اولیائے کرام کا بیان, ایمان و کفر کا بیان, تفضیلیت, تقلید, رافضِت, صحابہ و اہل بیت علیہم الرضوان, عقائد متعلقہ ذات و صفات الٰہی, عقائد متعلقہ نبوت, عقائد و کلام, فتاوی رضویہ, متفرق عقائد اہل سنت, مشاجرات صحابہ

ہر سنی کیلیے بے حد ضروری10 عقیدے منجانب اعلی حضرت

رسالہ
اعتقاد الاحباب فی الجمیل والمصطفٰی والال والاصحاب(۱۲۹۸ھ)
(احباب کا اعتقاد جمیل (اﷲ تعالٰی) مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ، آپ کی آل اور اصحاب کے بارے میں):
عقیدہ اُولٰی________________ذات و صفات باری تعالٰی

حضرت حق سبحانہ و تبارک و تعالٰی شانہ واحد ہے۔(اپنی ربوبیت والوہیت میں، کوئی اس کا شریک نہیں، وہ یکتا ہے اپنے افعال میں، مصنوعات کو تنہا اسی نے بنایا۔ وہ اکیلا ہے اپنی ذات میں کوئی اس کا قسیم نہیں۔ بیگانہ ہے اپنی صفات میں۔ کوئی اس کا شبیہ نہیں۔ ذات و صفات میں یکتا و واحد مگر ) (عہ۱) نہ عدد سے ( کہ شمار و گنتی میں آسکے اور کوئی اس کا ہم ثانی و جنس کہلاسکے تو اﷲ کے ساتھ، اس کی ذات و صفات میں،شریک کا وجود ، محض وہم انسانی کی ایک اختراع وایجاد ہے)

عہ: عرضِ مرتّب : امام اہلسنت امام احمد رضا خاں صاحب قادری برکاتی بریلوی قدس سرہ کے رسالہ مبارکہ اعتقادلاحباب کی زیارت و مطالعہ سے یہ فقیر جب پہلی بار حال ہی میں شرفیاب ہوا تو معاً خیال آیا کہ بتوفیقہ تعالٰی اسے نئی ترتیب اور اجمالی تفصیل کے ساتھ عامۃ الناس تک پہنچایا جائے تو ان شاء اﷲ تعالٰی اس سے عوام بھی فیض پائیں ۔ نصرت الہٰی کے بھروسا پر قدم اٹھایا اور بفیضانِ اساتذہ کرام نہایت قلیل مدت میں اپنی مصروفیات کے باوجود کامیابی سے سرفراز ہوا۔

میں اپنے مقصد میں کہاں تک کامیاب ہوا، اس کا فیصلہ آپ کریں گے، اور میری کوتاہ فہمی و قصور علمی آپ کے خیال مبارک میں آئے تو اس سے اس ہمیچمداں کو مطلع فرمائیں گے۔
اور اس حقیقت کے اظہار میں یہ فقیر فخر محسوس کرتا ہے کہ اس رسالہ مبارکہ میں حاشیے بین السطور اور تشریح مطالب ( جو اصل عبارت سے جدا، قوسین میں محدود ہے، اور اصل عبارت خط کشیدہ) جو کچھ پائیں گے وہ اکثر و بیشتر مقامات پر اعلٰیحضرت قدس سرہ ہی کے کتب ورسائل اور حضرت استاذی و استاذ العلماء صدرالشریعۃ مولنٰا الشاہ امجد علی قادری برکاتی رضوی اعظمی رحمۃ اﷲ علیہ کی مشہورِ زمانہ کتاب بہارِ شریعت سے ماخوذ ملتقط ہے۔
امید ہے کہ ناظرین کرام اس فقیر کو اپنی دعائے خیر میں یاد فرماتے رہیں گے کہ سفرِ آخرت درپیش ہے اور یہ فقیر خالی ہاتھ ، خالی دامن، بس ایک انہیں کا سہارا ہے اور ان شاء اﷲ تعالٰی وہی بگڑی بنائیں گے ورنہ ہم نے تو کمائی سب عیبوں میں گنوائی ہے۔ والسلام،
العبدمحمد خلیل خاں قادری البرکاتی المارہروی عفی عنہ۔

خالق ہے۔ ( ہر شے کا، ذوات ہوں خواہ افعال، سب اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں) نہ علت سے ( اس کے افعال نہ علت و سبب کے محتاج ، نہ اس کے فعل کے لیے کوئی غرض ، کہ غرض اس فائدہ کو کہتے ہیں جو فاعل کی طرف رجوع کرے اور نہ اس کے افعال کے لیے غایت ، کہ غایت کا حاصل بھی وہی غرض ہے۔ فعال ہے( ہمیشہ جو چاہے کرلینے والا) نہ جوارح ( وآلات) سے ( جب کہ انسان اپنے ہر کام میں اپنے جوارح یعنی اعضائے بدن کا محتاج ہے۔ مثلاً علم کے لیے دل و دماغ کا۔ دیکھنے اور سننے کے لیے آنکھ ، کان کا، لیکن خداوند قدوس کہ ہر پست سے پست آواز کو سنتا اور ہر باریک سے باریک کو کہ خوردبین سے محسوس نہ ہو دیکھتا ہے، مگر کان آنکھ سے اس کا سننا دیکھنا اور زبان سے کلام کرنا نہیں کہ یہ سب اجسام ہیں۔ اور جسم و جسمانیت سے وہ پاک) قریب ہے۔( اپنے کمالِ قدرت و علم ورحمت سے) نہ (کہ) مسافت سے( کہ اس کا قرب ماپ و پیمائش میں سما سکے) ملک ( وسلطان و شہنشاہ زمین و آسمان ) ہے مگر بے وزیر ( جیسا کہ سلاطین دنیا کے وزیر باتدبیر ہوتے ہیں کہ اس کے امورِ سلطنت میں اس کا بوجھ اٹھاتے اور ہاتھ بٹاتے ہیں۔) والی ( ہے۔ مالک و حاکم علی الاطلاق ہے۔ جو چاہے اور جیسا چاہے کرے مگر) بے مشیر ( نہ کوئی اس کو مشورہ دینے والا۔ نہ وہ کسی کے مشورہ کا محتاج، نہ کوئی اس کے ارادے سے اسے باز رکھنے والا۔ ولایت، ملکیت ، مالکیت ، حاکمیت، کے سارے اختیارات اسی کو حاصل، کسی کو کسی حیثیت سے بھی اس ذات پاک پر دسترس نہیں، ملک و حکومت کا حقیقی مالک کہ تمام موجودات اس کے تحتِ ملک و حکومت ہیں، اور اس کی مالکیت و سلطنت دائمی ہے جسے زوال نہیں) حیات و کلام و سمع و بصر و ارادہ و قدرت و علم ( کہ اس کے صفات ذاتیہ ہیں اور ان کے علاوہ تکوین و تخلیق و رزاقیت یعنی مارنا، جِلانا، صحت دنیا، بیمار کرنا، غنی کرنا، فقیر کرنا، ساری کائنات کی ترتیب فرمانا اور ہر چیز کو بتدریج اس کی فطرت کے مطابق کمالِ مقدار تک پہنچانا، انہیں ان کے مناسبِ احوال روزی رزق مہیا کرنا) وغیرہا( صفات جن کا تعلق مخلوق سے ہے اور جنہیں صفاتِ اضافیہ اور صفاتِ فعلیہ بھی کہتے ہیں اور جنہیں صفات تخلیق و تکوین کی تفصیل سمجھنا چاہیے ، اور صفاتِ سلبیہ یعنی وہ صفات جن سے اللہ تعالٰی کی ذات منزہ اور مبرّا ہے، مثلاً وہ جاہل نہیں عاجز نہیں، بے اختیار و بے بس نہیں، کسی کے ساتھ متحد نہیں جیسا کہ برف پانی میں گھل کر ایک ہوجاتا ہے، غرض وہ اپنی صفاتِ ذاتیہ ، صفاتِ اضافیہ اور صفات سلبیہ) تمام صفات کمال سے ازلاً ابداً موصوف ( ہے، اور جس طرح اس کی ذات قدیم ازلی ابدی ہے اس کی تمام صفات بھی قدیم ازلی ابدی ہیں، اور ذات و صفات باری تعالٰی کے سوا سب چیزیں حادث و نوپید، یعنی پہلے نہ تھیں پھر موجود ہوئیں، صفات الہٰی کو جو مخلوق کہے یا حادث بتائے گمراہ بے دین ہے۔ اس کی ذات و صفات) تمام شیون ( تمام نقائص تمام کوتاہیوں سے) وشین و عیب ( ہر قسم کے نقص ونقصان) سے اوّلاً و آخراً بری( کہ جب وہ مجتمع ہے تمام صفات کمال کا جامع ہے ہر کمال و خوبی کا، تو کسی عیب کسی نقص، کسی کوتاہی کا اس میں ہونا محال، بلکہ جس بات میں نہ کمال ہو نہ نقصان وہ بھی اس کے لیے محال)

ذات پاک اس کی نِدّوضد ( نظیر و مقابل) شبیہ و مثل ( مشابہ و مماثل ) کیف و کم ( کیفیت و مقدار) شکل و جسم و جہت و مکان و امد (غایت وانتہا اور) زمان سے منزّہ ( جب عقیدہ یہ ہے کہ ذات باری تعالٰی قدیم ازلی ابدی ہے اور اس کی تمام صفات بھی قدیم ازلی ابدی ہیں تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وہ ان تمام چیزوں سے جو حادث ہیں یا جن میں مکانیت ہے یعنی ایک جگہ سے دوسری طرف نقل و حرکت ، یا ان میں کسی قسم کا تغیر پایا جانا، یا اس کے اوصاف کا متغیر ہونا، یا اس کے اوصاف کا مخلوق کے اوصاف کے مانند ہونا، یہ تمام امور اس کے لیے محال ہیں ، یا یوں کہئے کہ ذاتِ باری تعالٰی ان تمام حوادث وحوائج سے پاک ہے جو خاصہ بشریت ہیں) نہ والد ہے نہ مولود ( نہ وہ کسی کا باپ ہے نہ کسی کا بیٹا، کیونکہ کوئی اس کا مجالس وہم جنس نہیں، اور چونکہ وہ قدیم ہے اور پیدا ہونا حادث و مخلوق کی شان ) نہ کوئی شے اس کے جوڑ کی ( یعنی کوئی اس کا ہمتا کوئی اس کا عدیل نہیں۔ مثل و نظیر و شبیہ سے پاک ہے اور اپنی ربوبیت والوہیت میں صفاتِ عظمت و کمال کے ساتھ موصوف)

اور جس طرح ذات کریم اس کی، مناسبتِ ذوات سے مبّرا اسی طرح صفاتِ کمالیہ اس کی ، مشابہت صفات سے معرّا ( اس کا ہر کمال عظیم اور ہر صفت عالٰی، کوئی مخلوق کیسی ہی اشرف و اعلٰی ہو اس کی شریک کسی حیثیت سے ، کسی درجہ میں نہیں ہوسکتی)

مسلمان پر لا الہٰ الاّ اﷲ ماننا، اﷲ سبحانہ وتعالٰی کو احد، صمد، لاشریک لہ جاننا فرض اول و مدار ایمان ہے کہ اﷲ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں، نہ ذات میں کہ لا الٰہ الا اﷲ ( اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں) نہ صفات میں کہ لیس کمثلہ شیئ ۔۱؂ اس جیسا کوئی نہیں، نہ اسماء میں کہ ھل تعلم لہ سمیّا ۔۲؂ کیا اس کے نام کا دوسرا جانتے ہو؟ نہ احکام میں کہ ولا یشرک فی حکمہ احدا ۔۳؂ اور وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا، نہ افعال میں کہ ھل من خالق غیر اﷲ ۔۴؂ کیا اﷲ کے سوا کوئی اور خالق ہے، نہ سلطنت میں کہ ولم یکن لہ شریک فی الملک ۔۵؂ اور بادشاہی میں کوئی اس کا شریک نہیں، تو جس طرح اس کی ذات اور ذاتوں کے مشابہ نہیں یونہی اس کی صفات بھی صفاتِ مخلوق کے مماثل نہیں۔

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۴۲/ ۱۱ )( ۲ ؎القرآن الکریم ۱۹/ ۶۵)( ۳ ؎القرآن الکریم ۱۸/ ۲۶ )( ۴ ؎ القرآن الکریم ۳۵/ ۳)( ۵ ؎القرآن الکریم ۲۵/ ۲)

اور یہ جو ایک ہی نام کا اطلاق اس پر اور اس کی کسی مخلوق پر دیکھا جاتا ہے جیسے علیم ، حکیم، کریم ، سمیع ، بصیر اور ان جیسے اور، تو یہ محض لفظی موافقت ہے نہ کہ معنوی شرکت، اس میں حقیقی معنی میں کوئی مشابہت نہیں ولہذا مثلاً) اوروں کے علم وقدرت کو اس کے علم وقدرت سے ( محض لفظی یعنی) فقط ع ، ل، م، ق، د، ر، ت میں مشابہت ہے۔(نہ کہ شرکت معنوی) اس (صوری و لفظی موافقت) سے آگے ( قدم بڑھے تو) اس کی تعالٰی وتکبّر (برتری و کبریائی ) کا سرا پردہ کسی کو بار نہیں دیتا۔( اور کوئی اس شاہی بارگاہ کے اردگرد بھی نہیں پہنچ سکتا۔

پرندہ وہاں پر نہیں مارسکتا کوئی اس میں دخل انداز نہیں) تمام عزتیں اس کے حضور پست (فرشتے ہوں یا جِن یا انسان یا اور کوئی مخلوق ، کوئی بھی اس سے بے نیاز نہیں، سب اس کے فضل کے محتاج ہیں، اور زبانِ حال وقال سے اپنی پستیوں ، اپنی احتیاجوں کے معترف اور اس کے حضور سائل ، اس کی بارگاہِ میں ہاتھ پھیلائے ہوئے ، اور ساری مخلوقات چاہے ، وہ زمینی ہوں یا آسمانی اپنی اپنی حاجتیں اور مرادیں اسی حق تعالٰی سے طلب کرتی ہیں) اور سب ہستیاں اس کے آگے نیست ( نہ کوئی ہستی ہستی ، نہ کوئی وجود وجود)

کل شیئ ھالک الاّوجھہ ۔۱؂ ( بقا صرف اس کی وجہ کریم کے لیے ہے باقی سب کے لیے فنا، باقی باقی، باقی فانی)

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۲۸/ ۸۸)

وجود واحد ( اسی حّی وقیوم ازلی ابدی کا) موجود واحد ( وہی ایک حی و قیوم ازلی ابدی) باقی سب اعتبارات ہیں (اعتبار کیجئے تو موجود ورنہ محض معدوم) ذراتِ اکوان ( یعنی موجودات کے ذرہ ذرہ) کو اس کی ذات سے ایک نسبت مجہولۃ الکیف ہے۔(نامعلوم الکیفیت) جس کے لحاظ سے من و تو ( ماوشماو ایں وآں) کو موجود و کائن کہا جاتا ( اور ہست و بود سے تعبیر کیا جاتا) ہے۔ ( اگر اس نسبت کا قدم درمیان سے اٹھالیں۔ ہست، نیست اور بود، نابود ہوجائے، کسی ذرہ موجود کا وجود نہ رہے کہ اس پر ہستی کا اطلاق ) روا ہو۔ ) اور اس کے آفتاب وجود کا ایک پر تو ( ایک ظل، ایک عکس، ایک شعاع ہے کہ کائنات کا ہر ذرّہ نگاہِ ظاہر میں جلوہ آرائیاں کررہا ہے۔ ( اور اس تماشا گاہِ عالم کے ذرہ ذرہ سے اس کی قدرتِ کاملہ کے جلوے ہویدا ہیں) اگر اس نسبت و پرتو سے ( کہ ہر ذرہ کون و مکان کو اس آفتاب و جود حقیقی سے حاصل ہے) قطع نظر کی جائے ( اور ایک لحظہ کو اس سے نگاہ ہٹالی جائے ) تو عالم ایک خوابِ پریشان کا نام رہ جائے، ہو کا میدان عدمِ بحت کی طرح سنسان ( محض معدوم و یکسر و یران ، تو مرتبہ وجود میں صرف ایک ذاتِ حق ہے باقی سب اسی کے پر تو وجود سے موجود ہیں، مرتبہ کون میں نور ابدی آفتاب ہے، اور تمام عالم اس کے آئینے اس نسبتِ فیضان کا قدم، درمیان سے نکال لیں تو عالم دفعۃً فنائے محض ہوجائے کہ اسی نور کے متعدد پرتووں نے بے شمار نام پائے ہیں، ذات باری تعالٰی واحد حقیقی ہے، تغیرو اختلاف کو اصلاً اس کے سرا پر دہ عزت کے گرد بار نہیں۔ پر مظاہر کے تعدد سے یہ مختلف صورتیں، بے شمار نام، بے حساب آثار پیداہیں، نورِاحدیت کی تابش غیر محدود ہے۔ اور چشم جسم و چشم عقل دونوں وہاں نابینا ہیں، اور اس سے زیادہ بیان سے باہر، عقل سے وراء ہے۔)

موجود واحد ہے نہ وہ واحد جو چند ( ابعاض واجزاء) سے مل کر مرکب ہوا ( اورشے واحد کا نام اس پر رواٹھہرا) نہ وہ واحد جو چند کی طرف تحلیل پائے ( جیسا کہ انسانِ واحد یا شَے واحد کہ گوشت پوست و خون واستخوان وغیرہا اجزاء وابعاض سے ترکیب پا کر مرکب ہوا اور ایک کہلایا اور اس کی تحلیل و تجزی اور تجزیہ، انہیں اعضاء واجزاء وابعاض کی طرف ہوگا جن سے اس نے ترکیب پائی اور مرکب کہلایا کہ یہی جسم کی شان ہے، اور ذاتِ باری تعالٰی عزشانہ جسم و جسمانیات سے پاک و منزہ ہے۔) نہ وہ واحد جو بہ تہمت حلول عینیّت ( کہ اس کی ذات قدسی صفات پر یہ تہمت لگائی جائے کہ وہ کسی چیز میں حلول کیے ہوئے یا اس میں سمائی ہوئی ہے یا کوئی چیز ا سکی ذاتِ احدیت میں حلول کیے ہوئے اور اس میں پیوست ہے اور یوں معاذ اﷲ وہ) اوجِ وحدت ( وحدانیت و یکتائی کی رفعتوں ) سے حضیض اثنینیت (دوئی اور اشتراک کی پستیوں) میں اتر آئے۔ ھوولاموجود الا ھو آیۃ کریمہ سبحانہ وتعالٰی عمّا یشرکون ۔۱؂ ( پاکی اور برتری ہے اسے ان شریکوں سے ) جس طرح شرک فی الالوہیت کو رَد کرتی ہے۔( اور بتاتی ہے کہ خداوند قدوس کی خدائی اور اس معبود برحق کی الوہیت وربوبیت میں کوئی شریک نہیں۔ ھوالذی فی السماء الٰہ فی الارض الہ ۔۲؂ وہی آسمان والوں کا خدا اور وہی زمین والوں کا خدا، تو نفسِ الوہیت وربوبیت میں کوئی اس کا شریک کیا ہوتا، اس کی صفاتِ کمال میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں ۔ لیس کمثلہ شیئ ۔۳؂ اس جیسا کوئی نہیں) ( ۱ ؎ القرآن الکریم ۳۰/ ۴۰)( ۲ ؎ القرآن الکریم ۴۳/ ۸۴)( ۳ ؎ القرآن الکریم ۴۲/ ۱۱)

یونہی ( یہ آیۃ کریمہ ) اشتراک فی الوجود کی نفی فرماتی ہے( تو اس کی ذات بھی منزّہ اوراس کی تمام صفات کمال بھی مبرا ان تمام نالائق امور سے جو اہلِ شرک وجاہلیت اس کی جانب منسوب کرتے ہیں۔ حق یہ ہے کہ وجود اسی ذات برحق کے لیے ہے، باقی سب ظلال وپر تو ؎ غیرتش غیر درجہاں نہ گزاشت لاجرم عین جملہ معنی شد ( اور وحدت الوجود کے جتنے معنی اور جس قدر مفاہیم عقل میں آسکتے ہیں وہ یہی ہیں کہ وجود واحد، موجود واحد، باقی سب اسی کے مظاہر اور آئینے کہ اپنی حدِ ذات میں اصلاً وجود و ہستی سے بہرہ نہیں رکھتے ، اور حاش ثم حاش یہ معنی ہر گز نہیں کہ من و تو، ماوشما ، این وآں ، ہر شَے خدا ہے، یہ اہلِ اتحاد کا قول ہے جو ایک فرقہ کافروں کا ہے۔ اور پہلی بات مذہب ہے اہلِ توحید کا، کہ اہلِ اسلام وہ صاحبِ ایمان حقیقی ہیں)

عقیدہ ثانیہ______ سب سے اعلٰی ، سب سے اَولٰی

بایں ہمہ (کہ اُس کی ذاتِ کریم دوسری ذوات کی مناسبت سے معّرا ہے اور اس کی صفاتِ عالیہ اوروں کی صفات کی مشابہت سے مبّرا) اس نے اپنی حکمت کا ملہ ( و رحمت شاملہ) کے مطابق عالم ( یعنی ماسوی اﷲ ) کو جس طرح وہ ( اپنے علم قدیم ازلی سے ) جانتا ہے۔ ایجاد فرمایا ( تمام کائنات کو خلعت وجود بخشا۔ اپنے بندوں کو پیدا فرمایا انہیں کان، آنکھ، ہاتھ، پاؤں زبان وغیرہ عطا فرمائے اور انہیں کام میں لانے کا طریقہ الہام فرمایا ۔ پھر اعلٰی درجہ کے شریف جو ہر یعنی عقل سے ممتاز فرمایا جس نے تمام حیوانات پر انسان کا مرتبہ بڑھایا۔ پھر لاکھوں باتیں ہیں جن کا عقل ادراک نہیں کرسکتی تھی۔ لہذا انبیاء بھیج کر کتابیں اتار کرذراذرا سی بات بتادی۔ اور کسی کو عذر کی کوئی جگہ باقی نہ چھوڑی) اور مکلفین کو( جو تکلیف شرعی کے اہل، امرونہی کے خطاب کے قابل، بالغ عاقل ہیں) اپنے فضل وعدل سے دو فرقے کردیا فریق فی الجنّۃ ۔۱؂ ( ایک جنتی و ناجی، جس نے حق قبول کیا) وفریق فی السعیر۔۲؂ ( دوسرا جہنمی وہالک ، جس نے قبولِ حق سے جی چرایا۔)اور جس طرح پر تووجود ( موجود حقیقی جل جلالہ) سے سب نے بہرہ پایا( اور اسی اعتبار سے وہ ہست و موجود کہلایا) اسی طرح فریق جنت کو اس کے صفات کمالیہ سے نصیبہ خاص ملا ( دنیاو آخرت میں اس کے لیے فوزو فلاح کے دروازے کھلے اور علم و فضل خاص کی دولتوں سے اس کے دامن بھرے) دبستان ( مدرسہ) علّمک مالم تکن تعلم ۔۳؂ ( اور دارالعلوم علّم الانسان مالم یعلم ۴ ؎ ( میں تعلیم فرمایا ( کہ جو کچھ وہ نہ جانتا تھا اُسے سکھایا پھر) وکان فضل اﷲ علیک عظیما۔۵؂ نے اوررنگ آمیزیاں کیں( کہ اللہ تعالٰی کا فضل عظیم اس پر جلوہ گستر رہا،

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۴۲ / ۷ ) ( ۲ ؎ القرآن الکریم ۴۲/ ۷)( ۳ ؎ القرآن الکریم ۴/ ۱۱۳ )( ۴ ؎ القرآن الکریم ۹۶/ ۵)( ۵ ؎القرآن الکریم ۴/ ۱۱۳ )

مولائے کریم نے گونا گوں نعمتوں سے اسے نوازا۔ بے شمار فضائل و محاسن سے اسے سنوارا۔ قلب وقالب ، جسم و جاں، ظاہر و باطن کو رذائل اور خصائل قبیحہ مذمومہ سے پاک صاف اور محامد و اخلاق حسنہ سے اسے آراستہ و پیراستہ کیا۔ اور قرُبِ خداوندی کی راہوں پر اُسے ڈال دیا) اور یہ سب تصدق (صدقہ و طفیل ) ایک ذات جامع البرکات کا تھا جسے اپنا محبوب خاص فرمایا۔ ( مرتبہ محبوبیت کُبرٰی سے سرفراز فرمایا کہ تمام خلق حتّٰی کہ نبی و مرسل و ملک مقرب جویائے رضائے الہٰی ہے اور وہ ان کی رضا کا طالب )

مرکز دائرہ ( کُن) و دائرہ مرکز کاف ونون بنایا، اپنی خلافت کا ملہ کا خلعتِ رفیع المنزلت اُس کے قامتِ موزوں پر سجایا کہ تمام افرادِ کائنات اس کے ظل ظلیل ( سایہ ممدورافت) اور ذیل جلیل ( دامن معمور رحمت) میں آرام کرتے ہیں۔ اعاظم مقربین ( کہ اُس کی بارگاہِ عالی جاہ میں قربِ خاص سے مشرف ہیں) ( ان ) کو ( بھی) جب تک اس مامن جہاں ( پناہ گاہِ کون و مکان) سے توسّل نہ کریں ( انہیں اس کی جناب والا میں وسیلہ نہ بنائیں) بادشاہ ( حقیقی عزّ اسمہ وجل مجدہ) تک پہنچناممکن نہیں کنجیاں، خزائنِ علم و قدرت، تدبر و تصرف کی، اس کے ہاتھ میں رکھیں ، عظمت والوں کو مہ پارے ( چاند کے ٹکڑے ، روشن تارے ) اور اس کو اس نے آفتاب عالم تاب کیا کہ اس سے اقتباس انوار کریں ( عرفان و معرفت کی روشنیوں سے اپنے دامن بھریں) اور اس کے حضور انا زبان پر ( اور اپنے فضائل و محاسن، ان کے مقابل ، شمار میں) نہ لائیں اس ( محبوب اجل و اعلٰی) کے سراپردہ عز ت و اجلال کو وہ عزت و رفعت بخشی کہ عرش عظیم جیسے ہزاراں ہزار اس میں یوں گم ہوجائیں جیسے بیدائے ناپیدا کنار ( وسیع و عریض بیابان، جس کا کنارہ نظر نہ آئے اس) میں ایک شلنگ ذرہ کم مقدار( کہ لق و دق صحرا میں اس کی اُڑان کی کیا وقعت اور کیا قدرت و منزلت)

علم وہ وسیع و غزیر ( کثیر درکثیر) عطا فرمایا کہ علومِ اوّلین و آخرین اس کے بحر علوم کی نہریں یا جوشش فیوض کے چھینٹے قرار پائے ( شرق تا غرب، عرش تا فرش انہیں دکھایا، ملکوت السموٰت والارض کا شاہد بنایا) روزِ اوّل سے روزِ آخر تک کا، سب ماکان ومایکون انہیں بتایا) ازل سے ابد تک تمام غیب وشہادت ( غائب و حاضر) پر اطلاع تام ( وآگاہی تمام انہیں ) حاصل، الا ماشاء اﷲ ( اور ہنوز ان کے احاطہ علم میں وہ ہزار در ہزار، بے حدو بے کنار سمندر لہرا رہے ہیں جن کی حقیقت وہ جانیں یا اُن کا عطا کرنے والا اُن کا مالک و مولٰی جل و علا) بصر (و نظر) وہ محیط ( اور اس کا احاطہ اتنا بسیط) کہ شش جہت مقابل ( کہ بصارت کو ان پر اطلاع تام حاصل) دنیا اس کے سامنے اٹھالی کہ تمام کائنات تا بروزِ قیامت ، آنِ واحد میں پیش نظر ( تو وہ دنیا کو اور جوکچھ دنیا میں قیامت تک ہونے والا ہے سب کو ایسے دیکھ رہے ہیں جیسے اپنی ہتھیلی کو، اور ایمانی نگاہوں میں نہ یہ قدرت الہی پر دشوار نہ عزت ووجاہت انبیاء کے مقابل بسیار) سمع والا کے نزدیک پانچ سو برس راہ کی صدا جیسے کان پڑی آواز ہے اور ( بعطائے قادرِ مطلق) قدرت ( و اختیارات ) کا تو کیا پوچھنا، کہ قدرت قدیر علی الاطلاق جل جلالہ کی نمونہ و آئینہ ہیں ، عالم علوی و سفلی ( اقطار و اطرافِ زمین و آسمان) میں اس کا حکم جاری۔ فرمانروائی کن کو اس کی زباں کی پاسداری ، مردہ کو قم کہیں ( کہ بحکم الہی کھڑا ہوجا تو وہ) زندہ اور چاند کو اشارہ کریں (تو) فوراً دو پارہ ہو۔ جو ( یہ ) چاہتے ہیں خدا وہی چاہتا ہے کہ یہ وہی چاہتے ہیں جو خدا چاہتا ہے۔

منشورِ خلافت مطلقہ ( تامہ ، عامہ، شاملہ، کاملہ) و تفویض تام کا فرمان شاہی) ان کے نام نامی ( اسم گرامی) پر پڑھا گیا اور سکہ و خطبہ ان کا ملاء ادنی سے عالمِ بالا تک جاری ہوا۔ ( تو وہ اللہ عزوجل کے نائب مطلق ہیں اور تمام ماسوی اللہ تمام عالم ان کے تحت تصرف ان کے زیر اختیار، ان کے سپرد کہ جو چاہیں کریں جسے جو چاہیں دیں اور جس سے جو چاہیں واپس لیں تمام جہان میں کوئی ان کا پھیرنے والا نہیں اور ہاں کوئی کیونکر ان کا حکم پھیر سکے کہ حکم الہی کسی کے پھیرے نہیں پھرتا۔ تمام جہان ان کا محکوم اور تمام آدمیوں کے وہ مالک ، جو انہیں اپنا مالک نہ جانے حلاوتِ سنت سے محروم مل۔ ملکوت السموات والارض ان کے زیر فرمان، تمام زمین اُن کی ملک اور تمام جنت ان کی جاگیر) دنیا ودیں میں جو جسے ملتا ہے ان کی بارگاہِ عرش اشتباہ سے ملتا ہے۔ ( جنت و نار کی کنجیاں دستِ اقدس میں دے دی گئیں۔ رزق و خیر اور ہر قسم کی عطائیں حضور ہی کے دربار سے تقسیم ہوتی ہیں۔ دنیا و آخرت حضور ہی کی عطا کا ایک حصہ ہے۔ ؎

فانّ من جودک الدنیا و ضرّتھا ۔۱؂ ( بے شک دُنیا وآخرت آپ کے جودو سخا سے ہے)

(۱؂ مجموع المتون قصیدۃ بردۃ فی مدحہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الشئون الدینیہ دولۃ قطر ص ۱۰)

تو تمام ماسوی اﷲ نے جو نعمت، دنیاوی و اخروی ، جسمانی یا روحانی، چھوٹی یا بڑی پائی انہیں کے دستِ عطا سے پائی۔ انہیں کے کرم ، انہیں کے طفیل ، انہیں کے اسطے سے ملی۔ اللہ عطا فرماتا ہے اور ان کے ہاتھوں ملا، ملتا ہے اور ابدالاباد تک ملتا رہے گا جس طرح دین و ملت ، اسلام و سنت ، صلاح و عبادت ، زہد و طہارت اور علم و معرفت ساری دینی نعمتیں ان کی عطا فرمائی ہوئی ہیں۔ یونہی مال و دولت ، شفاء و صحت، عزت و رفعت اور فرزند و عشرت یہ سب دنیاوی نعمتیں بھی انہیں کے دستِ اقدس سے ملی ہیں۔

قال الرضا : ؎ بے ان کے واسطے کے خدا کچھ عطا کرے حاشا غلط غلط، یہ ہوس بے بصر کی ہے ۱؎

قال الرضا : ؎
بے ان کے واسطے کے خدا کچھ عطا کرے حاشا غلط غلط، یہ ہوس بے بصر کی ہے ۱؎

وقال الفقیر ؎
بے اُن کے توسُل کے، مانگے بھی نہیں ملتا بے اُن کے توسط کے، پرسش ہے نہ شنوائی

وہ بالا دست حاکم کہ تمام ماسوی اﷲ ان کا محکوم اور ان کے سوا عالم میں کوئی حاکم نہیں۔(ملکوت السمٰوات والارض میں ان کا حکم جاری ہے، تمام مخلوقِ الہی کو ان کے لیے حکمِ اطاعت و فرمانبرداری ہے وہ خدا کے ہیں، اور جو کچھ خدا کا ہے سب ان کا ہے۔ ؎
میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا ، تیرا ؎۲

( ۱ ؎ حدائقِ بخشش حاضری بارگاہ بہیں جائے حصہ اول مکتبہ رضویہ کراچی ص ۹۴)
( ۲ ؎ حدائق بخشش وصل اول درنعت رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حصہ اول مکتبہ رضویہ کراچی ص ۲)

جو سر ہے اُن کی طرف جھکا ہوا، اور جو ہاتھ ہے وہ ان کی طرف پھیلا ہوا۔)
سب اُن کے محتاج اور وہ خدا کے محتاج ( وہی بارگاہِ الہی کے وارث ہیں اور تمام عالم کو انہیں کی وساطت سے ملتا ہے ) قرآن عظیم ان کی مدح وستائش کا دفتر ( اور ) نام ان کا ہر جگہ نامِ الہٰی کے برابر ۔ ؎

ورفعنالک ذکر کا ہے سایہ تجھ پر ذکر اونچا ہے ترا، بول ہے بالا تیرا ۔۳؂

( ۳ ؎ حدائق بخشش وصل چہارم ، درمنافحت اعداء الخ حصہ اول مکتبہ رضویہ کراچی ص ۹)

احکامِ تشریعیہ، شریعت کے فرامین، اوامرو نواہی سب ان کے قبضہ میں، سب ان کے سپرد، جس بات میں جو چاہیں اپنی طرف سے فرمادیں، وہی شریعت ہے، جس پر جو چاہیں حرام فرمادیں، اور جس کے لیے جو چاہیں حلال کردیں، اور جو فرض چاہیں معاف فرمادیں وہی شرع ہے، غرض وہ کارخانہ الہی کے مختارِ کل ہیں، اور خُسر و ان عالم اس کے دستِ نگرو محتاج)

( وہ کون؟ ) اعنّی سیّدالمرسلین ( رہبرِ رہبراں) ، خاتم النبیین ( خاتم پیغمبراں) رحمۃ للعلمین ( رحمتِ ہر دو جہاں) ، شفیع المذنبین ( شافع خطا کاراں ،) قائد الغر المحجلین ( ہادی نوریاں و روشن جبیناں) ، سرّ اﷲ المکنون ( رب العزت کا راز سربستہ) دُرّ اﷲ المخزون ( خزانہ الہٰی کا موتی، قیمتی و پوشیدہ) سرور القلب المحزون (ٹوٹے دلوں کا سہارا ) عالم ماکان وماسیکون ( ماضی و مستقبل کا واقف کار) تاج الاتقیاء ( نیکو کاروں کے سر کا تاج) نبی الانبیاء ( تمام نبیوں کا سرتاج ) محمّدن (المصطفٰی) رسول رب العالمین صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلی اٰلہ وصحبہ وبارک وسلم الٰی یوم الدین ۔

بایں ہمہ ( فضائل جمیلہ و فواضل جلیلہ و محاسنِ حمیدہ و محامد محمودہ وہ ) خدا کے بندہ و محتاج ہیں ( اور یسئلہ من فی السمٰوٰت والارض ۱؂ کے مصداق ۔حاش ﷲ کہ عینیت یا مثلیت کا گمان ( تو گمان یہ وہم بھی ان کی ذاتِ کریمہ ، ذاتِ الہی عزشانہ کی عین یا اس کے مثل و مماثل یا شبیہ و نظیر ہے) کافر کے سوا مسلمان کو ہوسکے۔ خزانہ قدرت میں ممکن۔( وحادث و مخلوق) کے لیے جو کمالات متصور تھے ( تصور و گمان میں آسکتے تھے یا آسکتے ہیں) سب پائے کہ دوسری کو ہم عنانی ( و ہمسری اور ان مراتبِ رفیعہ میں برابری) کی مجال نہیں، مگر دائرہِ عبدیت وافتقار ( بندگی و احتیاج) سے قدم نہ بڑھا، نہ پڑھا سکے۔ العظمۃ ﷲ خدائے تعالٰی سے ذات و صفات میں مشابہت ( و مماثلت) کیسی۔ ( اس سے مشابہ و مماثل ہونے کا شبہ بھی اس قابل نہیں کہ مسلمان کے دل ایمان منزل میں اس کا خطرہ گزر سکے، جب کہ اہل حق کا ایمان ہے کہ حضور اقدس سرور عالم عالم اعلم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم ان احساناتِ الہی کا جو بارگاہِ الہی سے ہر آن، ہر گھڑی ، ہر لحظہ، ہر لمحہ ان کی بارگاہِ بیکس پناہ پر مبذول رہتے ہیں، ان انعامات اور ان ) نعمائے خداوندی کے لائق جو شکر و ثناء ہے اسی پورا پورا بجا نہ لاسکے نہ ممکن کہ بجالائیں کہ جو شکر کریں وہ بھی نعمت آخر موجب شکر دیگر الٰی مالا نھایۃ لہ نعم وافضال خداوندی ( ربّانی نعمتیں اور بخششیں خصوصاً آپ پر) غیر متناہی ہیں۔ ان کی کوئی حدو نہایت نہیں، انہیں کوئی گنتی و شمار میں نہیں لاسکتا۔ قال اﷲ تعالٰی وللاخرۃ خیر لک من الاولٰی ۔۲؂ ( اے نبی بے شک ہر آنے والا لمحہ تمہارے لیے گزرے ہوئے لمحہ سے بہتر ہے اور ساعت بساعت آپ کے مراتبِ رفیعہ ترقیوں میں ہیں)مرتبہ قاب قوسین او ادنٰی۱؂ ( ۱ ؎ القرآن الکریم ۵۵/ ۲۹) (۲ ؎ القرآن الکریم ۹۳/ ۴) ( ۱ ؎ القرآن الکریم ۵۳/ ۹)

کا پایا ۔ ( اور یہ وہ منزل ہے کہ نہ کسی نے پائی اور نہ کسی کے لیے ممکن ہے اس تک رسائی وہ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ شب اسرٰی مجھے میرے رب نے اتنا نزدیک کیا کہ مجھ میں اور اس میں دو کمانوں بلکہ اس سے بھی کم کا فاصلہ رہ گیا۔) ۔۲؂ قسم کھانے کو فرق کا نام رہ گیا۔؎
کمانِ امکاں کے جھوٹے نقطو! تم اول آکر کے پھیر میں ہو
محیط کی چال سے تو پوچھو کدھر سے آئے، کدھر گئے تھے ۔۳؂
دیدارِ الہٰی بچشم سر دیکھا، کلامِ الہی بے واسطہ سُنا،( بدن ا قدس کے ساتھ، بیداری میں، اوریہ وہ قرب خاص ہے کہ کسی نبی مرسل و ملک مقرب کو بھی نہ کبھی حاصل ہوا اور نہ کبھی حاصل ہو)

( ۲ ؎ صحیح البخاری کتاب التوحید باب قول اﷲ تعالٰی و کلم اﷲ موسٰی تکلیما قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۱۲۰)
( ۳ ؎ حدائق بخشش معراج نظم نذر گدا بحضور سلطان الانبیاء الخ حصہ اول مکتبہ رضویہ کراچی ص۱۰۵)

محملِ لیلٰی ( ادراک سے ماوراء ) کروڑوں منزل سے کروڑوں منزل ( دُور ) ( اور ) خرد خردہ میں ( عقل نکتہ دان، دقیقہ شناس) دنگ ہے۔ ( کوئی جانے تو کیا جانے اور کوئی خبر دے تو کیا خبر دے) نیا سماں ہے نیا رنگ ) ( ہوش و حواس ان وسعتوں میں گم اور دامانِ نگاہ تنگ) قُرب میں بعد ( نزدیکی میں دوری) بعد میں قرب ( دوری میں نزدیکی) وصل میں ہجر ( فرقت میں وصال ) ع
عجب گھڑی تھی کہ وصل و فرقت جنم کے بچھڑے گلے ملے تھے ۔۴؂
عقل و شعور کو خود اپنا شعور نہیں، دست و پا بستہ خود گم کردہ حواس ہے، ہوش و خرد کو خود اپنے لالے پڑے ہیں وہم و گمان دوڑیں تو کہاں تک پہنچیں، ٹھوکر کھائی اور گرے ؎
سراغ این و متٰی کہاں تھا، نشان کیف واِلٰی کہاں تھا
نہ کوئی راہی، نہ کوئی ساتھی ، نہ سنگ منزل، نہ مرحلے تھے ۔؎۵
جس راز کو اللہ جل شانہ ظاہر نہ فرمائے بے بتائے کس کی سمجھ میں آئے اور کسی بے وقار کی کیا مجال کہ درون خانہ خاص تک قدم بڑھائے)

( ۴ ؎ حدائق بخشش معراج نظم نذر گدابحضور سلطان الانبیاء الخ حصہ اول مکتبہ رضویہ کراچی ص۱۱۰)
(۵ ؎ حدائق بخشش معراج نظم نذر گدابحضور سلطان الانبیاء الخ حصہ اول مکتبہ رضویہ کراچی ص۱۱۰)

گوہر شناور دریا ( گویا موتی پانی میں تیر رہا ہے) مگر ( یوں کہ) صدف ( یعنی سیپی) نے وہ پردہ ڈال رکھا ہے کہ نم سے آشنا نہیں ( قطرہ تو قطرہ، نمی سے بھی بہرہ ور نہیں) اے جاہلِ ناداں، علم ( وکنہ حقیقت) کو علم والے پر چھوڑ اور اس میدان دشوار جو لان سے ( جس سے سلامتی سے گزر جانا جوئے شیر لانا ہے اور سخت مشقتوں میں پڑنا) سمندِ بیان ( کلام و خطاب کی تیز و طرار سواری) کی عنان ( باگ دوڑ) موڑ ( اس والا جناب کی رفعتوں ، منزلتوں اور قُربتوں کے اظہار کے لیے) زبان بند ہے پر اتنا کہتے ہیں کہ خلق کے آقا ہیں، خالق کے بندے، عبادت ( و پرستش ) ان کی کفر ( اور ناقابلِ معافی جرم) اور بے ان کی تعظیم کے حبط ( برباد ، ناقابل اعتبار، منہ پر مار دیئے جانے کے قابل) ایمان ان کی محبت و عظمت کا نام ( اور فعل تعظیم، بعد ایمان، ہر فرض سے مقدم) اور مسلمان وہ جس کا کام ہے نامِ خدا کے ساتھ ، ان کے نام پر تمام والسلام علٰی خیر الانام والال والاصحاب علی الدّوام۔

عقیدہ ثالثہ ________________صدر نشینانِ بزم عِزّ وجاہ

اس جناب عرش قباب کے بعد ( جن کے قبّہ اطہر اور گنبدِ انور کی رفعتیں عرش سے ملتی ہیں) مرتبہ اور انبیاء و مرسلین کا ہے ۔ صلوات ﷲ وسلامہ علیہم اجمعین کہ باہم ان میں تفاضل (اور بعض کو بعض پر فضیلت) مگر ان کا غیر، گو کسی مرتبہ ولایت تک پہنچے، فرشتہ ہو ( اگرچہ مقرب خواہ آدمی صحابی ہو خواہ اہلبیت ( اگرچہ مکرم تر و معظم ترین) ان کے درجے تک ( اس غیر کو ) وصول محال، جو قربِ الہٰی انہیں حاصل، کوئی اس تک فائز نہیں، اور جیسے یہ خدا کے محبوب، دوسرا ہر گز نہیں، یہ وہ صدر ( وبالا) نشینانِ بزم عزوجاہ ہیں ( اور والا مقامانِ محفل عزت و وجاہت اور مقربانِ حضرت عزت) کہ رب العالمین تبارک و تعالٰی خود ان کے مولٰی و سردار ( نبی مختار علیہ الصلوۃ والسلام الٰی یوم القرار) کو حکم فرماتا ہے: اولئٰک الذین ھدی اﷲ فبھداھم اقتدہ ۔۱؂ ( اﷲ اﷲ ۔ کوئی کیا اندازہ کرسکتاہے اس مقدس ذات برگزیدہ صفات کا جسے اس کے رب تبارک و تعالٰی نے محامد جمیلہ، محاسنِ جلیلہ، اخلاقِ حسنہ، خصائل محمودہ سے نوازا، سرِ اقدس پر محبوبیت کبرٰی کا تاج والا ابتہاج رکھا، جسے خلافتِ عظمی کا خلعت والا مرتبت پہنایا جس کے طفیل ساری کائنات کو بنایا، جس کے فیوض و برکات کا دروازہ تمام ماسوی اﷲ کو دکھایا۔ انہیں سے یہ خطاب فرمایا کہ) یہ وہ ہیں جنہیں خدا نے راہ دکھائی تو تو ان کی پیروی کر۔ اور فرماتا ہے : فاتبعوا ملّۃ ابراہیم حنیفا ۔۱؂ تو پیروی کر شریعتِ ابراہیم کی، جو سب ادیانِ باطلہ سے کنارہ کش ہو کر دین حقِ کی طرف جھک آیا۔

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۶/ ۹۰ )( ۱ ؎ القرآن الکریم ۳/ ۹۵)

(غرض انبیاء و مرسلین علیہم الصلوۃ والسلام الٰی یوم الدین میں سے ، ہر نبی ، ہر رسول بارگاہِ عزت جل مجدہ میں بڑی عزت و وجاہت والا ہے، اور اس کی شان بہت رفیع ، ولہذا ہر نبی کی تعظیم فرض عین بلکہ اصل جملہ فرائض ہے اور) ان کی ادنٰی توہین مثل سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ، کفر قطعی( ان میں سے کسی کی تکذیب و تنقیص ، کسی کی اہانت، کسی کی بارگاہ میں ادنٰی گستاخی ایسے ہی قطعاً کفر ہے جیسے خود حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی جناب پاک میں گستاخی و دریدہ دہنی ، والعیاذ باﷲ تعالی) اور کسی کی نسبت، صدیق ہوں خواہ مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہما ان ( حضرات قدسی صفات) کی خادمی و غاشیہ برادری( اطاعت و فرمانبرداری کہ یہ ان کے پیش خدمت و اطاعت گزار ہیں، اس) سے بڑھا کر ( افضلیت و برتری در کنار) دعوی ہم سری ( کہ یہ بھی مراتب رفیعہ اور ا ن کے درجاتِ علیہ میں ان کے ہمسر و برابر ہیں) محض بے دینی (الحاد و زندیقی ہے) جس نگاہِ اجلال و توقیر ( تکریم وتعظیم) سے انہیں دیکھنا فرض ( ہے اور دائمی فرض ) حاشا کہ اس کے سَو حصے سے ایک حصہ ( ۱۰۰/ ۱) دوسرے کو دیکھیں آخر نہ دیکھاکہ صدیق و مرتضےٰ رضی اللہ تعالٰی عنہما جس سرکارِ ابدقرار ( وسّرِہرکاز) کے غلام ہیں، اسی کو حکم ہوتا ہے ان کی راہ پر چل اور ان کی اقتداء سے نہ نکل ( تابہ دیگراں چہ رسد)
(اے عقل خبردار ! یہاں مجال دم زدن نہیں)

عقیدہ رابعہ ________________ اعلٰی طبقہ ، ملائکہ مقربین

ان(انبیاء و مرسلین علیہم الصلوۃ والسلام) کے بعد اعلٰی طبقہ ملائکہ مقربین کا ہے مثل ساداتنا و موالینا ( مثلاً ہمارے سرداروں اور پیش رو مددگاروں میں سے حضرت) جبرائیل ( جن کے ذمہ پیغمبروں کی خدمت میں وحی الہٰی لانا ہے) و (حضرت ) میکائیل ( جو پانی برسانے والے اور مخلوقِ خدا کو روزی پہنچانے پر مقرر ہیں) و ( حضرت ) اسرافیل ( جو قیامت کو صور پھونکیں گے) و ( حضرت ) عزرائیل ( جنہیں قبض ارواح کی خدمت سپرد کی گئی ہے) وحملہ ( یعنی حاملان ) عرش جلیل ، صلوات اﷲ و سلامہ علیہم اجمعین، ان کے علوِ شان و رفعت مکان ( شوکت و عظمت اور عالی مرتبت) کو بھی کوئی ولی نہیں پہنچتا) ( خواہ کتنا ہی مقرب بارگاہِ احدیّت ہو) اور ان کی جناب میں گستاخی کا بھی بعینہ وہی حکم ( جو انبیاء مرسلین کی رفعت پناہ بارگاہوں میں گستاخی کا ہے کہ کفر قطعی ہے ان ملائکہ مقربین میں بالخصوص ) جبرئیل علیہ السلام مِن وَجہٍ رسول ا ﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے استاذ (عہ) ہیں قال تعالٰی علمہ شدید القوی ۔۱؂ ( سکھایا ان کو یعنی سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو سخت قوتوں والے طاقتور نے، یعنی جبرائیل علیہ السلام نے جو قوت و اجلال خداوندی کے مظہرِ اتم ، قوت جسمانی وعقل و نظر کے اعتبار سے کامل وحی الہٰی کے بار کے متحمل ، چشم زدن میں سدرۃ المنتہٰی تک پہنچ جانے والے جن کی دانشمندی اور فراست ایمانی کا یہ عالم کہ تمام انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی بارگاہوں میں وحی الہی لے کر نزول اجلال فرماتے اور پوری دیانتداری سے اس امانت کو ادا کرتے رہے)

عہ: قال الامام الفخرالرازی وقولہ شدید القوی ، فیہ فوائد الاولٰی ان مدح المعلم مدح المتعلم فلوقال علمہ جبرائیل ولم یصفہ ماکان یحصل للنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بہ فضیلۃ ظاھرۃ، الثانیۃ ھی ان فیہ ردّاً علیھم حیث قالوا اساطیر الاولین سمعھا وقت سفرہ الی الشام فقال لم یعلمہ احد من الناس بل معلمہ شدید القوی ۔۲؂الخ ولہذا قال الامام احمد رضا ماقال وھو حق ثابت ، واﷲ اعلم۔ العبد محمد خلیل عفی عنہ امام فخر الدین رازی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ اﷲ تعالٰی کے ارشاد شدید القوٰی میں کئی فائدے ہیں، پہلا فائدہ یہ ہے کہ معلم کی مدح متعلم کی مدح ہوتی ہے، اگر اﷲ تعالٰی یوں فرماتا کہ اس کو جبرائیل نے سکھایا ہے، اور وصف شدید القوٰی سے اس کو متصف نہ فرماتا تو اس سے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو فضیلت ظاہرہ حاصل نہ ہوتی، دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس میں رد ہے ان لوگوں کا جنہوں نے کہا یہ پہلے لوگوں کے قصے ہیں جن کو انہوں نے شام کی طرف سفر کے دوران سُن لیا ہے ، تو اﷲ تعالٰی نے فرمایا کہ انہیں لوگوں میں سے کسی نے نہیں سکھایا ان کا معلم تو شدید القوٰی ہے الخ،
اسی لیے امام احمد رضا علیہ الرحمہ نے جو کہا ہے وہ حقِ ثابت ہے۔(ت)

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۵۳/ ۵ )
( ۲ ؎ مفاتیح الغیب ( التفسیر الکبیر ) تحت الآیۃ ۵۳/ ۵ دارالکتب العلمیہ بیروت ۲۸/ ۲۴۵)

پھر وہ کسی کے شاگرد کیا ہوں گے جسے ان کا استاذ بنائیے۔ اسے سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا استاذ الاستاذ ٹھہرائیے یہ وہی ہیں جنہیں حق تبارک و تعالٰی رسول کریم ۔۱؂ مکین امین ۔۲؂ فرماتا ہے ( کہ وہ عزت والے مالک عرش کے حضور بڑی عزت والے ہیں ملاء اعلٰی کے مقتداء کہ تمام ملائکہ ان کے اطاعت گزار و فرماں بردار، وحیِ الہٰی کے امانت دار، کہ انکی امانت میں کسی کو مجال حرف زدن نہیں پیامِ رسانی وحی میں امکانِ نہ سہو کا نہ کسی غلط فہمی و غلطی کا اور نہ کسی سہل پسندی اورغفلت کا ، منصب رسالت کے پوری طرح متحمل، اسرار و انوار کے ہر طرح محافظ، فرشتوں میں سب سے اونچا ان کا مرتبہ و مقام اور قرُب قبول پر فائز المرام، وہ صاحبِ عزت و احترام کہ) نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سوا دوسرے کے خادم نہیں ۔ ( اور تمام مخلوقات میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے علاوہ کوئی اور ان کا محذوم و مطاع نہیں۔ اور جنگِ بدر میں فرشتوں کی ایک جمعیت کے ساتھ حضور کے لشکر کا ایک سپاہی بن کر شامل ہونا مشہور، زبان زد خاص و عام) اکابر صحابہ و اعاظم اولیاء کو ( کہ واسطہ نزول برکات ہیں) اگر ان کی خدمت ( کی دولت ) ملے دو جہاں کی فخر و سعادت جانیں پھر یہ کس کے خدمت گار یا غاشیہ بردار ہوں گے( اور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم تو بادشاہِ کون و مکاں، مخدوم و مطاع ہر دو جہاں ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ و علیہم اجمعین و بارک وسلم۔

( ۱ ؎ ا لقرآن الکریم ۸۱/ ۱۹)(۲ ؎ القرآن الکریم ۸۱/ ۲۰ و ۲۱)

عقیدہ خامسہ ۵ ______ اصحاب سیّدالمرسلین و اہلِ بیت کرام

ان ( ملائکہ مرسلین و ساداتِ فرشتگان مقربین ) کے بعد ( بڑی عزت و منزلت اور قُرب قبول احدیت پر فائز) اصحابِ سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہیں، اور اُنہیں میں حضرت بتول ، جگر پارہ رسول ، خاتونِ جہاں، بانوے جہاں، سیدۃ النساء فاطمہ زہرا (شامل) اور اس دو جہاں کی آقا زادی کے دونوں شہزادے، عرش (اعظم) کی آنکھ کے دونوں تارے ، چرخِ سیادت ( آسمانِ کرامت ) کے مہ پارے ، باغِ تطہیر کے پیارے پھول ، دونوں قرۃ العین رسول ، امامین کریمین ( ہادیانِ باکرامت وباصفا) ، سعید ین شہیدین ( نیک بخت و شہیدانِ جفا) تقیین نقیین (پاک دامن، پاک باطن) نیرین (قمرین ، آفتاب رُخ و ماہتاب رُو) طاہرین ( پاک سیرت ، پاکیزہ خو) ابومحمد (حضرت امام ) حسن و ابوعبداﷲ ( حضرت امام ) حسین ، اور تمام مادرانِ اُمت ، بانوانِ رسالت ( امہات المومنین) ازواج مطہرات ) علی المصطفٰی وعلیہم کلہم الصلوۃ والتحیۃ( ان صحابہ کرام کے زمرہ میں) داخل کہ صحابی ہر وہ مسلمان ہے جو حالتِ اسلام میں اس چہرہ خدا نما( اور اس ذاتِ حق رسا) کی زیارت سے مشرف ہوا۔او راسلام ہی پر دنیا سے گیا۔( مرد ہو خواہ عورت، بالغ ہو خواہ نابالغ) ان ( اعلٰی درجاتِ والا مقامات ) کی قدر و منزلت وہی خوب جانتا ہے جو سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ کی عزت و رفعت سے آگاہ ہے۔( اس کا سینہ انوارِ عرفان سے منور اور آنکھیں جمال حق سے مشرف ہیں، حق پر چلتا، حق پر جیتا اور حق کے لیے مرتا ہے اور قبول حق اس کا وطیرہ ہے) آفتاب نیمروز( دوپہر کے چڑھتے سورج) سے روشن تر کہ محب ( سچا چاہنے والا) جب قدرت پاتا ہے اپنے محبوب کو صحبتِ بد ( برے ہم نشینوں اور بدکار رفیقوں ) سے بچاتا ہے۔ (اور مسلمانوں کا بچہ بچہ جانتا مانتا ہے کہ) حق تعالٰی قادر مطلق ( اور ہر ممکن اس کے تحت قدرت ہے) اور ( یہ کہ) رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس کے محبوب و سید المحبوبین ( تمام محبوبانِ بارگاہ کے سردار و سر کے تاج) کیا عقل سلیم (بشرطیکہ وہ سلیم ہو) تجویز کرتی ( جائز وگوارہ رکھتی) ہے کہ ایسا قدیر (فعال لمّا یرید جو چاہے اور جیسا چاہے کرے) ایسے عظیم ذی و جاہت، جانِ محبوبی وکانِ عزت ( کہ جو ہوگیا، جو ہوگا، اور جو ہورہا ہے انہیں کی مرضی پر ہوا۔ انہیں کی مرضی پر ہوگا اور انہیں کی مرضی پر ہورہا ہے۔ ایسے محبوب ایسے مقبول)کے لیے خیارخلق کو) ( کہ انبیاء و مرسلین کے بعد تمام خلائق پر فائق ہوں۔ حضور کا صحابی ) جلیس و انیس ( ہم نشین و غمخوار ) و یارو مددگار مقرر نہ فرمائے ( نہیں ہر گز نہیں تو جب کہ مولائے قادر و قدیر جل جلالہ نے انہیں، ان کی یاری و مددگاری ، رفاقت و صحبت کے لیے منتخب فرمالیا تو اب ) جو ان میں سے کسی پر طعن کرتا ہے جناب باری تعالٰی کے کمال حکمت و تمام قدرت ( پر الزام نقص و ناتمامی کا لگاتا ہے) یارسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی غایت محبوبیت ( کمال شانِ محبوبی) و نہایت منزلت ( وہ انتہائے عزت وجاہت اوران مراتب رفیعہ اور مناصب جلیلہ) پر حرف رکھتا ہے۔( جو انہیں بارگاہِ صمدیت میں حاصل ہیں تو یہ مولائے قدوس تعالٰی شانہ کی بارگاہ میں یا اس کے محبوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی جناب پاک میں گستاخانہ زبان درازی و دریدہ دہنی ہے اور کھلی بغاوت) اسی لیے سرورِ عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں۔ ﷲ ﷲ۔ فی اصحابی، لاتتخذوھم غرضاً من بعدی فمن احبھم فبحبی احبھم ط ومن ابغضھم فببغضی ابغضھم ط ومن اذاھم فقداٰذانی ومن اٰذانی فقد اذی اﷲ ط ومن اذی اﷲ فیوشک ان یا خذہ ط ۔ خدا سے ڈرو، خدا سے ڈرو میرے اصحاب کے حق میں انہیں نشانہ نہ بنالینا میرے بعد جو انہیں دوست رکھتا ہے میری محبت سے انہیں دوست رکھتا ہے ، اور جوان کا دشمن ہے میری عداوت سے ان کا دشمن ہے، جس نے انہیں ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی، اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اﷲ کو ایذا دی، اور جس نے ا ﷲ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اﷲ تعالٰی اس کو گرفتار کرلے۔( یعنی زندہ عذاب و بلا میں ڈال دے) رواہ الترمذی۱؂ وغیرہ ۔

( ۱ ؎ جامع الترمذی کتاب المناقب باب فی من سبّ اصحاب النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حدیث ۳۸۸۸دارالفکر بیروت ۵/ ۴۶۳)
(مسند احمد بن حنبل عن عبداﷲ بن مغفل المزنی المکتب الاسلامی بیروت ۵/ ۵۴ و ۵۷۔

اب اے خارجیو، ناصبیو۔ ( حضرت ختنین و امامین جلیلین سے خصوصاً اپنے سینوں میں بغض و کینہ رکھنے اور انہیں چنین و چناں کہنے والو۔) کیا رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ( مذکور ہ بالا ) اس ارشاد عام اور جناب باری تعالٰی نے آیۃ کریمہ رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ ۲؂ سے ( کہ اﷲ تعالٰی ان سے یعنی ان کی اطاعت و اخلاص سے راضی اور وہ اس سے یعنی اس کے کرم و عطا سے راضی) جناب ذوالنورین ( امیر المومنین حضرت عثمان غنی) و حضرت اسد اﷲ غالب( امیر المومنین علی بن ابی طالب) و حضرات سبطین کریمین ( امام حسن و امام حسین ) رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ( کو مستثنٰی کردیا اور اس استثناء کو تمہارے کان میں پھونک دیا ہے) یا اے شیعو۔ اے رافضیو۔ان احکام شاملہ سے ( کہ سب صحابہ کو شامل ہیں اور جملہ صحابہ کرام ان میں داخل ہیں۔) خدا ورسول ( جل و علا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) نے ( امیر المومنین خلیفۃ المسلمین) جناب فاروق اکبر(وامیرالمومنین کامل الحیاءِ والایمان) حضرت مجہز جیش العسرۃ ( فی رضی الرحمن عثمان بن عفّان ) و جناب ام المومنین ، محبوبہ سیّد العالمین (طیبہّ ، طاہرہ ،عفیفہ) عائشہ صدیقہ بنتِ صدیق وحضرات طلحہ و زبیر و معاویہ ( کہ اوّل کے بارے میں ارشاد واردکہ اے طلحہ۔ یہ جبریل ہیں تجھے سلام کہتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ میں قیامت کے ہولوں میں تمہارے ساتھ رہوں گا ۔۳؂ اور ثانی کے باب میں ارشاد فرمایا یہ جبریل ہیں تجھے سلام کہتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ میں روزِ قیامت تمہارے ساتھ رہوں گا یہاں تک کہ تمہارے چہرہ سے جہنم کی اُڑتی چنگاریاں دور کردوں گا۔ ۴؎ امام جلال الدین سیوطی جمع الجوامع میں فرماتے ہیں سَنْدُہ صحیح ۔۵؂ اس حدیث کی سند صحیح ہے ۔

( ۲ ؎القرآن الکریم ۹/ ۱۰۰)
( ۳ ؎ کنزالعمال حدیث ۳۶۷۳۶ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۳/ ۲۴۶ و ۲۴۷)
( ۴ ؎ کنزالعمال حدیث ۳۳۲۹۴ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۱/ ۶۸۳)
( ۵ ؎ کنزالعمال حدیث ۳۶۷۳۶ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۳/ ۲۴۷ )

اور حضرت امیر معاویہ تو اول ملوکِ اسلام اور سلطنتِ محمدیہ کے پہلے بادشاہ ہیں اسی کی طرف تو راۃ مقدس میں اشارہ ہے کہ: مولدہ بمّکۃ ومھاجرہ طیبۃ وملکہ بالشام ۔ وہ نبی آخر الزماں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مکہ میں پیدا ہوگا اور مدینہ کو ہجرت فرمائے گا اور اس کی سلطنت شام میں ہوگی۔

(تو امیر معاویہ کی بادشاہی اگرچہ سلطنت ہے، مگر کس کی ؟ محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی) وغیرھم رضوان ﷲ تعالٰی علیہم الٰی یوم الدین کو خارج کردیا اور تمہارے کان میں ( اﷲ کے رسول نے چپ چاپ) کہہ دیا کہ اصحابی سے ہماری مراد اور آیت میں ضمیر ھم کے مصداق ان لوگوں کے سوا ( اور دوسرے صحابہ) ہیں جو تم ان کے اے خوارج ( اور اے روافض ) دشمن ہوگئے۔ اور عیاذًا باللہ ( انہیں ) لعن طعن سے یاد کرنے لگے ( اور شومئیِ بخت سے) نہ یہ جانا کہ یہ دشمنی، درحقیقت رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے دشمنی ہے اور ان کی ایذاء حق تبارک و تعالٰی کی ایذا ء ( اور جہنم کا دائمی عذاب جس کی سزا، مگر اے ﷲ ۔تیری برکت والی رحمت اور ہمیشگی والی عنایت اس پاک فرقہ اہل سنت و جماعت پر، جس نے تیرے محبوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سب ہم نشینوں اور گلستانِ صحبت کے گل چینوں کو ( ہمیشہ ہمیش کسی استثناء کے بغیر) نگاہِ تعظیم و اجلال ( اور نظرِ تکریم و توقیر) سے دیکھنا اپنا شعار و دثار ( اپنی علامت و نشان ) کرلیا اور سب کو چرخِ ہدایت کے ستارے اور فلکِ عزت کے سیّارے جاننا، عقیدہ کرلیا کہ ہر ہر فرد بشر ان کا ( بارونیکوکار) سرور عدول و اخیارو اتقیاء و ابرار کا سردار ( اور امت کے تمام عدل گستر، عدل پرور، نیکو کار، پرہیز گار اور صالح بندوں کے سرکا تاج ہے) تابعین سے لے کر تابقیامتِ امت کا کوئی ولی کیسے ہی پایہ عظیم کو پہنچے، صاحبِ سلسلہ ہو خواہ غیر ان کا، ہر گز ہر گز ان میں سے ادنٰی سے ادنی کے رتبہ کو نہیں پہنچتا، اور ان میں ادنٰی کوئی نہیں ، رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ارشاد صادق کے مطابق اوروں کا کوہِ اُحد کے برابر سونا ان کے نیم صاع (تقریباً دو کلو) جو کے برابر نہیں ۔۱؂ جو قُربِ خدا انہیں حاصل دوسرے کو میسر نہیں۔

( ۱ ؎ صحیح البخاری مناقب اصحاب النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فضل ابی بکربعدالنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۵۱۸)
(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب تحریم سب الصحابۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۳۱۰)
(سنن ابن ماجۃ فضل اہلِ بدر ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۱۵)
(سنن ابی داود کتاب السنۃ باب فی النہی عن سب اصحاب رسول اللہ آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۲۸۴)

اور جو درجات عالیہ یہ پائیں گے غیر کو ہاتھ نہ آئیں گے۔(اہلسنت کے خواص تو خواص، عوام تک) ان سب کو بالاجمال( کہ کوئی فرد ان کا شمول سے نہ رہ جائے ، از اوّل تا آخر ) پر لے درجے کا بّرو تقی( نیکو کار متقی ) جانتے اور تفاصیل احوال ( کہ کس نے کس کے ساتھ کیا کیا اور کیوں کیا، اس) پر نظر حرام مانتے (ہیں) جو فعل ( ان حضرات صحابہ کرام میں سے) کسی کا اگر ایسا منقول بھی ہوا جو نظر قاصر ( ونگاہ کوتاہ بیں) میں ان کی شان سے قدرے گرا ہوا ٹھہرے( اور کسی کو تاہ نظر کو اس میں حرف زنی کی گنجائش ملے) اسے محمل حسن پر اتارتے ہیں۔( اور اسے ان کے خلوصِ قلب و حسن نیت پر محمول کرتے ہیں) اور اللہ کا سچا قول رضی اللہ عنہم ۔۱؂ سُن کر آئینہ دل میں زنگ تفتیش کو جگہ نہیں دیتے۔(اور تحقیق احوال واقعی کے نام کا میل کچیل، دل کے آئینے پر چڑھنے نہیں دیتے) رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علیہ وسلم حکم فرماچکے۔

اذا ذکراصحابی فامسکو ا ۔۲؂ جب میرے اصحاب کا ذکر آئے تو باز رہو۔

(سُوءِ عقیدت و بدگمانی کو قریب نہ پھٹکنے دو، تحقیق حال و تفتیش مآل میں نہ پڑو) ناچار اپنے آقا کا فرمان عالی شان ، اوریہ سخت وعیدیں ، ہولناک تہدیدیں ( ڈراوے اور دھمکیاں) سُن کر زبان بند کرلی اور دل کو سب کی طرف سے صاف کرلیا۔( اور بلاچونُ و چرا) جان لیا کہ ان کے رُتبے ہماری عقل سے وراء ہیں پھر ہم اُن کے معاملات میں کیا دخل دیں ان میں جو مشاجرات ( صورۃ نزاعات و اختلافات ) واقع ہوئے ہم ان کا فیصلہ کرنے والے کون ؟ گدائے خاک نشینی تو حافظا مخروش رموزِ مملکت خویش خسرواں دانند ۔۳؂

( تُو خاک نشین گدا گر ہے اے حافظ! شور مت کر کہ اپنی سلطنت کے بھید بادشاہ جانتے ہیں)

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۹/ ۱۰۰)
( ۲ ؎ المعجم الکبیر حدیث ۱۴۲۷ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۲/ ۹۶)
( ۳ ؎ دیوانِ حافظ ردیف شین معجمہ سب رنگ کتاب گھر دہلی ص ۲۵۸)

(ع۔۔ تیرا منہ ہے کہ تُو بولے یہ سرکاروں کی باتیں ہیں)
حاشا کہ ایک کی طرف داری میں دوسرے کو بُرا کہنے لگیں، یا ان نزاعوں میں ایک فریق کو دنیا طلب ٹھہرائیں بلکہ بالیقین جانتے ہیں کہ وہ سب مصالح دین کے خواستگار تھے( اسلام و مسلمین کی سربلندی ان کا نصب العین تھی پھر وہ مجتہد بھی تھے ،تو) جس کے اجتہاد میں جو بات دینِ الہی و شرع رسالت پناہی جل جلالہ و صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لیے اصلح وانسب ( زیادہ مصلحت آمیز اور احوالِ مسلمین سے مناسب تر) معلوم ہوئی، اختیار کی، گو اجتہاد میں خطا ہوئی اور ٹھیک بات ذہن میں نہ آئی۔ لیکن وہ سب حق پر ہیں( اور سب واجب الاحترام ) ان کا حال بعینہ ایسا ہے جیسا فروعِ مذہب میں ( خود علمائے اہلسنت بلکہ ان کے مجتہدین مثلاً امام اعظم) ابوحنیفہ ( امام ) شافعی ( وغیرہما) کے اختلافات نہ ہر گز ان منازعات کے سبب، ایک دوسرے کو گمراہ فاسق جاننا نہ ان کا دشمن ہوجانا ( جس کی تائید مولٰی علی کے اس قول سے ہوتی ہے کہ : اخواننا بغوا علینا۔۱؂ یہ سب ہمارے بھائی ہیں کہ ہمارے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔

( ۱ ؎ السنن الکبرٰی کتاب قتال اھل البغی دارصادر بیروت ۸/ ۱۷۳)

مسلمانوں کو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ سب حضرات آقائے دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے جاں نثار اور سچے غلام ہیں، خدا و رسول کی بارگاہوں میں معظم و معزز اور آسمانِ ہدایت کے روشن ستارے ہیں اصحابی کا لنجوم ۔۲؂

( ۲ ؎ کشف الخفاء حرف الہمزہ مع الصاد حدیث ۳۸۱ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۱۱۸)

بالجملہ ارشاداتِ خدا و رسول عزّ مجدہ وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے (اس پاک فرقہ اہل سنّت و جماعت نے اپنا عقیدہ اور ) اتنا یقین کرلیا کہ سب ( صحابہ کرام) اچھے اور عدل و ثقہ، تقی، نقی ابرار (خاصانِ پروردگار ) ہیں۔ اوران ( مشاجرات ونزاعات کی) تفاصیل پر نظر گمراہ کرنے والی ہے، نظیر اس کی عصمتِ انبیاء علیہم الصلوۃ والثناء ہے کہ اہلِ حق ( اہلِ اسلام ، اہلسنت وجماعت) شاہراہِ عقیدت پر چل کر ( منزل) مقصود کو پہنچے ۔ اور ارباب ( غوایت واہل) باطل تفصیلوں میں خوض ( و ناحق غور) کرکے مغاک ( ضلالت اور) بددینی ( کی گمراہیوں) میں جا پڑے کہیں دیکھا وعصٰی اٰدم ربہ فغوٰی ۔۳؂ ( کہ اس میں عصیاں اور بظاہر تعمیل حکمِ ربانی سے رو گردانی کی نسبت حضرت آدم علیہ السلام کی جانب کی گئی ہے۔)

( ۳ ؎ القرآن الکریم ۲۰/ ۱۲۱)

کہیں سنا لیغفر لک اﷲ ماتقدم من ذنبک وماتاخّر۔۱؂ ( جس سے ذنب یعنی گناہ و غفران ذنب یعنی بخشش گناہ کی نسبت کا حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی جنابِ والا کی جانب گمان ہوتا ہے)

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۴۸/ ۲)

کبھی موسٰی ( علیہ السلام ) و قطبی ( قومِ فرعون) کا قصہ یاد آیا ( کہ آپ نے قطبی کو آمادہ ظلم پاکر ایک گھونسا مارا اور وہ قطبی قعرگور میں پہنچا۔۲؂

( ۲ ؎ القرآن الکریم ۲۸/ ۱۵)

کبھی ( حضرت) داؤد ( علیہ الصلوۃ والسلام اوراُن کے ایک اُمتّی) اور یّاہ کا فسانہ سُن پایا( حالانکہ یہ الزام تھا یہود کا حضرت داؤد علیہ السلام پر، جسے انہوں نے خوب اُچھالا اور زبان زد عوام الناس ہوگیا۔ حتی کہ بربنائے شہرت، بلا تحقیق و تفتیش احوال بعض مفسرین نے اس واقعہ کو من و عن بیان فرمادیا ، جب کہ امام رازی ۳؎ فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ میری تحقیق میں سراسر باطل و لغو ہے۔

( ۳ ؎ مفاتیح الغیب (التفسیرالکبیر) تحت الآیۃ ۳۸/ ۲۳ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲۶/ ۱۶۵)

غرض بے عقل بے دینوں اور بے دین بدعقلوں نے یہ افسانہ سُن پایا تو لگے چوُن و چرا کرنے تسلیم و گردن نہادوں کے زینہ سے اُترنے پھر ناراضی خدا و رسول کے سوا اور بھی کچھ پھل پایا؟ اور (اُلٹا ) خُضتم کالّذی خاضوا (۴ ؎ ) ( اور تم بے ہودگی میں پڑے جیسے وہ پڑے تھے اور اتباع باطل میں ان کی راہ اختیار کی) نے ولکن حقت کلمۃ العذاب علی الکٰفرین ۔۵؂ ( مگر عذاب کا قول کافروں پر ٹھیک اُترا) کا دن دکھایا الّا ان یشاء ربی ۔۶؂ ان ربک فعال لما یرید۔۷؂ ( ۴ ؎ القرآن الکریم ۹/ ۶۹)( ۵ ؎ القرآن الکریم ۳۹/ ۷۱)
( ۶ ؎ القرآن الکریم ۶/ ۸۰)( ۷ ؎ القرآن الکریم ۱۱/ ۱۰۷)

(مسلمان ہمیشہ یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام کبیرہ گناہوں سے مطلقاً اور گناہِ صغیرہ کے عمداً ارتکاب، اور ہر ایسے امر سے جو خلق کے لیے باعثِ نفرت ہو اور مخلوق خدا ان کے باعث ان سے دُور بھاگے نیز ایسے افعال سے جو وجاہت و مروت اور معززین کی شان و مرتبہ کے خلاف ہیں قبل نبوت اور بعد نبوت بالاجماع معصوم ہیں)

اللّٰھم اثبات علی الہٰدی انک انت العلی الاعلٰی ۔ (اے اللہ ۔ ہم تجھ سے ہدایت پر ثابت قدمی مانگتے ہیں، بے شک تُو ہی بلند و برتر ہے)
صحابہ کرام کے باب میں یاد رکھنا چاہیے کہ۔
( وہ حضرات رضی اللہ تعالٰی عنہم انبیاء نہ تھے، فرشتے نہ تھے کہ معصوم ہوں، ان میں سے بعض حضرات سے لغزشیں صادر ہوئیں مگر ان کی کسی بات پر گرفت اﷲ و رسول کے احکام کے خلاف ہے۔
اﷲ عزوجل نے سورہ حدید میں صحابہ سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی دو قسمیں فرمائیں۔

(۱) من انفق من قبل الفتح وقٰتل۔
(۲) الذین انفقوا من بعد وقاتلوا ۔۱؂ یعنی ایک وہ کہ قبل فتح مکہ مشرف بایمان ہوئے راہِ خدا میں مال خرچ کیا اور جہاد کیا جب کہ ان کی تعداد بھی بہت قلیل تھی۔ اور وہ ہر طرح ضعیف و درماندہ بھی تھے، انہوں نے اپنے اوپر جیسے جیسے شدید مجاہدے گوارا کرکے اور اپنی جانوں کو خطروں میں ڈال ڈال کر، بے دریغ اپنا سرمایہ اسلام کی خدمت کی نذر کردیا۔ یہ حضرات مہاجرین و انصار میں سے سابقین اولین ہیں، ان کے مراتب کا کیا پوچھنا۔
دوسرے وہ کہ بعد فتح مکہ ایمان لائے، راہِ مولا میں خرچ کیا اور جہا دمیں حصہ لیا۔ ان اہلِ ایمان نے اس اخلاص کا ثبوت جہاد مالی و قتالی سے دیا، جب اسلامی سلطنت کی جڑ مضبوط ہوچکی تھی اور مسلمان کثرتِ تعداد اور جاہ و مال ہر لحاظ سے بڑھ چکے تھے، اجر اُن کا بھی عظیم ہے لیکن ظاہر ہے کہ ان سابقون اوّلون والوں کے درجہ کا نہیں۔
اسی لیے قرآن عظیم نے ان پہلوں کو ان پچھلوں پر تفضیل دی۔

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۵۷/ ۱۰)

اور پھر فرمایا : کُلاّ وعد اﷲ الحسنٰی ۔۲؂ ان سب سے ﷲ تعالی نے بھلائی کا وعدہ فرمایا۔کہ اپنے اپنے مرتبے کے لحاظ سے اجر ملے گا سب ہی کو، محروم کوئی نہ رہے گا۔
اور جن سے بھلائی کا وعدہ کیا ان کے حق میں فرماتا ہے: اولئٰک عنھا مبعدون۔۱؂ وہ جہنم سے دُور رکھے گئے ہیں۔ لایسمعون حسیسہا۲ ؎ وہ جہنم کی بھنک تک نہ سُنیں گے۔ وھم فی مااشتھت انفسھم خٰلدون ۔۳؂ وہ ہمیشہ اپنی من مانتی جی بھاتی مرادوں میں رہیں گے۔ لایحزنھم الفزع الاکبر ۔۴؂ قیامت کی وہ سب سے بڑی گھبراہٹ انہیں غمگین نہ کرے گی۔ تتلقّٰھم الملٰئکۃ۔ فرشتے ان کا استقبال کریں گے۔ ھٰذا یومکم الذی کنتم توعدون۔۵؂ یہ کہتے ہوئے کہ یہ ہے تمہارا وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا۔

( ۲ ؎ القرآن الکریم ۵۷/ ۱۰) ( ۱ ؎ القرآن الکریم ۲۱/ ۱۰۱ )
( ۲ ؎ القرآن الکریم ۲۱/ ۱۰۲) ( ۳ ؎ القرآن الکریم ۲۱/ ۱۰۲ )
( ۴ ؎ القرآن الکریم ۲۱/ ۱۰۳) ( ۵ ؎ القرآن الکریم ۲۱/ ۱۰۳ )

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ہر صحابی کی یہ شان ﷲ عزوجل بتاتا ہے تو جو کسی صحابی پر طعن کرے اللہ واحد قہار کو جھٹلاتا ہے۔
اور ان کے بعض معاملات جن میں اکثر حکایات کا ذبہ ہیں ارشاد الہٰی کے مقابل پیش کرنا اہلِ اسلام کا کام نہیں۔
رب عزوجل نے اسی آیت حدید میں اس کا منہ بھی بند کردیا کہ دونوں فریق صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سے بھلائی کا وعدہ کرکے ساتھ ہی ارشاد فرمادیا۔ واﷲ بما تعملون خبیر ۔۶؂ اور اللہ کو خُوب خبر ہے جو تم کرو گے۔

( ۶ ؎ القرآن الکریم ۵۷/۱۰)

بایں ہمہ اس نے تمہارے اعمال جان کر حکم فرمادیا کہ وہ تم سب سے جنت بے عذاب و کرامات و ثواب بے حساب کا وعدہ فرماچکا ہے۔
تو اب دوسرے کو کیا حق رہا کہ ان کی کسی بات پر طعن کرے، کیا طعن کرنے والا ، اﷲ تعالٰی سے جُدا اپنی مستقل حکومت قائم کرنا چاہتا ہے، اس کے بعد جو کوئی کچھ بکے وہ اپنا سر کھائے اور خود جہنم میں جائے۔
علامہ شہاب الدین خفا جی، نسیم الریاض شرح شفائے قاضی عیاض میں فرماتے ہیں: جو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ پر طعن کرے وہ جہنم کے کُتوں میں سے ایک کُتا ہے۱؂۔ (احکامِ شریعت وغیرہ)

( ۱ ؎ نسیم الریاض الباب الثالث مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات الہند ۳/ ۴۳۰)

تنبیہ ضروری

اہلِ سنت کا یہ عقیدہ کہ ونکف عن ذکر الصحابۃ الابخیر ۔۲؂ یعنی صحابہ کرام کا جب بھی ذکر ہو تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے، انہیں صحابہ کرام کے حق میں جو ایمان و سنت و اسلام حقیقی پر تادمِ مرگ ثابت قدم رہے اور صحابہ کرام جمہور کے خلاف، اسلامی تعلیمات کے مقابل ، اپنی خواہشات کے اتباع میں کوئی نئی راہ نہ نکالی اور وہ بدنصیب کہ اس سعادت سے محروم ہو کر اپنی دکان الگ جما بیٹھے اور اہل حق کے مقابل، قتال پر آمادہ ہوگئے۔ وہ ہرگز اس کا مصداق نہیں اس لیے علماء کرام فرماتے ہیں کہ جنگِ جمل و صفین میں جو مسلمان ایک دوسرے کے مقابل آئے ان کا حکم خطائے اجتہادی کا ہے، لیکن اہل نہروان جو مولا علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ الکریم کی تکفیر کرکے بغاوت پر آمادہ ہوئے وہ یقیناً فساق، فجار، طاغی وباغی تھے اور ایک نئے فرقہ کے ساعی و ساتھی جو خوارج کے نام سے موسوم ہوا اور اُمّت میں نئے فتنے اب تک اسی کے دم سے پھیل رہے ہیں۔(سراج العوارف وغیرہ)

( ۲ ؎ شرح عقائد النسفی درالاشاعۃ العربیہ قندھار افغانستان ص ۱۱۶)

عقیدہ سادسہ (۶)__________ عشرہ مبشرہ و خلفائے اربعہ

اب ان سب میں افضل وا علٰی و اکمل حضرات عشرہ مبشرہ ہیں، وہ دس صحابی جن کے قطعی جنتی ہونے کی بشارت وخوشخبری رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان کی زندگی ہی میں سنادی تھی وہ عشرہ مبشرہ کہلاتے ہیں۔ یعنی حضرات خلفائے (۱ تا ۴ ) اربعہ راشدین ، حضرت طلحہ بن عبید اﷲ ، حضرت زبیر بن العوام،حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت سعید بن زید، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ۔

؎ دہ یار بہشتی اند قطعی بوبکر و عمر ، عثمان وعلی
سعد ست سعید وبوعبیدہ طلحہ ست وزبیر وعبدالرحمن

اور ان میں خلفائے اربعہ رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین اور ان چار ارکان قصر ملت ( ملّت اسلامیہ کے عالی شان محل کے چار ستونوں) و چار انہار باغ شریعت ( اور گلستانِ شریعت کی ان چار نہروں) کے خصائص وفضائل، کچھ ایسے رنگ پر واقع ہیں کہ ان میں سے جس کسی کی فضلیت پر تنہا نظر کیجئے یہی معلوم ( و متبادرو مفہوم) ہوتا ہے کہ جو کچھ ہیں یہی ہیں ان سے بڑھ کر کون ہوگا ؎

بہر گلے کہ ازیں چار باغ می نگرم
بہار دامن دل می کشد کہ جا اینجاست ( ان چار باغوں میں سے جس پھول کو میں دیکھتا ہوں تو بہار میرے دل کے دامن کو کھینچتی ہے کہ اصل جگہ تو یہی ہے۔)

علی الخصوص شمع شبستان ولایت ، بہار چمنستانِ معرفت، امام الواصلین ، سیّد العارفین ( واصلانِ حق کے امام ، اہل معرفت کے پیش رو) خاتمِ خلافت نبوت ، فاتح سلاسل طریقت ، مولٰی المسلمین ، امیر المومنین ابوالائمۃ الطاھرین (پاک طینت ، پاکیزہ خصلت ، اماموں کے جدامجد طاہر مطہر، قاسمِ کوثر، اسد اﷲ الغالب، مظہر العجائب والغرائب ، مطلوب کل طالب، سیدنا و مولانا علی بن طالب کرم اﷲ تعالٰی وجہہ الکریم وحشرنا فی زمرتہ فی یوم عقیم کہ اس جناب گردوں قباب ( جن کے قبہ کی کلس آسمان برابر ہے ان ) کے مناقب جلیلہ ( اوصافِ حمیدہ) ومحامد جمیلہ ( خصائل حسنہ) جس کثرت و شہرت کے ساتھ ( کثیر و مشہور، زبان زد عام و خواص) ہیں دوسرے کے نہیں۔
(پھر) حضرات شیخین ، صاحبین صہرین ( کہ ان کی صاحبزادیاں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے شرفِ زوجیت سے مشرف ہوئیں اور امہات المومنین ، مسلمانوں ایمان والوں کی مائیں کہلائیں) وزیرین (جیسا کہ حدیث شریف میں وارد کہ میرے دو وزیر آسمان پر ہیں جبرائیل و میکائیل اور دو وزیر زمین پر ہیں ابوبکر و عمر ۔۱؂ رضی اللہ تعالٰی عنہما) امیرین ( کہ ہر دو امیر المومنین ہیں) مشیرین ( دونوں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی مجلس شورٰی کے رکن اعظم (ضجیعین ( ہم خواجہ اور دونوں اپنے آقا و مولٰی کے پہلو بہ پہلو آج بھی مصروفِ استراحت ) رفیقین (ایک دوسرے کے یارو غمگسار) سیّدنا و مولٰنا عبداﷲ العتیق ابوبکر صدیق و جناب حق مآب ابوحفص عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہما کی شانِ والا سب کی شانوں سے جدا ہے اور ان پر سب سے زیادہ عنایت خدا اور رسولِ خدا جل جلالہ و صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے بعد انبیاء و مرسلین و ملائکہ مقربین کے جو مرتبہ ان کا خدا کے نزدیک ہے دوسرے کا نہیں اور رب تبارک و تعالٰی سے جو قرب و نزدیکی اور بارگاہِ عرش اشتباہ رسالت میں جو عزت و سر بلندی ان کا حصہ ہے اوروں کا نصیبا نہیں، اور منازل جنت و مواہب ۔ بے منت (عہ) میں انہیں کے درجات سب پر عالی فضائل و فواضل ( فضیلتوں اور خصوصی بخششوں ) و حسنات طیبات ( نیکیوں اور پاکیزگیوں) میں انہیں کو تقدم و پیشی ( یہی سب پر مقدم۔ یہی پیش پیش ہمارے علماء و ائمہ نے اس ( باب) میں مستقل تصنیفیں فرما کر سعادتِ کونین و شرافتِ دارین حاصل کی( ان کے خصائل تحریر میں لائے ، ان کے محاسن کا ذکر فرمایا، ان کے اولیات و خصوصیات گنائے) ورنہ غیر متناہی ( جو ہماری فہم و فراست کی رسائی سے ماورا ہو۔ اس) کا شمار کس کے اختیار واﷲ العظیم اگر ہزاروں دفتر ان کے شرح فضائل ( اور بسط فواضل) میں لکھے جائیں یکے ازہزار تحریر میں نہ آئیں۔

عہ: مطبوعہ رسالہ میں وزاب بے منت مطبوع ہے اور حاشیہ پر تحریر کہ اصل میں ایسا ہے، فقیر نے اسے مواہب لکھا جب کہ منازل کا ہم قافیہ ہے مناہل یعنی چشمے اور انسب یہی ہے ۱۲ محمد خلیل ۔

(۱؎ کنزالعمال حدیث ۳۲۶۶۱ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۱/ ۵۶۳ )

وعلٰی تفنن واصفیہ بحسنہ
یغنی الزمان وفیہ مالم یوصف

( اور اس کے حسن کی تعریف کرنے والوں کی عمدہ بیانی کی بنیاد پر زمانہ غنی ہوگیا اور اس میں ایسی خوبیاں ہیں جنہیں بیان نہیں کیا جاسکتا)
مگر کثرتِ فضائل و شہرتِ فواضل ( کثیر در کثیر فضلیتوں کا موجود اور پاکیزہ ، و برتر عزتوں مرحمتوں کا مشہور ہونا) چیزے دیگر ( اور بات ہے) اور فضیلت و کرامات ( سب سے افضل اور بارگاہِ عزت میں سب سے زیادہ قریب ہونا۔) امرے آخر (ایک اور بات ہے اس سے جدا و ممتا ز) فضل اﷲ تعالٰی کے ہاتھ ہے جسے چاہے عطا فرمائے ۔ قُل ان الفضل بِیَد اﷲ یؤتیہ من یشاء ۔۱؂

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۳ / ۷۳)

اس کی کتاب کریم اور اس کا رسول عظیم علیہ و علٰی آلہ الصلوۃ والتسلیم علی الاعلان گواہی دے رہے ہیں۔ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے والد ماجد مولٰی علی کرم اﷲ وجہہ الکریم سے روایت کرتے ہیں :

کہ وہ فرماتے ہیں : کنت عندالنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فاقبل ابوبکر وعمر فقال یا علی ھٰذا ن سیّدا کہول اھل الجنۃ و شبابھا بعد النبیین والمرسلین ۔۱؂(رواہ الترمذی ، و ابن ماجہ وعبداﷲ بن الامام احمد)

میں خدمت اقدس حضور افضل الانبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر تھا کہ ابوبکر و عمر سامنے آئے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ علی! یہ دونوں سردار ہیں اہل جنت کے سب بوڑھوں اور جوانوں کے، بعد انبیاء و مرسلین کے۔

( ۱ ؎ مسند احمد بن حنبل عن علی رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۱/ ۸۰)
(جامع الترمذی ابواب المناقب مناقب ابی بکر الصدیق حدیث ۳۶۸۵ دارالفکربیروت ۵/ ۳۷۶)
(سُنن ابن ماجہ فضل ابی بکر الصدیق ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص ۱۰)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے راوی ، حضور کا ارشاد ہے: ابوبکر و عمر خیر الاولین وا لاخرین وخیر اھل السمٰوٰت وخیر اھل الارضین الاالنبیین والمرسلین ۔۲؂(رواہ الحاکم فی الکنٰی و ابن عدی و خطیب) ابوبکر و عمر بہتر ہیں سب اگلوں پچھلوں کے، اور بہتر ہیں سب آسمان والوں سے اور بہتر ہیں سب زمین والوں سے، سوا انبیاء و مرسلین علیہم الصلوۃ والسلام کے۔

( ۲ ؎ کنزالعمال بحوالہ الحاکم فی الکنٰی حدیث ۳۲۶۴۵ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۱ /۵۶۰)
(الصواعق المحرقہ بحوالہ الحاکم و ابن عد ی و الخطیب الباب الثالث الفصل الثالث دارالکتب العلمیۃ بیروت ص ۱۱۹)

خود حضرت مولٰی علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ نے بار بار اپنی کرسی مملکت و سطوت ( و دبدبہ) خلافت میں افضلیت مطلقہ شیخین کی تصریح فرمائی ( اور صاف صاف واشگاف الفاظ میں بیان فرمایا کہ یہ دونوں حضرات علی الاطلاق بلا قیدِ جہت و حیثیت تمام صحابہ کرام سے افضل ہیں) اور یہ ارشاد ان سے بتواتر ثابت ہوا کہ اسی سے زیادہ صحابہ و تابعین نے اسے روایت کیا۔ اور فی الواقع اس مسئلہ ( افضلیت شیخ کریمین) کو جیسا حق مآب مرتضوی نے صاف صاف واشگاف بہ کرات و مرات ( بار بار موقع بہ موقع اپنی ) جَلَوات و خلوات ( عمومی محفلوں ، خصوصی نشستوں ) و مشاہد عامہ و مساجد جامعہ ( عامۃ الناس کی مجلسوں اور جامع مسجدوں) میں ارشاد فرمایا دوسروں سے واقع نہیں ہوا۔

( ازاں جملہ وہ ارشاد گرامی کہ) امام بخاری رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ ، حضرت محمد بن حنفیہ صاحبزادہ جناب امیر المومنین علی رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی : قال قلت لابی ایّ الناس خیر بعد النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم؟ قال ابوبکر قال قلت ثم من ؟ قال عمر ۔۱؂ یعنی میں نے اپنے والد ماجد امیر المومنین مولٰی علی کرم اﷲ وجہہ سے عرض کیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بعد سب آدمیوں سے بہتر کون ہیں؟ ارشاد فرمایا : ابوبکر میں نے عرض کیا پھر کون ؟ فرمایا عمر۔

( ۱ ؎ صحیح البخاری مناقب اصحاب النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم باب فضل ابی بکر بعد النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۵۱۸)

ابوعمر بن عبداﷲ ، حکم بن حجل سے اور دار قطنی اپنی سنن میں راوی، جناب امیر المومنین علی کرم اﷲ وجہہ تعالٰی فرماتے ہیں: لااجد احداً فضلنی علٰی ابی بکر و عمر الا جلدتہ حدالمفتری ۔۲؂ جسے میں پاؤں گا کہ شیخین ( حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما) سے مجھے افضل بتاتا ( اور مجھے ان میں سے کسی پر فضیلت دیتا ) ہے اسے مُفتری (افتراء و بہتان لگانے والے) کی حد ماروں گا کہ اسی (۸۰) کوڑے ہیں۔

( ۲ ؎الصواعق المحرقۃ بحوالہ الدارقطنی الباب الثالث دارالکتب العلمیۃ بیروت ص۹۱)

ابوالقاسم طلحی کتاب السّنّۃ میں جناب علقمہ سے راوی: بلغ علیّاً ان اقواماً یفضّلونہ علٰی ابی بکر و عمر فصعد المنبر فحمداﷲ واثنی علیہ ثم قال ایہا الناس ! انہ بلغنی ان اقواما یفضّلو نی علٰی ابی بکر و عمر ولو کنت تقدمت فیہ لعاقبت فیہ فمن سمعتہ بعد ھذا الیوم یقول ھذا فھو مفتر، علیہ حد المفتری ، ثم قال ان خیر ھٰذہ الامۃ بعد نبیہا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ابوبکر ثم عمر ثم اﷲ اعلم بالخیر بعدہ قال وفی المجلس الحسن بن علی فقال واﷲ لوسمی الثالث لسمّٰی عثمٰن ۔۳؂ یعنی جناب مولٰی علی کو خبر پہنچی کہ لوگ انہیں حضرات شیخین رضی اللہ تعالٰی عنہما پر تفضیل دیتے( اور حضرت مولٰی کو ان سے افضل بتاتے) ہیں۔ پس منبر پر تشریف لے گئے اور اﷲ تعالٰی کی حمد و ثناء کی، پھر فرمایا اے لوگو۔ مجھے خبر پہنچی کہ کچھ لوگ مجھے ابوبکر و عمر سے افضل بتاتے ہیں اور اگر میں نے پہلے سے سُنا ہوتا تو اس میں سزا دیتا یعنی پہلی بار تفہیم ( وتنبیہ) پر قناعت فرماتا ہوں پس اس دن کے بعد جسے ایسا کہتے سنوں گا تو وہ مفتری ( بہتان باندھنے والا) ہے اس پر مفتری کی حد لازم ہے، پھر فرمایا بے شک بہتر اس امت کے بعد ان نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ابوبکر ہیں پھر عمر، پھر خدا ، خوب جانتا ہے بہتر کو ان کے بعد، اور مجلس میں امام حسن ( رضی اللہ عنہ) بھی جلوہ فرما تھے انہوں نے ارشاد کیا خدا کی قسم اگر تیسرے کا نام لیتے تو عثمان کا نام لیتے۔

( ۳ ؎ ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء بحوالہ ابی القاسم مسند علی بن ابی طالب سہیل اکیڈمی ۱/ ۶۸)

بالجملہ احادیثِ مرفوعہ و اقوالِ حضرت مرتضوی و اہلبیت نبوت اس بارے میں لا تعداد ولا تحصی ( بے شمار ولا انتہا) ہیں کہ بعض کی تفسیر فقیر نے اپنے رسالہ تفضیل (عہ ) میں کی ۔

عہ: اعلٰیحضرت قدس سرہ العزیز نے مسئلہ تفضیل شیخین رضی اللہ تعالٰی عنہما پر نوے (۹۰) جز کے قریب ایک کتاب مسمّٰی بہ منتہی التفصیل لمبحث التفضیل لکھی پھر مطلع القمر ین فی ابانۃ سبقۃ العمرین میں اس کی تلخیص کی، غالباً اس ارشاد گرامی میں اشارہ اسی کی طرف ہے، واﷲ تعالٰی اعلم۔ محمد خلیل القادری عفی عنہ)

اب اہل سنت ( کے علمائے ذوی الاحترام) نے ان احادیث و آثار میں جو نگاہ غور کو کام فرمایا تو تفضیل شیخین کی صدہا تصریحیں ( سیکڑوں صراحتیں) علی الاطلاق پائیں کہیں جہت و حیثیت کی قید نہ دیکھی کہ یہ صرف فلاں حیثیت سے افضل ہیں اور دوسری حیثیت سے دوسروں کو افضیلت ( حاصل ہے) لہذا انہوں نے عقیدہ کرلیا کہ گو فضائل خاصہ و خصائص فاضلہ ( مخصوص فضیلتیں اور فضیلت میں خصوصیتیں) حضرت مولٰی ( علی مشکل کُشا کرم اﷲ تعالٰی وجہہ) اور ان کے غیر کو بھی ایسے حاصل ( اور بعطائے الہٰی وہ ان خصوصیات کے تنہا حامل) جو حضرات شیخین ( کریمین جلیلین ) نے نہ پائے جیسے کہ اس کا عکس بھی صادق ہے ( کہ امیرین وزیرین کو وہ خصائصِ غالیہ اور فضائل عالیہ، بارگاہ الہی سے مرحمت ہوئے کہ ان کے غیر نے اس سے کوئی حصہ نہ پایا ) مگر فضل مطلق کُلّی ( کسی جہت و حیثیت کا لحاظ کیے بغیر فضیلت مطلقہ کُلّیہ) جو کثرتِ ثواب و زیادتِ قُربِ ربّ الارباب سے عبارت ہے وہ انہیں کو عطا ہوا ( اوروں کے نصیب میں نہ آیا)

(یعنی اﷲ عزوجل کے یہاں زیادہ عزت و منزلت جسے کثرتِ ثواب سے بھی تعبیر کرتے ہیں وہ صرف حضرات شیخین نے پائی۔ اس سے مراد اجرو انعام کی کثرت و زیادت نہیں کہ بارہا مفضول کے لیے ہوتی ہے۔
حدیث میں ہمراہیانِ سیدّنا امام مہدی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نسبت آیا کہ ان میں سے ہر ایک کے لیے پچاس کا اجر ہے۔ صحابہ نے عرض کیا ان میں کے پچاس کا یاہم میں کے ؟ فرمایا بلکہ تم میں کے تو اجر ان کا زائد ہوا۔
انعام و معاوضہ محنت انہیں زیادہ ملا مگر افضلیت میں وہ صحابہ کے ہمسر بھی نہیں ہوسکتے، زیادت درکنار، کہاں امام مہدی کی رفاقت اور کہاں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی صحابیت، اس کی نظیر بلاتشبیہ یوں سمجھئے کہ سلطان نے کسی مہم پر وزیر اور بعض دیگر افسروں کو بھیجا، اس کی فتح پر ہر افسر کو لاکھ لاکھ روپے انعام دیئے اور وزیر کو خالی پروانہ خوشنودی مزاج دیا تو انعام انہیں افسروں کو زیادہ ملا اور اجر و معاوضہ انہوں نے زیادہ پایا مگر کہاں وہ اور کہاں وزیراعظم کا اعزاز (بہار شریعت)

اور ( یہ اہل سنت و جماعت کا وہ عقیدہ ثابتہ محکمہ ہے کہ) اس عقیدہ کا خلاف اوّل تو کسی حدیث صحیح میں ہے ہی نہیں اور اگر بالفرض کہیں بوئے خلاف پائے بھی تو سمجھ لے کہ یہ ہماری فہم کا قصور ہے ( اور ہماری کوتاہ فہمی) ورنہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور خود حضرت مولٰی ( علی) و اہلبیت کرام ( صاحب البیت ادرٰی بما فیہ کے مصداق، اسرار خانہ سے مقابلۃً واقف تر) کیوں بلا تقیید ( کسی جہت و حیثیت کی قید کے بغیر) انہیں افضل و خیر امت و سردار اوّلین و آخرین بتاتے، کیا آیہ کریمہ فقل تعالوا ندع ابناء نا وابناء کم ونساء ناونساء کم وا نفسنا وانفسکم ثم نبتھل فنجعل لعنۃ اﷲ علی الکذبین ۔۱؂ ( تو ان سے فرمادو کہ آؤ ہم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہارے عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں پھر مباہلہ کریں تو جھوٹوں پر اﷲ کی لعنت ڈالیں)

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۳/ ۶۱)

و حدیث صحیح من کنت مولاہ فعلی مولاہ ۔۲؂ (جس کا میں مولا ہوں تو علی بھی اس کا مولا ہے) اور خبر شدید الضعف وقوی الجرح ( نہایت درجہ ضعیف و قابل شدید جرح و تعدیل ) لحمک لحمی ودمک دمی ۔۳؂ (تمہارا گوشت میرا گوشت اور تمہارا خون میرا خون ہے)

( ۲ ؎ جامع الترمذی ابواب المناقب باب مناقب علی رضی اللہ عنہ امین کمپنی دہلی ۲/ ۲۱۳)
( مسند احمد بن حنبل عن علی رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۱/ ۸۴و ۱۱۸و ۱۱۹ و ۱۵۲)
( سنن ابن ماجہ فضل علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ایچ ایم سعید کمپنی کر اچی ص ۱۲)
(المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ دارالفکر بیروت ۳/ ۱۱۰)
(المعجم الکبیر حدیث ۳۰۳۹ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۳/ ۱۸۹)
(کنزالعمال حدیث ۳۲۹۰۴ و ۳۲۹۴۶ و ۳۲۹۵۰ و ۳۲۹۵۱ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۱/ ۶۰۲و ۶۰۹ و۶۱۰)
( ۳ ؎ کنزالعمال حدیث ۳۲۹۳۶ موسسۃ الرسالہ بیروت ۱۱/ ۶۰۷)

برتقدیر ثبوت ( بشرطیکہ ثابت وصحیح مان لی جائے) وغیر ذٰلک (احادیث و اخبار) سے انہیں آگاہی نہ تھی۔(ہوش و حواس، علم و شعور اور فہم و فراست میں یگانہ روزگار ہوتے ہوئے ان اسرارِ درون خانہ سے بیگانہ رہے اور اسی بیگانگی میں عمریں گزاردیں) یا ( انہیں آگاہی اور ان اسرار پر اطلاع) تھی تو وہ ( ان واضح الدلالۃ الفاظ) کا مطلب نہ سمجھے ( اور غیرت و شرم کے باعث اور کسی سے پوچھ نہ سکے۔) یا سمجھے۔ (حقیقت حال سے آگاہ ہوئے) اور اس میں تفضیل شیخین کا خلاف پایا ( مگر خاموش رہے اور جمہور صحابہ کرام کے برخلاف عقیدہ رکھا زبان پر اس کا خلاف نہ آنے دیا اور حالانکہ یہ ان کی پاک جنابوں میں گستاخی اور ان پر تقیہ ملعونہ کی تہمت تراشی ہے) تو ( اب ہم ) کیونکر خلاف سمجھ لیں( کسے کہہ دیں کہ ان کے دل میں خلاف تھا زبان سے اقرار ) اور تصریحات بیّنہ و قاطع الدلالۃ) (روشن صراحتوں قطعی دلالتوں) وغیر محتملۃ الخلاف کو ( جن میں کسی خلاف کا احتمال نہیں کوئی ہیر پھیر نہیں) کیسے پس پشت ڈال دیں الحمد ﷲ رب العلمین کہ حق تبارک و تعالٰی نے فقیر حقیر کو یہ ایسا جواب شافی تعلیم فرمایا کہ منصف ( انصاف پسندذی ہوش) کے لیے اس میں کفایت ( اور یہ جواب اس کی صحیح رہنمائی و ہدایت کے لیے کافی) اور متعصب کو ( کہ آتش غلو میں سُلگتا اور ضد و نفسانیت کی راہ چلتا ہے) اس میں غیظ بے نہایت ( قل موتوابغیظکم ۔۱؂ انہیں آتشِ غضب میں جلنا مبارک) ( ہم مسلمانانِ اہلسنت کے نزدیک ، حضرت مولٰی کی ماننا) یہی محبتِ علی مرتضٰی ہے اور اس کا بھی ( یہی تقاضا ) یہی مقتضٰی ہے کہ محبوب کی اطاعت کیجئے اور اس کے غضب اور اسی کروڑوں کے استحقاق سے بچئے ( والعیاذ باﷲ )

( ۱؎ القرآن الکریم ۳ /۱۱۹)

اﷲ ! اﷲ وہ امام الصدیقین ، اکمل اولیاء العارفین سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ جس نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم و محبت کو حفظ جان پر مقدم رکھا حالانکہ جان کا رکھنا سب سے زیادہ اہم فرض ہے۔ اگر بوجہ ظلم عدو مکابر وغیرہ نماز پڑھنے میں معاذ اﷲ ہلاک جان کا یقین ہو تو اس وقت ترکِ نماز کی اجازت ہوگی۔

یہی تعظیم و محبت و جاں نثاری و پروانہ واریِ شمع رسالت علیہ الصلوۃ والتحیۃ ہے جس نے صدیق اکبر کو بعد انبیاء و مرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہم اجمعین تمام جہان پر تفوق بخشا اور ان کے بعد تمام عالم، تمام خلق ، تمام اولیاء تمام عرفاء سے افضل و اکرم و اکمل و اعظم کردیا۔
وہ صدیق جس کی نسبت حدیث میں آیا کہ ابوبکر کو کثرتِ صوم و صلوۃ کی وجہ سے تم پر فضیلت نہ ہوئی بلکہ اس سر کے سبب جو اس کے دل میں راسخ و متمکن ہے ۔۱؂

( ۱ ؎ کشف الخفا حدیث ۲۲۲۶ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲/ ۱۷۰)

وہ صدیق جس کی نسبت ارشا دہوا اگر ابوبکر کا ایمان میری تمام اُمت کے ایمان کے ساتھ وزن کیا جائے تو ابوبکر کا ایمان غالب آئے ۔۲؂

( ۲؎ تاریخ الخلفاء فصل فیما ورد من کلام الصحابۃ الخ دارصادربیروت ص ۷۸)
(شعب الایمان حدیث۳۶ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۶۹)

وہ صدیق کہ خود اُن کے مولائے اکرم و آقائے اعظم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کسی کا ہمارے ساتھ کوئی ایسا سلوک نہیں ہے جس کا ہم نے عوض نہ کردیا ہو سوا ابوبکر کے ، کہ ان کا ہمارے ساتھ وہ حسن سلوک ہے جس کا بدلہ اﷲ تعالٰی انہیں روز قیامت دے گا ۔۳؂

( ۳ ؎ جامع الترمذی ابواب المناقب باب مناقب ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ امین کمپنی دہلی ۲/ ۲۰۷)

وہ صدیق جس کی افضلیت مطلقہ پر قرآنِ کریم کی شہادت ناطقہ ہے کہ فرمایا : ان اکرمکم عند اﷲ اتقاکم ۔۴؂ تم میں سب سے زیادہ عزت والا اﷲ کے حضور وہ ہے جو تم سب میں اتقی ہے۔

اور دوسری آیۃ کریمہ میں صاف فرمادیا ۔ وسیجنبہاالاتقی ۔۵؂ قریب ہے کہ جہنم سے بچایا جائے گا وہ اتقٰی۔

( ۴ ؎ القرآن الکریم ۴۹/ ۱۳)( ۵ ؎ القرآن الکریم ۹۲/ ۱۷)

بشہادت آیت اُولی ان آیات کریمہ سے وہی مراد ہے جو افضل و اکرم امتِ مرحومہ ہے، اور وہ نہیں مگر اہل سنت کے نزدیک صدیق اکبر، اور تفضیلیہ و روافض کے نزدیک یہاں امیر المومنین مولٰی علی رضی اللہ تعالٰی عنہ۔
مگر اﷲ عزوجل کے لیے حمد کہ اس نے کسی کی تلبیس و تدلیس اور حق و باطل میں آمیزس و آویزش کو جگہ نہ چھوڑی، آیۃ کریمہ نے ایسے وصفِ خاص سے اتقٰی کی تعیین فرمادی جو حضرت صدیق اکبر کے سوا کسی پر صادق آہی نہیں سکتا۔

فرماتا ہے: ومالِاَحدعندہ من نعمۃٍ تجزٰی ۔ ۶؎ اس پر کسی کا ایسا احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جائے۔

( ۶ ؎ القرآن الکریم ۹۲/ ۱۹)

اور دنیا جانتی مانتی ہے کہ وہ صرف صدیقِ اکبر ہی ہیں جن کی طرف سے ہمیشہ بندگی و غلامی و خدمت و نیاز مندی اور مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف سے براہِ بندہ نوازی قبول و پذیرائی کا برتاؤ رہا یہاں تک کہ خودارشاد فرمایا کہ : بے شک تمام آدمیوں میں اپنی جان و مال سے کسی نے ایسا سلوک نہیں کیا جیسا ابوبکر نے کیا۔ ۔۱؂

( ۱ ؎ جامع الترمذی ابواب المناقب باب مناقب ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ امین کمپنی دہلی ۲/ ۲۰۷)

جب کہ مولٰی علی نے مولائے کل ، سیّد الرسل صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے کنارِ اقدس میں پرورش پائی، حضور کی گود میں ہوش سنبھالا، اور جو کچھ پایا بظاہر حالات یہیں سے پایا، تو آیۃ کریمہ ومالاحد عندہ من نعمۃ تجزی ۔۲؂ (اس پر کسی کا ایسا احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جائے) سے مولا علی قطعاً مراد نہیں ہوسکتے بلکہ بالیقین صدیقِ اکبر ہی مقصود ہیں، اور اسی پر اجماعِ مفسرین موجود۔

( ۲ ؎القرآ ن الکریم ۹۲/ ۱۹)

وہ صدیق جنہیں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرضیتِ حج کے بعد پہلے ہی سال میں امیر الحجاج مقرر فرمایا ا ور انہیں کو اپنے سامنے اپنے مرض المرت شریف میں اپنی جگہ امام مقرر فرمایا۔
حضرت مولی علی مرتضٰی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ کا ارشاد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بعد جب ہم نے غور کیا ( تو اس نتیجہ پر پہنچے ) کہ نماز تو اسلام کا رُکن ہے اور اسی پر دین کا قیام ہے اس لیے ہم نے امورِ خلافت کی انجام دہی کے لیے بھی اس پر رضا مندی ظاہر کردی ، جسے رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ہمارے دین کے لیے پسند فرمایا تھا، اور اسی لیے ہم نے ابوبکر کی بیعت کرلی ۔۳؂

( ۳ ؎ الصواعق المحرقۃ الباب الاول الفضل الرابع دارالکتب العلمیۃ بیروت ص ۴۳)

اور فاروق اعظم تو فاروق اعظم ہیں رضی اللہ تعالٰی عنہ، وہ فاروق جن کے لیے رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دعا مانگی کہ :

اللّٰھمّ اعزّ الاسلام بعمر بن خطّاب خاصّۃ۔۴؂ الہٰی! اسلام کی خاص عمر بن خطاب کے اسلام سے عزتیں بڑھا۔

( ۴ ؎ سنن ابن ماجہ فضل عمر رضی اللہ عنہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۱)
(المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ دارالفکر بیروت ۳/ ۸۳)

اس دعا ئے کریم کے باعث عمر فاروق اعظم کے ذریعہ سے جو جو عزتیں اسلام کو ملیں ، جو جو بلائیں اسلام ومسلمین سے دفع ہوئیں مخالف موافق سب پر روشن و مبینّ ، ولہذا سیّدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ: مازلنا اعزۃً منذاسلم ۔۱؂ (بخاری) ہم ہمیشہ معزز رہے جب سے عمر اسلام لائے۔

( ۱ ؎ صحیح البخاری کتاب مناقب اصحاب النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مناقب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۵۲۰)

وہ فاروق جن کے حق میں خاتم النبین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا ۔۲؂(رضی اللہ عنہ)

( ۲ ؎ جامع الترمذی ابواب المناقب مناقب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ امین کمپنی دہلی ۲ /۲۰۹)
(المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابۃ دارالفکر بیروت ۳/ ۸۳)

یعنی آپ کی فطرت اتنی کاملہ تھی کہ اگر دروازہ نبوت بند نہ ہوتا تو محض فضلِ الہٰی سے وہ نبی ہوسکتے تھے کہ اپنی ذات کے اعتبار سے نبوت کا کوئی مستحق نہیں)
وہ فاروق جن کے بارے میں ارشادِ محبوب رب العالمین موجود کہ: عمر کہیں ہو حق اس کی رفاقت میں رہے گا ۔۳؂

( ۳ ؎ کنزالعمال حدیث ۳۲۷۱۵ و ۳۲۷۳۵ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱۱/ ۵۷۳ و۵۷۷)

وہ فاروق جن کے لیے صحابہ کرام کا اجماع کہ عمر علم کے نو حصے لے گئے ۔ ۴؎ جب کہ ابوبکر صدیق صحابہ میں سب سے زیادہ علم والے تھے۔

( ۴ ؎تاریخ الخلفاء ذکر عمر بن الخطاب فصل فی اقوال الصحابۃ فیہ دار ابن حزم بیروت ص ۹۸ )

وہ فاروق کہ جس راہ سے وہ گزر جائیں شیاطین کے دل دہل جائیں۔۵؂

(۵ ؎ صحیح البخاری مناقب عمر فاروق رضی اللہ عنہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۵۲۰)

وہ فاروق کہ جب وہ اسلام لائے ملاءِ اعلٰی کے فرشتوں نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں تہنیت و مبارکبادیوں کی ڈالیاں نذرانے میں پیش کیں۔۶؂

( ۶ ؎ کنزالعمال حدیث ۳۲۷۳۸ موسسۃ الرسالہ بیروت ۱۱/ ۵۷۷)

وہ فاروق کہ ان کے روزِ اسلام سے اسلام ہمیشہ عزتیں اور سربلندیاں ہی پاتا گیا۔ ان کا اسلام فتح تھا ان کی ہجرت نصرت اور ان کی خلافت رحمت (ر ضی اللہ تعالٰی عنہ)
اور جب ثابت ہوگیا کہ قربِ الہی ( معرفت و کثرت ثواب میں) شیخین رضی اﷲ تعالٰی عنہما کو مزیت و تفوّق ( زیادت وفوقیت ) ہے تو ولایت (خاصہ جو کہ ایک قُربِ خاص ہے کہ مولٰی عزوجل اپنے برگزیدہ بندوں کو محض اپنے فضل و کرم سے عطا فرماتا ہے یہ) بھی انہیں کی اعلٰی ہوئی( اور ولایت شیخین ، جملہ اکابر اولیاء کی ولایت سے بالا)
(ہاں) مگر ایک درجہ قُرب الہٰی جل جلالہ و رزقنا اﷲ کا ( ضروری اللحاظ اور خصوصا حضرات علماء و فضلاء اُمّت کی توجہ کا مستحق ہے اور وہ یہ ہے کہ مرتبہ تکمیل پر حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جانب کمالات نبوت حضرات شیخین کو قائم فرمایا، اور جانبِ کمالاتِ ولایت حضرت مولا علی مشکل کشا کو تو جملہ اولیائے مابعد نے مولٰی علی ہی کے گھر سے نعمت پائی، انہیں کے دستِ نگر تھے، انہیں کے دستِ نگر ہیں اور انہیں کے دستِ نگر رہیں گے)

پر ظاہر ہے کہ سیرالی اﷲ میں تو سب اولیاء برابر ہوتے ہیں اوروہاں لا نفرق بین احد من رّسلہ ۔۱؂

( ہم اس کے کسی رسول پر ایمان لانے میں فرق نہیں کرتے) کی طرح لانفرق بین احدٍ من اولیائہ (ہم اس کے دوستوں میں کوئی تفریق نہیں کرتے) کہا جاتا ہے ( یعنی تمام اولیاء اﷲ اصل طریقِ ولایت یعنی سیرالی اﷲ میں برابر ہوتے ہیں۔ اور ایک دوسرے پر سبقت و فضیلت کا قول باعتبار سیر فی اﷲ کیا جاتا ہے کہ جب سالک عالمِ لاہوت پر پہنچا۔ سیرو سلوک تمام ہوا، یعنی سیرالی اللہ سے فراغت کے بعد سیر فی اﷲ ہوتی ہے اور اس کی نہایت وحد نہیں) جب ( عالم لاہوت پر پہنچ کر) ماسوائے الہٰی آنکھوں سے گر گیا اور مرتبہ فنا تک پہنچ کر آگے قدم بڑھا تو وہ سیر فی اﷲ ہے اس کے لیے انتہا نہیں اور یہیں تفاوت قُرب (بارگاہِ الہٰی میں عزت و منزلت اور کثرتِ ثواب میں فرق ) جلوہ گر ہوتا ہے جس کی سیرفی اﷲ زائد وہی خدا سے زیادہ نزدیک، پھر بعضے بڑھتے چلے جاتے ہیں( اور جذبِ الہٰی انہیں اپنی جانب کھینچتا رہتا ہے ان کی یہ سیر کبھی ختم نہیں ہوتی) اور بعض کو دعوتِ خلق ( و رہنمائیِ مخلوق الہی) کے لیے منزل ناسوتی عطا فرماتے ہیں( جسے عالم شہادت و عالم خلق و عالم جسمانی وغیرہ بھی کہتے ہیں۔ اور اس منزل میں تعلق مع اﷲ کے ساتھ ان میں خلائق سے علاقہ پیدا کردیا جاتا ہے اور وہ خلق خدا کی ہدایت کی طرف بھی متوجہ رہتے ہیں) ان سے طریقہ خرقہ و بیعت کا رواج پاتا ہے اور سلسلہ طریقت جنبش میں آتا ہے مگر یہ معنی اسے مستلزم نہیں( اور اس سے یہ لازم نہیں آتا) ان کی سیر فی اﷲ اگلوں سے بڑھ جائے۔(اور یہ دعوت خلق ور ہنمائی مخلوق کے باعث بارگاہِ الہٰی میں ان سے سوا عزت و منزلت اور ثواب میں کثرت پاجائیں)

(۱؂ القرآن الکریم ۲/ ۲۸۵)

ہاں یہ ایک فضل جداگانہ ہے کہ انہیں ملا اور دوسروں کو عطا نہ ہوا تو یہ کیا ؟ ( اوراسی کی تخصیص کیسی ؟) اس کے سوا صدہا خصائص حضرت مولٰی کو ایسے ملے کہ شیخین کو نہ ملے۔ مگر ( بارگاہِ الہٰی میں) قرب و رفعتِ درجات میں اُنہیں کو افزونی رہی( انہیں کو مزیّت ملی اور انہیں کے قدم پیش پیش رہے) ورنہ کیا وجہ ہے کہ ارشاداتِ مذکورہ بالا میں انہیں ان سے افضل و بہتر کہا جاتا ہے ( اور وہ بھی علی الاطلاق کسی جہت و حیثیت کی قید کے بغیر) اور ان ( یعنی حضرت مولٰی علی مرتضٰی کرم اللہ وجہہ الاسنٰی ) کی افضیلت ( اور ان کی ان حضرات پر تفضیل) کا بہ تاکید اکید ( مؤکد در مؤکد) انکار کیاجاتا ہے حالانکہ ادنٰی ولی، اعلٰی ولی سے افضل نہیں ہوسکتا ہے، آخر دیکھئے حضرت امیر ( مولٰی علی کرم اﷲ وجہہ الکریم) کے خلفائے کرام میں حضرت سبط اصغر (سیدّنا امام حسین) و جناب خواجہ حسن بصری کو تنزل ناسوتی ملا اور حضرت سبط اکبر (سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ) سے کوئی سلسلہ جاری نہ ہوا حالانکہ قربِ ولایت امام مجتبٰی ( سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ) ولایت و قرب خواجہ ( حسن بصری) سے بالیقین اتم واعلٰی ( برتر و بالا) اور ظاہر احادیث سے سبط اصغر شہزادہ گلگلوں قبا (شہیدِ کرب وبلا) پر بھی ان کا فضل ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین۔

عقیدہ سابعہ ۷_____ مشاجرات صحابہ کرام

حضرت مرتضوی (امیر المومنین سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جنہوں نے مشاجرات و منازعات کیے۔ ( اور اس حق مآب صائب الرائے کی رائے سے مختلف ہوئے ، اور ان اختلافات کے باعث ان میں جو واقعات رُونما ہوئے کہ ایک دوسرے کے مدِ مقابل آئے مثلاً جنگ جمل میں حضرت طلحہ وزبیر و صدیقہ عائشہ اور جنگِ صفین میں حضرت امیر معاویہ بمقابلہ مولٰی علی مرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہم)

ہم اہلسنت ان میں حق، جانب جناب مولٰی علی( مانتے) اور ان سب کو مورد لغزش) بر غلط و خطا اور حضرت اسد اللہّی کو بدرجہا ان سے اکمل واعلٰی جانتے ہیں مگر بایں ہمہ بلحاظ احادیث مذکورہ ( کہ ان حضرات کے مناقب و فضائل میں مروی ہیں) زبان طعن وتشنیع ان دوسروں کے حق میں نہیں کھولتے اور انہیں ان کے مراتب پر جوان کے لیے شرع میں ثابت ہوئے رکھتے ہیں، کسی کو کسی پر اپنی ہوائے نفس سے فضیلت نہیں دیتے۔ اور ان کے مشاجرات میں دخل اندازی کو حرام جانتے ہیں، اور ان کے اختلافات کو ابوحنیفہ و شافعی جیسا اختلاف سمجھتے ہیں۔ تو ہم اہلسنت کے نزدیک ان میں سے کسی ادنٰی صحابی پر بھی طعن جائز نہیں چہ جائیکہ اُمّ المومنین صدیقہ ( عائشہ طیبہ طاہرہ) رضی اللہ تعالٰی عنہا کی جناب رفیع اوربارگاہِ وقیع) میں طعن کریں، حاش ۔ یہ اللہ و رسول کی جناب میں گستاخی ہے۔ اللہ تعالٰی ان کی تطہیر و بریت ( پاکدامنی و عفت اور منافقین کی بہتان تراشی سے براء ت ) میں آیات نازل فرمائے اور ان پر تہمت دھرنے والوں کو وعیدیں عذابِ الیم کی سنائے ۔۱؂

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۲۴/ ۱۹)

نوٹ : بریلی شریف سے شائع ہونے والے رسالہ میں مذکور کہ یہاں اصل میں بہت بیاض ہے، درمیان میں کچھ ناتمام سطریں ہیں مناسبت مقام سے جو کچھ فہم قاصر میں آیا بنادیا ۱۲ اس فقیر نے ان اضافوں کو اصل عبارت سے ملا کر قوسین میں محدود کردیا ہے تاکہ اصل و اضافہ میں امتیاز رہے اور ناظرین کو اس کا مطالعہ سہل ہو۔ اس میں غلطی ہو تو فقیر کی جانب منسوب کیا جائے۔(محمد خلیل عفی عنہ)

حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم انہیں اپنی سب ازواجِ مطہرات میں زیادہ چاہیں، جہاں منہ رکھ کر عائشہ صدیقہ پانی پئیں حضور اُسی جگہ اپنا لبِ اقدس رکھ کر وہیں سے پانی پئیں، یوں تو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی سب ازواج ( مطہرات ، طیبّات طاہرات) دنیاو آخرت میں حضور ہی کی بیبیاں ہیں مگر عائشہ سے محبت کا یہ عالم ہے کہ ان کے حق میں ارشاد ہوا کہ یہ حضور کی بی بی ہیں دنیا و آخرت میں حضرت خیر النساء یعنی فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا کو حکم ہوا ہے کہ فاطمہ ۔ تو مجھ سے محبت رکھتی ہے تو عائشہ سے بھی محبت رکھ کہ میں اسے چاہتا ہوں۔ ( چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے سیّدہ فاطمہ سے فرمایا)

اَیْ بنیۃ ! الست تحبّین ما احب؟ فقالت بلٰی قال فاحبّی ھٰذہ ۔۲؂ پیاری بیٹی ۔ جس سے میں محبت کرتا ہوں کیا تو اس سے محبت نہیں رکھتی؟ عرض کیا : بالکل یہی درست ہے ( جسے آپ چاہیں میں ضرور اسے چاہوں گی) فرمایا تب تو بھی عائشہ سے محبت رکھا کر)
سوال ہوا سب آدمیوں میں حضور کو کون محبوب ہیں؟ جواب عطا ہوا : عائشہ ۔۳؂

( ۲ ؎ صحیح مسلم کتاب الفضائل فضائل عائشہ رضی اللہ عنہا قدیمی کتب خانہ ۲/ ۲۸۵)
(۳ ؎ صحیح البخاری ابواب مناقب اصحاب النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ ۱/ ۵۱۷)
(صحیح مسلم باب فضائل ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ قدیمی کتب خانہ ۲/ ۲۷۳)
(مسند احمد بن حنبل عن عمروبن العاص المکتب الاسلامی بیروت ۴/ ۲۰۳)

( وہ عائشہ صدیقہ بنت الصدیق ، اُمّ المومنین، جن کا محبوبہ رب العالمین ہونا آفتاب نیم روز سے روشن تر، وہ صدیقہ جن کی تصویر بہشتی حریر میں رُوح القدس خدمتِ اقدس سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر لائیں۔ وہ ام المومنین کہ جبرئیل امین بآں فضل مبین انہیں سلام کریں اور ان کے کاشانہ عزت و طہارت میں بے اذن لیے حاضر نہ ہوسکیں، وہ صدیقہ کہ ﷲ عزوجل وحی نہ بھیجے ان کے سوا کسی کے لحاف میں۔ وہ ام المومنین کہ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اگر سفر میں بے ان کے تشریف لے جائیں ان کی یاد میں واعروساہ ۔۱؂ فرمائیں۔

(۱؂ مسند احمد بن حنبل عن عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا المکتب الاسلامی بیروت ۶ /۲۴۸)

وہ صدیقہ کہ یوسف صدیق علیہ الصلوۃ والسلام کی براء ت و پاکدامنی کی شہادت اہلِ زلیخا سے ایک بچہ ادا کرے بتول مریم کی تطہیر و عفت مآبی، روح اﷲ کلمۃ اﷲ فرمائیں، مگر ان کی براء ت ، پاک طینتی ، پاک دامنی و طہارت کی گواہی میں قرآن کریم کی آیاتِ کریمہ نزول فرمائیں۔ و ہ ام المومنین کہ محبوب رب العالمین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان کے پانی پینے میں دیکھتے رہیں کہ کوزے میں کس جگہ لب مبارک رکھ کر پانی پیا ہے حضور پُر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنے لب ہائے مبارک و خدا پسند و ہیں رکھ کر پانی نوش فرمائیں۔ صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلیہا وعلٰی ابیہا وبارک وسلم۔

آدمی اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر دیکھے اگر کوئی اس کی ماں کی توہین کرے اس پر بہتان اٹھائے یا اسے بُرا بھلا کہے تو اس کا کیسا دشمن ہوجائے گا اس کی صورت دیکھ کر آنکھوں میں خون اُتر آئے گا، اور مسلمانوں کی مائیں یوں بے قدر ہوں کہ کلمہ پڑھ کر ان پر طعن کریں تہمت دھریں اور مسلمان کے مسلمان بنے رہیں۔ لاحول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔

اور زبیر وطلحہ ان سے بھی افضل کہ عشرہ مبشرہ سے ہیں۔ وہ (یعنی زبیر بن العوام) رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی اور حواری( جاں باز، معاون ومددگار ) اور یہ ( یعنی طلحہ) رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے چہرے انور کے لیے سپر، وقت جاں نثاری ( جیسے ایک جاں نثار نڈر سپاہی و سرفروش محافظ)
رہے امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ تو اُن کا درجہ ا ن سب کے بعد ہے۔
اور حضرت مولٰی علی ( مرتضی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ الاسنی)کے مقام رفیع (مراتب بلند وبالا) و شانِ منیع (عظمت ومنزلتِ محکم واعلا) تک تو ان سے وہ دور دراز منزلیں ہیں جن ہزاروں ہزار رہوار برق کردار ( ایسے کشادہ فراخ قدم گھوڑے جیسے بجلی کا کوندا ) صبا رفتار ( ہوا سے بات کرنے والے ، تیز رو، تیز گام ) تھک رہیں اور قطع ( مسافت) نہ کرسکیں۔

مگر فضلِ صحبت ( و شرفِ صحابیت وفضل) وشرف سعادت خدائی دین ہے۔( جس سے مسلمان آنکھ بند نہیں کرسکتے تو ان پر لعن طعن یا ان کی توہین تنقیص کیسے گوارا رکھیں اور کیسے سمجھ لیں کہ مولٰی علی کے مقابلے میں انہوں نے جو کچھ کیا بربنائے نفسانیت تھا۔صاحب ایمان مسلمان کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں آسکتی۔

ہاں ایک بات کہتے ہیں اور ایمان لگتی کہتے ہیں کہ) ہم تو بحمداﷲ سرکار اہلبیت ( کرام) کے غلامانِ خان زاد ہیں( اور موروثی خدمت گار، خدمت گزار) ہمیں (امیر) معاویہ (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) سے کیا رشتہ خدانخواستہ ان کی حمایت بے جا کریں مگر ہاں اپنی سرکار کی طرفداری ( اور امرِ حق مین ان کی حمایت وپاسداری ) اور ان ( حضرت امیر معاویہ) کا ( خصوصاً ) الزام بدگویاں( اور دریدہ دہنوں، بدزبانوں کی تہمتوں سے بری رکھنا منظور ہے کہ ہمارے شہزادہ اکبر حضرت سبط ( اکبر، حسن) مجتبٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حسبِ بشارت اپنے جدِّا مجد سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بعد اختتامِ مدت ( خلافت راشدہ کہ منہاج نبوت پر تیس سال رہی اور سیدنا امام حسن مجتبی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے چھ ماہ مدتِ خلافت پر ختم ہوئی) عین معرکہ جنگ میں ایک فوج جرار کی ہمراہی کے باوجود) ہتھیار رکھ دیے ( بالقصدوالا ختیار) اور ملک ( اور امور مسلمین کا انتظا م و انصرام) امیر معاویہ کو سپرد کردیا ( اور ان کے ہاتھ پر بیعت اطاعت فرمالی) اگر امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ العیاذ باﷲ کافر یا فاسق تھے یا ظالم جائر تھے یا غاصب جابر تھے-(ظلم وجور پر کمربستہ) تو الزام امام حسن پر آتا ہے کہ انہوں نے کاروبار مسلمین و انتظام شرع و دین باختیارِ خود ( بلا جبروا کراہ بلا ضرورت شرعیہ، باوجود مقدرت ) ایسے شخص کو تفویض فرمادیا ( اور اس کی تحویل میں دے دیا) اور خیر خواہی اسلام کو معاذ اﷲ کام نہ فرمایا ( اس سے ہاتھ اٹھالیا) اگر مدت خلافت ختم ہوچکی تھی اور آپ (خود) بادشاہت منظور نہیں فرماتے تھے) تو صحابہ حجاز میں کوئی اور قابلیت نظم و نسق دین نہ رکھتا تھا جو انہیں کو اختیار کیا۔ اور انہیں کے ہاتھ پر بیعتِ اطاعت کرلی) حاش ﷲ بلکہ یہ بات خود رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تک پہنچتی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنی پیش گوئی میں ان کے اس فعل کو پسند فرمایا اور ان کی سیادت کا نتیجہ ٹھہرایا کما فی صحیح البخاری ( جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے) صادق و مصدوق صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نسبت فرمایا۔

ان ابنی ھذا سیدلعل اﷲ ان یصلح بہ بین فئتین عظمتین من المسلمین۔۱؂ ( میرا یہ بیٹا سید ہے، سیادت کا علمبردار ) میں امید کرتا ہوں کہ اللہ عزوجل اس کے باعث دو بڑے گروہ اسلام میں صلح کرادے۔

( ۱ ؎ صحیح البخاری کتاب الصلح باب قول النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم للحسن الخ و مناقب الحسن و الحسین قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۷۳ و ۵۳۰)

آیہ کریمہ کا ارشاد ہے: ونزعنا مافی صدور ھم من غل ۔۱؂ اور ہم نے ان کے سینوں میں سے کینے کھینچ لیے۔
جو دنیا میں ان کے درمیان تھے اور طبعیتوں میں جو کدورت و کشیدگی تھی اسے رفق والفت سے بدل دیا اور ان میں آپس میں نہ باقی رہی مگر مودت و محبت۔

(۱؂ القرآن الکریم ۷/ ۴۳)

اور حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی کہ آپ نے فرمایا کہ ان شاء اﷲ تعالٰی میں اور عثمان اور طلحہ و زبیران میں سے ہیں جن کے حق میں اﷲ تعالٰی نے یہ ارشاد فرمایا کہ نزعنا الایۃ۔
حضرت مولٰی علی کے اس ارشاد کے بعد بھی ان پر الزام دینا عقل و خرد سے جنگ ہے، مولٰی علی سے جنگ ہے، اور خدا و رسول سے جنگ ہے ۔ والعیاذ باﷲ۔
جب کہ تاریخ کے اوراق شاہد عادل ہیں کہ حضرت زبیر کو جونہی اپنی غلطی کا احساس ہوا انہوں نے فوراً جنگ سے کنارہ کشی کرلی۔

اور حضرت طلحہ کے متعلق بھی روایات میں آتا ہے کہ انہوں نے اپنے ایک مدد گار کے ذریعے حضرت مولٰی علی سے بیعت اطاعت کرلی تھی۔
اور تاریخ سے ان واقعات کو کون چھیل سکتا ہے کہ جنگ جمل ختم ہونے کے بعد حضرت مولٰی علی مرتضی نے حضرت عائشہ کے برادر معظم محمد بن ابی بکر کو حکم دیا کہ وہ جائیں اور دیکھیں کہ حضرت عائشہ کو خدا نخواستہ کوئی زخم وغیرہ تو نہیں پہنچا۔ بلکہ بعجلت تمام خود بھی تشریف لے گئے اور پوچھا۔ آپ کا مزاج کیسا ہے؟
انہوں نے جواب دیا الحمدﷲ اچھی ہوں۔
مولٰی علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اﷲ تعالٰی آپ کی بخشش فرمائے۔
حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا اور تمہاری بھی۔
پھر مقتولین کی تجہیز و تکفین سے فارغ ہو کر حضرت مولٰی علی نے حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کی واپسی کا انتظام کیا اور پورے اعزاز و اکرام کے ساتھ محمد بن ابی بکر کی نگرانی میں چالیس معزز عورتوں کے جھرمٹ میں ان کو جانب حجاز رخصت کیا۔خود حضرت علی نے دور تک مشایعت کی، ہمراہ رہے، امام حسن میلوں تک ساتھ گئے۔ چلتے وقت حضرت صدیقہ نے مجمع میں اقرار فرمایا کہ مجھ کو علی سے نہ کسی قسم کی کدورت پہلے تھی اورنہ اب ہے۔ ہاں ساس، داماد( یا دیور، بھاوج ) میں کبھی کبھی جو بات ہوجایا کرتی ہے اس سے مجھے انکار نہیں۔

حضرت علی نے یہ سن کر ارشاد فرمایا لوگو۔ حضرت عائشہ سچ کہہ رہی ہیں خدا کی قسم مجھ میں اور ان میں اس سے زیادہ اختلاف نہیں ہے، بہرحال خواہ کچھ ہو یہ دنیا و آخرت میں تمہارے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی زوجہ ہیں ( اور ام المومنین)۔

اﷲ اﷲ ۔ ان یارانِ پیکر صدق و صفا میں باہمی یہ رفق و مودت اور عزت و اکرام اور ایک دوسرے کے ساتھ یہ معاملہ تعظیم و احترام، اور ان عقل سے بیگانوں اور نادان دوستوں کی حمایت علی کا یہ عالم کہ ان پر لعن طعن کو اپنا مذہب اور اپنا شعار بنائیں اور ان سے کدورت و دشمنی کو مولٰی علی سے محبت و عقیدت ٹھہرائیں۔ ولا حول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔

مسلمانانِ اہلسنت اپنا ایمان تازہ کرلیں اور سن رکھیں کہ اگر صحابہ کرام کے دلوں میں کھوٹ ، نیتوں میں فتور اور معاملات میں فتنہ و فساد ہو تو رضی اللہ عنھم کے کوئی معنی ہی نہیں ہوسکتے۔
صحابہ کرام کے عند اﷲ مرضی و پسندیدہ ہونے کے معنی یہی تو ہیں کہ وہ مولائے کریم ان کے ظاہر و باطن سے راضی، ان کی نیتوں اور مافی الضمیر سے خوش ہے، اور ان کے اخلاق و اعمال بارگاہِ عزت میں پسندیدہ ہیں۔ اسی لیے ارشاد فرمایا ہے کہ: ولٰکن اﷲ حبّب الیکم الایمان وزینہ فی قلوبکم ۱؂الایۃ ۔ یعنی اﷲ تعالٰی نے تمہیں ایمان پیارا کردیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ کردیاہے اور کفر اور حکم عدولی اوار نافرمانی تمھیں ناگوار کردئیے اب جو کوئی اس کے خلاف کہے اپنا ایمان خراب کرے اور اپنی عاقبت برباد۔، والعیاذ باﷲ۔

(۱؂ القرآن الکریم ۴۹/ ۷)

عقیدہِ ثامنہ ۸_____ امامت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ

نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نیابتِ مطلقہ کو امامتِ کُبرٰی اور اس منصبِ عظیم پر فائز ہونے والے کو امام کہتے ہیں۔
امام المسلمین حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نیابت سے مسلمانوں کے تمام امور دینی و دنیوی میں حسب شرع تصرف عام کا اختیار رکھتا ہے اور غیر معصیت میں اس کی اطاعت تمام جہان کے مسلمانوں پر فرض ہوتی ہے۔

اس امام کے لیے مسلمان آزاد، عاقل، بالغ، قادر، قرشی ہونا شرط ہے، ہاشمی علوی اور معصوم ہونا اس کی شرط نہیں، ان کا شرط کرنا روافض کا مذہب ہے جس سے ان کا مقصد یہ ہے کہ برحق امرائے مومنین ، خلفائے ثلٰثہ ابوبکر صدیق و عمر فاروق وعثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہم کو خلافتِ رسول سے جدا کردیں۔ حالانکہ ان کی خلافتوں پر تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کا اجماع ہے۔ مولٰی علی کرم اﷲ وجہہ الکریم و حضرات حسنین رضی اللہ تعالٰی عنہما نے ان کی خلافتیں تسلیم کیں۔ اور علویت کی شرط نے تو مولٰی علی کو بھی خلیفہ ہونے سے خارج کردیا۔ مولا علی کیسے علوی ہوسکتے ہیں۔ رہی عصمت تو یہ انبیاء و ملائکہ کا خاصہ ہے امام کا معصوم ہونا روافض کا مذہب ہے۔ (بہارِ شریعت)

ہم مسلمانانِ اہلسنت و جماعت کے نزدیک رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بعد ( خلافت و امامتِ صدیق اکبر ( رضی اللہ تعالٰی عنہ) بالقطع التحقیق ( قطعاً ، یقیناً ، تحقیقاً) حقّہ راشدہ ہے ( ثابت و درست، رُشد و ہدایت پر مبنی) نہ غاصبہ جائرہ ( کہ غصب یا جور و جبر سے حاصل کی گئی) رحمت و رافت ( مہربانی و شفقت ) حسنِ سیادت ( بہتر ولائق تر امارت) ولحاظِ مصلحت (تمام مصلحتوں سے ملحوظ) و حمایتِ ملّت ( شریعت کی حمایتوں سے معمور) و پناہ اُمت سے مزین ( آراستہ و پیراستہ ) اور عدل و داد ( انصاف و برابری) و صدق و سداد ( راستی و درستی) ورشد و ارشاد ( راست روی و حق نمائی) و قطع فساد و قمع اہل ارتداد (مرتدین کی بیخ کنی) سے محلّٰی ( سنواری ہوئی) اوّل تلویحات و تصریحات روشن و صریح ارشادات) سیّد الکائنات علیہ وعلٰی آلہ افضل الصلوات والتحیات اس بارے میں بہ کثرت وارد۔

دوسرے خلافت اس جناب تقوٰی مآب کی باجماعِ صحابہ واقع ہوئی، ( اور آپ کا حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بعد تختِ خلافت پر جلوس فرمانا فرامین و احکام جاری کرنا، ممالک اسلامیہ کا نظم و نسق سنبھالنا، اور تمام امور مملکت و رزم و بزم کی باگیں اپنے دستِ حق پرست میں لینا و ہ تاریخی واقعہ مشہور و متواتر اظہر من الشمس ہے، جس سے دنیا میں موافق مخالف حتّٰی کہ نصارٰی و یہود و مجوس و ہنود کسی کو انکار نہیں۔ اور ان محبانِ خدا و نوابانِ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ابداً ابداً سے شیعانِ علی کو زیادہ عداوت کا منبٰی یہی ہے کہ ان کے زعم باطل میں استحقاقِ خلافت حضرت مولٰی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ الاسنٰی میں منحصر تھا۔

جب بحکمِ الہٰی خلافتِ راشدہ، اوّل ان تین سرداران مومنین کو پہنچی روافض نے انہیں معاذ اﷲ مولٰی علی کا حق چھیننے والا اور ان کی خلافت وامامت کو غاصبہ جائرہ ٹھہرایا۔
اتنا ہی نہیں بلکہ تقیہ شقیہ کی تہمت کی بدولت حضرت اسد اﷲ غالب کو عیاذاً باﷲ سخت نامرد و بُزدل و تارکِ حق و مطیع باطل ٹھہرایا ۔ ع

دوستی بے خِرداں دشمنی ست

( بے عقلوں کی دوستی دشمنی ہوتی ہے)

(الغرض آپ کی امامت و خلافت پر تمام صحابہ کرام کا اجماع ہے) اور باطل پر اجماع امّت (خصوصاً اصحابِ حضرت رسالت علیہ وعلیہم الصلوۃ والتحیۃ کا) ممکن نہیں۔ ( اور مان لیا جائے تو غصب و ظلم پر اتفاق سے عیاذاً باﷲ سب فساق ہوئے، اور یہی لوگ حاملانِ قرآن مبین و راویانِ دین متین ہیں، جو انہیں فاسق بتائے اپنے لیے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تک دوسرا سلسلہ پیدا کرے یا ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے ، اسی طرح ان کے بعد خلافتِ فاروق ، پھر امامتِ ذی النورین، پھر جلوہ فرمائی ابوالحسنین رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین۔

عقیدہ تاسعہ ۹ ______ضروریاتِ دین

نصوصِ قرآنیہ ( اپنی مراد پر واضح آیاتِ فرقانیہ) و احادیثِ مشہورہ متواترہ ( شہرت اور تواتر سے مؤیّد) و اجماعِ امت مرحومہ مبارکہ ( کہ یہ قصرِ شریعت کے اساسی ستون ہیں اور شبہات و تاویلات سے پاک، ان میں سے ہر دلیل قطعی، یقینی واجب الاذعان والثبوت ، ان ) سے جو کچھ دربارہ الوہیت ( ذات و صفاتِ باری تعالٰی) ورسالت ( و نبوت انبیاء و مرسلین وحی رب العلمین) ( وکتب سماوی، و ملائکہ و جنِ وبعث و حشرو نشر و قیامِ قیامت ، قضاء و قدر) وماکان ومایکون ( جملہ ضروریاتِ دین) ثابت ( اور ان دلائل قطعیہ سے مدلل ان براہین واضحہ سے مبرہن ) سب حق ہیں اور ہم سب پر ایمان لائے جنت اور اسکے جانفزا احوال ( کہ لاعین رأت ولا اُذن سمعت ولا خطرببال احدٍ ۔۱؂ وہ عظیم نعمتیں وہ نعیم عظمتیں اور جان و دل کو مرغوب و مطلوب و ہ لذتیں جن کو نہ آنکھوں نے دیکھا نہ کانوں نے سُنا، اور نہ کسی کے دل پر اُن کا خطرہ گزرا)

( ۱ ؎صحیح البخاری کتاب التفسیر تحت آیۃ ۳۲/ ۱۷ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۷۰۴)
(جامع الترمذی ابواب التفسیر سورۃ السجدۃ امین کمپنی دہلی ۲/ ۱۵۱)
(سُنن ابن ماجہ ابواب الزہد باب صفۃ الجنۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۳۳۱)

دوزخ اور اس کے جاں گزاحالات (کہ وہ ہر تکلیف و اذیت جو ادراک کی جائے اور تصور میں لائی جائے ، ایک ادنی حصہ ہے اس کے بے انتہا عذاب کا، والعیاذ باﷲ) قبر کے نعیم و عذاب ( کہ وہ جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ) منکر نکیر سے سوال و جواب روزِ قیامت حساب و کتاب ووزنِ اعمال ( جس کی حقیقت اﷲ جانے اور اس کا رسول) و کوثر ( کہ میدانِ حشر کا ایک حوض ہے اور جنت کا طویل و عریض چشمہ) وصراط ( بال سےزیادہ باریک ، تلوار سے زیادہ تیز، پشتِ جہنم پر ایک پُل) و شفاعۃ عصاۃ اہلِ کبائر ( یعنی گناہگار ان اُمت مرحومہ کہ کبیرہ گناہوں میں ملوث رہے ان کے لیے سوالِ بخشش ) اور اس کے سبب اہل کبائر کی نجات الٰی غیر ذالک من الواردات سب حق ( ہے اور سب ضروری القبول) جبر و قدر باطل ( اپنے آپ کو مجبورِ محض یا بالکل مختار سمجھنا دونوں گمراہی)۔

ولٰکن امر بین اَمَرین ( اختیارِ مطلق اور جبر محض کے بین بین راہِ سلامتی اور اس میں زیادہ غور و فکر سبب ہلاکت، صدیق و فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہما اس مسئلہ میں بحث کرنے سے منع فرمائے گئے۔ ماو شما کس گنتی میں) جو بات ہماری عقل میں نہیں آتی (اس میں خواہ مخواہ نہیں الجھتے اور اپنی اندھی اوندھی عقل کے گھوڑے نہیں دوڑاتے بلکہ) اس کو موکول بخدا کرتے ( اﷲ عزوجل کو سونپتے کہ واﷲ اعلم بالصواب ) اور اپنا نصیبہ اٰمنّا بہ کلّ من عندِ ربّنا ۔۱؂ بناتے ہیں ( کہ سب کچھ حق کی جانب سے ہے سب حق ہے اور سب پر ہمارا یمان) ؎

مصطفٰی اندر میاں آنگہ کہ می گوید بعقل آفتاب اندر جہاں آنگہ کہ می جوید سہا ۔۲؂ مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم تشریف فرما ہوں تو اپنی عقل سے کون بات کرتا ہے سورج دنیا میں جلوہ گر ہو تو چھوٹے سے ستارے کو کون ڈھونڈتا ہے۔ت)
(قال الرضا )
عرش پہ جا کہ مرغِ عقل تھک کے گرا ، غش آگیا اور ابھی منزلوں پر ے، پہلا ہی آستان ہے ۳؎

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۳/ ۷)
(۲؂)
( ۳ ؎ حدائق بخشش مکتبہ رضویہ کراچی حصہ اول ص۷۹)

یاد رکھنا چاہیے کہ وحی الہٰی کا نزول، کتبِ آسمانی کی تنزیل ، جن و ملائکہ، قیامت و بعث، حشر ونشر حساب و کتاب ، ثواب و عذاب اور جنت و دوزخ کے وہی معنی ہیں جو مسلمانوں میں مشہور ہیں اور جن پر صدر اسلام سے اب تک چودہ سو سال کے کافہ مسلمین و مومنین دوسرے ضروریاتِ دین کی طرح ایمان رکھتے چلے آرہے ہیں مسلمانوں میں مشہور ہیں۔

جو شخص ان چیزوں کو تو حق کہے اوران لفظوں کا تو اقرار کرے مگر ان کے نئے معنٰی گھڑے مثلاً یوں کہے کہ جنت و دوزخ و حشر ونشر و ثواب و عذاب سے ایسے معنی مراد ہیں جو ان کے ظاہر الفاظ سے سمجھ میں نہیں آتے۔ یعنی ثواب کے معنی اپنے حسنات کو دیکھ کر خوش ہونا۔ اور عذاب، اپنے برے اعمال کو دیکھ کر غمگین ہونا ہیں۔ یا یہ کہ وہ روحانی لذتیں اور باطنی معنی ہیں وہ کافر ہے کیونکہ ان امور پر قرآن پاک اور حدیث شریف میں کھلے ہوئے روشن ارشادات موجود ہیں ۔

یونہی یہ کہنا بھی یقیناً کفر ہے کہ پیغمبروں نے اپنی اپنی اُمتوں کے سامنے جو کلام، کلامِ الہٰی بتا کر پیش کیا وہ ہر گز کلامِ الہی نہ تھا بلکہ وہ سب انہیں پیغمبروں کے دلوں کے خیالات تھے جو فوارے کے پانی کی طرح انہیں کے قلوب سے جوش مار کر نکلے اور پھر انہیں کے دِلوں پر نازل ہوگئے۔

یونہی یہ کہنا کہ نہ دوزخ میں سانپ، بچھو اور زنجیریں ہیں اور نہ وہ عذاب جن کا ذکر مسلمانوں میں رائج ہے، نہ دوزخ کا کوئی وجود خارجی ہے بلکہ دنیا میں اﷲ تعالٰی کی نافرمانی سے جو کلفت روح کو ہوئی تھی بس اسی روحانی اذیت کا اعلٰی درجہ پر محسوس ہونا اسی کا نام دوزخ اور جہنم ہے، یہ سب کفرقطعی ہے۔

یونہی یہ سمجھنا کہ جنت میں میوے ہیں نہ باغ، نہ محل ہیں نہ نہریں ہیں، نہ حوریں ہیں، نہ غلمان ہیں، نہ جنت کا کوئی وجود خارجی ہے بلکہ دنیا میں اللہ تعالٰی کی فرمانبرداری کی جو راحت روح کو ہوئی تھی بس اسی روحانیت کا اعلٰی درجہ پر حاصل ہونا اسی کا نام جنت ہے، یہ بھی قطعاً یقینا کفر ہے۔

یونہی یہ کہنا کہ اﷲ عزوجل نے قرآن عظیم میں جن فرشتوں کا ذکر فرمایا ہے نہ ان کا کوئی اصل وجود ہے نہ ان کا موجود ہونا ممکن ہے ، بلکہ اﷲ تعالٰی نے اپنی ہر ہر مخلوق میں جو مختلف قسم کی قوتیں رکھی ہیں جیسے پہاڑوں کی سختی، پانی کی روانی، نباتات کی فزونی بس انہیں قوتوں کا نام فرشتہ ہے ، یہ بھی بالقطع و الیقین کفر ہے۔
یونہی جن و شیاطین کے وجود کا انکار اور بدی کی قوت کا نام جن یا شیطان رکھنا کفر ہے اور ایسے اقوال کے قائل یقیناً کافر اور اسلامی برادری سے خارج ہیں۔

فائدہ جلیلہ

مانی ہوئی باتیں چار (۴) قسم ہوتی ہیں۔

(۱) ضروریاتِ دین :

ان کا ثبوت قرآن عظیم یا حدیث متواتر یا اجماع قطعیات الدلالات واضحۃ الافادات سے ہوتا ہی جن میں نہ شبہے کی گنجائش نہ تاویل کو راہ۔اور ان کا منکر یا ان میں باطل تاویلات کا مرتکب کافر ہوتا ہے۔

(۲) ضروریاتِ مذہبِ اہلسنت و جماعت :

ان کا ثبوت بھی دلیل قطعی سے ہوتا ہے۔ مگر ان کے قطعی الثبوت ہونے میں ایک نوعِ شبہہ اور تاویل کا احتمال ہوتا ہے اسی لیی ان کا منکر کافر نہیں بلکہ گمراہ ، بذمذہب ، بددین کہلاتا ہے۔

(۳) ثا بتات محکمہ :

ان کے ثبوت کو دلیل ظنی کافی، جب کہ اس کا مفاد اکبر رائے ہو کہ جانب خلاف کو مطروح و مضمحل اور التفاتِ خاص کے ناقابل بنادے۔ اس کے ثبوت کے لیے حدیث احاد، صحیح یا حسن کافی ، اور قول سوادِ اعظم و جمہور علماء کا سندِ وافی ، فانّ ید اﷲ علی الجماعۃ ( اﷲ تعالٰی کا دستِ قدرت جماعت پر ہوتا ہے۔ت)
ان کا منکر وضوحِ امر کے بعد خاطی و آثم خطاکارو گناہگار قرار پاتا ہے، نہ بددین و گمراہ نہ کافر و خارج از اسلام

(۴) ظنّیات محتملہ:

ان کے ثبوت کے لیے ایسی دلیل ظنّی بھی کافی، جس نے جانبِ خلاف کے لیے بھی گنجائش رکھی ہو، ان کے منکر کو صرف مخطی و قصور وارکہا جائے گا نہ گنہگار ، چہ جائیکہ گمراہ ، چہ جائیکہ کافر۔
ان میں سے ہر بات اپنے ہی مرتبے کی دلیل چاہتی ہے جو فرقِ مراتب نہ کرے اور ایک مرتبے کی بات کو اس سے اعلٰی درجے کی دلیل مانگے وہ جاہل بے وقوف ہے یا مکّار فیلسوف ۔۔۔۔۔۔ع

ہر سخن و قتے ہر نکتہ مقامے دارد

( ہر بات کا کوئی وقت اور ہر نکتے کا کوئی خاص مقام ہوتا ہے۔ت)
اور ۔۔۔۔۔۔ع گرفرق مراتب نہ کنی زندیقی

( اگر تُو مراتب کے فرق کو ملحوظ نہ رکھے تو زندیق ہے۔ت)
اور بالخصوص قرآنِ عظیم بلکہ حدیث ہی میں تصریح صریح ہونے کی تو اصلاً ضرورت نہیں حتّٰی کہ مرتبہ اعلٰی اعنی ضروریاتِ دین میں بھی۔
بہت باتیں ضروریاتِ دین سے ہیں جن کا منکر یقیناً کافر مگر بالتصریح ان کا ذکر آیات و احادیث میں نہیں، مثلاً باری عزوجل کا جہل محال ہونا۔

قرآن عظیم میں اﷲ عزوجل کے علم و احاطہ کا لاکھ جگہ ذکر ہے مگر امتناع و امکان کی بحث کہیں نہیں پھر کیا جو شخص کہے کہ واقع میں تو بے شک اﷲ تعالٰی سب کچھ جانتا ہے، عالم الغیب و الشہادۃ ہے، کوئی ذرّہ اس کے علم سے چھپا نہیں۔

مگر ممکن ہے کہ جاہل ہوجائے تو کیا وہ کافر نہ ہوگا کہ اس کے امکان کا سلبِ صریح قرآن میں مذکور نہیں۔ حاش ﷲ ! ضرور کافر ہے اور جو اسے کافر نہ کہے خود کافر، تو جب ضروریاتِ دین ہی کے ہر جزئیہ کی تصریح صریح، قرآن و حدیث میں ضرور نہیں تو ان سے اُتر کر اور کسی درجے کی بات پر یہ مڑ چڑا پن کہ ہمیں تو قرآن ہی میں دکھاؤ ورنہ ہم نہ مانیں گے ، نِری جہالت ہے یا صریح ضلالت، مگر جنون و تعصب کا علاج کسی کے پاس نہیں۔
تو خوب کان کھول کر سُن لو اور لوحِ دل پر نقش رکھو کہ جسے کہتا سنو ہم اماموں کا قول نہیں جانتے ہمیں تو قرآن و حدیث چاہیے۔ جان لو کہ یہ گمراہ ہے ، اور جسے کہتا سنو کہ ہم حدیث نہیں جانتے ہمیں صرف قرآن درکار ہے سمجھ لو کہ یہ بددین، دینِ خدا کا بدخواہ ہے۔

مسلمانو ! تم ان گمراہوں کی ایک نہ سُنو۔ اور جب تمہیں قرآن میں شبہہ ڈالیں تم حدیث کی پناہ لو۔ اگر حدیث میں ایں و آں نکالیں تم ائمہ دین کا دامن پکڑو۔ اس درجے پر آکر حق و باطل صاف کھل جائے گا اور ان گمراہوں کا اڑایا ہوا، سارا غبار حق کے برستے ہوئے بادلوں سے دھل جائے گا اور اس وقت یہ ضال، مضل طائفے بھاگتے نطر آئیں گے۔ کانَّھم حمر مستنفرۃ فرت من قسورۃ ۔۱؂ ( گویا وہ بھڑکے ہوئے گدھے ہوں کہ شیر سے بھاگے ہوں) (الصارم الربانی ملخصاً)

(۱؂ القرآن الکریم ۷۴/ ۵۰ و ۵۱)

عقیدہ عاشرہ ۱۰ _____ شریعت و طریقت

شریعت و طریقت ، دو راہیں متبائن نہیں ( کہ ایک دوسرے سے جدا اور ایک دوسرے کے خلاف ہوں ) بلکہ بے اتباع شریعت ، خدا تک وصول محال، شریعت تمام احکامِ جسم و جان و روح قلب و جملہ علومِ الہیہ و معارفِ نامتناہیہ کو جامع ہے جن میں سے ایک ایک ٹکڑے کا نام طریقت و معرفت ہے و لہذا باجماعِ قطعی جملہ اولیائے کرام کے تمام حقائق کو شریعتِ مطہرہ پر عرض کرنا فرض ہے، اگر شریعت کے مطابق ہوں حق و قبول ہیں ورنہ مردود و مخذول ( مطرود و نامقبول)
(تو یقیناً قطعاً شریعت ہی اصل کار ہے، شریعت ہی مناط و مدار ہے شریعت ہی محک و معیار ہے اور حق و باطل کے پرکھنے کی کسوٹی)

شریعت راہ کو کہتے ہیں اور شریعت محمدیہ علٰی صاحبہا الصلوۃ والتحیۃ کا ترجمہ ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی راہ۔ اور یہ قطعاً عام و مطلق ہے نہ کہ صرف چند احکامِ جسمانی سے خاص۔

یہی وہ راہ ہے کہ پانچوں وقت ، ہر نماز ہر رکعت میں اس کا مانگنا اور اس پر صبر و استقامت کی دُعا کرنا ہر مسلمان پر واجب فرمایا ہے کہ اھدنا الصراط المستقیم ۔۱؂ ( ہم کو سیدھا راستہ چلا) ہم کو محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی راہ پر چلا ، ان کی شریعت پر ثابت قدم رکھ۔

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۱/ ۵)

یونہی طریق، طریقہ، طریقت راہ کو کہتے ہیں نہ کہ پہنچ جانے کو، تو یقیناً طریقت بھی راہ ہی کا نام ہے، اب اگر وہ شریعت سے جدا ہو تو بشہادت قرآن عظیم خدا تک نہ پہنچائے گی بلکہ شیطان تک جنت تک نہ لے جائے گی بلکہ جہنم میں کہ شریعت کے سوا سب راہوں کو قرآن عظیم باطل و مردود فرماچکا۔

لاجرم ضرور ہوا کہ طریقت یہی شریعت ہے اسی راہ روشن کا ٹکڑا ہے۔ اس کا اس سے جدا ہونا محال و ناسزاہے، جو اسے شریعت سے جدا مانتا ہے اسے راہِ خدا سے توڑ کر راہِ ابلیس مانتا ہے مگر حاشا، طریقیت حقّہ راہِ ابلیس نہیں قطعاً راہِ خدا ہے) نہ بندہ کسی وقت کیسی ہی ریاضات و مجاہدات بجالائے ۔ ( کیسی ہی ریاضتوں ، مجاہدوں اور چِلّہ کشیوں میں وقت گزارا جائے۔ اس رُتبہ تک پہنچے کہ تکالیف شرع ( شریعت و مطہرہ کے فرامین و احکامِ امرونہی) اس سے ساقط ہوجائیں اور اسے اسپ بے لگام و شُتر بے زمام کرکے چھوڑ دیا جائے۔

قرآن عظیم میں فرمایا: انّ ربی علٰی صراط مستقیم ۔۲؂ بے شک اسی سیدھی راہ پر میرا رب ملتا ہے۔

( ۲؎ القرآن الکریم ۱۱/ ۵۶)

اور فرمایا: واَنّ ھٰذا صراطی مستقیمافاتبعوہ ولا تتبعواالسبل الاٰیۃ ۔۱؂ شروع رکوع سے احکامِ شریعت بیان کرکے فرماتا ہے ۔ اور اے محبوب ! تم فرمادو کہ یہ شریعت میری سیدھی راہ ہے تو اس کی پیروی کرو اور اس کے سوا اور راستوں کے پیچھے نہ لگ جاؤ کہ وہ تمہیں خدا کی راہ سے جدا کردیں گے۔
دیکھو قرآن عظیم نے صاف فرمادیا کہ شریعت ہی صرف وہ راہ ہے جس کا منتہا اﷲ ہے اور جس سے وصول الی ﷲ ہے، اس کے سوا آدمی جو راہ چلے گا اﷲ کی راہ سے دُور پڑے گا،

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۶/ ۱۵۳)

طریقت میں جو کچھ منکشف ہوتا ہے شریعت ہی کے اتباع کا صدقہ ہے ورنہ بے اتباعِ شرع بڑے بڑی کشف راہبوں، جوگیوں، سنیا سیوں کو دیئے جاتے ہیں، پھر وہ کہاں تک لے جاتے ہیں، اسی نارِ جحیم وعذاب الیم تک پہنچاتے ہیں۔ (مقال العرفاء)

صوفی وہ ہے کہ اپنے ہوا ( اپنی خواہشوں، اپنی مرادوں) کو تابع شرع کرے ( بے اتباع شرع کسی خواہش پر نہ لگے ) نہ وہ کہ ہوا ( وہوس اور نفسانی خواہشوں) کی خاطر شرع سے دستبردار ہو( اوراتباع شریعت سے آزاد) شریعت غذا ہے اور طریقت قوت، جب غذا ترک کی جائے گی قوت آپ زوال پائے گی، شریعت آنکھ ہے اور طریقت نظر ( اور) آنکھ پھوٹ کر نظر (کا باقی رہنا) غیر متصور (عقل سلیم قبول نہیں کرتی تو شریعتِ مطہرہ میں کب مقبول ومعتبر) بعد از وصولِ ( منزل) اگر اتباعِ شریعت سے بے پروائی ہوتی ( اور احکامِ شرع کا اتباع لازم و ضرور نہ رہتا یا بندہ اس میں مختار ہوتا) تو سیّدالعالمین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور امام الواصلین علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ اس کے ساتھ احق ہوتے ( اور ترکِ بندگی و اتباع شرع کے باب میں سب سے مقدم و پیش رفت) نہیں ( یہ بات نہیں اور ہر گز نہیں) بلکہ جس قدر قربِ (حق) زیادہ ہوتا ہے شرع کی باگیں او ر زیادہ سخت ہوتی جاتی ہیں ( کہ) حسنات الابرار سیئات المقربین ۔۲؂ ( ابرار کی نیکیاں بھی مقربین کے لیے عیب ہوتی ہیں)

نزدیکاں رابیش بود حیرانی

(قریب والوں کو حیرت زیادہ ہوتی ہے)

( ۲ ؎ کشف الخفاء حدیث ۱۱۳۵ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۳۱۸)

اور۔۔۔ع
جن کے رُتبے ہیں سوا، ان کو سوا مشکل ہے
آخر نہ دیکھا کہ سیّد المعصومین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رات، رات بھر عبادات و نوافل میں مشغول اور کارِ امّت کے لیے گریاں و ملول رہتے، نماز پنجگانہ تو حضور پر فرض تھی ہی نمازِ تہجد کا ادا کرنا بھی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر لازم بلکہ فرض قرار دیا گیا جب کہ اُمّت کے لیے وہی سنت کی سنت ہے۔

حضرت سید الطائفہ جنید بغدادی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے عرض کیا گیا کہ کچھ لوگ زعم کرتے ہیں کہ احکامِ شریعت تو وصول کا ذریعہ تھے اور ہم واصل ہوگئے یعنی اب ہمیں شریعت کی کیا حاجت ۔ فرمایا وہ سچ کہتے ہیں، واصل ضرور ہوئے مگر کہاں تک ؟ جہنم تک۔

چور اور زانی ایسے عقیدے والوں سے بہتر ہیں اگر ہزار برس جیوں تو فرائض وواجبات تو بڑی چیز ہیں، جو نوافل و مستحبات مقرر کردیئے ہیں بے عذرِ شرعی ان میں کچھ کم نہ کروں۔
تو خلق پر تمام راستے بند ہیں مگر وہ جو رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نشانِ قدم کی پیروی کرے۔ خلافِ پیغمبر کسے راہ گزید کہ ہر گز بہ منزل نہ خواہد رسید ۔۱؂ ( جس کسی نے پیغمبر صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے خلاف راستہ اختیار کیا ہر گز منزل مقصود پر نہ پہنچے گا)
توہینِ شریعت کفر( اور علمائے دین کو سب وشتم، آخرت میں فضیحت و رسوائی کا موجب)

اور اس کے دائرہ سے خروج فسق ( و نافرمانی) صوفی ( تقوٰی شعار) صادق (العمل) عالم سنی صحیح العقیدہ پر خدا و رسول کے فرمان ( واجب الاذعان کے مطابق ) ہمیشہ یہ عقیدت رکھتا ہے کہ ( یہاں اصل میں بیاض ہے) ( علمائے شرع مبین و ارثانِ خاتم النبیین ہیں اور علومِ شریعت کے نگہبان و علمبردار ، تو ان کی تعظیم و تکریم صاحبِ شریعت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم و تکریم ہے اور اس پر دین کا مدار ) اور عالمِ متدین خدا طلب ( خدا پرست، خدا ترس، خدا آگاہ) ہمیشہ صوفی سے ( یہاں اصل میں بیاض ہے) ( بتواضع و انکسار پیش آئے گا کہ وہ حق آگاہ اور حق کی پناہ میں ہے) اور اسے اپنے سے افضل و اکمل جانے گا( کہ وہ دنیاوی آلائشوں سے پاک ہے) جو اعمال اس ( صوفی صاف حق پرست و حق آگاہ) کے اس کی نظر میں قانونِ تقوٰی سے باہر نظر آئیں گے ( ان سے صرِف نظر کرکے معاملہ عالم الغیب والشہادۃ پر چھوڑے گا بمصداق ۔

ایکہ حمّالِ عیب خویشتید طعنہ برعیبِ دیگراں مکنید

( اے اپنے عیبوں کو اٹھانے والو۔ دوسروں کے عیب پر طعنہ زنی مت کرو)

اے اللہ ! سب کو ہدایت اور اس پر ثبات و استقامت ( ثابت قدمی) اور اپنے محبوبوں اور سچے پکے عقیدوں پر جہانِ گزران سے اٹھا، آمین یا ارحم الراحمین ۔

اللّٰھم لک الحمد والیک المشتکٰی وانت المستعان ط ولاحول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم وصلی اللہ تعالٰی علی الحبیب المصطفٰی وعلٰی اٰلہ الطیبین وصحبہ الطاہرین اجمعین

رسالہ اعتقاد الاحباب فی الجمیل والمصطفٰی والاٰل والاصحاب ختم ہوا۔