الاستفتاء :-
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان کرام اس مسئلے میں کہ :(1) جو شخص داڑھی منڈواتا ہے یا ایک مشت سے کم رکھتا ہے وہ فرض نمازوں ، تراویح یا وتر کی نماز کی امامت کر سکتا ہے یا کہ نہیں؟(2) ایسے شخص کی اذان و اقامت کا کیا حکم ہے ؟(3) یہاں یہ عرض کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ اذان ، اقامت ، یا امامت کے کام سر انجام دینے میں کوئی عذر یا مجبوری نہیں ہے ۔ بلکہ داڑھی منڈوانے والے یا ایک مشت سے کم رکھنے والے یہ کام شوقیہ اور کار ثواب سمجھ کر سر انجام دیتے ہیں۔ کیا ایسا کرنے میں کوئی گناہ کا پہلو ہے ؟(4) اگر گناہ کا پہلو ہے تو ایسے گناہ کے نہ روکنے پر مسجد سے متعلق کون کون لوگ گناہ گار ہو سکتے ہیں.(5) اور کیا ایسا اذان دینے والا بھی گناہ گاروں میں شامل ہو گا ؟
برائے کرام قرآن و سنت کی روشنی میں احکامات سے جلد مطلع فرمائیں
الجواب:
داڑھی منڈوانا یا حد شرعی سے کم کرنا فسق ہے ۔ اور ایسے شخص کی اقتداء میں پڑھی جانے والے نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے ۔ فرض اور تراویح وغیرہ تمام نمازوں کا یہی حکم ہے ۔ اذان واقامت کا بھی یہی حکم ہے جو امامت کا ہے ۔
در مختار میں ” یکرہ “(اس پر بحث مکمل) لکھنے کے بعد جن جن کی امامت مکروہ ہے اس میں لکھا ہے : ” وفاسق” ۔ علامہ شامی نے اس پر لکھا ہے :
في شرح المنية على ان كراهة تقديم كراهة تحريمی (شامی، جلد اول صفحه : ۴۱۴ مكتب رينيه ( کوئٹہ)
یعنی شرح منیہ میں ہے کہ فاسق کی امامت کی کراہت ، کراہت تحریمی ہے ۔ اور اس سے پہلے در مختار ہی میں لکھا ہے
: کل صلوة اديت مع كراهة التحريم تجب اعادتها (جلد اول صفحه : ۳۳۷ مکتب رشیدیہ کوئٹہ)
یعنی ہر وہ نماز جو کراہت تحریمی کے ساتھ پڑھی گئی اس کا اعادہ واجب ہے ۔
اور فاسق کی اذان کے بارے میں در مختار میں ہے :
و فاسق (ملخصاً ، جلد اول صفحه : ۲۸۹ مکتبه رشیدیہ کوئٹہ) یعنی فاسق کی اذان مکروہ ہے ۔ ایسے شخص کا امامت کرنا اور اذان دینا گناہ ہے اور جو لوگ ایسے شخص کی اذان ، اقامت اور امامت پر راضی ہیں وہ بھی گناہ گار ہیں ۔
وقار الفتاویٰ جلد نمبر 1 ص نمبر 146
داڑھی منڈوانے والے کی اذان اقامت اور امامت کا حکم
04
Feb