رسالہ
النیرالشھابی علٰی تدلیس الوھابی(۱۳۰۹ھ)
(روشن آگ کا شعلہ وہابی کی تدلیس پر)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مسئلہ ۳۴: از غازی پور، مرسلہ جہانگیر خان ۱۵ صفر ۱۳۰۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید دو چار کتابیں اردو کی دیکھ کر چاروں اماموں کے مسئلے اخذ کرتا ہے اور اپنے اوپر آئمہ اربعہ سے ایک کی تقلید واجب نہیں جانتا، اس کو عمرو نے کہا کہ تو لامذہب ہے جو ایسا کرتا ہے کیونکہ تجھ کو بالکل احادیث متواتر و مشہور واحاد وعزیز و غریب و صحیح و حسن و ضعیف و مرسل و متروک و منقطع و موضوع وغیرہ کی شناخت نہیں ہے کہ کس کو کہتے ہیں حالانکہ بڑے بڑے علماء اس وقت اپنے اوپر تقلید واحد کی واجب سمجھتے ہیں اور ان کو بغیر تقلید کے چارہ نہیں تو تو ایک بے علم آدمی ہے جو عالموں کی خاک پا کے برابر نہیں ہے، نہ معلوم اپنے تئین تو کیا سمجھتا ہے جو ایسا کر تا ہے اس کے جواب میں اس نے اس کو رافضی و خارجی و شیعہ وغیرہ بنایا بلکہ بہت سے کلمات سخت سست بھی کہے حالانکہ لامذہب کہنے سے اس کی یہ غرض نہ تھی کہ تو خارج از اسلام ہے بلکہ یہ غرض تھی کہ ان چاروں مذہبوں میں سے تمہارا کوئی مذہب نہیں ہے۔ اور اُس کی غرض شیعہ ورافضی بنانے سے یہ تھی کہ تو ایک امام کی تقلید کرتا ہے جیسے رافضی تین خلیفوں کو نہیں مانتے اور دوسرے یہ کہ ایک امام کی تقلید کرنے سے بخوبی عمل کل دین محمدی پر نہیں ہوسکتا اور چاروں اماموں کے مسئلے اخذ کرنے میں کل دین محمد ی پر بخوبی عمل ہوسکتا ہے، آیا ان دونوں سے کس نے حق کہا اور کس نے غیر حق؟ اور حکم شرع کا ان دونوں کے واسطے کیا ہے جو ایک دوسرے کو سخت کلامی سے پیش آئے؟ امید کہ ساتھ مہر، عالی کے مزین فرما کر ارشاد فرمائیں۔ بیّنوا توجروا ( بیان فرمائیے اجر دیئے جاؤ گے، ت) فقط۔
الجواب
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
الحمد ﷲ ذی الجلالۃ والصلوۃ والسلام علٰی صاحب الرسالۃ الذی لا تجتمع امتہ علی الضلالۃ وعلٰی اٰلہ وصحبہ و مجتہدی ملتہ اولی الایدی والابصار والنبالۃ۔ تمام تعریفیں جلالت والے اللہ تعالٰی کے لیے ہیں اور درود و سلام ہو صاحب رسالت پر جس کی امت گمراہی پر مجتمع نہ ہوگی اور آپ کی آل ، آپ کے صحابہ اور آپ کی امت کے مجتہدین کرام پر جو قوت و بصیرت اور شرافت والے ہیں۔ت)
اللّھم ھدایۃ الحق والصواب ( اے اللہ حق و درستگی کی ہدایت عطا فرما۔ت)
مسئلہ تقلید کی تحقیق و تفصیل دفتر طویل درکار، فقیر غفراﷲ تعالٰی لہ، نے اپنے رسالہ ۱ النھی الاکید عن الصلاۃ وراء عدی التقلید(۱۳۰۵ھ) اور فتاوائے مندرجہ البارقۃ الشارقۃ علٰی مارقۃ المشارقۃ جلد یاز دہم فتاوائے فقیر مسمّٰی بہ العطایا النبویۃ فی الفتاوی الرضویۃ میں قدرے کلمات وافیہ ذکر کیے ۔
(۱ ؎۔ رسالہ النھی الاکید عن الصلاۃ وراء عدی التقلید فتاوٰی رضویہ مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن جامع نظامیہ رضویہ اندرون لوہاری دروازہ لاہور کی جلد ششم کے صفحہ ۶۴۷ پر مرقوم ہے۔)
یہاں بقدرِ ضرورت صرف اس مقدار پر کہ بطلان کید زید ظاہر کرے اکتفاء ہوتا ہے۔ اس کا قول دو امر پر مشتمل ہے۔
اوّل : بکمال زبان درازی مقلدان حضرات آئمہ کرام علیہم الرضوان من الملک العلام کو معاذ اﷲ رافضی خارجی بنانا۔
دوم : وہ تلبیس عجیب و تدلیس غریب کہ ترکِ تقلید میں تمام دین محمدی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر عمل کرنا ہے۔
امر اوّل : کی نسبت ان کے امام الطائفہ کے علماً و نسباً دادا اور بیعۃً پر دادا یعنی شاہ ولی اﷲ صاحب دہلوی کی گواہی کافی وہ رسالہ انصاف میں انصاف کرتے ہیں : بعدالمائتین ظہر فیہم التمذھب للمجتہدین باعیانھم وقل من کان لایعتمد علٰی مذھب مجتہد لعینہ وکان ھذا ھوالواجب فی ذلک زمان۱ ؎۔ یعنی دو صدی کے بعد خاص ایک مجتہد کا مذہب اختیار کرنا اہل اسلام میں شائع ہوا۔ کم کوئی شخص تھا جو ایک امام معین کے مذہب پر اعتماد نہ کرتا ہو، اور اس وقت یہی واجب ہوا۔
(۱ ؎۔ الانصاف باب حکایۃ حال الناس قبل المائۃ الرابعۃ الحقیقیۃ استنبول ترکی ص ۱۹)
اسی میں لکھتے ہیں : وبالجملۃ فالتمذھب للمجتہدین سر اللھمہ اﷲ تعالٰی العلماء وجمعھم علیہ من حیث یشعرون او لایشعرون ۲ ؎۔
یعنی خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایک مذہب کا اختیار کرلینا ایک راز ہےکہ حق سبحانہ ، و تعالٰی نے علماء کے قلوب میں القاء فرمایا اور انہیں اس پر جمع کردیا چاہے اس راز کو سمجھ کر اس پر متفق ہوئے ہوں یا بے جانے۔
(۲ ؎۔ الانصاف باب حکایۃ حال الناس قبل المائۃ الرابعۃ الحقیقیۃ استنبول ترکی ص ۲۰)
زید بے قید دیکھے کہ اس نے بشہادت شاہ ولی اللہ صاحب گیارہ ۱۱۰۰ سو برس سے زائد کے آئمہ و علماء و مشائخ و اولیاء عامہ اہلسنت و جماعت کو معاذ اﷲ رافضی و خارجی بنایا اور اﷲ عزوجل کے سِرّ جلیل و الہام جمیل کو جس پر اس نے اپنی حکمتِ بالغہ کے مطابق علمائے امت کو مجتمع و متفق فرمایا۔ ضلالت و گمراہی ٹھہرایا۔ علامہ سید احمد مصری طحطاوی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ حاشیہ در مختار میں ناقل:
ھٰذا الطائفۃ الناجیۃ، قداجتمعت الیوم فی مذاھب اربعۃ وھم الحنفیون والمالکیون و الشافعیون والحنبلیون رحمھم اﷲ تعالٰی ومن کان خارجاً عن ھذہ الاربعۃ فی ھذاالزمان فھو من اھل البدعۃ والنار ۱ ؎۔
یعنی اہل سنت کا گروہ ناجی اب چار مذہب میں مجتمع ہے حنفی، مالکی ، شافعی حنبلی، ا ﷲتعالٰی ان سب پر رحمت فرمائے ، اب جو ان چار سے باہر ہے بدعتی جہنمی ہے۔
(۱ ؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار کتاب الذبائح المکتبۃ العربیۃ کوئٹہ ۴ /۱۵۳)
واقعی ان حضرات نے اس ارشاد علماء کا خوب ہی جواب ترکی بترکی دیا یعنی علمائے اہلسنت ہمیں بدعتی ناری بتاتے ہیں ہم گیارہ سو برس تک کے ان کے اکابر و ائمہ کو رافضی و خارجی بنائیں گے ۔ع کہ تو ہم درمیان ماتلخی
( کہ تو بھی ہمارے درمیان تلخ ہے۔ت)
مولٰی تعالٰی ہدایت بخشے آمین۔
مگر پھر بھی زید بے چارے نے بہت تنزل کیا کہ صرف رفض و خروج پر قانع رہا اس کے پیشوا تو کافر و مشرک تک کہتے ہیں۔ وسیعلم الذین ظلمو اای منقلب ینقلبون ۲ ؎۔ اور اب جانا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں کے۔(ت)
(۲ ؎۔ القرآن الکریم ۲۶ / ۲۲۷)
یہ ناپاک ترکہ اسی بے باک اخبث امام اول دین مستحدث یعنی ابن عبدالوہاب نجدی علیہ ما علیہ کا ہے کہ اپنے موافقان ناخرد مندنفر ے چند بے قید و بند آزادی پسند کے سوا تمام عالم کے مسلمانوں کو کافر و مشرک کہتا، اور خود اپنے باپ، دادا، اساتذہ مشائخ کو بھی صراحۃً کافر کہہ کر پوری سعادت مندی ظاہر کرتا، اور نہ صرف انہیں پر قانع ہوتا بلکہ آج سے آٹھ سو برس تک کے تمام علماء و اولیاء سائر امت مرحومہ کو ( خاک بدہانِ ناپاک) صاف صاف کافر بتاتا اور جو شخض اس کے جال میں پھنس کر اس کے دست شیطان پرست پر بعیت کرتا اس سے آج تک اس کے اور اس کے ماں باپ اور اکابر علمائے سلف نام بنام سب کے کفر پر اقرار لیتا، اور اگرچہ بظاہر ادعائے حنبلیت رکھتا مگر مذاہب آئمہ کو مطلقاً باطل جانتا اور سب پر طعن کرتا اور اپنے اتباع ہر کندہ ناتراشیدہ کو مجتہد بننے کا حکم دیتا۔ یہ دو چار حرف اردو کے پڑھ کر استر بے لگام و اشتربے مہار ہوجانا بھی اسی خرنا مشخص کی تعلیم ہے،
خاتمۃ المحققین مولیٰنا امین الملۃ والدین سیدی محمد بن عابدین شامی قدس سرہ السامی ردالمختار علی الدرالمختار کی جلد ثالث کتاب الجہاد باب البغاۃ میں زیر بیان خوارج فرماتے ہیں : کما وقع فی زماننا فی اتباع عبدالوھاب الذین خرجوا من نجدو تغلبوا علی الحرمین وکانو ینتحلون مذھب الحنابلۃ لکنھم اعتقد وا انھم ھم المسلمون وان من خالف اعتقاد ھم مشرکون واستباحوابذلک قتل اھل السنۃ وقتل علمائھم حتی کسر اﷲ تعالٰی شوکتھم وخرب بلادھم وظفر بھم عساکر المسلمین عام ثالث وثلثین و مائتین والف ۱ ؎۔ یعنی خارجی ایسے ہوتے ہیں جیسا ہمارے زمانے میں پیروانِ عبدالوہاب سے واقع ہوا جنہوں نے نجد سے خروج کرکے حرمین محترمین پر تغلب کیا اور وہ اپنے آپ کو کہتے تو حنبلی تھے مگر ان کا عقیدہ یہ تھا کہ مسلمان بس وہی ہیں اور جو ان کے مذہب پر نہیں وہ سب مشرک ہیں اس وجہ سے انہوں نے اہلسنت کا قتل اور ان کے علماء کاشہید کرنا مباح ٹھہرالیا، یہاں تک کہ اﷲ تعالٰی نے ان کی شوکت توڑ دی اور ان کے شہر ویران کیے اور لشکرِ مسلمین کو ان پر فتح بخشی ۱۲۳۳ھ میں (ت)
(۱ ؎ ردالمحتار کتاب الجہاد ، باب البغاۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۳۰۹)
والحمد ﷲ ربّ العلمین ، وقیل بُعداً للقوم الظلمین ۲ ؎ ۔اور تمام تعریفیں اﷲ تعالٰی کے لیے ہیں جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے، اور کہا گیا کہ دور ہوں بے انصاف لوگ۔(ت)
(۲ ؎ القرآن الکریم ۱۱ /۴۴)
امام العلماء سید سند شیخ الاسلام بالبلدالحرام سیدّی احمد زین دحلان مکی قدس سرہ الملکی نے اپنی کتاب مستطاب درر سنیہ میں اس طائفہ بے باک اور اس کے امام سفاک کے اعمال کا حال عقائد کا ضلال خاتمہ کا وبال قدرے مفصل تحریر فرمایا، اور بیس حدیثوں میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور حضرت امیر المومنین امام المتقین سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ وہ حضرت امیر المومنین مولٰی المسلمین سیدنا علی مرتضٰی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ الکریم کا اس طائفہ تالفہ کے ظہور پر شرور کی طرف ایماو اشعار فرمانا بتایا ان بعض حدیثوں اور ان سے زائد کی تفصیل فقیر کے رسالہ النہی الاکید میں مذکور، یہاں اس کتاب مستطاب ہادی صواب سے چند حرف اس مقام کے متعلق نقل کرنا منظور۔ قال رضی اللہ تعالٰی عنہ ھٰؤلاء القوم لایعتقدون موحدا الامن تبعھم کان محمد بن عبدالوہاب ابتدع ھذہ البدعۃ، وکان اخوہ الشیخ سلیمٰن من اھل العلم فکان ینکرعلیہ انکارا شدید افی کل یفعلہ اویامربہ فقال لہ یوما کم ارکان الاسلام؟ قال خمسۃ، قال انت جعلتہا ستۃ، السادس من لم یتبعک فلیس بمسلم، ھذا عندک رکن سادس للاسلام ، وقال رجل اٰخریوما کم یعتق اﷲ کل لیلۃ فی رمضان ؟ قال مائۃ الف، وفی اٰخرلیلۃ یعتق مثل ما اعتق فی الشھرکلہ؟ فقال لہ لم یبلغ من اتبعک عشر عشر ماذکر ت فمن ھٰؤلاء المسلمون الذین یعتقھم اﷲ وقد حصرت المسلمین فیک وفیمن اتبعک فبھت الذی کفر، فقال لہ رجل اٰخر ھٰذا الدین الذی جئت بہ متصل ام منفصل فقال حتی مشایخی و مشایخھم الٰی ستمائۃ سنۃ کلھم مشرکون فقال الرجل اذن دینک منفصل لا متصل فعمن اخذتہ قال وحی الھام کالخضر ومن مقابحہ انہ قتل رجلا اعمٰی کان مؤذنا صالحاذا صوت حسن نہاہ عن الصلوۃ علی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فامربقتلہ فقتل ثم قال ان الریابۃ فی بیت الخاطئۃ یعنی الزانیۃ اقل اثما ممن ینادی بالصلوٰۃ علی النبی ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) فی المنائر ، وکان یمنع اتباعہ من مطالعۃ کتب الفقہ واحرق کثیرا منھا واذن لکل من اتبعہ ان یفسرالقرآن بحسب فھمہ حتی ھمج الھمج من اتباعہ فکان کل واحد منھم یفعل ذلک ولوکان لایحفظ القرآن ولا شیئاً منہ فیقول الذی لایقرؤ منھم لا خریقرؤاقرأ علی حتی افسرلک فاذا قرأ علیہ یفسرہ لہ برایہ وامرھم ان یعملوا ویحکموا بما یفھمونہ فجعل ذلک مقدما علٰی کتب العلم ونصوص العلماء وکان یقول فی کثیر من اقوال الائمۃ الاربعۃ لیست بشئی وتارۃ یتستر ویقول ان الائمۃ علٰی حق ویقدح فی اتباعھم من العلماء الذین القوا فی مذھب الاربعۃ وحرروھا ویقول انھم ضلوا واضلوا، م وتارۃ یقول ان الشریعۃ واحدۃ فما لھٰؤلاء جعلوھا مذاھب اربعۃ ھذا کتاب اﷲ وسنۃ رسولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لاتعمل الا بھما کان ابتداء ظھور ا مرہ فی الشرق ۱۱۴۳ھ، وھی فتنۃ من اعظم الفتن کانوا اذا اراد احد ان یتبعھم علٰی دینھم طوعاً اوکرھاً یا مرونہ بالاتیان بالشھادتین اولا ثم یقولون لہ اشھد علٰی نفسک ان کنت کافر اواشھد علٰی والدیک انھما ماتا کافرین واشھد علٰی فلان وفلان ویسمون لہ جماعۃ من اکابر العلماء الماضین فان شھدوا بذلک قبلوھم والا امرو ابقتلہم وکانوا یصرحون بتکفیر الا مۃ من منذست مائۃ سنۃ، و اول من صرح بذلک محمد بن عبدالوھاب فتبعوہ فی ذلک ، وکان یطعن فی مذاہب الائمۃ واقوال العلماء ویدعی الانتساب الٰی مذھب الامام احمد رضی اللہ تعالٰی عند کذبا وتسترا وزورا والا مام احمد برئ منہ واعجب من ذلک انہ کان یکتب الٰی عمالہ الذین ھم من اجھل الجاھلین اجتہدوا بحسب فھمکم ولا تلتفتوا الھذہ الکتب فان فیھا الحق والباطل وکان اصحابہ لایتخذون مذھباً من المذاھب بل یجتہدون کما امرھم ویتسترون ظاھرا بمذھب الامام احمد ویلبسون بذلک علی العامۃ، فانتدب للرد علیہ علماء المشرق والمغرب من جمیع المذاھب ، ومن منکراتہ منع الناس من قراء ۃ مولدالنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ومن الصلوۃ علی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی المنائر بعد الاذان، ومنع الدعاء بعد الصلوۃ وکان یصرح بتکفیر المتوسل بالانبیاء والاولیاء وینکرعلم الفقہ ویقول ان ذلک بدعۃ ملتقطاً ۱ ؎۔ شیخ سلمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ یہ گروہِ وہابیہ اپنے پرووں کے سوا کسی کو موحد نہیں جانتے، محمد بن عبدالوہاب ، نے یہ نیا مذہب نکالا، اس کے بھائی شیخ سلیمٰن رحمۃ اللہ علیہ کہ اہل علم سے تھے اس پر ہر فعل و قول میں سخت انکار فرماتے ایک دن اس سے کہا اسلام کے رکن کَے ہیں؟ بولا : پانچ فرمایا ، تو نے چھ کردیئے ، چھٹا یہ کہ جو تیری پیروی نہ کرے وہ مسلمان نہیں، یہ تیرے نزدیک اسلام کا رُکن ششم ہے، اور ایک صاحب نے اس سے پوچھا : اللہ تعالٰی رمضان شریف میں کتنے بندے ہر رات آزاد فرماتا ہے ہے۔؟ بولا : ایک لاکھ اور پچھلی شب اتنے کہ سارے مہینے میں آزاد فرمائے تھے۔ ان صاحب نے کہا: تیرے پیرو تو اس کے سوویں حصہ کو بھی نہ پہنچے وہ کون مسلمان ہیں جنہیں اللہ تعالٰی رمضان میں آزاد فرماتا ہے ، تیرے نزدیک تو بس تو اور تیرے پیرو ہی مسلمان ہیں، اس کے جواب میں حیران ہو کر رہ گیا کافر، اور ایک شخص نے اس سے کہا یہ دین کہ تو لایا نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے متصل ہے یا منفصل ؟ بولا خود میرے اساتذہ اور ان کے اساتذہ چھ سو برس تک سب مشرک تھے کہا: تو تیرا دین منفصل ہوا متصل تو نہ ہوا، پھر تو نے کس سے سیکھا ؟ بولا : مجھے خضر کی طرح الہامی وحی ہوئی، اور اس کی خباثتوں سے ایک یہ ہے کہ ایک نابینا متقی خوش آواز موذن کو منع کیا کہ منارہ پر اذان کے بعد صلوۃ نہ پڑھا کر، انہوں نے نہ مانا اور حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر صلوۃ پڑھی اس نے ان کے قتل کا حکم دے کر شہید کرادیا کہ رنڈی کی چھوکری اس کے گھر ستار بجانے والی اتنی گنہگار نہیں جتنا منارہ پر باآواز بلند نبی (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) پر درود بھیجنے والا، اور اپنے پیروؤں کو کتبِ فقہ دیکھنے سے منع کرتا، فقہ کی بہت سی کتابیں جلادیں اور انہیں اجازت دی کہ ہر شخص اپنی سمجھ کے موافق قرآن کے معنی گھڑ لیا کرے یہاں تک کہ کمینہ سا کمینہ کو دن ساکو دن اس کے پیروؤں کا تو ان میں ہر شخص ایسا ہی کرتا اگرچہ قرآن عظیم کی ایک آیت بھی نہ یاد ہوتی، جو محض ناخواندہ تھا وہ پڑھے ہوئے سے کہتا کہ تو مجھے پڑھ کر سنا میں اس کی تفسیر بیان کروں، وہ پڑھتا اور یہ معنی گھڑتا۔ پھر انہیں تفسیر ہی کرنے کی اجازت نہ دی بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی حکم کیا کہ قرآن کے جو معنی تمہاری اپنی اٹکل میں آئیں انہیں پر عمل کرو اور انہیں پر مقدمات میں حکم دو اور انہیں کتابوں کے حکم اور اماموں کے ارشاد سے مقدم سمجھو، آئمہ اربعہ کے بہت سے اقوال کو محض ہیچ وپوچ بتاتا اور کبھی تقیہ کرجاتا اور کہتا کہ امام تو حق پر تھے مگر یہ علماء جو ان کے مقلد تھے اور چاروں مذہب میں کتابیں تصنیف کر گئے اور ان مذاہب کی تحقیق و تلخیص کو گزرے یہ سب گمراہ تھے اور اوروں کو گمراہ کر گئے۔ اور کبھی کہتا شریعت تو ایک ہے ان فقہاء کو کیا ہوا کہ اس کے چار مذہب کردیئے یہ قرآن و حدیث موجود ہیں ہم تو انہیں پر عمل کریں گے ، مشرق میں اس کے مذہب جدید ۱۱۴۳ھ سے ظہور کیا اور یہ فتنہ عظیم فتنوں سے ہوا، جب کوئی شخص خوشی سے خواہ جبراً وہابیوں کے مذہب میں آنا چاہتا اس سے پہلے کلمہ پڑھواتے پھر کہتے خود اپنے اوپر گواہی دے کہ اب تک تو کافر تھا اور اپنے ماں باپ پر گواہی دے کہ وہ کافر مرے اور اکابر آئمہ سلف سے ایک جماعت کے نام لے کر کہتے ان پر گواہی دے کہ یہ سب کافر تھے پھر اگر اس نے گواہیاں دے لیں جب تو مقبول ورنہ مقتول۔ اگر ذرا انکا ر کیا مروا ڈالتے اور صاف کہتے کہ چھ ۶۰۰ سو برس سے ساری امت کافر ہے، اول اس کی تصریح اسی عبدالوہاب نے کی پھر سارے وہابی یہی کہنے لگے، وہ آئمہ کے مذہب اور علماء کے اقوال پر طعن کرتا اور براہ تقیہ جھوٹ فریب سے حنبلی ہونے کا ادعا رکھتا حالانکہ امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالٰی عنہ اس سے بری و بیزار ہیں اور اس سے عجیب تر یہ کہ اس کے نائب جوہر جاہل سے بدتر جاہل ہوتے انہیں لکھ بھیجتا کہ اپنی سمجھ کے موافق اجتہاد کرو اور ان کتابوں کی طرف منہ پھیر کر نہ دیکھو کہ ان میں حق و باطل سب کچھ ہے ، اس کے ساتھ لا مذہب تھے اس کے کہنے کے مطابق آپ مجتہد بنتے اور بظاہر جاہلوں کے دھوکا دینے کو مذہب امام احمد کی ڈھال رکھتے یہ چال ڈھال دیکھ کر مشرق و مغرب کے علمائے جمیع مذاہب اس کے رد پر کمر بستہ ہوئے ۔ اس کی بری باتوں سے یہ بھی ہے کہ حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے میلاد شریف پڑھنے اور اذان کے بعد مناروں پر حضور والا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر صلوۃ بھیجنے اور نماز کے بعد دعا مانگنے کو ناجائز بتایا اور انبیاء و اولیاء سے توسل کرنے والون کو صراحتہ کافر کہتا اور علم فقہ سے انکار رکھتا اور اسے بدعت کہا کرتا انتہی ملتقطا۔
(۱ ؎۔ الدررالسنیہ ، المکتبۃ الحقیقیۃ استنبول ترکی ص ۳۹ تا ۵۳)
مسلمان دیکھیں کہ بعینہ یہی عقیدے ان ہندی وہابیوں کے ہیں پھر ان کے ہندی امام نے اسی نجدی امام کی کتاب التوحید صغیر سے سیکھ کر کفر مسلمین پر وہ چمکتی دلیل لکھی کہ صاف صاف خود اپنے اور اپنے ہم مشربوں سب کے کفر پر مہر کردی یعنی حدیث صحیح مسلم، لایذھب اللیل و النھار حتی تعبدالات والعزّٰی ( الٰی قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) یبعث اﷲ ریحاً طیبۃ فتوفی من کان فی قلبہ مثقال حبۃ من خردل من ایمان فیبقی من لاخیر فیہ فیرجعون الٰی دین اٰبائھم۲ ؎۔ (۲ ؎۔ مشکوۃ المصابیح کتاب الفتن باب لاتقوم الساعۃ الاعلی الشرار الناس قدیمی کتب خانہ کراچی ص ۴۸۱)
مشکوۃ کے باب لا تقدم الساعۃ الا علی شرار الناس سے نقل کرکے بے دھڑک زمانہ موجودہ پر جمادی جس میں حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ زمانہ فنا نہ ہوگا جب تک لات و عزی کی پھر پرستش نہ ہو، اور وہ یوں ہوگی کہ اللہ تعالٰی ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا جو ساری دنیا سے مسلمانوں کو اٹھالے گی۔ جس کے دل میں رائی کے دانے برابر ایمان ہوگا انتقال کرے گا ، جب زمین میں نرے کافر رہ جائیں گے پھر بتوں کی پرستش جاری ہوجائے گی۔
اس حدیث کو (اسمعیل دہلوی نے) نقل کرکے صاف لکھ دیا سو پیغمبر خدا کے فرمانے کے موافق ہوا ۱۔ انّاﷲ وانّا الیہ راجعون ( بے شک ہم اﷲ ہی کا مال ہیں اور اسی کی طرف ہم نے لوٹنا ہے ت)
(۱ ؎ تقویۃ الایمان ، الفصل الرابع ، مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص ۳۰)
بدحواس کو اتنا نہ سوجھا کہ اگر وہ یہی زمانہ ہے جس کی اس حدیث میں خبر ہے تو واجب کہ روئے زمین پر مسلمان کا نام و نشان نہ رہا، بھلے مانس اب تو اور تیرے ساتھی نجدو ہند کے سارے وہابی گرفتارخرابی کہاں بچ کر جاتے ہیں، کیا تمہارا طائفہ کہیں دنیا کے پردے سے کہیں الگ بستا ہے، تم سب بدتر سے بدتر کافروں میں ہوئے جن کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان نہیں اور دین کفار کی طرف پھر کر بتوں کی پوجا میں ڈوبے ہوئے ہیں، سچ آیا حدیث مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد کہ ۔ حبک الشیئ یعمی ویصم۲۔ کسی شَے سے تیری محبت تجھے اندھا اور بہر کردیتی ہے۔ت)
(۲ ؎ سُنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی الہوٰی آفتاب عالم پریس لاہور ۲ /۳۴۳)
(مسند احمد حنبل مرویات ابی الدردا ۵ /۱۹۴ وکنزالعمال حدیث ۴۴۱۰۴ ۱۶ /۱۱۵)
شرک کی محبت نے اس کفر دوست کو ایسا اندھا بہرا کردیا کہ خود اپنے کفر کا اقرار کر بیٹھا مطلب تو یہ ہے کہ کسی طرح تمام مسلمان معاذ اﷲ مشرک ٹھہریں اگرچہ برائے شگون کو اپنا ہی چہرہ ہموار سہی۔ کذٰلک یطبع اﷲ علٰی کل قلب متکبر جبّار ۳ ؎۔ اﷲ تعالٰی یونہی مہر کردیتا ہے متکبر سرکش کے سارے دل پر (ت)
(۳ ؎القرآن الکریم ۴۰ /۳۵)
وہابی صاحبو ! اپنے پیشواؤں کی تصریحیں دیکھتے جاؤ صدہا سال کے علماء واولیاء و مقبولانِ خدا کو رافضی خارجی کہتے شرماؤ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھو کہ تم بزورِ زبان و بہتان دوسروں پر تبرّا بھیجتے ہو مگر ہندو نجد کے سارے وہابی اپنے ہندی و نجدی اماموں کی تصریح اور وہ دونوں امام معنویِ عوام خودا اپنے اقراراتِ صریح سے کافر بے ایمان مشرک بت پرست شراب کفر سے مخمورو بدمست ہیں، اقرارِ مرد آزادِ مرد چاہ کن راچاہ درپیش ( مرد کا اقرار مرد کا آزار ہے، کنواں کھودنے والا خود کنویں میں گرتاہے۔ت)
آسمان کا تھوکا حلق میں آیا، تف برماہ بر رُوئے خویش ( چاند پر تھوکنے والا اپنے چہرے پر تھوکتا ہے۔ت)
کذلک العذاب ولعذاب الاخرۃ اکبر،لوکانوایعلمون ۱ ؎۔ مار ایسی ہی ہوتی ہے اور بے شک آخرت کی مار سب سے بڑی ہے، کیا اچھا تھا اگر وہ جانتے۔(ت)
(۱ ؎۔ القران الکریم ۶۸ /۳۳)
اور یہیں سے ظاہر کہ لقب رافضی وخارجی کے مستحق بھی یہی حضرات ہیں کہ چاروں آئمہ کرام اور ان کے سب مقلدین سے تبری کرتے اور تصریحاً و تلویحاً سب پر تبرا بھیجتے ہیں بخلاف اہلسنت کہ سب کو امام اہلسنت جانتے اور سب کی جناب میں عقیدت رکھتے سب کے مقلدوں کو رُشد و ہدایت پر مانتے ہیں۔ طرفہ یہ کہ زید بیچارہ رافضیوں پر تین خلفاء کے نہ ماننے کا الزام رکھتا ہے حالانکہ اس کا امام مذہب خود حضرات انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو ماننا بھی حرام و شرک بتاتا ہے، اپنی کتاب تقویۃ الایمان جہال خراب میں صاف لکھتا ہے کہ۔”اللہ کے سوا کسی کو نہ مان” ۲ ؎۔
(۲ ؎ تقویۃ الایمان ۔ الفصل الاول ، مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص ۱۲ )
اسی میں کہتا ہے :” سب سے اللہ صاحب نے قول و قرار لیا کہ کسی کو میے سوا نہ مانیو”۳ ؎۔
( ۳ ؎تقویۃ الایمان ۔ الفصل الاول ، مطبع علیمی اندرون لوہاری دروازہ لاہور ص ۱۲ )
نے فروعت محکم آمد نے اصول
شرم بادت از خدا وازرسول ( نہ تیرے فروع متکلم ہیں اور نہ ہی اصول، تجھے اﷲ ورسول سے شرم آنی چاہیے۔ ت) جل جلالہ، وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم
امردوم : کہ چاروں آئمہ کے مسائل لینے میں کل دین محمدی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر بخوبی عمل ہوسکتا ہے اور ایک کی تقلید میں ناممکن، یہ وہ پوچ دھوکا ضعیف کید ہے کہ نرے ناخواندہ بیچاروں کو سُنا کر بہکالیں مگر جب کسی ادنی طالب علم یا صحبت یافتہ ذی فہم کے سامنے کہیں تو خود ہی کان ضعیفا۴؎ ( شیطان کا داؤ کمزور ہے ت)
(۴ ؎ القرآن الکریم ۴/۷۶)
ماننا پڑے اس مغلظہ فاحشہ کا حاصل جیسا کہ ان کے خواص و عوام کے زبان زد ہے یہ کہ چاروں مذہب حق ہیں اور سب دین متین کی شاخیں تو ایک ہی تقلید سے گویا چہارم دین پر عمل ہوا بخلاف اس کے کہ کبھی کبھی ہر مذہب پر چلے کہ یوں سارے دین پر عمل ہوجائے گا۔
اقول اوّلاً: یہ اُس مدہوش کا جنونی خیال ہے جسے دربار شاہی تک چار سیدھے راستے معلوم ہوئے رعایا کو دیکھا کہ ان کا ہر گزوہ ایک راہ پر ہولیا اور اسی پر چلا جاتا ہے مگر ان حضرات نے اسے بیجا حرکت سمجھا کہ جب چاروں راستے یکساں ہیں تو وجہ کیا کہ ایک ہی کو اختیار کرلیجئے، پکارتا رہا کہ صاحبو ہر شخص چاروں راہ پر چلے مگر کسی نے نہ سنی، ناچار آپ ہی تانا تننا شروع کیا، کوس بھر شرقی راستہ چلا پھرا سے چھوڑ ا،جنوبی کو دوڑا، پھر اس سے بھی منہ موڑا، غربی کو پکڑا پھر اس سے بھاگ کر شمالی پر ہولیا اُدھر سے پلٹ کر پھر شرقی پر آرہا تیلی کے سے بیل کو گھر ہی کوس پچاس عقلاء سے پوچھ دیکھو ایسے کو مجنوں کہیں گے یا صحیح الحواس ، یہ مثال میری ایجاد نہیں بلکہ علمائے کرام واولیائے عظام کا ارشاد ہے اور ان سے امام علام عارف باﷲ سیدی عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ الربانی نے میزان الشریعۃ الکبرٰی ۱ میں نقل فرمائی ا ور اس کے مشابہ دوسری مثال انگلیوں کے پوروں کی اپنے شیخ حضرت سیدی علی خواص رحمۃ اللہ تعلاٰی علیہ سے روایت کی، یہ امام ہمام وہ ہیں جن کی اسی کتاب مستطاب سے اسی مسئلہ تقلید میں غیر مقلدانِ زمانہ کے معلم جدید میاں نذیر حسین دہلوی براہِ اغواء سند لائے اور اسی کتاب میں ان کی ہزار در ہزار قاہر تصریحوں سے کہ جہالاتِ طائفہ کا پور اعلاج تھیں آنکھ بند کرگئے مگر کیا جائے شکایت کہ۔
افتؤمنون ببعض الکتب وتکفرون ببعض ۲ ؎۔ تو کیا خدا کے کچھ حکموں پر ایمان لاتے ہو اور کچھ سے انکار کرتے ہو۔ت)
(۲ القرآن الکریم ۲ /۸۵)
اس سے نئے طائفہ کی پرانی خصلت جسے اس کی سیر دیکھنی منظور ہو بعض احباب فقیر کا رسالہ سیف المصطفی علی ادیان الافترا (۱۲۹۹ھ )مطالعہ کرے۔
ثانیاً : کل دین متین پر ایسے عمل کا صحابہ و تابعین و سائر آئمہ مجتہدان دین کو بھی حکم تھا یا خدا و رسول نے خاص آپ ہی کے واسطے رکھا، برتقدیر اوّل ثبوت دو کہ وہ حضرات ہر گز اپنے مذہب پر قائم نہ رہتے بلکہ نماز و روزہ و تمام اعمال و احکام میں آج اپنے اجتہاد پر چلتے تو کل دوسرے کے پرسوں تیسرے کے برتقدیر ثانی یہ اچھی دولتِ دین ہے جس سے تمام سردارانِ اُمت و پیشوا یانِ ملت باز رہ کر محروم گئے کیا ان کے وقت میں یہ اختلاف مذاہب نہ تھا یا انہیں نہ معلوم تھا کہ ہم ناحق کل دین متین پر عمل چھوڑے بیٹھے ہیں۔
ثالثاً : اُف رے مغالطہ کہ کل دین پر یک لخت عمل چھوڑنے کا نام سارے دین پر عمل کرنا رکھا۔
برعکس نہند نام زنگی کافور (الٹا حبشی کا نام کافور رکھتے ہیں۔ت)
بھلا مسائل اختلافیہ میں سب اقوال پر ایک وقت میں عمل تو محال عقلی ہاں یوں ہوں کہ مثلاً آج امام کے پیچھے فاتحہ پڑھی مگر یہ کل دین متین کے خلاف ہوا، کیا امام ابوحنیفہ (رضی اللہ تعالٰی عنہ) کے نزدیک مقتدی کو قراء ت بعض اوقات میں ناجائز تھی حاشا بلکہ ہمیشہ، کیا امام شافعی کی رائے میں ماموم پر فاتحہ احیاناً واجب تھی حاشا بلکہ دواماً توجو نہ دائماً تارک نہ دائماً عامل وہ دونون قول کا مخالف و نافی پر ظاہر کہ ایجاب و سلب فعلی سلب و ایجاب دوامی دونوں کا دافع و منافی، اب تو کھلا کہ تم رفض و خروج دونوں کے جامع کہ چاروں میں سے کسی کے معتقد نہ کسی کے تابع۔
رابعاً : جو امر ایک مذہب میں واجب دوسرے میں حرام، مثلاً قراء ت مقتدی تو عامل بالمذہبین فی وقتین کو کیا حکم دیتے ہو، آیا اسے ہمیشہ اپنے حق میں حرام سمجھے یا ہمیشہ ۲ واجب یا وقت ۳ عمل واجب وقت ترک حرام یا بالعکس ۴ یا جس ۵ وقت جو چاہے سمجھے یا کبھی ۶ کچھ نہ سمجھے یعنی واجب غیر واجب حرام غیر حرام کچھ تصور نہ کرے یا مذہب ۷ آئمہ یعنی واجب و حرام دونوں کے خلاف محض مباح جانے۔ شقین اوّلین پر یہ ٹھہرتا ہے کہ حرام جان کر ارتکاب کیا یا واجب مان کر اجتناب ، اور شق رابع پر دونوں یہ صریح اجازت قصد فسق و تعمد معصیت ہے اور شق ثالث مثل رابع کھلم کھلا، یُحلونہ عاماً ویحرمرنہ عاماً ۱ ؎۔ ( ایک برس اسے حلال ٹھہراتے ہیں اور دوسرے برس اسے حرام مانتے ہیں۔ت)میں داخل ہونا کہ ایک ہی چیز کو آج واجب جان لیا کل حرام مان لیا پرسوں پھر واجب ٹھہرالیا، دین نہ ہوا کھیل ہوا، یا کفار سو فسطائیہ عندیہ کامیل کہ جس چیز کو ہم جو اعتقاد کرلیں وہ نفس الامر میں ویسی ہی ہوجائے۔ شق خامس پر یہ دونوں استحالے قائم کہ جب اجازت مطلقہ ہے تو عاماً شہراً یوماً درکنار یحلونہ اناً و یحرّمونہ اٰناً ( ایک گھڑی اسے حلال ٹھہراتے ہیں اور دوسری گھڑی اسے حرام مانتے ہیں ت) لازم اور نیز وقت عمل اعتقاد حرمت، وقت ترک اعتقاد و جوب کی اجازت، رہی شق سادس وہ خود معقول نہیں بلکہ صریح قول بالمتناقضین کہ آدمی جب عمل بالمذہبین جائز جانے گا قطعاً فعل و ترک روما نے گا اس کا حکم او راس سے منع بے ہودہ ہے ، معہذا یہ شق بھی استحالہ اولٰی کے حصہ سے سلامت نہیں اچھا حکم دیتے ہو کہ آدمی نماز میں ایک فعل کرے مگر خبردار یہ نہ سمجھے کہ خدا نے میرے لکیے جائز کیا ہے لاجرم شق ہفتم رہے گی اور گل وہی کھلے گا کہ کل دین متین کا خلاف یعنی محصل جواز فعل و ترک نکلا اور وہ وجوب و حرمت دونوں کے منافی۔
(۱ القرآن الکریم ۹ /۳۷)
بالجملہ حضرات براہِ فریب ناحق چاروں مذہب کو حق جاننے کا ادعا کرتے اور اس دھوکے سے عوام بے چاروں کو بے قیدی کی طرف بلاتے ہیں۔ ہاں یوں کہیں کہ آئمہ اہلسنت کے سب مذہبوں میں کچھ کچھ باتیں خلافِ دین محمدی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہیں لہذا ان میں تنہا ایک پر عمل ناجائز و حرام بلکہ شرک ہے لاجرم ہر ایک کے دینی مسئلے چن لیے جائیں اور بے دینی کے چھوڑ دیئے جائیں۔
صاحبو ، یہ تمہارا خاص دلی عقیدہ ہے جسے تمہارے عمائد طائفہ لکھ بھی چکے پھر ڈر کس کا ہے، یہ بلاد مدینہ طیبہ و بلد حرام نہیں حجاز و مصرو روم و شام نہیں زیر سلطنت سنت واسلام نہیں کھل کر کہو کہ چاروں اماموں کے مذہب معاذ اللہ بے دینی ہیں کہ آخر دین و خلاف دین کا مجموعہ ہر گز دین نہ ہوگا بلکہ یقیناً بے دینی، والعیاذ باﷲ رب العالمین۔