مسئلہ ۱۸۸ : مرسلہ عبدالستار بن اسمعیل شہر گونڈل علاقہ کاٹھیاوار یکشنبہ ۹ شعبان ۱۳۳۴ھ
ان دنوں اکثر احباب کو گمنام خطوط بدیں مضمون ملے ہیں۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ قل ھواﷲ احد اﷲ الصمد، ایاک نعبدو ایاک نستعین ، انعمت علیھم عرصہ تین روز میں نو خط نوجگہ بھیجئے اس سے آپ کو بہت فائدہ ہوگا ورنہ نقصان۔
اب عرض یہ ہے کہ اس مضمون کا عندالشرع کیا اصل ہے؟ اس پر عمل ضروری ہے یا نہیں؟ اگر واجب العمل ہے تو بلا نام و نشان کے گمنام خط لکھنے کی کیا وجہ ہے؟
الجواب الملفوظ :
یہ بدعتِ شنیعہ ہے کہ کسی جاہل نے ایجاد کی جو مسلمانوں کا بدخواہ ہے اور قرآن عظیم کے ساتھ بے ادب کھلے ہوئے کارڈوں پر کلام الہی لکھ کر بھیجا جاتا ہے کہ چھٹی رساں جو اکثر ہنود اور عموماً بے وضو ہوتے ہیں اُسے مس کرتے ہیں، ڈاکخانوں میں مہریں لگانے والے بے وضو یا نجس ہاتھوں سے چھوتے ہیں زمین پر رکھ کر مہر لگاتے ہیں اور خصوصاً زمین پر وہی رُخ ہوتا ہے جس پر آیات ہیں، یہ سب ناپاکیاں اس بدعتِ خبیثہ کے سبب ہیں، اور پھر یہ اﷲ پر افترا ہے کہ ایسا کرو گے تو نو دن میں خوشی ہوگی ورنہ آفت میں مبتلا ہو گے۔ ام تقولون علی اﷲ مالاتعلمون ۱ ؎۔ یا اﷲتعالٰی پر وہ بات کہتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں۔(ت)
(۱ ؎القرآن الکریم۲ /۸۰)