رسالہ
ازاحۃ العیب بسیف الغیب
(عیب کو دُور کرنا غیب کی تلوار سے)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
نحمدہ، ونصلی علٰی رسولہ الکریم
مسئلہ ۱۴۹ : از مدرسہ دیوبند ضلع سہارن پور مرسلہ یکے از اہلسنت نصر ہم اﷲ تعالٰی بوساطت جناب مولوی وصی احمد صاحب محدث سورتی سلمہ اﷲ تعالٰی ۔
تسلیمات دست بستہ کے بعد گزارش ہے بندہ اس وقت وہاب گڑھ مدرسہ دیوبند میں مقیم ہے۔
جناب عالی ( یعنی جناب مولانا وصی احمد صاحب محدث سورتی) جو جو باتیں آپ نے ان لوگوں کے حق میں فرمائی تھیں وہ سب سچ ہیں سر موفرق نہیں۔ عید کے دن بعد نماز جمیع اکابر علماء ، و طلباء و روسانے مل کر عید گاہ میں بقدر ایک گھنٹہ یہ دعا مانگی کہ ” اللہ تعالٰی جارج پنجم بادشاہِ لندن کو ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رکھے اور اس کے والد کی خدا مغفرت کرے۔” اور جس وقت جارج پنجم ولایت سے بمبئی کو آیا اور مبلغ چوبیس روپیہ کانا برائے خیر مقدم یعنی سلامی روانہ کردیا اور بتاریخ ۱۳ ذی الحجہ ایک بڑا جلسہ کردیا کہ جو چار گھنٹے مختلف علماء نے بادشاہ انگریز کی تعریف اور دعا بیان کیا اور خوشی کے واسطے مٹھائی تقسیم کیا اور عین خطبہ میں بیان کیا کہ امام احمد بن حنبل نے خواب میں دیکھا رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو ، امام احمد نے پوچھا کہ یارسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم، میری کتنی عمر باقی ہے؟ آپ نے پانچ انگشت اٹھائیں ، پھر برائے تعبیر محمد بن سیرین کے پاس آئے انہوں نے فرمایا : خمس لایعلمہا الّاھو۱ ؎۔ (پانچ اشیاء ہیں جن کو اﷲ تعالٰی کے بغیر کوئی نہیں جانتا۔ت)
(۱ مسند احمد بن حنبل حدیث ابی عامر الاشعری المکتب الاسلامی بیروت ۴/ ۱۲۹ و ۱۶۴)
تو معلوم ہوا کہ آپ مطلع علی الغیب نہیں، دوسرا والیدین کی حدیث کو بیان کیا کہ آپ کو نماز میں سہو ہوگیا جب ذوالیدین نے بار بار استفسار کیا اور آپ نے صحابہ سے دریافت کیا تو پھر نماز کو پورا کیا۔ا س حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے علم مشاہدہ میں نقصان ثابت ہوگیا، علم غیب پر اطلاع تو ابھی دور ہے انتہی، یہاں کے لوگ اس قدر بدمعاش ہیں کہ مولوی محمود حسن مدرس اول درجہ حدیث نے مسلم شریف کے سبق میں باب شفاعت اس حدیث میں کہ آپ نے جب تمام مسلمین کی شفاعت کی اور سب کو نجات دے دیا مگر کچھ لوگ رہ گئے یعنی منافقین وغیرہ تو آپ نے انکے واسطے شفاعت کی تو فرشتوں نے منع کردیا کہ تم نہیں جانتے ہو کہ ان لوگوں نے کیا کچھ نکالا بعد آپ کے ، تو اس سے ظاہر ہوگیا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہر جمعہ میں رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر امت کے اعمال پیش ہوتے ہیں۔” یہ غلط ہے، محض افتراء ہے، علم غیب کا کیا ذکر، اﷲ اکبر، ترمذی شریف کے سبق ۱۷۲ صفحہ آخر میں ہے، ایک عورت کے ساتھ زنا ہوگیا اکراہ کے ساتھ تو اس عورت نے ایک شخص پر ہاتھ رکھا، آپ نے اس شخص کو رجم کا حکم فرمایا۔ پس دوسرا شخص اٹھا، اس نے اقرار زنا کا کرلیا، پہلے شخص کو چھوڑا اور دورا مرجوم ہوگیا۔ آپ نے فرمایا تاب توبۃ الخ ( اس نے پکی توبہ کی الخ ت) اگر شخص ثانی اقرار نہ کرتا تو پہلے شخص کی گردن اڑا دیتے، یہ اچھی غیب دانی ہے۔ ھذا کلہ قولہ ( یہ سب اس کا قول ہے۔ت) اور بھی وقتاً فوقتاً احادیث میں کچھ نہ کچھ کہے بغیر نہیں چھوڑتے۔ اللہ اکبر ، معاذ اﷲ من شرہ ( اﷲ تعالٰی بہت بڑا ہے، اﷲ کی پناہ اس کے شر سے ، ت)
الجواب
اﷲ عزوجل گمراہی و بے حیائی سے پناہ دے، فقیر نے انباء المصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے مختصر جملوں میں ان شبہات اور ان جیسے ہزاروں ہوں تو سب کا جواب شافی دے دیا مگر وہابیہ اپنی خرافات سے باز نہیں آتے اور الدولۃ المکیہ اور اس کی تعلیق الفیوض المکیہ میں بیان امین ہے، میں پھر تذکیر کردوں کہ ان شاء اللہ بار بار سوال کی حاجت نہ ہو اور ذی فہم سُنّی ایسے لاکھ شبہے ہوں تو سب کا جواب خود دے، فقیر نے قرآن عظیم کی آیاتِ قطعیہ سے ثابت کیا کہ قرآن عظیم نے ۲۳برس میں بتدریج نزولِ اجلال فرما کر اپنے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو جمیع ماکان ومایکون یعنی روزِ اول سے روزِ آخر تک کی ہر شَے ہر بات کا علم عطا فرمایا، اور اصول میں مبرہن ہوچکا کہآیاتِ قطعیہ کے خلاف کوئی حدیث احاد بھی مسلم نہیں ہوسکتی، اگرچہ سنداً صحیح ہو تو مخالف قرآن عظیم کے خلاف پر جو دلیل پیش کرے اس پر چار باتوں کا لحاظ لازم :
اول : وہ آیت قطعی الدلالۃ یا ایسی ہی حدیث متواتر ہو۔
دوم : واقعہ تمامی نزول ِ قرآن کے بعد کا ہو۔
سوم : اس دلیل سے راساً عدم حصولِ علم ثابت ہو کہ مخالف مستدل ہے اور محل ذہول میں اس پر جزم محال ، اور وہ منافی حصول علم نہیں بلکہ اس کا مثبت و مقتضی ہے۔
چہارم : صراحۃً نفی علم کرے ورنہ بہت علوم کا اظہار مصلحت نہیں ہوتا اور اﷲ اعلم یا خدا ہی جانے یا اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا ایسی جگہ قطع طمع جواب کے لیے بھی ہوتا ہے اور نفی حقیقت ذاتیہ ، نفی عطائیہ کو مستلزم نہیں۔ اﷲ عزوجل روزِ قیامت رسولوں کو جمع کرکے فرمائے گا ماذا اجبتم تم جو کفار کے پاس ہدایت لے کر گئے انہوں نے کیا جواب دیا، عرض کریں گے لاعلم لنا ۱ ؎۔ ہمیں کچھ علم نہیں۔
(۱ ؎القرآن الکریم ۵ /۱۰۹)
ان شبہات اور انکے امثال کے رَد کو بھی چار جملے بس ہیں، اور یہاں امر پنجم اور ہے کہ وہ واقعہ روزِ اول سے قیامِ قیامت تک یعنی ان حوادث سے ہو جو لوحِ محفوظ میں ثبت ہیں کہ انہیں کے احاطہ کا دعوٰی ہے۔ امور متعلقہ ذات و صفات و ابد وغیرہ نامتناہیات سے ہو تو بحث سے خروج اور دائرہ جنون و سفاہت میں صریح ولوج ہے۔ ان جملوں کے لحاظ کے بعد وہابیہ کے تمام شبہات برباد ہوجاتے ہیں ، کشجرۃ خبیثۃ اجتثت من فوق الارض مالہا من قرار ۲؎۔ ( جیسے ایک گندہ پیڑ کہ زمین کے اوپر سے کاٹ دیا گیا ہے اب اُسے قیام نہیں۔ت)
(۲ ؎القرآن الکریم ۱۴ /۲۶)
اب یہیں ملاحظہ کیجئے :
اولاً : چاروں شبہے امر اوّل سے مردود ہیں ان میں کون سی آیت یا حدیث قطعی الدلالۃ ہے۔
ثانیاً : دوسرا اور چوتھا شبہہ امردوم سے دوبارہ مردود ہیں کہ یہ ایام نزول کے وقائع ہیں یا کم از کم ان کا بعد تمامی نزول ہونا ثابت نہیں۔
ثالثاً : دوسرا شبہہ امرسوم سے سہ بارہ اور تیسرا دوبارہ مردود ہے، شبہہ دوم میں تو صریح بدیہی یقینی ذہول تھا، نماز فعل اختیاری ہے اور فعل اختیاریہ بے علم و شعور ناممکن مگر وہابیہ بدیہیات میں بھی انکار رکھتے ہیں۔ ذٰلک بانھم قوم یکابرون ( یہ اس لیے ہے کہ وہ حق کا انکار کرنے والی قومی ہے۔ ت) اور شُبہ سوم کا حال بھی ظاہر، روزِ قیامت کا عظیم ہجوم ، تمام اولین وآخرین وانس و جن کا ازدحام ، لاکھوں منزل کے دور میں مقام اور حوض و صراط و میزان پر گنتی شمار کی حد سے باہر، مختلف کام اور ہر جگہ خبر گیراں صرف ایک محمد رسول اﷲ سیّد الانام علیہ وعلی آلہ افضل الصلوۃ والسلام اس سے کروڑویں حصے کا کروڑواں حصہ ہجوم ، کارہائے عظیمہ مہمہ اگر ایسے دس ہزار پر ہو جن کی عقل نہایت کامل اور حواس کمال مجتمع اور قلب اعلٰی درجہ کا ثابت تو ان کے ہوش پراں ہوجائیں، آئے حواس گم ہوں یہ تو محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سینہ پاک ہے جس کی وسعت کے حضور عرش اعظم مع جملہ عوالم صحرائے لق و دق میں بھنگے کے مانند ہیں جسے ان کا رب فرماتا ہے : الم نشرح لک صدرک ۱؎۔ ( کیا ہم نے تمہارا سینہ کشادہ نہ کیا۔ت)
(۱القرآن الکریم ۱/ ۱۹۴)
پھر ان عظیم و خارج از حد کاموں کے علاوہ وقت وہ سہمناک کہ اکابر انبیاء و مرسلین نفسی نفسی پکاریں، رب عزوجل اس غضب شدید کے ساتھ تجلی فرمائے ہو کہ نہ اس سے پہلے کبھی ہوئی نہ اس کے بعد کبھی ہو، پھر ایک مسلمان انہیں اس سے زیادہ پیارا جیسے مہربان ماں کو اکلوتا بچہ، وہ جوشِ ہیبت ، وہ کام کی کثرت، وہ وفورِ رحمت ، وہ لاکھوں منزل کا دورہ، وہ کروڑوں طرف نظر، سنکھوں طرف خیال، ایسی حالت میں اگر بعض باتیں ذہن اقدس سے اتر جائیں تو عین اعجاز ہے، جس سے بالا صرف علمِ الہی ہے وبس۔
“ولکن الوھابیۃ قوم لایعقلون ( لیکن وہابی وہ قوم ہیں جنہیں عقل نہیں۔ت) اوراس پر صریح دلیل حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو تمام امت کا دکھایا جانا حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے تمام امت کے اعمال برابر عرض ہوتے رہنا تو ہے ہی، جس پر احادیثِ کثیرہ ناطق، اگرچہ وہابیہ اپنی ڈھٹائی سے انکار کریں مگر سب سے زیادہ صاف صریح دلیل قطعی یہ ہے کہ آخر روزِ قیامت کچھ لوگوں کی نسبت یہ واقعہ پیش آنے کی حدیثِ بیان کون فرمارہا ہے، خود حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہی تو ارشاد فرمارہے ہیں اگر اس ہجوم عظیم، کارہائے خطیر میں ذہول نہ ہوتا تو یہ واقعہ ہی نہ ہوتا تو اس وقت اتنے ذہول سے چارہ نہیں ۔ لیقضی اﷲ امراکان مفعولا ۲ ؎۔ ( تاکہ اﷲ پورا کرے جو کام ہوناہے۔ت) ولٰکن الوھابیہ قوم یفرقون ( لیکن وہابی تفریق پیدا کرنے والی قوم ہے۔ت)
(۲القرآن الکریم ۸/ ۴۴)
رابعاً : پہلا شبہہ امر چہارم سے دو بارہ مردود ہے کسی کی مقدار عمر وقتِ موت اسے بتادینا غالب اوقات اکثر ناس کے لیے مصلحت ِ دینیہ کے خلاف ہے تو ایسے مہمل سوال کے جواب سے اگر اعراض فرمایا اور حوالہ بخدا فرمادیا ، کیا مستبعد ہے۔
فائدہ :
یہ انہیں جملوں سے ان چاروں شبہوں کے متعدد رد ہوگئے، اب بتو فیقہ تعالٰی بعض افادیت ذکر نہ کریں کہ وہابیہ کی کمال حالت آفتاب سے زیادہ روشن ہواور چاروں شبہوں میں ہی ایک پر چار چاررَد ہوجائیں۔
فاقول : وباﷲ التوفیق ( چنا نچہ میں کہتا ہوں اور توفیق اﷲ ہی کی طرف سے ہے۔ت)
شبہہ اُولٰی : کے دو ردگزرے امرا دل و چہارم سے، ثالثاً حضرات علمائے وہابیہ کی جہالت تماشا کردنی۔ امام احمد بن حنبل نے خواب دیکھا اور امام ابن سیرین سے تعبیر پوچھی۔ اے سبحان اﷲ! جھوٹ گھڑے تو ایسا گھڑے ، امام ابن سیرین کی وفات سے ساڑھے تریپن (۲/۱۔۵۳ ) برس بعد امام احمد کی ولادت ہوئی ہے۔ ابن سیرین کی وفات نہم شوال ایک سودس (۱۱۰ھ) کو ہے اور امام احمد کی ولادت ربیع الاول ایک سو چونسٹھ (۱۶۴ھ) میں ۔
تقریب میں ہے : ” محمد بن سیرین ثقۃ ثبت عابد کبیر القدرمات سنۃ عشرو مائۃ ۱ ؎۔ محمد بن سیرین ثقہ، ثبت ، عبادت گزار اور بڑی قدروو منزلت والے ہیں، ان کا وصال ۱۱۰ھ میں ہوا۔ت)
(۱ ؎ تقریب التہذیب ترجمہ ۵۹۶۶ محمد بن سیرین دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲ /۸۵)
وفیات الاعیان میں ہے : محمد بن سیرین لہ الیدالطولٰی فی تعبیر الرؤیا توفی تاسع شوال یوم الجمعۃ سنۃ عشرومائۃ بالبصرۃ ۲ ؎۔ محمد بن سیرین جو کہ خوابوں کی تعبیر میں کامل مہارت رکھتے تھے ، نے ۹ شوال ۱۱۰ھ بروز جمعہ میں بصرہ میں وفات پائی۔ت)
(۲ ؎ وفیات الاعیان ترجمہ ۵۶۵ محمد بن سیرین دارالثقافۃ بیروت ۴ /۱۸۲)
تقریب میں ہے : ” احمد بن محمد بن حنبل مات احدی واربعین ولہ سبع وسبعون سنۃ ۳ ؎۔ امام احمد بن محمد بن حنبل نے ۲۴۱ھ میں وصال فرمایا جب کہ آپ کی عمر مبارک ۷۷ برس تھی۔(ت)
(۳ ؎ تقریب التہذیب ترجمہ ۹۶ احمد بن محمد بن حنبل دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۴۴)
وفیات الاعیان میں ہے : ” الامام احمد بن حنبل خرجت اُمّہ من مرو و ھی حامل بہ فولدتہ فی بغداد فی شہر ربیع الاول سنۃ اربع وستین ومائۃ ۱ ؎۔ امام احمد بن حنبل کی والدہ ماجدہ مرو سے نکلیں جبکہ امام احمد ان کے شکم میں تھے، چنانچہ آپ کی والدہ نے آپ کو شہر بغداد میں ربیع الاول شریف ۱۶۴ھ میں جنا۔(ت)
( ۱ ؎ وفیات الاعیان ترجمہ۲۰ احمد بن حنبل دارالثقافۃ بیروت ۱ /۶۴)
مگر یہ کہئے کہ امام احمد علیہ الرحمہ نے جب کہ اپنے جدا مجد کی پشت میں نطفے تھے یہ خواب دیکھا اور امام ابن سیرین نے مافی الارحام ( جو رحموں میں ہے۔ت) سے بھی خفی ترغیب مافی الاصلاب ( جو پشتوں میں سے۔ت) کو جانا اور تعبیر بیان کی۔
یوں آپ کے طور پر رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی غیب دانی نہ ہوئی تو ابن سیرین کو علم غیب ہوا۔ یہ شاید حضراتِ وہابیہ پر آسان ہو کہ ان کو اوروں کو فضائل سے اتنی عداوت نہیں جتنی اصل اُصول جملہ فضائل یعنی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے ہے۔
لطیفہ جلیلہ :
دیوبندی علماء کی جہالت اپنے قابل ہے، ان کے اکابر کی ان سے بھی بڑھ کر ان کے قابل تھی، عالیجناب امام الوہابیہ مولوی گنگوہی صاحب آنجہانی اپنے ایک فتوے میں اپنی دادِ قابلیت دیتے ہوئے فرماتے ہیں، حسین بن منصور کے قتل پر امام ابویوسف شاگردِ امام ابوحنیفہ جو کہ سیّد العلماء تھے اور سید الطائفہ جنید بغدادی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ جو تمام سلاسل کے مرجع ہیں دونوں نے فتوٰی قتل کا دیا، بجا ہے۔ (حاشیہ: قتل پر قتل کا فتوٰی بھی قابل تماشا ہے، یعنی قتل کو قتل کیا جائے یا قاتل کو ۔۱۲) درفنِ تاریخ ہم کمالے دارند ( فن تاریخ میں بھی کمال رکھتے ہیں۔ ت )
سیدنا امام ابویوسف رضی اللہ تعالٰی عنہ کی وفات پنجم ربیع الاول یا ربیع الاخر ایک سو بیاسی ہجری (۱۸۲ھ) کو ہے اور حضرت حسین بن منصور حلاج قدس سرہ، کا یہ واقع ۲۳ ذی القعدہ (۳۰۹ھ) تین سو نو ہجری میں، دونوں میں قریب ایک سو اٹھائیس (۱۲۸) برس کے فاصلہ ہے مگر امام ابویوسف رضی اللہ تعالٰی عنہ کو غیب داں کہیے کہ اپنی وفات سے سوا سو برس بعد کے واقعہ کو جان کر حلاج کے قتل کا پیشگی فتوٰی دے گئے۔
تذکرۃ الحفاظ علامہ ذہبی میں ہے : القاضی ابویوسف الامام العلامۃ الفقیہ العراقین صاحب ابی حنیفۃ اجتمع علیہ المسلمون مات فی ربیع الاٰخرسنۃ ثنتین و ثمانین ومائۃ عن سبعین سنۃ الاسنۃ ولہ اخبار فی العلم والسیادۃ ۱ ؎۔
قاضی ابویوسف امام، علامہ ، اہل کوفہ و بصرہ کے فقیہ اور امام ابوحنیفہ کے شاگرد ہیں، تمام مسلمان آپ پر متفق ہیں۔آپ نے ماہِ ربیع الثانی ۱۸۲ہجری کو ۶۹ برس کی عمر میں وصال فرمایا ۔علم و سیادت میں ان کی متعدد خبریں ہیں۔(ت)
(۱ ؎ تذکرۃ الحفاظ ترجمہ ۲۷۳ ۶/ ۴۲ ابویوسف یعقوب بن ابراہیم دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۲۱۴)
وفیات الاعیان میں ہے : کانت ولادۃ القاضی ابی یوسف سنۃ ثلث عشرۃ ومائۃ وتوفی یوم الخمیس اول وقت الظھر لخمس خلون من شہر ربیع الاول سنۃ اثنتین وثمانین و مائۃ ببغداد ۲ ؎۔
قاضی ابو یوسف کی ولادت ۱۱۳ھ کو اور وفات ۵ ربیع الاول ۱۸۲ھ بروز جمعرات بوقتِ اول ظہر بغداد میں ہوئی۔ت)
(۲ ؎ وفیات الاعیان ترجمہ ۸۲۴ قاضی ابویوسف یعقوب بن ابراہیم دارالثقافۃ بیروت ۶ /۳۸۸)
اسی میں تاریخِ شہادتِ حضرت حلاج میں لکھا : “یوم الثلثاء لسبع بقین وقیل لست بقین من ذی القعدۃ سنۃ تسع وثلثمائۃ ۳ ؎۔ ۲۳ یا ۲۴ ذوالقعدہ ۳۰۹ھ بروز منگل (ت)
(۳ ؎ وفیات الاعیان ترجمہ ۱۸۹ الحاج حسین بن منصور دارالثقافۃ بیروت ۲ /۱۴۵)
سلطان اورنگزیب محی الدین عالمگیر انار ا ﷲ تعالٰی برہانہ کی حکایت مشہور ہے کہ کسی مدعیِ ولایت کا شہرہ سن کر اس کے پاس تشریف لے گئے، اس کی عمر طویل بتائی جاتی تھی۔ سلطان نے پوچھا۔ جناب کی عمر شریف کس قدر ہے؟ کہا مجھے تحقیق تو یاد نہیں مگر جس زمانے مین سکندر ذوالقرنین امیر تیمور سے لڑرہا تھا میں جوان تھا سلطان نے فرمایا: علاوہ کشف و کراماتِ درفن تاریخ ہم کمالے دارند (کشف و کرامات کے علاوہ فنِ تاریخ میں بھی کمال رکھتے ہیں ۔ت)
دیوبندی صاحبوں نے تو ترپن چون ہی برس کا بل رکھا تھا، جناب گنگوہی صاحب سوا سو برس سے بھی اونچے اڑ گئے یعنی شملہ بمقدار علم ، اس سنت پر قائم ہو کر اگر کوئی دیوبندی یا تھانوی حضرت گنگوہی صاحب کے تذکرہ میں لکھ دیتا کہ عالیجاب گنگوہیت مآب کو ابن ملجم نے غسل دیا اور یزید نے نماز پڑھائی اور شمر نے قبر میں اتارا، تو کیا مستعبد تھا بلکہ وہ اس سے قریب تر ہوتا دو وجہ سے۔
اوّلاً : ممکن کہ اشتراکِ اسماء ہو، وفاتِ گنگوہی صاحب کے وقت جو لوگ ان کاموں میں ہوں انکے یہ نام ہوں۔
ثانیاً : بابِ تشبیہ واسع ہے جیسے لکل فرعون موسٰی ( ہر فرعون کے مقابلے میں موسٰی ہوتا ہے۔ت ) مگر جناب گنگوہی صاحب کے کلام میں کہ امام ابویوسف شاگردِ امام ابوحنیفہ جو سید العلماء تھے کوئی تاویل بنتی نظر نہیں آتی سوا اس کے اتنا عظیم جہل شدید یا حضرت امام پر اتنا بیباکانہ افترائے بعید ولاحول ولا قوۃ الا باﷲ العزیز المجید ۔
رابعاً: بفرض صحتِ حکایت یہ معبر کی اپنی مقدار علم ہے ممکن کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے عمر ہی بتائی ہو خواہ مجموع خواہ باقی۔ پانچ انگلیوں سے اشارے میں پانچ یا چھ دن یا ہفتے یا مہینے یا برس یا ساٹھ بہتر برس یا تیس سال دس مہینے گیارہ دن یا اکتیس سال چار مہینے چند دن ، بارہ احتمال ہیں، کیا دلیل ہے کہ خواب دیکھنے والے کی عمر اگرچہ بفرضِ غلط امام احمد ہی ہوں روزِ خواب سے آخر تک ان میں سے کسی مقدار پر نہ ہوئی امام احمد کی عمر شریف سستر(۷۷) سال ہوئی، اگر پانچ برس کی عمر میں خواب دیکھا ہو تو سب میں بڑا احتمال بہتر سال ممکن ہے ا ور باقی زیادہ واضح ہیں، یا اصل دیکھئے تو امام احمد و امام ابن سیرین کا نام تو دیوبندیوں نے بنالیا۔ کیا دلیل کہ واقعی خواب دیکھنے والے کی ساری عمر چار احتمال اخیر سے کسی شمار پر نہ ہوئی خواب دیکھنے والے کی تاریخ اور دیکھنے والے کی تاریخ ولادت وفات یہ سب صحیح طور پر معلوم ہوئیں اور ثابت ہو کہ اس کی مجموع عمرو باقی عمر کوئی ان میں سے کسی احتمال پر ٹھیک نہیں آتی، اس وقت اس کہنے کی گنجائش ہو کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اس سے مقدارِ عمر کی طرف اشارہ نہ فرمایا، اور جب کہ ان میں سے کچھ ثابت نہیں تو ممکن کہ حضور حضور نے عمر ہی بتائی ہو معبر کو اس کے جاننے کی طرف راہ نہ تھی لہذا اپنی سمجھ کے قابل اسے غیوبِ خمسہ کی طرف پھیر دیا، دیوبندیوں کو تو شاید اس اشارے میں یہ بارہ احتمال سمجھنے بھی دشوار ہوں حالانکہ وہ نہایت واضح ہیں اور ان کے سوا اور دقیق احتمام بھی تھے کہ ہم نے ترک کردیئے۔
شبہہ ثانیہ : کے تین رَدگزری امر اول و دوم و سوم سے۔ رابعاً دیوبندیوں کی عبارت کہ آپ کے علم مشاہدہ میں نقصان ثابت ہوگیا علم غیب پر اطلاع تو ابھی دور ہے جس ناپاک و بیباک طرزپر واقع ہوئی اس کا جواب تو اِن شاء اﷲ تعالٰی روزِ قیامت ملے گا مگر ان سفیہوں کو دین کی طرح عقل سے بھی مس نہیں، امراہم و اعظم و اجل و اعلٰی میں اشتعال بارہا امرسہل سے ذہول کا باعث ہوتا ہے، ایسی جگہ اس کے ثبوت سے ہی اس کا انتفا ہوتا ہے نہ کہ اس کی نفی سے اس کی نفی پر استدلال کیا جائے۔ ” ولکن الوھابیۃ قوم یجہلون ” ( لیکن وہابی جاہل قوم ہے۔ت)
شبہہ ثالثہ : کے دور دگزرے امراول وسوم سے۔
ثالثاً : یہ حدیث جس طرح دیوبندی نے بتائی صریح افترا ہے ، نہ صحیح مسلم میں کہیں اس کا پتا ہے۔
رابعاً : حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر اعمالِ اُمت پیش کیے جانے کو غلط و محض افترا کہنا غلط و محض افترا ہے۔ بزار اپنی مسند میں بسندِ صحیح جیدّ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں،
رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : حیاتی خیرلکم تحدثون ونحدث لکم، ووفاتی خیر لکم تعرض علیّ اعمالکم فمارأیت من خیر حمدت اﷲ علیہ وما رأیت من شراستغفرت اﷲ لکم ۱ ؎۔ میری زندگی تمہارے لیے بہتر ہے مجھ سے باتیں کرتے ہو اور ہم تم سے باتیں کرتے ہیں، اور میری وفات بھی تمہارے لیے بہتر، تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جائیں گے جب بھلائی دیکھوں گا حمدِ الہٰی بجالاؤں گا اور جب برائی دیکھوں گا تمہاری بخشش چاہوں گا۔(ت)
(۱ ؎ البحرالزخار المعروف بمسند البزار حدیث ۱۹۲۵ مکتبہ العلوم والحکم مدینۃ المنورۃ ۵ /۳۰۸ و۳۰۹)
اللھم صل وسلم وبارک علیہ صلوۃ تکون لک ولہ رضاء ولحقہ العظیم اداء اٰمین۔ اے اللہ ! درود و سلام اور برکت عطا فرما آپ پر ایسا درود جو تیری اور ان کا رضا کا ذریعہ ہو اور اس سے انکے عظیم حق کی ادائیگی ہو۔آمین ۔ (ت)
مسند حارث میں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : حیاتی خیر لکم تحدثون وتحدث لکم فاذا انامت کانت وفاتی خیرالکم تعرض علیّ اعمالکم فان رأیت خیرا حمدت اﷲ وان رأیت شرا ذٰلک استغفرت اﷲ لکم ۲ ؎۔ میری جینا تمہارے لیے بہتر ہی مجھ سے باتیں کرتے ہو اور ہم تمہارے نفع کی باتیں تم سے فرماتے ہیں، جب میں انتقال فرماؤں گا تو میری وفات تمہارے لیے خیر ہوگی ، تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جائیں گے اگر نیکی دیکھوں گا حمد الہٰی کروں گا اور دوسری بات پاؤں گا تو تمہاری مغفرت طلب کروں گا۔
(۲ ؎ الطبقات الکبرٰی لابن سعد ذکر ما قرب الرسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم من اجلہ دارصادر بیروت ۲ /۱۰۴)
(ف:حدیث کے مذکورہ بالا الفاظ طبقات ابن سعد میں بکر بن عبداﷲ مزنی سے منقول ہے۔)
” اللھم صل وسلم وبارک علیہ قدر رأفتہ ورحمۃ بامتہ ابدا اٰمین ” ۔ اے اﷲ! آپ پر ہمیشہ اس قدر درود وسلام اور برکت نازل فرما جس قدر آپ اپنی امت پر مہربان ہیں، آمین (ت)
ابن سعد طبقات اور حارث مسند میں اور قاضی اسمعیل بہ سند ثقات بکر بن عبدالبرمزنی سے مرسلاً راوی، رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : حیاتی خیر لکم تحدثونی ونحدث لکم فاذاانامت کانت وفاتی خیرالکم تعرض علی اعمالکم فان رأیت خیر احمدت اﷲ وان رأیت شرا استغفرت لکم ۱ ؎۔ میری حیات تمہارے لیے بہتر ہے، جو نئی بات تم سے واقع ہوتی ہے ہم اس کا تازہ علاج فرماتے ہیں جب میں انتقال کروں گا میری وفات تمہارے لیے بہتر ہوگی تمہارے اعمال میرے حضور معروض ہوں گے میں نیکیوں پر شکر اور بدی پر تمہارے لیے استغفار فرماؤں گا۔
(۱ ؎ کنزالعمال بحوالہ ابن سعد عن بکر بن عبداﷲ مرسلاً حدیث ۳۱۹۰۳ موسستہ الرسالہ بیروت ۱۱ /۴۰۷)
( الجامع الصغیربحوالہ ابن سعد عن بکر حدیث ۳۷۷۱ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۲۲۹)
اللھم صل وسلم وبارک علٰی ھذا الحبیب الذی ارسلتہ رحمۃ وبعثتہ نعمۃ وعلٰی الہ وصحبہ عدد کل عمل وکلمۃ امین۔ اے اللہ تعالٰی ! تمام اعمال اور تمام کلمات کی تعداد کے مطابق درود و سلام اور برکت نازل فرما اس حبیب پر جسے تو نے رحمت اور نعمت بنا کر بھیجا ہے، آمین ۔(ت)
امام ترمذی محمد بن علی والدِ عبدالعزیز سے راوی، رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: ” تعرض الاعمال یوم الاثنین و یوم الخمیس علی اﷲ تعالٰی و تعرض علی الانبیاء وعلی الاباء والامہات یوم الجمعۃ فیفرحون بحسنا تھم وتزدادوجوھھم بیضا ونزھۃ فاتقوا اﷲ تعالٰی ولا تؤذوا موتاکم ۱۔ ہر دوشنبہ و پنچشنبہ کو اعمال اﷲ کے حضور پیش ہوتے ہیں اور ہر جمعہ کو انبیاء اور ماں باپ کے سامنے ، وہ نیکیوں پر خوش ہوتے ہیں اور انکے چہروں کی نورانیت اور چمک بڑھ جاتی ہے، تو اﷲ سے ڈرو اور اپنے مردوں کو اپنی بداعمالیوں سے ایذا نہ دو۔
( ۱ ؎نوادر الاصول الاصل السابع واستون والمائۃ الخ دار صادر بیروت ص ۲۱۳)
اللھم وفقنا لما ترضاہ ویرضاہ نبینّاصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم و تزداد وجوہ اٰبائنا وامھاتنا بیاضا واشراقا اٰمین۔ اے اﷲ ! ہمیں ایسے اعمال کی توفیق عطا فرما جن پر تُو اور ہمارا نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم خوش ہوں اور ان سے ہمارے ماں باپ کے چہروں کی نورانیت اور چمک میں اضافہ ہو، آمین۔(ت)
ابونعیم حلیۃ الاولیاء میں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی، رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : ان اعمال امتی تعرض علّی فی کلّ یوم جمعۃ، واشتد غضب اﷲ علی الزناۃ ۲ ؎ ۔ بے شک ہر جمعہ کے دن میری امت کے اعمال مجھ پر ہوتے ہیں اور زانیوں پر خدا کا سخت غضب ہے۔ والعیاذ باﷲ تعالٰی ۔
( ۲ ؎حلیۃ الاولیاء ترجمہ ۳۵۸ عمران القصیر دار الکتاب العربی بیروت ۶/ ۱۷۹ )
امام اجل عبداﷲ بن مبارک سعید بن مسیّب بن حزن رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے راوی : لیس من یوم الاتعرض فیہ علی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اعمال امتہ غدوۃ وعشیۃ فیعرفھم بسیماھم واعمالھم۳۔ کوئی دن ایسا نہیں جس میں نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم وآلہ وسلم پر ان کی اُمّت کے اعمال صبح و شام دو دفعہ پیش نہ ہوتے ہوں تو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم انہیں ان کی نشانی صورت سے بھی پہچانتے ہیں اور ان کے اعمال سے بھی، صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔
( ۳ ؎کتاب الزھد باب فی عرض عمل الاحیاء علی الاموات حدیث دار الکتب العلمیہ بیروت الجزء الرابع ص ۴۲)
تیسیر شرح جامع صغیر میں ہے : وذٰلک کل یوم کما ذکرہ المؤلف وعدہ من خصوصیاتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم و تعرض علیہ ایضا مع الانبیاء والاباء یوم الاثنین والخمیس ۱ ؎ قالہ تحت حدیث ابن سعد المذکور ، واﷲ تعالٰی اعلم ۔ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے حضور میں پیشی تو ہر روز ہے جیسا کہ امام جلا ل الدین سیوطی نے ذکر فرمایا اور اسے حضور کے خصائص سے گنا اور ہر دو شنبہ و پنجشنبہ کو بھی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر اعمالِ امت انبیاء اور آباء کے ساتھ پیش ہوتے ہیں۔( یہ بات امام مناوی نے حدیث ابن سعد مذکور کے تحت فرمائی ہے، اور اﷲ تعالٰی خوب جانتا ہے ۔ت)
(۱ ؎التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت الحدیث حیاتی خیرلکم مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۱ /۵۰۲)
اس طرح بارگاہِ حضور میں اعمالِ اُمّت کی پیشی روزانہ ہر صبح و شام کو الگ ہوتی ہے پھر ہر دو شنبہ اور پنچشنبہ کو جدا، پھر ہر جمعہ کو ہفتہ بھر کے اعمال کی پیشی جدا۔ بالجملہ دیوبندیوں کا اسے غلط و افترائے محض کہنا محض اسی بنا پر ہے کہ فضائل ِ محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے جلتے ہیں، صحیح حدیثوں کو کیا مانیں جب قرآن عظیم ہی سے بچ کر نکلتے ہیں ، اوندھے چلتی ہیں، فبای حدیث بعد اﷲ وایتہ یؤمنون ۲ ؎۔ ( پھر ا ﷲ اور اس کی آیتوں کو چھوڑ کر کون سی بات پر ایمان لائیں گے۔ت)
(۲ ؎القرآن الکریم ۴۵ /۶)
شبہہ رابعہ : کے دو رَد گزرے امرا ول و دوم سے۔
ثالثاً : حدیث ترمذی، جس سے محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر شدید اعتراض جمانا چاہا وسیعلم الذین ظلمواای منقلب ینقلبون ۳ ؎۔ ( اور اب جانا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے۔ ت)
(۳ ؎القرآن الکریم ۲۶ /۲۲۷)
اصول محدثین پر محل کلام اور اصولِ دین پر قطعاً حجیت سے ساقط ہے، ترمذی کے یہاں اس کے لفظ یہ ہیں۔ حدثنا محمد بن یحیٰی ثنا محمد بن یوسف عن اسرائیل ثنا سماک بن حرب عن علقمۃ بن وائل الکندی عن ابیہ ان امرأۃ خرجت علٰی عہد النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ترید الصلوۃ فتلقا ھار جل فتجللہا فقضی حاجتہ منہا فصاحت فانطلق ومرعلیہا رجل فقالت ان ذٰلک الرجل فعل بی کذاوکذا، ومرت بعصابۃ من المھاجرین فقالت ان ذالک الرجل فعل بی کذاکذا فانطلقوا فاخذوا الرجل الذی ظنت انہ وقع علیہا واتوھا فقالت نعم ھو ھذا فاتوابہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فلما امر بہ لرجم قام صاحبہا الذی وقع علیھا فقال یارسول اﷲ انا صاحبہا فقال لھا اذھبی فقد غفر اﷲ لک ، وقال للرجل قولاً حسناً ، وقال للرجل الذی وقع علیہا ارجمعوہ وقال لقد تاب توبۃ لوتابہا اھل المدینۃ لقبل منھم، ھذا حدیث حسن غریب صحیح، وعلقمۃ بن وائل بن حجر سمع من ابیہ وھواکبر من عبدالجبار بن وائل وعبدالجبار بن وائل لم یسمع من ابیہ ۱ ؎۔
علقمہ بن وائل کندی اپنے باپ (وائل) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے عہد اقدس میں ایک عورت نماز پڑھنے کے لیے نکلی تو اسے ایک مرد ملا جس نے اسے ڈھانپ لیا اور اس سے اپنی حاجت پوری کی وہ عورت چیخی تو وہ شخص چلا گیا، ایک اور شخص اس عورت کے پاس سے گزرا تو اس عورت نے کہا کہ اس مرد نے میرے ساتھ ایسا ایسا کیا ہے۔اور وہ خاتون مہاجرین کی ایک جماعت کے پاس سے گزری اور کہا اس مرد نے میرے ساتھ ایسا ایسا کیا ہے۔ وہ لوگ گئے اور اس مرد کو پکڑ لائے جس کے بارے میں اس خاتون نے گمان کیا تھا کہ ا س نے اس کے ساتھ زنا کیا ہے، جب وہ اسے خاتون کے پاس لائے تو اس نے کہا ہاں یہ وہی ہے، چنانچہ وہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے پھر جب آپ نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا تو وہ شخص اٹھ کر کھڑا ہوگیا جس نے فی الواقع اس عورت سے زنا کیا تھا اور عرض کی کہ یارسول اﷲ ! میں نے اس کے ساتھ زنا کیا ہے، چنانچہ آپ نے اس عورت سے فرمایا : جا اﷲ تعالٰی نے تیری مغفرت کردی، اور پہلے مرد سے اچھا کلام فرمایا اور دوسرے مرد جس نے حقیقۃً زنا کیا تھا کہ بارے میں فرمایا کہ اس کو سنگسار کردو پھر فرمایا اس نے ایسی توبہ کی کہ اگر تمام اہلِ مدینہ یہ توبہ کرتے تو ان سے قبول کرلی جاتی ۔ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، علقمہ بن وائل بن حجر نے اپنے باپ سے سماعت کی ہے اور وہ عبدالجبار بن وائل سے بڑے ہیں عبدالجبار نے اپنے باپ سے کچھ نہیں سُنا۔ت)
(۱ ؎ جامع الترمذی ابواب الحدود باب ماجاء فی المراۃ اذااستکرھت علی الزنا امین کمپنی دہلی ۱/ ۱۷۵)
(۱) وائل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے علقمہ کے سماع میں کلام ہے، امام یحیٰی بن معین ان کی روایت کو منقطع بتاتی ہیں اور اسی پر حافظ نے تقریب میں جزم کیا،
میزان میں ہے : علقمۃ بن وائل بن حجر صدوق الا ان یحیٰی بن معین یقول فیہ روایۃ عن ابیہ مرسلۃ ۱ ؎۔ علقمہ بن وائل بن حجر صدوق ہے مگر یحیٰی بن معین کہتے ہیں کہ اس کی روایت اپنے باپ سے مرسل ہے۔(ت)
(۱ ؎ میزان الاعتدال ترجمہ ۵۷۶۱ علقمہ بن وائل دارالمعرفۃ بیروت ۳ /۱۰۸)
تقریب میں ہے : علقمۃ بن وائل صدوق الاانہ لم یسمع من ابیہ ۲ ؎۔ علقمہ بن وائل صدوق ہے مگر اپنے باپ سے اس نے کچھ نہ سنا۔(ت)
(۲ ؎ تقریب التہذیب ترجمہ۴۷۰۰ علقمہ بن وائل دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۶۸۷ )
(۲) پھر سماک بن حرب میں کلام ہے،
تقریب میں ہے : قدتغیرباخبرہ فکان ربما یلقن ۳ ؎۔ آخر عمر میں وہ متغیر ہوگئے تھے چنانچہ بسا اوقات انہیں تلقین کی جاتی تھی۔(ت)
(۳ ؎ تقریب التہذیب ترجمہ۲۶۳۲ علقمہ بن وائل دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۳۹۴ )
امام نسائی نے اس کے باب میں یہ فیصلہ کیا کہ جس حدیث کے تنہا وہی راوی ہوں حجت نہیں۔میزان میں ہے : قال النسائی اذا انفرد باصل لم یکن بحجۃ لانہ کان یلقن فیتلقن۴ ؎ اھ وقد انقدالحافظ علی الترمذی تصحیحاتہ بل وتحسیناتہ کما بیناہ فی مدارج طبقات الحدیث وغیرھا من تصانیفنا۔ نسائی نے کہا جس حدیث میں علقمہ منفرد ہو وہ حجت نہیں کیونکہ انہیں بات سمجھائی جاتی تب وہ سمجھتے اور حافظ نے ترمذی پر اس کی تصیححات بلکہ اس کی تحسینات پر تنقید کی، جیسا کہ ہم نے اپنی تصانیف مدارج طبقات الحدیث وغیرہ میں اس کو بیان کیا ہے۔(ت)
(۴ ؎ میزان الاعتدال ترجمہ۳۵۴۸ سماک بن حرب دارالمعرفۃ بیروت ۲ /۲۳۳)
اور اس پر ظاہر کہ اس حدیث کا مدار سماک پر ہے۔
(۳) ابوداؤد نے یہ حدیث بعینہ اسی سند سے روایت کی اور اسی میں یہ لفظ لیرجم ( کہ اسے رجم کیا جائے۔(ت) جو منشاء اعتراض وہابی ہے، اصلاً نہیں، اس کی سند یہ ہے: حدثنا محمد بن یحیٰی بن فارس نافریابی نا اسرائیل نا سماک بن حرب عن علقمۃ بن وائل عن ابیہ۱ ؎۔ ہمیں حدیث بیان کی محمد بن یحیٰی بن فارس نے وہ کہتے ہیں ہمیں فریابی نے وہ کہتے ہیں ہمیں اسرائیل نے وہ کہتے ہیں ہمیں سماک بن حرب نے علقمہ بن وائل سے انہوں نے اپنے باپ سے حدیث بیان کی ۔(ت)
(۱ سنن ابی داؤد کتاب الحدود باب فی صاحب الحد یجیئ فیقر آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۲۴۵)
اور محل احتجاج میں لفظ صرف یہ ہیں : فقالت نعم ھو ھذا فاتوابہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فلما امربہ قام صاحبہا الذی وقع علیہا فقال رسول اﷲ انا صاحبہا ۲ ؎۔ اس عورت نے کہا ہاں یہ وہی ہے چنانچہ وہ لوگ اس کو رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔ جب آپ نے اس کے بارے میں حکم دیا تو وہ شخص کھڑا ہوگیا جس نے فی الواقع اس عورت سے زناء کیا تھا اور عرض کی کہ یارسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں نے اس کے ساتھ زناء کیا ہے۔(ت)
(۲ سنن ابی داؤد کتاب الحدود باب فی صاحب الحد یجیئ فیقر آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۲۴۵)
آخر میں : قال ابوداؤد رواہ اسباط بن نصرایضا عن سماک ۳ ؎۔ ابوداؤد نے کہا اس کو اسباط بن نصر نے بھی سماک سے روایت کیا ہے۔(ت)
(۳ سنن ابی داؤد کتاب الحدود باب فی صاحب الحد یجیئ فیقر آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۲۴۶)
یہاں امربہ مطلق ہے ممکن کہ تحقیقات کے لیے حکم فرمایا یہ بھی سہی کہ بقدرِ حاجت کچھ سخت گیری کرو قید کرو کہ اگر گناہ کیا ہوا قرار کرے کہ شرعاً متہم کی تعزیر جائز ہے۔
جامع ترمذی میں حسن بن معاویہ بن خیدہ قشیری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے : حدثنا علی بن سعید الکندی ثنا ابن المبارک عن معمرعن بھزین حکیم عن ابیہ عن جدہ ان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حبس رجلافی تھمۃ ثم خلی عند”قال الترمذی” وفی الباب عن ابی ھریرۃ حدیث بھز عن ابیہ عن جدہ حدیث حسن، وقدروی اسمعیل بن ابراہیم عن بھزبن حکیم ھذا الحدیث اتم من ھذا واطول اھ ۱ ؎ قلت سندالترمذی حسن، علی وبہزوحکیم کلھم صدوق ما اشارالیہ من روایۃ اسمعیل بن ابراہیم فقد رواھا ابن ابی عاصم فی کتاب العفو، قال حدثنا ابوبکر بن ابی شیبۃ ثناء ابن عُلیۃ عن بھزعن ابیہ عن جدہ ان اخاہ اتی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فقال جیرانی علی ما اخذوا فاعرض عنہ فاعاد قولہ فاعرض عنہ وساق القصۃ قال فی اخرھا خلوالہ عن جیرانہ ۲ ؎۔
ہمیں حدیث بیان کی علی بن سعید کندی نے انہوں نے کہا ہمیں حدیث بیان کی ابن مبارک نے انہوں نے معمر سے انہوں نے بہز بن حکیم سے انہوں نے بواسطہ اپنے باپ اپنے دادا سے روایت کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو کسی تہمت میں محبوس فرمایا پھر چھوڑ دیا ۔ اس باب میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بھی روایت ہے۔ بہز کی حدیث بواسطہ اپنے باپ اپنے دادا سے حسن ہے۔تحقیق اسمعیل بن ابراہیم نے بہز بن حکیم سے اس حدیث کو اتم واطول روایت کیا ہے۔اھ میں کہتا ہوں ترمذی کی سند حسن ہے، علی، بہز اور حکیم تمام صدوق ہیں۔اسمعیل بن ابراہیم کی روایت سے جس حدیث کی طرف ترمذی نے اشارہ کیا ہے۔ اس کو ابن ابی عاصم نے کتاب العفو میں روایت کیا، کہا کہ ہمیں حدیث بیان کی ابوبکر بن ابی شیبہ نے انہوں نے کہا ہمیں حدیث بیان کی ابن علیہ نے انہوں نے بہز سے انہوں نے بہز سے انہوں نے بواسطہ اپنے آپ کے اپنے دادا سے روایت کی کہ اُن کے بھائی نے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ میری پڑوسی کس بنیاد پر پکڑے گئے، آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ان سے اعراض فرمایا ۔ انہوں نے بات دہرائی ، آپ نے پھراعراض فرمایا ، ا ور پورا قصہ بیان کیا، اس کے آخر میں ہے کہ آپ نے فرمایا اس کی خاطر اس کے پڑوسیوں کو چھوڑدو۔(ت)
(۱ ؎ جامع الترمذی ابواب الدیات باب ماجاء فی الحبس فی التہمۃ امین کمپنی دہلی ۱ /۱۷۰)
(۲ ؎ حدیث بالمفہوم سنن ابی داؤد کتاب القضاء ۲/ ۱۵۵ ومسند احمد بن حنبل ۵ /۴)
(۴) امام بغوی نے مصابیح میں یہ حدیث ذکر کی اور اس میں سرے سے دوسرے شخص کا جس پر غلطی سے تہمت ہوئی تھی قصہ ہی نہ رکھا،
مصابیح کے لفظ یہ ہیں : عن علقمۃ بن وائل عن ابیہ ان امرأۃ خرجت علی عہد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ترید الصلوۃ فتلقا ھارجل فتجللھا فقضی حاجتہ منہا فصاحت صحیۃ وانطلق ومرت بعصابۃ من المھا جرین فقالت ان ذلک فعل بی کذاوکذا، فاخذواالرجل فاتوابہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فقال لہا اذھبی فقد غفر اﷲ لک وقال للرجل الذی وقع علیھا ارجموہ و قال لقد تاب توبۃ لوتابھا اھل المدینۃ لقبل منھم ۱ ؎۔
علقمہ بن وائل اپنے باپ وائل سے راوی ہیں کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ اقدس میں نماز کے ارادہ سے نکلی تو ایک مردا سے ملاجو اس پر چھا گیا۔ اس نے عورت سے اپنی حاجت پوری کرلی۔ وہ چیخی تو وہ مرد چلا گیا ، مہاجرین کی ایک جماعت وہاں سے گزری تو وہ عورت بولی کہ اس شخص نے مجھ سے ایسا ایسا کیا ہے۔ لوگوں سے اس شخص کو پکڑ لیا پھر اسے رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لائے تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اس عورت سے فرمایا تو جا تجھے اﷲ تعالٰی نے بخش دیا ہے۔ اس شخص کے بارے میں فرمایا جو اس پر چھا گیا تھا کہ اسے رجم کردو، اور فرمایا یقیناً اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر یہ توبہ سارے مدینہ والے کرتے تو ان کی توبہ قبول ہوجاتی۔
(۱ ؎ مصباح السنۃ کتاب الحدود حدیث ۶۵۵ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲ /۱۱۲)
یہ بالکل وبے دغدغہ ہے ،مشکٰوۃ میں اسے ذکر کرکے کہا رواہ الترمذی وابوداؤد۲ (اس کو ترمذی اور ابوداؤد نے روایت کیا ۔ت)۔
(۲ ؎ مشکوۃ المصابیح کتاب الحددو، الفصل الثانی قدیمی کتب خانہ کراچی ص۳۱۲)
(۵) اس لفظ ترمذی میں اصل علت یہ ہے کہ اگر کوئی عورت دھوکے سے کسی مرد پر زنا کی تہمت رکھ دے اور حاکم کے حضور نہ وہ مرد اقرار کرے نہ اصلاً کوئی شہادت معائنہ گزرے تو چار درکنار ایک گواہ بھی نہ ہو تو کیا ایسی صورت میں حاکم کو روا ہے کہ صرف عورت کے نام لے دینے سے اس کے رجم وقتل کا حکم دے دے، حاشا ہر گز نہیں، ایسا حکم قطعاً ، یقیناً ، اجماعاً قرآن عظیم و شریعتِ مطہرہ کے بالکل خلاف اور صریح باطل و ظلم و خونِ انصاف ہے، اس سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا، اور یہاں اسی قدر واقعہ تھا ہمارےائمہ کے یہاں مقبول ہے مگر انقطاع باطن باجماعِ علماء مردود و باطل و مخذول ہے اگرچہ کیسی ہے سند لطیف و صحیح سے آئے نہ کہ یہ سند کہ بوجوہ محل ِ نظر ہے، سماک کے سوا اسرائیل میں بھی اختلاف ہے اگرچہ راجح توثیق ہے۔ امام علی مدینی نے فرمایا : ” اسرائیل ضعیف ۱ ؎۔ (اسرائیل ضعیف ہے۔ت)
(۱ ؎ میزان الاعتدال ترجمہ ۸۲۰ اسرائیل بن یونس دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۲۰۹)
ابن سعد نے کہا : منھم من یستضعفہ ۲ ؎۔ ( اُن میں سے بعض اُسی ضعیف قرار دیتے ہیں۔ت)
(۲ ؎ میزان الاعتدال ترجمہ ۸۲۰ اسرائیل بن یونس دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۲۰۹)
یعقوب بن شیبہ نے کہا : صالح الحدیث وفی حدیثہ لین ۳ (صالح الحدیث ہے اس کی حدیث میں کمزوری ہے ۔ت)میزان میں ہے : کان یحیٰی القطان لایرضاہ ۴ ؎۔ (یحیٰی قطان اُسے پسند نہ کرتے تھے۔ت)ابن حزم نے کہا : ضعیف، اور ان کی متابعت کہ اسباط بن نصر نے کی، ان کا حال تو بہت گرا ہوا ہے۔
تقریب میں کہا : صدوق کثیر ا الخطا یغرب اھ۵ ؎۔ صدو ق ہے بہت خطا کرتا ہے نوادرات بیان کرتا ہے۔ اھ (ت)
(۳ ؎ میزان الاعتدال ترجمہ ۸۲۰ اسرائیل بن یونس دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۲۰۹)
(۴ ؎ میزان الاعتدال ترجمہ ۸۲۰ اسرائیل بن یونس دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۲۰۹)
(۵ ؎ تقریب التہذیب ترجمہ ۳۲۱ اسباط بن نصر دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۷۶)
اما ماحاول بہ التفصی عنہ فی حامش نسخۃ الطبع اذ قال ” لعل المراد فلما قارب ان یامربہ وذلک قالہ الراوی نظر الٰی ظاہرا لا مرحیث انھم احضروہ فی المحکم عندالامام والامام اشتغل بالتفتیش عن حالہ” اھ ۶ ؎۔ مطبوعہ نسخے کے حاشیے میں محشی نے یوں کہہ کر اشکال سے بچنے کا ارادہ کیا ہے کہ شاید مراد اس سے یہ ہو کہ جب اپ رجم کا حکم دینے کے قریب ہوئے اور راوی نے ظاہر امر کو دیکھتی ہوئے یہ کہہ دیا کہ آپ نے رجم کا حکم دیا۔ اس لیے کہ لوگوں نے اُس شخص کو امام کے پاس کچہری میں پیش کیا اور امام اس کے حال کی تفتیش میں مشغول ہوئے۔ اھ (ت)
( ۶ ؎جامع الترمذی باب الحدود باب ماجاء فی المراۃ اذا استکرھت علی الزناء (حاشیہ ) امین کمپنی دہلی ۱ /۱۷۵)
فاقول : لایجدی نفعا فان الاشتغال بالتفتیش لایفہم قرب الامر بالرجم مالم یکن ھناک شیئ یثبتہ وماکان ھناک شہود ولااقرار وما کان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لیا مربقتل مسلم من دون ثبت فکیف یظہر للناظر قرب الامر بالرجم رجما بالغیب بل نسبۃ مثل ھذا ا الفہم الرکیک الباطل الذی یترفع عنہ احاد الناس الی الصحابۃ رضی اللہ تعالٰی عنہم ثم ادعاء انھم اعتمدوا علیہ کل الاعتماد حتی نسبوا الامربالرجم الی رسول اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ازراء بالصحابۃ وھو یرفع الامان عن روایاتہم ، و لاحول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم ۔
فاقول : ( تو میں کہتا ہوں) یہ کچھ نفع نہیں دیتا کیونکہ تفتیش میں مشغول ہونے سے رجم کا حکم دینے کے قریب ہونا نہیں سمجھا جاتا جب تک وہاں اس کو ثابت کرنے والی کوئی شے نہ پائی جائے، جب کہ وہاں نہ گواہ ہیں نہ اقرار اور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم بغیر ثبو ت کے کسی مسلمان کے قتل کا حکم نہیں دیتے تو ناطر پر محض تخمینے سے امرِ رجم کیسے ظاہر ہوگیا، بلکہ ایسے باطل و رکیک فہم جس سے عام لو گ بھی منزہ ہوں کی نسبت صحابہ کرام کی طرف کرنا پھر یہ دعوت کرنا کہ انہوں نے اس پر مکمل اعتماد کرلیااور امرِ رجم کو انہوں نے رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیا صحابہ کرام پر جسارت ہے اور یہ ان کی روایت سے امان کو اٹھا دے گا۔ بلندی و عظمت والے معبود کی توفیق کے بغیر نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہے نہ نیکی کرنے کی قوت ہے۔(ت)
رابعاً: یہ سب علم ظاہر کے طور پر تھا اور علم حقیقت لیجئے تو وہابیہ کا عجب اوندھا پن قابل تماشا ہے وہ حدیث کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے علوم غیب پر روشن دلیل ہے اس کو کوالٹی دلیل نفی ٹھہراتے ہیں، اﷲ عزوجل نے ہمارے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو شریعت و حقیقت دونوں کا حکم بنایا حضور کے احکام شریعتِ ظاہرہ پر ہوتے اور کبھی حقیقتِ باطنہ پر حکم فرماتے مگر اس پر زور نہ دیا جاتا۔
ابن ابی شیبہ وابویعلی وبزار و بہقی انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں : قال ذکروارجلا عند النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فذکروا قوتہ فی الجھاد واجتہادہ فی العبادۃ فاذا ھم بالرجل مقبل فقال النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ و الہ وسلم انی لاجدفی وجہہ سفعۃ من الشیطان فلمادنی فسلم فقال لہ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ھل حدثت نفسک بانہ لیس فی القوم احد خیرمنک؟ قال نعم ، ثم ذھب فاختط مسجدا و وقف یصلی ، فقال رسول اﷲ ایکم یقوم فیقتلہ ؟ فقام ابوبکر فانطلق ، فوجدہ یصلی، فرجع ، فقال وجدتہ قائماً یصلی، نھبت ان اقتلہ ؟ فقال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ایکم یقوم فیقتلہ ؟ فقال عمر فصنع کما صنع ابوبکر، فقال رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ایکم یقوم فیقتلہ ؟ فقال علی انا قال انت ان ادرکتہ فذھب فوجدہ قد انصرف فرجع، فقال رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ھذا اول قرن خرج فی امتی لوقتلتہ مااختلف اثنان بعدہ من امتی ۱ ؎۔ صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم نے ایک شخص کی تعریف کی کہ جہاد میں ایسی قوت رکھتا ہے اور عبادت میں ایسی کوشش کرتا ہے، اتنے میں وہ سامنے سے گزرا حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں اس کے چہرے پر شیطان کا داغ پاتا ہوں۔ اس نے پاس آکر سلام کیا، رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اس کے دل کی بات بتائی کہ کیوں تو نے اپنے دل میں کہا کہ اس قوم میں تجھ سے بہتر کوئی نہیں۔ کہا ہاں، پھر چلا گیا اور ایک مسجد مقرر کرکے نماز پڑھنے کھڑا ہوا، حضور انور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون ایسا ہے جو اٹھ کر جائے اور اسے قتل کردے؟ صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ گئے ، دیکھا وہ نماز پڑھتا ہے واپس آئے اور عرض کیا کہ میں نے اسے نماز میں دیکھا مجھے قتل کرتے خوف آیا۔ حضور نے پھر فرمایا تم میں کون ایسا ہے کہ اٹھ کر جائے اور اُسے قتل کردے؟ فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ گئے اور نماز پڑھتا دیکھ کر چھوڑ آئے اور وہی عذر کیا۔حضور نے پھر فرمایا۔ تم میں کون ایسا ہے جو اٹھ کر جائے اور اسے قتل کردے ؟ مولٰی علی کرم اﷲ وجہہ نے عرض کی میں حضور نے فرمایا : ہاں تم اگر اسے پاؤ۔ یہ گئے وہ جاچکا تھا۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : یہ میری امت سے پہلی سینگ نکلا تھا اگر یہ قتل ہوجاتا تو آئندہ امت میں کچھ اختلاف نہ پڑتا۔
(۱ ؎ دلائل النبوۃ للبیہقی باب ماروی فی اخبارہ صلی اللہ علیہ وسلم الرجل الذی و صف الخ دارالکتب العلمیہ بیروت ۶/ ۲۸۷و۲۸۸)
(مسند ابویعلٰی عن انس حدیث ۳۶۵۶ و ۴۱۱۳ و ۴۱۲۸ مؤسسۃ علوم القرآن بیروت ۴/۸ تا ۱۰ و ۱۵۴ و ۱۵۵ و۱۶۲)
(کشف الاستار عن زوائد البزار کتاب اہل البغی باب علامتہم وعبادتہم مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۲ /۳۶۰)
خدمت اقدس میں ایک شخص حاضر کیا گیا جس نے چوری کی تھی، ارشاد ہوا اسے قتل کردو، عرض کی گئی اس نے چوری ہی توکی ہے۔ فرمایا :خیر ہاتھ کاٹ دو۔ پھر اس نے دوبارہ چوری کی اور قطع کیا گیا، سہ بارہ زمانہ صدیقِ اکبر میں پھر چرایا اور قطع کیا گیا۔ چوتھی بار پھر چوری کی اور قطع کیا گیا۔ پانچویں بار پھر چرایا۔ صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا : رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تیری حقیقت خوب جانتے تھے جب کہ اول ہی بار تیرے قتل کا حکم فرمایا تھا تیرا وہی علاج ہے جو حضور کاارشاد تھا۔ لے جاؤ اسے قتل کردو۔ ا ب قتل کیا گیا۔
ابویعلٰی اور شاشی اور طبرانی معجم کبیر اور حاکم صحیح مستدرک میں، ضیائے مقدسی صحیح مختارہ میں محمد بن حاطب اور حاکم مستدرک میں بافادہ تصحیح ان کے بھائی حارث بن حاطب رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی : قال اتی رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بلص فامر بقتلہ فقیل انہ سرق فقال اقطعوہ ثم جیئ بہ بعد ذٰلک الی ابی بکر وقد قطعت قوائمہ فقال ابوبکر مااجدلک شیئا الاماقضی فیک رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یوم امر بقتلک فانہ کان اعلم بک فامر بقتلہ ۱ ؎۔
کہا کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک چور لایا گیا آپ نے فرمایا اس کو قتل کردو ، عرض کی گئی کہ اس نے چوری ہی تو کی ہے، فرمایا اس کا ہاتھ کاٹ دو پھر اسے صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس اس حال میں لایا گیا کہ اس کے تمام ہاتھ پاؤں کاٹے جاچکے تھے ۔ تو آپ نے فرمایا میں اس کے بغیر تیرا علاج نہیں جانتا جو رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے تیرے بارے میں فیصلہ فرمایا تھا کہ اس کو قتل کردو وہ تیرا حال خوب جانتے تھے۔ چنانچہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کے قتل کا حکم دیا۔(ت)
(۱ کنز العمال بحوالہ ع والشاشی طب ک ص حدیث ۱۳۸۶۱ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۵/ ۵۳۸)
صحیح مستدرک کے لفظ حارث بن حاطب سے یہ ہیں : ان رجلا سرق علی عہد رسول ا ﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فاتی بہ فقال اقتلوہ فقالوا انما سرق، قال فاقطعوہ ثم سرق ایضا فقطع ثم سرق علی عہدابی بکر فقطع، ثم سرق فقطع ، حتّی قطعت قوائمہ، ثم سرق الخامسۃ فقال ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کان رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اعلم بھٰذا حیث امر بقتلہ اذھبوا بہ فاقتلواہ ۱ ؎۔ ایک شخص نے رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں چوری کی اُسے آپ کی بارگاہ میں لایا گیا آپ نے فرمایا ۔ اس کو قتل کردو ، عرض کی گئی اس نے چوری ہی تو کی ہے، فرمایا اس کا ہاتھ کاٹ دو۔اس نے پھر چوری کی پھر قطع کیا گیا۔ زمانہ صدیقی میں پھر چوری کی پھر قطع کیا گیا، پھر چوری کی پھر قطع کیا گیا۔ یہاں تک کہ اس کے تمام ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے گئے پانچویں مرتبہ اس نے پھر چوری کرلی۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا : رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اس کا حال خوب جانتے تھے جب کہ آپ نے پہلی مرتبہ ہی اس کے قتل کا حکم صادر فرمایا تھا۔ اس کو لے جاؤ اور قتل کردو۔(ت)
(۱ المستدرک للحاکم کتاب الحدود حکایۃ سارق قتل فی الخامسۃ دارالفکر بیروت ۴/ ۳۸۲)
ظاہر ہے کہ ان دونوں کے قتل کا حکم حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے علومِ غیب ہی کی بنا پر فرمایا تھا ورنہ ظاہر شریعت میں وہ مستحقِ قتل نہ تھے۔
امام جلیل جلال الملۃ والدین سیوطی سلمہ اﷲ تعالےٰ خصائص کبرٰی شریف میں فرماتے ہیں : باب ومن خصائصہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم انہ جمع بین القبلتین والھجرتین وانہ جمعت لہ الشریعۃ والحقیقۃ ولم یکن للانبیاء الا احدھما بدلیل قصۃ موسٰی مع الخضر ” علیھما الصلوۃ والسلام ” وقولہ انی علی علم من علم اﷲ لاینبغی لک ان تعلمہ وانت علی علم من علم اﷲ تعالٰی لاینبغی لی ان اعلمہ وقد کنت قلت ھذا الکلام اولا استنباطامن ھذا الحدیث من غیر ان اقف علیہ فی کلام احد من العلماء ثم رأیت البدربن المصاحب اشارالیہ فی تذکرتہ ووجدت من شواھدہ حدیث السارق الذی امربقتلہ والمصلی الذی امر بقتلہ و قد تقدم فی باب الاخبار بالمغیبات۔
باب اور حضور پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے خصائص میں سے یہ ہے کہ آپ دو قبلوں اور دو ہجرتوں کے جامع ہیں۔ اور یہ کہ آپ کے لیے شریعت وحقیقت کو جمع کردیا گیا۔ دیگر انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام میں سے کسی میں یہ دونوں وصف جمع نہ ہوئے بلکہ وہ صرف ایک وصف کے ساتھ متصف ہوئے۔ اس کی دلیل سیّدنا موسٰی علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا قصہ ہے۔ اور حضرت خضر علیہ السلام کا وہ قول کہ آپ نے حضرت موسٰی علیہ السلام سے کہا : میں اﷲ تعالٰی کی طرف سے ایسے علم کا حامل ہوں جسے جاننا آپ کو مناسب نہیں اور آپ کو منجانب اﷲ ایسا علم عطا ہوا جس کو جاننا مجھے مناسب نہیں۔(امام سیوطی فرماتے ہیں) میں پہلے یہ بات حدیث سے استنباط کرکے کہا کرتا تھا بغیر اس کے کہ میں اس بارے میں کسی عالم کے کلام پر مطلع ہوتا۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ بدربن المصاحب نے اپنے تذکرہ میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔اور میں نے اس کے شؤاہد میں وہ حدیث پائی جس میں رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک چور کو قتل کرنے کا حکم دیا اور وہ حدیث کہ جس میں آپ نے ایک نمازی کو قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا، دونوں مذکورہ حدیثیں اس سے قبل “الاخبار بالمغیبات” کے باب میں گزرچکی ہیں۔
زیادۃ ایضاح لہذاالباب : فقد اشکل فھمہ علی قوم ولو تأملوا لاتضع لھم المراد بالشریعۃ الحکم بالظاھر وبالحقیقۃالحکم بالباطن وقدنص العلماء علی ان غالب الانبیاء علیہم الصلوۃ والسلام انما بعثوا لیحکموا بالظاھر دون ما اطلعوا علیہ من بواطن الامورو حقائقہا وبعث الخضر علیہ السلام لیحکم بما اطلع علیہ من بواطن الامور وحقائقہاولکون الانبیاء لم یبعثوابذلک انکر موسٰی علیہ قتلہ الغلام وقال لہ “لقد جئت شیئا نکرا” لان ذلک خلاف الشرع فاجابہ بانہ امربذالک وبعث بہ فقال وما فعلتہ عن امری” (ذلک تاویل) وھذا معنی قولہ لہ انّک علی علم الٰی اخرہ “
اس باب کی مزید وضاحت : تحقیق لوگوں کو اس کے سمجھنے میں مشکل پیش آئی اور اگر وہ غور و فکر کرتے تو مطلب واضح ہوجاتا کہ شریعت سے مراد ظاہری حکم اور حقیقت سے مراد باطنی حکم ہے ، بے شک علمائے کرام نے اس بات کی تصریح فرمائی کہ اکثر انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام اس لیے مبعوث ہوئے کہ وہ ظاہر پر حکم کریں نہ کہ امور باطنیہ اور ان کے حقائق پر جن سے وہ مطلع ہوئے۔ اور حضرت خضر علیہ السلام کی بعثت اس پر ہے کہ وہ اس پر حکم دیں اور جوامور باطنیہ اور اس کے حقائق سے متعلق ہیں اور جس پر ان کو اطلاع وخبر ہے چونکہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی اس کے ساتھ بعثت نہیں ہوئی یہی وجہ ہے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام نے اس بچہ کے قتل پر اعتراض کیا جس کو حضرت خضر علیہ السلام نے قتل کیا تھا اور ا ن سے کہا ” بے شک تم نے بہت بری بات کی” اس لیے کہ قتلِ نفس شریعت کے خلاف ہے، لہذا اس کا جواب حضرت خضر علیہ السلام نے دیا کہ انہیں اسی کا حکم دیا گیا ہے اور اسی کے ساتھ بھیجا گیا ہے اور کہا کہ یہ قتل میں نے اپنے ارادے سے نہیں کیا ہے اور یہی مطلب ان کے اس کہنے کا ہے جو کہ انہوں نے کہا تھا میں اﷲ تعالٰی کی طرف سے ایسے علم کا حامل ہوں جسے جانناآپ کو مناسب نہیں۔ الخ۔
قال الشیخ سراج الدین البلقینی فی شرح البخاری المراد بالعلم التنفیذ والمعنی لاینبغی لک ان تعلمہ لتعمل بہ لان العمل بہ مناف لمقتضی الشرع ولا ینبغی ان اعلمہ فاعمل بمقتضاہ لانہ مناف لمقتضی الحقیقۃ قال فعلی ھذا لایجوز لولی التابع للنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اذااطلع حقیقۃ ان ینفذ ذلک بمقتضی الحقیقۃ وانما علیہ ان ینفذ الحکم الظاھر انتہی۔
شیخ سراج الدین بلقینی رحمۃ تعالٰی علیہ نے “شرح بخاری” میں فرمایا کہ علم سے مراد حکم کا نافذ کرنا ہے اور ان کے اس کہنے کا مطلب یہ تھا کہ مناسب نہیں ہے کہ آپ اس کا علم حاصل کریں تاکہ آپ اس پر حکم نافذ کریں، کیونکہ اس پر عمل کرنا تقاضائے شریعت کے خلاف ہے ، اور نہ یہ مناسب ہے کہ میں اسے حاصل کروں اور اس کے مقتضاء پر عمل کروں کیونکہ یہ بھی مقتضائے حقیقت کے منافی ہے۔ شیخ سراج الدین رحمۃ اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا اس قاعدے کے بموجب اس ولی کے لیے جائز نہیں ہے جو نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا تابع ہے کہ جب وہ حقیقت پر مطلع ہو تو وہ بہ مقتضائے حقیقت اس کا نفاذ کرے بے شک اس پر یہی لازم ہے کہ حکمِ ظاہر کو نافذ کرے۔ انتہی۔
وقال الحافظ ابن حجر فی الاصابۃ قال ابوحبان فی تفسیرہ الجمہور علی ان الخضر نبی وکان علمہ معرفۃ بواطن اوحیت الیہ وعلم موسٰی الحکم بالظاھر فاشار الٰی ان المراد فی الحدیث بالعلمین الحکم بالباطن والحکم بالظاھر لاامر اٰخر ۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ نے ” الاصابہ” میں فرمایا کہ ابوحبان رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ نے اپنی تفسیر میں بیان کیا کہ جمہور اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت خضر علیہ السلام نبی ہیں اور انکا علم ان امورِ باطنیہ کی معرفت تھی جس کی انہیں وحی کی گئی جب کہ حضرت موسٰی علیہ الصلوۃ والسلام کا علم ظاہر پر حکم لگاناتھا حدیث میں دو علوم جن کی طرف اشارہ فرمایا ہے اس سے مراد ظاہر وباطن پر حکم لگانا ہے ، اس کے علاوہ کوئی دوسرا مطلب مراد نہیں ہے۔
وقد قال الشیخ تقی الدین السبکی ان الذی بعث بہ الخضر شریعۃ لہ فالکل شریعۃ واما نبینا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فانہ امر اولاً ان یحکم بالظاھردون ما اطلع علیہ من الباطن والحقیقۃ کغالب الانبیاء علیہم الصلوۃ والسلام، ولہذا قال نحن نحکم بالظاھر ، وفی لفظ انما اقضی بالظاھر واﷲ یتولی السرائر وقال انما اقضی بنحو ما اسمع فمن قضیت لہ بحق اخرفا نما ھی قطعۃ من النار وقال للعباس اما ظا ھرک فکان علینا واما سریرتک فالی اﷲ وکان یقبل عذر المتخلفین عن غزوۃ تبوک ویکل سرائرھم الی اﷲ وقال فی تلک المرأۃ لو کنت راجما احدا من غیر بینۃ لرجمتھا وقال ایضا لولا القرآن لکان لی ولہا شان فہذا کلہ صریح فی انہ انما یحکم بظاہر الشمرع بالبینۃ اوالاعتراف دون ما اطلعہ اﷲ علیہ من بواطن الامور وحقائقہا ثم ان اﷲ زادہ شرفا واذن لہ ان یحکم بالباطن وما اطلع علیہ من حقائق الامور فجمع لہ بین ماکان للانبیاء و ماکان للخضر خصوصیۃ خصہ اﷲ بہا ولم یجمع الامر ان لغیرہ ، وقد قال القرطبی فی تفسیرہ اجمع العلماء عن بکرۃ ابیھم ان لیس لاحد ان یقتل بعلمہ الا النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وشاھد ذٰلک حدیث المصلیّ والسارق الذین امربقتلھما فانہ اطلع علی باطن امرھما وعلم منھما مایوجب القتل۔
شیخ تقی الدین سبکی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا وہ حکم جس کے ساتھ حضرت خضر علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے وہ ان کی شریعت تھی لہذا یہ سب شریعت ہے، اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو ابتداء میں یہ حکم فرمایا گیا کہ ظاہر پر حکم فرمائیں اور اس باطن و حقیقت پر حکم نہ دیں جس کی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو خبر ہے جس طرح کہ اکثر انبیاء علیہم السلام کا معمول تھا۔ اسی بناء پر حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشا دفرمایا ” ہم تو ظاہر پر حکم دیتے ہیں”۔ ایک روایت میں اس طرح ہے ” میں تو ظاہر پر فیصلہ د یتا ہوں باطن حالات کا خدا عزوجل مالک ہے۔” اور یہ کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔” میں تو اسی پر فیصلہ دیتا ہوں جیسا کہ میں سنتا ہوں، لہذا میں نے جس کے لیے د وسرے کے حق کا فیصلہ کردیا ہے تو وہ یہ جان لے کہ وہ آگ کا ٹکڑا ہے۔” اور یہ کہ حضور پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے فرمایا ” جہاں تک تمہارے ظاہر کا تعلق ہے تو وہ ہمارے ذمہ ہے لیکن جو تمہاری باطنی حالت ہے وہ اللہ عزوجل کے ذمہ ہے” اور یہ کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم غزوہ تبوک سے رہ جانے والوں کی معذرت قبول فرماتے تھے اور ان کے باطنی حالات کو اﷲ تعالٰی کے سپرد فرماتے تھے۔ اور یہ کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ایک عورت کے بارے میں فرمایا ۔اگر میں بغیر دلیل و شہادت کے کسی کو سنگسار کرتا تو ضرور اس عورت کو سنگسار کرتا” اور یہ بھی فرمایا کہ ” اگر قرآن نہ ہوتا تو یقینا میرے لیے اور اس عورت کے لیے کچھ اور ہی معاملہ ہوتا۔” یہ تمام نظائر اور شواہد اس بات کے مظہر ہیں کہ آپ کو دلیل و شہادت یا اعتراف و اقرار کے ساتھ ظاہر شریعت پر فیصلہ دینے کا حکم ہوا نہ کہ اس پر جو باطنی امور پر اﷲ عزوجل نے آپ کو مطلع فرمایا اور اس کے حقائق آپ پر واضح فرمائے۔ اس کے بعد اللہ عزوجل نے آپ کے شرف کو اور زیادہ فرمایا اور آپ کو اجازت فرمائی کہ آپ باطن پر حکم لگائیں اور جن امور کی حقیقتوں کی آپ کو اطلاع دی گئی ہے اس پر فیصلہ فرمائیں تو اس طرح آپ ان تمام معمولات کے جوا نبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے لیے تھے ا ور اس خصوصیت کے ساتھ جو حضرت خضر علیہ السلام کے لیے اﷲ عزوجل نے خاص فرمائے جامع تھے اور یہ امر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی اور نبی میں جمع نہیں کیا گیا۔ اور امام قرطبی علیہ الرحمۃ نے اپنی تفسیر میں فرمایا علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اپنے علم کے ساتھ کسی کے قتل کا حکم دے سوائے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے۔ اس کی شاہد اس نمازی اور چور والی حدیث ہے جن کے قتل کرنے کا حکم حضور پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے دیا تھا کیونکہ اﷲ تعالٰی نے ان دونوں کے باطنی حالات پر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو مطلع فرمادیا تھا اور ان دونوں کے بارے میں آپ کو علم ہوگیا تھا کہ واجب القتل ہیں۔ا گرچہ ان کا قتل کچھ عرصہ بعد واقع ہوا۔)
ولوتفطن الذین لم یفھمواالی استشہادی بھذین الحدیثین فی اخر الباب لعرفو اان المراد الحکم بالظاھر والباطن فقط لاشیئ اخر لایقولہ مسلم ولا کافر ولا مجانین المارستان، وقد ذکر بعض السلف ان الخضر الی الاٰن ینفذ الحقیقۃ وان الذین یموتون فجأ ۃً ھوالذین یقتلھم فان صح ذلک فہو فی ھذہ الامۃ بطریق النیا بۃ عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فانہ صارمن اتباعہ کما ان عیسی علیہ السلام لما ینزل یحکم بشریعۃ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نیابۃ عنہ ویصیر من اتباعہ وامتہ ۱ ؎۔
(امام سیوطی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں) کاش کہ یہ علماء اعلام اس بات کو سمجھ سکتے جس کو انہوں نے نہیں سمجھا جس کی طرف میں نے آخر باب میں ان دونوں حدیثوں کے ساتھ استشہاد کیا ہے۔ اگر وہ یہ بات سمجھ جاتے تو یقیناً جان لیتے کہ مراد فقط ظاہر اور باطن کے ساتھ حکم فرمانا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں، اس کے سوا اور کوئی بات نہ مسلمان کہہ سکتا ہے اور نہ کافر اور نہ مجنون و پاگل بعض اسلاف رحمہم اﷲ تعالٰی نےذکر فرمایا ہے کہ حضرت خضر علیہ الصلوۃ والسلام اب تک حقیقت کو نافذ کرتی ہیں، اور وہ لوگ جو اچانک مرجاتے ہیں وہ وہی ہوتے ہیں جن کو انہوں نے قتل کیا ہوتا ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو ان کا یہ عمل اس اُمت میں نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کیطرف سے بطورِ نیابت ہوگا اور وہ حضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے متعبین میں سے ہوں گے جس طرح کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام جب نازل ہوں گے تو وہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شریعت کے ساتھ آپ کی نیابت میں حکم دیں گے وہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے متبعین اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی اُمت میں سے ہوں گے۔ اھ (ت)
(۱الخصائص الکبرٰی باب ومن خصائصہ انہ جمع بین القبلتین الخ مرکز اہلسنت برکا رضا گجرات ہند ۲/ ۱۹۱ ،۱۹۲)
اس کلامِ نفیس سے ثابت کہ عامہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو صرف ظاہر شرع پر عمل کا اذن ہوتا ہے، اور سیدنا خضر علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے علم مغیبات پر عمل کا حکم ہے، ولہذا انہوں نے ناسمجھ بچہ کو بے کسی جرم ظاہر کے قتل کردیا اور یہ کہ اب جو ناگہانی موت سے مرجاتے ہیں انہیں بھی وہی قتل فرماتے ہیں، اور ہمارے حضور اقد س صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو ظاہر شرع اور اپنے علومِ غیب دونوں پر عمل و حکم کا رب عزوجل نے اختیار دیا ہے۔ اور امام قرطبی نے اجماعِ علماء نقل فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو اختیار ہے کہ محض اپنے علم کی بناء پر قتل کا حکم فرمادیں اگرچہ گواہ شاید کچھ نہ ہو ، اور حضور کے سوا دوسرے کو یہ اختیار نہیں، تو اگر اس نماز والے یا اس چور یا اس شخص کو جس پر عورت نے دھوکے سے تہمت رکھی تھی قتل کا حکم فرمائیں تو یقیناً وہ حضور کے علومِ غیب ہی پر مبنی ہے نہ کہ ان کا نافی۔ کیوں وہابیو! اب تو اپنی اوندھی مَت پر مطلع ہوئے۔ فانی تؤفکون ( تو کہا اوندھے جاتے ہو۔ت)
مسلمانو! وہابیہ کے مطلب پر بھی غور کیا، حکم کے دو ہی منبے ہوئے، یا ظاہر شرع یا باطنی علومِ غیب ، ظاہر ہے کہ یہاں ظاہر کی رُو سے تو اصلاً حکم رجم کی گنجائش نہ تھی، نہ ملزم کا اقرار نہ اصلاً کوئی گناہ، صرف مدعی کا غلط دعوٰی سن کر قتل کا حکم فرمادیں۔ نبی کی شان تو ارفع و اعلٰی ہے۔ آج کل کا کوئی عالم نہ عالم کوئی جاہل حاکم ہی ایسا کر بیٹھے تو ہر عاقل اسے یا سخت جاہل یا پکا ظالم کہے تو حدیث صحیح مان کر راہ نہ تھی مگر اسی طرف کہ حضور نے بربنائے تہمت ہر گز یہ حکم نہ دیا بلکہ بزعمِ خود اسی کے ابطال کو یہ حدیث لائے ہیں، تو اب سمجھ لیجئے کہ ان کا مطلب کیا ہوا اور انہوں نے تمہارے پیارے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر کیسا بھاری الزام قائم کیا۔ کیوں نہ ہو عداوت کایہی مقتضیٰ ہے۔
قد بدت البغضاء من افواھم وما تخفی صدور ھم اکبر قد بینا لکم الایت ان کنتم تعقلون ۱ والذین یؤذون رسول اﷲ لھم عذاب الیم ۲ رب اعوذبک من ھمزات الشیطٰن واعوذبک رب ان یحضرون ۳
وصلی اللہ تعالٰی علیہ سیدنا و مولانا محمد واٰلہ وصحبہ اجمعین و اٰخر دعوٰنا ان الحمدﷲ رب العالمین، واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم وعلم مجدہ اتم و احکم
بیرَان کی باتوں سے جھلک اُٹھا اور وہ جو سینے میں چھپائے ہیں بڑا ہے ہم نے نشانیاں تمہیں کھول کر سُنا دیں اگر تمہیں عقل ہو۔ اور جو رسول اﷲ کو ایذا دیتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ اے میرے رب تیری پناہ شیطانوں کے وسوسوں سے اور اے میرے رب تیری پناہ کہ وہ میرے پا س آئیں۔ اور اﷲ درود نازل فرمائے ہمارے آقا و مولٰی محمد مصطفٰی پر، آپ کی آل اور آپ کے تمام صحابہ پر۔ اور ہماری دعا کا خاتمہ یہ ہے کہ سب خوبیوں سراہا اﷲ جو رب ہے سارے جہان کا، ا ور اﷲ سبحنہ و تعالٰی خوب جانتا ہے، اور اس کا علم اتم و احاکم ہے۔(ت)
(۱ القرآن الکریم ۳ /۱۱۸ ) (۲ القرآن الکریم ۹/ ۶۱ ) (۳ القرآن الکریم ۲۳/ ۹۷ و ۹۸ )
رسالہ ” ازاحۃ العیب بسیف الغیب” ختم ہوا۔