیدنا عتیق صدیق کی فضیلت پر دلیل لاتے ہیں حالانکہ وہ ابوعبیدہ وغیرہ کے کلام کو ہم سے اورتم سے زیادہ جانتے ہیں ،پھر بھی علماء کو اس بات نے اس مسالک پر چلنے سے نہ روکا، نہ کسی نے اس مسلک کو ناپسند کیا اب ثابت ہوگیاکہ ہمارا مقصد بحمداللہ حاصل ہے اورتمہارا زعم اللہ کی قدرت سے باطل ہے اورسب خوبیاں اللہ کے لئے ہیں جو مالک ہے سب جہانوں کا،ہم اسی سے امید رکھیں اور اسی سے مدد چاہیں۔
الشبہۃ الثانیۃ: مانقلہ المولی الفاضل استاذ استاذی عبدالعزیز بن ولی اللہ الدھلوی سامحنا اللہ وایھما بلطفہ الخفی وفضلہ الوفی فی تفسیر فتح العزیز بعد ما ذکر استدلال اھل السنۃ والجماعۃ بالاٰیۃ الکریمۃ علی الطریق المشہور بین علماء الدھور، قال وقالت اھل التفضیل ان الاتقی محمول علی التقی منسلخ عن معنی التفضیل اذلولاہ لشمل باطلاقہ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فیلزم ان یکون الصدیق اتقی منہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وھو باطل قطعًا بالاجماع فقال واجاب اھل السنۃ والجماعۃ ان حمل الاتقی علی التقی یخالف اللسان العربی والقراٰن انما نزل بھا فحملہ علی مالیس منہا غیر سدید، وما ذکروا من الضرورۃ مندفع بان الکلام فی سائر الناس دون الانبیاء علیھم الصلوٰۃ والسلام لما علم من الشریعۃ ان الانبیاء اعلی کرامۃ واشرف مکانۃ عنداللہ تبارک وتعالٰی فلایقاسون بسائر الناس ولا یقاس سائرالناس بھم فعرف الشرع حین جریان الکلام فی مقام التفاضل وتفاوت الدرجۃ یخص امثال ھذا اللفظ بالامۃ والتخصیص العرفی اقوی من التخصیص الذکری کقول القائل خبز القمح احسن خبز لن یفہم منہ تفضیلہ علٰی خبزاللوزلأن استعمالہ غیر متعارف وھو خارج عن المبحث اذ الکلام انما انتظم الحبوب دون الفواکہ ۱ ھذا کلامہ فی التفسیر الفارسی اوردناہ نقلاً بالمعنٰی۔ دوسرا شبہہ: وہ ہے جو میرے استاذ الاستاذ ومولا فاضل عبدالعزیز بن ولی اللہ الدہلوی (اللہ تعالٰی ہمیں اور انہیں اپنے لطف خفی اورفضل کامل سے معاف فرمائے) نے تفیسر فتح العزیز میں اس آیت کریمہ سے اہل سنت وجماعت کے استدلال کو علمائے زمانہ کے درمیان مشہور طریقہ پر ذکر کرنے کے بعد نقل فرمایا، انہوں نے فرمایا کہ تفضیلیہ نے کہا کہ اتقی بمعنی تقی ہے ، اوروہ (اسم تفضیل) معنی تفضیل سے مجرد ہے اس لئے کہ اگر یہ معنی نہ ہو تو اسم تفضیل کے اطلاق کے سبب صدیق کی فضیلت نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو شامل ہوگی تو لازم آئیگا کہ صدیق نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے اتقی ہوں اوریہ قطعًا اجتماعی طور رپرباطل ہے ، شاہ عبدالعزیز نے فرمایا کہ اہل السنت والجماعت نے جواب دیا کہ اتقی کو تقی کے معنی میں لینا عربی زبان کے خلاف ہے اورقرآن تو اسی میں اترا ، تو ایسے طریقہ پر محمول کرنا جو زبان عربی کے دستور میں نہ ہوصحیح نہیں ہے اور جو ضرورت تفضیلیہ نے ذکر کی وہ مندفع ہے ، اس لئے کہ کلام انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کو چھوڑ کر باقی لوگوں میں ہے کیونکہ شریعت سے یہ معلوم ہے کہ انبیاء کی عظمت سب سے زیادہ ہے اور انکامرتبہ سب پر بلند ہے تو انہیں باقی لوگوں پر قیاس نہ کیاجائے گا ، نہ باقی لوگ ان پر قیاس کئے جائینگے ، تو شریعت کا عرف مقام فضیلت اورتفاوت مراتب کی جاری گفتگو میں ایسے الفاظ کو امت کے ساتھ خاص کردیتا ہے اورتخصیص عرفی تخصیص ذکری سے زیادہ قوی ہے جیسے کوئی کہے کہ گیہوں کی روٹی سب سے اچھی روٹی ہے ، اس سے گیہوں کی روٹی کی فضیلت بادام کی روٹی پر نہ سمجھی جائیگی اس لئے کہ اس کا استعمال متعارف نہیں ہے اوروہ بحث سے خارج ہے اس لیے کہ کلام اناج کو شامل ہے نہ کہ میووں کو۔ یہ شاہ عبدالعزیز کا تفسیر فارسی میں کلام تھا جس کے مفہوم کو ہم نے نقل کیا۔
(۱ فتح العزیز (تفسیرعزیزی) تحت الآیۃ ۹۲/ ۱۷ مسلم بکڈپولال کنواں دہلی پ عم ص۳۰۴)
اقول وباللہ التوفیق اما ماذکرمن ان ھذا یخالف اللسان العربیۃ فممنوع ومدفوع، الا تری الٰی قولہ تعالٰی “ھو الذی یبدؤا الخلق ثم یعیدہ وھو اھون علیہ۱۔”
ولیس شیئ اھون علی اللہ تعالٰی من شیئ والمعنی فی نظر کم علی احد تاویلات فی عسٰی ولعل الواردین فی القران، والی قولہ تعالٰی “اصحٰب الجنۃ یومئذ خیر مستقرا واحسن مقیلا۲ “
ولا خیر للغیر ولاحسن لأ ھل الضیر اولاٰیۃ جاریۃ علٰی سبیل التھکم بھم کما قال المفسرون لکن الأمر أن الافعل حقیقتہ فی التفضیل ولا یسار الی الانسلاخ عنہ الا لضرورۃ دعت بقرینۃ قامت کما فی الاٰیتین اللتین تلونا وحیث لاضرورۃ ولا قرینۃ کما نحن فیہ لانقول بہ والمصیر الیہ اشبہ بالتحریف منہ بالتفسیر کما قد حققنا وھذا القدریکفی للردعلیھم ، واما ماذکر من حدیث التخصیص عرفا فجری منہ علی تسلیم ماادعی الخصم من أن اللفظ بصیغتہ یشمل الانبیاء علیھم الصلوٰۃ والسلام وان بغیت الحق المرصوص فلا شمول ولا خصوص لأن الا تقٰی ان عم عم افرادہ وھم المفضلون المرجحون دون المرجوحین المفضل علیھم ۔ میں کہتا ہوں اورتوفیق اللہ تعالٰی سے ہے ، رہی وہ بات جو شاہ صاحب نے ذکر کی کہ یہ (اتقی بمعنی تقی ہونا) ممنوع ومدفوع ہے ، کیا تم نہیں دیکھتے اللہ تعالٰی کا قول “اور وہی ہے کہ اول بناتا ہے پھر اسے دوبارہ بنائےگا اوریہ تمہاری سمجھ میں اس پر زیادہ آسان ہوناچاہیے “حالانکہ اللہ تعالٰی کے لئے کوئی چیز دوسری چیز سے زیادہ آسان نہیں (یعنی اللہ تعالٰی کو ہر چیز پر یکساں قدرت حاصل ہے ) اورآیت کا مطلب یہ ہے کہ دوبارہ بنانا تمہاری نظر میں زیادہ آسان ہونا چاہیے اوریہ عسٰی ولعل جو قرآن میں وارد ہیں ان کی تاویلات میں سے ایک تاویل کی بنا پر ہے اورکیا تم نہیں دیکھتے اللہ تعالٰی کا یہ قول “جنت والوں کا اس دن (سب سے (عہ)) اچھا ٹھکانااورحساب کی دوپہر کے بعد(سب سے ) اچھی آرام کی جگہ”حالانکہ غیر کے لئے خیرنہیں اورخسارہ والوں کیلئے کوئی اچھائی نہیں، یا آیت کفار سے استہزاء کے طور پر جاری ہے ، جیسا کہ مفسرین نے فرمایا ہے ۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ اسم تفضیل کامعنٰی حقیقی تفضیل ہے اورتفضیل سے مجرد ہونے کی طرف بغیر ضرورت داعیہ بہ سبب قرینہ قائمہ نہ پھرے گی جیسا کہ ان دو آیتوں میں جو ہم نے تلاوت کیں اورجہاں نہ ضرورت ہو اورنہ قرینہ ہو وہاں ہم تفضیل سے مجرد ہونے کا قول نہ کریں گے اوراس طرف پھرنا تفسیر کی بہ نسبت تحریف سے زیادہ مشابہ ہے جیسا کہ ہم نے تحقیق کیا اور اس قدر انکے رد کے لئے کافی ہے ، اور رہی وہ تخصیص عرفی کی بات جو شاہ صاحب نے ذکر فرمائی تو مدعی کا وہ دعوٰی کہ لفظ اپنے صیغہ کے سبب انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کو بھی شامل ہے تسلیم کرنے کی تقدیر جاری ہوئی اور اگر تم حق محکم کو چاہو تو نہ شمول ہے نہ خصوص ہے اس لئے کہ اتقی اسم تفضیل اگر عام ہے تو اپنے افراد کو عام وشامل ہے ۔ اوراس کے افراد وہ ہیں جنہیں فضیلت وترجیح دی گئی ہے نہ کہ وہ مرجوح جن پر دوسروں کوفضیلت دی گئی۔
عہ: آیت کا ترجمہ ہم نے “کنزالایمان “سے نقل کیا ہے اوربریکٹ میں دوجگہ لفظ”سب سے ” بڑھا دیا ہے تاکہ اس امر کی طرف اشارہ ہوکہ خیرواحسن کا اسم تفضیل کے لحاظ سے اصل ترجمہ اس طرح ہونا چاہیے تھا، مگر قرینہ حالیہ کے سبب صحیح وہ ہے جو اعلٰیحضرت علیہ الرحمہ نے کیا، اوراس سے ظاہر ہے کہ یہاں خیر واحسن کا حقیقی معنی تفضیل والا نہیں ۔ازہری غفرلہ
(۱القرآن الکریم ۳۰/ ۲۷)(۲ القرآن الکریم ۲۵/ ۲۴)
وسر المقام بتوفیق الملک العلام ان الافضل لابدلہ من مفضل علیہ والمضل علیہ یذکر صریحا اذا استعمل مضافا اوبمن اما اذااستعمل باللام فلا یوردفی الکلام ولکن اللام تشیر الیہ علی سبیل العہد فی ضمن الاشارۃ الی المفضل لان ذات مالہ الفضل کما ھو مفاد لفظ افعل بلا لام لاتتعین الا وقد تتعین المفضل علیہ فعھد ھا یستلزم عھدہ واذلم یکن ھناک عھد فی اللفظ فالمصیر الی العھد الحکمی وقد عھد فی الشرع المطھر تفضیل بعض الامۃ علٰی بعض لاتفضیلھم علی الانبیاء الکرام فلا یقصدہ المتکلم ولا یفھمہ السامع فلم یدخلوا حتی یخرجوا، تأمل ، انہ دقیق ، وقد کنت أظن ھکذا من تلقاء نظری الی ان رایت علماء النحو صرحوابما ابدی فکری وللہ الحمد۔ اوراس مقام میں علم والے بادشاہ کی توفیق سے راز یہ ہے کہ افضل کے لئے ایک مفضل اوردوسرا مفضل علیہ لازم ہے اورجب اسم تفضیل اضافت کے ساتھ یا من کے ساتھ مستعمل ہوتو مفضل علیہ صراحۃً مذکورہوتاہے ،لیکن جب اسم تفضیل الف لام کے ساتھ آتاہے تو اس میں مفضل علیہ کلام میں ذکر نہیں کیاجاتالیکن لام تعریف برسبیل عہد مفضل علیہ کی طرف مفضل کی طرف اشارہ کے ضمن میں اشارہ کرتاہے اس لئے کہ کوئی ذات جس کو دوسر ے پرفضیلت ہوجیسا کہ صیغہ افعل کا مفاد ہے بغیر لام تعریف کے اسی وقت متعین ہوگی جب مفضل علیہ متعین ہوتو اس کی تعیین مفضل علیہ کی تعیین کو مستلزم اورجب کہ تعیین صراحۃً موجود نہیں تو مآل کارحکمًا تعیین مانتا ہے اورشرع مطہر میں بعض امتیوں کی تفضیل دوسرے امتیوں پر معروف ہے نہ کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام پر فضیلت ہوتونہ متکلم کی مراد ہوتی ہے نہ مخاطب ہی یہ معنی سمجھتا ہے ، اب انبیائے کرام عموم میں داخل ہی نہیں کہ اس سے مستثنٰی کئے جائیں ،اس کلام میں غور کرے، بیشک یہ دقیق ہے اورمیں اپنی سمجھ سے یہی گمان کرتا تھا یہاں تک کہ میں نے نحو کے عالموں کی تصریح اپنے نتیجہ فکر کے مطابق دیکھی وللہ الحمد۔
قال المولی السامی نورالملۃ والدین الجامی قدس اللہ تعالٰی سرہ وضعہ لتفضیل الشیئ علی غیرہ فلا بدفیہ من ذکر الغیر الذی ھو المفضل علیہ وذکرہ مع من والاضافۃ ظاھر ، واما مع اللام فھو فی حکم المذکور ظاھرًا لانہ یشار باللام الی معین بتعیین المفضل علیہ مذکور قبل لفظًا اوحکمًا کما اذطلب شخص افضل من زید، قلت عمر والأفضل ای الشخص الذی قلنا انہ افضل من زید، فعلی ھذا لاتکون اللام فی افعل التفضیل الا للعھد انتہٰی ۔
حضرت بلند مرتبت نورالملۃ والدین جامی قدس اللہ تعالٰی سرہٗ نے فرمایا اسم تفضیل کی وضع شَے کی غیر پر فضیلت بتانے کے لئے ہے، لہذا اس میں غیر جو مفضل علیہ کا مذکور ہونا ضروری ہے اورمن اوراضافت کے ساتھ تو مفضل علیہ کا مذکورہونا ظاہر ہے ۔ رہا لام تعریف کے ساتھ تو مفضل علیہ ظاہرًا مذکور کے حکم میں ہے اس لئے کہ لام تعریف سے ایک معین کی طر ف اشارہ ہوتاہے جو لفظ میں مذکوریا حکم میں موجود مفضل علیہ کی تعیین سے متعین ہوتاہے جیسا کہ اگر کوئی شخص زید سے افضل مطلوب ہوتو تم کہو کہ عمرو افضل ہے (لام تعریف کے ساتھ ) تو مطلب یہ ہے کہ وہ شخص جسے ہم نےزید سے افضل کہا عمرو ہے ،تو اس بناء پر صیغہ افعل التفضیل میں لام عہد (تعیین ) ہی کے لئے ہوگاانتہی۔
قلت وتنقیح المرام بتحقیق المقام یستدعی بسطا نحن فی غنی عنہ (لطیفتان) بمثل ماصرّح المولی الجامی۱ صرح الرضی الاسترآبادی الذی لم تکن فی مصرہ عمارۃ عصرہ الابنحوہ لکنا لم ناثر عنہ لان علٰی قلبہ آفۃ لاحدلھا فھم من فھم ھذا ثم ان المولی الفاضل نقل فی التفسیر جوابًا آخر عن بعض الاجلۃ الاکابر ولعلہ یریدبہ اباہ وھو أن الاتقی ھٰھناعلٰی معناہ اعنی من فضل فی التقوی علٰی کل من عداہ نبیا کان او غیرہ الا انہ یختص بالاحیاء الموجودین فالصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ یوصف بہ فی اٰخر عمرہ حین خلافتہ بعدارتحال المصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وسیدنا عیسٰی علٰی نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام لما کان مرفوعا الی السماء لم یبق فی حکم الاحیاء، ولا یجب للتقی ان یکون اتقی فی جمیع الاوقات وبالنسبۃ الٰی کل احد من الاحیاء والاموات والا لم یوجد لہ فی العٰلمین مصداق اذلایتصورالتقوی فی زمن الصبا وکل منصب محمود شرعًافالعبرۃ فیہ باخرالعمر کالعدل والصلاح والغوثیۃ والقطبیۃ والولایۃ والنبوۃ ولہذا یدعی بھٰذہ الاوصاف من تشرف بھا فی اواخر عمرہ وان لم یکن لہ ذٰلک من بدو امرہ ، فالاتقی من فضل بالتقوی من سائرالموجودین فی آخر عمرہ الذی ھو وقت اعتبارالاعمال وبہ یثبت المدعی بلا تکلف ولا تاویل۱ اھ بالتعریف وقد ارتضاہ المولی الفاضل جانحا الیہ وساکتاعلیہ۔ قلت (میں نے کہا) مقصود کی تنقیح اس بحث کی تحقیق کے ذریعہ تفصیل کو چاہتی ہے جس سے ہم بے نیاز ہیں (دو لطیفے) جس طرح اسم تفضیل کے بارے میں فاضل جامی نے تصریح کی، ایسی ہی تصریح رضی استرآبادی نے بھی کی جس کے شہر میں اس کے زمانے میں اسی کی نہج ونحو پر عمارت قائم ہوئی، مگر ہم نے اس کا کلام نقل نہ کیا اس لئے کہ اس کے دل پر ایسی آفت ہے جس کی حد نہیں ہے،اس کو سمجھا جو سمجھا ، پھر فاضل مولانا نے بعض گرامی قدر اکابر سے ایک اورجواب نقل کیا اورشاید ان کی مراد ان کے والد ہیں اوروہ یہ کہ اتقی اس جگہ اپنے معنی پر ہے یعنی جو تقوٰی میں اپنے ماسواسے افضل ہوخواہ نبی ہو یا غیر نبی ، مگر یہ کہ اس صورت میں یہ ان کے ساتھ خاص ہوگاجو زندہ موجود ہیں۔ پھر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ اتقی کے مصداق اپنی عمر کے آخری حصہ میں اپنی خلافت کے دور میں مصطفٰی علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے بعد ہوئے اورسیدناعیسٰی علیہ الصلوٰۃ جب آسمان پر اٹھالئے گئے تو وہ زندوں کے حکم میں نہ رہے اوراتقی کے لئے ضروری نہیں کہ وہ تمام اوقات میں اتقی ہو اورتمام احیاء واموات سے افضل ہو، ورنہ عالم میں کوئی اس کا مصداق نہ ہوگاکیونکہ بچپن کے زمانہ میں تقوٰی متصور نہیں،اورہر منصب جو شرعًامحمود ہواس میں اعتبار آخرعمر کا ہے جیسے عدل وصلاح غوثیت وقطبیت ولایت ونبوت اسی لئے جو ان اوصاف سے مشرف ہوتاہے اسے اس کے آخری ایام میں ان اوصاف کے ساتھ موسوم کرتے ہیں اگرچہ یہ اوصاف ان لوگوں کو ابتداء سے حاصل نہیں ہوتے تو اتقی وہ ہے جو تمام موجودین کے بیچ تقوٰی میں سب سے افضل ہو، اپنی اواخر عمر میں جس وقت اعمال کا اعتبارہوتاہے اوراس تقریر سے صدیق کی افضلیت کا دعوٰی بے تکلف وتاویل ثابت ہوجاتاہے ، عربی عبات کا ترجمہ ختم ہوا اور اس تقریر کو فاضل مولانا نے اس کی طرف میلان اوراس پر سکوت کرتے ہوئے پسند کیا۔
(۱شرح الجامی الاسماء والوافقہا بحث اسم التفضیل مطبع مصطفائی لکھنؤ ص ۲۷۷)
(۱فتح العزیز(تفسیرعزیزی) تحت الآیۃ۱۷/ ۹۲ مسلم بک ڈپولال کنواں دہلی،پارہ عم ص۵۔۳۰۴)
اقول وان جعل اللہ الفطانۃ بمرأی العین من قلب وکیع اتقن وأیقن ان ھذا لایزید علی تلمیع ھب ان حدیث”العبرۃ بالخواتیم”۱ حق واجب التسلیم لکن الیس العقل السلیم شہیدًابانہ اذا ذکر أحد من الاحیاء الموجودین بنعت من النعوت لایفہم منہ الا اتصافہ فی الحال لاانہ یصیر ھکذا بالماٰل والتبادر دلیل الحقیقۃ والافتیاق الٰی قرینۃ تصرف الافہام ، و تظھرالمرام و امارۃ المجاز فماذا یحوجنا الیہ مع استقامۃ الحقیقۃ من دون تکلف ولا تاویل،اما علٰی طریقتنا فالامر أبین واجلی، اقول (میں کہتاہوں) اوراگر اللہ تعالٰی ذہانت کو قلب کےسامنے رکھے تو وہ محکم یقین کرلے گا کہ یہ ملمع سے زیادہ نہیں، مان لو کہ حدیث کا ارشاد ہے “خاتمہ کا اعتبار ہے “حق واجب التسلیم ہے لیکن کیا عقل سلیم شاہد نہیں کہ جب دنیا میں زندہ موجود لوگوں میں سے کوئی کسی وصف کے ساتھ مذکور ہو تو اس سے اس کافی الحال متصف ہونا ہی مفہوم ہوتاہے نہ یہ کہ وہ ایسا آئندہ ہوجائے گا ، اورتبادر(معنی کی طرف سبقت فہم) معنی حقیقی کی دلیل ہے اورقرینہ کی حاجت جو ذہن کو دوسرے معنٰی کی طرف پھیرے اورمقصد ظاہر کرے مجازی معنی کی علامت ہے تو ہمیں مجاز کی ضرورت کس لئے پڑی باوجودیکہ حقیقت بغیر تکلف وبغیر تاویل درست ہے ہمارے طریقے پر، تو معاملہ خوب ظاہر وباہر ہے،
(۱صحیح البخاری کتاب القدرباب العمل بالخواتیم قدیمی کتب خانہ کراچی۲/ ۹۷۸)
(کنزالعمال حدیث۵۹۰ موسسۃ الرسالہ بیروت ۱/۱۲۵)
واما علٰی طریقۃ الشیخ العزیز عبدالعزیزفلان امثال تلک التخصیصات تکون مرتکزۃ فی الاذھان من دون حاجۃ الی البیان، ولیس دلالۃ ھذا التلویح أدون من ارشاد التصریح ولہذا لا ینزل العام عن درجۃ القطعیۃ کما فی الکتب الاصولیۃ واعجب من ھذا عدہ تکلفا وتاویلا مع شیوعہ فی النصوص حدیثا وتنزیلافلو کان من باب التکلف فما اکثر التکلف فی افصح الکلام وکلام من ھو افصح الانام علیہ افضل الصلوٰۃ واکمل السلام ، اورشیخ عبدالعزیز کے طریقہ پر حقیقی معنی کی درستگی اس لئے ایسی تخصیصات عرفی اذہان میں مرتکز ہوتی ہیں جن کے بیان کی حاجت نہیں ہوتی اور عرف عام کے اس اشارہ کی دلالت صراحت کی دلالت سے کم رتبہ نہیں، اوراسی لئے عام درجہ قطیعت (تیقن) سے نہیں گرتا،جیساکہ اصول فقہ کی کتب میں مصرح ہے ، اوراس سے عجیب تریہ ہے کہ شاہ عبدالعزیزعلیہ الرحمہ نے اس (تخصیص)عرفی کو تکلف وتاویل میں شمار کیا باجودیکہ یہ قرآن وحدیث کی نصوص میں شائع ہے تو اگر یہ تکلف کے باب سےہو تو افصح الکلام (قرآن ) اورسب سے زیادہ فصیح حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے کلام میں کس قدر تکلف ہوگا ۔
واغرب من ھذا زعم طریقتہ بریئۃ من التکلف مع انھا تحتاج الٰی ماھو ابرد وابعد فان الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ لم یکن بالحقیقۃ أتقی لالموجودین فی حین من الاحیان لحیات سیدنا عیسٰی علیہ الصلوۃ والسلام علی أرجح الاقوال وزعم التحاقہ بالاموات لارتفاعہ الی السمٰوٰت کلمۃ ھو قائلھا ما علیھا دلیل ولا برھان ، وان سلم فاین انت من سیدنا الخضرعلیہ السلام مع أن المعتمد المختار نبوتہ وحیاتہ۱ فان قلت انہ مختف عن الابصارمعتزل عن الامصار فالتحق بالاموات کان عذرًا أفسد من الاول فافھم علی أنا قد اثبتنا اطلاق السفۃ علٰی من سیکون کذا تجوز ولا تجوز الابقرینۃ ولا قرینۃ الاتخصیص الانبیاء شرعًافباتکائہ حمل الکلام علی الحقیقۃ اولٰی ام المصیر الی التجوز معتمداعلٰی تلک القرینۃ نفسہا ، وقدبقی بعد خبایافی زوایالانذکرھا مخافۃ للطویل فحق الجواب والحق فی الجواب ماذکر العبدالذلیل وولی التوفیق ربی الجلیل۔ اوراس سے زیادہ عجیب یہ ہے کہ شاہ صاحب نے اپنے پسندیدہ طریقہ کو تکلف سے بری کہا جب کہ وہ بہت دور کی اوربہت بارد تاویل کا محتاج ہے اس لئے کہ صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کسی وقت بھی تمام موجودین سے حقیقۃً زیادہ متقی نہ تھے اس لئے کہ راجح مذہب پر سیدنا عیسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام دنیا میں زندہ ہیں اورآسمانوں میں حضرت عیسٰی علیہ الصلوۃ والسلام کے ہونےکے سبب انھیں اموات سے ملحق بتانا ایسی بات ہے جو انہوں نے کہی اوراس پر کوئی دلیل وبرہان نہیں ہے ۔ پھر اگر یہ بات تسلیم کرلیں تو تم سیدناخضرعلیہ السلام سے کہاں غافل ہو باوجودیکہ معتمد ومختاریہ ہے کہ وہ نبی ہیں اوردنیا میں زندہ ہیں تو اگر تم کہو کہ وہ نگاہوں سے پوشیدہ اورشہروں سے جداہیں اس بنا پر اموات سے ملحق ہیں تو یہ عذر پہلے سے زیادہ فاسد ہوگا تو تم سمجھ لو، علاوہ ازیں ہم ثابت کرچکے کہ صفت کا اطلاق ایسے شخص پر جو آئندہ صفت کا مصداق ہوگا مجاز ہے اورمجاز بغیر قرینہ کے ماننا درست نہیں اورقرینہ شرعی انبیاء کی تخصیص ہے ، تو کلام کو حقیقت پر محمول کرنا اولٰی ہے یا مجاز کی طرف اسی قرینہ پر اعتماد کی وجہ سے پھیرنا انسب ہے اورکچھ پوشیدہ باتیں گوشوں میں رہ گئی ہیں جنہیں ہم طوالت کے ڈر سے ذکر نہیں کرتے تو جواب برحق اورجواب کا حق وہی ہے جو بندہ ناتواں نے اپنے رب جلیل کی توفیق واعانت سے ذکرکیا۔
(۱شرح المقاصد المقصد السادس الفصل الرابع المبحث السابع دارالمعارف النعمانیہ حیدرآباددکن ۲/۳۱۱)
ثم اقول وھناک نکتۃ اخری أحق واحٰری بقبول النہٰی لم ارمن تنبہ لہا وھی ان افعل التفضیل لامحید لہ من مفضل علیہ فالمحلی منہ باللام اما ان یکون مفادہ التفضیل علی جمیع من عہد التفاضل فیما بینھم فی امثال ھذا المقام کالحبوب فی قولناخبزالبرھوالاحسن والاکثرفیما نحن فیہ ، او علی بعضھم دون بعض اولا ولا بل احتمالاعلی الاول حصل المقصود والثانی باطل بالبداھۃ الاتری الی قولہ تعالی سبح اسم ربک الاعلٰی ۱
وقولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی دعائہ دبرالصلوۃ اسمع واستجب اللہ اکبر والاکبر علی روایۃ الرفع ، اخرجہ ابوداود، والنسائی وابن السنی وقول ابن امسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ ۱ بین الصفاء والمروۃ “رب اغفروارحم انک انت الاعزاالاکرم، رواہ ابن ابی شبیۃ۲ بل الٰی قول کل مصل فی سجودہ سبحٰن ربی الاعلٰی ” ثم اقول (پھر میں کہتاہوں) اس مقام میں ایک دوسرا نکتہ ہے جو عقلوں کو قبول ہونے کا زیادہ سزاوار ہے ، میں نے نہ دیکھا کہ کسی کو اس نکتہ کی طرف توجہ ہوئی ہو اوروہ نکتہ یہ ہے کہ افعل التفضیل کے لئے مفضل علیہ ضروری ہے تو اس صیغہ پر جب لام تعریف داخل ہوگا تو یا تو ایسے مقام میں ان تمام افراد پر فضیلت ہوگا جن کے درمیان ایسے مواقع پر حرف میں تفاضل سمجھا جاتاہے جیسے ناج کی قسموں میں ہمارے جملہ “گیہوں کی روٹی ہی اچھی ہے”میں اوروہی زیادہ تر مستعمل ہے اس مقام میں جس کی بابت ہم گفتگو کر رہے ہیں ، یا اس صیغہ سے بعض پر فضیلت سمجھی جائے گی اوربعض پر فضیلت مفہوم نہ ہوگی یا نہ پہلی صورت ہوگی نہ دوسری، بلکہ دونوں کا احتمال ہوگا۔ پہلی تقدیر پر ہمارا مدعا حاصل ہے اوردوسری تقدیر پر بداہۃً باطل ہے ۔ کیا تم نہیں دیکھتے اللہ تعالٰی کے قول “اپنے رب اعلٰی کی پاکی بولوکی طرف اورنماز کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قول “اے رب! دعا سن لے اورقبول فرما، اللہ اکبر،اللہ اکبر، کی طرف۔ اکبر کے مرفوع ہونے کی روایت پر اس حدیث کو روایت کیا ابوداود، نسائی اورابن السنی نے،اورصفاومرہ کے درمیان ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قول “اے رب بخش دے اورمہرفرما بیشک توہی عزت والاکرم والاہے “کو نہیں دیکھتے۔ اسے روایت کیا ابن ابی شیبہ نے ، بلکہ سجدے میں ہر نمازی کے قول”سبحان ربی الاعلٰی”کو نہیں دیکھتے
(۱القرآن الکریم ۸۷/ ۱)
(۱سنن ابی داودکتاب الصلوٰۃ باب مایقول الرجل اذا سلم آفتاب عالم پریس لاہور ۱/ ۲۱۱)
(عمل الیوم واللیلۃ باب مایقول فی دبر صلوٰۃ الصبح دائرۃ المعارف النعمانیہ حیدرآباددکن ص۳۲)
(۲المصنف لابن ابی شیبہ کتاب الحج باب ۴۶۰ حدیث ۱۵۵۶۰ دارالکتب العلمیہ بیروت۳/ ۴۰۴)
وعلی الثالث کانت الآیۃ مجملۃ فی حق المفضل علیھم والمجمل ان لم یبین عد من المتشابہا ت ولم یعدھا أحد منھا لکنا بحمد اللہ وجدنا البیان من صاحب البیان علیہ افضل الصلوٰۃ والسلام ، اخرج الامام ابو عمر بن عبدالبر من حدیث مجالد عن شعبی قال سألت ابن عباس او سئل ای الناس اول اسلامًاقال اما سمعت قول حسان بن ثابت
اذاتذکرت شجوًا من اخی ثقۃ فاذکر اخاک ابابکر بما فعلا
خیرالبریۃ اتقاھا واعدلہا بعدالنبی واوفاھا بما حملا
والثانی التالی المحمود مشہدہ واول الناس منھم صدق الرسلا ۱انتہی
انبانا عبدالرحمن عن ابن عبداللہ المکی عن عابد الزبیدی المدنی عن الفلانی عن ابن السنۃ عن الشریف عن ابن ارکما ش عن ابن حجر العسقلانی عن الکمال ابی العباس أنا ابو محمد عبداللہ بن الحسین بن محمد بن ابی التائب عن محمد بن ابی بکر البلخی عن الحافظ السلفی عن ابی عمران موسٰی بن ابی تلمید عن الامام ابی عمر یوسف بن عبدالبر،قال فی الاستیعاب یروٰی أن رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قال لحسان”ھل قلت فی ابو بکر شیئا؟ قال نعم ، وانشد ھذہ الابیات وفیھا بیت رابع وھی: ”
والثانی اثنین فی الغارالنیف وقد طاف العدوبہ اذصعد والجبلا۔
فسرالنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بذٰلک فقال احسنت یاحسّان۱
وقدروی فیھا بیت خامس:
وکان حب رسول اللہ قد علموا خیر البریۃ لم یعدل بہ رجلا۲ انتہٰی۔ اورتیسری تقدیر پر ہر آیت مفضل علیہم کے حق میں مجمل ہوگی اورمجمل آیت کا بیان اگر نہ ہوا تو وہ متشابہ آیتوں میں شمار ہوگی حالانکہ اس آیت کو کسی نے متشابہات میں شمار نہ کیا، لیکن ہم نے بحمداللہ اس آیت کا بیان صاحب بیان حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پایا۔امام ابو عمر ابن عبداللہ نے روایت کی حدیث مجالد سے انہوں نے شعبی سے روایت کی کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت ابن عباس (رضی اللہ تعالٰی عنہما) سے پوچھا یا ابن عبا س سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے پہلے کو ن اسلام لایا۔ انہوں نے فرمایا : کیا تم نے حسان بن ثابت کے یہ شعر نہ سنے:
(ترجمہ اشعار)”جب تجھے سچے دوست کا غم یاد آئے ، تو اپنے بھائی ابو بکر کو انکے کارناموں سے یادکر جونبی(صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہٖ وسلم)کے بعد ساری مخلوق سے بہتر، سب سے زیادہ تقوٰی اورعدل والے ، اورسب سے زیادہ عہد کو پورا کرنے والے ، جو نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ غار میں رہے ،جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچے سفر ہجرت میں چلے،جن کا منظر محمود ہے اورلوگوں میں سب سے پہلے جنہوں نے رسولوں کی تصدیق کی”(صلی اللہ تعالٰی علی سیدنا محمد وسلم)
ہمیں خبر دی عبدالرحمٰن نے انھوں نے روایت کی ابن عبداللہ مکی سے انہوں نے روایت کی عابد زبیدی مدنی سے انہوں نے روایت کی فلانی سے وہ روایت کرتے ہیں ابن السنۃ سے وہ روایت کرتے ہیں شریف سے وہ روایت کرتے ہیں ابن ارکماش سے وہ روایت کرتے ہیں ابن حجر عسقلانی سے وہ راوی ہیں کمال ابو العباس سے انہوں نے کہا ہمیں خبر دی ابو محمد عبداللہ بن حسین بن محمد بن ابی التائب نے محمد بن ابی بکر بلخی سے وہ راوی ہیں حافظ سلفی سے وہ راوی ہیں ابو عمران موسٰی بن ابی تلمیدسے وہ روایت کرتے ہیں امام ابو عمر یوسف بن عبدالبر سے ، ابن عبدالبر نے استیعاب میں فرمایا کہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حسان سے فرمایا کیا تم نے ابو بکر کے بارے میں کچھ کہا ہے ؟انہوں نے عرض کی : جی ۔ اور حضرت حسان نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو یہ شعر سنائے اوران میں چوتھا شعر ہے وہ یہ ہے :
(ترجمہ)”غار شریف میں وہ دوسری جان درانحالیکہ دشمن اس کے گرد چکر لگاتے تھے جبکہ وہ دشمن (صدیق اکبر کی نظروں کے سامنے)پہاڑپر چڑھے تھے۔ “تو نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان اشعار کو سن کر خوش ہوئے اور فرمایا : اے حسان.تم نے اچھا کیا۔ اوران میں پانچواں شعر بھی مروی ہوا:
(ترجمہ )”(شہرت، چمک یا حرارت محبت میں) رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے محبوب لوگوں نے انہیں جانا ، تمام مخلوق سے بہتر،جس کے برابر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کسی کو نہ رکھا۔”
(۱الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب حرف العین ترجمہ ۱۶۵۱ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۳/ ۹۳)
(۱الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ترجمہ ۱۶۵۱ دارالکتب العلمیۃ بیروت۳/ ۹۳)
(۲الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ترجمہ ۱۶۵۱دارالکتب العلمیۃ بیروت۳/ ۹۳)
قلت ویروی بدلہ ع
من الخلائق لم یعدل بہ بدلا۳ قلت (میں کہتاہوں ) مصرعہ ثانی کے بجائے یوں بھی مروی:
(ترجمہ”مخلوق سے کسی کو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس کے برابر نہ رکھا۔”)
وحدیث ابن عباس رواہ الطبرانی ایضاً فی المعجم الکبیر۱ وعبداللہ بن احمد فی زاوئد الزھد ، (۳المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ دارالفکر بیروت۳/ ۶۴)
(۱المعجم الکبیرحدیث۱۲۵۶۲ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۲/ ۸۹)
واما الحدیث المرفوع اعنی بہ استماع النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اشعارہ وتحسینہ علیہا فاصلہ مروی ایضا عند الحاکم من حدیث غالب بن عبداللہ عن ابیہ عن جدہ حبیب بن۲ ابی حبیب وعند ابی سعد فی الطبقات وعند الطبرانی عن الزھری ورواہ الحاکم ایضا من حدیث مجالد عن الشعبی من قولہ کمثل حدیث ۳ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما والاصولی یعرف ان الموقوف فی مثل ھذا کالمرفوع اذ المجمل لایبین بالرأی ولہذا ان لم یبین وانقطع(عہ) نزول القراٰن عاد متشابھا،ثم ان البیان یلتحق بالمبین اذ لا یفید الارفع التشکیک وتعیین احد المحتملات فکان حکمہ کحکم القرینۃ والمفاد انما ینسب الی الکلام کما اوضحتہ الاصول فثبت بالاٰیۃ تفضیلہ رضی اللہ تعالٰی عنہ علی کل من عداہ فی التقوٰی والحمدللہ علٰی مااولٰی۔ اورحدیث ابن عباس کو طبرانی نے بھی روایت کیا معجم کبیر میں، اورعبداللہ بن احمد نے زوائد زہد میں ۔ رہی حدیث مرفوع یعنی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا حضرت حسان کے اشعار کو سن کرانہیں سراہنا تو اس کی اصل بھی مستدرک حاکم میں غالب بن عبداللہ کی حدیث میں بطریق غالب بن عبداللہ عن ابیہ عن جدہٖ حبیب بن ابی حیبب مروی ہے (یعنی یہ حضرت غالب بن عبداللہ نے اپنے والد عبداللہ سے سنی انہوں نے اپنے باپ غالب کے داداحبیب بن ابی حبیب سے سنی )اورطبقات ابن سعد میں اورطبرانی میں زہری سے مروی ہے ،اور نیز حاکم نے مجالد کی حدیث میں بروایت شعبی انکا قول حدیث ابن عباس رضی اللہ کے بلفظہٖ مشابہ روایت کیا،اوراصولی جانتاہے کہ ایسی جگہ پر موقوف (صحابی کا قول ) مرفوع (حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قول )کی طرح ہے ، اس لئے کہ مجمل کا بیان رائے سے نہیں ہوتا لہذا اگر شارع نے بیان نہ کیااور قرآن کا نزول بند ہوگیاتو مجمل متشابہ ہوجائے گا ، پھر بیان مبین (مجمل) سے ملحق ہوگا اس لئے کہ بیان کا یہی فائد ہ ہے کہ شک دور کرے اورمحتمل معانی میں سے کوئی ایک معین کردے تو بیان کا حکم وہی ہے جو قرینہ کا ہے اورکلام کا مفاد کلام ہی کی طرف منسوب ہوتاہے جیسا کہ اصول فقہ نے واضح کیا تو اس آیت سے صدیق اکبر کی فضیلت تقوٰی میں ہر امتی پر ثابت ہوگئی اوراللہ تعالٰی کیلئے اس کی نعمتوں پر حمد ہے۔
عہ: یہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی وفات سے کنایہ ہے ۱۲منہ
(۲المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ دارالفکر بیروت۳/ ۶۴و۸۷)
(کنزالعمال حدیث۳۵۶۷۳و۳۵۶۸۵مؤسسۃ الرسالہ بیروت۵۲۳و۵۱۳)
(الدرالمنثوربحوالہ ابن عدی وابن عساکرمکتبۃ آیۃ اللہ العظمی قم ایران ۳/ ۲۴۱)
(۳ المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ دارالفکر بیروت۳/ ۶۴)
اقول واخذ الافعل بمعنی کثیر الفعل فطام لہ عما یحتاج الیہ فی اصل وضعہ اعنی المفضل علیہ فیکون صرفا عن المعنی الحقیقی المتبادر فلا بدمنہ قرینۃ واین القرینۃ ولتکن حاجۃ وماذاالحاجۃ،نعم ھذا مفاد صیغۃ المبالغۃ وشتان مھما فلیتنبہ لھذا واللہ تعالٰی الموفق۔ میں کہتاہوں اورافعل کو بمعنی کثیر الفعل لینا اس کو اس شَے سے الگ رکھنا ہے جس وہ اصل وضع کے لحاظ سے محتاج ہے یعنی مفضل علیہ تو یہ معنی حقیقی متبادرسے پھیرنا ہوگا اب تو قرینہ ضروری ہے اورقرینہ کہاں، اوراس کے لئے حاجت بھی چاہیے اورحاجت کیاہے،ہاں یہ مبالغہ کے صیغہ کا مفاد ہے اوراسم تفضیل اورمبالغہ میں فرق ہے۔
الشبہۃ الثالثۃ: وھی تتعلق بالکبری من قیاس اھل السنۃ والجماعۃ ان المحمول فی قولہ تعالٰی “ان اکرمکم عند اللہ اتقٰکم”۱ ھو الاتقٰی فکان حاصل المقدمتین ان الصدیق اتقی وکل اکرم اتقی وھذا لیس من الشکل الاول فی شیئ ولا ثانیًاایضًالعدم الاختلاف فی الکیف وان عکستم الکبرٰی جاء ت جزئیۃ لاتصلح لکبرویۃ الشکل الاول فمفاد الاٰیتین لایضرنا ولاینفعکم ومن الشبھۃ ھی اللتی بلغنی عن بعض المفضلۃ عرضہاعلٰی بعض المتکلمین منا۔ الشبہۃ الثالثۃ: وھی تتعلق بالکبری من قیاس اھل السنۃ والجماعۃ ان المحمول فی قولہ تعالٰی “ان اکرمکم عند اللہ اتقٰکم”۱
ھو الاتقٰی فکان حاصل المقدمتین ان الصدیق اتقی وکل اکرم اتقی وھذا لیس من الشکل الاول فی شیئ ولا ثانیًاایضًالعدم الاختلاف فی الکیف وان عکستم الکبرٰی جاء ت جزئیۃ لاتصلح لکبرویۃ الشکل الاول فمفاد الاٰیتین لایضرنا ولاینفعکم ومن الشبھۃ ھی اللتی بلغنی عن بعض المفضلۃ عرضہاعلٰی بعض المتکلمین منا۔ تیسراشبہہ: اس کا تعلق اہلسنت وجماعت کے قیاس کے کبرٰی کے ساتھ ہے کہ اللہ تعالٰی کے قول”ان اکرمکم عنداللہ اتقٰکم”میں محمول الاتقی ہے ۔تو دونوں مقدموں کا حاصل یہ ہے ہوا کہ صدیق اتقٰی ہیں اور ہر اکرم اتقی ہے، اور یہ کسی طرح شکل اول کے قبیل سے نہیں اورشکل ثانی بھی نہیں اس لئے کہ کیف میں اختلاف نہیں ہے ، اوراگر کبرٰی کا عکس کردیا جائے اس صورت میں موجبہ جزئیہ ہوگا جو شکل اول کے کبرٰی بننےکے لائق نہیں،تو دونوں آیتوں کا مفاد ہمیں مضرنہیں اورتمہیں مفید نہیں،اوریہ وہی شُبہ ہے جس کے بارے میں مجھے خبر پہنچی کہ کسی تفضیلی نے ہمارے کسی عالم سے عرض کیا۔
(۱القرآن الکریم ۴۹/ ۱۳)
وانا اقول وباللہ التوفیق ما استخفہ تشکیکا واضعفہ دخلاًرکیکاًغلط ساقط باطل عاطل لایستحق الجواب ولکن اذا قیل وسئل فلا بدمن ابانۃ الصواب فاعلم ان اللطیف الخفی وفقنی لازھاق ھذا التلبیس الفلسفی باثنی عشر وجھا امھاتھا ثلثۃ وجوہ کل منھا یکفی ویشفی۔ اورمیں کہتاہوں اورتوفیق اللہ ہی سے ہے ، یہ کتنی سخیف تشکیک ہے اورکس قدر ضعیف اعتراض رکیک ہے جو غلط ہے ساقط ہے باطل و عاطل ہے جواب کا مستحق نہیں ، لیکن یہ جب کہا گیا اورپوچھا گیا تو صواب کو ظاہر کرنا ضروری ہے،اب تم جانو کہ اللہ لطیف خفی نے اس قید فلسفی کے قلع قمع کے لئے مجھے بارہ وجوہ سے توفیق بخشی ان بارہ کی اصل تین وجہیں ہیں ان میں سے ہر ایک کافی وشافی ہے ۔
الاول لو کان لہذا القائل علم بمحاورات القراٰن اوالحدیث اوبماروی العلماء فی شان النزول او التفسیر المرفوع الی جناب الرسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اوکلمات العلماء والائمۃ الفحول او رزق حظامن فھم الخطاب ودرک المفادوتنزیل الکلام علی الغرض المراد لعلم ان حمل الاکرم ھو المعتبروصدرالکلام بتصدیر الخبر وذٰلک لوجوہ اوقفنی اللہ تعالٰی علیہا بمنہ وعمیم کرمہ۔ پہلی یہ کہ اگر اس معترض کو قرآن وحدیث کے محاورات یا شان نزول میں علماء کی روایات جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف منسوب ومرفوع تفسیر یا علماء اورجلیل القدر ائمہ کے کلمات کا علم ہوتا یا نظم قرآن کی سمجھ اور مفاد ومعنی کی فہم اورکلام کوغرض مقصود پر رکھنے سے کچھ حصہ روزی ہوا ہوتاتو وہ جان لیتا کہ اکرم کو محمول بناناہی معتبر ہے تو کلام اس طرح صادر ہوا کہ اس میں تقدیم خبر ہے اوریہ دعوٰی چند دلیلوں سے ثابت ہے اس پر اللہ تبارک وتعالٰی نے مجھے اپنے احسان اورلطف عام سے مطلع کیا۔
فاقول اولاً کانت الجاھلیۃ تتفاخر بالانساب وتظن ان الانسب ھو الا فضل فجاء ت کلمۃ الاسلام بردکلمۃ الجاھلیۃ “ان اکرمکم عنداللہ اتقٰکم”۱
فالنزاع انما وقع فی موصوف الافضل لافی صفتہ وھذا کما اذا سأل سائل عن الذ الاطعمۃ فقال قائل الحامض الذ فنقول رداعلیہ الابل الذھا احلاھا فانما ترید ان الاحلی ھو الالذ والوجہ ان الاتقی فی الاٰیۃ کالاحلی فی قولک ھذہ مراٰۃ لملاحظۃ الذات والاکرم حکم علیہ کالالذوانما الخبرماحکم بہ لاماحکم علیہ ولقد دری من لہ قلیل ممارسۃ بکلام العرب ان الذھن اول ماتلقٰی الیہ امثال ھذا الکلا م لایسبق الا الی ان المراد مدح الاتقیاء والترغیب فی التقوی والوعد الجمیل بان من یتقی یکن کریمًا علینا عظیما لدینا وھٰکذا فھم المفسرون فہذا الزمخشری النکتۃ فی الادب الشامۃ فی معرفۃ کلام العرب یقول فی تفسیرہ “المعنی ان الحکمۃ التی من اجلھا رتبکم علٰی شعوب وقبائل ھی ان یعرف بعضکم نسب بعض فلایعتزی الٰی غیراٰبائہ ،لاان تتفاخروابالاٰباء والاجداد وتدعواالتفاوت و التفاضل فی الانساب، ثم بین الخصلۃ التی بھا یفضل الانسان غیرہ ویکتسب الشرف والکرم عنداللہ تعالٰی فقال ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم”وقرئ ان بالفتح کانہ قیل لایتفاخر بالانساب فقیل لان اکرمکم عنداللہ اتقاکم لاانسبکم ۱الخ وبمثلہ قال الامام النسفی فی المدارک۱۔ فاقول (میں کہتاہوں )اوًلا اہل جاہلیت نسبت پر فخر کرتے تھے اوروہ گمان کرتے تھے کہ جس کا نسب بہتر ہے وہی افضل ہے تو اسلام کا کلمہ جاہلیت کے بول کو رد کرتاہوا آیا ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم(بے شک اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والاوہ ہے جو سب سے بڑا پرہیزگارہے) تونزاع تو اس میں ہے کہ وصف اول کا موصوف کون ہے نہ کہ صفت افضل میں اوریہ ایسا ہی ہے جیسے کہ کوئی پوچھنے والاپوچھےکہ کھانوں میں سب سے مزیدارکھانا کون سا ہے ؟ تو کوئی کہے کہ الذھا اخلاھا(کٹھا سب سے زیادہ مزیدارہے) تو اس کا رد کرنے کےکوتم یوں کہو: نہیں بلکہ الذھااحلاھا(سب سے زیادہ مزیدار میٹھی چیزہے ) تو ہماری مراد یہی ہے کہ سب سے زیادہ میٹھا سب سے زیادہ مزیدار ہے ، اور وجہ یہ ہے کہ اس آیت میں اتقٰی تمارے اس قول “ذات کے ملاحظہ کیلئے یہ آئینہ ہے”میں احلی کی مثل ہے اوراکرم محکوم علیہ ہے جیسے الذ ۔ اورخبر تومحکوم بہ ہوتی ہے نہ کہ محکوم علیہ۔ اوربیشک وہ سمجھتاہے جسے کلام عرب سے تھوڑا ساسابقہ ہوکہ جیسے ہی ایسا کلام ذہن میں آتا ہے اس کی سبقت اسی طرف ہوتی ہے کہ مراد پرہیز گاروں کی تعریف اورتقوٰی کی رغبت دلاتاہے اوریہ وعدہ جمیل کہ جو تقوٰی اختیار کرے گا ہمارے یہاں عزت وکرامت والا ہوگا۔ اوراسی طرح مفسرین نے سمجھا تو یہ زمخشری جو ادب میں نکتہ کی مانند اورکلام عرب میں تِل کی مثال سے ہے اپنی تفسیر میں قائل ہیں بیشک وہ حکمت جس کی وجہ سے تمھاری ترتیب کنبوں اورقبیلوں پر رکھی وہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کا نسب جان لے۔ تو اپنے آباءواجداد کے سوا دوسرے کی طرف اپنی نسبت نہ کرے نہ یہ کہ تم آباء واجداد پر فخر کرو اورنسب میں فضیلت اوربرتری کا دعوٰی کر وپھر اللہ نے وہ خصلت بیان کی جس سے انسان دوسرے سے برتر ہوتاہے اوراللہ کے یہاں عزت وبزرگی کا اکتساب کرتاہے تو اللہ نے فرمایا ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم۔ اورایک قراء ت ان فتح ہمزہ کے ساتھ ہے گویا کہ کہا گیا ہے کہ نسبت پر فخر کیوں نہ کیا جائے ، تو بتایا گیا کہ اس وجہ سے کہ تم میں سب سے زیادہ عزت والا اللہ کے نزدیک وہ جو سب سے زیادہ پرہیزگارہے نہ وہ جو سب سے بڑے نسب والا ہوالخ اوراسی طرح امام نسفی نے مدارک میں فرمایا ۔
(۱القرآن الکریم۴۹ /۱۳)
(۱الکشاف تحت الآیۃ ۴۹/۱۳ دارالکتب العربی بیروت ۴/ ۳۷۵)
(۱مدارک التنزیل (تفسیر النسفی) تحت الآیۃ ۴۹/۱۳ دارالکتاب العربی بیروت۴/۱۷۳)
وانا اقول وباللہ التوفیق ما استخفہ تشکیکا واضعفہ دخلاًرکیکاًغلط ساقط باطل عاطل لایستحق الجواب ولکن اذا قیل وسئل فلا بدمن ابانۃ الصواب فاعلم ان اللطیف الخفی وفقنی لازھاق ھذا التلبیس الفلسفی باثنی عشر وجھا امھاتھا ثلثۃ وجوہ کل منھا یکفی ویشفی۔ اورمیں کہتاہوں اورتوفیق اللہ ہی سے ہے ، یہ کتنی سخیف تشکیک ہے اورکس قدر ضعیف اعتراض رکیک ہے جو غلط ہے ساقط ہے باطل و عاطل ہے جواب کا مستحق نہیں ، لیکن یہ جب کہا گیا اورپوچھا گیا تو صواب کو ظاہر کرنا ضروری ہے،اب تم جانو کہ اللہ لطیف خفی نے اس قید فلسفی کے قلع قمع کے لئے مجھے بارہ وجوہ سے توفیق بخشی ان بارہ کی اصل تین وجہیں ہیں ان میں سے ہر ایک کافی وشافی ہے ۔
الاول لو کان لہذا القائل علم بمحاورات القراٰن اوالحدیث اوبماروی العلماء فی شان النزول او التفسیر المرفوع الی جناب الرسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اوکلمات العلماء والائمۃ الفحول او رزق حظامن فھم الخطاب ودرک المفادوتنزیل الکلام علی الغرض المراد لعلم ان حمل الاکرم ھو المعتبروصدرالکلام بتصدیر الخبر وذٰلک لوجوہ اوقفنی اللہ تعالٰی علیہا بمنہ وعمیم کرمہ۔ پہلی یہ کہ اگر اس معترض کو قرآن وحدیث کے محاورات یا شان نزول میں علماء کی روایات جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف منسوب ومرفوع تفسیر یا علماء اورجلیل القدر ائمہ کے کلمات کا علم ہوتا یا نظم قرآن کی سمجھ اور مفاد ومعنی کی فہم اورکلام کوغرض مقصود پر رکھنے سے کچھ حصہ روزی ہوا ہوتاتو وہ جان لیتا کہ اکرم کو محمول بناناہی معتبر ہے تو کلام اس طرح صادر ہوا کہ اس میں تقدیم خبر ہے اوریہ دعوٰی چند دلیلوں سے ثابت ہے اس پر اللہ تبارک وتعالٰی نے مجھے اپنے احسان اورلطف عام سے مطلع کیا۔
فاقول اولاً کانت الجاھلیۃ تتفاخر بالانساب وتظن ان الانسب ھو الا فضل فجاء ت کلمۃ الاسلام بردکلمۃ الجاھلیۃ “ان اکرمکم عنداللہ اتقکم”۱
فالنزاع انما وقع فی موصوف الافضل لافی صفتہ وھذا کما اذا سأل سائل عن الذ الاطعمۃ فقال قائل الحامض الذ فنقول رداعلیہ الابل الذھا احلاھا فانما ترید ان الاحلی ھو الالذ والوجہ ان الاتقی فی الاٰیۃ کالاحلی فی قولک ھذہ مراٰۃ لملاحظۃ الذات والاکرم حکم علیہ کالالذوانما الخبرماحکم بہ لاماحکم علیہ ولقد دری من لہ قلیل ممارسۃ بکلام العرب ان الذھن اول ماتلقٰی الیہ امثال ھذا الکلا م لایسبق الا الی ان المراد مدح الاتقیاء والترغیب فی التقوی والوعد الجمیل بان من یتقی یکن کریمًا علینا عظیما لدینا وھٰکذا فھم المفسرون فہذا الزمخشری النکتۃ فی الادب الشامۃ فی معرفۃ کلام العرب یقول فی تفسیرہ “المعنی ان الحکمۃ التی من اجلھا رتبکم علٰی شعوب وقبائل ھی ان یعرف بعضکم نسب بعض فلایعتزی الٰی غیراٰبائہ ،لاان تتفاخروابالاٰباء والاجداد وتدعواالتفاوت و التفاضل فی الانساب، ثم بین الخصلۃ التی بھا یفضل الانسان غیرہ ویکتسب الشرف والکرم عنداللہ تعالٰی فقال ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم”وقرئ ان بالفتح کانہ قیل لایتفاخر بالانساب فقیل لان اکرمکم عنداللہ اتقاکم لاانسبکم ۱الخ وبمثلہ قال الامام النسفی فی المدارک۱۔ فاقول (میں کہتاہوں )اوًلا اہل جاہلیت نسبت پر فخر کرتے تھے اوروہ گمان کرتے تھے کہ جس کا نسب بہتر ہے وہی افضل ہے تو اسلام کا کلمہ جاہلیت کے بول کو رد کرتاہوا آیا ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم(بے شک اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والاوہ ہے جو سب سے بڑا پرہیزگارہے) تونزاع تو اس میں ہے کہ وصف اول کا موصوف کون ہے نہ کہ صفت افضل میں اوریہ ایسا ہی ہے جیسے کہ کوئی پوچھنے والاپوچھےکہ کھانوں میں سب سے مزیدارکھانا کون سا ہے ؟ تو کوئی کہے کہ الذھا اخلاھا(کٹھا سب سے زیادہ مزیدارہے) تو اس کا رد کرنے کےکوتم یوں کہو: نہیں بلکہ الذھااحلاھا(سب سے زیادہ مزیدار میٹھی چیزہے ) تو ہماری مراد یہی ہے کہ سب سے زیادہ میٹھا سب سے زیادہ مزیدار ہے ، اور وجہ یہ ہے کہ اس آیت میں اتقٰی تمارے اس قول “ذات کے ملاحظہ کیلئے یہ آئینہ ہے”میں احلی کی مثل ہے اوراکرم محکوم علیہ ہے جیسے الذ ۔ اورخبر تومحکوم بہ ہوتی ہے نہ کہ محکوم علیہ۔ اوربیشک وہ سمجھتاہے جسے کلام عرب سے تھوڑا ساسابقہ ہوکہ جیسے ہی ایسا کلام ذہن میں آتا ہے اس کی سبقت اسی طرف ہوتی ہے کہ مراد پرہیز گاروں کی تعریف اورتقوٰی کی رغبت دلاتاہے اوریہ وعدہ جمیل کہ جو تقوٰی اختیار کرے گا ہمارے یہاں عزت وکرامت والا ہوگا۔ اوراسی طرح مفسرین نے سمجھا تو یہ زمخشری جو ادب میں نکتہ کی مانند اورکلام عرب میں تِل کی مثال سے ہے اپنی تفسیر میں قائل ہیں بیشک وہ حکمت جس کی وجہ سے تمھاری ترتیب کنبوں اورقبیلوں پر رکھی وہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کا نسب جان لے۔ تو اپنے آباءواجداد کے سوا دوسرے کی طرف اپنی نسبت نہ کرے نہ یہ کہ تم آباء واجداد پر فخر کرو اورنسب میں فضیلت اوربرتری کا دعوٰی کر وپھر اللہ نے وہ خصلت بیان کی جس سے انسان دوسرے سے برتر ہوتاہے اوراللہ کے یہاں عزت وبزرگی کا اکتساب کرتاہے تو اللہ نے فرمایا ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم۔ اورایک قراء ت ان فتح ہمزہ کے ساتھ ہے گویا کہ کہا گیا ہے کہ نسبت پر فخر کیوں نہ کیا جائے ، تو بتایا گیا کہ اس وجہ سے کہ تم میں سب سے زیادہ عزت والا اللہ کے نزدیک وہ جو سب سے زیادہ پرہیزگارہے نہ وہ جو سب سے بڑے نسب والا ہوالخ اوراسی طرح امام نسفی نے مدارک میں فرمایا ۔
(۱القرآن الکریم۴۹ /۱۳)
(۱الکشاف تحت الآیۃ ۴۹/۱۳ دارالکتب العربی بیروت ۴/ ۳۷۵)
(۱مدارک التنزیل (تفسیر النسفی) تحت الآیۃ ۴۹/۱۳ دارالکتاب العربی بیروت۴/۱۷۳)
واقول ثانیاً القراٰن انما نزل لبیان الاحکام التی لایطلع علیہا الا اطلاع اللہ سبحٰنہ وتعالٰی کالنجاۃ والھلاک والکرامۃ والھوان والردوالقبول والغضب والرضوان لالبیان الامورالحسیۃ وکون الرجل تقیا اوفاجرا مما یدرک بالحس ففی جعل الاکرم موضوعاًکقلب الموضوع ولقد کان ھذا الوجہ من اول ماسبق الیہ فکری حین استماع الشبہۃ ثم فی اثناء تحریر الرسالۃ لما راجعت مفاتیح الغیب رأیت الفاضل المدقق تنبہ للشبہۃ ودندن فی الجواب حول ما اومانا الیہ حیث یقول”فان قیل الاٰیۃ دلت علٰی ان کل من کان اکرم کان اتقی”وذٰلک لایقتضی ان کل من کان اتقی کان اکرم،قلنا وصف کون الانسان اتقی معلوم مشاھد ووصف کونہ افضل غیر معلوم ولامشاھد والاخبار عن المعلوم بغیر المعلوم ھوالطریق الحسن،اما عکسہ فغیر مفید،فتقدیر الاٰیۃ کانہ وقعت الشبھۃ فی ان الاکرم عنداللہ من ھو؟ فقیل ھو الاتقٰی ،واذاکان کذٰلک کان التقدیراتقٰکم اکرمکم عنداللہ ۱انتہی۔ اقول ثانیًا قرآن تو ان احکام کے بیان کے لئے نازل ہوا ہے جن کا علم اللہ سبحٰنہ وتعالٰی کے اطلاع کئے بغیر نہیں ہوسکتا جیسے کہ نجات وہلاکت ، عزت وذلت اورمردودومقبول ہونا اور غضب ورضائے الہٰی ، یہ محسوسات کے بیان کے لئے نہیں اترااورآدمی کا پرہیزگاریامددگار ہونا ان باتوں سے ہے جن کاعلم احساس سے ہوتاہے تو اکرم کوموضوع بنانا قلب موضوع ہے اوربیشک یہ وجہ ان باتوں سے ہے جن کی طر ف میری فکر نے شبہ کو سن کر سبقت کی ، پھر اس رسالہ کی تصنیف کے دوران جب میں نے تفسیر”مفاتیح الغیب “دیکھی تو میں نے فاضل مدقق کو دیکھا کہ وہ اس شبہ کی طرف متنبہ ہوئے اورجواب میں جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا اس کے گرد مبہم کلام فرمایا اس لئے کہ وہ فرماتے ہیں پھر اگر کہا جائے کہ یہ آیت تو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ہر وہ شخص جو اکرم(بڑاعزت والا) ہوگا، اتقٰی(بڑا پرہیزگار) ہوگا،اوریہ اس بات کا مقتضی نہیں کہ ہر وہ شخص جو اتقی (بڑا پرہیزگار) ہو وہ اکرم(بڑاعزت دار) ہو ۔ ہم کہیں گے کہ انسان کا اتقی ہونا وصف معلوم ومحسوس ہے اورانسان کا افضل ہونا نہ وصف معلوم ہے اورنہ محسوس ۔ اورمعلوم کے بارے میں وصف غیر معلوم کے ذریعہ خبردینا،یہی بہتر طریقہ ہے ۔ رہا اس کا عکس ، تووہ مفید نہیں ۔ تو آیت میں عبارت مقدر ہے ، گویا کہ اس بارے میں شبہ ہوا کہ اللہ کے نزدیک اکرم کون ہے؟تو فرمایا گیا کہ اکرم اتقی ہے ، اورجب بات یوں ہے تو آیت کی تقدیر یوں ہوگی اتقٰکم اکرمکم عنداللہ (تم میں سب سے زیادہ پرہیزگاراللہ کے نزدیک تم سب میں عزت والا ہے )
(۱ مفاتیح الغیب (التفسیرالکبیر)تحت الآیۃ ۹۲/ ۱۷ المطبعۃ البہیۃ المصریۃ ۳۱/ ۲۰۵)
قلت ولعلک لایخفی علیک مابین التقدیرین من الفرق ومابین ھذا الوجہ ووجوھنا الباقیۃ من التفاوت العظیم “ذٰلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء”۲
والحمدللہ رب العٰلمین۔
قلت(میں کہتاہوں )اورشاید تم پرپوشیدہ نہ ہو وہ فرق جو دونوں تقدیروں میں ہے اوروہ عظیم تفاوت جو اس وجہ میں اورہماری باقی وجوہ میں ہے یہ اللہ کے فضل میں ہے جسے چاہتاہے دے دیتاہے ۔ اورسب تعریفیں اللہ کے لئے جو رب ہے جہان والوں کا۔
(۲ القرآن الکریم ۵/ ۵۴)
ثم اقول عسٰی ان یزعجک الوھم الصؤل فیلجئک ان تقوم تقول الیس التقوٰی من افعال القلوب،قال اللہ سبحٰنہ وتعالٰی “اولٰئک الذین امتحن اللہ قلوبھم للتقوٰی”۱
وقال تعالٰی “ومن یعظم شعائراللہ فانھا من تقوی القلوب”۲
وقال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم”التقوٰی ھٰھنا ، التقوٰی ھٰھنا، التقوٰی ھٰھنا،یشیرالٰی صدرہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔”اخرجہ مسلم۳ وغیرہ عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ وعنہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم “لکل شیئ معدن ومعدن التقوٰی قلوب العارفین”اخرجہ الطبرانی ۴ عن ابن عمروالبیہقی عن الفاروق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہما ، فکیف قلتم انھا من المحسوسات۔ ثم اقول (پھر میں کہتاہوں )قریب ہے کہ تمہیں وہم بے چین کرے پھر تمہیں مجبور کرے کہ تم کھڑے ہوکر یہ کہو کہ کیاتقوٰی افعال القلوب سے نہیں، اللہ سبحانہٗ وتعالٰی کا ارشاد ہے : “یہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لئے پرکھ لیا ہے۔”اوراللہ تعالٰی فرماتاہے : “اورجو اللہ کے نشانوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہے۔”اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “تقوٰی یہاں ہے، تقوٰی یہاں ہے، تقوٰی یہاں ہے ۔ حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ فرماتے تھے۔”اس حدیث کو مسلم وغیرہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا، اورحضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے مروی ہے :”ہر شے کے لئے کان ہے اورتقوٰی کی کان اولیاء کے دل ہیں۔”اس حدیث کو طبرانی نے ابن عمر سے اوربیہقی نے فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا، توآپ نے کیسے کہہ دیا کہ تقوٰی محسوسات سے ہے ۔
(۱القرآن الکریم ۴۹/ ۳)(۲القرآن الکریم۲۲/ ۳۲)
(۳صحیح مسلم کتاب البروالصلۃ باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی۲/ ۳۱۷)
(۴المعجم الکبیر حدیث ۱۳۱۸۵ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت۱۲/۳۰۳)
قلت بلٰی ان التقوٰی مقامہا القلب وعن ھذا قلنا ان الصدیق لما کان اتقی الامۃ باسرھا وجب ان یکون اعرفھاباللہ تعالٰی لکن القلب امیر الجوارح فاذ ااستولی علیہ سلطان شیئ اذعنت لہ الجوارح طرًا ولعمت علیہا آثارہ جہرًا وھذا مشاھد فی الحیاء والحزن والفرح والغضب وغیرذٰلک من صفات القلب قال المصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم “الا وان فی الجسد مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسد الجسد کلہ الا وھی القلب”اخرجہ الشیخان ۱ عن نعمان ابن بشیر رضی اللہ تعالٰی عنہ ، وقال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم”اذا رایتم الرجل یعتاد المسجد فاشہدوالہ بالایمان”اخرجہ احمد والترمذی والنسائی وابن ماجۃ وابن خزیمۃ وابن حبان والحاکم والبیہقی۲ عن ابی سعیدالخدری رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ قلت (میں جواب میں کہتاہوں ) ہاں بے شک تقوٰی کا مقام قلب ہے اوراسی وجہ سے ہم نے کہا کہ بے شک جب صدیق تمام امت سے زیادہ پرہیزگار ہوئے تو ضروری ہوا کہ وہ سب سے زیادہ اللہ کو جاننے والے ہوں لیکن قلب اعضاء کا امیر ہے ، تو جب قلب پر کسی شے کا سلطان غالب ہوتاہے تو تمام اعضاء اس کے تابع ہوجاتے ہیں اوراعضاء پراس کے آثارصاف جھلکتے ہیں اورحیاء وغم، خوشی وغضب وغیرہ صفات قلب میں اس کا مشاہدہ ہوتاہے مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : “خبردار! بیشک جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جب وہ سدھرتاہے پوراجسم سدھر جاتاہے اورجب وہ بگڑتا ہے تو پوراجسم بگڑجاتا ہے ، سنتے ہو وہ قلب ہے ۔”اس حدیث کو بخاری ومسلم نے نعمان ابن بشیررضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا اورحضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم آدمی کو مسجد میں آنے جانے کا عادی پاؤتواس کے مومن ہونے کی گواہی دو۔””اس حدیث کو امام احمد، ترمذی، نسائی،ابن ماجہ،ابن خزیمہ، ابن حبان،حاکم وبیہقی نے ابو سعیدخدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔
(۱صحیح البخاری کتاب الایمان باب فضل من استبراء لدینہ قدیمی کتب خانہ کراچی۱/ ۱۳)
(صحیح مسلم کتاب المساقات باب اخذ الحلال وترک الشہبات قدیمی کتب خانہ ۲/ ۲۸)
(۲ جامع الترمذی کتاب التفسیرتحت الآیۃ ۹/ ۱۸ امین کمپنی دہلی ۲/ ۱۳۵)
(سنن ابن ماجۃ کتاب المساجدوالجماعات باب لزوم المساجدالخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۵۸)
(مسند احمد بن حنبل عن ابی سعید الخدری المکتب الاسلامی بیروت ۳/ ۶۸)
(المستدرک للحاکم کتاب الصلوٰۃ بشرالمشائین فی الظلم الی المساجدالخ دارالفکر بیروت ۱/۲۱۲)
(السنن الکبرٰی کتاب الصلوٰۃ باب فضل المساجد الخ دارصادر بیروت ۳/ ۶۶)
(مواردالظمان الی زوائدالظمان باب الجلوس فی المسجدبالخیر حدیث ۳۱۰ المطبعۃ السلفیہ ص۹۹ )
اقول ثالثاکل ماذکر فی شان النزول فانما یستقیم ویطابق التنزیل اذا کان الموضوع ھو الاتقٰی۔ اما اذا عکس فلایتاتی ولایاتی الرمی علی المرمی، اما روایۃ یزید بن شجرۃ فطریق الاستدلال فیہا انکم استحقرتم ھذا العبدلانہ عبداسود فقلتم عادذلیلاًوحضرجنازۃ ذلیل لکنہ عندناکریم جلیل اذکان متقیا والفضل عندنا بالتقوٰی فمن کان تقیا کان کریما عندنا وان کان عبدا اسود اجدع۔ وھذا الطریق ھو المفہوم من الاٰیۃ عند کل من لہ ذوق سلیم، اما علی ما زعمتم فیکون حاصل استدلال اللہ سبحٰنہ وتعالٰی انہ کان کریما وکل کریم متق فلذا اعادہ نبینا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وحضر دفنہ، وھذاالطریق کما تری اذا کان ینبغی الاستدلال الاستدلال بامر مسلم عندھم یستلزم مالم یسلموہ کالتقوٰی علٰی تقریرنا۔ اقول ثالثا جو کچھ آیت کریم کے شان نزول میں مسطور ہوا وہ تو اسی وقت راس آتا ہے اورتنزیل کے مطابق ہوتا ہے جب آیت کریمہ میں اتقی ہی موضوع ہو ۔ رہی وہ صورت جب اس کا عکس کردیں تو بات نہیں بنتی،ہر تیر نشانے پر نہیں بیٹھتا۔ رہی یزید ابن شجرہ کی روایت تو اس میں استدلال کا طریقہ یہ ہے کہ اے لوگو! تم نے غلام کو حقیر جانا اس لئے کہ سیاہ فام غلام ہے تو تم نے اعتراض کیا کہ ذلیل کی عیادت کی ذلیل کے جنازہ میں حاضر ہوئے، لیکن وہ غلام ہمارے نزدیک باعزت جلیل القدر ہے اس لئے کہ وہ متقی تھا اورہمارے یہاں بزرگی تقوٰی سے ہے تو جو متقی ہوگا ہماری بارگاہ میں عزت والا ہوگا اگرچہ کالانکٹاغلام ہو۔ اورآیت سے ہر ذوق سلیم والے سے یہی طریق استدلال مفہوم ہوتا ہے ،اور تمہارے زعم پر اللہ تبارک وتعالٰی کے استدلال کا حاصل یوں ہوگا کہ وہ بے شک عزت والا تھااورہر عزت والا متقی ہے اسی لئے تو ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس کی عیادت کی اوراس کے دفن میں شریک ہوئے۔ اوریہ طریق استدلال جیسا ہے تمہیں معلوم ہے اس لئے کہ دلیل لانا ایسے امر سے چاہئے تھا جو کفار کو مسلم ہوا اورجو اس کو مستلزم ہو جس کو وہ تسلیم نہیں کرتے جیسے تقوٰی ہماری تقریرپر۔
واما الکرامۃ فلم تکن ثابتۃ عندھم والالما قالو ماقالوا،علی ان المقدمۃ المذکورۃ فی الاٰیۃ تبقی ح عبثًاوالعیاذباللہ تعالٰی فان الرد علیھم تم بالمطویۃ القائلۃ انہ رجل کریم عنداللہ تعالی وبعد ذٰلک ای حاجۃ الی ان یقال کل کریم متق،اذلم یکن نزاعھم فی التقوٰی بل فی الکرم ۔ وبالجملۃ یلزم اخذالمدعی صغری واستنتاج مالیس بمدعی وھٰکذا یجری الکلام فی روایۃ مقاتل واستحقارقریش سیدنا عتیق العتیق اعتقنا اللہ بھما من عذاب الحریق، اٰمین۔ رہی عزت (اس سیاہ فام غلام کی ) کافروں کے نزدیک ثابت ہی نہ تھی ورنہ یہ کافر وہ کچھ نہ کہتے جو انہوں نے کیا۔ علاوہ ازیں وہ مقدمہ جو اس آیت میں ذکر ہوا اس تقدیر پر عبث ٹھہرے گا والعیاذباللہ ، اس لئے کہ کفار پررَد تواس قضیۂ مطوعیہ(پوشیدہ)سے تام ہولیا جس میں یہ دعوٰی ہے کہ وہ غلام ، اللہ کے نزدیک باعزت ہے ۔ اس کے بعد کون سی حاجت ہے کہ کہاجائے کہ ہر کریم ، متقی ہے ا س لئے کہ کافروں کا نزاع تقوٰی میں نہ تھا بلکہ کرامت میں تھا۔ بالجملہ اس تقدیرپرلازم آتاہے کہ مدعا صغری ہو اورنتیجہ وہ نکلے جو مدعا نہیں اوریونہی کلام روایت مقاتل میں اورقریش کی جانب سے سیدنا عتیق العتیق(حضرت ابوبکررضی اللہ تعالٰی عنہ کے غلام حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ)کی تحقیرمیں جاری ہوگا۔ اللہ تبارک وتعالٰی ہمیں ان دونوں کے صدقے میں جہنم کے عذاب سے آزاد فرمائے امین۔
ولنقرربعبارۃ اخری قال “کل جدید لذیذ”کان طریق استدلالھم علٰی حقارتہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بانہ عبد ولاشیئ من العبدکریمًافہو لیس بکریم والاٰیۃ نزل فی الردعلیھم فلابدمن نقض احدی المقدمتین من قیاسہم لکن الصغرٰی لامردلہا،فتعین ان الاٰیۃ انما تبطل الکبرٰی باثبات نقیضہا، وھو ان بعض العبیدکریم ولا یمکن اثباتہ الا علی طریقتنا بان نقول بعض العبید یتقی اللہ تعالٰی ومن یتقی اللہ تعالٰی فھو کریم ، اما علٰی طریقتکم فی اصل المقدمتین ان بعض العبید متق وکل کریم متق وھذا ھو القیاس الذی انتم دفعتموہ وھکذا یتمشی التقریرفی روایۃ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما بکلا الوجہین۔ اورہم بلفظ دیگر تقریر کریں اس لئے کہ “کل جدید لذیذ”، کفار کا طریق استدلال حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حقارت پر بایں طور تھاکہ وہ غلام ہیں اورکوئی غلام عزت والا نہیں ہوتا،تو عزت والے نہیں،اوریہ آیت کفارکے رد میں اُتری لہذا ان کے قیاس میں دومقدموں میں سے ایک کا نقض ضروری ہے لیکن صغرٰی کا رد نہیں ہوسکتا۔ اب متعین ہوا کہ آیت کبرٰی کا ہی ابطال کرتی ہے اس کی نقیض کے اثبات کے ذریعہ اورکفار کے کبرٰی کی نقیض یہ ہے کہ بعض غلام باعزت ہیں اور اس کا ثابت کرنا ممکن نہیں مگر ہمارے طریقے پر بایں طور کہ ہم کہیں بعض غلام، اللہ تبارک وتعالٰی سے ڈرتے ہیں اورجو اللہ سے ڈرتاہے وہی عزت والاہے ۔رہا اصل مقدمتین میں تمہارے طریقے پر یہ قیاس کہ بعض غلام متقی ہیں اورہر عزت والا متقی ہے تو یہ وہی قیاس ہے جس کو تم دفع کرچکے ۔ اور یونہی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کی روایت میں دونوں وجوہ کے ساتھ یہ تقریر چلے گی۔
ولنقررہ بعبارۃ ثالثۃ استحقر ثابت بن قیس رضی اللہ تعالٰی عنہ بعض اھل المجلس بقولہ یاابن فلانۃ ای یادنی النسب فرداللہ سبحٰنہ وتعالٰی علیہ بانک ان زعمت ان بعض الادانی فی النسب لایکون کریمًا فقولک ھذا صادق لکن علام استحقرت ھذا بخصوصہ اذیجوز ان لایکون ھذا من ذٰلک البعض وان ارد ت السلب الکلی فباطل قطعاً، اذلوصدق لصدق ان بعض المتقین لیس کریمًا لان بعضہم دنی النسب فلم یکن کریماًعندک لکن التالی باطل لصدق نقیضہ وھو ان کل متق کریم فالمقدم مثلہ، ھذا علٰی طریقتنا اما علی طریقتکم فالمقدمۃ الا ستثنائیۃ ان کل کریم متق وھو لایرفع اللازم فلا یرفع الملزوم اتقن ھذا فان الفیض مدرار۔والحمدللہ ۔ اورہم تقریرمدعا تیسری عبارت سے کریں حضرت ثابت ابن قیس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بعض اہل مجلس کی تحقیرانہیں ، “یا ابن فلانہ”(اے فلانی کے بیٹے)کہہ کر کی یعنی اے نسب میں کمتر،تو اللہ تبارک وتعالٰی نے ان کا رد یوں فرمایاکہ تمہارا گمان یہ ہے کہ کچھ کمتر نسب والے شریف نہیں ہوتے تو تمہاری یہ بات سچی ہے لیکن تم نے خاص اس شخص کو کس بنیاد پر حقیر جانا؟ اس لئے کہ ممکن ہے کہ یہ ان بعض میں سے نہ ہو اوراگرتمہاری مراد سلب کلی ہے تو یہ قطعًاباطل ہے اس لئے کہ اگر یہ صادق ہو تو یقینًایہ صادق ہوگا کہ بعض متقی شریف نہیں اس لئے کہ ان میں کے بعض نسب میں کمتر ہیں تو تمہارے نزدیک شریف نہ ہوں گے لیکن تالی باطل ہے اس لئے کہ اس کی نقیض صادق ہے اوروہ یہ کہ ہر متقی کریم ہے تو مقدم بھی اس کی طرح باطل ہے یہ ہمارے طریقے پر ہے لیکن تمہارے طریقے پر تو مقدمہ استثنائیہ(عہ) یہ ہے کہ ہر شریف متقی ہے اور یہ لازم کو مرتفع نہیں کرتا تو ملزوم کو بھی مرتفع نہ کرے گا۔ اس تقریر کو خوف ضبط کرلو اس لئے کہ فیض (کادریا) زوروں پر ہے ، اورتمام خوبیاں اللہ ہی کی ہیں ۔
عہ: مقدمہ استثنائیہ کو قیاس استثنائی بھی کہا جاتاہے ، اورقیاس استثنائی وہ ہے جس میں نتیجہ یا اس کی نقیض بالفعل مذکورہو جیسے ہمارا یہ کہنا کہ “یہ اگر جسم ہے تو متحیز ہے”لیکن وہ جسم ہے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ متحیز ہے اوریہی بعینہ قیاس یعنی مقدمہ میں مذکورہے اورنقیض کی مثال یہ کہ وہ متحیز نہیں تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ جسم نہیں اوراس کی نقیض کہ وہ جسم ہے مقدمہ میں مذکور ہے۔ (تعریفات جرجانی ص۱۵۹)
اقول رابعًا الاحادیث التی جات تفسیرا الاٰیۃ اوترد موردمشرعہا اوتلحظ ملحظ منزعہا انما تعطی ماذکرنا من المفاد وتابی عما بغیتم من الافساد ومنھا ماانبانا المولی السراج عن الجمال عن عبداللہ السراج ح وعالیًابدرجۃ عن ابیہ عبداللہ السراج عن محمد بن ھاشم ح ومساویاللعالی عن الجمال عن السندی ح وشافعھنی عالیا بدرجتین سیدی جمل اللیل عن السندی کلاھما عن صالح العمری باسانیدہ الامامین الجلیلین بسندھما الٰی سیدنا ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ قال سئل رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ای الناس اکرم، فقال اکرمھم عند اللہ اتقٰیھم۱۔ اقول رابعًا وہ احادیث جو اس آیت کی تفسیر کرتی ہے یا اس کے گھاٹ کے راستے پر چلیں یا اس جگہ اشارہ کرتی ہیں جہاں سے اس کا تیر کھینچا وہ تو وہی مفاد دیتی ہیں جو ہم نے ذکر کیا اوراس فساد انگیزی سے انکار کرتی ہیں جو تم نے چاہا منجملہ ان حدیثوں کے یہ ہے کہ جس کی خبر ہمیں مولٰی سراج نے دی وہ روایت کرتے ہیں جمال سے وہ روایت کرتے ہیں عبداللہ سراج سے (ح ) نیز ہم نے سراج سے یہ حدیث ایک درجہ عالی سند سے روایت کی وہ روایت کرتے ہیں اپنے باپ عبداللہ سراج سے وہ روایت کرتے ہیں محمد بن ہاشم سے (تحویل) نیز اس سند سے اس روایت کی جو سند عالی کے مساوی ہے انہوں نے روایت کی جمالی سے وہ روایت کرتے ہیں سندی سے اور میرے اوپر دو درجہ عالی سند سے اس حدیث کو مجھ سے روایت کیا سید ی جمل اللیل نے وہ روایت کرتے ہیں سندی سے دونوں نے روایت کی صالح عمری سے ان امامین جلیلین (بخاری ومسلم)کی اسانید کے ساتھ ان دونوں اماموں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت فرمایا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے سوال ہوا : لوگوں میں سب سے زیادہ عزت والا کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا اللہ کے نزدیک سب لوگوں سے بڑھ کر عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگارہے۔
(۱صحیح البخاری کتاب التفسیر سورۃ یوسف قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۶۷۹)
(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل یوسف علیہ السلام قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۲۶۸)
اقول انظرالٰی اٰثاررحمۃ اللہ کیف یوضح المحجۃ ولا یدع لاحد حجۃ انما سئل المصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بان ای الناس اکرم ای من الموصوف بہ لا ان الاکرم ماھو بای نعت یزھو فاجاب الاٰیۃ الکریمۃ فلو لا ان الاتقی ھو الموضوع لما طابق الجواب السوال وعلیک بتزکیۃ الخیال ومن تمام نعمۃ اللہ تعالٰی ان فسرالشراح الحدیث بما یعین المراد ویقطع کل وھم یراد۔ اقول (میں کہتاہوں) اللہ تبارک وتعالٰی کی رحمت کے آثاردیکھو راستہ کو کس طرح واضح کرتاہے یہ کسی کے لئے حجت نہیں چھوڑتامصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے تویوں سوال ہوا تھا کہ کون سا شخص سب سے زیادہ عزت والا ہے یعنی اس وصف سے کون موصوف ہے یہ سوال نہ ہوا تھا کہ “اکرم کی ماہیت کیاہے۔”اکرم”(سب سے زیادہ عزت والا ) اورکون سے وصف پر ناز کرتاہے ، تو سرکارنے آیۃ کریمہ سے جوا ب دیا تو اگر بات یہ نہ ہوتی کہ اتقی(سب سے بڑا پرہیزگار) ہی موضوع ہے تو جواب سوال کے مطابق نہ ہوتا اس پر خیال کا تزکیہ ہے ، اوراللہ تبارک وتعالٰی کی نعمت کی تمامی سے یہ ہے کہ حدیث کے شارحین نے اس کی تفسیراس جملہ سے کردی جو مرادکو متعین کردیتا ہے اوروہم کا قاطع ہے ۔
قال العلامۃ المناوی”اکرم الناس اتقہم لان اصل الکرم کثرۃ الخیر”فلما کان المتقی کثیر الخیر فی الدنیا ولہ الدرجات العلٰی فی الاٰخرۃ کان اعم الناس کرما فھو اتقٰھم ۱، انتہی۔ اس میں علامہ مناوی کا ارشاد ہے : اکرم الناس اتقاھم (سب لوگوں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگارہے) اس لئے کہ کرم اصل میں کثرت خیرہے،توجب متقی دنیا میں خیر کثیر والا ہے اورآخرت میں اس کے درجے بلند ہوں گے ، توسب سے زیادہ کرم والا وہی ہے جوسب سے زیادہ تقوٰی والا ، انتہی ۔
(۱التیسیرشرح الجامع الصغیر تحت الحدیث اکرم الناس اتقاھم مکتبۃ الاما م الشافعی ۱/۲۰۳)
انظر این ذھبت شبھتک الواھیۃ فہل تری لہا من باقیۃ، ومنہا ماانبانا المولٰی عبدالرحمن عن الشریف محمد بن عبداللہ کما مضی عن علی بن یحٰیی الزیادی عن الشہاب احمد بن محمدالرملی عن الامام ابی الخیر السخاوی عن العزعبدالرحیم بن فرات عن الصلاح بن ابی عمر عن الفخربن البخاری عن فضل اللہ ابی سعید التوقانی عن الامام محی السنۃ البغوی انا ابوبکر بن ابی الہیثم انا عبداللہ بن احمد بن حمویۃ انا ابراھیم بن خزیم ثناعبداللہ بن حمید انا الضحاک بن مخلد عن موسٰی بن عبیدۃ عن عبداللہ بن دینارعن ابن اعمر ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم طاف یوم الفتح علی راحلتہ یستلم الا رکان بمحجتہ فلما خرج لم یجد مناخاً فنزل علی ایدی الرجال ثم قام فخطبھم فحمداللہ واثنی علیہ، وقال الحمدللہ الذی اذھب عنکم غبیۃ الجاھلیۃ وتکبرھابآبائھاانما الناس رجلان بر تقی کریم علی اللہ وفاجر شقی ھیّن علی اللہ ثم تلا “یا ایھا الناس انا خلقنٰکم من ذکر وانثٰی “ثم قال اقول قولی ھذا واستغفراللہ لی ولکم۱۔ دیکھوتمہارا واہی شبہہ کہاں گیا، اب اس کا کچھ نشان دیکھتے ہو۔ اوراز انجملہ وہ حدیث ہے جس کی ہمیں خبر دی مولٰی عبدالرحمن نے، انہوں نے روایت کی سید محمد بن عبداللہ سے ، جیسا کہ گزرا ، اوروہ روایت کرتے ہیں علی بن یحیٰی زیادی سے، وہ روایت کرتے ہیں شہاب احمد بن محمد رملی سے ، وہ روایت کرتے ہں امام ابوالخیر سخاوی سے، وہ روایت کرتے ہیں ، عز عبدالرحیم بن فرات سے، وہ روایت کرتے ہیں صلاح بن ابی عمر سے، وہ روایت کرتے ہیں فخر ابن بخاری سے ، وہ روایت کرتے ہیں فضل اللہ ابو سعید توقانی سے، وہ روایت کرتے ہیں امام ابی السنۃ بغوی سے ، وہ فرماتے ہیں ہمیں خبر دی ابو بکر ابن ابی ہیثم نے عبداللہ ابن احمد ابن حمویہ سے، وہ فرماتے ہیں ہمیں خبر دی ابراہیم ابن خزیم نے ، ہم سے حدیث بیان کی عبداللہ ابن حمید نے، ہمیں خبر دی ضحاک ابن مخلدنے ، وہ روایت کرتے ہیں اس کو موسٰی ابن عبیدہ سے ، وہ روایت کرتے ہیں عبداللہ بن دینار سے، وہ روایت کرتے ہیں حضرت ابن عمر سے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ ولسم نے فتح مکہ کے دن اپنی سواری پر طواف کیا، ارکان کعبہ کا بوسہ اپنے عصائے مبارک سے لیتے تھے، تو جب باہر تشریف لائے تو سواری کو ٹھہرانے کی جگہ نہ پائی تو لوگوں میں سواری سے اتر گئے پھرکھڑے ہوکر خطبہ دیا اور اللہ تبارک وتعالٰی کی حمد وثناء کی اورفرمایا: اللہ کے لئے حمد جس نے تم سے جاہلیت کا گھمنڈ اورآباو اجدادکا غرور دورکیا۔ لوگوں میں دو قسم کے مرد ہیں،ایک نیک متقی اللہ کے یہاں عزت والا،دوسرا بدکار ، بدبخت، اللہ کی بارگاہ میں ذلیل ،پھر یہ آیت پڑھی: “اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اورایک عورت سے پیداکیا”، پھر فرمایا : “میں یہ بات کہتاہوں اوراللہ سے اپنے لئے اورتمہارے لئے مغفرت چاہتاہوں۔”
(۱ معالم التنزیل (تفسیر البغوی )تحت الآیۃ ۱۳/۴۹دارالکتب العلمیۃ بیروت۴/ ۱۹۶)
اقول انظر کیف قسم المصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الخلق الٰی قسمین برتقی ووصفھم بالکرم وفاجر شقی ووصفھم بالہوان وھذا صریح فیما قلنا۔ اقول دیکھو مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مخلوق کو دو قسم کیا، ایک نیک، پرہیزگار، اوران کو عزت سے موصوف کیا۔ اوردوسرے بدکار،بدبخت، اورانہیں ذلیل بتایا ۔ اوریہ ہمارے دعوٰی کی صریح دلیل ہے ۔
ومنہا مااخرج ابن النجار والرافعی عن ابن عمر عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم من دعائہ: “اللھم اغننی بالعلم وزینی بالحلم واکرمنی بالتقوٰی وجملنی بالعافیۃ۔”۲ قال المناوی اکرمنی بالتقوی لاکون من اکرم الناس علیک ان اکرمکم عنداللہ اتقٰکم ۳اھ۔ ان احادیث میں سے ایک وہ ہے جس کی تخریج ابن نجار اوررافعی نے کی سیدنا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ، نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی دُعا کے یہ کلمات مروی ہے ہیں : “اے اللہ !مجھ علم کے ساتھ غنا،حلم کے ساتھ زینت ، تقوٰی کے ساتھ اکرام اورعافیت کے ساتھ جمال عطافرما۔ “مناوی نے (دعا کا مطلب بیان کرتے ہوئے )کہا: “مجھے تقوٰی کے ساتھ اکرام عطافرما تاکہ میں تیرے یہاں سب سے زیادہ عزت پانے والے لوگوں میں سے ہوجاؤں (بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے )اھ
(۲کنزالعمال بحوالہ ابن النجارحدیث ۳۶۶۳ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۲/ ۱۸۵و۲۰۲)
(الجامع الصغیر حدیث ۱۵۳۲ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/۹۶)
(۳التیسیرشرح الجامع الصغیرتحت الحدیث اللہم اغننی بالعلم الخ مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۱/ ۲۲۱)
اقول والوجہ حذف من وکانہ اراد ماترید الامۃ عند الدعاء بہ تاسیابالنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔ میں کہتاہوں صحیح یہ ہے کہ لفظ من کو حذف کیا جائے ۔ گویا اس کی مراد وہ ہے جس کا ارادہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی پیروی میں دعا کرتے ہوئے امت کرتی ہے ۔
ومنہا ما اورد الزمخشری فی الکشاف ثم الامام النسفی فی المدارک عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم من سرہ ان یکون اکرم الناس فلیتق اللہ ۱اھ۔ وھذا ابین واجلی۔ من جملہ ان حدیثوں میں سے یہ حدیث ہے جسے زمخشری نے کشاف میں پھر امام نسفی نے مدارک میں نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ذکر کیا فرمایا: جس کی یہ خوشی ہوکہ وہ سب لوگوں سے زیادہ عزت والاہو تو اللہ تعالٰی سے ڈرے ۔ اوریہ ظاہرترہے ۔
(۱ الکشاف تحت الآیۃ ۴۹/ ۱۳ دارالکتاب العربی بیروت ۴/ ۳۷۵)
(مدارک التنزیل (تفسیر النسفی)تحت الآیۃ ۴۹/ ۱۳ دارالکتاب العربی بیروت۴/ ۱۷۳)
واقول خامسا العلماء مافھموا من الاٰیۃ الا مدح المتقین ولم یزالوا محتجین بہا علٰی فضیلۃ التقوی واھلہا فلو کان الامرکمازعمتم لا ندحض ھذہ التمسکات بحذ افیرھا ، اذ لما کان المعنی ان کل کریم متق وھو لایستلزم ان کل متق کریم فای مدح فیہ للمتقین وبم ذا یفضلون علی الباقین، الاتری ان کل کریم انسان وحیوان وجسمان ولا یکون بھذا کل فرد من ھٰؤلاء محمودا فی الدین۔ اقول خامساعلماء نے اس آیت سے متقی لوگوں کی تعریف ہی سمجھی اوراس آیت سے تقوٰی اوراہل تقوٰی کی فضیلت پردلیل لاتے رہے ، تو اگر معاملہ یوں ہوتاجیسا کہ تمہارا گمان ہے تو یہ تمام استدلال سرے سے باطل ہوجاتے اس لئے کہ جب معنی یہ ٹھہرے کہ ہر کریم متقی ہے اوریہ اس کومستلزم نہیں کہ ہر متقی کریم ہوتو اس میں پرہیزگاروں کے لئے کون سی تعریف ہے اورپرہیزگاردوسروں سےکس وصف سے برترہوں گے کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہر کریم انسان، حیوان اورجسم ہے اوراس کے ساتھ ان تینوں میں سے ہر فرد محمود نہیں ہوتا۔
فان قلت ان التقوی وصف خاص بالکرماء فلھذا استحق الثناء بخلاف ما ذکرتم من الاوصاف ۔ فان قلت (تواگر تم کہو کہ ) بے شک تقوٰی کریموں کے ساتھ خاص ہے لہذا یہ وصف تعریف کا مستحق ہے بخلاف ان اوصاف کےجو آپ نے ذکر کئے۔
قلت الاٰن اتیت الی ابیت فان التقوٰی اذا اختص بھم ولم یوجد فی غیر ھم وجب ان یکون کل متق کریماً وفیہ المقصود قال المولی الفاضل الناصح محمد افندی الرومی البرکلی فی الطریقۃ المحمدیۃ بعد ماسرد الآیات فی فضیلۃ التقوٰی فتأمل فیما کتبنا من الآیات الکریمۃ کیف کان المتقی عنداللہ تعالٰی اکرم۱ انتہٰی ۔ قلت (میں کہوں گا) اب تم اسی بات پر آگئے جس کا تم نے انکار کیا تھا اس لئے کہ تقوٰی جب کریموں کے ساتھ خاص ہے دوسروں میں نہیں پایاجاتا تو ضروری ہے کہ ہر متقی کریم ہواوریہی ہمارامقصود ہے ۔ مولٰی فاضل ناصح محمد آفندی رومی برکلی طریقہ محمدیہ میں تقوٰی کی فضیلت میں آیات ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں تو ان آیات کریمہ میں غور کرو جو ہم نے لکھیں کیونکہ متقی اللہ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ کریم ٹھہرا۔
(۱الطریقۃ المحمدیۃ الباب الثانی الفصل الثالث مکتبہ حنفیہ کوئٹہ ۱/ ۱۲۹)
قال المولی الشارح العارف باللہ سیدی عبدالغنی النابلسی فی شرحھا الحدیقۃ الندیۃ اشارۃ الی الاٰیۃ الاولٰی من قولہ تعالٰی “ان اکرمکم عنداللہ اتقٰکم”۲انتہٰی۔ کتاب مذکورکے شارح مولا عارف باللہ سیدی عبدالغنی نابلسی اس کی شرح حدیقہ ندیہ میں فرماتے ہیں مصنف کا اشارہ پہلی آیت یعنی اللہ تعالٰی کے قول “ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم”کی طرف ہے ۔
(۲لحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقۃ االمحمدیۃ الفصل الثالث مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۱/۴۱۰)
واقول سادسا الی یا موفق تحقیق بالقبول احق اخرج الامام احمد والحاکم والبیہقی عن ابی ھریرۃ عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کرم المرء دینہ ومروتہ عقلہ وحسبہ خلقہ ۱ واخرج ابن ابی الدنیا فی کتاب الیقین عن یحیٰی بن ابی کثیر مرسلاً ینمیہ الی المصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم”الکرم التقوٰی والشرف التواضع۲ واخرج الترمذی محمد بن علی الحکیم عن جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما یرفعہ الی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم “الحیاء زینۃ والتقی کرم”۳ واقول سادسا اے توفیق والے میری طرف آ،یہ ایک تحقیق ہے جو قبو ل کی سزاوار ہے ، امام احمد ، حاکم اوربیہقی نےحضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حدیث روایت کی انہوں نے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کیا:” آدمی کی عزت اس کا دین ہے اوراس کی مروت اس کی عقل ہے اوراس کا خلق۔”اورابن ابی الدنیا نے کتاب الیقین میں یحیٰی بن ابی کثیر سے بسند مرسل روایت کیادرآنحالیکہ اس حدیث کی نسبت نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف کرتے تھے کہ فرمایا : “کرم ، تقوٰی ہے اورشرف تواضع ہے ۔”اورترمذی محمد ابن علی الحکیم نے جابر ابن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا درانحالیکہ اس کو نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف مرفوع کرتے تھے کہ فرمایا : “حیاء زینت ہے اور تقوٰی کرم ہے ۔”
(۱مسند احمد بن حنبل عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۲/ ۳۶۵)
(المستدرک للحاکم کتاب العلم کرم المومن دینہ الخ دارالفکر بیروت ۱/۱۲۳)
المستدرک للحاکم کتاب النکاح الحسب والمال والکرم الخ دارالفکر بیروت ۲/۱۶۳)
(السنن الکبرٰی کتاب النکاح باب اعتبارالیسارفی الکفاء ۃ دارصادربیروت ۷/۱۳۶)
(السنن الکبرٰی کتاب الشہادات باب بیان مکارم الاخلاق الخ دارصادر بیروت ۱۰/۱۹۵)
(۲کتاب الیقین من رسائل ابن ابی الدنیا حدیث ۲۲ مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ بیروت ۱/۲۸)
(۳نوادارلاصول فی معرفۃ احادیث الرسول الاصل السادس والخمسون والمائۃ دارصادر بیروت ص۲۰۰)
انظر الی الاحادیث ما اجلاھا وافصحہا واحلہا واملحا انظر الٰی قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مروتہ عقلہ فانما وصف العقل بالمروۃ لاالمروۃ بالعقل وکذاقولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم “حسبہ خلقہ والشرف التواضع”فانما حکم علی الخلق بانہ الحسب وعلی التواضع بانہ الشرف حسما لما یدعیہ المدعون من ان المال ھو الشرف ، ولذا ان قال قائل ان الحسب خلق والمروۃ عقل والشرف تواضع لم یقبل قولہ منہ، وان عکس قبل فھکذا فی الفقر تین اعنی قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الکرم التقوٰ ی وکرم المرء دینہ۔ احادیث کو دیکھو کس قدر روشن اورکتنی فصیح ہیں اورکیسی شیریں اورکیسی ملیح ہیں۔ نبی صلی اللہ تعالٰیی علیہ وسلم کا یہ قول کہ آدمی کی مروت اس کی عقل ہے۔دیکھو تو معلوم ہوگا کہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے عقل ہی کو مروت سے موصوف کیا اوراسی طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا قول”آدمی کا حسب اس کا خُلق ہے اورشرف تواضع ہے ” تو اس لئے کہ خُلق پر حکم لگایا کہ وہ حسب ہے اورتواضع پر حکم فرمایا کہ وہی شرف ہے مدعیوں کے دعوے کو رد کرنے کے لئے کہ مال ہی شرف ہے اسی لئے کہ اگر کوئی یوں کہے کہ بے شک حسب خُلق ہے اورمروت عقل ہے اورشرف تواضع ہے تو ا س کاقول مقبول نہ ہوگا اوراگر اس کا عکس کردے تو قبول کیا جائے گا تو اسی طرح دونوں حدیثوں میں اپنے بعد فقروں سے ملے ہوئے فقروں میں یعنی حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا قول کرم تقوٰی ہے اورآدمی کی عزت اس کا دین ہے (یعنی ان جملوں کا عکس مقبول نہ ہوگا۔)
وانا اعطیک ضابطۃ لہذا کلما رأیت فی امثال (عہ) ھذا المقام اسمین معرفین باللام محمولا احدھما علی الاٰخرفان صح ان یحمل الاٰخرعلی الاول مجردا عن اللام فاعلم انہ یجوز ان یکون محمولاًفی تلک القضیۃ ایضًاوالالانظیرہ قول الشاعر ؎
بنونا بنو ابناءنا وبنو بناتنا ابناء الرجال
فانک ان قلت احفادنا ابناء لنا صدقت وان قلت ابنائنااحفادلنا کذبت فکان بنونا ھو المحکوم بہ والسر فی ذلک ان المحمول یجوز تنکیرہ ابدًا وافادۃ القصر علٰی تسلیمہ(عہ) کلیًاامر زائدعلٰی نفس الحکم والموضوع لاینکر تنکیرا محضافلذٰلک لایقال الکرم تقوٰی اوالکرم دین وانما تقول بالتعریف لان الاٰخر ھو الموضوع حقیقۃ لاجل ھذا ان عکست ونکرت صح اما رایت ان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لما قدم التقوٰی فی حدیث الحکیم نکر الکرم ولما عکس فی الحدیث الاٰخر عرف التقوٰی ، اللھم لک الحمد علٰی تواتراٰلائک ولا اخالک یاھذا مغمورافی غیابات الغباوت بحیث یعسرعلیک الانتباہ لما فی تلک الاحادیث التی جاءت مرۃ بتقدیم الکرم واخرٰی بتصدیر التقوی من لمعات بوارق یکاد سناھا یختف ابصار الشبہات ولا سیما حدیث الترمذی مع ماتقررفی الاصول ان اللام ان لاعہد فللاستغراق بال الجنس ایضا مفید اذحکمہ لابدوان یسوی فیہ الافراد۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ اورمیں تم کو اس کے لئے ایک ضابطہ دیتاہوں جب کبھی تم ایسے مقامات میں دو اسم معرف باللام دیکھو کہ ان میں کا ایک دوسرے پر محمول ہوتاہے تو اگر دوسرے کا پہلے کے لئے محمول بننابغیر لام کے صحیح ہوتو جان لو کہ وہ اس قضیے میں بھی محمول ہوسکتاہے ورنہ نہیں،اسکی نظیر شاعر کا شعر ہے : ؎
“یعنی ہمارے بیٹے ہمارے بیٹوں کے بیٹے ہیں اور ہماری بیٹیوں کے بیٹے اورمردوں کے بیٹے ہیں۔”اس لئے کہ اگر تم یوں کہو کہ ہمارے پوتے ہمارے بیٹے ہیں تو یہ صادق ہوگا،اوراگریوں کہو کہ ہمارے بیٹے ہمارے پوتے ہیں تو یہ کاذب ہوگا تو شعر میں”بنونا”ہی محکوم بہ ہے اور اس میں نکتہ یہ ہے کہ ہمیشہ محمول کو نکرہ لانا جائز ہے اورافادہ قصر اگر اس کو امر کلی تسلیم کرلیں نفس حکم پر ایک زائد بات ہے ، اورموضوع کبھی نکرہ محضہ نہیں لایا جاتا ہے تو اس لئے یوں نہ کہا جائے گا کہ الکرم تقوٰی یا الکرم دین یعنی جبکہ جملے کا جز ثانی مبتداٹھہرائیں تو اس کو نکرہ لانا جائز نہیں بلکہ تم یہ جملہ دوسرے جز کی تعریف کے ساتھ بولوگے اس لئے کہ حقیقت میں دوسراجز ہی موضوع ہے اسی وجہ سے اگر اس جملے کا عکس کر دو اورپہلے جز کو نکرہ کردو تو صحیح ہوگا کیا تم نے نہیں دیکھا کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جب تقوٰی کو مقدم کیا حکیم ترمذی کی گزشتہ حدیث میں تو “کر م” کو نکرہ لائے ، اوردوسری حدیث میں جب اس کا عکس کیا تو”تقوٰی”کو معرفہ لائے۔الہٰی ! تیری پیہم نعمتوں پرتیرے لئے حمد اے شخص میں گمان نہیں کرتاکہ تو کم فہمی کی اندھیریوں میں ایسابھٹکا ہوکہ تیرے اوپر ان چمکتی تجلیوں سے تنبیہ ہونا دشوار ہو جن کی روشنی لگتا ہے کہ شبہات کی آنکھوں کو اچک لے گی جو ان احادیث میں ہیں جن میں کبھی کرم کو مقدم فرمایا اورکبھی تقوٰی کو صدرکلام میں لائے بالخصوص حدیث ترمذی باوجود یکہ اصول میں مقرر ہوچکا کہ لام جبکہ عہد کے لئے نہ ہوتو استغراق کے لئے ہوگابلکہ جنس بھی مفید استغراق ہے اس لئے کہ ضروری ہے کہ جنس کے حکم میں سب افراد برابرہوں۔واللہ تعالٰی اعلم۔
عہ: اشاربہ الٰی انک تقول الخ(المصنف)
عہ: اشارہ الی انہ مع اشتہارہ فی کثیرمن الناس الخ (المصنف)
اقول: سابعاً ان قیل لک اکرم الناس اتقاھم ثم من دونہ فی التقوٰی وھٰکذا یأتی ینزل تدریجا لاجرم ان تسلمہ وتقول ھذا لاریب فیہ لکنک لم تدران قد انصرفت عما اقترفت وقداعترفت بما انحرفت، قل لی ماذا محصل قولک ان اکرم الناس یوصف اولاً بانہ اتقی وثانیاًبانہ قلیل التقوٰی وثالثاً بانہ اقل،ھل ھذا الا کلام مجنون تفوہ بلفظ فی الجنون وما دری وما عقل وھذہ الشناعۃ تکدرعلیک زعمک العجیب فی کل ما جاء علی الترتیب وھو کثیر فی الاحادیث، قال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ”احب الاعمال الی اللہ الصلٰوۃ لوقتھا ثم بر الوالدین ثم الجہاد فی سبیل اللّٰہ” اخرجہ الائمۃ احمد ۱؎ والبخاری ومسلم وابوداؤد والترمذی والنسائی عن ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ فالمعنٰی علی زعمک ان احب الاعمال یوصف اولاً بانہ صلٰوۃ ثم یمکث فیصیربرا ثم یلبث فیعود جہاداً وھذا من اعجب ماسمع السامعون ، اقول: سابعاً اگر تم سے کہا جائے کہ سب لوگوں سے زیادہ باعزت سب سے زیادہ پرہیزگار ہے پھرجو تقوی میں اس سےکم ہے اور اسی طرح سے تدریجاً کم سے کم تر کی طرف نازل ہو، لا محالہ تم اس کو تسلیم کرو گے اور کہو گے کہ اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن تم نے نہیں سمجھا کہ تم اس سے پھر گئے۔ جس کا تم نے ارتکاب کیا تھا۔ اور انحراف کا اعتراف کرلیا مجھے بتاؤ تمہارے اس قول کا حاصل کیا ہے کہ اکرم الناس اولاً اتقی سے موصوف ہوتا ہے ( سب سے زیادہ پرہیزگار) اور ثانیاً قلیل التقوٰی کے ساتھ اور ثالثاً اس سے بھی اقل کے ساتھ ( یعنی اس صورت میں جب کہ جَزِّ ثانی یعنی اتقی کو محمول مانیں کیا یہ ایسے مجنون کا کلام نہیں ۔ جو جنون میں لفظ بولتا ہے اور سمجھتا ہے ورنہ اسے خبر ہوتی، اور یہ شناعت تمہارے زعم عجیب میں ان تمام احادیث کو مکدر کردے گی جن میں ترتیب کے ساتھ اعمال کی فضیلت بیان ہوئی اور یہ مضمون احادیث میں بہت ہے ، نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا ” اللہ کو سب کاموں سے زیادہ پیاری نماز ہے جو وقت پر پڑھی جائے۔ پھر ماں باپ کے ساتھ حُسنِ سلوک، پھر اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔” اس حدیث کو روایت کیا احمد، بخاری ، مسلم، ابوداؤد ، ترمذی اور نسائی نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے تو تمہارے زعم پر معنٰی یہ ہوگا کہ سب سے زیادہ محبوب کام پہلے صلوٰۃ کے ساتھ موصوف ہوتا ہے پھر کچھ دیر ٹھہر کر حسنِ سلوک بن جاتا ہے پھر کچھ دیر ٹھہر کر جہاد ہوتا ہے اور یہ سب سے زیادہ عجیب باتوں میں سے ہے جو سُننے والوں نے سُنی۔
( ۱؎ صحیح البخاری کتاب مواقیت الصلوۃ باب فضل الصلوۃ لوقتہا قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۷۶)
(صحیح البخاری کتاب الجہاد باب فضل الجہاد لوقتہا قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۳۹۰)
(صحیح البخاری کتاب الادب باب قولہ تعالٰی ووصیناالانسان بوالدیہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۸۸۲)
(صحیح مسلم کتاب الایمان باب کون الایمان باللہ افضل الاعمال قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۶۲)
(مسند احمد بن حنبل عن ابن مسعود المکتب الاسلامی بیروت ۱/ ۴۱۰ و۴۱۸۔ ۴۲۱ و ۴۳۹ و ۴۴۴ و ۴۴۸ و ۴۵۱)
(جامع الترمذی ابواب الصلوۃ باب ماجاء فی الوقت الاول من اتفضل امین کمپنی دہلی ۱/ ۲۴)
(جامع الترمذی ابواب البروالصلۃ باب ماجاء فی برالوالدین امین کمپنی دہلی ۲/ ۳)
(سنن النسائی کتاب المواقیت فضل الصلوۃ لمواقیتہا نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۱/ ۱۰۰)
(سنن ابی داؤد کتاب الصلوۃ باب المحافظۃ علی الصلوات آفتاب عالم پریس لاہور ۱/ ۶۱)
تذئیل ایاک وان تظن ان تقدیم الخبر فی امثال ھذا المقام قلیل فی فصیح الکلام حتی یعدتاویلا للمرام بل ھو شائع تکثربل ھو الاکثر الاوفر، ولو سرد نالک من الاحادیث الواردۃ علٰی ھذاالمنوال لنافت علی مئاتٍ ورمیتنی بالاملال، ثم منہا ما فی نفس الحدیث دلیل علی مانرید کتقدیم الصفات وتاخیر الذوات وغیر ذٰلک ومنہا ما شرح الشارحون بعکس الترتیب من دون حاجۃ الٰی ماھنالک فعلم انہ طریق شائع، کثیراً مایجری الکلام علیہ وتتبادر الافھام الیہ بلا احتیاج الی صوارف ولا توقف علٰی موقف ولو لاانا علی حذرمن الاطناب لاریناک منہا العجب العجاب، لکن لا باس ان تذکر طرفاً من احادیث اکثرھا من القسم الثانی لانھا اوضح فی المقصود وضوحاً جمیلاً و نقدم علیہا حدیثا ذکر فیہ المصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مقدمتین فاستنتج منہما العلماء کمثل صنیعنا فی الاٰیتین لیکون ھذا اشدتنکیلا، انبأنا حسین الفاطمی عن عابد بن احمد عن صالح الفاروقی عن سلیمان الدرعی عن محمد الشریف، عن الشمس العلقمی عن الامام السیوطی عن احمد بن عبدالقادر بن طریف انا ابواسحاق التنوخی انا ابوالحجاج یوسف بن الزکی المزی انا الفخربن البخاری سماعاً بسماعہ عن ابی حفص عمر بن طبرزد انا ابوالفتح عبدالملک ابن قاسم الکروخی، انا القاضی ابوعامر محمود بن القاسم الازدی وابوبکر احمد بن عبدالصمد الغورجی انا ابو محمد عبدالجبار الجراحی المروزی انا ابوالعباس محمد بن احمد بن المحبوب المحبوبی المروزی ، انا الترمذی ثنا محمد بن یحٰیی نامحمد بن یوسف ناسفٰین عن ھشام بن عروۃ عن ابیہ عن عائشۃ قالت قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم خیر کم خیر کم لا ھلہ وانا خیر کم لاھلی واذا مات صاحبکم فدعوہ۔ ھذا حدیث حسن صحیح ۱؎ تذئیل خبرداریہ گمان نہ کرنا کہ ایسے مقامات میں خبر کو مقدم رکھنا کلام فصیح میں نادر ہے۔ یہاں تک کہ مقصود کے لیے تاویل کرنا ٹھہرے، بلکہ وہ بکثرت شائع ہے بلکہ یہی اکثر و اوفر ہے اور اگر ہم تم سے ان احادیث میں سے کچھ کا ذکر کریں جو اس طریقے پر وارد ہوئیں تو گنتی میں سینکڑوں سے زیادہ ہوں گی اور تم مجھے اکتا دینے پر تہمت لگاؤ گے۔ پھر ان میں سے وہ بھی ہے جو نفسِ حدیث میں ہمارے مدعا کی دلیل ہے جیسے صفات کو مقدم کرنا اور ذوات کو مؤخر کرنا اور اس کے علاوہ ان میں شارحین حدیث کا حدیث کی شرح میں ترتیب الٹ دینا بلا ضرورت، تو اس سے معلوم ہوا کہ خبر کو مقدم کرنا شائع ہے اور بسا اوقات کلام اس ڈھنگ پر چَلتا ہے اور قرائن صارفہ کی حاجت کے بغیر لوگوں کی فہم اس کی طرف سبقت کرتی ہے اور کسی بتانے والے پر مو قوف نہیں ہوتی اور اگر ہمیں تطویل کا ڈر نہ ہو تو ہم تمہیں ان احادیث کا عجیب و غریب نمونہ دکھاتے لیکن اس میں حرج نہیں کہ ہم ان احادیث کا ایک حصہ ذکر کریں جن میں اکثر قسم ثانی کے قبیل سے ہیں۔ اس لیے کہ وہ مقصود میں خوب واضح ہیں اور ہم پہلے ایک حدیث ذکر کریں جس میں مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دو مقدمے ذکر کیے تو اس سے علماء نے نتیجہ نکالا، جس طرح دو آیتوں میں ہم نے کیا تاکہ قید سخت ہو۔ ہم سے حدیث بیان کی حسین فاطمی نے، وہ روایت کرتے ہیں عابدبن احمد سے، وہ روایت کرتے ہیں صالح فاروقی سے۔، وہ روایت کرتے ہیں سلیمان بن درعی سے، وہ روایت کرتے ہیں محمد شریف سے، وہ روایت کرتے ہیں شمس علقمی سے ، وہ روایت کرتے ہیں امام سیوطی سے۔، وہ روایت کرتے ہیں احمد بن عبدالقادر ابن طریف سے، ہمیں خبر دی ابواسحٰق تنوخی نے۔ ہمیں خبر دی ابوالحجاج یوسف ابن زکی مزی نے۔ ہمیں خبر دی فخر الدین ابن بخاری نے ۔ سماعاً ابوحفص عمر بن طبرزد سے سن کر۔ ہمیں خبر دی ابوالفتح عبدالملک ابن قاسم کروخی نے ۔ ہمیں خبر دی قاضی ابو عامر محمود ابن قاسم ازدی اور ابوبکر احمد بن عبدالصمد غورجی نے۔ ہمیں خبر دی ابو محمد عبدالجبار جراحی مروزی نے، ہمیں خبر دی ترمذی نے، حدیث بیان کی ہم سے محمد ابن یحٰیی نے، حدیث بیان کی ہم سے محمد بن یوسف نے، حدیث بیان کی ہم سے سفیان نے، انہوں نے روایت کی ہشام بن عروہ سے انھوں نے روایت کی اپنے باپ سے۔ انہوں نے روایت کی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے۔ انہوں نے کہا فرمایا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ”تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے لیے بہتر ہو اور میں اپنی بیوی کے لیے تم سب سے بہتر ہوں جب تمہارا کوئی ساتھی مرجائے تو اسے چھوڑ دو” ( یعنی اس کا ذکر برائی سے نہ کرو) یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
( ۱؎جا مع الترمذی ابواب المناقب باب فضل ازواج النبی صلی اللہ تعالٰی لیہ وسلم امین کمپنی دہلی ۲/ ۲۲۹)
(موارد الظمٰان الی زوائد ابن حبان حدیث ۱۳۱۲ المکتبۃ السلفیہ ص ۳۱۸)
(الفردوس بما ثور الخطاب حدیث ۲۸۵۳ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲/ ۱۷۰)
(الجامع الصغیر حدیث ۴۱۰۰ دارالکتب العلمیہ بیروت ۲/ ۲۴۹)
قلت ومروی ایضاعندابن ماجۃ ۲؎ من حدیث ابن عباس وعندالطبرانی فی معجمہ ۳؎ الکبیرعن معٰویۃ بن ابی سفٰین رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین قال الامام العلامۃ الشارح عبدالرؤف المناوی فی التیسیر شرح الجامع الصغیراللامام المولٰی جلال الحق و الدین السیوطی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما فانا خیر کم مطلقا وکان احسن الناس عشرۃ لھم ۴؎ انتہی۔ قلت ( میں کہوں گا کہ ) یہ حدیث ابن ماجہ کے یہاں منجملہ حدیث ابن عباس سے مروی ہے اور طبرانی کے یہاں ان کے معجم کبیر میں معاویہ ابن ابوسفیان رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین سے امام علامہ عبدالرؤف مناوی نے تیسیر شرح جامع صغیر مصنفہ امام مولٰی جلال الحق والدّین سیوطی رحمہما اللہ تعالٰی میں فرمایا ”تو میں مطلقاً تم سب سے بہتر ہوں۔ اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام اپنے اہل کے ساتھ سب سے بہتر سلوک فرماتے تھے۔”
( ۲؎ سنن ابن ماجہ کتاب النکاح باب حسن معاشرۃ النساء ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۱۴۳)
(۳؎المعجم الکبیر حدیث ۸۵۳ مکتبۃ الفیصلیہ بیروت ۱۹/ ۳۶۳)
(۴؎ التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت الحدیث خیرکم خیر کم لاھلہ مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۱/ ۵۳۳)
اقول: یا ھذا ان ابدیت فرقاً بین ھذاالقیاس والقیاس الذی تنکرصحتہ لشکرک المفضلۃ ابدا ما کانوا ولکن ھیھات ھیھات انّی لک ذٰلک اخرج احمد والشیخان عن ابی ھریرۃ عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ، خیر نساء رکبن الابل صالح نساء قریش ۱؎ اقول: (میں کہتا ہوں ) اے شخص اگر تو اِس قیاس میں اور اُس قیاس میں جس کی صحت کاتو منکر ہے فرق نمایاں کردے تو تفضیلیہ عمر بھر تیرے شکر گزار ہوں گے ، لیکن ہیہات ہیہات تجھ سے کیونکر ایسا ممکن ہے۔ امام احمد و بخاری و مسلم حضرت ابوہریرہ سے راوی، انہوں نے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کی کہ فرمایا ۔ اونٹوں پر سوار ہونے والی عورتوں میں سب سے بہتر قریش کی نیک عورتیں ہیں۔
( ۱؎مسند احمد بن حنبل عن ابی ہریرۃ المکتب الاسلامی بیروت ۲/ ۲۷۵ و ۳۹۳)
(صحیح البخاری کتاب النکاح باب الی من ینکح وایّ النساء خیر قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۷۶۰)
(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب فضائل نساءِ قریش قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۳۰۸)
قال الفاضل الشارح فالمحکوم لہ بالخیریۃ الصالحۃ منھن لا علی العموم ۲؎ اھ انظر کیف جعل الخیر محکوماً بہ اخرج احمد والترمذی والحاکم با سناد صحیح عن عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہما عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم خیر الاصحاب عند اللہ خیر ھم لصاحبہ وخیر الجیران عنداللہ خیر ھم لجار ہ ۳؎ قال الفاضل الشارح ”فکل من کان اکثر خیراً لصاحبہ و جارہ فہوافضل عند اللہ و العکس بالعکس ۱ اھ فاضل شارح نے فرمایا تو جن کے لیے سب سے بہتر ہونے کا حکم فرمایا گیا وہ قریشی عورتوں میں نیک عورتیں ہیں اور یہ حکم اپنے عموم پر نہیں دیکھو کس طرح شارح نے خیر کو محکوم بہ قرار دیا۔ امام احمد۔ ترمذی اور حاکم بسندِ صحیح حضرت عبداللہ ابن عمرو ابن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ اصحاب میں سب سے بہتر اللہ کے نزدیک وہ ہے جو اپنے ساتھی کے لیے سب سے بہتر ہو اور ہمسایوں میں اللہ کے نزدیک سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے ہمسایوں کے لیے سب سے بہتر ہو۔ فاضل شارح نے کہا تو ہر وہ شخص جو اپنے ساتھی اور پڑوسی کے لیے کثیر الخیر ہو وہ اللہ کے نزدیک افضل ہے ۔ اور اس کے برعکس ہو تو حکم برعکس ہے انتہی۔
(۲؎التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت حدیث خیر نساء رکبن مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۱/ ۵۴۲)
(۳؎مسند امام احمد بن حنبل عن عبداللہ بن عمرو بن العاص المکتب الاسلامی بیروت ۲/ ۱۶۸)
(المستدرک للحاکم کتاب المناسک خیر الاصحاب عندا للہ الخ دارالفکر ۱/ ۴۴۳)
(الجامع الترمذی ابواب البروالصلۃ باب ماجاء فی حق الجوار امین کمپنی دہلی ۲/ ۱۶)
( ۱؎ التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت الحدیث خیر الاصحاب الخ مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۱/ ۵۲۵)
اخرج احمد و ابن حبان والبیہقی عن سعید بن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ باسناد صحیح عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم خیر الذکرالخفی ۲؎ قال الفاضل الشارح ” ای ما اخفاہ الذاکر وسترہ عن الناس فہو افضل من الجھر ۳؎ اھ ، اخرج الطبرانی عن ابی امامۃ الباھلی رضی اللہ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم افضل الصدقۃ سر الی فقیر۴ قال الفاضل الشارح” قال تعالٰی وان تخفوھا وتوتوھا الفقراء فہو خیر لکم ۵؎ اھ”
امام احمد، ابن حبان اور بہیقی نے سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہما سے بسندِ صحیح روایت کیا وہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے راوی کہ سرکار نے فرمایا ”سب سے بہتر ذکر ذکرِ خفی ہے” فاضل شارح نے کہا یعنی وہ ذکر جسے ذاکر خفیہ رکھے اور لوگوں سے چھپائے وہ ذکرِ جہر سے افضل ہے انتہی، طبرانی ، ابن ماجہ، ابوامامہ باہلی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی وہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے راوی کہ فرمایا ، ”سب سے بہتر صدقہ وہ ہے جو خفیہ طور پر فقیر کو دیا جائے” فاضل شارح نے کہا اللہ تعالٰی فرماتا ہے۔ وان تخفوھا وتؤتوھا الفقراء فہو خیر لکم ، انتہٰی
(۲؎ مسند احمد بن حنبل عن سعید بن ابی وقاص المکتب الاسلامی بیروت ۱/ ۱۷۲)
(موارد الظمآن الٰی زوائد ابن حبان حدیث ۲۳۲۳ المکتبۃ السلفیہ ص ۵۷۷)
(شعب الایمان حدیث ۵۵۲ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۴۰۷)
(۳؎ التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت الحدیث خیر الذکر مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۱/ ۵۲۶)
(۴؎ المعجم الکبیر حدیث ۷۸۷۱ المکتبۃ الفیصلیہ بیروت ۸/ ۲۵۹)
(الجامع الصغیر حدیث ۱۲۷۰ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۸۰)
(۵؎ التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت الحدیث افضل الصدقہ مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۱/ ۱۸۵)
اقول: انظر فقد اخرت الاٰیۃ وقدم الحدیث ، اخرج احمد والحاکم عن رجل من الصحابۃ عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان افضل الضحایا اغلاھا واسمنہا ۱؎ قال الفاضل الشارح فالا سمن افضل من العدد۲؎ اھ اقول: دیکھو آیت کریمہ نے خیر کو ( جو موضوع ہے) موخر کیا اور حدیث نے اس کو مقدم کیا۔ امام احمد اور حاکم نے کسی صحابی سے دریافت کیا ۔ وہ نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے راوی کہ فرمایا ” قربانی کے جانوروں میں سب سے بہتر سب سے قیمتی سب سے فربہ ہے۔” فاضل شارح نے کہا تو جو سب سے فربہ ہے وہ عدد سے افضَل ہے اھ
( ۱؎مسند احمد حنبل حدیث جدابی الاشدالسلمی المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۴۲۴)
(المستدرک کتاب الاضاحی باب افضل الضحایا الخ دارالفکر بیروت ۴/ ۲۳۱)
( ۲؎ التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت الحدیث ان افضل الضحایا مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۱/ ۳۱۲)
اخرج احمد والطبرانی فی الکبیر عن ماعز رضی اللہ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم افضل الاعمال الایمان باﷲ ثم الجہاد ثم حجۃ برۃ تفضل سائر العمل ۳؎ امام احمد اور طبرانی معجم کبیر میں حضرت ماعز رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی ۔ انہوں نے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کیا کہ فرمایا ”سب سے بہتر عمل اللہ پر ایمان رکھنا ہے پھر جہاد ۔ پھر حج مقبول تمام اعمال سے افضل ہے ۔”
(۳؎ مسند احمدبن حنبل حدیثِ ماعز رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۴/ ۳۴۲)
(المعجم الکبیر حدیث ۸۰۹ المکتبۃ الفیصیلۃ بیروت ۲۰/ ۳۴۴ و ۳۴۵)
اقول: انظر الٰی ھذہ الکلمۃ الاخرۃ صدر بالافضل ثم اخرہ۔ اقول: ( میں کہتا ہوں) اس کلمہ میں دیکھو، پہلے افضل کو مقدم کیا پھر اس کو موخر لائے۔
اخرج ابوالحسن القزوینی فی امالیہ الحدیثیۃ عن ابی امامۃ عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم
”ان اشد الناس تصدیقاً للناس اصدقھم حدیثا وان اشد الناس تکذیباً اکذبھم حدیثا” ۱؎ قال الفاضل الشارح فالصدوق یحمل کلام غیرہ علی الصدق لاعتقاد قبح الکذب والکذوب یتھم کل مخبر بالکذب لکونہ شانہ ۔ ۲؎ ا ھ ابوالحسن قزوینی اپنے امالی حدیثیہ میں حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی وہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔”سب سے زیادہ لوگوں کی تصدیق کرنے والا وہ ہے جس کی بات سب سے زیادہ سچی اور لوگوں کو سب سے زیادہ جھوٹا بتانے والا وہ ہے جو اپنی بات میں سب سے بڑا جھوٹا ہو،” فاضل شارح نے فرمایا وہ سچا دوسرے کے کلام کو سچائی پر محمول کرتا ہے اس لیے کہ وہ جھوٹ کو بُرا جانتا ہے۔ اور جھوٹا ہر مخبر کو جھوٹ کی تہمت لگاتا ہے ا س لیے کہ جھوٹ بولنا اس کا کام ہے ،ا ھ
( ۱؎کنزالعمال حدیث نمبر۶۸۵۴ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۳/ ۳۴۴)
(الجامع الصغیر حدیث نمبر۲۲۰۲ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱/ ۱۳۴)
(۲؎ التیسیرشرح الجامع الصغیر تحدیت حدیث ان اشد الناس تصدیقا دارالکتب العلمیہ بیروت ۱/۳۱۱)
اخرج احمد فی کتاب الزھد عن سلمان الفارسی واقفاً علیہ و ابن لال وابن النجار عن ابی ھریرۃ والسجزی فی الابانۃ عن ابن ابی اوفی رافعین الٰی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اکثر الناس ذنوباً یوم القیمۃ اکثرھم کلاماً فیما لایعنیہ ۳؎ امام احمد نے کتاب الزھد میں حضرت سلیمان فارسی سے حدیث موقوف روایت کی اور ابن لال اور ابن نجار نے ابوہریرہ سے اور سجزی نے ابانہ میں ابن ابی اوفٰی سے ، ان سب نے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کیا کہ فرمایا ”سب لوگوں سے زیادہ قیامت کے دن اس کے گناہ ہوں گے ۔ جو سب سے زیادہ لایعنی باتیں کرے۔”
(۳ الجامع الصغیر بحوالہ ابن لال و ابن نجار حدیث نمبر۱۳۸۶ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۸۶)
(کتاب الزھد ۸۱۱ دارالکتاب العربی دارالکتب العلمیہ بیروت ص ۲۱۹)
قال الفاضل الشارح ”لان من کثر کلامہ کثر سقطہ فتکثر ذنوبہ من حیث لا یشعر ۱؎ ” اھ فاضل شارح نے فرمایا اس لیے کہ جس کا کلام کثیر ہوگا تو اس میں مہمل خلافِ شرع باتیں زیادہ ہوں گی تو اس کے گناہ بڑھیں گے اور اس کو شعور نہ ہوگا اھ
( ۱؎ التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت حدیث اکثر الناس ذنوبایوم القٰیمۃ مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۱/ ۲۰۰)
اخرج البخاری فی التاریخ والترمذی و ابن حبان بسند صحیح عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان اولٰی الناس بی یوم القیمۃ اکثرھم علیّ صلٰوۃ ۲؎ امام بخاری تاریخ میں اور ترمذی اور ابن حبان بہ سندِ صحیح حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی وہ نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا ”قیامت کے دن سب لوگوں سے زیادہ مجھ سے قریب وہ ہوگا جو سب لوگوں سے زیادہ مجھ پر درود بھیجے گا ۔
(۲؎جامع الترمذی ابواب الوتر باب ماجاء فی فضل الصلوۃ علی النبی امین کمپنی دہلی ۱/ ۶۴)
(الجامع الصغیر حدیث ۲۲۴۹ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱/ ۱۳۶)
قال الفاضل الشارح ”ای اقربھم منی فی القٰیمۃ واحقھم بشفاعتی اکثرھم علیّ صلاۃ فی الدنیا لان کثرۃ الصلوۃ علیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تدل علی صدق المحبۃ و کمال الوصلۃ فتکون منازلھم فی الاخرۃ منہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بحسب تفاوتھم فی ذٰلک ۳؎ اھ فاضل شارح نے فرمایا یعنی قیامت میں سب سے مجھ سے زیادہ قریب اور سب سے زیادہ میری شفاعت کا حقدار وہ شخص ہوگا جو دنیا میں مجھ پر سب سے زیادہ درود پڑھتا تھا اس لیے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر درود کی کثرت سچی محبت پر اور کمال ربط پر دلالت کرتی ہے۔ تو لوگوں کے مدارج حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے قُرب میں اس امر میں لَوگوں کے تفاوت کے حساب سے ہوں گے۔
(۳؎التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت حدیث ان اولی الناس بی الخ مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۱/ ۳۱۶)
اقول: انظر شرح اولاً لفظ الحدیث ثم علل بما لایستقیم الاعلی جعل الاولٰی محکوماً بہ، وابین من ھذاان العلماء المحدثین افاض اللہ علینا من برکاتھم استدلوابھٰذاالحدیث علٰی فضل اھل الحدیث ، وانھم اولی الناس برسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لانھم اکثر الناس صلوۃ علیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لایذکرون حدیثا الاویصلون فیہ علی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عشراً وخمساً اومرتین اومرۃ لا اقل کما ھو معلوم مشاھد والحمدﷲ ۔ اقول: دیکھو پہلے لفظ حدیث کی شرح کی پھر علت وہ بیان کی جو اسی صورت میں ٹھیک بیٹھتی ہے جب کہ حدیث میں ( وارد) لفظ اولٰی کو محکوم بہ ٹھہرائیں اور اس سے روشن تر یہ ہے کہ علماء محدثین نے ( اللہ تبارک و تعالٰی ہمارے اوپر ان کی برکتیں برسائے) اس حدیث سے علماء حدیث کی فضیلت پر استدلال کیا۔ اور اس پر دلیل پکڑی کہ وہ سب لوگوں سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے قریب ہیں ا س لیے کہ وہ سب سے زیادہ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں۔
جب کوئی حدیث ذکر کرتے ہیں تو نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم پر دس مرتبہ یا پانچ مرتبہ یا دو مرتبہ یا کم از کم ایک مرتبہ درود پڑھتے ہیں جیسا کہ معلوم ہے اور اس کا مشاہدہ ہے ۔ والحمدﷲ،
مجھے بتاؤ کیا استدلال ان دونوں آیتوں سے ہمارے استدلال کے بالکل مطابق نہیں۔ پھر اللہ تبارک و تعالٰی کی تمامی نعمت سے یہ ہے کہ ایک حدیث بیہقی میں ثقہ راویوں کی روایت سے حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے آئی انہوں نے نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کیا کہ فرمایا کہ ہر جمعہ کے دن بکثرت درود بھیجو اس لیے کہ تمہارا درود ہر جمعہ کے دن میرے اوپر پیش ہوتا ہے توسب سے زیادہ جو میرے اوپر درود بھیجے گا وہ درجے میں سب سے زیادہ مجھ سے قریب ہوگا۔ تو معلوم ہوا کہ ایسے مقامات میں تقدیم و تاخیر کی پرواہ نہیں کی جاتی اس لیے کہ اشتباہ نہیں ہوتا اور اس میں سر وہی ہے جو ہم نے بتایا۔ تو یہ احکامِ شرعیہ ہیں جن پر بغیر شارع کے بتائے اطلاع نہیں ہوتی۔ تو یہی اس کے لائق ہیں کہ محمول بنائے جائیں۔ اور اذہان کی سبقت انہیں کی طرف ہوتی ہے خواہ مقدم آئیں یا مؤخر ، اور یہ سب واضح و روشن ہے۔ قریب ہے کہ اس کو بدیہی و اولٰی کہا جائے اس کا انکار جاہل بے خرد یا جاہل بننے والے معاند کے سوا کسی کو نہ بن پڑے گا اور ہم کو ڈر ہے کہ ہمارا اس پر بکثرت دلائل قائم کرنا علماء کے نزدیک عبث کے مشابہ قرار دیا جائے ۔ اس لیے کہ ان کے کان اسی قسم کے ہزاروں محاورات سے بھرے پڑے ہیں اور وہ کلام کے اسالیب سے اور مقصود کے طریقوں میں بیان کی راہوں سے آگاہ ہیں۔ تو وہ اس سے منزہ ہیں کہ انہیں محمول کی تمیز موضوع سے دشوار ہو اور یہ ان کے ذہن میں ایسے خدشات جگہ پائیں۔ لیکن میں ان کی طرف معذرت کرتا ہوں اور میرا عذر ان کے نزدیک ظاہر ہے اس لیے کہ میری مثال اور ان لوگوں کی مثال جو میری نہیں مانتے ان اونٹوں کی سی ہے جو اپنے مالک کے پاس سے بھاگ کھڑے ہوں تو ان کا مالک ان کو پکڑنے کا قصدکرے اوران کے پیچھے پیچھے چلے وہ کسی بلندی پر نہ چڑھیں اور نہ کسی گھاٹی میں اتریں مگر یہ کہ وہ ان کا پیچھا کرتا ہو۔
تکمیل ، یہاں سے تمہیں ظاہر ہوگیا کہ نحویوں نے جو یہ کہا کہ مبتداء کو خبر پر مقدم کرنا ضروری ہے۔ جب دونوں معرفہ ہوں یا تنکیر و تعریف میں دونوں برابر ہوں یہ اکثری قاعدہ ہے کلی قاعدہ نہیں اور معنٰی یہی ہے کہ مبتدا کی تقدیم ایسی صورت میں اس وقت واجب ہے۔ جب کہ التباس کا اندیشہ ہو اور جب التباس کا اندیشہ نہ ہو تو واجب نہیں ۔ شارحین نے اس کی تصریح کی تو ہر گز تمہیں متون کا اس مسئلہ کو مطلق کرنا دھوکا میں نہ ڈالے اس لیے کہ متون تو بسا اوقات اطلاق کی راہ پر چلتے ہیں مسئلہ کو مقید رکھنے کے مقام میں علم فقہ میں تو تمہارا کیا گمان ہے فقہ کے سوا دوسرے فنون میں،
انبانا مفتی الحرم عن ابن عمر عن الزبیدی عن یوسف المزجاجی عن ابیہ محمدبن علاء الدین عن حسن العجیمی عن العلامۃ خیر الدین الرملی عن ابی عبداﷲ محمد بن عبداﷲ الغزی التمرتاشی مصنف تنویر الابصار قال فی منح الغفار ”ان العجب من اصحاب المتون فانھم یترکون فی متونھم قیودا لابدمنھا وھی موضوعۃ لنقل المذہب فیظن من یقف علی مسائلہ الاطلاق فیجری الحکم علٰی اطلاقہ وھو مقید فیرتکب الخطاء فی کثیر من الاحکام فی الافتاء والقضاء ۱؎ انتھی ہمیں خبر دی مفتیِ حرم نے ، وہ روایت کرتے ہیں ابن عمر سے، وہ روایت کرتے ہیں زبیدی سے۔ وہ روایت کرتے ہیں یوسف مزجاجی سے وہ روایت کرتےہیں اپنے باپ محمد بن علاء الدین سے۔ وہ روایت کرتے ہیں حسن عجیمی سے۔ وہ روایت کرتے ہیں خیر الدین رملی سے۔ وہ روایت کرتے ہیں ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ غزی تمرتاشی مصنفِ تنویر الابصار سے ، انہوں نے منح الغفار میں فرمایا اصحابِ متون سے تعجب ہے اس لیے کہ وہ اپنے متون میں ضروری قیدیں چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ یہ متون نقل مذہب کے لیے وضع کیے گئے ہیں کہ جو متن کے مسائل سے واقف ہوتا ہے وہ حکم کو مطلق گمان کرتا ہے تو اس حکم کو اس کے اطلاق پر جاری کرتا ہے حالانکہ وہ مقید ہوتا ہے تو وہ خطا کر جاتا ہے فتوٰی اور قضا کے دوران بہت سارے احکام میں۔ انتہی ۔
( ۱؎ ردالمحتار کتاب الجہاد فصل فی کیفیۃ القسمۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۲۳۵)
انبانا السراج بالسندالمذکور الی العلامۃ الغزی عن العلامۃ زین بن نجیم المصری قال فی البحرالرائق ”قصد ھم بذٰلک ان لایدعی علمھم الا من زاحمھم علیہ بالرکب ولیعلم انہ لایحصل الا بکثرۃ المراجعۃ وتتبع عباراتھم و الاخذعن الاشیاخ ۲؎ ۔ انتہی ہمیں خبر دی سراج نے علامہ غزی تک اسی سند مذکور سے ۔ انہوں نے روایت کیا علامہ زین ابن نجیم مصری سے۔ انہوں نے بحرالرائق میں فرمایا کہ اس طریقے سے ان کا قصد یہ ہے کہ ان کے علم کا دعوٰی وہی کرے جو زانوؤں سے ان کا مزاحم ہو اور تاکہ معلوم ہو کہ یہ علمِ کثرت مراجعت اور فقہاء کی عبارات کی تلاش اور مشائخِ فن سے حاصل کیے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔ انتہی۔
(۲؎ردالمحتار بحوالہ البحرالرائق کتاب الصلوۃ باب صفۃ الصلوۃ العربی بیروت ۱/ ۳۰۳)
اقول: وقد و اللہ رأینا تصدیق ھذا فی کثیرمن ابناء الزمان ممن تصدربالدعوی وتصدی للفتوی، وما عندہ ما یرد عن الطغوی فمنہم من افتی بتوریث المنکوحۃ بالنکاح الفاسد و اٰخر ببطلان تزویج الام الصغیرۃ من دون حضرۃ العم منع انہ متوقف لاباطل،واخر باعطاء المسمّی من نکحت فی عدۃ اختہا واٰخربتحریم بیع ھذہ القراطیس الافرنجیۃ المقدرۃ بقدر معلوم من الدراھم بما یزید علی ھذا المقدار اوینقص ظنامنہ انہ ربوٰمع عدم الا تحادجنسا ولا قدرًا ۔، واٰخربتجویز اخذ الربٰو من کفار الہند زعما منہ انہادار الحرب مع عدم الانقطاع عن دار الاسلام من کل جانب وشیوع بعض الشعائر الاسلامیۃ قطعاً ۔ واٰخر بحل ما قطع من حیوان حی اٰخذا من قول الہدایۃ وما ابین من الحی” وان کان میتافمیتہ حلال ۱؎ ” حتی انتھت ریاسۃ الفتوٰی و انتمت السیادۃ الکبرٰی الٰی من اباح بنت الاخ رضا عاً، وتقدمہ مجتہداٰخر فجوز نکاح العمۃ النسبیۃ فالی اﷲ المشتکی من فساد الزمان ولاحول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم وسیعلم ھذا من جرب مثل تجربتی ، اسأل اﷲ تطہیر جنانی و تقویم لسانی وتسدید بنانی فبہ اعتصامی وعلیہ کلانی اٰمین، اقول: ( میں کہتا ہوں) اور بے شک بخدا میں نے اس کی تصدیق آج کل کے ان لوگوں میں وہ پائی جو زبانی دعوٰی سے خود صدر بن بیٹھے اور فتوٰی دینے کے درپے ہوئے حالانکہ ان کے پاس وہ علم نہیں جو انہیں حد سے گزر جانے سے باز رکھے ان میں کچھ وہ ہیں جنہوں نے نکاحِ فاسد سے بیاہی گئی عورت کے وارث ہونے کا فتوٰی دیا تو ان میں سے کسی دوسرے نے یہ فتوٰی دیا کہ چچا کی غیر موجودگی میں ماں کو صغیرہ ( نابالغہ) کا عقد کردینا باطل ہے حالانکہ یہ متوقف ہے نہ کہ باطل ہے۔ اور کسی دوسرے نے فتوٰی دیا کہ اس عورت کو جو اپنی بہن کی عدت میں شادی کرے مہر مسمّٰی دیا جائے گا ۔ اور دوسرے نے ان افرنگی کا غذوں کو جن پر روپوں کی ایک معین مقدار سے زائد یا کم پر بیچنے کو حرام ہونے کا فتوٰی دیا اپنی طرف سے اس گمان کی بناء پر کہ یہ تبادلہ سود ہے حالانکہ نہ جنس میں اتحاد ہے نہ مقدار میں۔ اور ایک اور نے فتوٰی دیا کہ ہندی کافروں سے سُود لینا جائز ہے اس زعم پر کہ ہندوستان دارالحرب ہے۔ حالانکہ یہ ملک دارالاسلام ہے ہر جانب سے کٹا ہوا نہیں اور بعض اسلامی شعار یقینا جاری ہیں۔ اور ایک نے فتوٰی دیا کہ زندہ جانورکا جو عضو کاٹ لیا جائے حلال ہے۔ ہدایہ کی اس عبارت سے ” اور اگر مردہ ہو تو اس کا مردار حلال ہے۔” اس مسئلہ کو اخذ کیا یہاں تک کہ ریاست اسی فتوٰی تک پہنچی اور سیادتِ کبرٰی اس سے منسوب ہوئی جس نے رضاعی بھائی کی لڑکی سے نکاح حلال ٹھہرایا۔ اور ایک دوسرا مجتہد اس سے آگے بڑھا تو اس نے حقیقی پھوپھی کا نکاح جائز ٹھہرادیا تو فسادِ زمانہ کی شکایت اﷲ ہی سے ہے ۔ ولاحول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم ۔ تو عنقریب اس کو وہ جان لے گا جو میرے جیسے تجربہ کرے گا ، اللہ سے میں اپنے قلب کی پاکی اور زبان کی درستگی اور ہاتھ کی صلاح طلب کرتا ہوں تو اسی سے میری حفاظت ہے اور اسی پر میرا بھروسا ہے ۔ یا الہٰی ۔ قبول فرما،
( ۱؎ الہدایۃ کتاب الذبائح فصل فیما یحل اکلہ ومالا یحل مطبع یوسفی لکھنؤ ۴/ ۲۴۱)
تسجیل: ولعلک تقول لقد کشفت النقاب ورفعت الحجاب فبین لی ماالنکتۃ فی تقدیم الخبر وانما حقہ ان یوخر، قلت نعم فیہ نکت بدیعۃ منہا ان المحکوم بہ لما کان خفیا والمحکوم علیہ مدرکاً جلیاً اشبہ الاول بالمعرف والاخربا لتعریف فاستحسن تقدیمہ لیکون الاخیر کالتعریف لہ۔ ومنہا تشویق السامع لا ن النفوس متطلعۃ الی علم مالا تعلم فاذا سمعت بما ھو خفی لدیہا ورجت ان یذکربعدہ مایظھرہ علیھا توجھت للاستماع وتفرغت للاطلاع فکان الکلام اوقع وامکن والنفس الیہ امیل واسکن ۔ ومنھا ان الاعمال لا تقصدفی الشرع لذواتھا بل لما یترتب علیھا من ثمراتہافضلا من المولی سبحٰنہ وتعالی ۔ فکانت الثمرات ھی المقاصدوحق المقاصدان تقدم الٰی غیر ذلک مما لا یخفی علی اولی الالباب وفیما ذکرنا مایغنی عن الاطناب والحمدللہ رب العٰلمین ھذا کلہ مما حبانی الملک الجواد تبارک وتعالٰی فقد بان لک صدقی فی قولی ان ھذاالزاعم لاخبرۃ لہ بمنا ھج الکلام فی النصوص ولاباسباب النزول فی ھذاالخصوص ولا بالتفسیر المرفوع الی الجناب الرفیع و لابتصریح القادۃ فی کلامھم البدیع ولا بشیئ مما خلا والحمد ﷲ جل وعلا تسجیل :، اور شاید تم کہو بے شک تم نے نقاب اٹھادیا اور حجاب کو دُور کردیا تو مجھ سے بیان کرو کہ خبر کو مقدم کرنے میں کیا نکتہ ہے حالانکہ اس کا حق یہ ہے کہ اس کو موخر رکھا جائے۔ میں کہوں گا ہاں اس میں بدیع نکتے ہیں ان میں سے ایک یہ کہ محکوم بہ ( خبر) جب کہ پوشیدہ ہو اور محکوم علیہ ( مبتداء) ادراک میں ظاہر ہو تو پہلا ( خبر) معّرف کے مشابہ ہوگا اور دوسرا ( مبتدا) تعریف کے مشآبہ ہوگا۔ لہذا اس کو مقدم کرنا مستحسن ہے تاکہ لفظ اخیر اس کے لیے تعریف کے مانند ہوجائے اور انہیں نکتوں میں سے سننے والوں کو شوق دلانا ہے اس لیے کہ نفوس انجانی بات کو جاننے کے لیے ہمکتے ہیں تو جب کسی ایسی چیز کو سنیں گے جو ان کے نزدیک پوشیدہ ہے اور امید رکھیں گے کہ اس کے بعد وہ ذکر کیا جائے جو ان پر ظاہر ہے۔ تو سننے کے لیے متوجہ ہوں گے او ر جاننے کے لیے فارغ ہوں گے تو اس صورت میں کلام زیادہ دلنشین اور راسخ ہوگا اور نفس کو اس کی طرف زیادہ میلان اور سکون ہوگا۔ اور ان میں سے یہ ہے کہ شریعت میں اعمال اپنی ذات کے لیے مقصود نہیں ہوتے۔ بلکہ ان ثمرات کے لیے مقصود ہوتے ہیں جو ان پر مرتب ہوتے ہیں اللہ تبارک و تعالٰی کے فضل سے لہذا وہ ثمرات ہی مقاصد ہیں اور مقاصد کا حق یہ ہے کہ ان کو مقدم کیا جائے۔ اس کے علاوہ اس میں اور بھی نکتے ہیں جو عقل والوں پر پوشیدہ نہیں۔ اور جو ہم نے ذکر کیا ان میں تطویل سے بے نیازی ہے۔ یہ سب ان عنایتوں سے ہے جو اللہ تبارک و تعالٰی نے مجھے عطا کی۔ اب تمہیں میری سچائی ظاہر ہوگئی میری اس بات میں کہ اس زعم والے شخص کو نصوص میں کلام کے طریقوں کی خبر نہیں نہ ان نصوص میں اسباب نزول کو جانتا ہے۔ اور نہ جنابِ رفیع صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے مروی تفسیر مرفوع سے خبر ہے اور نہ رہنما یانِ شریعت کی ان کے کلام بلیغ میں تصریحات کی واقفیت ہے اور نہ ان چیزوں سے جن کا ذکر گزرا اس کے پاس کچھ نہیں۔ والحمدﷲ جل وعلا۔
من وجوہ الجواب عن ھذا الارتیاب اقول: بتوفیق الوھاب لئن جئنا علی المماکسۃ والاستقصاء لما ترکنا کم ان تزعموا ان الایۃ لا تقتضی باکرمیۃ الاتقی وان سلمنا الموضوع ھوالاکرم وذٰلک لان اتقٰکم واکرمکم لایصدقان بل لایصلحان لان یصدقا الاعلی واحد ولا یجوز تعدد ھما بمعنی الصدق مرۃ علی ھذا واخری علی ذاک فاذا ثبت اتحادھما فی الوجود کما ھو مقتضی الحمل وجب التعاکس اذلما اتحد مصداقھما وقد علمنا بطلان التعدد کانا کعلمین لجزئی واحد، لک ان تجعل ایھما شئت مرآۃ لملاحظۃ وایھما شئت محمولاً علیہ و لہ نظائر جمۃ تقول افضل الانبیاء اولھم خلقا واکرم الرسل اٰخرھم بعثاً ۔ واحسن الجنّٰت اقربھا الی العرش و اعظم شجرۃ فی الجنۃ طوبٰی۔ ومنتھی جبریل سدرۃ المنتہٰی، وافضل الصلوۃ الصلوۃ والوسطی، وابوک ابوہ۔ وامک امہ ، واول من دخل اٰخرمن خرج، واقل الاعداد اول الاعداد، والشمس النیرالاعظم ۔ واعلی الافلاک اکبرھا حجما، واخص الکلیات اقلہا افرادًا وفلک جوز ھو فلک القمر و سیارۃ لا تدویر لہا ذکاء و المتحیرۃ السودا ء زحل ، والخاتس الکانس الاحمر مریخ الٰی غیر ذلک ممالایعد ولایحصی ومحال ان تبدی مثالا یحمل فیہ افعل مضافا علی افضل مضافا الی اضیف الیہ الاول مع جریا نھما علی معناھما الحقیقی ثم لایصح العکس، اس شبہہ کے جواب میں دوسری وجہ۔ میں اللہ وہاب کی توفیق سے کہتا ہوں اگر ہم اس بحث کا دائرہ بند کرنے پر اور حد تک پہنچانے پر آجائیں تو ہم تم کو نہ چھوڑیں کہ تم یہ کہو کہ آیت اتقی کی فضیلت کا تقاضا نہیں کرتی۔ اگرچہ ہم یہ تسلیم بھی کرلیں کہ آیت میں اکرم ہی موضوع ہے یہ اس وجہ سے کہ اتقاکم اور اکرمکم صادق نہیں آتے بلکہ ان میں صلاحیت ہی نہیں اس کی کہ وہ ایک ذات واحد پر صادق آئیں تو ان دونوں کا تعد د جائز نہیں بایں معنی کہ کبھی اس پر صادق ہوں اور کبھی اس پر صادق ہوں کہ جب ان کا وجود میں اتحاد ثابث ہوگیا تو دونوں کا باہم عکس ضروری ہوا ا س لیے کہ جب دونوں کا مصداق ایک ہے اور ہم نے تعدد کا باطل ہونا جان لیا تو یہ دنوں ایک ذات واحد کے دو علم کی مثال ہوئے تمہیں اختیار ہے کہ جن کو چاہو ذات کے لیے مراۃ ملاحظہ بناؤ۔ اور جن کو چاہو محمول علیہ بناؤ اور اس کی بہت ساری مثالیں ہیں تم کہتے ہو سب نبیوں سے افضل وہ ہیں جو سب سے پہلے مخلوق ہوئے اور سب رسولوں سے اکرم وہ ہیں جو سب کے بعد مبعوث ہوئے۔ اور سب جنتوں سے بہتر وہ جنت ہے جو سب سے زیادہ عرش سے قریب ہے۔ ا ور جنت میں سب سے بڑا پیڑ طو بٰی ہے۔ ۔ اور جبریل کا منتہٰی سدرۃ المنتہٰی ہے اور سب نمازوں سے بہتر بیچ کی نماز ( عصر) ہے۔ اور تمہارا باپ اس کا باپ ہے اور تمہاری ماں اس کی ماں ہے۔ اور سب سے پہلے داخل ہونے والا سب کے بعد نکلنے والا ہے ۔ اور عدد میں سب سے کمتر پہلا عدد ہے۔ اور سورج نیرِ اعظم ہے اور سب سے اونچا فلک حجم میں سب سے بڑا ہے۔ اور خاص تر کلی سب سے کم افراد والی ہے اور فلک جو ز فلک قمر ہے۔ اور وہ سیارہ جس میں گولائی نہیں وہ سورج ہے اور سیارہ سیاہ متحیرہ زحل ہے اور سیدھے چل کر اُلٹے پھرنے والا اور غائب ہوجانے والا سرخ سیارہ مریخ ہے۔ اس کے علاوہ بہت ساری مثالیں جن کی گنتی اور شمار نہیں۔ اور محال ہے کہ تم ایسی مثال ظاہر کرو جس میں افعل التفضیل مضاف ہوکردوسرے افضل التفضیل پر محمول ہو درانحالیکہ وہ اس کی طرف مضاف ہو جس کی طرف پہلا مضاف ہوا ہے اور اسی کے ساتھ دونوں اپنے معنی حقیقی پر جاری ہوں پھر ان دونوں کا عکس صحیح نہیں۔
فاذا صدقت القضیۃ بالنظر الی الواقع کفانا ھذاالانتظام القیاس واستنتاج المدعی، والسرفی ذٰلک ان الموجبات انما تنعکس الی مالا یصلح لکبرویۃ الاول لجواز عموم المحمول واذا کان ھناک مفہومان لیس لکل منہما الامصداق واحد بحسب ظرف الخارج اوالذھن ایضاً بطل عمومھما بحسب ذلک الظرف ( فلایجوزان یکون احدھما اعم من الاٰخر بمعنی شمولہ لہ ولغیرہ فی ذلک الظرف) فلم یبق باعتبارہ الا التساوی) اوالتباین ولا ثالث لھما، فان صدقت الحملیۃ القائلۃ ان ھذا ذاک وجب صدق القائلۃ ان ذاک ھذا والالجاز السلب فیتبا ینان فتبطل الاولٰی ھف فاذا بلغنا مثلاً عن رجل قولان احدھما قولہ لعمرو زید ابوک والاٰخرقولہ ابی ابوک امکن لنا ان نعمل من قولیہ شکلاً ینتج ان زیدا ابی لانہ اذا صدق قولہ ابی ابوک لزم صدق ابوک ابی والا لتعددابواھما فبطل الاول واذا صدقت ھذہ انتظم الشکل بان زیداابوک وابوک ابی فزید ابی ، تو جب قضیہ نظر بنفس الامر صادق ہے تو ہمیں نظم قیاس اور مدعا کا نتیجہ حاصل کرنے کے لیے یہی کافی ہے اور اس میں راز یہ ہے کہ موجبہ قضیے کا عکس وہ آتا ہے جو شکل اول کے کبرٰی بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا اس لیے کہ محمول کے عموم کا احتمال ہے اور جب کہ دو مفہوم وہاں ایسے ہوں کہ جن میں سے ہر ایک کے مصداق کا اعتبار اس کے محل خارجی کے اعتبار سے ایک ہو یا ذہن میں بھی متحد ہو تو ان دونوں کے مفہوم کا عموم باعتبار اس محل کے باطل ہے تو اس کے اعتبار سے نہ رہی مگر تساوی یا تباین اور ان دونوں کا ثالث نہیں تو اگر قضیہ حملیہ جس میں یہ دعوٰی ہو کہ بے شک یہ شخص وہی ہے تو ضروری ہے کہ یہ قضیہ حملیہ صادق آئے کہ وہ شخص یہی ہے ورنہ اس کا سلب جائز ہوگا تو آپس میں دونوں متباین ہوں گے تو پہلا قضیہ باطل ہوجائے گا اور یہ خلاف مفروض ہے لہذا اگر ہمیں ایک شخص سے دو باتیں پہنچیں ا ن میں سے ایک اس کا قول عمرو سے مخاطب ہو کر کہ زید تیرا باپ ہے اور دوسرا اس کا قول کہ میرا باپ تیرا باپ ہے تو ہمیں ممکن ہے کہ ہم اس کے دونوں قول سے ایک شکل بنائیں تو یہ نتیجہ دیں کہ زید میرا باپ ہے اس لیے کہ جب اس کا یہ قول کہ میرا باپ تیرا باپ ہے صادق ہے تو لازم ہے کہ یہ قول صادق ہو کہ تیرا باپ میرا باپ ہے ورنہ ان دونوں کے باپ متعدد ہوں گے تو پہلا قول باطل ہوجائے گا اور جب یہ قضیہ صادق ہے تو شکل اسی طور پر بنے گی کہ زید تیرا باپ ہے اور تیرا باپ میرا باپ ہے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ زید میرا باپ ہے۔
وافعل التفضیل مضافاً الٰی جماعۃ اذا کان باقیاً علٰی معناہ الحقیقی المتبادر منہ شانہ ھذا، اذلایکون الفردالاکمل من جماعۃ الاواحدا ولن یصدقن ابدا قضیتان قائلتان بان ھذااکملھم وذلک اکملھم معاً وھذا ظاہر جدا بل شان ھذا انور من شان الشمس واخواتہا فان العقل یجیز صدقہا علٰی افراد کثیرۃ ثبیرۃ واذا وجدلہا فی الخارج فرد لم یستبعد وجود اٰخر بخلاف افعلھم فانما یقبل الاشتراک علٰی سبیل البدلیۃ واذا صدق فی الخارج علی فرد حال العقل صدقہ علی اٰخرمنحازًا عنہ کدأب اسماء الاشارۃ سواء بسواء فصدق العکس ھٰھنا ابین واجلی، اور افعل التفضیل جو ایک جماعت کی طرف مضاف ہو جب وہ اپنے اس معنی حقیقی پر باقی ہو جو اس سے متبادر ہوتے ہیں تو اس کی شان یہی ہوتی ہے اس لیے کہ کسی جماعت سے فرد اکمل ایک ہوگا اور ہر گز کبھی ایسے دو قضیے صادق نہ آئیں گے جو یہ دعوٰی کرتے ہوں کہ یہ شخص ساری جماعت سے اکمل ہے اور وہ شخص ساری جماعت سے افضَل ہے۔ اور یہ سب ظاہر ہے بلکہ اس کا معاملہ سورج اور اس کے امثال کے ظہور سے روشن تر ہے اس لیے کہ عقل شمس وغیرہ کے مفہومات کا صادق آنا بہت سارے افراد پر جائز جانتی ہے اور جب ان مفہومات کا خارج میں کوئی فرد پایا جائے تو عقل دوسرے فرد کے وجود کو بعید نہیں جانتی بخلاف اَفعَلُھُم کہ یہ تو اشتراک کو برسبیل بدلیت قبول کرتا ہے اور جب خارج میں کسی فرد پر اس کا مصداق پایا جائے تو عقل محال جانتی ہے کہ افعل التفضیل کا مصداق دوسرے پر صادق آئے جو اس سے منفرد ہو اس کا معاملہ اسمائے اشارہ کے مانند برابر برابر ہے تو یہاں پر عکس کا صادق ہونا روشن تر اور ظاہر تر ہے۔
واما قول اھل المیزان لاتنعکس الموجبۃ الاجزئیۃ معنا ہ ان کلما جعلت موضوع موجبۃ کلیۃ محمولاً و محمولہا موضوعاً واتیت بسورا لکلیۃ کانت القضیۃ کاذبۃ، فان الواقع یکذبہ بل المعنی عدم الاطراد،وھم لا اقتصرنظر ھم علی الکلیات لایعتدون الا بالمطرد المضبوط الذی لایتخلف فی مادۃ من المواد، وعدم الاطراد لایستلزم المراد العدم ، ولا اقول: انہ عکس منطقی، ولاانہاتلزم القضیۃ لزوماً عا ماًلکنہاتلزم فی امثال المقام لاشک، فتصدق القضیۃ بالنظرالی الواقع سمّاھا المیزانیون عکساً اوّلاً وھذا القدر یکفی لانتظام الشکل فان صادقتین مستجمعتین للشرائط لاتنتجان الاصادقۃ ولایلزم اثبات الصدق علی انھا عکس منطقی لقضیۃ صادقۃ وانکارھذا من اخنی المکابرات۔ ثم ھذاالعکس لم یرشدنا الیہ الا الاٰیۃ الکریمۃ اذھی التی دلتنا علی اتحادھما فی الوجود فاذا کان ھذا فی مفہومین لا تعدد لمصداق شیئ منھما ان ارشادًا الی التعاکس قطعاً کما اذا سمعت رجلاً یقول ابی زید جازلک ان تقول کان الرجل یقول زیدا بی لان زیداً لایتعددو ابوالرجل لایتعدد فاذا کان ابوہ زیدا کان زید اباہ کذا ھذا من دون شک ولا اشتباہ الحمد للہ علی نعمائہ وعلیک بتسکین الھواجس یافلسفیاہ ۔ رہا منطق والوں کا یہ قول کہ موجبہ کا عکس نہیں ہوتا مگر جزئیہ اس کا معنی یہ ہے کہ جب کبھی تم موجبہ کلیہ کے موضوع کو محمول بناؤ اور اس کے محمول کو موضوع بناؤ اور اس پر کلیہ کا سور لاؤ تو قضیہ کاذب ہوگا اس لیے کہ واقعہ اس بات کو جھٹلاتا ہے بلکہ معنی یہ ہے کہ یہ مطرد نہیں اور منطقیوں کی نظر چونکہ کلیات تک محدود ہوتی ہے تو وہ اعتبار نہیں کرتے مگر اس مفہوم کا جو مطرد و مضبوط ہو مواد میں سے کسی مادہ میں جس کا حکم متخلف نہ ہو اور عدمِ اطراد اطراد عدم کو مستلزم نہیں ہے اور میں یہ نہیں کہتا کہ یہ عکس منطقی ہے۔ نہ یہ دعوٰی کرتا ہوں کہ یہ قضیہ کو عام طور پر لازم ہے لیکن اس مقام کے امثال میں بلاشبہہ عکس لازم ہوتا ہے تو قضیہ منعکسہ واقعہ پر نظر کرتے ہوئے صادق ہے اہل منطق نے اس کا نام عکسِ اول رکھا ہے اور اتنی مقدار انتظام شکل کے لیے کافی ہے اس لیے کہ دو قضا یا صادقہ جو شرائط کے جامع ہوں ایک قضیہ صادق ہی کا نتیجہ دیں گے اور صدق کا ثابت کرنا اس پر موقوف نہیں کہ وہ قضیہ صادقہ عکس منطقی ہو اور اس کا انکار نہایت بے شرمی کے مکابرات میں سے ہے۔ پھر اس عکس کی طرف آیت کریمہ نے ہی رہنمائی کی کہ اس لیے کہ اس نے ہم کو یہ دکھایا کہ دونوں قضیے وجوب میں متحد ہیں تو جب یہ حال ایسے دو مفہوموں میں ہے کہ ان میں سے کسی شے کا مصداق متعدد نہیں تو یہ یقیناً دونوں قضیے کے باہم منعکس ہونے کی طرف رہنمائی ہے جیسے کہ تم جب کسی شخص کو کہتے سنو کہ میرا باپ زید ہے تو تمہیں جائز ہے کہ تم کہو گویا کہ یہ شخص یوں کہہ رہا ہے کہ ز ید میرا باپ ہے اس لیے کہ زید متعدد نہیں اور اس شخص کے باپ متعدد نہیں۔ تو جب اس کا باپ زید ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زید اس شخص کا باپ ہے۔ اسی طور پر بلا شک و شبہہ یہ آیت ہے اور اللہ کے لیے اس کی نعمتوں پر حمد۔ اور اے فلسفی تجھے لازم ہے کہ وساوس کو ساکن رکھ،
الثالث من وجوہ الجواب اقول: و ربی ھادی الصواب اخترنا عن ھذا کلّہ وسلمنا ان مفاد الاٰیۃ الاولٰی قولنا کل اکرم اتقٰی وینعکس بعکس النقیض الٰی قولنا ” من لیس باتقی لیس باکرم” وقد اثبتنا فیما اسلفنا عرش التحقیق علی ان المراد بالاتقی فی الایۃ الثا نیۃ اعنی قولہ تعالٰی ”وسیجنبہاالاتقی ۱؎” اتقی الصحابۃ جمیعاً فوجب ان لایکون احد من الصحابۃ اتقی منہ ۔ و لامساویاً لہ فی التقوٰی اذاثبت ھذا فنقول کل صحابۃ فہولیس باتقی من ابی بکر ومن لیس باتقی منہ لیس باکرم منہ۔ انتج ان کل صحابۃ فہو لیس باکرم من ابی بکر وصغری القیاس معدولۃ کما لوحنا الیہ بتقدیم اداۃ الربط علی حرف السلب ولک ان تجعلھا موجبۃ سالبۃ المحمول اعنی علی قول قوم من المتاخرین و یرشدک الٰی مایزیح وھمک جعل السلب فی الکبرٰی مراۃ الملاحظۃ افراد الاوسط ۔ وان شئت لم تعکس الاٰیۃ الاولٰی ایضا ونسجت الشکل علی منوال الثانی بان تقول لاشیئ من الصحابۃ اکرم من ابی بکر و کل اکرم من ابی بکر اتقی منہ انتج ان لا شیئ من الصحابۃ اکرم من ابی بکر و لعلّک ان تقررہ قیاساً استثنا ئیاً یرفع المقدم لرفع التالی فتقول لوکان احد من الامۃ اکرم من الصدیق لکان اتقی منہ لان کل اکرم اتقی لکنھم لیسوا باتقی منہ للایۃ الثانیۃ فلیسوا باکرم منہ وفیہ المقصود۔ وجوہِ جواب میں سے تیسری وجہ، میں کہتا ہوں اور میرا رب راہِ صواب دکھانے والا ہے ہم نے اس سب کو اختیار کیا اور مان لیا۔ آیت اولٰی کا مفاد ہمارا یہ قول ہے کہ کل اکرم اتقٰی ( یعنی ہر اکرم سب سی بڑا متقی ہے) اور اس کا عکس نقیض ہمارا یہ قول ہے کہ من لیس باتقٰی لیس باکرم (جو اتقی سب سے بڑا متقی نہیں ہے وہ اکرم نہیں ہے) اور ہم نے ان کلمات میں جو ہم پہلے کہہ چکے عرش تحقیق کو ثابت کردیا کہ مراد اتقی سے آیت ثانیہ یعنی اللہ تبارک و تعالٰی کے قول وسیجنبہا الاتقی میں تمام صحابہ سے زیادہ متقی شخص مراد ہے تو ضروری ہے کہ صحابہ میں کوئی اس سے بڑھ کر متقی نہ ہو اور نہ تقوٰی میں اس کے کوئی مساوی ہو۔ جب یہ ثابت ہوگیا تو ہم کہتے ہیں کہ ہر صحابی ابوبکر سے بڑھ کر متقی نہیں اور جو ان سے بڑھ متقی نہیں وہ کرامت میں ان سے بڑھ کر نہیں۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر صحابی ابوبکر سے زیادہ عزت والا نہیں اور اس قیاس کا صغرٰی معدولہ ہے جیسا کہ ہم نے اس کی طرف اداتِ ربط کو حرفِ سلب پر مقدم کرکے اشارہ کیا اور تمہیں اختیار ہے کہ تم اس قضیہ کو موجبہ سالبۃ المحمول بناؤ یعنی متاخرین میں سے ایک قوم کے قول پر اور تمہاری رہنمائی اس بات کی طرف جو تمہارے وہم کو دور کردے سلب کو کبرٰی میں افراد اوسط کے لیے مراۃ ملاحظہ بنانے سے ہوگی۔ اور اگر تم چاہو تو آیتِ اولٰی کا عکس نہ کرو اور شکل کو آیتِ ثانیہ کے طرز پر منتظم کرو بایں طور کہ تم کہو کہ کوئی صحابی ابوبکر سے بڑھ کر عزت والا نہیں۔ اور شاید تم اس کو قیاس استثنائی کے طورپر مقرر رکھو جو مقدم کو ارتفاع تالی کی وجہ سے مرتفع کردے تو تم یوں کہو امت میں اگر کوئی صدیق سے بڑھ کر عزت والا ہوتا تو وہ ضرور صدیق سے بڑھ کر متقی ہوتا اس لیے کہ ہر اکرم اتقی ہے لیکن ساری امت صدیق سے بڑھ کر متقی نہیں بدلیل آیت ثانیہ۔ تو وہ صدیق سے بڑھ کر عزت والے نہیں اور اسی میں ہمارا مقصود ہے۔
(۱القرآن الکریم ۹۲/ ۱۷)
تنبیہہ: سیقول السفھاء من الناس ماولکم عن دعوٰئکم التی کنتم علیہا فان الثابت علی ھذہ التقاریر الثلثۃ الاخیرۃ انما ھو نفی اکرم من الصدیق وھو لا یستلزم اکرمیتہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اذ یحتمل التساوی۔ تنبیہہ: ،اب کہیں گے بے وقوف لوگ اس دعوٰی سے جس پر تم قائم تھے کس چیز نے تمہیں پھیر دیا اس لیے کہ ان تین تقاریر اخیرہ پر جو ثابت ہوتا ہے وہ صدیق سے زیادہ عزت والے کی نفی ہے اور اس سے صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ( اولویت) سب پر لازم نہیں آتی اس لیے کہ تساوی کا احتمال ہے۔
اقول: اوقد قالوافلئن قالوا فلقدز اغوا۔ اقول: کیا ان بے وقوفوں نے یہ بات کہی اگر انہوں نے ایسا کہا تو بے شک و ہ منحرف ہوگا۔
امااولاً فنصوص الشرع و محاورات البلغاء طافحۃ بسوق الکلام الٰی غرض التفضیل علی الاطلاق علی ھذاالمساق یقولون لیس احد افضل من فلان ویریدون انہ افضل الکل وذلک لان التساوی الحقیقی کالمحال عادۃ وعلیک بکلام شراح الحدیث۔ اولاً نصوص شرع اور اہلِ بلاغت کے محاورے اس ڈھنگ سے بھرے ہیں کہ کلام کو علی الاطلاق فضیلت بتانے کی غرض سے اس طور پر لایا جاتا ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ کوئی فلاں سے افضل نہیں ہے اور مراد لیتے ہیں کہ وہ سب سے افضل ہے اور یہ اس لیے کہ تساوی حقیقی عادتاً گویا محال ہے اور تم شراح حدیث کے کلام کو لازم پکڑو۔
واما ثانیاً: ، فلک ان تضم الیہ اجماع الامۃ علی وجود التفاضل والحق لایخرج عن اقوالھم۔ ثانیاً : تمہیں یہ اختیار ہے کہ اس کے ساتھ وجود تفاضل پر امت کا اجماع ضم کرو اور حق اقوالِ اُمت سے باہر نہ ہوگا۔
واما ثالثاً : ھوالطراز المعلم ان العارف باسالیب الکلام یفھم من الایۃ الاولٰی تسبب التقوٰی لایراث الکرامۃ وقصر حصولہا علی حصولہ وبہ صرحت الاحادیث الناشیۃ عن ارشاد الایۃ اللاحظۃ الٰی ملحظ الکریمۃ انبأنا سراج الحنیفۃ بالسندعن الشریف عن محمد بن ارکماش عن العلامۃ ابن حجر عسقلانی عن عبدالرحمن بن احمد بن المبارک الغزی عن احمد بن ابی طالب الحجارعن علی بن اسمعیل بن قریش عن الحافظ المنذری قال فی کتاب الترغیب والترھیب عن عقبۃ بن عامر رضی اللہ تعالٰی عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قال ان انسابکم ھذہ لیست بسباب علی احد وانما انتم ولد آدم طف الصاع لم تملؤوہ لیس لا حد فضل علی احد الابالدین او عمل صالح ۔ رواہ احمد والبیہقی کلاھما من روایۃ ابن لھیعۃ ولفظ البیہقی قال لیس لا حد علی احد فضل الابالدین او عمل صالح حسب للرجل ان یکون بذیا بخیلا۔ وفی روایۃ لیس لاحد علی احد فضل الابدین اوتقوٰی وکفی بالرجل ان یکون بذیا فاحشا بخیلا، قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم طف الصاع بالاضافۃ ای قریب بعٖضکم من بعض ۱؎اھ ثالثا اور وہ وجہ طراز معلم یہ کہ اسالیب کلام کا واقف آیتِ اولٰی سے سمجھتا ہے کہ تقوٰی عزت حاصل ہونے کا سبب ہے اور عزت کا حصول تقوٰی کے حصول پر منحصر ہے اسی کی تصریح ان احادیث نے کی کہ جو ارشادِ آیت سے ناشی ہیں اور آیتِ کریمہ کے مطمحِ نظر کی طرف دیکھتی ہیں۔ ہمیں سراج الحنفیہ نے خبر دی اپنی سند سے۔ وہ روایت کرتے ہیں شریف سے۔ وہ روایت کرتے ہیں محمد ابن ارکماش سے۔ وہ روایت کرتے ہیں علامہ ابن حجر عسقلانی سے۔ وہ روایت کرتے ہیں عبدالرحمن ابن احمد ابن مبارک غزی سے۔ وہ روایت کرتے ہں احمد ابن ابی طالب حجار سے۔ وہ روایت کرتے ہیں علی ابن اسمعیل ابن قریش سے ۔ وہ روایت کرتے ہیں حافظ منذری سے ۔ انہوں نے فرمایا ، کتاب الترغیب والترہیب میں کہ عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا یہ نسب کسی کے لیے گالی نہیں ہے تم تو آدم کی اولاد ہو پیمانہ کی طرح جو تم نے نہیں بھرا کسی کو کسی پر فضیلت نہیں مگر دین یا عمل صالح کے سبب۔ اس حدیث کو روایت کیا احمد اور بیہقی دونوں نے ابن لہیعہ کی روایت سے ۔ اور بیہقی کے لفظ یوں ہیں۔ کسی کو کسی پر فضیلت نہیں مگر دین یا عمل صالح سے ۔ اور آدمی کے بُرا ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ بدزبان کنجوس ہو۔ اور ایک روایت میں ہے۔ کسی کو کسی پر فضیلت نہیں مگر دین یا تقوٰی سے ۔ اور آدمی کے لیے کافی برائی ہے کہ وہ بدگو بے حیاء کنجوس ہو۔ حدیث میں حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے قول ” طف الصاع” اضافت کے ساتھ کا معنی یہ ہے یعنی تم میں سے بعض بعض کے قریب ہے ۔ انتہی۔
(۱ الترغیب والترہیب من احقارالمسلم وانہ لا فضل لاحد الخ حدیث ۶ و۷ مصطفی البابی مصر ۳/ ۶۱۲)
قلت واخرجہ الطبرانی فی حدیث طویل من طریق ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما ولفظہ انما انتم من رجل وامرأۃ کجُمام الصاع لیس لاحد علی احد فضل الاّ بالتقوٰی ۲؎ اھ قولہ صلی اللہ تعالٰی لیہ وسلم کجُمام الصاع جُمام بالضم مایملأ والمعنی انکم متساوون فی القدر کحبّات الصاع تکال فیعرف مقدار ھا واستواء ھا بمثلہا کیلاً من دون حاجۃ الی الوزن لتساویھا ثقلاً واکتنازًا وبہ قال المنذری عن ابی ذر رضی اللہ تعالٰی عنہ ” ان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قال لہ انظر فان لست بخیر من احمر ولا اسود الا ان تفضلہ بتقوٰی ۔ رواہ احمد ورواتہ ثقات مشھورون الا ان بکربن عبداللہ المزنی لم یسمع من ابی ذر۔ ا ھ ۱؎ قلت ( میں کہتا ہوں ) اور طبرانی میں اس کی تخریج کی ایک حدیث طویل میں ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کے طریق سے، اور ان کے لفظ یہ ہیں۔ تم لوگ ایک مرد اور عورت سے ہو جمام صاع کی طرح۔ کسی کو کسی پر فضیلت نہیں مگر تقوٰی سے انتہی۔ حدیث میں حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا قول ” جُمام صاع” جمام بضم جیم وہ چیز ہے جو پیمانہ میں بھری جاتی ہے اور معنی یہ ہے کہ تم قدر میں ایک دوسرے سے برابر ہو پیمانہ کے حبّوں کی طرح جس کو پیمانہ میں بھرا جاتا ہے تو ان کی مقدار اور ان کے مثل کے ساتھ ان کی برابری پیمانہ میں معلوم ہوتی ہے اور انہیں تولنے کی ضرورت نہیں ہوتی اس لیے کہ بوجھ اور موٹائی میں وہ برابر ہوتے ہیں۔ اور اسی مضمون کو منذری نے ابو ذر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ” بے شک تم سیاہ فام سے اور سُرخ سے بہتر نہیں اور نہ سیاہ فام تم سے بہتر ہے۔ مگر یہ کہ تم اس پر فضیلت پاؤ تقوٰی کی وجہ سے۔” اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا۔ اور اس کے راوی ثقہ معروف ہیں مگر یہ کہ بکر بن عبداللہ مزنی نے اس حدیث کو ابوذر سے نہیں سنا۔ انتہی،
(۲الجامع لاحکام القرآن تحت الایۃ ۴۳/ ۴۴ دارالکتاب العربی بیروت ۱۶/ ۸۲)
(۱ الترغیب والترہیب من احقارالمسلم وانہ لا فضل لاحد الخ حدیث ۸ مصطفی البابی مصر ۳/ ۶۱۲)
قلت والمرسل مقبول عندنا وعند ا لجمہور ۔ وبہ قال عن جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما قال خطبنا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی اوسط ایام التشریق خطبۃ الوداع فقال ۔ یا ایہاالناس ان ربکم واحدو ان اباکم واحد۔ الا لا فضل لعربی علٰی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لاحمر علٰی اسودولا لا سود علٰی احمر الا بالتقوٰی ان اکرمکم عند اللہ اتقٰکم الاھل بلغت، قالوابلٰی یارسول اﷲ، قال فلیبلغ الشاھد الغیب، ثم ذکرالحدیث فی تحریم الدماء والاموال والاعراض رواہ البیہقی وقال فی اسنادہ بعض من یجہل ۱؎انتہی قلت ( میں کہتا ہوں) اور مرسل ہمارے نزدیک اور جمہور کے نزدیک مقبول ہے ۔ اور اسی مضمون کی روایت کی جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے انہوں نے فرمایا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ایامِ تشریق کے درمیانی دن میں خطبہ الوداع دیا کہ فرمایا ” اے لوگو۔ بے شک تمہارا رب ایک ہے اور بے شک تمہارا باپ ایک ہے۔ سنتے ہو عربی کو عجمی پر فضیلت نہیں اور نہ عجمی کو عربی پر اور نہ سرخ کو کالے پر اور نہ کالے کو سرخ پر فضیلت ہے مگر تقوٰی سے۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے سنتے ہو کیا میں نے رب کا پیغام پہنچادیا۔ صحابہ نے عرض کی کیوں نہیں۔ یارسول اللہ ( صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ) فرمایا اب جو حاضر ہیں وہ غائبین کو پہنچادیں۔ پھر حدیث ذکر کی جو لوگوں کے خون۔ مال اور آبرو کی حرمت میں ارشاد ہوئی ۔ اسے بیہقی نے روایت کیا اور کہا اس کی سند میں بعض مجہول ہیں۔
( ۱؎ الترغیب والترہیب من احقار المسلم وانہ لا فضل لاحدالخ حدیث ۹ مصطفی البابی مصر ۳/ ۶۱۲ تا ۶۱۳)
قلت ولا یضرنا فی الشواھد واخرج الطبرانی فی الکبیر عن حبیب بن خراش رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم المسلمون اخوۃ لا فضل لاحدعلی احدالا بالتقوی ۔ ۲؎ وبالجملۃ فالاحادیث کثیرۃ فی ھذاالمعنی ثم ان الکرامۃ والتقوٰی کلاھما مقولان بالتشکیک فکلما زاد زادت وکلما نقص نقصت والمتساویان فیہ یتساویان فیہا کالعصیان (عہ) سبب للھوان فیزداد بزیادتہ وینتقص بانتقاصہ وھکذا فاذا ثبت ھذا کان معنی قولنا کل اکرم اتقی منحلا الٰی ثلث قضایا احدھا ھذہ والثانیۃ کل ناقص فی الکرم عن غیرہ ناقص عنہ فی التقوٰی والثالث کل متساویین فیھا متساویان فیہ والایۃ الثانیۃ ایضاتنحل الٰی ثلث مقدمات ”ابوبکر اتقی الکل” وھو المنطوق ولا یزید علیہ احد فی التقوٰی و لایساویۃ احدفیہ و عندھذا لیسہل علیک دفع الاشکال ونظم الاشکال لقطع الاحتمال والحمد ﷲ المھیمن المتعال ھذا ما الھمنا المولٰی تبارک وتعالٰی بمنیع فضلہ ورفیع کرمہ ومنحنا من عظام اٰلائہ وحسان نعمہ فی تقریر دلیل اھل السنۃ والجماعۃ ودفع شبہات (ا ھل) البطالۃ والخلاعۃ وارجو ان تکون عامۃ ما فی تلک الخیام من عرائس بیض تجلو الظلام وبسائم تکشِرعن برد الغمام۔ اکون انا ابا عذر تہا وما ذون الدخول فی حجرتہا وان قال الاول لیس علی اللہ بمستنکر ان یجمع العالم فی واحد۔ فقلت انا قد قدر اللہ فلا تنکر۔ ان لحق العاجز بالقادر کیف وقد فازبافضالہ ال ۔ کل فما ظنک بالقادری ۔ قلت ( میں کہتا ہوں) شواہد میں ہم کو راوی کی جہالت مضر نہیں۔ طبرانی نے معجم کبیر میں حبیب بن خراش رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حدیث نقل کی ہے کہ نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔ کسی کو کسی پر فضیلت نہیں مگر تقوٰی سے۔ بالجملہ اس معنی کی حدیثیں بکثرت وارد ہیں مگر کرامت اور تقوٰی دونوں تشکیک کے ساتھ بولے جاتے ہیں تو جب تقوٰی زیادہ ہوگا کرامت زیادہ ہوگی اور جب تقوٰی کم ہوگا کرامت کم ہوگی۔ اور تقوٰی میں متساوی کرامت میں متساوی ہوں گے جیسے کہ عصیان سبب ذلت کا۔ تو ذلت عصیان کی زیادتی سے زیادہ اور اس کی کمی سے کم ہوتی ہے۔ اور یونہی جب یہ بات ثابت ہے تو ہمارے قول ”کل اکرم اتقٰی” کے معنی کی تحلیل تین قضیوں کی طرف ہوگی ان کا ایک تو یہی ہے اور دوسرا یہ ہے کل ناقص فی الکرم عن غیرہ ناقص عنہ فی التقوٰی ( عزت میں دوسرے سے کم تر اس سے تقوٰی میں کمتر ہے) اور تیسرا کل متساویین فیہا متساویان فیہ ( ہر وہ شخص جو تقوٰی میں برابر ہیں وہ عزت میں برابر ہیں) اور اس صورت میں تمہیں اشکال کا دفع کرنا قطع احتمال کے سبب آسان ہے اور سب تعریفیں اللہ کے لیے جو نگہبان و برتر ہے۔۔۔۔۔۔ یہ وہ ہے جو ہمیں اللہ تبارک و تعالٰی نے الہام فرمایا اپنے فضل عظیم اور کرمِ رفیع سے۔ اور بخشا ہمیں اپنے عظیم احسانوں سے۔ اور حسین نعمتوں سے اہلسنت و جماعت کی دلیل کی تقریر میں تائید اور اہل بطالت و ضلالت کے شبہات کے دفع کرنے کے لیے ۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ ان خیموں میں جو خوبصورت دلہنیں ہیں وہ اندھیروں کو دور کریں اور مسکراتی صورتیں جو بارش کے اولے دکھائیں ان میں سے اکثر کا میں ہی صاحب ہوں۔ اور ان کے حجرے میں دخول کا مجاز ہوں۔ اور مجھ سے پہلے نہ کہا تھا کہ اللہ پر مستبعد نہیں کہ عالم کو ایک میں جمع کردے۔ تو میں نے کہا بے شک اللہ نے مقدر کیا تو اس کا انکار نہ کرنا کہ اللہ نے عاجز کو قادر سے ملحق کردیا۔ یوں نہ ہو حالانکہ اللہ کے فضل سے سب بہرہ مند ہیں تو تیرا کیا گمان ہے۔ قادری کے ساتھ۔
عہ: ای فی اصل قضیۃ المجازاۃ اماتدارک الرحمۃ ففضل الہٰی یختص بہ من یشاء ما اسلفنا تحقیقہ (۱۲ منہ) غفرلہ۔
یعنی اصل مقتضائے مجازات میں رہا تدارک رحمت تویہ فضلِ الہٰی ہے اللہ تبارک و تعالٰی جسے چاہے اس کے ساتھ مخصوص فرماتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے اس کی تحقیق گزشتہ میں کی ۱۲ منہ غفرلہ
(۲؎ المعجم الکبیر حدیث ۳۵۴۷ المکتبۃ الفیصلیہ بیروت ۴/ ۲۵)
خاتمہ ، رزقنا اللہ تعالٰی حسنہا امین فان قلت لقد تفضل اللہ علیک یا وضیع القدر فنطقت بکلمات بلغن قاموس البحر فماذا تأمرنی فی المسئلۃ اقطع بتفضیل الصدیق نظراً الٰی ھذا الاستدلال۔ مع مافی الایۃ من تاویل واحتمال۔ اذ ذھب ذاھبون الٰی ان الا تقی بمعنی التقی وان زیفت قولھم بتحقیق نقی ۔ خاتمہ: ، اللہ تبارک و تعالٰی ہمیں حسنِ خاتمہ نصیب کرے۔ اب اگر تم کہو بے شک اللہ نے اے کمترین ۔ تیرے اوپر احسان فرمایا تو تُو نے وہ کلمات بولے جو سمندر کی گہرائیوں میں پہنچ گئے ۔ اب مجھے اس مسئلہ میں کیا حکم دیتا ہے۔ آیا میں فصیلت صدیق کا یقین لاؤں،۔ اس استدلال پر نظر کرتے ہوئے باوجود یہ کہ اس آیت میں تاویل و احتمال ہے اس لیے کہ جانے والے اس طرف گئے کہ اتقی بمعنی تقی ہے اگرچہ تُو نے ان کا قول ستھری تحقیق سے غلط ثابت کردیا۔
قلت نعم اقطع ولاتبال بما قیل او مایقال اذ قاطعان لایأتیان قط الا بقطع وقد سمعت ان الصدیق ھوالمراد بالاتقی باجماع الامۃ قاطبۃ ولم ینقل فی ذلک شذوذ شاذ فکان قطعیا والایۃ الاُ خٰری نص فی المرام لا شک اماما ذکرت من حدیث من ذھب الٰی ما ذھب فقد سمعت ان الاٰیۃ لا مساغ فیھا للتا ویل واحتمال بلا دلیل لاینزل التنزیل عن درجۃ برھان قاطع جلیل ، الا تری ان کل نص یحتمل التاویل ومع ذٰلک ھو قطعی قطعاً کما صرح بہ ائمۃ الاصول ۔ قلت ( میں کہتا ہوں )ہاں یقین کر اور قیل و قال کی پرواہ نہ کر۔ اس لیے کہ دو قطعی نتیجہ نہیں دیتے مگر قطعی کا ۔ اور تم سن چکے کہ صدیق ہی مراد ہیں اتقی سے ساری امت کے اجماع کے بموجب اور اس میں کسی نادر کی رائے شاذ بھی منقول نہیں۔ تو یہ اجماع قطعی ہوا۔ اور دوسری آیت مدعا میں نص ہے جس میں کوئی شک نہیں۔ رہی وہ بات جو تم نے اس رائے کی کہی جس کی طرف جانے والے گئے۔ تو تم سُن چکے کہ آیت میں تاویل کی گنجائش نہیں ا ور احتمال بے دلیل تنزیل کو برہان قاطع جلیل کے درجے سے نازل نہیں کرتا۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہر نص تاویل کی محتمل ہے اور وہ اس کے باوجود یقیناً قطعی ہے جیسا کہ ائمہ اصول نے اس کی تصریح کی ۔
وتحقیق المقام علٰی ما الھمنی الملک العلام ان العلم القطعی یستعمل فی معنیین ۔
اور مقام کی تحقیق اس طور پر جو مجھے اللہ ملک العلام نے الہام کیا یہ ہے کہ علم قطعی دو معنی میں مستعمل ہوتا ہے۔
احدھما: قطع الاحتمال علی وجہ الاستیصال بحیث لایبقی منہ خبرولا اثروھذاھو الاخص الاعلٰی کما فی المحکم والمتواتر وھو المطلوب فی اصول الدین فلا یکتفی فیہا بالنص المشہور ۔ ایک تویہ کہ احتمال جڑ سے منقطع ہوجائے بایں طور کہ اس کی کوئی خبر یا اس کا کوئی اثر باقی نہ رہے۔ اور یہ اخص اعلٰی ہے جیسا کہ محکم اور متواتر میں ہوتا ہے۔ اور اصولِ دین میں یہی مطلوب ہے۔ تو اس میں نصِ مشہور پر کفایت نہیں ہوتی۔
والثانی : ان لایکون ھناک احتمال ناش من دلیل وان کان نفس الاحتمال باقیاً التجوز و التخصیص وسائر انحاء التاویل کما فی الظواھر والنصوص والاحادیث المشہورۃ والاول یسمی علم الیقین و مخالفہ کافر علی الاختلاف فی الاطلاق کما ھو مذہب فقہاء الاٰفاق ، والتخصیص بضروریات الدین ما ھو مشرب العلماء المتکلمین ۔ و الثانی علم الطمانیۃ ومخالفہ مبتدع ضال ولا مجال الی اکفارہ کمسئلۃ وزن الاعمال یوم القیمۃ قال تعالٰی ”والوزن یومئذن الحق ۱؎” و یحتمل النقد احتمالاً لاصارف الیہ ولا دلیل اصلاعلیہ فیکون کقولک ” وزنتہ بمیزان العقل” وھورائج فی العجم ایضاً تقول ”سخن سنج” ای ناقدا لکلام۔ دوسرا : یہ کہ اس جگہ ایسا احتمال نہ ہو جو دلیل سے ناشی ہو اگرچہ نفس احتمال باقی ہو۔ جیسے کہ مجاز اور تخصیص ۔ اور باقی وجوہِ تاویل ۔ جیسا کہ ظواہر اور نصوص اور احادیث مشہورہ میں ہے۔ اور پہلی قسم کا نام علم یقین ہے اور اس کا مخالف کافر ہے علماء میں اختلاف کے بموجب مطلقاً ۔ جیسا کہ فقہائے آفاق کا مذہب ہے یا ضروریات دین کی قید کے ساتھ یہ حکم مخصوص ہے جیسا کہ علمائے متکلمین کا مشرب ہے اور دوسرے کا نام علم طمانیت ہی اور اس کا مخالف بدعتی و گمراہ ہے اور اس کو کافر کہنے کی مجال نہیں۔ جیسے کہ قیامت کے دن اعمال کو تولنے کا مسئلہ ۔ اللہ تعالٰی کا قول ہے ”اور قیامت کے دن تول ہونا برحق ہے ” اور یہ آیت نقد (پرکھ) کا ایسا احتمال رکھتی ہے ۔ جس کی طرف پھیرنے والی کوئی چیز نہیں اور نہ اصلاً اس پر کوئی دلیل ہے۔ اب آیت کا معنٰی تمہارے قول ” میں نے اس کو میزانِ عقل سے تولا” کے مثل ہوگا۔ اور یہ عجم میں رائج ہے۔ تم کہتے ہو ”سخن سنج” یعنی کلام کو پرکھنے والا۔
(۱؎القرآن الکریم ۷/۸)
و مسئلۃ رؤیۃ الوجہ الکریم للمؤمنین۔ رزقنا المولٰی بفضلہ العمیم ۔ قال تعالٰی ”وجوہ یومئذ ناضرۃ الٰی ربہا ناظرۃ ۱ ویحتمل احتمالاً کذلک ارادۃ الامل و والرجاء وھو ایضاً مما توافقت علیہ العرب والعجم تقول ”دستِ نگر من ست” ای یرجو عطائی ویحتاج الٰی نوالی وھٰکذا مسئلۃ الاسراء الی السمٰوٰت العلی والشفاعۃ الکبرٰی للسیدالمصطفٰی علیہ افضل التحیۃ والثناء فکل ذل ثابت بنصوص قواطع بالمعنی الثانی۔ ولذا لا نقول بالکفار المعتزلۃ والروافض اولالین الماؤلین ۔ وھکذا الظن لہ معینان اذ مقابل الاعم اخص والا عم اخص کما لا یخفی۔ اور مومنین کے لیے اللہ تبارک وتعالٰی کے دیدار کا مسئلہ۔ مولائے کریم اپنے فضل عظیم سے نصیب فرمائے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا ” کچھ منہ اس دن ترو تازہ ہوں گے اپنے رب کو دیکھتے” احتمال رکھتا ہے اسی طرح اُمید ورجاء کے ارادے کا۔ اور یہ بھی ان باتوں میں سے ہے جن پر اب عرب و عجم سب متفق ہیں ۔ تم کہتے ہو ”دستِ نگر من ست” یعنی میری عطا کی امید رکھتا ہے اور میری بخشش کا محتاج ہے۔ اور اسی طرح آسمانوں کی سیر اور شفاعتِ کُبری محمد مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے لیے کہ یہ تمام باتیں دوسرے معنی پر نصوصِ قطعی سے ثابت ہیں۔ اور اسی لیے ہم تاویل کرنے کے سبب معتزلہ اور اگلے روافض کی تکفیر نہیں کرتے ۔ اور اسی طرح ظن کے دو معنی ہیں اس لیے کہ اعم کا مقابل اخص ہے اور اعم اخص ہے جیسا کہ پوشیدہ نہیں۔
(۲؎القرآن الکریم ۷۵ /۲۳ و ۲۲)
اذاعرفت ھذا فمسئلتنا ھذہ ان اریدفیہا القطع بالمعنی الاخص فھذا جبل وعرصعب المرتقی۔ اذماوردفیہا فامانص اوظاھر وکلاھما یقبلان التاویل ولو قبولاً ضعیفاً بعیدًا او ابعد اضعف مایکون کالا تقی فیما نحن فیہ یحتمل التجوز بالبالغ فی التقوٰی والخیر والافضل فی الاحادیث یحتمل تقدیر من کقول القائل ”فلان اعقل الناس” وما جاء من الاحادیث مفسّراً محکماً فاحاد تطرق الیہا الاحتمال من قبل النقل لکنا مالنا ولھذا القطع، اذلا نقول باکفار المفضلۃ ومعاذ اللہ ان نقول اما الا بتداع فیثبت بخلاف القطع بالمعنی الثانی وھو حاصل لا شک فیہ لایسوغ انکارہ الالغافل اومتغافل فقد تظافرت علیہ النصوص تظافرا جلیا وبلغت الاخبار تواتراً معنویا والاحتمالات الرکیکۃ السخیفۃ الناشیۃ من غیر دلیل لا تقدح فی القطع بھٰذا المعنی کما صرحت بہ علماء الاصول وزادنا نوراً الٰی نورو رشاداً الٰی رشاد اجماع الصحابۃ الکرام و التابعین العظام ما نقلہ جمہور الائمۃ الاعلامہ، منھم سیدنا عبداللہ بن عمر وابوھریرۃ من الصحابۃ ومیمون بن مھران من التابعین والامام الشافعی من الاتباع وغیرہم من لایحصون لکثرتھم ۔ وحکایۃ ابن عبدالبرلا معقولۃ فی الدرایۃ ولا مقبولۃ فی الروایۃ کما حققناہ فی مطلع القمرین مع ما ارشدنا القرآن العظیم واحادیث المصطفٰی الکریم علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم الٰی دلائل جمۃ توخذ منہما بالاستنباط ووفق لہا ھذا الفقیر الضعیف کما عقدنا لہا الباب الثانی من الکتاب البیر فلولا الاو احد من ھذہ لشفی وکفی ودفع کل ریب ونفی، فکیف اذا کثرت وجلت وعقدت و حلت ورعدت و برقت و اضاء ت واشرفت فلا وربک لم یبق للشک محل ولا للریب مدخل والحمد للہ الا علٰی الاجل۔ جب تم نے یہ جان لیا تو ہمارا یہ مسئلہ اگر اس میں قطعی بالمعنی الاخص مراد لیا جائے تو یہ پہاڑ ہے سخت دشوار گزار چڑھائی والا ۔ اس لیے کہ اس میں جو کچھ وارد ہوا ہے یا تو نص ہے یا ظاہر ہے اور دونوں تاویل کو قبول کرتے ہیں اگرچہ ضعیف بعید یا بہت زیادہ ابعد اضعف سہی۔ جیسے کہ ہمارے اسی مسئلہ میں جس میں ہمیں بحث ہے جیسے کہ اتقی، تقوٰی اور خیر میں بالغیت کے معنی مجازی کا حتمال رکھتا ہے اور احادیث میں لفظ افضل کے مقدر ہونے کا احتمال رکھتا ہے جیسے کوئی کہے ” فلان اعقل الناس ” ( فلاں شخص لوگوں سے زیادہ عاقل ہے) اور جو احادیث مفسرمحکم آئیں تو وہ خبر واحد ہیں جن میں روایت کی طرف سے احتمال راہ پاتا ہے لیکن ہمیں اس طرز کے قطعی سے کیا کام۔ اس لیے کہ ہم تفضیلیوں کے کافر ہونے کا قول نہیں کرتے اور اللہ کی پناہ ہو کہ ہم یہ قول کریں۔ لیکن اُن کا بدعتی ہونا وہ تو ثابت ہے برخلاف قطعی بمعنی دیگر تو وہ بلاشک حاصل ہے جس کا انکار سوائے غافل یا غافل بننے والے کے کسی کو نہ بن پڑے گا اس لیے کہ اسپر واضح کثرت کے ساتھ نصوص آئیں اور احادیث تواتر معنوی کی حد کو پہنچ گئیں اور رکیک کمزور احتمالات جو کسی دلیل سے ناشی نہیں ہوتے اس معنی پر قطعی میں اثر انداز نہ ہوں گے۔ جیسا کہ علمائے اصول نے اس کی تصریح کی ہے اور ہمارے لیے نُور پر نور بڑھایا اور ہدایت کے اوپر ہم کو ہدایت کی صحابہ کرام ا ور تابعین عظام کے اجماع نے ۔ جیسا کہ اس کو نقل کیا ہے جمہور آئمہ اعلام نے ۔ ان میں عبداللہ بن عمر اور ابوہریرہ صحابہ میں سے ۔ اور میمون ابن مہران تابعین میں سے۔ اور امام شافعی تبع تابعین میں سے۔ اور ان کے سواجن کی گنتی نہیں بوجہ ان کی کثرت کے ۔ اور ابن عبدالبر کی حکایت نہ توازراہِ درایت معقول ہے اور نہ روایت مقبول ہے جیسا کہ ہم نے اس کی تحقیق کی ہے مطلع القمرین میں مع ان دلائل کثیرہ کے جن کی طرف ہماری رہنمائی قرآن عظیم اور احادیثِ مصطفٰی کریمہ علیہ الصلوۃ والسلام نے کی۔ یہ دلائل قرآن و حدیث سے استنباط کے ذریعہ ماخوذ ہیں اور ان کے لیے اس فقیر ناتواں کو توفیق ہوئی جیسا کہ ہم نے اس کے لیے اپنی کتاب کبیر کا باب دوئم باندھا ہے تو اگر ان دلائل میں سے نہ ہوتی مگر ایک دلیل تو وہ بھی شافی و کافی ہوتی اور ہر شک کی دافع و نافی ہوتی تو کیا گمان ہے جب کہ یہ دلائل کثیر و جلیل ہوں اور دین کی گرہیں باندھیں اور شبہوں کی رسیاں کھولیں اور گرجیں اور چمکیں اور روشن اور بلند ہوں تو تیرے رب کی قسم شک کا محل باقی رہا نہ شبہہ کا مدخل۔ والحمد ﷲ الا علی الاجل۔
اما قول من قال انا وجدنا النصوص متعارضۃ فھذا اخبار عن نفسہ فکیف یحتج بہ علی من نظر وابصر ونقد واختبر فقتلہا خبرا واحاط بما لد یھا علماً علی انہ ان ارادا التعارض الصوری وقد یطلق علیہ ایضاً کقول الا صولیین یقدم المحکم علی المفسّروالمفسر علی النص والنص علی الظاھر عند التعارض مع انہ لا تعارض لضعیف مع قوی فہذا لا یضرنا ولا ینفعہ وان اراد الحقیقی اعنی تزاحم الحجتین علی حد سواء فنقول معنا ناش عن غفول وعلی قائلہ اومن یمشی بمشیہ ان ینور دعواہ ببینۃ مبینۃ وانی لھم ذالک ولیت شعری الام یودی ضیق العطن اذارأی احادیث لاتخیر وابین الانبیاء (۱) ولا تفضلونی علٰی یونس بن متی (۲) وافضل الانبیاء آدم (۳) وذالک (ای’) خیرالبریۃ ابراہیم (۴) ایقول بتعارض النصوص فی تفضیل المصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علی العالمین جمیعا ام یرجع الٰی نفسہ فیدری ان التعارض شیئ ومجرد وجود النفی و الاثبات شیئ اخر۔
رہی اس کی بات جس نے ہا ہم نے نصوص کو متعارض پایا تو یہ اس کی اپنی حالت کی خبر ہے۔ تو وہ کیسے حجت لاتا ہے اس سے اس پر جس نے دیکھا اور غور کیا اور جا نچا اور پرکھا تو نصوص کو خوب پرکھ کے جان لیا اور انکے پاس جو علم ہے اس کا احاطہ کیا۔ علاوہ بریں یہ کہ اگر اس نے تعارض صوری مراد لیا ا ور کبھی تعارض کا اطلاق اس پر بھی آتا ہے جیسے اصولی کہتے ہیں کہ محکم کو مفسر پر اور مفسر کو نص اور نص کو ظاہر پر تعارض کے وقت مقدم کیا جائے گا حالانکہ بلاشبہ ضعیف کا قوی کے ساتھ اصلاً تعارض نہیں ہوتا تو یہ ہم کو نقصان نہ دے گا نہ اس کو فائدہ دے گا اور اگر اس نے تعارض حقیقی مراد لیا یعنی دو دلیلوں کا برابری کی حد پر ایک دوسرے کے مزاحم ہونا تو ہم کہیں گے یہ معنی غفلت سے ناشی ہے اور اس کے قائل پر یا جو اس کے طریقے پر چلے لازم ہے کہ اپنے دعوٰی کو روشن دلیل سے منور کرے اور ان کو یہ کیونکر بن پڑے گا۔ اور کاش میں سمجھتا کہ کہ بندش کی تنگی کا انجام یا ہوگا جبکہ وہ یہ حدیثیں دیکھتے کہ انبیاء میں باہم ایک دوسرے کو فضیلت نہ دو اور مجھے یونس ابن متی پر فضلیت مت دو، اور آدم افضل انبیاء ہیں۔ اور ابراہیم خلق میں سب سے بہتر ہیں۔ کیا وہ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی سب جہان پر فضیلت میں تعارض نصوص کو مانے گا یا اپنے نفس کی طرف لوٹے گا تو سمجھے گا کہ تعارض ا یک شے ہے اور مجرد وجود نفی وا ثبات دوسری شے ہے ۔
(۱ صحیح البخاری کتاب الخصومات باب ما یذکر فی الاشخاص قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۳۲۵)
(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل موسی علیہ السلام قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۲۶۸)
(۲اتحاف السادۃ المتقین کتاب قواعد العقائد “الاصل السابع” دارالفکر بیروت ۲/ ۱۰۵)
(۳المعجم الکبیر حدیث ۱۱۳۶۱ المکتبۃ الفیصیلیۃ بیروت ۱۱/ ۱۶۰)
(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب فضائل ابراھیم علیہ السلام قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۲۶۵)
وبہٰذا التحقیق البدیع الانیق الذی خصنا بہ المولٰی تبارک وتعالٰی امکن لنا التوفیق بین کلمات الائمۃ الکرام فمن قال بالقطع ونفی الظن فانما ارادا لقطع بالمعنی الا عم والظن وبالمعنی الاخص وھو حق لا مریۃ فیہ ومن عکس فقد عکس وھو صدق لاغبار علیہ۔ فان تخالج فی صدرک ان المسئلۃ من الاعتقادیات فکیف اکتفیتم بالقطع بالمعنی الثانی ۔ اور اس تحقیق انیق و بے نظیر سے جو خاص اللہ تبارک و تعالٰی نے ہم کو عنایت کی ہم کو آئمہ کرام کے کلمات میں مطابقت ممکن ہے تو جس نے اس مسئلہ کو قطعی کہا اور ظن کی نفی کی تو اس نے قطعی بالمعنی الاعم ہی کو مراد لیا اور ظن بالمعنی الاخص۔ اور حق یہ ہے جس میں کوئی شبہ نہیں اور جس نے عکس کیا تو اس نے عکس کیا اور وہ سچ ہے جس پر کوئی غبار نہیں۔ اب اگر تمہارے سینے میں یہ خلش ہو کہ یہ مسئلہ تو اعتقادیات سے ہے تو تم نے معنی ثانی میں قطعی پر کیسے اکتفا کرلیا۔
قلت ھذا اشد ورودًا علی القائلین بالظن ان ارادوا الظن بالمعنی الاخص والحل ان المسئلۃ لیست من اصول الاسلام حتی یکفر جاحدھا کمسئلۃ امامۃ الخلفاء الراشدین رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین وبھذا المثال ینقطع قلب من قال من بطلۃ الزمان انہا اذا لم تکن من الاصول کما صریح بہ السید الشریف فی شرح المواقف۱ وغیرہ من المتکلمین الفحول وکذا قد شہد علٰی نفسہ بالرسۃ الکبرٰی فی مناصب الجہل والسفاھۃ من قال اذلم تکن قطعیۃ قلنا ان نطوی الکشح عن تسلیمھا قل لھم اترکوا لواجبات باسرھا ثم انظروا مایأتیکم من وعید الشریعۃ وتأثیمھا واذ قد علمت ان ھذا التحقیق یرفع الخلاف ویورث التطبیق فعلیک بہ اتفقت الاقوال اواختلفت اذ کلمۃ جامعۃ خیر من آراء متدافعۃ فان رأیت شیئا من کلمات المتاخرین تابی ھذا النور المبین فاعلم ان تخطیۃ ھذاالبعض خیر من تخطیۃ احد الفریقین من آئمہ الدین ، لاسیما القائلین بالقطع فھم العمد الکبارللدین الحنیف ۔ وبھم تشید ارکان الشرع المنیف۔ قلت ( میں کہتا ہوں ) یہ اعتراض ان لوگوں پر جو ظنی کے قائل ہیں زیادہ سختی کے ساتھ وارد ہوتا ہے جب کہ وہ ظن بالمعنی الاخص مراد لیں۔ اور اس کا حل یہ ہے کہ یہ مسئلہ اصولِ اسلام سے نہیں ہے کہ اس کا منکر کافر ٹھہرے۔ جیسے کہ خلفائے راشدین رضی اللہ تعالٰی عنہم کی خلافت کا مسئلہ۔ اور اس مثال سے اس کا دل ٹکڑے ہوجائے گا جو اس زمانہ کے اہلِ باطل میں سے کہتا ہے کہ جب یہ مسئلہ اصول میں سے نہیں جیسا کہ سید شریف نے شرح مواقف میں اور دوسرے علماء متکلمین نے اس کی تصریح کی اور یونہی مناسب جہل و حماقت میں اپنی زعمتِ کبرٰی پر گواہی دی اس نے جس نے یہ کہا کہ جب یہ مسئلہ قطعی نہیں ہے تو ہمیں اختیار ہے کہ ہم اسے تسلیم کرنے سے پہلو تہی کریں۔ ان سے ہو سارے واجبات کو چھوڑ دو پھر دیکھو کہ تمہارے پاس شریعت کی کیسی وعید اور تمہارے گنہ گار ہونے کی تہدید آتی ہے۔ جب تم نے جان لیا کہ یہ تحقیق خلاف کو اٹھاتی اور کلماتِ علماء میں مطابق پیدا کرتی ہے تو تم اس کو لازم پکڑو اقوال متفق ہوں یا مختلف اس لیے کہ ایک جامع بات باہم ٹکراتی باتوں سے بہتر ہے تو اگر تم دیکھو کلماتِ متاخرین میں کوئی عبارت اس نورِ مبین سے اِباء کرتی ہے تو جان لو کہ اس بعض کو خاطی جاننا بہتر ہے اس سے کہ آئمہ دین میں کسی فریق کو خاطی ٹھہرایا جائے خصوصاً وہ آئمہ کرام جو اس مسئلہ کو قطعی کہتے ہیں اس لیے کہ وہی دین حنیف کے بڑے ستون ہیں اور انہیں سے شرع بلند و برتر کے ستون قائم ہیں۔
(۱شرح الموقف المرصد الرابع فی الامامۃ منشورات الرضی قم ایران ۸ /۳۴۴ تا ۴۰۱)
فمنہم من ھو اولہم واولٰھم سیدھم ومولٰیھم اکثرھم للتفضیل تفصیلا واشد ھم علی المخالف تنکیلا سیدنا المرتضٰی اسد اللہ العلی الاعلی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم اذقد تواتر عنہ فی ایام امامتہ وکرسی زعامتہ تفضیل الشیخین علٰی نفسہ وعلی سائرالامۃ۔ ورمٰی بھابین اکتاف الناس وظہورھم حتی جلی ظلام شکوک مدلھمۃ۔ روی الدارقطنی عنہ رضی اللہ تعالٰی عنہ قال لااجداحدًا فضلنی علی ابی بکر و عمر الاجلدتہ حد المفترٰی (۱) (عہ ) قال سلطان الشان ابوعبداللہ الذھبی حدیث صحیح ۔ تو ان میں سے ایک وہ ہیں جو سب سے زیادہ اول و اولٰی اور ان سب کے سید و مولٰی اور مسئلہ تفضیل کو سب سے زیادہ بیان کرنے والے اور مخالفین کو سخت سزا کا خوف دلانے والے سیدنا علی مرتضٰی اللہ بلند وبالا کے شیر کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم اس لیے کہ ان کے ایامِ خلافت اور کرسی زعامت میں ان کا شیخین ابوبکر و عمر کو خود پر اور تمام امت پر فضیلت دینا تواتر سے ثابت ہوا اس کو لوگوں کے کندھوں اور پشتوں پر مارا یعنی اس مسئلہ کو لوگوں کے سامنے اور ان کے پیچھے خوب روشن کیا یہاں تک ہ تیرہ و تار شبہات کی اندھیری کو دور کردیا۔ دارقطنی نے اسی جناب سے روایت کیا۔ فرمایا میں کسی کو نہ پاؤں گا جو مجھے ابوبکر و عمر پر فضیلت دے مگر یہ کہ میں اس کو مفتری کی حد ماردوں گا۔ اس فن کے سلطان حضرت ابوعبداللہ ذہبی نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔
(۱؎ الصواعق المحرقۃ بحوالہ الدار قطنی الباب الثالث الفصل الاول دارالکتب العلمیہ بیروت ص ۹۱)
عہ : وقد کان رضی اللہ تعالٰی عنہ یبوح بھذا فی المجامع الشاملۃ والمحافل الحافلۃ والمساجد الجامعۃ وفیھم من فیھم من الصحابۃ والتابعین لھم باحسان ثم لم ینقل عن احد منھم انہ ردقولہ ھذا ولقد کانوا اتقٰی اللہ تعالٰی من ان یسکنوا عن حق اویقروا علٰی خطاؤ ھم الّذین وصف اﷲ سبحٰنہ وتعالٰی فی القرآن العظیم بانھم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر ۲ وائمتھم الکرام کانوااتقی ومنھم احرص علی الرشد والصواب۔ وقد کانوا یحثون العلماء علی ابانۃ الحق ان خطاء وتقویمہ الاودان مالوا۔
اور سیدنا علی رضی اللہ تعالٰی عنہ عام مجمعوں میں اور بھری محفلوں میں اور جامع مسجدوں میں اس بات کا اعلان فرماتے تھے اور لوگوں میں صحابہ اور تابعین کرام موجود ہوتے تھے پھر ان میں سے کسی سے یہ منقول نہیں کہ انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اس قول کو رد کیا ہو اور بے شک وہ اللہ تعالٰی سے بہت ڈرنے والے تھے اور اس بات سے دور تھے کہ حق بتانے سے خاموش رہیں یا کسی خطا کو مقرر رکھیں حالانکہ یہ وہ لوگ ہیں جن کا اللہ تبارک و تعالٰی نے قرآن عظیم میں یوں بیان فرمایا ” اور تم بہترین اُمت ہیں جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی کہ بھلائی کا حکم دیتے اور بُرائی سے روکتے ہو” اور اس گروہ کے آئمہ کرام ان سے زیادہ متقی اور ہدایت و صواب پر ان سے زیادہ حریص تھے اور علماء کو حق ظاہر کرنے پر اکساتے تھے اگر ان سے خطا ہو اور کجی کو درست کرنے کی ترغیب دیتے تھے اگر وہ منحرف ہوں۔
(۲؎القرآن الکریم ۳ /۱۱۰)
قلت انظر الی ھذا الوعید الشدیدا افتراہ معاذ اللہ مجترأعلی اللہ تعالٰی فی اجراء الحدود مع تعارض الظنون وھو الراوی عن النبی صلی اللہ تعالٰی علی وسلم ادرؤاا لحدود ۱ اخرجہ عنہ الدار قطنی والبیھقی۔ ( ۱؎ سنن الدارقطنی کتاب الحدود والدیات حدیث ۳۰۶۲/۹ دارالمفرفۃ بیروت ۳/۶)
(سنن الکبرٰی کتاب الحدود باب ماجاء فی درء الحدود بالشبہات دارصادر بیروت ۸ /۲۳۸)
قلت (میں کہتا ہوں ) اس وعید شدید و دیکھو تو کیا تم حضرت علی کو گمان کرو گے پناہ بخدا اللہ تبارک و تعالٰی پر جرا ت کرنے والا حدود کو جاری کرنے میں باوجود گمانوں کے تعارض کے حالانکہ وہی نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے راوی ہیں کہ فرمایا ” حدود کو دفع کرو۔ مولٰی علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بیہقی ودارقطنی نے روایت کیا
وقد قال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ادرؤا الحدود عن المسلمین ما استطعتم فان وجد تم للمسلم مخرجاً فخلوا سبیلہ فان الامام ان یخطی فی العفو خیر من ان یخطی فی العقوبۃ رواہ ابن ابی شیبۃ والترمذی ۱ والحاکم والبیہقی عن اُم المومنین الصدیقۃ رضی اللہ تعالٰی عنہما ومنہم میمون ابن مھر ان من فقہاء التابعین سُئِل ابوبکر و عمر افضل ام علی ۔ فقف شعرہ وارتعدت فرائصہ حتی سقطت عصاہ من یدہ وقال ماکنت اظن ان اعیش الٰی زمان یفضل الناس فیہ احداً علی ابی بکرو عمر اوکما قال رواہ ابونعیم۲ عن فرات بن السائب ۔ اور فرمایا حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ” مسلمانوں سے حدود کو دفع کرو جب تک تم کو استطاعت ہے۔ تم اگر تم مسلمان کے لیے کوئی راہِ خلاص پاؤ تو اس کا راستہ چھوڑ دو اس لیے کہ امام کا درگزر میں خطا کرنا اس سے بہتر ہے کہ وہ عقوبت میں خطا کرے” اس حدیث کو ابن ابی شیبہ۔ ترمذی ۔ حاکم اور بیہقی نے ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کیا اور انہیں میں سے حضرت میمون ابن مہران ہیں جو کہ فقہائے تابعین سے ہیں ان سے سوال ہوا کہ سیدنا ابوبکر و عمر افضل ہیں یا علی تو ان کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور ان کی رگیں پھڑکنے لگیں یہاں تک کہ چھڑی ان کے ہاتھ سے گر گئی اور انہوں نے کہا کہ مجھے گمان نہ تھا کہ میں اس زمانہ تک جیوں گا۔ جس میں لوگ ابوبکر و عمر پر کسی کو فضیلت دیں گے ۔ یا جیسا انہوں نے فرمایا اس حدیث کو روایت کیا ابونعیم نے فرات بن سائب سے ۔
( ۱؎ المستدرک للحاکم کتاب الحدود باب ان وجدتم لمسلم مرجا الخ دارالفکر بیروت ۴ /۳۸۴)
جامع الترمذی ابواب الحدود باب ماجاء فی درء الحدود امین کمپنی دہلی ۱ /۱۷۱)
(السنن الکبرٰی کتاب الحدود باب ماجاء فی درء الحدود بالشبہات دارصادربیروت ۸ /۲۳۸)
(المصنف لا بن ابی شیبیہ کتاب الحدود باب فی درء الحدود بالشبہات حدیث ۲۸۴۹۳ دارالکتب العلمیہ بیروت ۵ /۵۰۸)
(۲؎ حلیۃ الاولیاء ترجمہ ۲۵۱ میمون بن مہران دارالکتاب العربی بیروت ۴ /۹۲ و ۹۳)
ومنہم عالم المدینۃ الامام مالک بن انس رضی اللہ تالٰی عنہ سُئِل عن افضل الناس بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فقال ابوبکر و عمر۔ ثم قال اوفی ذٰلک شک ۱ اور انہیں میں سے عالمِ مدینہ امام مالک بن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں ان سے سوال ہوا رسول ا للہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بعد سب لوگوں سے افضل کے بارے میں ۔ تو فرمایا ابوبکر و عمر ۔ پھر فرمایا کیا اس میں کوئی شک ہے ۔
( ۱؎ شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصدالسابع الفضل الثالث دارالمعرفۃ بیرو ت ۷ /۳۸)
ومنہم الامام الاعظم الاقدم الاعلم الاکرم سیدنا ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سئل ن علامات اھل السنۃ فقال ان تفضل الشیخین وتحب الختنین و تمسح علی الخفین ۲ اور انہیں میں سے امام اعظم اقدم سب سے زیادہ علم رکھنے والے سب سے زیادہ مکرم سیدنا ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں ان سے سوال ہوا اہلسنت کی علامات کے بارے میں تو انہوں نے فرمایا اہلسنت کی پہچان یہ ہے کہ تو شیخیں ابوبکر و عمر کو نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل جانے اور حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے دونوں دامادوں سے محبت کرے اور خفین پر مسح کرے۔
(۲؎ تمہید ابی الشکور السالمی الباب الحادی عشر القول السادس دارالعلوم حزب الاحناف الاہور ص ۱۶۵)
(خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الفاظ الکفر الفضل الاول مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۲ /۳۸۱)
ومنھم عالم قریش مالئی طباق الارض علماً سیدنا الامام محمد بن ادریس الشافعی المطلبی نقل اجماع الصحابۃ والتابعین علٰی تفضیل الشیخین ولم یحک خلافا۳ انہیں میں سے عالم قریش زمین کے طباق کو علم سے بھرنے والے سیدنا امام محمد ابن ادریس شافعی مطلبی انہوں نے صحابہ اور تابعین سےا فضیلتِ شیخین پر اجماع نقل کیا ۔
ومنہم امام اھل السنۃ والجماعۃ صاحب الحکمۃ الیمانیۃ سیدنا الامام ابوالحسن الاشعری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کما نقل عنہ العلماء الثقات ومنھم الامام الھمام حجۃ الاسلام ذکر فی قواعد عقائد الاماجد وذر فیہا مسئلۃ التفضیل وقال فی اٰخرھا ان فضل الصحابۃ رضی اللہ تعالٰی عنہم علی حسب ترتیبہم فی الخلافۃ اذ حقیقۃ الفضل ما ھو فضل عند اللہ عزوجل وذٰلک لا یطلع علیہ الاّرسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۱ وان یعتقد فضل الصحابۃ رضی اللہ تعالٰی عنہم و ترتیبہم وان افضل الناس بعد النی صلی اللہ تعلاٰی علیہ وسلم ابوبکر ثم عمر ثم عثمان ثم علی رضی اللہ تعالٰی عنہم ۲ اور انہیں میں امام اہلسنت و جماعت حکمتِ یمانیہ سیدنا امام ابوالحسن اشعری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ہیں۔ جیسا کہ ان سے علمائے ثقات نے نقل کیا ا ور انہیں میں امام ہمام حجۃ الاسلام ( غزالی) انہوں نے قواعد العقائد میں مجد والے آئمہ کے عقائد کو ذکر کیا اور ان عقائد میں مسئلہ تفضیل کو ذکر کیا اور اس کے آخر میں کہا کہ صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کی فضیلت خلافت میں ان کی ترتیب کے موافق ہے اس لیے کہ حقیقتِ فضل وہ ہے جو اللہ کے نزدیک فضل ہو اور اس پر رسول اللہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے سوا کسی کو اطلاع نہیں۔ یا آدمی صحابہ رضوان اﷲ علیہم کی فضیلت اور اس میں ترتیب کا اعتقاد کرے اور یہ عقیدہ رکھے کہ نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل ابوبکر ہیں پھر عمر پھر عثمان پھر علی رضی اللہ تعالٰی عنہم۔
ومنہم الامام جبل الحفظ علامۃ الورٰی سیدنا ابن حجرالعسقلانی والامام العلام احمد بن محمد القسطلانی و المولٰی الفاضل عبدالباقی الزرقانی وناظم قصیدۃ بدء الامالی والفاضل الجلیل مولانا علی القاری وغیرہم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین حدثنا المولٰی الثقۃ الثبت سلالۃ العارفین السید الشریف الفاطمی سیدنا ابوالحسین احمد النوری قال سمعت شیخی و مرشدی سیدنا و مولانا اٰل الرسول الاحمدی قال سمعت الشآہ عبدالعزیز الدھلوی یقول تفضیل الشیخین قطعی او کا لقطعی۔ اور انہیں میں امام حفظ کے پہاڑ علامہ جہاں سیدنا امام حجر عسقلانی اور امام علام احمد بن محمد قسطلانی اور مولٰی فاضل عبدالباقی زرقانی اور قصیدہ بدء الامالی کے ناظم اور فاضل جلیل مولانا علی قاری وغیرہم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین ہیں۔ ہم سے حدیث بیان کی مولٰی ثقہ ثبت سلالتہ العارفین سید شریف فاطمی سیدنا ابوالحسین نوری نے انہوں نے فرمایا میں نے سنا اپنے شیخ اور مرشد آل رسول احمدی سے انہوں نے فرمایا میں نے سنا شاہ عبدالعزیز دہلوی سے وہ فرماتے تھے شیخین کی فضیلت قطعی ہے یا قطعی جیسی ہے۔
اقول ولک ان تحمل التردید علی التنویع دون التردد ۔ فالمعنی قطعی بالمعنی الثانی وکالقطعی بالمعنی الاول۔ ومن ھٰھنا بان لک ان من قال رأینا المجمعین ایضاً ظانین غیر قاطعین فقد صدق ان ارادالظن بالمعنی الا عم والقطع بالمعنی الاخص۔ ولا یضرنا ولا ینفعہ وان عکس فقد غلط وھو محجوج بدلائل لاقبل لہ بہاواللہ تعالٰی اعلم ۔ ھذا جملۃ القول فی ھذاالمقام وقد اشرناک الٰی نکت تجلوبہا الظلام اما التفصیل فقد فرغنا عنہ فی کتاب التفضیل بتوفیق الملک الجلیل۔ و لاحول ولا قوۃ الا باللہ اقول: ( میں کہتا ہوں) اور تمہیں اختیار ہے کہ تردید کو تقسیم پر محمول کرو نہ کہ تردد پر۔ تو معنی یہ ہے کہ معنی ثانی پر فضیلت شیخین قطعی ہے اور معنی اول پر قطعی جیسی ہے اور یہاں سے تمہیں ظاہر ہوگیا کہ جس نے یہ کہا کہ ہم نے ا س مسئلہ میں اجماع کرنے والوں کو دیکھا کہ وہ بھی ظن پر قائم ہیں قطعی فیصلہ نہیں کرتے تو وہ سچا ہے اگر اس نے ظن بالمعنی الاعم مراد لیا اور قطعی بالمعنی الاخص کا قصد کیا۔ اور یہ کہ ہم کو نقصان دہ نہیں اور اس کو سود مند نہیں اور اگر وہ اس کا عکس مراد لے تو اس نے غلط کہا اور اس پر ان دلائل سے حجت قائم ہے جن کے مقابل کی اس کو طاقت نہیں۔ واللہ تعالٰی اعلم اس مقام میں یہ مختصر قول ہے اور ہم نے تمہیں اشارہ کیا اُن نکتوں کی طرف جن سے اندھیرا چھٹ جاتا ہے۔ رہی تفصیل تو ہم اس سے فارغ ہوچکے ہیں۔ کتاب تفصیل میں اللہ ملک جلیل کی توفیق سے ۔ اور برائی سے پھرنے اور نیکی یک طاقت نہیں مگر اللہ سے۔
لطیفۃ ، قال الامام الرازی فی مفاتیح الغیب سورۃ والیل سورۃ ابی بکر۔ و سورۃ والضحٰی سورۃ محمد علیہ الصلوۃ والسلام ثم ماجعل بینہما واسطۃ لیعلم انہ لا واسطۃ بین محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وابی بکر فان ذکرت اللیل اولاً وھو ابوبکر ثم صعدت وجدت بعدہ النہار وھو محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وان ذکرت والضحٰی اولا وھو محمد صلی اللہ تعالٰی لیہ وسلم ثم نزلت وجدت بعدہ واللیل وھو ابوبکر لیعلم انہ لا واسطۃ بینھما ۱ انتہی لطیفہ : فرمایا امام رازی نے مفاتیح الغیب میں کہ سورہ واللیل ابوبکر کی سورۃ ہے اور سورہ والضحٰی محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی سورت ہے ۔ پھر اللہ تعالٰی نے ان سورتوں کے درمیان واسطہ نہ رکھا تاکہ معلوم ہو کہ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور ابوبکر کے درمیان کوئی شخص واسطہ نہیں تو اگر تم پہلے واللیل کا ذکر کرو وہ ابوبکر ہیں پھر چڑھو تو اس کے بعد دن کو پاؤ گے تو وہ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہیں اور اگر تم پہلے والضحی کا ذکر کرو اور وہ محمد صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ہیں۔ پھر اترو تو اس کے بعد واللیل کو پاؤ گے اور وہ ابوبکر ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ ان دونوں کے درمیان کوئی واسطہ نہیں۔
( ۱؎ مفاتیح الغیب ( التفسیر الکبیر) تحت الآیۃ ۹۳/ ۱تا ۳ المطبعۃ البہیتہ المصریۃ مصر ۳۱/ ۲۰۹)
اقول: وکان تقدیم واللیل علٰی ھذا التقدیر لا نہا جواب عن طعن الکفار فی جناب الصدیق والضحٰی جواب عن طعنھم فی سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وتبرئۃ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لاتستلزم تبرئۃ الصدیق لانہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اعلی وبراء ۃ الاعلی لا توجب براء ۃ الادنی و تبرئۃ الصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ یحکم تبرئۃ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بالطریق الاولٰی اذ انما بری لا نہ عبد بذاک البرئ النقی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فکان فی تقدیم واللیل استعجالاً الی الجواب عن الطعنین معاً ولو اخرلتأ خرالجواب عن طعن الصدیق۔ اقول : اور واللیل کو تقدیم اس تقدیر پر اس لیے ہے کہ وہ جناب صدیق کے بارے میں کفار کے طعنہ کا جواب ہے اور والضحٰی ان کے طعنہ کا جواب ہے سید المرسلین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے بارے میں۔ اور نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی براء ت صدیق کی براء ت کو مستلزم نہیں اس لیے کہ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اعلٰی ہیں اور اعلٰی کی براء ت ادنی کی براء ت کو لازم نہیں کرتی اور صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی براء ت بدرجہ اولے نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی براء ت کا حکم کرتی ہے اس لیے کہ صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ اس لیے بری ہوئے کہ اس بری نقی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے غلام ہیں تو واللیل کی تقدیم میں ایک ساتھ دونوں طعنوں کے جواب کی حجت ہوئی اور اگر واللیل کو مؤخر کیا جاتا تو صدیق کے طعنہ کا جواب مؤخر ہوجاتا ،
اقول: تسمیۃ سورۃ الصدیق باللیل وسورۃ المصطفٰی بالضحٰی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ورضی اللہ تعالٰی عنہ کا نہ اشارۃ الٰی ان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نور الصدیق وھداہ ووسیلۃ الی اللہ بہ یبتغٰی فضلہ ورضاہ والصدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ راحۃ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ووجہ انسہ وسکونہ واطمینان نفسہ و موضع سرہ ولباس خاصتہ فقد قال تبار و تعالٰی ”وجعلنا الیل لباسا”۱
وقال تعالٰی ” وجعل لکم الیّل والنہار لتسکنوا فیہ ولتبتغوا من فضلہ ولعلکم تشکرون ۲
وتلمیح الٰی ان نظام عالم الدین انما یقوم بھما کما ان نظام عالم الدنیا یقوم بالملوین فلولا النہار لما کان ابصارو لو لااللیل لما حصل قرار فالحمد للہ العزیز الغفار۔ اقول: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سورت کو واللیل کا نام دینا اور مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی سورت کا نام ضحٰی رکھنا گویا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم صدیق کا نور اور ان کی ہدایت اور اللہ کی طرف ان کا وسیلہ جن کے ذریعہ اللہ کا فضَل اور اس کی رضا طلب کی جاتی ہے اور صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی راحت اور ان کے انس و سکون اور اطمینان نفس کی وجہ ہیں اور ان کے محرم راز اور ان کے خاص معاملات سے وابستہ رہنے والے اس لیے کہ اللہ تبارک و تعالٰی فرماتا ہے ” اور رات کو پردہ پوش کیا” اور اللہ تعالٰی فرماتا ہے ” تمہارے لیے رات اور دن بنائے کہ رات میں آرام کرو اور دن میں اس کا فضل ڈھونڈو اور اس لیے کہ تم حق مانو ” اور یہ اس بات کی طرف تلمیح ہے کہ دین کا نظام ان دونوں سے قائم ہے جیسے کہ دنیاکا نظام دن رات سے قائم ہے تو اگر دن نہ ہو تو کچھ نظر نہ آئے اور رات نہ ہو تو سکون حاصل نہ ہو۔ تو اللہ عزیز غفار ہی کے لیے حمد ہے۔
( ۱؎القرآن الکریم ۷۸/ ۱۰)( ۲؎القرآن الکریم ۲۸/ ۷۳)
لطیفۃ : استنباط القاضی الامام ابوبکر الباقلانی من الایات الکریمۃ وجہا اٰخر لتفضیل سیدنا الصدیق علٰی سیدنا المرتضی لقاھما اللہ تعالٰی باحسن الرضا۔ انبانا السراج عن الجمال عن السندی عن الفلانی عن محمد سعید عن محمد طاھر عن ابیہ ابراہیم الکردی عن القشاشی عن الرملی عن الزین زکریا عن ابن حجرعن مجد الدین الفیروز آبادی عن الحافظ سراج الدین القزوینی عن القاضی ابی بکر التفتازانی عن شرف الدین محمد بن محمد الھروی عن محمد بن عمر الرازی قال فی مفاتیح الغیب” ذکر القاضی ابوبکر الباقلانی فی کتاب الامامۃ فقال ایۃ الواردۃ فی حق علی کرم اللہ وجہہ الکریم : انما نطعمکم لوجہ اللہ لا نرید منکم جزاء ولاشکورا O انا نخاف من ربنا یوماً عبوسا قمطریرا O” والایۃ الواردۃ فی حق ابی بکر ”الاابتغاء وجہ ربہ الاعلٰی ولسوف یرضٰی ” فدلت الایتان ان کل احد منھما انما فعل ما فعل لوجہ اللہ الا ان ایۃ علی تدل علی انہ فعل ما فعل لوجہ اللہ وللخوف من یوم القیمۃ علٰی ما قال ” انا نخاف من ربنا یوماً عبوسا قمطریرا” واما ایۃ ابی بکر فانھا دلت علی انہ فعل ما فعل لمحض وجہ اللہ تعالٰی من غیر ان یشوبہ طمع فیما یرجع الٰی رغبۃ فی ثواب او رھبۃ من عقاب فکان مقام ابی بکر اعلٰی واجل ۱ انتھٰی لطیفہ : قاضی امام ابوبکر با قلانی نے اس آیت کریمہ سے حضرت سیدنا مرتضٰی پر فضیلت صدیق کی دوسری وجہ استنباط کی ۔ اللہ تبارک و تعالٰی دونوں کو اپنی بہترین رضا سے ہمکنار کرے۔ ہمیں خبر دی سراج نے وہ روایت کرتے ہیں جمال سے۔ وہ روایت کرتے ہیں سندی سے۔ وہ روایت کرتے ہیں محمد سعید سے۔ وہ روایت کرتے ہیں محمد طاہر سے۔ وہ روایت کرتے ہیں اپنے باپ ابراہیم ردی سے۔ وہ روایت کرتے ہیں قشاشی سے۔ وہ روایت کرتے ہیں رملی سے۔ وہ روایت کرتے ہیں زین زکریا سے۔ وہ روایت کرتے ہیں ابن حجر سے۔ وہ روایت کرتے ہیں مجدالدین فیروز آبادی سے ۔ وہ روایت کرتے ہیں حافظ سراج الدین قزوینی سے۔ وہ روایت کرتے ہیں قاضی ابوبکر تفتازانی سے۔ وہ روایت کرتے ہیں شرف الدین محمد بن محمد الہروی سے۔ وہ روایت کرتے ہیں محمد بن عمر رازی سے۔ انہوں نے مفاتیح الغیب میں فرمایا قاضی ابوبکر باقلانی نے کتاب الامامۃ میں ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ وہ آیت جو علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے حق میں وارد ہے ” ان سے کہتے ہیں ہم تمہیں خاص اللہ کے لیے کھانا دیتے ہیں تم سے کوئی بدلہ یا شکر گزاری نہیں مانگتے بے شک ہمیں اپنے رب سے ایک ایسے دن ا ڈر ہے جو بہت ترش نہایت سخت ہے” اور وہ آیت جو ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حق میں وارد ہوئی ” صرف اپنے رب کی رضا چاہتا ہے جو سب سے بلند ہے اور بے شک قریب ہے کہ وہ راضی ہوگا” یہ دونوں آیتیں دلالت کرتی ہیں کہ ان دونوں میں سے ہر ایک نے نیکی اللہ کی خوشنودی کے لیے کی مگر یہ کہ سیدنا علی کے حق میں جو آیت اُتری وہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا وہ اللہ کی خوشنودی اور روزِ قیامت کے ڈر سے کیا اس بناء پر انہوں نے کہا ” بےشک ہمیں اپنے رب سے ایک ایسے دن کا ڈر ہے جو بہت ترش اور نہایت سخت ہے” اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حق میں اترنے والی آیت وہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا محض اللہ کے لیے کیا بغیر اس کے کہ اس میں کچھ طمع کا شائبہ ہو اس امر میں جو ثواب میں رغبت یا عذاب میں ہیبت کی طرف لوٹتا ہے۔ تو ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مقام اعلٰی اور اجل ہوا انتہی،
( ۱؎ مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر) تحت آلایۃ ۹۲/ ۲۰ و ۲۱ المطبعۃ البہتیہ المصرتیہ مصر ۳۱/ ۲۰۶ و ۲۰۷)
اقول: والتحقیق ان جملۃ جلۃ الصحابۃ الکرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ارقی فی مراقی الولایۃ والفناء عن الخلق والبقاء بالحق من کل من دونہم من اکابرالاولیاء العظام کائنین من کانوا ۔ وشانہم رضی اللہ تعالٰی عنہم ارفع واعلٰی من ان یقصدوا باعمالھم غیر اللہ سبحٰنہ وتعالٰی لکن المدارج متفاوتۃ والمراتب مترتبۃ وشئی دون شئی وفضل فوق فضل ۔ ومقام الصدیق حیث انتھت النہایات وانقطعت الغایات ذاھورضی ا للہ تعالٰی عنہ کما صرح بہ امام القوم سیدی محی الملۃ والدین ابن عربی قدس اللہ تعالٰی سرہ الزکی امام الائمۃ ومالک الازمۃ ومقامہ فوق الصدیقیۃ ودون النبوۃ التشریعیۃ ولیس احدبینہ و بین مولاہ الاکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وعلی اسم خاتم الرسالۃ ختمنا الرسالۃ، والحمد ﷲ مولی الجلالۃ ؎
تم الکتاب علٰی ثناء الہاشمی ختم الالٰہ لنا علی اسم الخاتم سبحٰن ربک رب العزۃ عما یصفون وسلٰم علی المرسلین والحمدﷲ رب العلمین ۱
اقول: ( میں کہتا ہوں) اور تحقیق یہ ہے کہ تمام اجلّہ صحابہ کرام مراتبِ ولایت میں اورخلق سے فنا اور حق میں بقا کے مرتبہ میں اپنے ماسوا تمام اکابراولیاء عظام سے وہ جو بھی ہوں افضل ہیں۔ اور ان کی شان ارفع واعلٰی ہے اس سے کہ وہ اپنے اعمال سے غیر اللہ کا قصد کریں۔ لیکن مدارج متفاوت ہیں اور مراتب ترتیب کے ساتھ ہیں اور کوئی شے کسی شے سے کم ہے اور کوئی فضَ کسی فضل کے اوپر ہے اور صدیق ( رضی اللہ تعالٰی عنہ) کا مقام وہاں ہے جہں نہایتیں ختم اور غایتیں منقطع ہوگئیں اس لیے کہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ امام القوم سیدّی محی الدین ابن عربی قدس سرہ الزکی کی تصریح کے مطابق پیشواؤں کے پیشوا اور تمام کی لگام تھامنے والے اور ان کا مقام صدیقیت سے بلند اور تشریع نبوت سے کمتر ہے ۔ ان کے درمیان اور ان کے مولائے اکرام محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے درمیان کوئی نہیں۔ اور خاتم رسالت کے نام ہم نے اپنا یہ رسالہ تمام کیا اور اللہ کے لیے حمد ہے جو مالک ہے جلالت کا۔ کتاب رسول ہاشمی کی ثناء پر تمام ہوئی اور اللہ تعالٰی ہمارا خاتمہ فرمائے ۔ خاتم النبین کے نام پر ۔ سبحٰن ربک رب العزۃ عما یصفون وسلم علٰی المرسلین والحمد للہ رب العلمین
( ۱؎ القرآن الکریم ۳۷ / ۸۰تا ۱۸۲)
رسالہ الزلال الانقٰی من بحرسبقۃ الاتقی ختم ہوا