صحابہ و اہل بیت علیہم الرضوان, عقائد و کلام, فتاوی رضویہ, فضائل و خصائص

مولا علی ہمیشہ سے مسلمان تھے؟

مسئلہ۲۰: از بنارس محلہ پترکنڈہ مرسلہ مولوی محمد عبدالحمیدصاحب (رحمہ للہ تعالٰی ) ۶رجب ۱۳۱۲ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین ابقاھم اللہ تعالٰی الی یوم الدین (اللہ تعالٰی انہیں روز جزا ء تک قائم رکھے ۔ت) اس میں کہ حضرت علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ ہمیشہ کے مسلمان تھے یا کہ علی مافی تاریخ الخلفاء للسیوطی وردالمحتار لابن عابدین وجامع المناقب وغیرہ (جیسا کہ امام سیوطی کی تاریخ الخلفاء ، علامہ ابن عابدین کی ردالمحتاراورجامع المناقب وغیرہ میں ہے ۔ ت) تیرہ یا دس یا نو یا آٹھ برس کے سن میں ایمان لائے ہیں ، اگر ہمیشہ مسلمان تھے تو پھر ایمان لانا چہ معنٰی دارد۔

بینوا بالتفصیل توجروابالاجر الجزیل (تفصیل سے بیان کرو اجر عظیم دیے جائے گا۔ت)

الجواب : حضرت امیر المومنین، مولی المسلمین ، امام الواصلین ، سیدناعلی المرتضٰی مشکل کشا،کرم اللہ تعالٰی وجہہ الاسنٰی اورحضرت امیر المومنین امام المشاہدین افضل الاولیاء المحمدیین سیدنا ومولانا صدیق اکبر عتیق اطہر علیہ الرضوان الاجل الاظہردونوں حضرات عالمِ ذریت سے روزِ ولادت،روزِولادت سے سنِّ تمیز، سنِّ تمیزسے ہنگامِ ظہورپرنور آفتاب بعثت،ظہورِ بعثت سے وقتِ وفات ، وقتِ وفات سے ابدالآبادتک بحمداللہ تعالٰی موحدموقن ومسلم ومومن وطیب وزکی وطاہر ونقی تھے ، اورہیں، اوررہیں گے،کبھی کسی وقت کسی حال میں ایک لحظہ ایک آن کو لوثِ کفروشرک وانکار ان کے پاک، مبارک ، ستھرے دامنوں تک اصلاً نہ پہنچا نہ پہنچے،

والحمدللہ رب العٰلمین (سب تعریفیں اللہ تعالٰی کے لئے ہیں جو پروردگارہے تمام جہانوں کا۔ت)
عالم ذریت سے روزِ ولادت تک اسلام میثاقی تھا کہ الست بربکم، قالوابلٰی۱؂ (کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں، انہوں نے کہا کیوں نہیں۔)

(۱؂القرآن الکریم ۷/۱۷۲)

روز ولادت سے سنِّ تمیز تک اسلام فطری کہ کل مولود یولد علی الفطرۃ۲؂ ہربچہ فطرت اسلام پر پیداہوتاہے ۔(ت)

(۲؂صحیح البخاری کتاب الجنائزباب ماقیل فی اولادالمشرکین قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۱۸۵)
(سنن ابی داود کتاب السنۃ ۲۹۲/۲وجامع الترمذی ابواب القدر۲/۳۶)
(مسند احمد بن حنبل عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۲/۲۳۳)

سنِّ تمیز سے روز بعثت تک اسلام توحیدی کہ ان حضرات والاصفات نے زمانہ فترت میں بھی کبھی بت کو سجدہ نہ کیا، کبھی غیر خدا کو خدا نہ قراردیا ہمیشہ ایک ہی جانا،ایک ہی مانا ، ایک ہی کہا ، ایک ہی سے کام رہا۔ ذٰلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم۳؂۔ یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عطافرماتاہے اوراللہ عظیم فضل والا ہے۔(ت)

(۳؂القرآن الکریم ۶۲/۴)

پھر ظہور بعثت سے ابدالآبادتک حال تو ظاہر وقطعی ومتواتر ہے

والحمدللہ رب العٰلمین (سب تعریفیں اللہ تعالٰی کےلئے ہیں جو پروردگارہے تمام جہانوں کا۔ت)فقیر غفرلہ اللہ المولی القدیرنے یہ نفسی مطلب بقدر حاجت اپنے رسالہ موجزہ تنزیہ المکانۃ الحیدریۃ عن وصمۃ عہد الجاھلیۃ میں واضح کیا۔

ثم اقول وباللہ التوفیق (میں پھر کہتاہوں اورتوفیق اللہ کی طرف سے ہے ) ظاہر ہے کہ تا اوان (وقت) فترت اس زمان جاہلیت ومکان اُمیت وہیجان غفلت میں سمعیات پر اطلاع کے تو کوئی معنی ہی نہ تھے، اسی طرح نبوت وکتاب کہ وہ لوگ ان امور سے واقف ہی نہ تھے ، ولہذابراہِ عجب کہتے ہیں:

أبعث اللہ بشرارسولا۱؂ کیا خدا نے آدمی کو رسول بنایا۔

(۱؂القرآن الکریم ۱۷/۹۴)

اورکہتے : مال ھذا الرسول یاکل الطعام ویمشی فی الاسواق۲؂ یہ رسول کیساہے کہ ہماری طرح کھاناکھاتاہے اوربازاروں میں چلتاہے۔

(۲؂القرآن الکریم ۲۵/۷)

اورپُر ظاہر کہ حکم ، بے تصورمحکوم علیہ محال قطعی۔ تو جس چیز سے ذہن اصلاً خالی اس کی تصدیق وتکذیب دونوں ممتنع عقلی۔

وقد قال تعالی : ماانذر اٰباؤھم فھم غفلون۳؂۔ بے شک اللہ تعالٰی نے فرمایا : ان کے باپ دادا نہ ڈرائے گئے تو وہ بے خبر ہیں۔(ت)

(۳؂القرآن الکریم ۳۶/۶)

لہذا اس زمانے میں صرف توحید مدار اسلام ومناطِ نجات ونافی کفر تھی ۔ موحد ان جاہلیت کا مسئلہ اجماعیہ کسے نہیں معلوم؟بایں ہمہ وہ اسلام ضروری تھا کہ اس وقت اسی قدرممکن تھا اصل دین ومرضی رب العٰلمین جسے

ان الدین عنداللہ الاسلام۴؂ (بے شک اللہ کے یہاں اسلام ہی دین ہے ۔ت) فرمایا گیا تمام ایمانیات پر ایمان لانا ہے ،

کل اٰمن باللہ وملٰئکتہ وکتبہ ورسلہ۔ سب نے مانا اللہ اوراس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں اوراس کے رسولوں کو۔ (ت)

(۴؂القرآن الکریم ۳/۱۹) (۵؂القرآن الکریم ۲/۲۸۵)

یہ بغیر بعثت وبلوغ دعوت ناممکن ۔۔۔۔۔او راس کا بھی فرد اکمل وہ ہے جس کی نسبت ابراہیم خلیل واسمٰعیل ذبیح صلی اللہ تعالٰی علیہما وسلم نے دعا کی :

ومن ذریتنا امۃ مسلمۃ لک۶؂۔ اورہماری اولاد میں سے ایک امت تیری فرمانبردار۔(ت)

(۶؂القرآن الکریم ۲/۱۲۸)

جس کی نسبت ارشادہوتاہے : ھو سماکم المسلمین من قبل۱؂۔ اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے اگلی کتابوں میں ۔(ت)

(۱؂القرآن الکریم ۲۲/۷۸)

یعنی اس نبی کر یم افضل المسلمین خاتم النبیین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وعلیہم اجمعین کی امت مرحومہ میں داخل ہونا ۔ یہ اسلام کا اطلاق اخص واکمل واجل واجمل ہے ۔ان دونوں معنوں پر ان حضرات عالیات رضی اللہ تعالٰی عنہما کی نسبت کہا جاتاہے کہ وہ آٹھ یا دس برس کی عمر میں اسلام لائے، یہ ارشاد اقدس سنتے ہی فوراً بلاتامل مسلمان ہوئے۔ معہذا اس میں ایک سِرّ یہ ہے کہ بعد بعثت وبلوغ دعوت صرف اس اسلام ضروری پر قناعت کافی ووجہ نجات نہیں ۔ اگرکوئی شخص فترت میں صدہا سال موحد رہتا اوربعد دعوت تصدیق نہ کرتا وہ اسلام سابق یقینا زائل ہوکر یعنی اس نبی کر یم افضل المسلمین خاتم النبیین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وعلیہم اجمعین کی امت مرحومہ میں داخل ہونا ۔ یہ اسلام کا اطلاق اخص واکمل واجل واجمل ہے ۔ان دونوں معنوں پر ان حضرات عالیات رضی اللہ تعالٰی عنہما کی نسبت کہا جاتاہے کہ وہ آٹھ یا دس برس کی عمر میں اسلام لائے، یہ ارشاد اقدس سنتے ہی فوراً بلاتامل مسلمان ہوئے۔ معہذا اس میں ایک سِرّ یہ ہے کہ بعد بعثت وبلوغ دعوت صرف اس اسلام ضروری پر قناعت کافی ووجہ نجات نہیں ۔ اگرکوئی شخص فترت میں صدہا سال موحد رہتا اوربعد دعوت تصدیق نہ کرتا وہ اسلام سابق یقینا زائل ہوکر کافر مخلد فی النار ہوجاتا۔ تو جس نے فورًا تصدیق کی اس پرحکم اسلام اس وقت سے تام وقائم ومحکم ومستقر ہوا۔
علاوہ بریں رب العز ت عزوجل اپنے خلیل جلیل سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والتسلیم کی نسبت فرماتاہے : اذقال لہ ربہ اسلم قال اسلمت لرب العٰلمین۲؂۔ جب اس سے فرمایا اس کے رب نے کہ اسلام لا، بولامیں اسلام لایا رب العالمین کیلئے۔

(۲؂القرآن الکریم ۲/۱۳۱)

جب خلیل کبریا علیہ الصلوٰۃ والثناء کو اسلام لانے کا حکم ہونا اورانکا عرض کرنا کہ اسلام لایا، معاذاللہ ان کے ایمان قدیم واسلام مستمر کامنافی نہ ہوا کہ حضرات انبیاء علیہم التحیۃ والثناء کی طرف بعد نبوت وپیش از نبوت کبھی کسی وقت ایک آن کے لئے بھی غیر اسلام کو اصلاً راہ نہیں، توصدیق ومرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہما کی نسبت یہ الفاظ کہ فلاں دن مسلما ن ہوئے اس روز اسلام لائے، انکے اسلام سابق کے معاذاللہ کیا مخالفت ہوسکتے ہیں۔

ھذا کلہ واضح مبین۔ والحمدللہ رب العالمین۔ یہ سب واضح نمایاں ہے اورتمام تعریفیں اللہ تعالٰی کے لئے ہیں جوپروردگارہے کل جہانوں کا۔(ت)
بحمداللہ تعالٰی فقیر کی اس تقریر سے جس طرح روافض کا نفیِ خلافت صدیقی رضی اللہ تعالٰی عنہ کےلئے براہ عناد ومکابرہ آیہ کریمہ لاینال عھدی الظٰلمین۱؂ (میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا۔ت) سے سفیہانہ استدلال ، جس کا نہ صغرٰی صحیح نہ کبرٰی ٹھیک، ہباءً منثورا ہوگیا، یونہی تفضیلیہ کا وہ باطل خیال کہ “قدم اسلام خاصہ حضرت مرتضوی کرم اللہ تعالٰی وجہہ ہے لہذا خلفائے ثلٰثہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سے افضل”مدفوع ومقہور ہوگیا۔

(۱؂القرآن الکریم۲/۱۲۴)

فاقول وباللہ التوفیق (پس میں کہتاہوں اورتوفیق اللہ ہی کی طر ف سے ہے۔ت) صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لحاظ سے تو یہ تخصیص ہی غلط کہ وہ بھی اس فضل جلیل میں شریک حضرت اسداللہ الغالب ، بلکہ انصاف کیجئے تو شریک غالب ہیں اگرچہ دونوں حضرات قدیم الاسلام ہیں کہ ایک آن ایک لمحہ کو ہر گز ہرگز متصف بکفر نہ ہوئے ، مگر اسلام میثاقی واسلام فطری کے بعد اسلام توحیدی واسلام اخص دونوں میں صدیق اکبر کا پایہ ارفع واعلٰی ہے ۔توحیدی میں یوں کہ صدیق اکبر کی ایک عمر کثیر اس زمانہ ظلمت وجہالت میں گزری۔ ابتداء میں مدتوں حضور پرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی بارگاہِ اسلام پناہ سے دوری رہی۔ اس پر بچپنے کی کچی سمجھ میں انکے والد ماجد رضی اللہ تعالٰی عنہ کا کہ اس وقت تک مبتلائے شرک تھے اپنے دین باطل کی تعلیم دینا، ،بت خانے میں لے جاکرسجدہ بت کی تفہیم کرنا،غرض رہنما مفقود، رہزنی موجود۔بایں ہمہ انکا توحید خالص پر قائم رہنا ، اللہ اکبرکیسا اجل واعظم ہے ۔حضرت امیر المومنین مولا علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الاسنٰی نے آنکھ کھولی تو محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہی کا جمال جہاں آرا ء دیکھا ، حضور ہی کی گود میں پرورش پائی، حضور ہی کی باتیں سنیں، حضو رہی کی عادتیں سیکھیں، شرک وبت پرستی کی صورت ہی اللہ تعالٰی نے کبھی نہ دکھائی، آٹھ یا دس سال کے ہوئے کہ آفتاب جہاں تابِ رسالت اپنی عالمگیر تابشوں کے ساتھ چمک اٹھا، والحمدللہ رب العٰلمین (اورسب تعریفیں اللہ تعالٰی کے لئے ہیں جو پروردگارہے تمام جہانوں کا۔ت) اسلام اخص میں یوں کہ صدیق اکبر نے فورًا اپنا اسلام سب پر ظاہر وآشکار کردیا ، ہدایتیں فرمائیں ، کفار کےہاتھوں سے اذیتیں پائیں ، جن کی تفصیل ہماری کتاب مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین وغیرہ کتب حدیث میں ہے ۔
اورامیر المومنین مولٰی علی کی نسبت آیا کہ کچھ دنوں اپنے باپ ابو طالب کےخوف سے کہ لازمہ صغرسنّ ہے اپنے اسلام کا اخفافرمایا ،

امام حافظ الحدیث خیثمہ بن سلیمان قرشی وامام دارقطنی و محب الدین طبری وغیرہم حضرت امام حسن مجبتٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضرت سیدنا علی مرتضٰی وجہہ الکریم فرماتے ہیں : ان ابا بکرٍ سبقنی الٰی اربعٍ لم اوتھن،سبقنی الٰی افشاء السلام، وقدم الہجرۃ، مصاحبتہ فی الغارواقام الصلوۃ وانا یومئذٍ بالشعب ، یظھر اسلامہ واخفیہ۱؂۔الحدیث بیشک ابوبکر چارباتوں کی طرف سبقت لے گئے کہ مجھے نہ ملیں : انہوں نے مجھ سے پہلے اسلام آشکار اکیا، اورمجھ سے پہلے ہجرت کی، نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے یارغارہوئے، اورنماز قائم کی اس حالت میں کہ میں ان دنوں گھروں میں تھا۔ وہ اپنا اسلام ظاہر کرتے اور میں چھپاتاتھا۔

(۱؂المواہب اللدنیہ بحوالہ خیثمہ بن سلیمٰن ذکر اول من اٰمن، اسلام علی رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۱/ ۲۱۸و۲۱۹)

امام قسطلانی مواہب اللدنیہ میں فرماتے ہیں : اول من اسلم علی ابن ابی طالب وھو صبی لم یبلغ الحلم ، وکان مستخفیا باسلامہ، واول رجل عربی بالغ اسلم واظھر اسلامہ ابو بکر بن ابی قحافۃ رضی اللہ تعالٰی عنہما۲؂۔ سب سے پہلے ایمان لانے والے مذکر حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں جبکہ آپ بچے تھے اورسِنِّ بلوغ کو نہ پہنچے تھے وہ اپنے اسلام کو پوشیدہ رکھتےتھے، اورسب سے پہلے ایمان لانے والے عربی مرد جنہوں نے اسلام ظاہر کیا وہ ابوبکر بن ابی قحافہ رضی اللہ تعالٰی عنہماہیں۔(ت)

(۲؂المواہب اللدنیہ بحوالہ خیثمہ بن سلیمٰن ذکر اول من اٰمن، اسلام علی رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۱/ ۲۱۹)

امام ابو عمر ابن عبدالبر روایت فرماتے ہیں : سئل محمد بن کعب القرظی عن اول من اسلم ولی او ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہما : قال سبحان اللہ علیّ اولھما اسلامًا وانما شبّہ علی الناس لان علیّا اخفٰی اسلامہ من ابی طالب واسلم ابو بکر فاظھر اسلامہ۱؂۔ محمد بن کعب قرظی سے سوال کیا گیا کہ ابو بکر وعلی میں سے پہلے اسلام لانے والا کون ہے؟ تو انہوں نے کہا سبحان اللہ ان دونوں میں سے حضرت علی پہلے اسلام لائے مگر انہوں نے اسلام کو اپنے والد سے پوشیدہ رکھاجس وجہ سے ان کا اسلام لوگوں پر مشتبہ رہا جبکہ ابو بکررضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنا اسلام ظاہر فرمایا۔(ت)

(۱؂الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ترجمہ ۱۸۷۵علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ دارالکتب العلمیۃ بیروت۳/۱۹۹)

ولہذا احادیث حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وآثار صحابہ کرام واہلبیت عظام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے ثابت کہ صدیق کا اسلام سب کے اسلام سے افضل، اوران کا ایمان تمام امت کے ایمان سے ازید واکمل ہے

کما بیناہ فی کتابناالمذکور المبارک ان شاء اللہ تعالٰی (جیسا کہ ہم نے اس کو بیان کردیا ہے کتاب مذکو رمیں جو ان شاء اللہ بابرکت ہوگی۔ت)
رہے امیر المومنین فاروق وامیر المومنین غنی رضی اللہ تعالٰی عنہما مذہب جمہور اہلسنت میں امیر المومنین حیدر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے تو وہ دونوں افضل اورامیر المومنین صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ اگرچہ سب سے افضل مگر اس وجہ سے افضل نہیں کہ یہ قدیم الاسلام ہیں وہ جدید الاسلام ، کہ یہ فضل جُزئی ہے جو مفضول کو بھی افضل پر مل سکتاہے ۔ فضل کلی اورشیئ ہے جس کی تحقیق انیق ہم نے کتاب مذکور میں ذکر کی۔ قدم اسلام اگر موجب افضلیت ہوتو لازم آئے کہ من وتو زید وعمروکہ بعونہ تعالٰی باپ داداپرداداپشت ہاپشت سے مسلمان چلے آتے ہیں ۔ عمر وعثمان ، ابو ذرو سلمان وحمزہ وعباس وغیرہم صحابہ کرام واہلیبت عظام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے معاذاللہ افضل ٹھہریں ، تو اس بنا پر دعوی افضلیت محض جہالت اورفضل جُزئی وکلی کے تفرقہ سے غفلت ہے۔

واللہ الھادی وولی الایادی واللہ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم وعلمہٗ جل مجدہ اتم واحکم۔ اللہ تعالٰی ہدایت دینےو الا اورنعمتوں کا مالک ہے اوراللہ سبحانہ وتعالٰی خوب جانتاہے اوراس کا علم اتم اورمستحکم ہے ۔(ت)