رسائل فتاوی رضویہ, شان مصطفیٰ, عقائد و کلام, فتاوی رضویہ

رسالہ اسماع الاربعین فی شفاعۃ سیدالمحبوبین

رسالہ
اسماع الاربعین فی شفاعۃ سیدالمحبوبین
(محبوبوں کے سردار کی شفاعت کے بارے میں چالیس حدیثیں سنانا)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مسئلہ ۱۶۵ : کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا شفیع ہونا کس حدیث سے ثابت ہے؟ بینوا توجروا ( بیان فرمائیے اجردیئے جاؤ گے ۔ت)

الجوا ب

الحمدﷲ البصیر السمیع والصلوۃ والسلام علی البشیر الشفیع وعلٰی الہ وصحبہ کل مساء وسطیع سب تعریفیں اﷲ تعالٰی کے لیے جو دیکھنے والا سننے والا ہے، اور درود و سلام نازل ہو بشارت دینے والے شفاعت کرنے والے پر اور اس کے آل و اصحاب پر ہر شام کو اور ہر صبح کو۔(ت)

سُبحان اﷲ ! ایسے سوال سُن کر تعجب آتا ہے کہ مسلمان و مدعیان سنیت اور ایسے واضح عقائد میں تشکیک کی آفت، یہ بھی قُربِ قیامت کی ایک علامت ہے ۔” انّا ﷲ واناّ الیہ راجعون “

احادیثِ شفاعت بھی ایسی چیز ہیں جو کسی طرح چھپ سکیں، بیسیوں صحابہ، صدہا تابعین، ہزار ہا محدثین ان کے راوی ، حدیث کی ہر گو نہ کتابیں صحاح، سُنن، مسانید، معاجیم، جوامع ، مصنفات ان سے مالا مال۔ اہل سنت کا ہر متنفس یہاں تک کہ زنان و اطفال بلکہ دہقانی جہال بھی اس عقیدے سے آگاہ، خدا کا دیدار محمد کی شفاعت ایک ایک بچے کی زبان پر جاری ، صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم و بارک و شرف ومجدوکرم۔

فقیر غفرلہ اﷲ تعالٰی لہ نے رسالہ ” سمع وطاعۃ الاحادیث الشفاعۃ” میں بہت کثرت سے ان احادیث کی جمع و تلخیص کی، (یہاں ) بہ نہایت اجمال صرف چالیس حدیثوں کی طرف اشارت، اور ان سے پہلے چند آیاتِ قرآنیہ کی تلاوت کرتا ہوں۔

الآیات

آیتِ اُولٰی : قال اﷲ تعالٰی ( اﷲ تعالٰی نے فرمایا) : عسٰی ان یبعثک ربّک مقاما محموداً ۱ ؎۔ قریب ہے کہ تیر ارب تجھے مقامِ محمود میں بھیجے۔

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۱۷ /۷۶)

حدیث شریف میں ہے حضور شفیع المذنبین صلی ا ﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کی گئی ، مقامِ محمود کیا چیز ہے : فرمایا : ھوالشفاعۃ ۲؂۔ وہ شفاعت ہے۔

( ۲ ؎ جامع الترمذی ابواب التفسیر سورۃ بنی اسرائیل امین کمپنی دہلی ۲ /۱۴۲)

آیتِ ثانیہ : قال اﷲ تعالٰی ( اﷲ تعالٰی نے فرمایا): ولسوف یعطیک ربّک فترضٰی۳ ؎۔ اور قریب تر ہے تجھے تیرا رب اتنا دے گا کہ تُو راضی ہوجائے گا۔

( ۳ ؎ القرآن الکریم ۹۳/ ۵)

دیلمی مسند الفردوس میں امیر المومنین مولٰی علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ، سے راوی، جب یہ آیت اتری حضور شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : اذًا لاارضٰی وواحد من امتی فی النار۴ ؎۔اللھّٰم صلّ وسلم وبارِ ک علیہ۔ یعنی جب اﷲ تعالٰی مجھ سے راضی کردینے کا وعدہ فرماتا ہے تو میں راضی نہ ہوں گا اگر میرا ایک امتی بھی دوزخ میں رہا۔ ( ۴ ؎ مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر) تحت آیۃ ۹۳ /۵ المطبعۃ البہیۃ المصریۃ مصر ۳۱ /۲۱۳)

طبرانی معجم اوسط اور بزار مسند میں جناب مولٰی المسلمین رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : اشفع الامتی حتی ینادینی ربی قدارضیت یا محمد فاقول ای ربّ قد رضیت۱ ؎ میں اپنی امت کی شفاعت کروں گا یہاں تک کہ میرا رب پکارے گا اے محمد! تو راضی ہوا؟ میں عرض کروں گا: اے رب میرے ! میں راضی ہوا۔

( ۱ ؎ المعجم الاوسط حدیث ۲۰۸۳مکتبۃ المعارف ریاض ۳ /۴۴)
(الترغیب الترہیب کتاب البعث فصل فی الشفاعۃ مصطفٰی البابی مصر ۴ /۴۴۶)
(الدرالمنثور تحت الآیۃ ۹۳/ ۵ مکتبۃ آیۃ اﷲ العظمٰی قسم ایران ۶ /۳۶۱)

آیت ثالثہ ۳: قال اﷲ تعالٰی (اﷲ تعالٰی نے فرمایا) : واستغفرلذنبک وللمؤمنین والمؤمنٰت ۲ ؎۔ اے محبوب ! اپنے خاصوں اور عام مسلمان مردوں اور عورتوں کے گناہوں کی معافی مانگی۔

( ۲ ؎ القرآن الکریم ۴۷ /۱۹ )

اس آیت میں اﷲ تعالٰی اپنے حبیب کریم علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم کو حکم دیتا ہے کہ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کے گناہ مجھ سے بخشواؤ، اور شفاعت کا ہے کا نام ہے۔

آیت رابعہ ۴ : قال اﷲ تعالٰی (اﷲ تعالٰی نے فرمایا) : ولوانھم اذظلموا انفسھم جاء وک فاستغفروا اﷲ واستغفر لہم الرسول لوجد وااﷲ توّاباً رحیما ۳ ؎۔ اور اگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں، تیرے پاس حاضر ہوں، پھر خدا سے استغفار کریں، اور رسول ان کی بخشش مانگے تو بیشک اﷲ تعالٰی کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔

( ۳ ؎ القرآن الکریم ۴ /۶۴)

اس آیت میں مسلمانوں کو ارشاد فرماتا ہے کہ گناہ کرکے اس نبی کی سرکار میں حاضر ہو اور اُس سے درخواستِ شفاعت کرو، محبوب تمہاری شفاعت فرمائے گا۔ تو ہم یقیناً تمہارے گناہ بخش دیں گے۔

آیتِ خمسہ ۵: قال اﷲ تعالٰی (اﷲ تعالٰی نے فرمایا) : واذاقیل لہم تعالوا یستغفر لکم رسول اﷲ لوّوا رء وسھم ۱ ؎۔ جب ان منافقوں سے کہا جائے کہ آؤ رسول اﷲ تمہاری مغفرت مانگیں تو اپنے سر پھیر لیتے ہیں۔

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۶۳ /۵)

اس آیت میں منافقوں کا حال بد مآل ارشاد ہوا کہ وہ حضور شفیع المذنبین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے شفاعت نہیں چاہتے، پھر جو آج نہیں چاہتے وہ کل نہ پائیں گے۔ اﷲ دنیا و آخرت میں ان کی شفاعت سے بہرہ مند فرمائے۔ ؎
حشر میں ہم بھی سیر دیکھیں گے منکر آج ان سے التجا نہ کرے

وصلی اﷲ تعالٰی علٰی شفیع المذنبین واٰلہ وصحبہ وحزبہ اجمعین ۔ اﷲ تعالٰی درودنازل فرمائے گنہگاروں کی شفاعت فرمانے والے پر اور ان کی آل، اصحاب اور تمام امت پر۔(ت)

الاحادیث

شفاعت کُبرٰی کی حدیثیں جن میں صاف صریح ارشاد ہوا کہ عرصاتِ محشر میں وہ طویل دن ہوگا کہ کاٹے نہ کٹے اور سروں پر آفتاب اور دوزخ نزدیک، اُس دن سورج میں دس برس کامل کی گرمی جمع کریں گے اور سروں سے کچھ ہی فاصلہ پر لارکھیں گے، پیاس کی وہ شدت کہ خدا نہ دکھائے، گرمی وہ قیامت کہ اﷲ بچائے، بانسوں پسینہ زمین میں جذب ہو کر اوپر چڑھے گا، یہاں تک کہ گلے گلے سے بھی اونچے ہوگا، جہاز چھوڑیں تو بہنے لگیں ، لوگ اس میں غوطے کھائیں گے ، گھبرا گھبرا کر دل حلق تک آجائیں گے۔

لوگ ان عظیم آفتوں میں جان سے تنگ آکر شفیع کی تلاش میں جا بجا پھریں گے، آدم و نوح، خلیل وکلیم و مسیح علیہم الصلوۃ والتسلیم کے پاس حاضر ہو کر جواب صاف سنیں گے ، سب انبیاء فرمائیں گے ہمارا یہ مرتبہ نہیں ہم اس لائق نہیں ہم سے یہ کام نہ نکلے گا، نفسی نفسی ، تم اور کسی کے پاس جاؤ، یہاں تک کہ سب کے بعد حضور پُرنور خاتم النبیین ، سیدّالاولین والآخرین، شفیع المذنبین ، رحمۃ للعالمین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ” اَنالَہا انالہَا “۲؂ فرمائیں گے یعنی میں ہوں شفاعت کے لیے ، میں ہوں شفاعت کے لیے۔

( ۲ ؎ البدایۃ والنہایۃ ذکر ثناء اﷲ و رسولہ الکریم علی عبدوخلیلہ ابراہیم مکتبہ المعارف بیروت ۱ /۱۷۱)
(صحیح مسلم کتاب الایمان باب اثبات الشفاعۃ الخقدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۱۰)

پھر اپنے رب کریم جلالہ، کی بارگاہ میں حاضر ہو کر سجدہ کریں گے ان کا رب تبارک و تعالٰی ارشاد فرمائے گا : یامحمد ارفع رأسَک وقل تُسمع وسل تعطہ واشفع تشفع ۱ ؎۔ اے محمد !اپنا سر اٹھاؤ اور عرض کرو تمہاری بات سنی جائے گی اور مانگو کہ تمہیں عطا ہوگا اورشفاعت کرو کہ تمہاری شفاعت قبول ہے۔

( ۱ ؎ صحیح البخاری کتاب الانبیاء باب قول اﷲ تعالٰی ولقدارسلنا نوحاً الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۷۰)
(صحیح البخاری کتاب الرقاق باب صفۃ الجنۃ والنار قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۹۷۱)
(صحیح البخاری کتاب التوحید باب قول اﷲ تعالٰی لما خلقت بیدی قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۱۱۰۲)
(صحیح البخاری کتاب التوحید باب قول اﷲ تعالٰی وجوہ یومئذ ناضرۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۱۱۰۸)
(صحیح البخاری کتاب التوحید باب قول الرب یوم القیمۃ الانبیاء وغیرہم قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۱۱۱۸)
(صحیح مسلم کتاب الایمان باب اثبات الشفاعۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۰۸ تا ۱۱۱)

یہی مقامِ محمود ہوگا جہاں تمام اولین و آخرین میں حضور کی تعریف و حمد و ثنا کا غُل پڑ جائے گا اور موافق و مخالف سب پر کھل جائے گا۔ بارگاہِ الہٰی میں جو وجاہت ہمارے آقا کی ہے کسی کی نہیں اور مالک عظیم جل جلالہ کے یہاں جو عظمت ہمارے مولےٰ کے لیے ہے کسی کے لیے نہیں والحمدﷲ رب العلمین۔ (اور تمام تعریفیں اﷲ تعالٰی کے لیے ہیں جو سب جہانوں کا پروردگار ہے۔ت) اسی لیے اﷲ تعالٰی اپنی حکمتِ کاملہ کے مطابق لوگوں کے دلوں میں ڈالے گا کہ پہلے اور انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے پاس جائیں اور وہاں سے محروم پھر کر ان کی خدمت میں حاضر آئیں تاکہ سب جان لیں کہ منصب شفاعت اسی سرکار کا خاصہ ہے دوسرے کی مجال نہیں کہ اس کا دروازہ کھول سکے، والحمدﷲ رب العلمین ( اور تمام تعریفیں اﷲ تعالٰی کے لیے ہیں جو سب جہانوں کا پروردگار ہے۔ت)

یہ حدیثیں صحیح بخاری و صحیح مسلم تمام کتابوں میں مذکور اور اہلِ اسلام میں معروف و مشہور ہیں، ذکر کی حاجت نہیں کہ بہت طویل ہیں۔ شک لانے والا اگر دو حرف بھی پڑھا ہو تو مشکوۃ شریف کا اردو میں ترجمہ منگاکر دیکھ لے یا کسی مسلمان سے کہے کہ پڑھ کر سُنا دے۔ اور انہیں حدیثوں کے آخر میں یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ شفاعت کرنے کے بعد حضور شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بخشش گنہگارانِ کے لیے بار بار شفاعت فرمائیں گے اور ہر دفعہ اﷲ تعالٰی وہی کلمات فرمائے گا اور حضور ہر مرتبہ بے شمار بندگانِ خدا کو نجات بخشیں گے۔ بار بار شفاعت فرمائیں گے اور ہر دفعہ اﷲ تعالٰی وہی کلمات فرمائے گا اور حضور ہر مرتبہ بے شمار بندگانِ خدا کو نجات بخشیں گے۔

میں ان مشہور حدیثون کے سوا ایک اربعین یعنی چالیس حدیثیں اور لکھتا ہوں جو گوش عوام تک کم پہنچی ہوں ، جن سے مسلمانوں کا ایمان ترقی پائے، منکرِ کا دل آتشِ غیظ میں جل جائے، بالخصوص جن سے اس ناپاک تحریف کا رَد شریف ہو جو بعض بددینوں ، خدا ناترسوں، ناحق کوشوں، باطل کیشوں نے معنی شفاعت میں کیں اور انکارِ شفاعت کے چہرہ نجس چھپانے کو ایک جھوٹی صورت نام کی شفاعت دل سے گھڑی ۔

ان حدیثوں سے واضح ہوگا یہ حدیثیں ظاہر کریں گی کہ ہمیں خدا اور رسول نے کان کھول کر شفیع کا پیارا نام بتادیا اور صاف فرمایا کہ وہ محمد رسول اﷲ ہیں(صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) نہ یہ کہ بات گول رکھی ہو جیسے ایک بدبخت کہتا ہے کہ اسی کے اختیار پر چھوڑ دیجئے جس کو وہ چاہے ہمارا شفیع کردے۔

یہ حدیثیں مژدہ جانفزا دیں گی کہ حضور کی شفاعت نہ اس کے لیے ہے جس سے اتفاقاً گناہ ہوگیا ہو اور وہ اس پر ہر وقت نادم و پریشان و ترساں ولرزاں ہے جس طرح ایک دُزد باطن کہتا ہے کہ چور پر تو چوری ثابت ہوگئی مگر وہ ہمیشہ کا چور نہیں اور چوری کو اس نے کچھ اپنا پیشہ نہیں ٹھہرایا مگر نفس کی شامت سے قصور ہوگیا سو اس پر شرمندہ ہے اور رات دن ڈرتا ہے۔ نہیں نہیں ان کے رب کی قسم جس نے انہیں شفیع المذنبین کیا۔ اُن کی شفاعت ہم جیسے روسیاہوں ، پُرگناہوں، سیاہ کاروں ستم گاروں کے لیے ہے جن کا بال بال گناہ میں بندھا ہے جن کے نام سے گناہ بھی تنگ وعار رکھتا ہے۔ ع

ترسم آلودہ شود دامنِ عصیاں از من

( میں ڈرتا ہوں کہ گناہوں کا دامن میری وجہ سے آلودہ ہوجائے گا۔ت)

وحسبنا اﷲ تعالٰی و نعم الوکیل و الصلوۃ والسلام علی الشفیع الجمیل وعلٰی اٰلہ وصحبہ بالوف التبجیل والحمد ﷲ ربّ العلمین ربّ العلمین ۔

اور اﷲ تعالٰی ہمارے لیے کافی ہے اور کیا ہی خوب کار ساز ہے، اور درود و سلام نازل ہوجمال والے شفیع پر اور ان کے آل و اصحاب پر ہزاروں تعظیم و تکریم کے ساتھ، اور تمام تعریفیں اﷲ کے لیے ہیں جو سب جہانوں کا پروردگار ہے۔(ت)

حدیث ۱ و۲: امام احمد بسندِ صحیح اپنی مسند میں حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے اور ابن ماجہ حضرت ابوموسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : خُیِّرت بین الشفاعۃ وبین ان یدخل نصف امتی الجنۃ فاخترت الشفاعۃ لانھا اعم واکفٰی ترونھا للمتقین لا ولکنھا للمذنبین الخطائین المتلوثین ۔۱؂

اللہ تعالٰی نے مجھے اختیار دیا کہ یا تو شفاعت لو یا یہ کہ تمہاری آدمی امت جنت میں جائے میں نے شفاعت لی کہ وہ زیادہ تمام اور زیادہ کام آنے والی ہے، کیا تم یہ سمجھ لیے ہو کہ میری شفاعت پاکیزہ مسلمانوں کے لیے ہے؟ نہیں بلکہ وہ ان گنہگاروں کے واسطے ہے جو گناہوں میں آلودہ اور سخت خطا کار ہیں۔

( ۱ ؎سنن ابن ماجہ ابواب الزہد باب ذکر الشفاعۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۳۲۹)
(مسند احمد بن حنبل عن عبداﷲ بن عمرالمکتب الاسلامی بیروت ۲ /۷۵)

اللّٰھم صل وسلم وبارک علیہ والحمد اﷲ رب العٰلمین ۔

اے اللہ ! درود و سلام اور برکت نازل فرما ان پر، اور تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو سب جہانوں کاپروردگار ہے۔(ت)

حدیث ۳: ابن عدی حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے راوی حضور شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : شفاعتی للہالکین من اُمتی ۲ ؎۔ میری شفاعت میرے ان امتیوں کے لیے ہے جنہیں گناہوں نے ہلاک کر ڈالا۔حق ہے اے شفیع میرے، میں قربان تیرے، صلی اللہ علیک۔

( ۲ ؎الکامل لابن عدی ترجمہ عمرو بن المحرم دارالفکر بیروت ۵ /۱۸۰۱)
(کنزالعمال حدیث ۳۹۰۷۳ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۴ /۴۰۱)

حدیث ۴:۸ : حضرت ابوداؤد و ترمذی و ابن حبان و حاکم و بیہقی بافادہ صحیح حضرت انس بن مالک اور ترمذی، ابن ماجہ، ابن حبان، و حاکم حضرت جابر بن عبداللہ اور طبرانی معجم کبیر میں حضرت عبداللہ بن عباس اور خطیبِ بغدادی حضرت عبداﷲ ابن عمر فاروق و حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سے راوی حضور شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : شفاعتی یوم القٰیمۃ لاھل الکبائر من امّتی ۱ ؎۔ میری شفاعت میری امت میں ان کے لیے ہے جو کبیرہ گناہ والے ہیں۔ صلی اللہ علیک وسلم، والحمد ﷲ رب العلمین ۔ اﷲ تعالٰی آپ پر درود و سلام نازل فرمائے اور تمام تعریفیں اﷲ تعالٰی کے لیے ہیں جو سب جہانوں کا رپروردگار ہے۔(ت)

( ۱ ؎سُنن ابنِ ماجہ ابواب الزہد باب ذکر الشفاعۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۳۲۹)
(سُنن ابی داؤد کتاب السنۃ باب فی الشفاعۃ آفتاب عالم پریس لاہور ۲ /۲۹۶)
(جامع الترمذی ابواب صفۃ القیمۃ باب ماجاء فی الشفاعۃ امین کمپنی دہلی۲ /۶۶)
(المستدرک للحاکم کتاب الایمان شفاعتی لاہل الکبائر من امتی دارالفکر بیروت ۱ /۶۹)
(السنن الکبرٰی کتاب الجنایات۸ /۱۷ وکتاب الشہادات دارصادر بیروت ۱۰ /۱۹۰)
(المعجم الکبیر حدیث ۱۱۴۵۴ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۱۱ /۱۸۹)
(موارد الظمٰان الٰی زوائد ابن حبان حدیث ۲۵۹۶ المطبعۃ السلفیہ ص۳۴۵)
( کنز العمال حدیث ۳۹۰۵۵ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۴/ ۳۹۸)

حدیث ۹ : ابوبکر احمد بن بغدادی حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : شفاعتی لاھل الذنوب من امتی ۔ میری شفاعت میرے گنہگار امتیوں کے لیے ہے۔ابودرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی : واِن زَنٰی واِن سَرَقَ اگرچہ زانی ہو، اگرچہ چور ہو) فرمایا : وان زنٰی وان سرق علٰی رغم انفِ ابی الدرداء ۲ ؎۔ ( اگرچہ زانی ہو اگرچہ چور ہو برخلاف خواہش ابودرداء کے)

( ۲ ؎تاریخ بغداد ترجمہ محمد بن ابراہیم الغازی ابن البصری دارالکتاب العربی بیروت ۱ /۴۱۶)

حدیث ۱۰ و ۱۱ : طبرانی و بیہقی حضرت بریدہ اور طبرانی معجم اوسط میں حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : ان اشفع یوم القیمٰۃ لِاکثرمما علٰی وجہ الارض من شجروحجر ومدر ۱ ؎۔ یعنی رُوئے زمین پر جتنے پیڑ، پتھر، ڈھیلے ہیں میں قیامت یں ان سب سے زیادہ آدمیوں کی شفاعت فرماؤں گا۔

(۱؂مسند احمد بن حنبل عن بریدہ الاسلمی المکتب الاسلامی بیروت ۵ /۳۴۷)
(المعجم الاوسط حدیث ۵۳۵۶ مکتبۃ المعارف ریاض ۶ /۱۷۲)
(کنزالعمال حدیث ۳۹۰۶۲ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۴ /۳۹۹)

حدیث ۱۲ : بخاری، مسلم ، حاکم، بیہقی حضرت ابوہریرہ رضی ا للہ تعالٰی عنہ سے راوی ، واللفظ لھٰذین ( اور لفظ حاکم و بیہقی کے ہیں۔ت) حضور شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : شفاعتی لمن شہدان لا اٰلہ الا اﷲ مخلصاً یصدق قلبہ لسانہ ۲ ؎۔ میری شفاعت ہر کلمہ گو کے لیے ہے جو سچے دل سے کلمہ پڑھے کہ زبان کی تصدیق دل کرتا ہو۔

( ۲ ؎المستدرک للحاکم کتاب الایمان باب شفاعتی لمن یشھد الخ دارالفکر بیروت ۱ /۷۰)
(مسند احمد بن حنبل عن ابی موسی الاشعری المکتب الاسلامی بیروت ۴/۴۰۴ و ۴۱۵)
(کنزالعمال حدیث ۳۹۰۷۹ و ۳۹۰۸۰ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۰/ ۳۶۸ و ۳۶۹)
(مجمع الزوائد کتاب البعث باب ما جآء فی الشفاعۃ دارالکتاب بیروت ۱۰/ ۳۶۸ و۳۶۹)

حدیث ۱۳ : احمد ، طبرانی وبزار حضرت معاذ بن جبل و حضرت ابو موسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : انہا اوسع لھم وھی لمن مات ولایشرک باﷲ شیئا ۳ ؎۔ شفاعت میں امت کے لیے زیادہ وسعت ہے کہ وہ ہر شخص کے واسطے ہے جو اﷲ تعالٰی کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے یعنی جس کا خاتمہ ایمان پر ہو۔

حدیث ۱۴ : طبرانی معجم اوسط میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : اٰتی جہنم فاضرب بابہا فیفتح لی فادخلھا فاحمداﷲ محامد ما حمدہ احد قبلی مثلہا ولا یحمداحد بعدی ثم اخرج منھا من قال لا الہ الا اللہ ۱؂ ملخصاً ۔ میں جہنم کا دروازہ کھلوا کر تشریف لے جاؤں گا وہاں خدا کی تعریف کروں گا، ایسی نہ مجھ سے پہلے کسی نے کیں نہ میرے بعد کوئی کرے، پھر دوزخ سے ہر اس شخص کو نکال لوں گا جس نے خالص دل سے لا الٰہ الا اﷲ کہا۔

( ۱ ؎المعجم الاوسط حدیث ۳۸۵۷ مکتبہ المعارف ریاض ۴ /۵۰۳)

حدیث ۱۵ : حاکم بافادہ تصحیح اور طبرانی و بیہقی حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : یوضع للانبیاء منابر من ذھب فیجلسون علیھا ویبقٰی منبری لا اجلس علیہ او لا اقعد علیہ قائما بین یدی ربی مخافۃ ان یبعث بی الی الجنۃِ ویبقی اُمّتی بعدی فاقول یارب امتی امتی فیقول اﷲ عزوجل یا محمد ما ترید ان اصنع بامتک فاقول یا رب عجل حسابھم فما ازال اشفع حتی اعطٰی صکاکاً برجال قد بعث بھم الی النار حتی اَنّ مالکاً خازن النار فیقول یا محمد ما ترکت لغضب ربک فی امتک من نقمۃ ۲ ؎۔ انبیا کے لیے سونے کے منبر بچھائیں گے وہ ان پر بیٹھیں گے، اور میرا منبر باقی رہے گا کہ میں اس پر جلوس نہ فرماؤں گا بلکہ اپنے رب کے حضور سر وقد کھڑا رہون گا اس ڈر سے کہ کہیں ایسا نہ ہو مجھے جنت میں بھیج دے اور میری امت میرے بعد رہ جائے پھر عرض کروں گا اے رب میرے ! میری امت ، میری امت، اﷲ تعالٰی فرمائے گا اے محمد، تیری کیا مرضی ہے میں تیری امت کے ساتھ کیا کروں؟ عرض کروں گا اے رب میرے ان کا حساب جلد فرمادے، پس میں شفاعت کرتا رہوں گا۔ یہاں تک کہ مجھے ان کی رہائی کی چھٹیاں ملیں گی جنہیں دوزخ بھیج چکے تھے یہاں تک کہ مالک داروغہ دوزخ عرض کرے گا اے محمد ! آپ نے اپنی امت میں رب کا غضب نام کو نہ چھوڑا۔

( ۲ ؎المستدرک للحاکم کتاب الایمان باب الانبیاء منابرمن ذہب دارالفکر بیروت ۱ /۶۵و ۶۶)
(المعجم الاوسط حدیث ۲۹۵۸ مکتبۃ المعارف ریاض ۳ /۴۴۶ و ۴۴۷)
( الترغیب والترہیب کتاب البعث فصل فی الشفاعۃ مصطفٰی البابی مصر ۴ /۴۴۶)

اللھم صلی وبارک علیہ والحمد اﷲ رب العلمین ۔ اے اﷲ ! درود و برکت نازل فرما ان پر ، اور تمام تعریفیں اﷲ تعالٰی کے لیے ہیں جو سب جہانوں کا پروردگار ہے۔(ت)

حدیث ۱۶ تا ۲۱ : بخاری و مسلم و نسائی حضرت جابر بن عبداﷲ اور احمد بسندِ حسن اور بخاری تاریخ میں اور بزار اور طبرانی و بیہقی و ابونعیم حضرت عبداﷲ بن عباس، اور احمد بسندِ حسن و بزار بسندِ جیدّ و دارمی و ابن ابی شیبہ و ابویعلٰی وابونعیم وبیہقی حضرت ابوذر، اور طبرانی معجم اوسط میں بسند حضرت ابوسعید خدری، اور کبیر میں حضرت سائب بن زید، اور احمد باسنادِ حسن اور ابن ابی شیبہ و طبرانی حضرت ابوموسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہم سے راوی : واللفظ لجابر قال قال رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اُوعطیت ما لم یعط احد قبلی الٰی قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم واعطیت الشفاعۃ۱ ؎۔

اور لفظ حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : ” مجھے وہ کچھ عطا ہوا جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دیا گیا”۔

( ۱ ؎ صحیح بخاری کتاب التیم وقولہ تعالٰی فلم تجدواماءً قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۸)
(صحیح بخاری کتاب الصلوۃ باب قولہ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جعلت لی الارض مسجداً کراچی ۱ /۶۲)
(صحیح مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلوۃقدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۹۹)
(سنن النسائی کتاب الغسل والتمیم باب التمیم بالصعید نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۱ /۷۴)
(مسند احمد بن حنبل عن ابن عباس رضی اللہ عنہالمکتب الاسلامی بیروت ۱ /۳۰۱)
(المعجم الکبیرعن ابن عباس رضی اللہ عنہالمکتب الاسلامی بیروت ۱ /۳۰۱)
(المعجم الکبیر عن ابن عباس رضی اللہ عنہ حدیث ۱۱۰۸۵ المکتب الاسلامی بیروت ۱۱ /۷۳)
(مسند احمد بن حنبل عن ابی ذر المکتب الاسلامی بیروت ۵ /۱۶۲)
(الترغیب و الترھیب بحوالہ البزار فصل فی الشفاعۃ مصطفٰے البابی مصر۴ /۴۳۳)
(المعجم الاوسط حدیث ۷۴۳۵ مکتبۃ المعارف ریاض۸ /۲۱۲)
(المعجم الکبیر عن سائب بن زید حدیث ۶۶۷۳ المکتبۃ الفیصلیہ بیروت ۷ /۱۵۵)
(مسند احمد بن حنبل عن ابی موسٰی المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۴۰۴)

ان چھیوں حدیثوں میں یہ بیان ہوا ہے کہ حضور شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں میں شفیع مقرر کردیا گیا اور شفاعت خاص مجھی کو عطا ہوگی میرے سوا کسی نبی کو یہ منصب نہ ملا۔

حدیث ۲۲ و ۲۳: ابن عباس وابوسعید وا بو موسٰی سے انہیں حدیثوں میں وہ مضمون بھی ہے جو احمد و بخاری و مسلم نے انس اور شیخین نے ابوہریرہ (رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین) سے روایت کیا کہ حضور شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : ان لکل نبی دعوۃ قددعا بہا فی امتہ واستجیب لہ۱؎۔ وھذااللفظ الانس ولفظ ابی سعید لیس من نبی الا وقد اُعطی دعوۃ فتعجّلہا۲ ؎۔ (ولفظ ابن عباس) لم یبق نبی الا اُعطی سؤلہ۳ ؎۔ رجعنا الٰی لفظ انس والفاظ الباقین کمثلہ معنیً قال وانی اختبات دعوتی شفاعۃ لِاُمتی یوم القٰیمۃ ۴ ؎۔(زاد موسٰی) جعلتہا لمن مات من امتی لایشرک باﷲ شیئا ۵ ؎۔

ہر نبی کے لیے ایک خاص دعا ہے جو وہ اپنی امت کے بارے میں کرچکا ہے اور وہ قبول ہوئی ہے، یہ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لفظ ہیں، اور حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لفظ یوں ہیں کہ نہیں ہے کوئی نبی مگر یہ کہ اُسے ایک خاص دعا عطا ہوئی جسے اس نے دنیا میں مانگ لیا۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کے لفظ ہیں کہ کوئی نبی نہ بچا جس کو خاص دُعا عطا نہ ہوئی ہو، ہم حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے الفاظ کی طرف رجوع کرتے ہیں، باقی راویوں کے الفاظ معنی کے اعتبار سے اُن ہی کی مثل ہیں۔ سرکار دوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا ۔ میں نے اپنی دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے بچا رکھا ہے۔” ابو موسٰی نے اضافہ کیا کہ میں ہر اُس امتی کے لیے شفاعت کروں گا جو اس حال پر مرا کہ اﷲ تعالٰی کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا۔(ت)

یعنی انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام کی اگرچہ ہزاروں دُعائیں قبول ہوتی ہیں مگر ایک دُعا انہیں خاص جناب باری تبارک و تعالٰی سے ملتی ہے کہ جو چاہے مانگ لو بے شک دیا جائے گا تمام انبیاء آدم سے عیسٰی تک ( علیہم الصلوۃ والسلام) سب اپنی اپنی وہ دُعا دنیا میں کرچکے اور میں نے آخرت کے لیے اٹھا رکھی، وہ میری شفاعت ہے میری امت کے لیے قیامت کے دن، میں نے اسے اپنی ساری امت کے لیے رکھا ہے جو ایمان پر دنیا سے اُٹھی۔

( ۱ ؎ صحیح بخاری کتاب الدعوات باب قول اﷲ تعالٰی ادعونی استجب لکم قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۹۳۲)
( صحیح مسلم کتاب الایمان باب اثبات الشفاعۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۱۳)
(مسند احمد بن حنبل عن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۲۰۸ )
( ۲ ؎ مسند احمد بن حنبل عن ابی سعید الخذری رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۲۰)
( ۳ ؎السنن الکبری کتاب الصلوۃ باب اینما ادرکتک الصلوۃ فصل الخ دارصادر بیروت ۲ /۴۳۳)
( ۴ ؎ صحیح مسلم کتاب الایمان باب اثبات الشفاعۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۱۳)
(مسند احمد بن حنبل عن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۲۰۸)
( ۵ ؎ مسند احمد بن حنبل عن ابی موسٰی الاشعری رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۴۱۶)

اللّٰھم ارزقنا بجاھہ عندک اٰمین ! اے اﷲ ! ہمیں ان کی اس وجاہت کے صدقے میں عطا فرما جو اُن کو تیری بارگاہ میں حاصل ہے۔(ت)
اﷲ اکبر ! اے گنہگار ان اُمّت! کیا تم نے اپنے مالک و مولٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی یہ کمال رأفت و رحمت اپنے حال پر نہ دیکھی کہ بارگاہِ الہٰی عزوجلالہ سے تین سوال حضور کو ملے کہ جو چاہو مانگ لو عطا ہوگا۔ حضور نے ان میں کوئی سوال اپنی ذات پاک کے لیے نہ رکھا، سب تمہارے ہی کام میں صرف فرمادیئے دو سوال دنیا میں کیے وہ بھی تمہارے ہی واسطے ، تیسرا آخرت کو اٹھا رکھا، وہ تمہاری اس عظیم حاجت کے واسطے جب اس مہربان مولٰی رؤف و رحیم آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سوا کوئی کام آنے والا، بگڑی بنانے والا نہ ہوگا۔( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) حق فرما یا حضرت حق عزوجل نے : عزیز علیہ ماعنتم حریص علیکم بالمؤمنین رؤف رحیم ۱ ؎۔ اُن پر تمہارا مشقّت میں پڑنا گراں ہے، تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر کمال مہربان ۔(ت)

(۱؂ القرآن الکریم ۹/ ۱۲۸)

واﷲ العظیم ! قسم اس کی جس نے انہیں آپ پر مہربان کیا ہر گز ہر گز کوئی ماں اپنے عزیز پیارے اکلوتے بیٹے پر زنہار اتنی مہربان نہیں جس قدر وہ اپنے ایک امتی پر مہربان ہیں۔(صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم)الہٰی ! تو ہمارا عجزو ضعف اور اُن کے حقوقِ عظیمہ کی عظمت جانتا ہے۔ اے قادر ! اے واجد!ہماری طرف سے اُن پر اور اُن کی آل پر وہ برکت والی درودیں نازل فرما جو ان کے حقوق کو وافی ہوں اور ان کی رحمتوں کو مکافی۔

اللھم صلّ وسلم وبارک علیہ وعلٰی الہ وصحبہ قدر رأفتہ و رحمۃ بامتہ وقدرأفتک ورحمتک بہ اٰمین اٰمین الہ الحق امین۔ اے اﷲ ! درود و سلام اور برکت نازل فرما آپ پر، آپ کی آل پر اور آپ کے اصحاب پر جتنا کہ وہ اپنی اُمت پر مہربان ہیں اور جس قدر تو ان پر مہربان ہے۔ اے معبود برحق ! ہماری دُعا قبول فرما۔ت

سبحن اﷲ ! امتیوں نے ان کی رحمتوں کا یہ معاوضہ رکھا کہ کوئی افضلیت میں تشکیلیں نکالتا ہے۔ کوئی ان کی تعریف اپنی سی جانتا ہے، کوئی ان کی تعظیم پر بگڑ کر کرّاتاہے۔ افعالِ محبت کا بدعت نام اجلال وادب پر شرک کے احکام،

انّا ﷲ وانّا الیہ راجعون ، وسیعلم الذین ظلمواایّ منقلب ینقلبون ، ولا حول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔ بے شک ہم اﷲ تعالٰی کے لیے ہیں اور ہم کو اسی کی طرف لوٹنا ہے، عنقریب ظالم جان لیں گے کہ کس کروٹ پر پلٹتے ہیں، اور اﷲ بلند و عظیم کی توفیق کے بغیر نہ تو گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ ہی نیکی کرنے کی قوت ۔(ت)

حدیث ۲۴ : صحیح مسلم میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی حضور شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
اللہ تعالٰی نے مجھے تین سوال عطا فرمائے، میں نے دو بار تو دنیامیں عرض کرلی : اللّٰھم اغفرلامّتی اللھم اغفرلامتی الہی ! میری اُمت کی مغفرت فرما، الہٰی میری اُمت کی مغفرت فرما۔الہٰی ! میری اُمت کی مغفرت فرما۔ “

واخّرت الثالثۃ لیوم یرغب الیّ فیہ الخلق حتی ابراہیم۱ ؎۔ اور تیسری عرض اس دن کے لیے اٹھا رکھی جس میں مخلوقِ الہٰی میری طرف نیاز مند ہوگی یہاں تک کہ ابراہیم خلیل اﷲ علیہ الصلوۃ والسلام۔

( ۱ ؎ مسند احمد بن حنبل عن ابی بن کعب المکتب الاسلامی بیروت ۵ /۱۲۷)
(صحیح مسلم کتاب فضائل القرآن باب بیان ان القرآن انزل علٰی سبعۃ حرف قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۷۳)

وصل وسلم بارک علیہ والحمد ﷲ رب العلمین۔ اور درود و سلام و برکت نازل فرما اُن پر، اور تمام تعریفیں اﷲ تعالٰی کے لیے ہیں جو سب جہانوں کا پروردگار ہے۔(ت)

حدیث ۲۵: بیہقی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے شبِ اسرٰی اپنے رب سے عرض کی۔ تُو نے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو یہ یہ فضائل بخشے، رب عزمجدہ، نے فرمایا : اعطیتک خیراً من ذلک (الٰی قولہ) خبأت شفاعتک و لم اخبأھالنبی غیرک ۲ ؎۔ میں نے تجھے جو عطا فرمایا وہ ان سب سے بہتر ہے، میں نے تیرے لیے شفاعت چھپا رکھی اور تیرے سوا دوسرے کو نہ دی۔

( ۲ ؎ الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی الباب الثالث الفصل الاول المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ ۱ /۱۳۴)

حدیث ۲۶ : ابن ابی شیبہ و ترمذی بافادہ تحسین وتصحیح اور ابن ماجہ و حاکم بحکم تصحیح حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : اذاکان یوم القیمۃ کنت امام النبیین وخطیبھم وصاحب شفاعتھم غیر فخر ۱ ؎۔ قیامت کے دن میں انبیاء کا پیشوا اور ان کا خطیب اور ان کا شفاعت والا ہوں اور یہ کچھ فخر کی راہ سے نہیں فرماتا۔

( ۱ ؎جامع الترمذی ابواب المناقب باب منہامین کمپنی دہلی ۲ /۲۰۱)
(سنن ابن ماجہ ابواب الزہد باب ذکرالشفاعۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۳۳۰)
(المستدرک للحاکم کتاب الایمان باب اذاکان یوم القیمۃ الخ دارالفکربیروت ۱/ ۷۱)

حدیث ۲۷ تا ۴۰ : ابن منیع، حضرت زید بن ارقم وغیرہ چودہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے راوی، حضرت شفیع المذنبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : شفاعتی یوم القٰیمۃ حق فمن لم یؤمن بہا لم یکن من اھلہا ۲ ؎۔ میری شفاعت روزِ قیامت حق ہے جو اس پر ایمان نہ لائے گا اس کے قابل نہ ہوگا۔

( ۲ ؎کنزالعمال بحوالہ ابن منیع عن زید بن ارقم الخ حدیث ۳۹۰۵۹ مؤستہ الرسالہ بیروت ۱۴ /۳۹۹)

منکرمسکین اس حدیثِ متواتر کو دیکھے اور اپنی جان پر رحم کرکے شفاعتِ مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر ایمان لائے۔ “اللّٰھم انک تعلم ھدیت فٰامنّا بشفاعۃ حبیبک محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فاجعلنا من اھلہا فی الدنیا والاخرۃ یا اھل التقوٰی واھل المغفرۃ واجعل اشرف صلواتک وانمی برکاتک وازکٰی تحیاتک علٰی ھذاالحبیب المجتبٰی والشفیع المرتضٰی وعلٰی اٰلہ وصحبہ دائماً ابداً امین یا ارحم الرحمین ، والحمدﷲ رب العلمین۔ اے اﷲ ! تُو جانتا ہے، بے شک تُو نے ہدایت عطا فرمائی ہے، تو ہم تیرے حبیب محمد مصطفٰے صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی شفاعت پر ایمان لائے ہیں۔

اے اﷲ! تو میں دُنیا وآخرت میں لائق شفاعت بنادے۔اے تقوٰی ومغفرت والے ! اپنا افضل درود ، اکثر برکات اور پاکیزہ تحیات بھیج اس منتخب محبوب پر جس کی شفاعت کی امید کی جاتی ہے اور آپ کی آل پر اور آپ کے صحابہ پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے، اے بہترین رحم فرمانے والے ! ہماری دُعا کو قبول فرما۔ اور تمام تعریفیں اﷲ تعالٰی کے لیے ہیں جو سب جہانوں کا پروردگار ہے۔(ت)

مسئلہ ۱۶۶ : مسئولہ مولوی احمد شاہ ساکن موضع سادات
شبِ قدر میں تمام چیزیں مثل درخت و پتھر وغیرہ کے سجدہ کرتی ہیں یا نہیں؟
الجواب : ہاں ہر چیز سجدہ کرتی ہے، اولیاء نے اسے مشاہدہ کیا ہے، واﷲ تعالٰی علم۔

مسئلہ ۱۶۷: ازاودے پور میواڑ راجپوتانہ مدرسہ اسلامیہ ، مسئولہ مولانا مولوی سید احمد صاحب مہتم مدرسہ اسلامیہ ۱۵ ذوالقعدہ ۱۳۲۹ھ
قدوۃ العلماء زبدۃ الفقہاء حضرت مولانا صاحب دام فیوضہم، بعد سلامِ مسنون نیاز مشحون ،معروض خدمت بندگان والا ہوں، آپ کا مکرمت نامہ جس روز پہچا اُسی روز مولوی ظہیر حسن صاحب بھی پہنچے اور بخیریت ہیں، کارِ درس و تدریس انجام دے رہے ہیں، حضور نے یاد آوری بزرگانہ سی مشکور فرمایا۔ کارِ خدمت سے یاد فرمائیں۔
دیگر مکلف ہوں کہ مولوی عبدالرحیم صاحب احمد آبادی مع مولوی علاؤ الدین صاحب سندھی ساداتِ عظام وفقراء ذوی الاحترام کے پیچھے بلاوجہ پڑرہے ہیں اور طرح طرح کے الزام ان کے ذمہ لگا کر تکفیر کے فتوے منگالیے ہیں۔
اسی طرح سے فقراء سے غرضیکہ ایسی فضول باتیں کرکے بزرگانِ دین کا دل دکھاتے ہیں وجہ خاص اس کی یہ ہے کہ ان کو احمد آباد کے لوگ پہلے نہیں مانتے تھے۔ سادات اور فقراء کی حقارت کرنے میں اب پہنچ گئے۔ اس بارہ میں حضور کو اشارہ کافی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ایسے معاملہ میں جب تک فریقین کی جانب سے تحقیق نہ ہو تکفیر وغیرہ کا حکم نہ بخشا جائے ، اور بلاوجہ سادات وفقراء کے پیچھے پڑنا اور جڑبنیاد حقار ت کے واسطے اکھیڑنا شرعاً ناجائز ہے، چنانچہ حضرت فرید میاں صاحب سجادہ نشین حضرت خواجہ محمد حسین چشتی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ کی اولاد میں ہیں۔ اور اسی طرف سے قاضی احمد میاں قادر میاں صاحب قادری کی نسبتِ سادات نہ ہونے کی وعظ وغیرہ کہہ کر دل دکھا جاتے ہیں۔ سو اب بطورِ فتوٰی ارقام فرمادیں کہ حضرت شاہ فرید میاں صاحب اور قادر میاں صاحب اور احمد میاں صاحب سادات کا دکھانا اور کسرِ شان سادات و فقیراء کی کرنا اور ان سے سند طلب کرنا اور نہ ملنے پر برا کہنا کہاں تک جائز ہے۔ اور ایسا کہنے والے کی نسبت شرع شریف میں کیا حکم ہے؟سوبرائے کرم اس کا فتوٰی صاف تحریر فرمائیں زیادہ حدِ ادب ، فقیر کو بھی بوجہ غامانِ سادات ہونے کے سخت رنج ہے۔

الجواب : بگرامی ملاحظہ مکرم ذی المجدوالکرم جناب مولانا مولوی سید قاضی احمد علی صاحب مدنی دام مجد ہم۔ بعد ادائے ہدیہ سنّت ملتمس ، نوازش نامہ تشریف لایا، ممنون یاد آوری فرمایا، مولوی عبدالرحیم صاحب نے صرف ایک شخص کی نسبت مجھ سے دوبار فتوٰی لیا، ایک اس بارہ میں کہ اس نے حضرات ائمہ اطہار کو نبی و رسول بتایا، اس کے بارے میں میں نے ” جزاء اﷲ عدوہ” لکھی جس کو طبع ہوئے بارہ برس گزرے۔دوسرا اس بارے میں کہ وہ معوذتین کو قرآن نہیں مانتا اس پر میرا فتوٰی نذیر المنافقین میں چھپا جسے سال ہوئے۔ ان کے سوا میں نے ان کوکوئی فتوٰی کسی کے کفر پر لکھ کر نہ بھیجا۔ ہاں ایک شخص کے کچھ اشعار کی نسبت سوال تھا جس میں اس نے اپنے پیر کی تعریف میں بہت غلو وافراط کیا۔ اس پر میں نے صریح کفر ہونے کا فتوٰی نہ دیا بلکہ اس میں تاویلات کی طرف اشارہ کیا۔ اور یہ دو نام جو آپ نے تحریر فرمائے ان کی بابت مجھے اصلاً یاد نہیں کہ کسی امر کا کوئی فتوٰی کیسا ہی لکھا گیا ہو۔ ہاں زید و عمر کرکے کوئی سوال انہوں نے بھیجا اور میں نے جواب لکھا ہو تو معلوم نہیں، مگر کفر کا فتوٰی صرف انہیں باتوں پر لکھا نہیں بلکہ چھاپ کر بھیجا ہے جسے ۲ اور ۷ برس ہوئے، اور اشعار والا فتوٰی بھی غالباً وہیں طبع ہوگیا ہے۔

یہ فقیر ذلیل بحمدہ تعالٰی حضرات ساداتِ کرام کا ادنٰی غلام وخاکپاہے۔ ان کی محبت و عظمت ذریعہ نجات وشفاعت جانتا ہے، اپنی کتابوں میں چھاپ چکا ہے کہ سیّد اگر بدمذہب بھی ہوجائے تو اس کی تعظیم نہیں جاتی جب تک بدمذہب حدِ کفر تک نہ پہنچے ، ہاں بعدِکفر سیادت ہی نہیں رہتی، پھر اس کی تعظیم حرام ہوجاتی ہے۔ اور یہ بھی فقیر بار ہا فتوٰی دے چکا ہے کہ کسی کو سید سمجھنے اور اس کی تعظیم کرنے کے لیے ہمیں اپنے ذاتی علم سے اسے سید جاننا ضروری نہیں، جو لوگ سید کہلائے جاتے ہیں ہم ان کی تعظیم کریں گے، ہمیں تحقیقات کی حاجت نہیں، نہ سیادت کی سند مانگنے کا ہم کو حکم دیا گیا ہے۔ اور خوا ہی نخواہی سند دکھانے پر مجبور کرنا اور نہ دکھائیں تو بُرا کہنا مطعون کرنا ہرگز جائے نہیں۔

” الناس امنأعلی انسابھم (لوگ اپنے نسب پرامین ہیں)، ہاں جس کی نسبت ہمیں خوب تحقیق معلوم ہوکہ یہ سیّد نہیں اور وہ سید بنے اس کی ہم تعظیم نہ کریں گے نہ اسے سید کہیں گے اور مناسب ہوگا کہ ناواقفوں کو اس کے فریب سے مطلع کردیا جائے۔ میرے خیال میں ایک حکایت ہے جس پر میرا عمل ہے کہ ایک شخص کسی سیّد سے الجھا، انہوں نے فرمایا میں سیّد ہوں کہا۔

کیا سند ہے تمہارے سیّد ہونے کی۔ رات کو زیارتِ اقدس سے مشرف ہوا کہ معرکہ حشر ہے یہ شفاعت خواہ ہوا، اعراض فرمایا : اس نے عرض کی: میں بھی حضور کا امتی ہوں۔ فرمایا : کیاسند ہے تیرے امتی ہونے کی ، میں مولوی عبدالرحیم صاحب کو اس بارے میں لکھوں گا۔ اور اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو منع کروں گا ، امید ہے کہ وہ میری گزارش قبول کریں گے۔آپ فقیر کی اسی تحریر کو فتوٰی تصوّر فرمائیں۔
فقیراحمد رضا غفرلہ از بریلی ۲۵ ذوالحجہ ۱۳۲۹ھ