مسئلہ:(1) مدارس اسلامیہ میں جو رقم زکوٰۃ کی دی جاتی ہے اس کو تنخواہ مدرسین میں صرف کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟
(2) کیا رقوم زکوٰۃ حیلہ شرعی کے بعد ضروریات مدرسہ یعنی تعمیر مدرسہ یا اور دیگر کاموں میں صرف کی جا سکتی ہے یا نہیں اور حیلہ شرعی کی کیا صورت ہے ایسی حالت میں زکوٰۃ دینے والے کی زکاۃ ادا ہو جائے گی یا نہیں؟
(3) ہمارے یہاں حیلہ شرعی اس طرح کیا جاتا ہے کہ چند طلباء کو بلا کر کہہ دیا گیا کہ یہ زکوٰۃ کا روپیہ ہے اس کو تم مدرسہ میں دے دو پہلے سے ان کو بتا دیا جاتا ہے وہ لڑکا کہتا ہے کہ میری طرف سے اس کو مدرسہ میں داخل کر دو اور وہ داخل کر لیا جاتا ہے۔
کیا حلیہ شرعی کہ یہی صورت ہے یا کچھ اور۔؟
نیز زکوۃ کی اس رقم پر تملیک شرط ہے یا نہیں؟
4) بعض جگہ یہ قاعدہ کہ زکوۃ کی رقم وصول کر لی گئی مگر مدرسہ میں موجود طلباء کے خورد و نوش کا انتظام نہیں ہے وہ زکوۃ کی رقم مدرسہ میں تنخواہ اور دیگر کاموں میں صرف کی جاتی ہے ایسے مدرسہ میں زکوۃ دینا جائز ہے یا نہیں؟
اور دینے والے پر تاوان پڑے گا یا نہیں۔؟ اور دینے والا گنہگار ہوگا یا نہیں؟
الجواب :بعون الملك الوهاب (1) زکوة کی رقم بغیر حیلہ شرعی مدرسین کی تنخواہ میں ہرگز نہیں صرف کی جا سکتی بہار شریعت حصہ پنجم ص58میں ہے۔بہت سے لوگ مال زکوٰۃ اسلامی مدارس میں بھیج دیتے ہیں ان کو چاہیے کہ متولی مدرسہ کو اطلاع دیں کہ یہ مال زکوٰۃ ہے تا کہ متولی اس مال کو جدا رکھے اور مال میں نہ ملائے اور غریب طلباء پر صرف کرے کسی کام کی اجرت میں نہ دے ورنہ زکوٰۃ ادا نہ ہوگی انتهى بالفاظه.
والله تعالی ورسوله الاعلی اعلم جل جلالہ و صلی المولى تعالى عليه وسلم.
(2) مال زکوٰة حیله شرعی کے بعد تعمیر مدرسہ وغیرہ ہر کام میں صرف کیا جاسکتا ہے۔ شرعا کوئی قباحت نہیں ۔حیلہ شرعی کی ایک صورت یہ ہے کہ مال زکاۃ کا فقیر کو مالک بنا دیں اس طرح کہ زکوۃ کی رقم اس کے ہاتھ میں رکھ دیں ۔اب وہ اپنی طرف سے ناظم مدرسہ کو صرف کرنے کا وکیل بنا دے زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ۔
والله تعالی ورسوله الاعلیٰ اعلم۔
(3) زکوٰة کی ادائیگی کے لئے تملیک شرط ہے لہذا طلبہ سے یہ کہنا کہ یہ مال زکوٰۃ ہے اسے مدرسہ میں دیدو اور انھوں نے دیدیا صحیح نہیں بلکہ نادار بالغ طلبہ کو مال زکوۃ دیدیا جائے اور وہ لوگ اس پر قبضہ کرلیں پھر بخوشی مدرسہ میں دیدیں۔ اگر طلباء نابالغ ہوں گے تو ان کا مدرسہ میں دینا شرعاً صحیح نہیں اگر دیں گے تو اس مال کا مدرسہ میں خرچ کرنا جائز نہیں۔ فتاوی عالمگیری جلد اول مصری ص178 میں ہے اذا دفع الزكوة إلى الفقير لا يتم الدفع ما لم يقبضها اھ۔ اور در مختار مع شامی جلد چہارم ص531 میں ہے ۔
لا تصح ھبة صغير اھ –
هذا ما عندى والعلم بالحق عند الله تعالى۔
ورسوله جل جلاله، وصلى المولى تعالى عليه وسلم ۔
4) جن مدارس میں مال زکوٰة طلبہ پر نہیں صرف کیا جاتا اور اراکین مدرسہ بغیر حیلہ شرعی مدرسہ کے دیگر کاموں میں صرف کرتے ہیں اور زکوٰۃ دینے والے کو اس بات کا علم ہے تو ایسے مدارس میں زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔ اگر کر دیا تو تاوان دینا پڑے گا اگر تاوان نہیں دیگا تو گنہگار ہو گا۔
هذا خلاصة ما في الكتب الفقهية –
والله تعالى و رسوله الاعلیٰ اعلم جل جلاله وصلى المولى تعالى عليه وسلم
بحوالہ -فتاوی فیض الرسول
ص:490 جلد 1
حیلہ شرعی کی کیا صورت ہے اور کیا اس سے زکوۃ و صدقات واجبہ ادا ہو جاتی ہے
25
Jan