مسئلہ ۱۶۹ و۱۶۰ : از ناگل لکڑی ضلع گوڑگانوہ پوسٹ ڈھینا ریاست مسئولہ حافظ غلام کبریا ۳ رمضان ۱۳۳۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ:
(۱) اولیاء اﷲ کو دُور سے مشکل کے واسطے پکارنا کیسا ہے؟ اولیاء اﷲ دور سے بعض وقت سُنتی ہیں یا سب وقت سُنتے ہیں؟
(۲) اگر کوئی یارسول اﷲ پکارے اور یہ اعتقاد رکھے کہ آپ بذاتِ خود سنتے ہیں، بعض کہتے ہیں کہ یہ اعتقاد کہتے ہیں کہ یہ اعتقاد ٹھیک نہیں۔ بینواتوجروا۔
الجواب : شاہ عبدالعزیز صاحب فرماتے ہیں : روح را قرب و بُعد مکانی یکسانی ست ۱ ؎۔ روح کے مکانی قُرب و بُعد برابر ہیں (ت)
(۱)
تو وہ سب وقت سن سکتے ہیں مگر ملاء اعلٰی کی طرف توجہ اور اس میں استغراق اکثر کو ہر وقت سننے سے مانع ہوسکتا ہے مگر اکابر جن کو شاہ عبدالعزیز صاحب نے تفسیر عزیزی میں لکھا۔ استغراق آنہا بجہت کمال وسعت مدارک آنہا مانع توجہ بایں سمت نمی گرددوارباب حاجات ومطالب حل مشکلات خود راازانہامی طلبند ومی یابند ۱ ؎۔ کامل وسعت مدارک کی وجہ سے ان کا استغراق اس طرف متوجہ ہونے سے مانع نہیں ہوتا اور غرض مند محتاج لوگ اپنی مشکلات کا حل ان سے طلب کرتے اور پاتے ہیں۔(ت)
(۱ ؎ فتح العزیز (تفسیر عزیزی) پارہ عم سورۃ الانشفاق مسلم بکڈپو لال کنواں دہلی ص ۲۰۶)
یہ ہر وقت سنتے اور حاجت روائی فرماتے ہیں کہ باذنہ تعالٰی اسم قاضی الحاجات کے مظہر ہیں۔
(۲) بذاتِ خود کے اگر یہ معنی کہ بے عطائے الہٰی خود اپنی ذاتی قدرت سے سُنتے ہیں تو یہ بے شک باطل بلکہ کفر ہے اور یہ ہر گز کسی مسلمان کا خیال بھی نہیں۔ اور اگر بذاتِ خود کے یہ معنی کہ بعطائے الٰہی حضور کی قوتِ سامعہ تمام شرق و غرب کو محیط ہے سب کی عرضیں آوازیں خود سنتے ہیں اگرچہ آداب دربار شاہی ہر ذرہ اُن کے پیشِ نظر ہے اور ارض و سما کی ہر آواز ان کے گوش مبارک میں ہے۔
شاہ ولی اﷲ کی فیوض الحرمین میں ہے : ” لایشغلہ شأن عن شان ۲ ؎۔ اس کی ایک حالت اس کو دوسری حالت سے غافل نہیں کرتی ۔(ت) “وھوتعالٰی اعلم “
(۲ ؎ فیوض الحرمین مشہد آخر ا یعنی دقائق اور ان کے اثرات کے بیان میں محمد سعید اینڈ سنز قرآن محل کراچی ص ۲۷۱)