تقدیر کا بیاں, عقائد و کلام, فتاوی رضویہ

رسالہ التحبیر بباب التدبیر

رسالہ
التحبیر بباب التدبیر
(۱۳۰۵ھ)
(آرائش كلام مسئلہ تدبیر کے بارے میں)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم

مسئلہ ۱۲۲: مسئولہ مولوی الٰہ یار خان صاحب ۲۰ ذی الحجہ ۱۳۰۵ھ
کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ خالد یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ جو کچھ کام بھلایا بُرا ہوتا ہے سب خدا کی تقدیر سے ہوتا ہے۔ اور تدبیرات کو کارِ دنیوی و اُخروی میں امر مستحسن اور بہتر جانتا ہے۔
ولید خالد کو بوجہ مستحسن جاننے تدبیرات کے کافر کہتا ہے، بلکہ اسے کافر سمجھ کر سلام و جواب سلام بھی ترک کردیا اور کہتا ہے کہ تدبیر کوئی چیز نہیں، بالکل واہیات ہے، اور جو اشخاص اپنے اطفال کو پڑھاتے لکھاتے ہیں۔ ( خواہ عربی خواہ انگریزی) وہ جھک مارتے ہیں، گوہ کھاتے ہیں، کیونکہ پڑھنا لکھنا تدبیر میں داخل ہے۔
پس ولید نے خالد کو جو کافر کہا تو وہ کافر ہے یا نہیں؟ اور نہیں ہے تو کہنے والے کے لیے کیا گناہ و تعزیر ہے ۔
بَیِّنُوْا تُوجرُوا ( بیان فرماؤ اجر دیئے جاؤ گے ت)

 

الجواب :
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
الحمدﷲ الذی قدّر الکائنات وربط بالاسباب المسببّات والصلوۃ و السلام علٰی سید المتوکلین سرًّا وجھرًا ، وامام العالمین والمدبرات امراً وعلٰی اٰلہ وصحبہ الذین باطنھم توکل، وظاھر ھم فی الکدّوالعمل۔

تمام تعریف اللہ کے لیے جس نے تمام ہونے والی چیزیں مقدر فرمائیں اور مسببّات کا اسباب سے ربط رکھا اور درود و سلام خفیہ اور علانیہ توکل کرنے والوں کے سردار اور تمام عالموں کے امام پر اور ان پر جو کام کی تدبیر کرنے والے ہیں اور ان کی آل و اصحاب پر جن کا باطن متوکل ہے اور ان کا ظاہر محنت و عمل میں لگا ہوا ہے۔(ت)
بے شک خالد سچا، اور اس کا یہ عقیدہ خاص اہلِ حق کا عقیدہ ہے۔ فی الواقع عالم میں جو کچھ ہوتا ہے سب اﷲ جل جلالہ کی تقدیر سے ہے۔

قال تعالٰی ( اﷲ تعالٰی نے فرمایا ): کل صغیر وکبیر مستطر ۔۱؂ ہر چھوٹی بڑی چیز لکھی ہوئی ہے۔ت)

وقال تعالٰی (اللہ تعالٰی نے فرمایا): وکل شیئ احصینٰہ فی امام مبین ۔۲؂ اور ہر چیز ہم نے گن رکھی ہے ایک بتانے والی کتاب میں،(ت)

وقال تعالی ( اور اللہ تعالٰی نے فرمایا): ولا رطب ولا یابس الا فی کتاب مبین ۔۳؂ او رنہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک جو ایک روشن کتاب میں لکھا نہ ہو۔(ت)

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۵۴/ ۵۳)( ۲ ؎ القرآن الکریم ۳۶/ ۱۲) ( ۳ ؎ القرآن الکریم ۶/ ۵۹)

الٰی غیر ذٰ لک من الاٰیات والاحادیث ( اس کے علاوہ اور بھی آیات و احادیث ہیں۔ت)

مگر تدبیر زنہار معطل نہیں۔ دنیا عالمِ اسباب ہے۔ رب جل مجدہ نے اپنی حکمت بالغہ کے مطابق اس میں مسببات کو اسباب سے ربط دیا۔ اور سنتِ الہیہ جاری ہوئی کہ سبب کے بعد مسبب پیدا ہو۔
جس طرح تقدیر کو بھول کر تدبیر پرپھولنا کفار کی خصلت ہے یونہی تدبیر کو محض عبث و مطر ود وفضول و مردود بتانا کسی کھلے گمراہ یا سچے مجنون کا کام ہے جس کی رو سے صدہا آیات و احادیث سے اعراض اور انبیاء و صحابہ وائمہ و اولیاء سب پر طعن و اعتراض لازم آتا ہے۔ حضرات مرسلین صلوات اﷲ تعالٰی و سلامہ علیہم اجمعین ( اللہ کے درود و سلام ہوں ان سب پر) سے زیادہ کس کا توکل اور ان سے بڑھ کر تقدیر الہٰی پر کس کا ایمان۔ پھر وہ بھی ہمیشہ تدبیر فرماتے اوراس کی راہیں بتاتے اور خود کسب حلال میں سعی کرکے رزقِ طیب کھاتے۔

(۱) داؤد علیہ السلام زر ہیں بناتے ۔ قال اﷲ تعالٰی ( اﷲ تعالٰی نے فرمایا۔ ت) وعلّمنٰہ صنعۃ لبوس لکم لتحصنکم من باسکم فہل انتم شاکرون ۱؂۔ اور ہم نے اُسے تمہارا ایک پہناوا بنانا سکھایا کہ تمہیں تمہاری آنچ سے بچائے، تو کیا تم شکر کرو گے۔ت)

(۱ ؎ القرآن الکریم ۲۱ /۸۰)

(۲) وقال تعالٰی ( اور اﷲ تعالٰی نے فرمایا ۔ت) والنّا لہ الحدید ان اعمل سبغت وقدر فی السرد واعملوا صٰلحا انّی بما تعملون بصیر ۔۲؂ اور ہم نے اس کے لیے لوہا نرم کیا کہ وسیع زرہیں بنا اور بنانے میں اندازے کا لحاظ رکھ اور تم سب نیکی کرو بے شک میں تمہارے کام دیکھ رہا ہوں (ت)

(۲ ؎ القرآن الکریم ۳۴/ ۱۰و ۱۱)

(۳) موسٰی علیہ السلام نے دس برس شعیب علیہ الصلوۃ والسلام کی بکریاں اجرت پر چرائیں۔ قال تعالٰی (اﷲ تعالٰی نے فرمایا ۔ت) قال انی اریدان ان انکحک احدی ابنتی ھاتین علٰی ان تأجرنی ثمانی حجج، فان اتممت عشرا فمن عندک ، و ما ارید ان اشقّ علیک ستجدنی ان شاء اللہ من الصّٰلحین o قال ذٰلک بینی وبینک ایما الاجلین قضیت فلاعدوان علی واﷲ علی مانقول وکیل oلما قضٰی موسی الاجل وسارباھلہ ، الایۃ ۔۱؂ کہا میں چاہتا ہوں کہ اپنی دونوں بیٹیوں میں سے ایک تمہیں بیاہ دوں اس مہر پر کہ تم آٹھ برس میری ملازمت کرو، پھر اگر پورے دس برس کرلو تو تمہاری طرف سے ہے اور تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا قریب ہے اِن شاء اللہ تم مجھے نیکوں میں پاؤ گے۔ موسٰی نے کہا یہ میرے اور آپ کے درمیان اقرار ہوچکا میں ان دونوں میں جو میعاد پوری کردوں تو مجھ پر کوئی مطالبہ نہیں اور ہمارے اس کہے پر اللہ کا ذمہ ہے پھر جب موسی نے اپنی میعاد پوری کردی اور اپنی بیوی کو لے کر چلا۔(ت)

(۱؎ القرآن الکریم ۲۸/ ۲۷تا۲۹)

خود حضور پُرنور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حضرت امّ المومنین خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مال بطور مضاربت لے کر شام کو تشریف فرماہوئے۔ حضر ت امیر المومنین عثمان غنی و حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہما بڑے نامی گرامی تاجر تھے۔ حضرت امام اعظم قدس سرہ الاکرم بزاری کرتے، بلکہ ولید منکر تدبیر خود کیا تدبیر سے خالی ہوگا ہم نے فرض کیا کہ وہ زراعتِ تجارت ، نوکری حرفت کچھ نہ کرتا ہو آخر اپنے لیے کھانا پکاتا یا پکواتا ہوگا۔ آٹا پیسنا، گوندھنا، پکانا یہ کیا تدبیر نہیں؟ یہ بھی جانے دیجئے اگر بغیر اس کے سوال یا اشارہ و ایما کے خود بخود پکی پکائی اسے مل جاتی ہو، تاہم نوالہ بنانا ، منہ تک لانا، چبانا نگلنا یہ بھی تدبیر، تدبیر کو معطل کرے تو اس سے بھی باز آئے کہ تقدیرالہٰی میں زندگی لکھی ہے بے کھائے جئے گا یا قدرتِ الہی سے پیٹ بھر جائے گا یا خود بخود کھانا معدے میں چلا جائے گا۔ ورنہ ان باتوں سے بھی کچھ حاصل نہ ہوگا۔ کہ مذہب اہلسنت میں نہ پانی پیاس بجھاتا ہے۔ نہ کھانا بھوک کھوتا ہے۔ بلکہ یہ سب اسباب عادیہ میں ہیں جن سے اﷲ تعالٰی نے مسببات کو مربوط فرمایا اور اپنی عادت جاریہ ک مطابق ان کے بعد سیری و سیرابی فرماتا ہے۔ وہ نہ چاہے تو گھڑے چڑھائے، دھڑیوں کھا جائے ۔(عہ۱) کچھ مفید نہ ہوگا۔ آخر مرضِ استسقاء وجوع البقر(عہ۲) میں کیا ہوتا ہے۔ وہی کھانا، پانی جو پہلے سیر و سیراب کرتا تھا اب کیوں محض بے کار ہوجاتا ہے ۔ اوراگر وہ چاہے تو بے کھائے پئے بھوک پیاس پاس نہ آئے، جیسے زمانہ دجال میں اہل ایمان کی پرورش فرمائے گا۔ اور ملائکہ کا بے آب و غذا زندگی کرنا کسے نہیں معلوم۔ مگر یہ انسان میں خَرقِ عادت ہے جس پر ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھنا جہل و حماقت ، یہاں تک کہ اگر تقدیر پر بھروسہ کا جھوٹا نام کرکے خوردو نوش کا عہد کرے اور بھوک پیاس سے مرجائے، بے شک حرام موت مرے اور اللہ تعالٰی کا گنہگار ٹھہرے ۔

عہ۱: دھڑی : دس سیر یا پانچ سیر کا وزن ۱۲ مصباحی
عہ۲: جوع البقر: اس بیماری میں کتنا بھی کھائے بھوک نہیں جاتی جس طرح استسقاء میں جس قدر بھی پئے پیاس نہیں جاتی۔

مرگ بھی تو تقدیر سے ہے، پھر اللہ تعالٰی نے کیوں فرمایا۔

(۴) ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ ۱؂۔ اپنے ہاتھوں اپنی جان ہلاکت میں نہ ڈالو۔

گرچہ مردن مقدر است ولے تو مرو در دہان اژدہا۲؂ (اگرچہ موت مقدر ہے لیکن از خود اژدہوں اور سانپوں کے منہ میں نہ جا۔ت)

(۱ ؎ القرآن الکریم ۲/ ۱۹۵)
(۲؂)

ہم نے مانا کہ ولید اپنے دعوے پر ایسا مضبوط ہو کہ یک لخت ترک اسباب کرکے پیمانِ واثق (پکا عہد) کرلے کہ اصلاً دست و پانہ ہلائے نہ اشارۃً نہ کنایۃً کسی تدبیر کے پاس جائے گا خدا کے حکم سے پیٹ بھرے تو بہتر ورنہ مرنا قبول ، تاہم اللہ تعالٰی سے سوال کرے گا یہ کیا تدبیرنہیں کہ دعا خود موثر حقیقی کب ہے ؟ صرف حصول مراد کا ایک سبب ہے، اور تدبیر کا ہے کانام ہے۔

رب جل جلالہ فرماتا ہے: (۵) وقال ربکم ادعونی استجب لکم ۔۳؂ تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا۔

( ۳ ؎ القرآن الکریم ۴۰/ ۶۰)

وہ قادر تھے کہ بے دعا مراد بخشے، پھر اس تدبیر کی طرف کیوں ہدایت فرمائی؟ اور وہ بھی اس تاکید کے ساتھ کہ حدیث میں حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا ۔

حدیث ۱ : مَنْ لَّمْ یَدْعُ اﷲ غَضِبَ علیہ ۔۴؂ رواہ الائمۃ احمد فی المسند وابوبکر بن ابی شیبۃ واللفظ لہ فی المصنف و البخاری فی الادب المفرد والترمذی فی الجامع و ابن ماجۃ فی السنن والحاکم فی المستدرک عن ابی ہریرۃ رضی اللہ تعالٰی

جو اﷲ سے دعا نہ کرے گا اﷲ تعالٰی اس پر غضب فرمائے گا، ( اس کوائمہ نے روایت کیا احمد نے مسند میں، ابوبکر بن ابی شیبہ نے مصنف میں اور لفظ اسی کے ہیں ، بخاری نے ادب المفرد میں ترمذی نے جامع میں، ابن ماجہ نے سنن میں اور حاکم نے مستدرک میں ابوہریرہ سے۔ اللہ تعالٰی ان پر راضی ہو۔ت)

( ۴ ؎ المصنف لابن ابی شیبہ کتاب الدعاء باب فی فضل الدعا حدیث ۹۲۱۸ ادارۃ القرآن کراچی ۱۰/ ۲۰۰)
(مسند احمد بن حنبل عن ابی ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۴۴۳)
(جامع الترمذی ابواب الدعوات باب منہ امین کمپنی دہلی ۲/ ۱۷۳)
(سنن ابن ماجہ ابواب الدعاء باب فضل الدعاء ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۲۸۰)
(المستدرک للحاکم کتاب الدعاء باب من لم یدع اﷲ الخ دارالفکر بیروت ۱/ ۴۹۱)

بلکہ خلافت و سلطنت و قضاو جہاد وحدود قصاص وغیرہا یہ تمام امور شرعیہ عین تدبیر ہیں کہ انتظامِ عالَم و ترویج دین و دفع مفسدین کے لیے اس عالَمِ اسباب میں مقرر ہوئے۔

(۶) قال تعالٰی ( اللہ تعالٰی نے فرمایا۔ت) اطیعوااﷲ واطیعو االرسول واولٰی الامر منکم ۔۱؂ حکم مانو اﷲ کا اور حکم مانو رسول کا اور انکا جو تم میں حکومت والے ہیں۔ت)

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۴/ ۵۹)

(۷) وقال تعالٰی (اور اللہ تعالٰی نے فرمایا ۔(ت) وقاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین کلہ ﷲ۔۲؂ اور اُن سے لڑو یہاں تک کہ کوئی فساد باقی نہ رہی اور سارا دین ا للہ کا ہوجائے۔(ت)

( ۲ ؎ القرآن الکریم ۸/ ۲۹)

(۸) وقال تعالٰی اور اللہ تعالٰی نے فرمایا: ولولادفع اﷲ الناس بعضھم ببعض لفسدت الارض ولکن اللہ ذو فضل علی العالمین ۔۳؂ اور اگر اللہ لوگوں میں بعض سے بعض کو دفع نہ کرے تو ضرور زمین تباہ ہوجائے مگر اللہ سارے جہان پر فضل کرنے والا ہے۔(ت)

( ۳ ؎ القرآن الکریم ۲/ ۲۵۹)

(۹) ولولادفع اﷲ الناس بعضھم ببعض لھدّمت صوامع وبیع وصلوات ومٰسجدیذکرفیھا اسم اﷲ کثیرا ۔۱؂ اور اﷲ اگر آدمیوں میں ایک کو دوسرے سے دفع نہ فرماتا تو ضرور ڈھادی جاتیں خانقا ہیں اور گرجے اور کلیسے اور مسجدیں جن میں اﷲ کا بکثرت نام لیا جاتا ہے۔

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۲۲/ ۴۰)

دیکھو صاف ارشاد فرمایا جاتا ہے کہ جہاد اسی لیے مقرر ہوا کہ فتنے فرو ہوں اور دین حق پھیلے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو زمین تباہ ہوجاتی اور مسجدیں اور عبادت خانے ڈھائے جاتے۔

(۱۰) وقال تعالٰی ( اور اﷲ تعالٰی نے فرمایا ۔ت) الا تفعلوہ تکن فتنۃ فی الارض وفساد کبیر۔۲؂ ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد ہوگا۔(ت) فتنہ کفر کی قوت، اور فساد کبیر ضعف اسلام۔

( ۲ ؎ القرآن الکریم ۸/ ۷۳)

(۱۱) وقال تعالٰی ( اور اﷲ تعالٰی نے فرمایا ۔ت) ولکم فی القصاص حیوۃ یا اولی الالباب لعلکم تتقون ۔۳؂ اور خون کا بدلہ لینے میں تمہاری زندگی ہے اے عقلمند و کہ تم کہیں بچو۔ت)

( ۳ ؎ القرآن الکریم ۲/ ۱۷۹)

یعنی خون کے بدلے خون لو گے تو مفسدوں کے ہاتھ رکیں گے اور بے گناہوں کی جانیں بچیں گی، اور اسی لیے حد جاری کرتے وقت حکم ہوا کہ مسلمان جمع ہو کر دیکھیں تاکہ موجبِ عبرت ہو۔

(۱۲) قال تعالٰی (اللہ تعالٰی نے فرمایا ت) ولیشہد عذا بہما طائفۃ من المومنین۔۴؂ اور چاہیے کہ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ حاضر ہو۔(ت)

( ۴ ؎ القرآن الکریم ۲۴/ ۲)

بلکہ اور ترقی کیجئے تو نماز، روزہ ، حج ، زکوۃ وغیرہا تمام اعمالِ دینیہ خود ایک تدبیر، اور رضائے الہی و ثواب نامتناہی ملنے اور عذاب و غضب سے نجات پانے کے اسباب ہیں ۔

(۱۳) قال تعالٰی ( اﷲ تعالٰی نے فرمایا۔ت) ومن ارادالاخرۃ وسعٰی لہا سعیہا و ھو مومن فاولئک کان سعیھم مشکورا ۔۵؂ اور جو آخرت چاہے اور اس کی سی کوشش کرے اور ہو ایمان والا، تو انہیں کی کوشش ٹھکانے لگی۔(ت)

(۵ ؎ القرآن الکریم ۱۷/ ۱۹)

اگرچہ ازل میں ٹھہر چکا کہ: فریق فی الجنّۃ وفریق فی السعیر۔۱؂ ایک گروہ جنت میں ہے اور ایک گروہ دوزخ میں۔(ت)

(۱؎ القرآن الکریم ۴۲/۷)

پھر بھی اعمال فرض کیے کہ جس کے مقدر میں جو لکھا ہے اسے وہی راہ آسان ، اور اسی کے اسباب مہیا ہوجائیں۔

قال تعالٰی (اﷲ تعالٰی نے فرمایا ۔ت) فسنیسّرہ للیسرٰی ۔۲؂ تو بہت جلد ہم اُسے آسانی مہیا کردیں گے۔(ت)

(۲ ؎ القرآن الکریم ۹۲/ ۷)

وقال تعالٰی (اﷲ تعالٰی نے ارشاد فرمایا ۔ت) فسنیسّرہ للعسرٰی ۔۳؂ تو بہت جلد ہم اُسے دشواری مہیا کردیں گے۔(ت)

(۳ ؎ القرآن الکریم ۹۲ /۱۰)

حدیث ۲ :اسی لیے جب حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دوزخی ، جنتی سب لکھے ہوئے ہیں، اور صحابہ نے عرض کی: یارسول اﷲ ! پھر ہم عمل کا ہے کوکریں، ہاتھ پاؤں چھوڑ بیٹھیں۔ کہ جو سعید ہیں آپ ہی سعید ہوں گے اور جو شقی ہیں ناچار شقاوت پائیں گے۔ فرمایا : نہیں بلکہ عمل کیے جاؤ کہ ہر ایک جس گھر کے لیے بنا ہے اُسی کا راستہ اُسے سہل کردیتے ہیں، سعید کو اعمالِ سعادت کا اور شقی کو افعالِ شقاوت کا۔ پھر حضور نے یہی دو آیتیں تلاوت فرمائیں۔

اخرجہ الائمۃ احمد والبخاری و مسلم وغیرہم عن امیر المومنین علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ قال : کان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی جنازۃ فاخذشیئا فجعل ینکت بہ الارض فقال مامنکم من احد الاّوقد کتب مقعدہ من النار ومقعدہ من الجنۃ قالو ا یارسول اﷲ ! افلانتکل علی کتابنا وندع العمل (زادفی روایۃ فمن کان من اھل السعادۃ فسیصیرالٰی عمل اھل السعادۃ ومن کان من اھل الشقاء فسیصیر الٰی عمل اھل الشقاوۃ ) قال اعملوا فکل میسر لما خلق لہ امّا من کان من اھل السعادۃ فییسر لعمل اھل السعادۃ واما من کان من اھل الشقاء فییسرلعمل الشقاوۃ ثمّ قراء فاما من اعطٰی واتقٰی وصدّق بالحسنّٰی الایۃ ۔۱؂

امام احمد، بخاری اور مسلم وغیرہ نے امیر المومنین علی کرم اﷲ وجہہ الکریم سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک جنازہ میں شریک تھے، آپ نے کوئی چیز پکڑی اور زمین کو کریدنے لگے اور فرمایا تم میں ایساکوئی نہیں جس کا ایک ٹھکانہ دوزخ میں اور ایک ٹھکانہ جنت میں نہ لکھا جاچکا ہو۔ صحابہ نے عرض کی: یارسول اﷲ! کیا ہم تحریر پر بھروسہ کرکے عمل کو چھوڑ نہ دیں۔ ( ایک روایت میں یہ زائد ہے کہ جو اہلِ سعادت میں سے ہے وہ عنقریب اہل سعادت کے عمل کی طرف اور جو اہل شقاوت میں سے ہے وہ عنقریب اہلِ شقاوت کے عمل کی طرف راغب ہوگا) آپ نے فرمایا: عمل کرتے رہو ہر کسی کو وہی میسر ہوگا جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا، جو اہلِ سعادت میں سے ہوگا اس کو اہلِ سعادت کا عمل اور جو اہل شقاوت میں سے ہوگا اس کو اہلِ شقاوت کا عمل میسر ہوگا۔ پھر آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی تو وہ جس نے دیا اور پرہیزگاری کی اور سب سے اچھی چیز کو سچ مانا (ت)

( ۱ ؎ صحیح البخاری کتاب القدر باب قولہ تعالٰی وکان امراﷲ قدراً مقدوراً قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۹۷۷)
(صحیح مسلم کتاب القدر باب کیفیۃ خلق الادمی فی بطن امہ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۳۳۳)
(مسند احمد بن حنبل عن علی رضی اللہ تعالٰی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۱/ ۱۴۰)
(سنن ابن ماجہ باب فی القدر ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۹)
(مشکوۃ المصابیح باب الایمان بالقدر الفصل الاول اصح المطابع کراچی ص ۲۰)

یہاں سے ظاہر ہوا کہ اگر تدبیر مطلقاً مہمل ( بے کار) ہو تو دین و شرائع (قوانین شرع) وانزالِ کتب (کتابیں اتارنا) وارسال رُسُل (رسولوں کو بھیجنا) و اِتیانِ فرائض (فرائض کا کرنا) و اجتناب محرمات (حرام کاموں سے بچنا) اللہ نہ کرے  سب لغو و فضول و عبث ٹھہریں

آدمی کی رسی کاٹ کر بجار (آزاد چھوٹا ہوا سانڈ )کردیں۔ دین و دنیا سب یکبارگی برہم ہوجائیں۔ ولاحول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم ( نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ ہی نیکی کرنے کی قوت مگر بلندی و عظمت والے خدا کی طرف سے،ت)
نہیں نہیں بلکہ تدبیر بے شک مستحسن ہے، اور اُس کی بہت صورتیں مندوب و مسنون ہیں، جیسے دُعا و دوا۔

حدیث ۳ : دُعا کی حدیثیں تو خود متواتر ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ حضور نے یہ ارشاد فرمایا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔ لَایَرُدُّ القَضَاء اِلَّا الدُّعَاءُ ، رواہ الترمذی و ابن ماجہ۔۱؂ والحاکم بسند حسن عن سلمان الفارسی رضی اللہ تعالٰی عنہ (تقدیر کسی چیز سے نہیں ٹلتی مگر دعا سے (یعنی قضا معلق)(اس کو ترمذی ابن ماجہ اور حاکم نے سند حسن کے ساتھ سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا۔ت)

( ۱ ؎ جامع الترمذی ابواب القدر باب ماجاء لایرد القدر الاّ الدعاء امین کمپنی دہلی ۲/ ۳۶)
(سنن ابن ماجہ باب فی القدر ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۱۰)
(المستدرک للحاکم کتاب الدعا لایردالقدر الا الدعا دارالفکربیروت ۱/ ۴۹۳)

(حدیث ۴): دوسری حدیث میں ہے سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: لایغنی حذر من قدر، والدعاء ینفع مما نزل ومما لم ینزل ان البلاء ینزل فیتلقاہ الدّعاء فیعتلجان الٰی یوم القیمۃ رواہ الحاکم ۲؂ والبزار والطبرانی فی الاوسط عن ام المومنین الصدیقۃ رضی اللہ تعالٰی عنہا قال الحاکم صحیح الاسناد وکذا قال ۔۳؂ تقدیر کے آگے احتیاط کی کچھ نہیں چلتی، اور دعا اس بلا سے جو اتر آئی اور جو ابھی نہیں اتری دونوں سے نفع دیتی ہے، اور بے شک بلا اترتی ہے دعا ا س سے جا ملتی ہے دونوں قیامت تک کشتی لڑتی رہتی ہیں، یعنی بلا کتنا ہی اترنا چاہے دعا اسے اترنے نہیں دیتی۔ ( اس کو حاکم، بزار اور طبرانی نے اوسط میں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کیا۔ حاکم نے کہا اس کا اسناد صحیح ہے اور یونہی ہے کہا۔(ت)

( ۲ ؎ المستدرک اللحاکم کتاب الدعاء ینفع الخ دارالفکر بیروت ۱/ ۴۹۲)
(المعجم الاوسط حدیث ۲۵۱۹ مکتبۃ المعارف ریاض ۳/ ۲۴۲)
( ۳ ؎ا لمستدرک للحاکم کتاب الدعا الدعاء ینفع الخ دارالفکربیروت ۱/ ۴۹۲)

جسے دعا کے بارے میں احادیث مجملہ و مفصلہ و کلیہ و جزئیہ دیکھنا ہوں وہ کتاب الترغیب و حصن و عدہ و صلاح وغیرہا تصانیف علماء کی طرف رجوع کرے۔

(حدیث ۵) اور ارشاد فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم: خدا کے بندو۔دوا کرو کہ اللہ تعالٰی نے کوئی بیماری ایسی نہ رکھی جس کی دوا نہ بنائی ہو مگر ایک مرض یعنی بڑھاپا، (ا س کو احمد، ابوداؤد، ترمذی نسائی، ابن ماجہ، ابن حبان اور حاکم نے اسامہ بن شریک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سند صحیح کے ساتھ روایت کیا۔ ت)

( ۱ ؎ جامع الترمذی ابواب الطب باب ماجاء فی الدداء والحث علیہ امین کمپنی دہلی ۲/ ۲۵)
(سنن ابی داؤد کتاب الطب باب الرجل یتداوی آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۱۸۳)
(سنن ابن ماجہ ابواب الطب باب ما انزل اﷲ داء الا انزل لہ شفاء ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۲۵۳)
(مسنداحمد بن حنبل حدیث اُسامۃ بن شریک المکتب الاسلامی بیروت ۴/ ۲۷۸)
(موارد الظمآن کتاب الطب حدیث ۱۳۹۵ المطبعۃ السلفیۃ ص ۳۳۹)

اور خود حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا استعمالِ دوا فرمانا اور امُت مرحومہ کو صدہا امراض کے علاج بتانا بکثرت احادیث میں مذکور، اور طبِّ نبوی و سِیرَ وغیرہما فنون حدیثیہ میں مسطور (لکھاہوا)
اور تدبیر کی بہت صورتیں فرض قطعی ہیں، جیسے فرائض کا بجالانا، محرمات سے بچنا، بقدر سدرمق ( جان بچانے کی مقدار) کھانا کھانا، پانی پینا، یہاں تک کہ اس کے لیے بحالتِ مخمصہ ( جان لیوا بھوک) شراب و مردار کی اجازت دی گئی۔

(حدیث ۶ ) : اسی طرح جان بچانے کی کل تدبیریں اور حلال معاش کی سعی و تلاش جس میں اپنے اور اپنے متعلقین کے تن پیٹ کی پرورش ہو۔ حدیث میں ہے حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: طَلَبُ کَسْبِ الْحَلَالِ فَرِیْضَۃ بَعْدَ الفریضۃِ اخرجہ الطبرانی فی الکبیر ۲؂والبیھقی فی شعب الایمان والدیلمی فی مسند الفردوس عن ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔

آدمی پر فرض کے بعد دوسرا فرض یہ ہے کہ کسبِ حلال کی تلاش کرے(طبرانی نے کبیر میں، بیہقی نے شعب الایمان میں اور دیلمی نے مسندِ فردوس میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اس کی تخریج فرمائی (ت)۔

(۲ ؎ شعب الایمان حدیث ۸۷۴۱ دارالمعرفۃ بیروت ۶/ ۴۲۰)
(الفردوس بماثور الخطاب حدیث ۳۹۱۸ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲/ ۴۴۱)
(کنزالعمال برمزطب ، ق حدیث ۹۲۳۱ مؤسسۃ الرسالۃبیروت ۴/ ۹)

(حدیث ۷) : اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : طَلَبُ الْحَلَال وَاجب عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ اخرجہ الدیلمی ۱؂ بسندٍ حسنٍ عن انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ طلبِ حلال ہر مسلمان پر واجب ہے(دیلمی نے سندِ حسن کے ساتھ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اس کی تخریج کی۔ ت)

( ۱ ؎ کنزالعمال برمز فرعن انس حدیث ۹۲۰۴ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۴/ ۵)

حدیث ۸ : اسی لیے احادیث میں حلال معاش کی طلب و تلاش کی بہت فضیلتیں وارد۔
مسند احمد وصحیح بخاری میں ہے حضور پُرنور سید الکونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: مااکل احد طعاما قط خیراً من ان یاکل من عمل یدہ وان نبی اﷲ داؤد کان یا کل من عمل یدہ ، و اخرجاہ عن مقدام ۲؂ بن معدیکرب رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ کبھی کسی شخص نے کوئی کھانا اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر نہ کھایا اور بے شک نبی اﷲ داؤد علیہ الصلوۃ والسلام اپنی دستکاری کی اُجرت سے کھاتے ( ان دونوں نے مقدام بن معدیکرب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اس کی تخریج کی۔ ت)

(۲ ؎صحیح البخاری کتاب البیوع باب کسب الرجل وعملہ بیدہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۲۷۸)
(مسند احمد بن حنبل حدیث المقدام بن معدیکرب المکتب الاسلامی بیروت ۴/ ۱۳۱ و ۱۳۲)

حدیث ۹: اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم: ان اطیب ما اکلتم من کسبکم اخرجہ البخاری فی التاریخ۳؂ والدارمی وابوداؤد والترمذی والنسائی عن ام المؤمنین الصدیقۃ بسندٍ صحیح ۔ سب سے زیادہ پاکیزہ کھانا وہ ہے جو اپنی کمائی سے کھاؤ۔(امام بخاری نے تاریخ ، دارمی،ترمذی اور نسائی نے سندِ صحیح کے ساتھ ام المومنین سیدّہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے اس کی تخریج کی،ت)

(۳ ؎ جامع الترمذی ابواب الاحکام باب ماجاء ان الوالدیا خذ من مال ولدہ امین کمپنی دہلی ۱/ ۱۶۲)
(سُنن ابی داؤد کتاب البیوع باب الرجل یاکل من مال ولدہ آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۱۴۱)
(التاریخ الکبیر ترجمہ ۱۳۰۱ دارالبازمکۃ المکرمۃ ۱/ ۴۰۷)
(سُنن الدارمی کتاب البیوع حدیث ۲۵۴۰ نشرالسنۃ ملتان ۲/ ۱۶۲)

حدیث ۱۰ تا ۱۳: کسی نے عرض کیا: یارسول اللہ ۔ اَیُّ الکسبِ افضل ؟ سب سے بہتر کسب کون سا ہے ؟ فرمایا: عمل الرجل بیدہ وکل بیع مبرور۔ٍ اپنے ہاتھ کی مزدوری اور ہر مقبول تجارت کہ مفاسد شرعیہ سے خالی ہو۔

اخرجہ الطبرانی۔۱؂ فی الاوسط والکبیر بسند الثقات عن عبد اﷲ بن عمر، وھو فی الکبیر واحمد والبزارعن ابی بردۃ بن خیار، وایضاً ھٰذان عن رافع بن خدیج ، والبیھقی عن سعید بن عمیر مرسلاً والحاکم عن امیر المومنین عمر الفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ۔ اس کی تخریج کی سند ثقات کے ساتھ طبرانی نے اوسط وکبیر میں سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے، اور طبرانی نے ہی کبیر میں اور احمد و بزار نے ابوبردہ بن خیار سے، نیز ان دونوں نے رافع بن خدیج سے اور بیہقی نے سعید بن عمیر سے مرسلاً اور حاکم نے اُسی سے بحوالہ امیرالمومنین عمر فاروق روایت کیا رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین (ت)

(۱؂ الترغیب والترہیب کتاب البیوع الترغیب فی الاکتساب بالبیع مصطفٰی البابی مصر ۲/ ۵۲۳)
(الدرالمنثور تحت آیۃ ۲/ ۲۶۸ منشورات مکتبہ آیۃ العظمی قم ایران ۱ /۳۶۵)
(شعب الایمان حدیث ۱۲۲۵ دارالکتب العلمیہ بیروت ۲/ ۸۴)

حدیث ۱۴: اور وارد کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : ان اللہ یحب المومن المحترف ۔ اخرجہ الطبرانی فی الکبیر۔۲؂ والبیہقی فی الشعب وسیدی محمدالترمذی فی النوادرعن ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما ۔ بے شک اللہ تعالٰی مسلمان پیشہ ور کو دوست رکھتا ہے۔ ( طبرانی نے کبیر، بیہقی نے شعب اور سید محمد ترمذی نے نوادر میں ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے اس کی تخریج کی۔ت)

(۲؂ شعب الایمان حدیث ۱۲۳۷ دارالکتب العلمیہ بیروت ۲/ ۸۸)

حدیث ۱۵، ۱۷: اور مروی کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : من امسٰی کالّا من عمل یدہ امسٰی مغفورالہ اخرجہ الطبرانی۔۳؂ فی الاوسط عن ام المومنین الصدیقۃ ومثل ابی القاسم الاصبہانی عن ابن عباس و ابن عساکر عنہ وعن انس رضی اللہ تعالی عنہم ۔ جسے مزدوری سے تھک کر شام آئے اس کی وہ شام شامِ مغفرت ہو۔ اس کی تخریج کی طبرانی نے اوسط میں ام المومنین سیدہ صدیقہ سے اور مثل ابوالقاسم اصبہانی نے ابن عباس سے ، اور ابن عساکر نے ابن عباس اور انس سے، اﷲ تعالٰی ان سب پرراضی ہو۔ ت)

(۳ ؎ المعجم الاوسط حدیث ۷۵۱۶ مکتبۃ المعارف ریاض ۸/ ۲۵۷)

حدیث ۱۸: اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم: طوبٰی لمن طاب کسبہ ، الحدیث ، اخرجہ البخاری فی التاریخ والطبرانی فی الکبیر۱؂ والبیھقی فی السنن والبغوی و الباوردی وابناء قانع و شاہین ومندۃ کلھم عن رکب المصری رضی اللہ تعالٰی عنہ فی حدیث طویل قال ابن عبدالبر حدیث حسن قلت ای لغیرہ ۔

پاک کمائی والے کے لیے جنت ہے (اس کی تخریج کی بخاری نے تاریخ میں، طبرانی نے کبیر میں، بیہیقی نے سنن میں اور بغوی و باوردی اور قانع، شاہین و مندہ کے بیٹوں نے رُکب مصری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ایک طویل حدیث میں اس کو روایت کیا ، ابن عبدالبر نے کہا یہ حدیث حسن ہے، میں کہتا ہوں یعنی حسن لغیرہ ہے۔ت)

(۱؂ الترغیب والترہیب کتاب البیوع الترغیب فی طلب الحلال مصطفٰی البابی مصر ۲/ ۵۴۷)

حدیث ۱۹و۲۰ : ایک حدیث میں آیا حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: الدنیا حُلوۃ خضرۃ، من اکتسب منہا مالاً فی حِلّہ وانفقہ فی حقّہ اثابہ اﷲ علیہ واوردہ جنّتہ الحدیث، اخرجہ البیہقی فی الشعب ۲؂عن ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما قلت والمتن عندالترمذی عن خولۃ بنت قیس امراء ۃ سیّدنا حمزۃ بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالٰی عنہم بلفظ ان ھٰذاالمال خضرۃ حُلوۃ فمن اصابہ بحقّہ بُورک لہ فیہ، الحدیث قال الترمذی حسن صحیح۔۱؂
قلت واصلہ عن خولۃ عند البخاری مختصراً ۔ دنیا دیکھنے میں ہری ، چکھنے میں میٹھی ہے یعنی بظاہر بہت خوشنما و خوش ذائقہ معلوم ہوتی ہے جو اسے حلال وجہ سے کمائے اور حق جگہ پر اٹھائے اﷲ تعالٰی اسے ثواب دے اور اپنی جنت میں لے جائے ( اس کی تخریج کی بیہقی نے شعب میں ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے، میں کہتا ہوں اور متن ترمذی کے نزدیک خولہ بنت قیس زوجہ سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالٰی عنہم سے ان لفظوں کے ساتھ ہے کہ یہ مال سبزو میٹھا دکھائی دیتا ہے، چنانچہ جو اُسے حق جگہ پر پہنچائے اس کے لیے اس میں برکت دی جاتی ہے، الحدیث ۔ ترمذی نے کہا یہ حسن صحیح ہے، میں کہتا ہوں اس کی اصل بخاری کے نزدیک خولہ سے ہے۔اختصار ۔ت)

(۲؂ شعب الایمان حدیث ۵۵۲۷ دارالکتب العلمیہ بیروت ۴/ ۳۹۶)
( ۱ ؎ جامع الترمذی ابواب الزہد باب ماجاء فی اخذالمال امین کمپنی دہلی ۲/ ۶۰)

حدیث ۲۱: اور مذکور کہ فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم: ان من الذنوب ذنوبا لایکفر ھا الصّلوۃ ولا الصیام ولا الحج ولا العمرۃ ، یکفر ھا الھموم فی طلب المعیشۃ ، رواہ ابن عساکر وابو نعیم ۔۲؂ فی الحلیہ عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ کچھ گناہ ایسے ہیں جن کا کفارہ نہ نماز ہو نہ روزے نہ حج نہ عمرہ، ان کا کفارہ وہ پریشانیاں ہوتی ہیں جو آدمی کو تلاشِ معاشِ حلال میں پہنچتی ہیں۔(اس کو روایت کیا ابن عساکر نے اور ابونعیم نے حلیہ میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ۔ت)

( ۲ ؎ حلیۃ الاولیاء ترجمہ ۳۸۶ مالک بن انس رضی اللہ تعالی عنہ دارالکتاب العربی بیروت ۶ /۳۳۵)

حدیث ۲۲: صحابہ رضوان اﷲ تعالٰی علیہم نے ایک شخص کو دیکھا کہ تیز و چُست کسی کام کو جارہا ہے عرض کی: یارسول اللہ ۔ کیا خوب ہوتا اگر اس کی یہ تیزی و چستی خدا کی راہ میں ہوتی، حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: ان کان خرج یسعٰی علٰی نفسہ یعفہافہو فی سبیل اﷲ ، وان کان خرج یسعٰی علٰی ولدہ صغارا فہو فی سبیل اﷲ ۔ وان کان خرج یسعٰی علی ابوین شیخین کبیرین فھوفی سبیل اﷲ، وان کان خرج یسعٰی ریاءً ومفاخرۃ فہوفی سبیل الشیطان، رواہ الطبرانی ۳؂عن کعب بن عجرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ و رجالہ رجال الصحیح ۔ اگر یہ شخص اپنے لئے کمائی کو نکلا ہے کہ سوال وغیرہ کی ذلت سے بچے تو اس کی یہ کوشش اﷲ ہی کی راہ میں ہے ، اور اگر اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے خیال سے نکلا ہے جب بھی خدا کی راہ میں ہے اور اگراپنے بوڑھے ماں باپ کے لیے نکلا ہے جب بھی خدا کی راہ میں ہے ،ہاں اگر ریاء وتفاخر کے لیے نکلا ہے تو شیطان کی راہ میں ہے۔(اس کو طبرانی نے کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا اور اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں۔ت)

(۳ ؎ المعجم الکبیر حدیث ۲۸۲ المکتبہ الفیصلیہ بیروت ۱۹/ ۱۲۹)

حدیث ۲۳: اسی لیے ترک کسب سے صاف ممانعت آئی ہے حدیث میں ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: لیس بخیرکم من ترک دنیاہ لِاخرتہ ولا اٰخرتہ لِدنیاہ حتی یصیب منھما جمیعاً فان الدنیا بلاغ الی الاٰخرۃ ولاتکونوا کلاّ علی الناس رواہ ابن عساکر ۔۱؂ عن ابن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ تمہارا بہتر وہ نہیں ہے جو اپنی دنیا آخرت کے لیے چھوڑ دے اور نہ وہ جو اپنی آخرت دنیا کے لیے ترک کرے ، بہتر وہ ہے جو دونوں سے حصہ لے کہ دنیا آخرت کا وسیلہ ہے، اپنا بوجھ اوروں پر ڈال کر نہ بیٹھ رہو، ( اس کو ابن عساکر نے انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ت)

( ۱ ؎ کنزالعمال برمز ابن عساکر عن انس حدیث ۶۳۳۴ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۳/ ۲۴۰)

انہیں احادیث سے ثابت ہوا کہ تلاش حلال و فکرِ معاش و تعاطِی اسباب ہر گز منافی توکل نہیں بلکہ عین مرضی الہی ہے کہ آدمی تدبیر کرے اور بھروسہ تقدیر پر رکھے۔

حدیث ۲۴ و ۲۵: اسی لیے جب ایک صحابی نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کی اپنی اونٹنی یونہی چھوڑ دوں اور خدا پر بھروسہ رکھوں یا اُسے باندھوں اور خدا پر توکل کروں ؟ ارشاد فرمایا قَیِّد و تَوَکّل باندھ دے اور تکیہ خدا پر رکھ۔ برتوکل زانوے اشتر ببند (اللہ پربھروسہ کرتے ہوئے اونٹنی کے گھٹنے باندھ (ت)

اخرجہ البیہقی۔۲؂ فی الشعب بسند جیّد عن عمر و بن امیّۃ الضمری والترمذی فی الجامع عن انس رضی اللہ تعالٰی عنھما واللفظ عندہ اعقلھا وتوکل ۔۳؂ اس کی تخریج کی بیہقی نے شعب میں سند جید کے ساتھ عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اور ترمذی نے جامع میں حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے، اس کے نزدیک لفظ یہ ہیں، اعقلہا وتوکل۔ ( ۲ ؎ کنزالعمال برمز ھب عن عمرو بن امیہ حدیث ۵۶۸۸۷ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۳/ ۱۰۳)
(۳ ؎ جامع الترمذی ابواب صفۃ یوم القیمۃ باب منہ امین کمپنی دہلی ۲/ ۷۴)

دیکھو کیسا صاف ارشاد ہے کہ تدبیر کرو مگر اس پر اعتماد نہ کرلو۔ دل کی نظر تقدیر پر رہے۔
مولانا قدس سرہ مثنوی شریف میں فرماتے ہیں:

توکل کن بجنباں پاودست رزق تو برتو ز تو عاشق تراست ۱؎ (توکل کر اور ہاتھ پاؤں حرکت میں لا کہ تیرا رزق تجھ پر تجھ سے زیادہ عاشق ہے۔ت)

(۱؂)

خود حضرت عزت جل مجدہ نے قرآن عظیم میں تلاش وتدبیر اور اللہ کی طرف وسیلہ ڈھونڈنے کی ہدایت فرمائی۔

(۱۴ ) قال تعالٰی ( اﷲ تعالٰی نے فرمایا ۔ ت)

وتزّودوافان خیر الزاد التقوٰی واتقون یاولٰی الالباب o لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلاً من ربکم۲؂۔ اور توشہ ساتھ لو کہ سب سے بہتر توشہ پرہیزگاری ہے، اور مجھ سے ڈرتے رہو اے عقل والو۔ تم پر کچھ گناہ نہیں کہ اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔ت)

( ۲ ؎ القرآن الکریم ۲/ ۱۹۷ و ۱۹۸)

یمن کے کچھ لوگ بے زادِ راہ لیے حج کو آتے اور کہتے ہم متوکل ہیں، ناچار بھیک مانگنی پڑتی ، حکم آیا توشہ ساتھ لیا کرو۔ کچھ اصحاب کرام نے موسمِ حج میں تجارت سے اندیشہ کیا کہ کہیں اخلاصِ نیت میں فرق نہ آئے۔ فرمان آیا کچھ گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل ڈھونڈو۔ اسی طرح تلاشِ فضلِ الہٰی کی آیتیں بکثرت ہیں۔

(۱۵) وقال تعالٰی (اور اﷲ تعالٰی نے فرمایا ۔ت) یایہاالذین اٰمنوااتقوااﷲ وابتغواالیہ الوسیلۃ وجاھدوافی سبیلہ لعلکم تفلحون ۔۳؂ اے ایمان والو۔ﷲ سے ڈرو اور اس کی طر ف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ۔ت)

( ۳ ؎ القرآن الکریم ۵/ ۳۵)

صاف حکم دیتے ہیں کہ رب کی طرف وسیلہ ڈھونڈو تاکہ مراد کو پہنچو۔ اگر تدبیر واسباب معطل و مُہمل ہوتے تو اس کی کیا حاجت تھی۔
بلکہ انصاف کیجئے توتدبیرکب تقدیر سے باہر ہے ، وہ خود ایک تقدیر ہے، اور اس کا بجالانے والا ہرگز تقدیر سے رُوگرداں نہیں۔

حدیث ۲۶: حدیث میں حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کی گئی، دوا تقدیر سے کیا نافع ہوگی؟ فرمایا: الدّوامن القدر، ینفع من یشاء بماشاء رواہ ابن السنی ۔۱؂فی الطب والدیلمی فی مسند الفردوس عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما وصدرہ عنہ عندابی نعیم والطبرانی فی المعجم الکبیر ۔ دوا خود بھی تقدیر سے ہے، اﷲ تعالٰی جسے چاہے جس دوا سے چاہے نفع پہنچادیتا ہے۔(اس کو روایت کیا ہے ابن سنی نے طب میں اور دیلمی نے مسند فردوس میں اور اس کی ابتداء ابن عباس سے ابو نعیم کے نزدیک ہے اور طبرانی نے معجم کبیر میں اس کو روایت کیا۔ت)

( ۱ ؎ کنزالعمال برمز ابن سنی عن ابن عباس حدیث ۲۸۰۸۲ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۰/ ۵)

حدیث ۲۷: امیرالمومنین عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ جب بقصدِ شام و ادی تبوک میں قریہ سرَغ تک پہنچے سردارانِ لشکر ابوعبیدہ بن الجراح وخالد بن الولید و عمر و بن العاص وغیرہم رضوان اﷲ تعالٰی علیہم انہیں ملے اور خبر دی کہ شام میں وبا ہے، امیر المومنین نے مہاجرین وانصار وغیرہم صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کو بُلا کر مشورہ لیا، اکثر کی رائے رجوع پر قرار پائی امیر المومنین نے بازگشت کی منادی فرمائی ۔ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا : أفِرَارا من اﷲ کیا اﷲ تعالٰی کی تقدیر سے بھاگنا ؟ فرمایا:

لو غیرک قالہا یااباعبیدۃ ، نعم ، نفرمن قدر اﷲ الٰی قدر اﷲ ارایت لوکان لک ابل ھبطت وادیالہ عدوتان احدھما خصبۃ والاخرٰی جدبۃ الیس ان رعیت الخصبۃ رعیتہا بقدر اﷲ وان رعیت الجدبۃ رعیتہا بقدر اﷲ اخرجہ الائمۃ مالک۱؂ واحمد والبخاری ومسلم وابوداؤد وا لنسائی عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما ۔

کاش اے ابوعبیدہ ! یہ بات تمہارے سوا کسی اور نے کہی ہوتی ( یعنی تمہارے علم و فضل سے بعید تھی) ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے اﷲ کی تقدیر ہی کی طرف بھاگتے ہیں، بھلا بتاؤ تو اگر تمہارے کچھ اونٹ ہوں انہیں لے کر کسی وادی میں اترو جس کے دو کنارے ہوں، ایک سرسبز ، دوسرا خشک ، تو کیا یہ بات نہیں ہے کہ اگر تم شاداب میں چراؤ گے تو خدا کی تقدیر سے اور خشک میں چراؤ گے تو خدا کی تقدیر سے۔اس کی تخریج کی ہےائمہ یعنی مالک، احمد، بخاری، مسلم، ابوداؤد اور نسائی نے ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے (ت)

( ۱ ؎ صحیح البخاری کتاب الطب باب مایذکر فی الطاعون قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۸۵۳)
(صحیح مسلم کتاب السلام باب الطاعون والطیرۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۲۲۹)
(مؤطا الامام مالک کتاب الجامع باب ماجاء فی الطاعون میر محمد کتب خانہ کراچی ص ۶۹۹ و ۷۰۰)

یعنی باآنکہ سب کچھ تقدیر سے ہے پھر آدمی خشک جنگل چھوڑ کر ہرا بھرا چرائی کے لیے اختیار کرتا ہے، اس سے تقدیر الہی سے بچنا لازم نہیں آتا، یونہی ہمارا اُس زمین میں نہ جانا جس میں وبا پھیلی ہے یہ بھی تقدیر سے فرار نہیں ۔ پس ثابت ہوا کہ تدبیر ہر گز منافی تو کل نہیں، بلکہ اصلاحِ نیت کے ساتھ عین توکل ہے۔ ہاں یہ بے شک ممنوع و مذموم ہے کہ آدم ہمہ تن تدبیر میں منہمک ہوجائے اور اس کی درستی میں جاوبیجا و نیک و بد و حلال و حرام کا خیال نہ رکھے۔ یہ بات بیشک اُسی سے صادر ہوگی جو تقدیر کو بھول کر تدبیر پر اعتماد کر بیٹھا، شیطان اُسے ابھارتا ہے کہ اگر یہ بن پڑی جب تو کار برآری ہے ورنہ مایوسی و ناکامی ، ناچار سب این وآں سے غافل ہو کر اس کی تحصیل میں لہو پانی ایک کردیتا ہے، اور ذلت و خواری ، خوشامد و چاپلوسی، مکرو دغا بازی جس طرح بن پڑے اس کی راہ لیتا ہے، حالانکہ اس حرص سے کچھ نہ ہوگا۔ ہونا وہی ہے جو قسمت میں لکھا ہے۔ اگر یہ علوہمت و صدقِ نیت و پاسِ عزت و لحاظ شریعت ہاتھ سے نہ دیتا رزق کہ اﷲ عزوجل نے اپنے ذمے لیا جب بھی پہنچتا ، اس کی طمع نے آپ اس کے پاؤں میں تیشہ مارا اور حرص و گناہ کی شامت نے خسر الدنیا والاخرۃ ۔۲؂ (دنیا و آخرت دونوں کے اندر گھاٹے میں رہا۔ ت) کا مصداق بنایا، اور اگر بالفرض آبروکھو کر گناہ گار ہو کر دوپیسہ پائے بھی تو ایسے مال پر ہزار تف ؎

بئس المطاعم حین الذل تکسبہا القدر منتصب والقدر مخفوض ۔۳؂

(بُری خوراک وہ جسے ذلت کی حالت میں حاصل کرو قسمت بلند بھی ہے اور قسمت پست بھی۔(ت)

( ۲ ؎ القرآن الکریم ۲۲/ ۱۱)
(۳؂)

حدیث ۲۸: اسی لیے حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: اَجْمِلُوْا فی طَلَب الدُّنْیَا فانَّ کُلاًّ مُیَسَّر لِّمَا کُتِبَ لَہ مِنْھَا رواہ ابن ماجۃ۔۱؂ والحاکم والطبرانی فی الکبیر والبیھقی فی السنن وابوالشیخ فی الثواب عن ابی حمید الساعدی رضی اللہ تعالٰی عنہ باسنادِ صحیح واللفظ للحاکم ۔

دنیا کی طلب میں اچھی روش سے عدول نہ کرو کہ جس کے مقدر میں جتنی لکھی ہے ضرور اس کے سامان مہیا پائے گا۔( اس کو روایت کیا ابن ماجہ، حاکم) طبرانی نے کبیر میں، بیہقی نے سُنن میں اور ابوالشیخ نے ثواب میں صحیح اسناد کے ساتھ ابوحمید ساعدی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اور لفظ حاکم کے ہیں۔ت)

( ۱ ؎ المستدرک للحاکم کتاب البیوع لابأس بالغنی لمن اتقی دارالفکر بیروت ۲/ ۳)
(سنن ابن ماجہ ابواب التجارات باب الاقتصاد فی طلب المعیشۃ الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۵۶)
(السنن الکبرٰی کتاب البیوع باب الاجمال فی طلب الدنیا دارصادربیروت ۵/ ۲۶۴)
(کنزالعمال عن ابی حمید ساعدی حدیث ۹۲۹۱ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۴/ ۲۰)
(الترغیب والترہیب الترغیب فی الاقتصاد فی طلب الرزق الخ مصطفٰی البابی مصر ۲/ ۵۳۴)

حدیث ۲۹ و ۳۰ : اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم: یا ایھاالناس اتقوا واجملوا فی الطلب فانّ نفساً لن تموت حتی تستوفی رزقہا فان ابطأمنہا فاتقوا اﷲ واجملوا فی الطلب خذوا ماحلّ ودَعُوا ماحرم، رواہ ابن ماجۃ ۲؂ واللفظ لہ والحاکم وقال صحیح علٰی شرطھما وبسنداٰخر صحیح علٰی شرط مسلم ۳؂وابن حبّان فی صحیحہ کلھم عن جابربن عبداﷲ وبمعناہ عندابی یعلی بسند حسن ان شاء اﷲ تعالٰی عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہم ۔

اے لوگو! اللہ سے ڈرواور طلبِ رزق نیک طور پر کرو کہ کوئی جان دنیا سے نہ جائے گی ، جب تک اپنا رزق پورا نہ لے لے، تو اگرروزی میں دیر دیکھو تو خدا سے ڈرو اور رَوش محمود پر تلاش کرو، حلال کرلو ا ور حرام کو چھوڑو۔( اس کو ابن ماجہ نے روایت کیا اور لفظ اُسی کے ہیں، اور حاکم نے روایت کرکے کہا کہ یہ شیخین کی شرط پر صحیح ہے اور ایک دوسری سند کے ساتھ کہا کہ مسلم کی شرط پر صحیح ہے، اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت کیا۔ سب نے حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اور اس کے ہم معنٰی ابویعلٰی کے نزدیک اِن شاء اﷲ تعالٰی سندِ حسن کے ساتھ ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے۔ت)

(۲ ؎ سنن ابن ماجہ ابواب التجارات باب الاقتصاد فی طلب المعیشہ الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۱۵۶)
(المستدرک للحاکم کتاب البیوع لابأس بالغنی لمن اتقی الخ دارالفکر بیروت ۲/ ۴)
(۳ ؎المستدرک للحاکم کتاب البیوع لابأس بالغنی لمن اتقی الخ دارالفکر بیروت ۲/ ۴)

حدیث ۳۱ تا ۳۴: اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم: ان روح القدس نفث فی روعی ان نفساً لن تموت حتی تستکمل اجلہا وتستوعب رزقہا فاتقوااﷲ واجملوا فی الطلب ولا یحملن احدکم استبطاء الرزق ان یطلبہ بمعصیۃ اﷲ ، فان اﷲ تعالٰی لایُنال ماعندہ الا بطاعتہ ، اخرجہ ابونعیم فی الحلیۃ۔۱؂ واللفظ لہ عن ابی امامۃ الباھلی، والبغوی فی شرح السُّنۃ والبیھقی فی الشعب والحاکم فی المستدرک عن ابن مسعود، والبزار عن حذیفۃ الیمان ونحوہ للطبرانی فی الکبیر عن الحسن بن علی امیر المؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین غیر ان الطبرانی لم یذکرجبریل علیہ الصلوۃ السلام ۔ بے شک رُوح القدس جبریل نے میرے دل میں ڈالا کہ کوئی جان نہ مرے گی جب تک اپنی عمر اور اپنا رزق پورا نہ کرلے، تو خدا سے ڈرو اور نیک طریقے سے تلاش کرو، ا ور خبردار رزق کی درنگی تم میں کسی کو اس پر نہ لائے کہ نافرمانی خدا سے اُسے طلب کرے کہ اللہ کا فضل تو اس کی طاعت ہی سے ملتا ہے۔(ابونعیم نے حلیہ میں اس کی تخریج کی اور لفظ اسی کے ہیں، بغوی نے شرح السنہ میں، بیہقی نے شعب میں اور حاکم نے مستدرک میں ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے نیز بزار نے حذیفہ بن الیمان سے اور اسی کی مثل طبرانی کی کبیر میں حسن بن امیر المومنین علی سے مروی ہے رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین مگر طبرانی نے جبریل علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر نہیں کیا۔ت)

( ۱ ؎ حلیۃ الاولیاء ترجمہ ۴۵۷ احمد بن ابی الحواری دارالکتاب العربی بیروت ۱۰ /۲۷)
(شرح السنۃ باب التوکل علی اللہ حدیث ۴۱۱۱ المکتب الاسلامی بیروت ۱۴/ ۳۰۴)

حدیث ۳۵: اور مروی ہوا، فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم: اُطلبُواالحوائج بعزّۃ الانفس فانّ الامور تجری بالمقادیر رواہ تمام فی فوائدہ وابن عساکر ۱؂فی تاریخہ عن عبداللہ بن بُسررضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ حاجتیں عزت نفس کے ساتھ طلب کرو کہ سب کام تقدیر پر چلتے ہیں۔(ا س کو تمام نے فوائد میں اور ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں عبداﷲ بن بسُر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)

( ۱ ؎ کنزالعمال برمز تمام وابن عساکر عن عبداللہ بن بسر حدیث ۱۶۸۰۵ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۶ /۵۱۸)

ان سب حدیثوں میں بھی تلاش و تدبیر کی طرف ہدایت فرمائی مگر حکم دیا کہ شریعت و عزت کا پاس رکھو، تدبیر میں بے ہوش و مدہوش نہ ہوجاؤ، دست درکار و دل بایار، تدبیر میں ہاتھ، دل تقدیر کے ساتھ ، ظاہر میں ادھر باطن میں ادھر، اسباب کا نام ، مسبب سے کام، یوں بسر کرناچاہیے، یہی روش ہُدٰی ہے، یہی مرضی خدا ، یہی سنتِ انبیاء، یہی سیرت اولیاء علیھم جمیعا الصلوۃ والثناء ( ان سب کے لیے درود اور ثناء ہو۔ت)

بس اس بارے میں یہی قولِ فیصل و صراطِ مستقیم ہے، اس کے سوا تقدیر کو بھولنا یا حق نہ ماننا، یا تدبیر کو اصلاً مہمل جاننا دونوں معاذ اﷲ گمراہی ضلالت یا جنون و سفاہت، والعیاذ باﷲ رب العٰلمین۔

باب تدبیر میں آیات و احادیث اتنی نہیں جنہیں کوئی حصر کرسکے۔ فقر غفراﷲ تعالٰی لہ دعوی کرتا ہے کہ ان شاء اﷲ تعالٰی اگر محنت کی جائے تو دس ہزار سے زائد آیات و احادیث اس پر ہوسکتی ہیں مگر کیا حاجت کہ ۔ آفتاب آمد دلیل آفتاب (سورج کی دلیل خود سورج ہے۔ت)

جس مسئلہ کے تسلیم پر تمام جہان کے کاروبار کا دار ومدار، اس میں زیادہ تطویل عبث وبیکار، اسی تحریر میں کہ فقیر نے پندرہ آیتیں اور پینتس حدیثیں جملہ پچاس ۵۰ نصوص ذکر کیے اور صدہا بلکہ ہزار ہا کے پتے دیئے، یہ کیا تھوڑے ہیں، انہیں سے ثابت کہ انکارِ تدبیر کس قدر اعلٰی درجہ کی حماقت، اخبث الامراض ، اور قرآن و حدیث سے صریح اعراض اور خدا و رسول پر کھلا اعتراض ولاحول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم ۔

ولید پر فرض ہے کہ تائب ہو، اور کتاب و سنت سے اپنا عقیدہ درست کرے، ورنہ بدمذہبی کی شامت سخت جانکاہ ہے والعیاذ باﷲ رب العلمین ، باقی رہا اس کا عربی پڑھانے ، علم سکھانے کی نسبت وہ شنیع لفظ کہنا، اگر اِس تاویل کا درمیان نہ ہوتا کہ شاید وہ ان لوگوں پر معترض ہے جو دنیا کے لیے علم پڑھاتے ہیں، اور ایسے لوگ بےشک لائقِ اعتراض ہیں، تو صریح کلمہ کفر تھا کہ اس نے علمِ دین کی تحقیر و توہین کی، اور اس سے سخت تر ہے اُس کا خالد کو اس بنا پر کافر کہنا کہ وہ باوجود ایمان تقدیر، تدبیر کو بہتر و مستحسن جانتا ہے، حالانکہ جو اُس کا عقیدہ ہے وہی حق وصحیح ہے، اور ولید کا قول خود باطل و قبیح ، مسلمان کو کافر کہنا سہل بات نہیں۔

(حدیث ۳۶ تا ۳۹): صحیح حدیثوں میں فرمایا کہ جو دوسرے کو کافر کہے اگر وہ کافر نہ تھا یہ کافر ہوجائے۔ کما اخرجہ الائمۃ مالک واحمد والبخاری ومسلم وابوداؤد والترمذی عن عبداﷲ بن عمر، والبخاری ۱؂ عن ابی ہریرۃ واحمد والشیخان عن ابی ذر وابن حبان بسند صحیح عن ابی سعید الخدری رضی اللہ تعالٰی عنہم باسانید عدیدۃ والفاظ متبائنۃ ومعانی متقاربۃ ۔ جیسا کہ اس کی تخریج کی ہےائمہ کرام یعنی امام مالک، احمد ، بخاری، مسلم، ابوداؤد، اور ترمذی نے عبداﷲ بن عمر سے اور بخاری نے ابوہریرہ سے اور احمد اور شیخین نے ابوذر سے اور ابن حبان نے سند صحیح کے ساتھ ابوسعید خدری سے رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین متعدد سندوں کے ساتھ جن کے الفاظ مختلف مگر معانی قریب قریب ہیں۔(ت)

( ۱ ؎ صحیح البخاری کتاب الادب باب من اکفرا خاہ بغیر تاویل قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۹۰۱)
(صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان حال ایمان من قال لاخیہ المسلم یا کفر قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۵۷)
(مسند احمد بن حنبل عن ابن عمر المکتب الاسلامی بیروت ۲/ ۱۱۳)

اور اگرچہ اہلِ سنت کا مذہب محقق و منقح یہی ہے کہ ہمیں تاہم احتیاط لازم اور اتنی بات پرحکم تکفیر ممنوع و ناملائم، اور احادیث مذکورہ میں تاویلاتِ عدیدہ کا احتمال قائم ۔ مگر پھر بھی صدہا ائمہ مثل امام ابوبکر اعمش وجمہور فقہاء بلخ وغیرہم رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہم ظاہر احادیث ہی پر عمل کرتے، اور مسلمان کے مکفرکو مطلقاً کافر کہتے ہیں، کما فصّلناہ کل ذلک فی رسالتنا ، النھی الاکید عن الصلوۃِ وراء عدی التقلید (جیسا کہ ہم نے اس تمام کی تفصیل اپنے رسالہ النھی الاکیدعن الصلو ۃ وراء عدی التقلید میں کردی ہے ۔ت)
تو ولید پر لازم کہ از سر نو کلمہ اسلام پڑھے اور اگر صاحبِ نکاح ہو تو اپنی زوجہ سے تجدیدِ نکاح کرے۔

فی الدُّرِّ المختار عن شرح الوھبانیۃ للعلامۃ حَسَنِ الشُّرُنبُلالی مایکون کفراً اتفاقاً یبطل العمل والنکاح واولادہ اولادُ زنا و ما فیہ خِلاف یؤمر بالاستغفار والتوبۃ وتجدید النکاح ۔۱؂ دُر مختار میں علامہ حسن شُر نبلالی کی شرح وہبانیہ سے منقول ہے جو بالاتفاق کفر ہو اس سے عمل اور نکاح باطل ہوجائیں گے بلاتجدیدِ ایمان و نکاح اس کی اولاد اولادِ زنا ہوگی، اور جس میں اختلاف ہے قائل کو استغفار ، توبہ، تجدید نکاح کا حکم دیا جائے گا۔ (ت)

( ۱ ؎ الدرالمختار کتاب الجہاد باب المرتد مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۵۹)

حدیث ۴۰: اور جس طرح یہ کلماتِ شنیعہ علانیہ کہے یونہی توبہ و تجدید ایمان کا بھی اعلان چاہیے۔
رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: اذاعملت سیئۃ فاحدث عندھا توبۃ السرّ بالسّروالعلانیۃ بالعلانیۃ رواہ الامام احمد فی کتاب الزھد ۲؂والطبرانی فی المعجم الکبیرعن معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ بسند حسن ۔ جب تو کوئی گناہ کرے تو فوراً ازسر نو توبہ کر، پوشیدہ کی پوشیدہ ، اور آشکارا کی آشکارا ( اس کو امام احمد نے کتاب الزہد میں اور طبرانی نے معجم کبیر میں سند حسن کے ساتھ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ت۔) واﷲ تعالٰی اعلم۔

رسالہ التحبیربباب التدبیر ختم ہوا۔

( ۲ ؎ الزہد لاحمد بن حنبل حدیث ۱۴۱ دارالکتاب العربی بیروت ص ۴۹)
(المعجم الکبیر حدیث ۳۳۱ المکتبۃ الفیصیلۃ بیروت ۲۰/ ۱۵۹)