سایہ رسول کریم, فتاوی رضویہ, فضائل و خصائص

ھدی الحیران فی نفی الفیئ عن سید الاکوان

رسالہ
ھدی الحیران فی نفی الفیئ عن سید الاکوان(۱۲۹۹ھ)
(سرورِکائنات صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے سایہ کی نفی کے بارے میں حیرت زدہ کے لئے راہنمائی)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ حمدا تنجلی بہا ظلمات الا لٓام والصلوہ والسلام علی سیدنا محمد قمر التمام وعلی الہ واصحابہ مصایبح الظلام وعلی المھتدین بانوار ھم الی یوم القیام وبعد فقال العبد الملتجی الی ربہ القوی عن شر کل غوی وغبی عبدہ المذنب احمد رضا المحمدی ملۃ والسنی عقیدۃ والحنفی عملا والقادری البر کاتی الاحمدی طریقۃ وانتسابا و البریلوی مولدا وموطنا والمدنی والبقیعی ان شاء اللہ مدفنا ومحشرا فالعدنی الفردوسی رحمۃ اللہ منزلا ومد خلا مستنیرا بانوار الھدایۃ والیقین حاسما الخدشات الظن و التخمین بک یا ربنا فی کل باب نستعین ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ۔

تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لئے ہیں جن سے دکھوں کی تاریکیاں دور ہوتی ہیں ۔ درود و سلام ہو ہمارے آقا محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم پر جو ماہ کامل ہیں اور آپ کی آل پر اور آپ کے صحابہ پر جواندھیروں میں چراغ ہیں اور پر جو قیامت آل واصحاب کے انوار سے سے ہدایت حاصل کرتے ہیں گے ۔ بعد از یں ہرگمراہ اور کند ذہن کے سر سے رب قوی کی پناہ کا طلبگار اس کا خطا کا ر بندہ احمد رضا کہتا ہے جو ملت کے اعتبار سے محمدی ، عقیدہ کے اعتبار سے سنی ، عمل کے اعتبار سے حنفی ، طریقت وانتساب کے اعتبار سے قادری بر کاتی احمد ی ، مولد و وطن کے اعتبار سے بریلوی اور اللہ نے چاہا تو مدفن ومحشر کے اعتبار سے مدنی وبقیعی ، پھر اللہ تعالی کی رحمت سے منزل ومدخل کے اعتبار سے عدنی وفردوسی ہے درا نحالیکہ وہ ہدایت ویقین کے انوار سے مستنیر ہونے والا اور ظن وتخمین کے خدشات کو مٹا نے والا ہے ، تیری تو فیق سے اے ہمارے رب ! ہم ہر بات میں تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ۔ اور اللہ بلندی و عظمت والے کی توفیق کے بغیر نہ تو کسی کے لئے گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ ہی نیکی کرنے کو قوت ۔(ت)

فصل اول

ہم حول وقوت ربانی پر اتکاء واتکال کی عروہ وثقی دست التجاء میں مضبوط تھام کر پیش از جواب مفصل چند مقدمات ایسے تمہید کرتے ہیں جن سے بعون اللہ تعالی ارتفاع نزاع بہ آسانی بن پڑے ۔

عزیز ان حق طلب ! اگر عقل سلیم کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دینگے تو ان شاء اللہ انہی شمعوں کی روشنی میں ٹھیک ٹھیک شاہراہ صواب پر ہولیں گے اور کلفت خار زار اور آفت یمین ویسار سے بچتے ہوئے تجلائے ہدایت میں نور کے تڑ کے ٹھنڈے ٹھنڈے منزل تحقیق پر خیمہ زن ہوں گے اور جو تعصب اور سخن پروری کاساتھ دے تو ہم پرکیا الزام ہے کہ جلتے ریت پر چلانا ، بلا کے کانٹون میں پھنسانا ، اندھے کو دن میں گرانا ، ان دو آفت جا ن ، دشمن دین وایمان کا قدیمی کام ہے وباللہ التوفیق وبہ الوصول الی ذروۃ التحقیق ( اللہ ہی سے توفیق ہے اور اسی کی بدولت تحقیق کی بلندی تک پہنچا جاسکتا ہے ۔ت)

مقدمہ اولی:

جب دو چیز وں میں عقل یا نقل ملازمت ثابت کرے تو بحکم قضیہ لزوم ، بعد ثبوت ملزوم ، تحقیق لازم خود محقق ومعلوم ، اور تجشم دلیل کی حاجت معدوم ، اسی طر ح بعد انتفائے لازم انعدام ملزوم آپ ہی مفہوم ، کما ہو غیر خاف ولا مکتو م ، اور اسی ملازمت واقعہ کے با عث مرتبہ ادراک میں بھی بعد علم باللزوم ، وجود لازم وانتفائے ملزوم ، تحقیق ملزوم وعدم لازم کا شک ووہم وظن و یقین وتکذیب میں تا بع رہتا ہے ، مثلا جسے وجود ملزوم پر تیقن کا مل ہوگا اس کے نزدیک ثبوت لازم بھی قطعی یقینی ہوگا اور ظان وشاک وواہم کے نزدیک مظنون ومشکوک وموہوم ہوگا اور یہ معنی بد یہیات باہر ہ سے ہیں ۔

مقدمہ ثانیہ :

دعاوی ومقاصد خواہش ثبوت میں متساویۃ الاقدام نہیں بعض ایسے درجہ اہتمام ورفعت مقام یں ہیں کہ جب تک نص صحیح ، صریح ، متواتر قطعی الدلالۃ ہر طر ح کے شکوک و اوہام سے منزہ ومبر نہ پایا جائے ہر گز پایہ ثبوت کو نہیں پہنچ سکتے ، احادیث احاد اگر چہ بخاری ومسلم کی ہوں ان کے لئے کافی نہ ہوں گی۔

اسی قبیل سے ہے اطلاق الفاظ متشابہات کہ حضرت عزت میں اصح الکتب سے ثابت مگر عدم تواتر مانع قبول اور حلال وحرام کی جب بحث آئے تو احادیث ضعیفہ سے کام لیں گے اور فضائل اعمال و مناقب رجال میں دائر ہ کو خوب تو سیع دیں گے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ثابت الاصل کے مؤیدات و ملائمات میں چنداں اہتمام منظور نہیں ، مثلا ہمیں یقینیات سے معلوم ہوچکا کہ ذکر الہی وتکبیر وتہلیل ونماز و درود وغیرہا اعمال صالحہ محمود ہ ہیں ، اب خاص صلوۃ التسبیح کی حدیث درجہ صحت تک پہنچنا ضرور نہیں ، یا نصوص قرآنیہ واحادیث متواتر ۃ المعنی ہمیں ارشاد فرمایا چکیں کہ صحابہ سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ و علیہم اجمعین سب ارباب فضائل وعلوشان ورفعت مکان اور اللہ تبارک وتعالی کے بندگان مقبول و بہترین امتیاں ہیں۔

اب خاص حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مناقب بخاری و مسلم ہے پر مقصور نہیں ، اسی قبیل سے ہے باب معجزات وخوارق عادات کو حضور اقدس خلیفہ اعظم بارگاہ قدرت سے صدور آیات ومعجزات اور ملکوت السموۃ والارض میں حضور کے ظاہر وباہر تصرفات ، قاطعات یقینیہ سے ثابت ، تواب شہادت ظبی یا عدم ظل کا ثبوت صحاح ستہ پر محصور نہیں علماء نے تو با ب خوارق میں غرابت متین پر بھی خیال نہ کیا اور حدیث کو با وجود ایسے خدشہ کے حسن ومقبول رکھا ۔

اما م اجل ابو عثمان اسمعیل بن عبدالرحمن صابانی کتاب المائتین میں حدیث حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہ حضور پر نور سے مہد اقدس میں چاند باتیں کرتا اور جد ھر اشارہ فرماتے ہیں جھک دیتا ، ذکر کر کے فرماتے ہیں : ھذا حدیث غریب الاسناد والمتن و ھو فی المعجزات حسن ۱؂ اھ اٰثرہ الامام العلامۃ القسطلانی فی المواہب۔

یہ حدیث اسناد ومتن کے اعتبار سے غریب ہے اور وہ معجزات میں حسن ہے اھ اس کو امام قسطلانی نے مواہب میں ترجیح دی ۔(ت)

(۱؂ المواہب اللدنیۃ بحوالہ الصابو ن فی المائتین المقصد الاول المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۱۵۴)

علامہ رزقانی شرح لکھتے ہیں : لان عادۃ المحدثین التساھل فی غیر الاحکام والعقائد مالم یکن موضوعا ۱؂۔

کیونکہ محدثین کی عادت ہے کہ وہ احکام وعقائد کے غیر میں چشم پوشی سے کام لیتے ہیں جب تک حدیث موضوع نہ ہو ۔(ت)

(۱؂ شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصد الاول دار المعرفۃ بیروت ۱ /۱۴۷)

مقدمہ ثالثہ :

علماء کی تلقی بالقبول کو ایراث قوت میں اثر عجیب ہے کہ وہ ہر طر ح ہم سے اعرف و اعلم تھے ، ہماری ان کی کوزہ ومحیط کی بھی نسبت ٹھیک نہیں ، وہ سمائے علوم کے بد ر منیر اور ہم عامی انہیں کی روشنیوں سے مستنیر ، جب وہی ایک امر کو سلفا وخلفا مقبول رکھیں اوراپنی تصانیف اس کے ذکر سے موشح کریں توہمیں کیا جائے انکار ہے ،

وفی مثل ذالک یقول الامام العلامۃ العارف ربانی سیدی عبد الوھاب الشعرانی فی المیزان ” ان ھولاء الائمۃ الذین توقفت عن العمل بکلامہم کانوا اعلم منک واورع بیقین فی جمیع ما دونہ فی کتبھم لاتباعھم ،وان ادعیت انک اعلم منہم نسیک الناس الی الجنون اوالکذب جحدا و عنادا وقد افتی علماء سلفک بتلک الاقوال التی ترا ھا انت ضعیفۃ و دانوا للہ تعالی بھا حتی ماتوا فلا یقدح فی علمہم و ورعہم جہل مثلک بمناز عہم وخفا ء مدارکہم ومعلوم بل مشاھد ان کل عالم لایضع فی مؤلفہ عادۃ ا لاما تعب فی تحریر ہ و زنہ بمیزان الادلۃ والقواعد الشرعیۃ وحررہ تحریر الذھب والجوھر ، فایاک ان تنقبض نفسک من العمل بقول من اقوالہم اذا لم تعرف منزعہ فانک عامی بالنسبۃ الیہم والعامی لیس من مرتبۃ الانکار علی ا لعلماء لانہ جاھل۱؂ اھ

اور اسی کی مثل میں امام علامہ عارف ربانی سیدی عبدالوہاب شعرانی میزان میں فرماتے ہیں اور یہ تمام امام جن کے کلام پر عمل کرنے میں تو تو قف کرتا ہے تجھ سے علم ہمیں زیادہ ہیں اور دینی ذخیرہ انہوں نے اپنے مقلدین کے لئے جمع کیا ہے اس میں یقینا تجھ سے زیادہ متقی او رمحتاط ہیں اور اگر تو اپنی علمیت کا دعوی کرتا ہے تو لوگ قصدا تجھے مجنون اور دروغ گو کہیں گے اور یہ اقوال جن کو تو ضعیف جانتا ہے وہی ہیں جن کے ساتھ علماء متقدمین نے فتوی دیا ہے اور اسی کی وجہ سے وہ اللہ کے قریب ہوئے حتی کہ اس دنیا ئے فانی سے رخصت ہوئے اور اگر تجھے جیسا ان کے مراتب ومدارک سے ناواقف ہوتو ان کے مراتب وتقوی میں کچھ نقصان نہیں آسکتا اور یہ بات معلوم بلکہ مشاہد ہے کہ ہر عالم اپنی اپنی کتب میں وہ امورلائے جن کے لکھنے میں مشقت بر داشت کرنی پڑی اور جن کو ادلہ اور قواعد شرعیہ کے تر ازو پر تول لیا ہے اور ان کو سونے او ر چاندی کی طر ف مزین کیا ہے ، پس تو اپنے آپ کو اس سے بچاکہ ان کے اقوال میں سے کسی ایسے قول پر عمل کنے سے تمہارا دل تنگ ہو جس کا ماخذ تمہاری سمجھ میں نہ آیا ہو کیونکہ تو بہ نسبت ان کے عامی ہے اور عامی کا یہ مذہب نہیں کہ وہ علماء کا انکار کرے کیونکہ وہ عامی جاہل ہوتا ہے ۔(ت)

(۱؂ میزان الشریعۃ الکبری فصل فی بیان ذکر بعض من اطنب فی الثنا ء الخ دار الکتب اللمیۃ بیروت ۱ /۹۰)

فقیر غفر اللہ تعالٰی لہ کا فتوی سابق کہ اسی بارے میں لکھ چکاہوں پیش نگاہ رکھ کر ان مقدمات میں امعان نظر کیجئے تو بحمد اللہ تمام شکوک واوہام ہباء منثور ہوجاتے ہیں ، ہاں میں بھولا ، ایک شرط اور بھی درکار ہے ، وہ کیا ، عقل کا اتباع اور تعصب سے امتناع ، مگر یہ دولت کسے ملے ؟ جسے خدادے ۔

یہاں تو اجمال کی غنچہ بندیاں تھیں اور تفصیل کی بہار گلفشانی پسند آئے تو لیجئے بگو ش ہوش وقلب شہید و انصاف کوش ، استماع کیجئے ۔

رب ارحم من انصف واھد عنیدا خالفا

( اے میرے پروردگار انصاف کرنے والے ! رحم فرمااور مخالف کرنے والے ہٹ دھرم کو ہدایت عطا فرما۔ت)

قولہ صرف حکیم ترمذی نے کہ غیر صاحب صحیح اور شخص ہیں ، اپنی کتاب نوادر الاصول میں روایۃ کہا ہے : ولم یکن لہ ظل لا فی الشمس ولا فی القمر ۔

آپ کا سایہ نہ تھا ، نہ دھوپ میں نہ چاندی میں(ت)

اقول: صلی للہ تعالی علیہ وسلم ( اللہ تعالی نبی کریم پر درود وسلام نازل فرمائے ۔ ت)

مجیب کے اس سارے جواب کا مبنے صرف اسی زعم فاسد پر ہے جوقصور نظر سے ناشی ۔ حکیم ترمذی نے تو اس حدیث کو ذکو ان تابعی سے مرسلاروایت کیا اور اسے موصولا مع زیادت مفید ہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کرنے کرنے والے امام جلیل ، حبر نبیل ، حجۃ اللہ فی الارضین ، معجزۃ من معجزات سید المر سلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ، حضرت امام ہمام عبداللہ بن مبارک قدس سرہ المتبر ک جن کی جلالت شان و غزار ت علوم آفتاب نیم روز سے اظہر وازہر ، امام اجل احمد بن حنبل وامام سفین ثوری وامام یحیی ابن معین وابو بکر بن ابی شیبہ وحسن بن عرفہ وغیرہم اکابر محدثین ، فن حدیث میں اس جناب رفعت قباب کے شاگرد ان مستفیض ہیں اور کتا بو ں پر اگر نظر نہ ہو تو شاہ صاحب کی بستان ہی دیکھئے ، کیا کچھ مدائح اس جانب سے لکھ کر مستوجب رحمت الہی ہوئے ہیں ۔
ان کے بعد اس حدیث کے راوی امام علامہ شمس الدین ابو الفرج ابن الجوزی ہیں ، رحمۃ اللہ تعالی علیہ ، کہ کتاب الوفاء میں اسے روایت فرمایا ۱؂۔

(۱؂ الوفا ء با حوال المصطفٰی الباب التا سع والعشرو ں مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲ /۴۰۷)

فن حدیث میں ان کی دستگاہ کامل کسے معلوم نہیں خصوصا بر عکس امام ابو عبداللہ حاکم جرح ونضعیف پر حرص شدید رکھتے ہیں ، پھر جس حدیث حدیث پر یہ اعتماد کریں ظاہر ہے کہ کس درجہ قوت میں ہوگی ، پس با وجود تعدد طر ق وکثرت مخرجین ، حدیث کو صرف روایت حکیم کہنا محض باطل ،اور باطل پر جو کچھ مبنی ، سب حلیہ صواب سے عاطل ،اور معلوم نہیں لفظ ” روایۃ ” کس غرض سے بڑھایا ، ظاہرا اعضال یا تعلیق کی طرف اشارہ فرمایا کقول القائل روی کذ ا وذکر عن زید عن عمر و کذا ( جیسے قول قائل کہ یوں روایت کیا گیا ہے اور زید سے بحوالہ عمر و یوں ذکر کیا گیا ہے ۔ ت) کہ مقصود مجیب حدیث کو بے اعتبار ٹھہرا نا ہے تو بہ شہادت سوق وہی الفاظ لائے جائیں گے جو مقصود کے ملائم وموید ہوں نہ وہ کہ ایک قسم کی بے اعتباری کو دفع کریں اور اعتبار سے اصلا منافات نہ رکھیں ، حالانکہ محدثین کے نزدیک تخریج وروایت کا ایک ہی مفاد اور ذکر اسناد دونوں جگہ مراد کما تفصح عن کلمات العلماء الامجاد (جیسا کہ بزرگ علماء کی عبارات نے اس کو خوب واضح کردیا ہے ۔ت ) پس اگر اس اصطلاح محدثین پر اطلاع تھی تو مقصود سے بیگانہ لفظ کی زیادت کیوں ہوئی اور ایسے مواخذ ے تو ہم ضروری بھی نہیں سمجھتے کہ روایت حکیم کی نقل میں کمی بیشی واقع ، ان کے پاس لفظ حدیث یوں ہیں : ان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لم یکن یری لہ ظل فی شمس ولا قمر۲؂ سورج اور چند کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا سایہ نظر نہ آتا تھا ۔ (ت)

(۲؂ الخصائص الکبری بحوالہ الحکیم الترمذی باب الایۃ فی انہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لم یکن یری الخ مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ۱/ ۶۸)

قولہ مگر محدثان اعلام نے اس حدیث کو معتبر نہیں مانا ہے ۔

اقول : جب اس کتاب کے سوا اور ائمہ اعلام نے بھی حدیث کو روایت فرمایا تو اس کتاب کا غیر معتبر ہونا کیا مضر ت رکھتا ہے ، معہذا غیر معتبر ماننے کے یہ معنی کہ اس کی ہر روایت کو باطل سمجھا ، جب تو محض غلط ، نہ کوئی محدث اس کا قال ، خود اکابر محدثین اسی نوادر الاصول بلکہ فر دوس دیلمی سے جس کا حال نہایت ہی ردی ہے ، تو وہ روایتیں اپنی کتب میں لاتے اور ان سے احتجاج واستناد فرماتے ہیں کما لا یخفی علی من طالع کتب القوم ( جیسا کہ کتب قوم کامطالعہ کرنے والے پر پو شیدہ نہیں ہے ۔ت )

اور جو یہ مقصود کہ اس میں روایات منکرہ وباطلہ بھی موجود ہیں تو بے شک مسلم ، مگر اس قدر سے یہ لازم نہیں آتا کہ ساری کتاب مطروح ومجروح ٹھہرے اور اس کی کسی حدیث سے استناد جائز نہ رہے آخر علمائے سلف احادیث نوادر و روایات فردوس سے کیوں تمسک کرتے ہیں اور جب وہ اس سے باز نہ رہے تو ہم کیوں ممنوع رہیں گے ،خود یہی شاہ عبدالعزیز صاحب اور ان کے والد واساتذہ ومشا ئخ شریعت وطریقت اپنی تصانیف میں احادیث کتب مذکور ہ ذکر اور ان سے استدلال کرتے ہیں ۔

قولہ : اب یہ کہئے گا کہ جب تکاب مخدوش ومخلوط ہوچکی تو ہر حدیث پر احتمال ضعف قائم ، تو اس سے احتجاج اسی کو روا ہوگا جو بصیر وعارف اور نشیب وفراز فن سے واقف ہے ۔

اقول : اب ہمارے مطلب پر آگئے ، حدیث عدم ظل سے بھی ہم عامیوں نے استدلال نہ کیا بلکہ یہی ائمہ شان ، اور ارباب تمیز وعرفان اسے بلا نکیر منکر مقبول رکھتے آئے اور ہم نے ان کی تقلید سے قبول کیا۔ اگر ان بصیرت والوں کے نزدیک متنازع فیہ قابل قبول نہ ہوتی تو حسب عادت اس رپ رد و انکار کیوں نہ فرماتے اور تلقی بالقبول سے باز آتے ۔
قولہ : اور مصنف نے بھی بھی الترازم تصحیح مافیہ نہیں کیا ہے صرح بذلک خاتم المحدثین مولانا شاہ عبدالعزیز محدث الدھلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فی بستان المحدثین ( خاتم المحدثین مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ الرحمۃ نے بستان المحدثین میں اس کی تصریح فرمائی ہے ۔ت )

اقول: نہ التزام تصیح صحت کو مستلزم ، نہ عدم التزام اس کا مزاحم ۔ اہل التزام کی تصانیف میں بہت روایات باطلہ ہوتی ہیں اور التزام نہ کرنے والوں کی تصنیفو ں میں اکثر احادیث صحیحہ ، آخر مستدرک حاکم کاحال نہ سنا جنہوں نےصحت کیامعنی ، التزام شرط شیخین کا ادعا ء کیا ار بقدر چہارم احادیث ضعفیہ ومنکرہ وباطلہ وموضوعہ بھر دیں۔

اسی طرح ابن حبان کا یہ دعوی کتاب التقاسیم و الانواع میں ٹھیک نہ اتر اور سنن ابی داؤد جس میں التزام صحاح ہر گز نہیں ، صحاح ستہ میں معدود اور ان کا مسکوت عنہ مقبول ومحمود ، یہ سب امور خادم حدیث پر جلی وروشن ہیں۔

عزیز ا! مدار کا را سناد پر ہے ، التزام وعدم التزام کوئی چیز نہیں ، یہ دولت تو روز اول بخاری کے حصہ میں تھی کہ احادیث مسندہ میں حق سبحانہ ، نے ان کا قصد پورا کیا ، پھر ایسی فضول بات کے ذکر سے کیا حاصل ! کیا جس کتاب میں التزام صحاح نہیں اس سے احتجاج مطلقا مباح نہیں ؟ ایسا ہو تو بخاری و مسلم وچند کتب دیگر کے سوا سنن ابی داود وابن ماجہ ودارمی وتصانیف ابی بکر بن ابی شیبہ وعبدالرزاق ودارقطنی وطبرانی وبیہقی وبزار وابی لیلی وغیرہا معظم کتب حدیث جن پر گویا مدار شرع و سنت ہے محض بیکار ہوجائیں ۔ لاحوال ولا قوۃ الاباللہ العلی العظیم (نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ ہی نیکی کرنے کی قوت مگر بلندی وعظمت والے خدا کی طر ف سے ۔ ت)

قولہ : اور کسی حدیث کی معتبر کتاب یں اس مسئلہ سے وجودا وعدما بحث نہیں۔

اقول : کاش ہمیں بھی معلوم ہوتا حدیث کی کتابیں جناب مجیب عفااللہ تعالی عناد عنہ کے کتب خانہ میں ہیں یا کتنی حضرت کی نظر سے گزری ہیں کہ بے دھڑک ایسا عام دعوی کرتے ہو ئے آنکھ نہ جھپکی ، ہم نے تا اکابر ائمہ کویوں سنا کہ جس حدیث پر اطلاع نہ پائی لم اجد (میں نے یہ پایا ۔ت) یا لم ار ( میں نے نہیں دیکھا ۔ت) یا لم اقف علیہ ( میں اس پر آگاہ نہ ہوا ۔ ت) پر اقتصار فرمایا ، یہ لیس (نہیں ہے ۔ت) اور لم یکن ( نہیں ہوا ۔ ت) کی جراتیں ، حق تو یہ ہے کہ بڑے شخص کا کام ہے ۔

علامہ سیوطی سامحدث ان جیسی نظر واسع جنہوں نے دامن ہمت ، کمر عزیمت پر چست باند کر جمع الجوامع میں تمام احادیث واردہ کے جمع واستیعاب کا قصد فرمایا ، دیکھو حدیث اختلاف امتی رحمۃ ( میری امت کا اختلاف رحمت ہے ۔ت)کی تخریج پر واقف نہ ہوئے اور جامع صغیر میں اسی قدر فرمایا کر خا موش رہے کہ شاید یہ حدیث کسی ایسی کتاب میں مروی ہوئی کہ ہم تک نہ پہنچی ۱؂۔

(۱؂ الجامع الصغیر تحت حدیث ۲۸۸ دار الکتب العلمیہ بیروت ۱ /۲۴)

پھر علامہ مناوی تییر میں اس کی تخریض ، مدخل بیہقی وفردوس دیلمی سے تلاش ہی کر لا ئے ۲؂۔

(۲؂ التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت حدیث اختلاف امتی رحمۃ مکتبۃامام الشافعی ریاض۱ /۴۹)

پھر ہم کو بایں بضاعت مزجاۃ ، چھوٹا منہ بڑی بات ، یہ دعوی کب زیب دیتا ہے مگر تصنیف امام عبداللہ بن مبارک وتالیفات حافظ رزین محدث وکتاب الوفا ء علامہ جوزی وشفاء الصدور علامہ ابن سبع و کتاب الشفاء فی تعریف حقوق المصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم تصنیف علامہ قاضی عیاض ونسیم الریاض علامہ خفاجی وخصائص کبری علامہ جلال الدین سیوطی ومواہب لدنیہ منح محمدیہ امام علامہ قسطلانی و شرح مواہب علامہ زرقانی ومدارج النبوت شیخ محقق وغیرہا اسفار ائمہ دین وعلماء محققین ، آپ کے نزدیک معتبر نہیں یا جب تک بخاری مسلم میں ذکر مسئلہ نہ ہو قابل اعتبار متصور نہیں۔

فقیر حیران ہے جب حدیث کئی طریق سے مروی ہوئی اور چند ائمہ نے اسے تخریج کیا اور وہ مقتدایان ملت نے اس سے احتجاج فرمایا اور سلفا خلفا بے اعتراض معترض مقبول رکھا ، پھر نہ تسلیم کرنے کی وجہ کیا ہے ؟ اگر بالفر ض حدیث میں ضعف ہی مانا جائے ، تا ہم مرتبہ مقام چاہے کہ یہاں تضییق مطلوب ہے یا تو سیع محبوب ، صحت نہ سہی ،کیا حسن سے احتجاج نہیں ہوتا ؟ حسن بھی نہ مانو ، کیا ضعف متماسک ایسی جگہ کام نہیں دیتا ؟ آخر اقسام حدیث میں ایک قسم کا نام صالح بھی سنا ہوگا ، اگر ماورائے صحاح سب بیکار ہیں تو حسن میں حسن اور صالح میں صلاحیت کس بات کی ہے انا اللہ وانا الیہ راجعون (بیشک ہم اللہ تعالی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف ہم کو لوٹنا ہے ۔ ت)

قولہ : مسلمان کو ایک جانب پر اصرار نہ چاہے ۔

اقول : اگر چہ حق واضح ہے ؟ یہ کلمہ عجیب وضح کیا ، مسلمان کی شان وہ ہے جس سے رب تبارک وتعالی قرآن مجید میں خبر دیتا ہے : یستمعون القول فیتبعون احسنہ ۱؂۔ جو کان لگا کر بات سنیں پھر اس کے بہتر پر چلیں ۔(ت)

(۱؂ القرآن الکریم ۳۹/ ۱۸)

دامن ائمہ ہاتھ سے دے کر شاہراہ یقین سے دور پڑیئے او رشکوک وتر د دا ت کے کانٹوں میں الجھے ۔

اے عزیز ! جب مسلمان نقی الایمان ادھر تو یہ سنے لگا کہ اس بات میں احادیث وارد اور اراکین دین متین واساطین شرع مبین کی تصانیف اس سے مملوو مشحون اور ادھر اس کے قلب کی حالت ایمانی جو تکثیر فضائل سید المحبوبین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جان سے پیاری ہے ، بہ شوق تمام سر و قد استادہ ہوکر مرحبا گویاں اسے مسند آمنا وصدقنا پر جگہ دے گی اور ادھر داعیہ عقل سلیم انبعاث تازہ پاکر حکم قطعی لگائے گا کہ میرا محبوب سر اپا نور ہے اور نور ک ا سایہ خرد سے دور ، تو ان انوار پے در پے کی متواتر ریز شوں کے حضور شکوک واوہام کی ظلمت کیونکہ ٹھہرسکے گی اور تیقن کامل کی رو شنی چار چانب سے سر اپا کو محیط ہوکر کس طر ح اصرار واذعان کے رنگ میں نہ رنگ دے گی ۔

ہم چھوٹی سی دو باتیں پوچھتے ہیں ، شک کرنے والے کو حضور سرور عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے نور بحت ہونے میں امل ہے یا سا یہ کوکثافت لازم ہونے میں تر دد ۔ اگر امر اول میں شک رکھتا ہے تو مین اپنی زبان سے کیا کہوں ، صرف اپنے ایمان صرف غیر مشوب بالاوہام اور قضیہ اشہد ان محمد اعبدہ و رسولہ ( میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ت)کے لازمی احکام سے حکم اپنادریافت کرلے ، اور امر دوم میں تردد ہے تو مفتی عقل کی بارگاہ سے جنون ودیوانگی کا فتوی مبارک ، اسی لئے ہم دعوی حتمی کرتے ہیں کہ اگر اس بات میں کوئی حدیث نہ آئی ہوتی ، نہ کسی عالم نے اس کی تصریح فرمائی ہوتی ، تاہم بملاحظہ ان آیات واحادیث متکاثرہ متوافرہ متظافرہ کے جن سے بالقطع والیقین سر اپائے سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا نور صرف کان لطافت وجان اضاءت ہونا ثابت ، ہم حکم کرسکتے کہ حضور کے لئے سایہ نہ تھا ، نہ کہ با وجود تو افق عقل ونقل تسلیم میں لیت ولعل ہو ( والہفاہ)

شک کرنے والا ہمیں نہیں بتا تا کہ اسے رد احادیث وطر ح اقوال علماء پر کون سی بات حامل ہوئی ، کیا ایسے ہی اکابر کے اقوال ، ان ارشادات کے صاف پرخلاف ،کہیں دیکھ پائے یا عقل نے نور محض کے سایہ ہونے کی بھی کوئی راہ نکالی ، جواس نے دلائل میں تعارض جان کر شک وتر دد کی بناء ڈالی اور جب ایسا نہیں تو شاید عظمت قدرت الہی میں تامل یا وہی بد مذہبوں کا قیاس مقلوع الاسنا س کہ

ما انتم الا بشر مثلنا ۱؂ (نہیں ہو تم مگر ہماری طر ح بشر ۔ت )

(۱؂ القرآن الکریم ۳۶ / ۱۵)

اس پر باعث ہو ا، جب تو آفت بہت ہی سخت ہے ، اللہ تعالی رحم فرمائے ۔ ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذھدیتنا وھب لنا من ل دنک رحمۃ انک انت الوھاب۲؂ اے رب ،ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر بعد اس کے کو تو نے ہمیں ہدایت دی اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا کر ، بے شک تو ہے بڑا دینے والا ت(ت)

(۲؂ القرآن الکریم ۳ /۸)

قولہ : ادعائے وجود ظل میں ایہام سوء ادب ہے ۔

اقول : “الان حصحص الحق”۳؂

( اب حق واضح ہوگیا ۔ت)

(۳؂ القرآن الکریم ۱۲/ ۵۱)

اللہ تعالی نے حق بات کو علو وغلبہ میں کچھ ایسی شان عجیب عطا فرمائی ہے کہ تشکیک وحیرت بلکہ تکذیب معاندت کی تاریکیوں میح بھی من حیث لایدری اپنا جلوی دکھاجاتی ہے ، مجیب کو منع اصرار پر اصرار تھا ، اب اقرار کرتے ہیں کہ وجود ظل ماننے میں ایہام سوء ادب ہے ، اور پر ظاہر کہ ایہام گستاخی تو وہیں ہوگا جہاں عیب ومنقصت کا پہلو نکلتا ہو ، اب شرع مطہر سے پوچھ دیکھئے کہ ایسی بات کا جز ماوقطعا رد وانکار وانکار واجب یا سکوت وحیرت کی کشمکش میں مہمل چھوڑدینا مناسب نہیں ۔ اب تو آپ کے اقرار سے فرض قطعی ٹھہرا کہ سایہ ہونے کا اقرار بلیغ کیا جائے ار اس پر حددر جہ کا اصرار تام رکھا جائے کہ ہرا س خس وخاشاک سے جو ایہاما واحتمالا بھی ہوئے تنقیص دیتا ہو، ساحت نبوت کی تبر یت اصول ایمان سے ہے اور بات بھی یہی ہے کہ جب سایہ کو کثا فت لازم اور لطا فت کاملہ عدم ظل کو مستلزم ، تو بحکم مقدمہ اولی جسے عدم سایہ میں شک ہوگا وہ درخقیقت سراپائے اقدس حضرت رسالت علیہ الصلوۃ والتحیۃ کی لطافت متردد ہے اور سایہ ماننے والا کثافت اور نہ ماننے ولاا کمال لطافت کا معتقد ہے پھر مسلمانوں کی نفی سایہ اصرار سے منع کر نا بعینہ یہ کہنا ہے کہ لطافت جرچ ولا کو یقینی نہ جانو اور عیاذا باللہ کثافت بھی محتمل مانو ۔ اب اس شک وابدائے احتمال کا حکم بغایت شدید ہونا چاہے تھا مگر خیر گزری کہ لازم مذہب ، مذہب نہیں قرار پاتا۔

قولہ : اور اصرار بر عدم میں احتمال دعوی غیرواقع ہے ۔

اقول :

احادیث صحاح بخاری ومسلم یکسراڑ گئیں ؟ کہیں نہیں کہہ سکتے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا یا ایسا کیا یا وہاں یہ واقعہ ہوا کہ جب تک تو اتر نہ ہوا احتمال دعوی غیر واقعہ سب جگہ قائم کچھ دنوں خدمت شر ح نصیب رہے تو خوب واضح ہوجائے کہ احتمالات مجر د جو مناشی صحیحہ سے ناشی نہ ہوں تک لخت پائے اعتبار سے ساقط ہیں او ران پر کسی طر ح بنائے کار نہیں ہو سکتی ورنہ واجبات سے تو یکسر ہاتھ دھوبیٹھے کہ قطع ویقین منافی وجوب اور بے تیقن اصرار معیوب، تمیم کے طریقے بالکل مسدود کہ ہر خاک وسنگ میں احتمال نجاست موجود نص قرآنی یا احادیث متو اتر میں تو ان مٹیوں کی پاکی مذکور نیہں ، نہ یہ زمینیں ابتدائے خلقت سے ہر وقت ہمارے پیش نظر رہیں کہ عد م تنجس پر یقین حاصل ہو ، ہر نماز کے وقت ہر بار کپڑے پاک کرنا ضرور ہو کہ ممکن ہے کوئی ناپاکی پہنچی ہواور ہمیں اطلاع نہ ہوئی ہو، وضو وغسل و غسل ثیاب آپ غیر جاری سے روانہ ہو کہ یہاں بھی وہی آتش کا سہ میں ہے ، اکثر عورتوں خصوصا زنان ہمسایہ وقرابت دار میں احتمال ہے کہ انہوں نے یا ان کی ماں یاباپ نے ناکح کی ماں کا دودھ پیاہو یانا کح نے جس عورت کا دودھ پیا ہو اس نے انہیں دودھ پلایا ہو یا وہ عورتیں ناکح کے باپ یا دادا یا ناناکی ممسوسہ یا منظورہ بصور معہودہ ہوں ، پھر نکاح کیونکہ ہوکسے ، او رجنہوں نے اس قاعدہ جدیدہ سے ناواقفی میں کرلیا ہے ان پر متا رکہ لام زہو ، قاضی شہادت شہود پر حکم نہیں کرسکتا ، ممکن کہ گواہ جھوٹ بولتے ہوں یا انہیں ورت واقعہ یا د نہ رہی ہو الی غیر ذلک من المفاسد التی لاتحصی

( اس کے علاوہ بے شمار فساد لازم آئیں گے۔ت)غرض اس دو حرفی قاعدہ نے ایک عالم تہ وبالا کر ڈالا ، دین ودنیا کا عیش تلغ کردیا ۔

عزیز ا! یہ کہنا تو اس وقت روا تھا جب کوئی حدیث اس بارہ میں وارد نہ ہوتی ، نہ کلمات علماء میں اس کا پتا چلتا ، نہ وجود سایہ لطا فت ثابتہ کسی طر ف ترجیح نہ دیتی تو کہہ سکتے تھے کہ دلیل سے کچھ ثابت نہیں ہو تا اور ایک بات پر حکم حتمی میں احتمال نسبت غیر واقعی ہے اور مسئلہ اصول دین سے نہیں ، نہ ہمارا کوئی عمل یا عقیدہ اس پر موقوف ، پھر خواہ مخواہ خوض بیکار سے فائدہ ؟ من حسن اسلام المر ء ترکہ مالا یعنیہ۱؂

(کسی شخص کے اسلام کا حسن یہ ہے کہ وہ بے مقصد باتوں کو چھوڑدے ۔ ت)

(۱؂ جامع الترمذی ابواب الزہدباب منہ امین کمپنی دہلی ۲ /۵۵)

ایسے ہی مقامات پر علماء محتاط سکوت وتو قف کرتے اور تعارج دلائل ذکر کر کے اسی قسم کے کلمات لکھ دیتے ہیں ، امثال مسائل تفاضل نساء واثابت جنہ وحال اطفال اصحاب ضلال سے مجیب نے وہ لفظ سیکھ کر دیئے اورفر ق مبحثین پر نطر نہ کی ، ہم زیادہ نہیں مانگتے ایک ہی جگہ دکھادیں کہ کوئی مسئلہ احادیث سے ثابت اور اقوال علماء سے نقل خلاف اس پر متظافر اور ایک حکم یقینی ایمانی مثل لطافت جسم نوارنی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اسے مستلزم اور اس کے سبب عقل نورانی وحب ایمانی حقیقت مسئلہ پر حاکم ہو ، پھر کسی عالم معتبر نے وہاں تو قف اختیار کیا ہو اور اصول دین سے نہ ہونے یا مخالفت واقع کے احتمال کو مانع تسلیم قرار دیا ہو ورنہ یہ نو تراشید ہ مضمون قابل تو بہ واستغفار ہے ربنا اغفرلنا واللمومنین جمیعا ( اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اورتمام مومنوں کو بخش دے ۔ت)

قولہ : مسئلہ اصولِ عقائد سے نہیں جس کے باب میں ہر شخص کو اہتمام ضرور ہو ۔

اقول : مجیب صاحب (سامحنا اللہ وایاہ بالعفو والمغفرۃ) اللہ تعالی عفو ومغفر ت کے ساتھ ہم سے اور اس سےدرگزرمائے ۔ ت) نے اس چار سطر کے جواب میں عجب تماشاکیا ہے کہ اکثر دلیلیں جو قائم کیں ان کے صغری کہ ظاہرا تسلیم تھے لکھتے گئے او رکبری کہ بدیہی البطلان تھے ، مطوی فرماددیئے ، مثلا لکھا : ” محدثین اعلام نے اس کتاب کو معتبر نہیں مانا ہے ” اور کبرے کہ جس کتاب کو محدثان اعلام نے معتبر نہ مانا ہوا س کی کوئی حدیث قابل احتجاج نہیں ، ترک کردیا ، پھر لکھا : ” مصنف نے التزام تصیح مافیہ نہیں کیا ”
اور کبری کہ جس مصنف نے یہ التزام نہ کیا اس کی حدیثیں مستند نہیں ، ذکر نہ فرمایا ، پھر لکھا :
” کسی حدیث کی معتبر کتا ب میں الخ۔”
اور کبرے کہ جو مسئلہ کتب معتبر ہ حدیث میں نہ ہو ، قابل تسلیم نہیں ، چھوڑدیا ۔ پھر لکھا:
”اصرار بر عدم میں احتمال الخ”
اور کبری کہ جہاں یہ احتمال ہوا س میں تو قف ضرور اور تسلیم بے جا ، تحریر نہ کیا ۔ اب اخیر درجہ یہ لکھا کہ :
” مسئلہ اصول عقائد سے نہیں۔”
اکبری کی طر ف ان لفظوں سے اشارہ کیا :” جس کے باب میں ہر شخص کو اہتمام ضرور ہو۔”
صاف کہا ہوتا کہ جو مسئلہ اصول عقائد سے نہیں ، اس میں اہتمام کی کچھ حاجت نہیں ۔ سبحان ! ایک ذرا سے فقرہ میں تمام سائلہ فقہیہ کی بیخ کنی کردی کہ وہ بداہۃ فروح ہیں نہ اصول ، پھر ان کا اتباع محل اہتمام سے معزول اور واجبات وسنن کا تو پتا نہ رہا کہ انہیں عقد قلب سے کب بہر ہ ملا، اب شاید بعد ورود اعتراض یہ تخصیص یاد آئے کہہ ہما رے کلام مسائل غیر متعلقہ بجوارح میں ہے

اقول : اب بھی غلط ، متکلمین تصریح کرتے ہیں ، مسائل خلافت اصول دینیہ سے نہیں ،

مواقف و شرح مواقف میں ہے : (ولما تو فاہ) اشارہ الی مباحث الامامۃ فانہا وان کانت من فرو ع الدین الاانہا الحقت باصولہ دفعا للخرافات اھل البدع والاھواء وصونا للائمۃ المھتدین عن مطاعنہم (وفق اصحابہ لنصب اکرمہم واتقہم ) یعنی ابا بکر رضی اللہ تعالی عنہ۱؂ اھ ملخصاً۔وفیہ من المصدر الرابع مو الموقف الخامس فی الامامۃ و مباحثہا لیست من اصول الدیانات و العقائد خلافا للشیعۃ ۱؂ اھ

( شارح فرماتے ہیں) لماتو فاہ ، امامت کی بحث کی طر ف اشارہ ہے ، اگر چہ مسئلہ فروع دین سے ہے مگر اہل ہو اور بدعتیوں کے خرافات کو دفع کرنے کے لئے اورائمہ دین کو ان کے طعن سے بچانے کے لئے اصول دین سے ملحق کردیا(کہ تمام صحابہ کرام اپنے سے اتقی واکرم یعنی ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی امامت پر متفق ہوگئے ۔)

(۱؂ شرح المواقف خطبۃ الکتاب منشورات الشرف الرضی قم ایران ۱ /۲۱و۲۲ )
(۱؂ شرح المواقف المرصد الرابع منشورات الشریف الرضی قم ایران ۸ /۳۴۴)

موقف خامس میں سے مصدر رابع امامت میں ہے امامت کی بحث اصول عقائد دین میں سے نہیں ہے بخلاف شیعوں کے (کہ ان کے نزدیک اصول دین سے ہے )اھ ت)
کیا یہ قاعدہ مخترعہ یہاں بھی اہتمام ضروی نہ رکھے گا اور اقرار وانکار امات ائمہ کو یکساں کردے گا ، ایران ومسقط کو مژدہ تہنیت ، اب چین سے اپناکام کیجئے ، خلافت راشدہ خلفاء اربعہ رضی اللہ تعالی عنہم میں شوق سے کلام کیجئے ،تیرہ صدی کی برکت سنیوں کی ہمت ، اب انہیں ان مباحث سے کام ہی نہ رہا ۔ حقیقت خلافت کا اہتمام ہی نہ رہا ۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون ( بے شک ہم اللہ تعالی کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طر ف پھرنا ہے ۔ت)

فقیر کو حیرت ہے باوجود وتو افق عقول ونقل ودرود احادیث وشہادت ائمہ عدل وقتضائے خرد یمانی بحکم لطافت جرم نورانی وتاکید محبت سید اکرم صلی ال لہ تعالی علیہ وسلم قبول سے کیا چارہ اور ترک اصرار واہتمام کس کا یارا ، اور یہ یہ بھی نہیں کھلتا کہ لفظ ”ہر شخص ”فرماکر عموم سلب سے سلب عموم کی طر ف کیوں ہوا؟ کیا بعض کو اہتمام ضروی بھی ہے ؟ اور ایسا ہو تو وہ بعض معین ہیں یا غیر معین ؟ بر تقدیر ثانی کلام ، مقصود پر منعکس و منقلب ہوجائے گا اور تحرزا عن الوقوع فی المحذور ہر شخص کو اہتمام قرار پائے گا اور پہلی شق پرحکم احکم لتبیننہ للناس۲؂ (کہ تم ضرور اسے لوگو ں سے بیان کردینا ۔ ت)

(۲؂ القرآن الکریم ۳/۱۸۷)

کاانقیاد ہو ، اس تعین کی تبیین ، پھر اس پر دلیل مبین ارشاد ہو ۔

وصلی اللہ تعالی علیہ سیدنا محمد البدر وآلہ واصحابہ النجوم والعلم بالحق عند اللہ ربنا تبارک وتعالی واھب العلوم استراح القلم من ھذا التنمیق الانیق فی العشرۃ الوسطی من ذی الحجۃ المحرم سنۃ ۱۲۹۷ (سبع وتسعین بعد الالف و المائتین ) فی جلسۃ واحدۃ فی البلاۃ المطہرۃ مارھرۃ المنور ۃ بجنب مزار ات الکرام البررۃ ساداتنا و مشائخنا العرفا الخیرہ افاض اللہ علینا من نفحات فیوضہم العطرۃ امین بر حمتک یا ارحم الراحمین ۔

اللہ تعالی درود نازل فرمائے ہمارے آقا محمد صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم پر جو چودھویں کے چاند ہیں او رآپ کے آل واصحاب پر جو روشن ستارے ہیں ۔ حق کا علم اللہ تعالی کے پاس ہے جو ہمارا پروردگار ہے اور علوم عطافرمانے والا ہے ۔ اس عمدہ تحریر کی تزیین سے قلم نے حرمت والے مہینے ذوالحجہ کے دمیان عشرے کے اندر؁ ۱۲۹۷ھ کو ایک ہی نشست میں راحت حاصل کی ۔ شہر پاک مارہرہ منورہ میں آرام فرمانے والے ان اولیائے کرام کے مزارات مقدس کے پہلو میں یہ تحریرلکھی گئی جو ہمارے سردار ومشائخ عارفین گرامی قدر ہیں ۔ اللہ تعالی ان کے فیوض معطر ہ کی خوشبوئیں ہمیں عطا فرمائے ۔آمین ! تیری رحمت کے ساتھ اے بہترین رحم فرمانے والے ۔(ت)

صفحہ نمبر 206 تک مکمل ہے