مسئلہ: ایک دینی مدرسہ قائم کیا گیا ہے جس میں امیر و غریب سبھی طلبہ ناظرہ قرآن کریم، اردو اور ہندی وغیرہ کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ غریب طلبہ کو مدرسہ کی طرف سے کاپی اور کتاب وغیرہ کا انتظام بھی کیا جاتا ہے تو اس مدرسہ میں زکوٰۃ صدقہ فطر اور عشر میں غلہ یا اس کی رقم دینا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب: زکوٰۃ ،صدقہ فطر اور عشر کی ادائیگی کے لئے تملیک یعنی مسکین وغیرہ کو مالک بنا دینا شرط ہے بغیر تملیک یہ ادا نہیں ہو سکتے لہذا مدرسہ تعمیر کرنے ، مدرسین کی تنخواہ دینے یا کتاب وغیرہ خرید کر مدرسہ پر وقف کر دینے کے لئے مدرسہ کے منیجر کو زکوٰۃ ،صدقہ فطر اور عشر دینا جائز نہیں ۔البتہ جو لوگ مالک نصاب نہ ہوں ان کے نابالغ بچوں کو کتاب وغیرہ دینے کے لئے منیجر مذکور کو اس قسم کی رقم دینا جائز ہے اور بالغ بچے جو مالک نصاب نہ ہوں ان کے لئے بھی جائز ہے اگر مدرسہ بنوانے، مدرسین و ملازمین کو تنخواہ دینے ،جو لوگ مالک نصاب ہوں ان کے نابالغ بچوں کو کتاب وغیرہ دینے یا بالغ مالک نصاب بچوں پر خرچ کرنے کے لئے دیا تو زکوۃ ،صدقۂ فطر اور عشر ادا نہ ہوئے ۔حضرت صدرالشریعہ تحریر فرماتے ہیں، بہت سے لوگ مال زکوۃ اسلامی مدارس میں بھیج دیتے ہیں ان کو چاہئے کہ متولی مدرسہ کو اطلاع دیں کہ یہ مال زکوۃ ہے تاکہ متولی اس مال کو جدا رکھے اور مال میں نہ ملائے اور غریب طلبہ پر صرف کرے کسی کام کی اجرت میں نہ دے ورنہ زکوۃ ادا نہ ہوگی۔
(بہار شریعت حصہ پنجم مطبوعہ لاہور ص58)
وهوتعالیٰ اعلم
بحوالہ -فتاوی فیض الرسول
ص:491 جلد 1 ۔
دینی دنیاوی یکساں تعلیم کہ مدرسہ میں زکوۃ فطرہ دینا۔
24
Jan