مسئله: یہاں کے لوگ دیہات ہی میں جمعہ کی نماز ادا کر لیا کرتے ہیں لیکن بڑی بڑی اور مستند کتابوں کے ذریعہ معلوم ہواکہ دیہات میں جمعہ کی نماز نہیں ہے یہ مسئلہ کہاں تک صحیح اور کہاں تک غلط ہے حوالہ کے ساتھ نقل کریں اور نیز یہ بھی بتا دیں کہ دیہات میں عورتیں عید کی نماز گھر پر پڑھتی ہیں یہ کیسا ہے؟
الجواب: بے شک دیہات میں جمعہ کی نماز جائز نہیں لیکن عوام اگر پڑھتے ہوں تو انھیں منع نہ کیا جائے کہ وہ جس طرح بھی الله و رسول کا نام لیں غنیمت بے
هكذا قال الامام احمد رضا البریلوی اور ہدایہ میں ہے لا تصح الجمعة الا في مصر جامع او في مصلى المصر ولا تجوز في القری لقوله عليه السلام لا جمعة ولا تشريق ولا فطر ولا اضحى الا فی مصر جامع اھ ۔ اور اسی کے تحت فتح القدیر میں ہے رفعه المصنف و انما رواه ابن ابی شیبه موقوفا علىٰ على رضى الله عنه لاجمعة۔ولا تشريق ولا صلاة فطر ولا اضحى الا فى مصر جامع او فى مدينة عظيمة صححه ابن حزم اھ – اور عورتیں اگر عید کی نماز گھر میں مردوں کے ساتھ پڑھتی ہیں تو اختلاط مردم کے سبب ناجائز ہے اور اگر صرف عورتیں جماعت کریں تو یہ بھی ناجائز اس لئے کہ صرف عورتوں کی جماعت نا جائز و مکروہ تحریمی ہے ۔ فتاوی عالمگیری جلد اول مصری ص 80 میں ہے يكره امامة المرأة للنساء في الصلوات كلها من الفرائض والنوافل الا في صلاة الجنازة هكذا فى النهاية اور در مختار میں ہے يكره تحريما جماعة النساء ولو في التراويح في غير صلاة جنازة ھکذا فی النھایه اھ اور در مختار میں ہے یکرہ تحریما جماعة النساء ولو فی التراویح فی غیر صلاۃ جنازۃ .
اور اگر فردا فرداً پڑھیں تو بھی نماز جائز نہ ہوگی اس لئے کہ عیدین کی نماز کے لئے جماعت شرط ہے ہاں عورتیں اس دن اپنے اپنے گھروں میں فردا فردا نفل نمازیں پڑھیں تو باعث ثواب و برکت ہے اور سبب ازدیاد نعمت ہے.
والله تعالیٰ و رسوله الاعلی اعلم ۔
بحوالہ -فتاوی فیض الرسول
ص:401 جلد 1 ۔