مسئلہ دوم : خلفائے ثلثہ رضوان اللہ تعالی علیھم سے آیا حضرت علی علیہ السلام افضل تھے یا کم؟
الجواب
اہل سنت وجماعت نصر ہم اللہ تعالی کا اجماع ہے کہ مرسلین ملائکہ ورسل وانبیائے بشر صلوات اللہ تعالی وتسلیماتہ علیھم کے بعد حضرات خلفائے اربعہ رضوان تعالی علیہم تمام مخلوق الہٰی سے افضل ہیں۔ تمام امم عالم اولین وآخرین کوئی شخص ان کی بزرگی وعظمت وعزت ووجاہت وقبول وکرامت وقرب وولایت کو نہیں پہنچتا ۔ ان الفضل بید اللہ یؤتیہ من یشاء ؕ واللہ ذوالفضل العظیم ۱۔ فضل اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے جسے چاہے عطا فرمائے ، اور اللہ بڑا فضل والا ہے (ت)
(۱القرآن الکریم ۵۷ /۲۹)
پھر ان میں باہم ترتیب یوں ہے کہ سب سے افضل صدیق اکبر ، پھر فاروق اعظم پھر عثمان غنی ، پھر مولی علی علیہ سید ہم ومولو ہم وآلہ وعلیہم وبارک وسلم ، اس مذہب مہذب پر آیات قرآن عظیم واحادیث کثیرہ حضور نر نبی کریم علیہ وعلی آلہ وصحبہ الصلوۃ والتسلیم وارشادات جلیہ واضحہ امیر المؤمنین مولی علی مرتضی ودیگر ائمئہ اہلبیت طہارت وار تضاواجماع صحابہ کرام وتابعین عظام وتصریحات اولیائے امت وعلمائے امت رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین سے وہ دلائل باہر ہ وحجج قاہر ہ ہیں جن کا استیعاب نہیں ہوسکتا ۔ فقیر غفر اللہ تعالی لہ نے اس مسئلہ میں ایک کتاب عظیم بسیط وضخیم دو مجلد پر منقسم نام تاریخی مطلع القمر ین فی ابانۃ سبقۃ العمرین۱۲۹۷ھ سے متسم تصنیف کی اور خاص تفسیر آیہ کریمہ ان اکرمکم عند اللہ اتقکم اور اس سے افضیلت مطلقہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی اثبات واحقاق اور اوہام خلاف کے ابطال وازہاق میں ایک جلیل رسالہ مسمی بنام تاریخی الزلال الانقی من بحر سبقۃ الاتقی ۱۳۰۱ھ تالیف کیا اس مبحث کی تفصیل ان کتب پر موکول ، یہاں صرف چند ارشادات ائمہ اہلبیت کرام رضی اللہ تعالی عہنم پر پر اقتصار ہوتا ہے ، اللہ عزوجل کی بیشمار رحمت ورضوان وبرکت امیر المومنین اس حیدر حق گو حق دان حق پرورکرم اللہ تعالی وجہہ الاسنی پر کہ اس جناب نے مسئلہ تفضیل کو بغایت مفصل فرمایا اپنی کرسی خلافت وعرش زعامت پر بر سر منبر مسجد جامع ومشاہد ومجامع وجلوات عامہ وخلوات خاصہ میں بطریق عدیدہ تامدد مدیدہ سپیدوصاف ظاہر وواشگاف محکم ومفسر بے احتمال دگر حضرات شیخین کریمین وزیرین جلیلین رضی اللہ تعالی عنہما کا اپنی ذات پاک اور تمام امت مرحومہ سید لولاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے افضل وبہتر ہونا ایسے روشن وابین طور پر ارشاد کیا جس میں کسی طر ح شائبہ شک وترددنہ رہا مخالف مسئلہ کو منقری بتایا اسی کوڑے کا مستحق ٹھہرا ، حضرت سے ان اقوال کریمہ کے راوی اسی سے زیادہ صحابہ و تابعین رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین صواعق امام ابن حجر مکی میں ہے :
قال الذھبی وقد تواتر ذلک عنہ فی خلافتہ وکرسی مملکۃ وبین الجم الغفیرمن شیعتہ ثم بسط الاسانید الصحیحۃ فی ذلک قال ویقال رواہ عنہ نیف وثمانون نفساوعد د منہم جماعۃ ثم قال فقبح اللہ الرافضۃ مااجھلھم ۱انتہی ذہبی نے کہا امیر المومنین حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سے ان کے زمانہ خلافت میںجبکہ آپ کرسی اقتدار پر جلوہ گر تھے تواتر سے ثابت ہے کہ آپ نے اپنی جماعت کے جم غفیر میں افضلیت شیخین کو بیان فرمایا ۔ کہا جاتا ہے کہ اسی سے زائد افراد نے اس بارے میں آپ سے روایت کی ہے ۔ ذہبی نے ان میںسے کچھ کے نام گنوائے ہیں ۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالی رافضیوں کا براکرے وہ کس قدر جاہل ہیں انتہی (ت)
(۱ الصواعق المحرقۃ الباب الثالث الفصل الاول دار الکتب العلمیۃ بیروت ص ۹۰ و ۹۱)
یہاں تک کہ بعض منصفان شیعہ مثل عبدالرزاق محدث صاحب مصنف نے باوصف تشیع تفضیل شیخین اختیار کی اور کہا جب خود حضرت مولی کرم اللہ تعالی وجہہ الاسنی انہیں اپنے نفس کریم پر تفضیل دیتے تو مجھے اس کے اعتقاد سے کب مفر ہے مجھے یہ کیا گناہ تھوڑا ہے کہ علی سےمحبت رکھوں اور علی کا خلاف کرو ں ۔
صواعق میں ہے : مااحسن ماسلکہ بعض الشیعۃ المنصفین کعبد الرزاق فانہ قال افضل الشیخین بتفضیل علی ایا ھما علی نفسہ والا لما فضلتھما کفی بی وزراان احبہ ثم اخالفہ ۱ کیا ہی اچھی راہ چلے ہیں بعض منصف شیعہ جیسے عبدالرزاق کہ اس نے کہا میں اس لئے شیخین کو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ پر فضیلت دیتا ہو ں کہ حضرت علی نے انہیں فضیلت دی ہے ورنہ میں انہیں آپ پر فضیلت نہ دیتا میرے لئے یہ گناہ کافی ہے کہ میں آپ سے محبت کروں پھر آپ کی مخالفت کروں(ت)
(۱الصواعق المحرقۃ الباب الثالث الفصل الاول دار الکتب العلمیۃ بیروت ص۹۳)
اب چند احادیث مرتضوی سنے :
حدیث اول : صحیح بخاری شریف میں سیدنا وابن سیدنا امام محمد بن حنفیہ صاحبزادہ مولی علی کرم اللہ تعالی وجوہما سے مروی : قلت لابی ای النا س خیر بعد النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قال ابوبکر قال قلت ثم من قال عمر۲۔ میں نے اپنے والد ماجد کرم اللہ تعالی وجہہ سے عرض کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب آدمیون میں بہتر کون ہے ؟ فرمایا ابوبکر میں نے عرض کی پھر کون ؟ فرمایا عمر رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین۔
(۲ الصواعق المحرقہ الباب الثالث الفصل الاول دار الکتب بیروت ص ۹۳)
حدیث دوم : امام بخار اپنی صحیح اور ابن ماجہ سنن میں بطریق عبداللہ بن سلمہ امیر المنین کرم اللہ تعالی وجہہ سے روای کہ فرماتے تھے ۔ خیر الناس بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ابوبکر وخیر الناس بعد ابوبکر عمر ۳رضی اللہ تعالی عنہما ، ھذا حدیث ابن ماجۃ۔ بہترین مرد بعد سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر ہیں او ربہترین مرد بعد ابوبکر عمر رضی اللہ تعالی عنہما ۔ یہ حدیث ابن ماجہ کی ہے ۔(ت)
(۳صحیح البخاری مناقب اصحاب النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم مناقب ابی بکر قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۵۱۸)
حدیث سوم : امام ابو القاسم اسمعیل بن محمد بن الفضل الطلحی کتاب السنۃ میں راوی : اخبرنا ابوبکر بن مردویہ ثنا سلیمن بن احمد ثنا الحسن بن المنصور الرمانی ثنا داؤد بن معا ذ ثنا ابو سلمۃ العتکی عبداللہ بن عبدالرحمن عن سعید بن ابی عروبۃ عن منصور بن المعتمر عن ابراھیم عن علقمۃ قال بلغ علیا ان اقواما یفضلونہ علی ابی بکر و عمر فصعد المنبر فحمد اللہ واثنی علیہ ثم قال یا ایھا الناس انہ بلغنی ان قسوما یفضلونی علی ابی بکر وعمر ولوکنت نقد مت فیہ لعاقبت فیہ فمن سمعتہ بعد ھذالیوم یقول ھذا فہو مفتر علیہ حد المفتری ثم قال ان خیر ھذا الامۃ بعد نبیھا ابوبکر ثم عمر ، ثم اللہ اعلم بالخیر بعد ، قال وفی المجلس الحسن بن علی فقال واللہ لوسمی الثالث لسمی عثمان ۱ (ہم کو خبر دی ابوبکر بن مردویہ نے ، ہم کو حدیث بیان کی سلیمان بن احمد نے ، ہم کو حدیث بیان کی حسن بن منصور رمانی نے ، ہم کو حدیث بیان کی داؤد معا ذ بن ، ہم کو ابو سلمہ عتکی عبداللہ بن عبد الرحمن نے ، انہوں نے سعید بن ابو عروبہ سے ، انہوں نے منصور بن معتمر سے ، انہوں نے ابراہیم سے اور انہون نے حضرت علقمہ سے روایت کی) حضرت علقمہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں امیر المومنین کرم اللہ تعالی وجہہ کو خبر پہنچی کہ کچھ لوگ انہیں حضرات صدیق وفاروق رضی اللہ تعالی عنہما سے افضل بتاتے ہیں ، یہ سن کر منبر پر جلوہ فرماہوئے حمد وثناءے الہی بجالائے ، پھر فرمایا : اے لوگو۔ مجھے خبر پہنچی کہ کچھ لوگ مجھے ابوبکر وعمر سے افضل کہتے ہیں اس بارہ میں اگر مین نے پہلے سے حکم سنا دیا ہو تا تو بے شک سزا دیتا آج سے جسے ایسا کہتے سنوں گا وہ مفتری ہے اس پر مفتری کی حد یعنی اسی کو ڑے لازم ہیں ۔ پھر فرمایا : بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد افضل امت ابو بکر ہیں پھر عمر ، پھر خدا خوب جانتا ہے کہ ان کے بعد کون سب سے بہتر ہے ۔ علقمہ فرماتے ہیں مجلس میں سیدنا امام حسن مجتبی رضی اللہ تعالی عنہ بھی تشریف فرماتھے انہوں نے فرمایا خدا کی قسم اگر تیسرے کانام لیتے تو عثمان کانام لیتے رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین (ت)
(۱ ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء بحوالہ ابی القاسم فی کتاب السنۃ مسند علی بن ابی طالب سہیل اکیڈمی لاہور ۱/۶۸)
حدیث چہارم : امام دار قطنی سنن میں اور ابو عمر بن عبد البر استیعاب میں حکم بن حجل سے راوی حضرت مولی کرم اللہ تعالی وجہہ فرماتے ہیں : لااجد احد افضلنی علی ابی بکر و عمر الاجلدتہ حد المفتری۱ میں جسے پاؤں گا کہ مجھے ابوبکر وعمر سے افضل کہتا ہے اسے مفتری کی حد لگاؤں گا ۔
(۱ الصواعق المحرقۃ بحوالہ الدرار قطنی ، الباب الثالث الفصل الاول دار الکتب العلمیۃ بیروت ص ۹۱)
امام ذہبی فرماتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔
حدیث پنجم : سنن دار قطنی میں حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی اور امیر المومنین علی کرم اللہ تعالی وجہہ مقرب بارگاہ تھے جناب امیر انہیں وہب الخیر فرمایا کرتے تھے،مروی : انہ کان یری ان علیا افضل الامۃ فسمع اقواما یخالفونہ فحزن حزنا شدید افقال لہ علی بعد ان اخذ بیدہ وادخلہ بیتہ ما احزنک یا ابا جحیفۃ فذکرلہ الخیر فقال الا اخبرک بخیر ھذہ الامۃ خیرھا ابوبکر ثم عمر قال ابو جحیفۃ فاعطیت اللہ عھد ا ان لا اکتم ھذا الحدیث بعد ان شافھنی بہ علی مایقیت ۲ یعنی ان کے خیال میں مولی علی کرم اللہ تعالی وجہہ تمام امت سے افضل تھے انہوں نے کچھ لوگوں کو اس کے خلاف کہتے سنا سخت رنج ہوا حضرت مولی ان کا ہاتھ پکڑ کر کا شانہ ولایت میں لے گئے غم کی وجہ پوچھی ، گزارش کی ، فرمایا : کیا میں تمہیں نہ بتادوں کہ امت میں سب سے بہتر کون ہے ابوبکر ہیں پھر عمر ۔ حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں میں نے اللہ عزوجل سے عہد کیا کہ جب تک جیوں گا اس حدیث کو نہ چھپاؤں گا بعد اس کے کہ خود حضرت مولی نے بالمشافہ مجھے ایسا فرمایا۔
(۲ الصواعق المحرقۃ بحوالہ الدرار قطنی ، الباب الثالث الفصل الاول دار الکتب العلمیۃ بیروت ص ۹۲)
حدیث ششم : امام احمد مسند ذی الیدین رضی اللہ تعالی عنہ میں ابن ابی حازم سے راوی : قال جاء رجل الی علی بن الحسین رضی اللہ تعالی عنہما فقال ماکان منزلۃ ابی بکر وعمر من النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال منزلتھما الساعۃ وھما ضجیعاہ ۱ یعنی ایک شخص نے حضر ت امام زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت انور میں حاضر ہوکر عرض کی حضور سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ابو بکر وعمر کا مرتبہ کیا تھا فرمایا جو مرتبہ ان کا اب ہے کہ حضور کے پہلو میں آرام کررہے ہیں ۔
(۱ مسند احمد بن حنبل حدیث ذی الیدین رضی اللہ تعالی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۷۷)
حدیث ہفتم : دار قطنی حضرت امام باقر رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ ارشاد فرماتے ہیں : اجمع بنو فاطمۃ رضی اللہ تعالی عنہم علی ان یقولوا فی الشیخین احسن مایکون من القول۲۔ یعنی اولاد امجاد حضرت بتول زہرا صلی اللہ علیہ وسلم ابیہا الکریم وعلیہا وعلیہم وبارک وسلم کااجماع واتفاق ہے کہ ابو بکر وعمر رضی اللہ تعالی عنہما کے حق میں وہ بات کہیں جو سب سے بہتر ہو (ظاہر ہے کہ سب سے بہتر بات اسی کے حق میں کہی جائے گی جو سب سے بہتر ہو)
(۲الصواعق المحرقۃ بحوالہ الدار قطنی عن محمد الباقر الباب الثانی دار الکتب العلمیہ بیروت ص ۷۸)
حدیث ہشتم : اما م ابن عساکر وغیرہ وسالم بن ابی الجعد سے راوی : قلت لمحمد بن الحنفیۃ ھل کان ابو بکر اول القوم اسلاما؟ قال لا، قلت فبم علا ابو بکر وسبق حتی لایذکر احد غیر ابی بکر قال لا نہ کان افضلہم اسلاما حین اسلم حتی لحق بربہ۳۔ یعنی میں نے امام محمد بن حنفیہ سے عرض کی : کیا ابوبکر سب سے پہلے اسلام لائےتھے ؟ فرمایا: نہ ۔ میں نے کہا : پھر کیا بات ہے کہ ابو بکر سب سے بالا رہے ا ور پیشی لے گئے یہاں تک کہ لوگ ان کے سوا کسی کا ذکر ہی نہیں کرتے ۔ فرمایا : یہ اس لئے کہ وہ اسلام میں سب سے افضل تھے جب سے اسلام لائے یہاں تک کہ اپنے رب عزوجل سے ملے۔
(۳ الصواعق المحرقۃ بحوالہ ابن عساکر عن سالم بن ابی الجعد الباب الثانی دار الکتب العلمیہ بیروت ۸۰)
حدیث نہم : امام ابو الحسن دار قطنی جندب اسد ی سے راوی کہ اما م محمد بن عبداللہ محض ابن حسن مثنی بن حسن مجتبی بن علی مرتضی کرم اللہ تعالی وجوہہم کے پاس کچھ اہل کوفہ وجزیرہ نے حاضر ہوکہ ابو بکر وعمر رضی اللہ تعالی عنہما کے بارے مں سوال کیا امام ممدوح نے میری طرف ملتفت ہوکر فرمایا: انظر واالی اھل بلادک یسالونی عن ابی بکر و عمر لھما عندی افضل من علی۱ اپنے شہر والوں کو دیکھ مجھ سے ابو بکر وعمر کے بارے میں سوال کرتے ہیں وہ دونوں میرے نزدیک بلاشبہ مولا علی سے افضل ہیں رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین ۔
(۱ الصواعق المحرقۃ بحوالہ الدارقطنی عن جندب الاسدی الباب الثانی دار الکتب العلمیۃ بیروت ص۸۳)
یہ امام اجل حضرت امام حسن مجتبی کے پوتے اور حضرت امام حسین شہید کربلا کے نواسے ہیں ان کا لقب مبارک نفس زکیہ ہے ، ان کے والد حضرت عبداللہ محض کہ سب میں پہلے حسنی حسینی دونوں شرف کے جامع ہوئے لہذا محض کہلوائے ، اپنے زمانے میں سرداربنی ہاشم تھے ، ان کے والد ماجد امام حسن مثنی اور والدہ ماجدہ حضر ت فاطمہ صغری بنت امام حسین صلی اللہ علیہ تعالی علی ابیہم وعلیہم وبارک وسلم۔
حدیث دہم: امام حافظ عمر بن شبہ حضرت امام اجل سید زید شہید ابن امام علی سجاد زین العابدین ابن امام حسین شہید صلوات اللہ تعالی وتسلیما تہ علی جد ہم الکریم وعلیہم سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کوفیوں سے فرمایا : انطلقت الخوارج فبرئت ممن دون ابی بکر وعمر ، ولم یستطیعوا ان یقولوا فیھما شیئاً وانطلقتم انتم فظفر تم ای وثبتم فوق ذلک فبرئتم منہما فمن بقی ؟ فواللہ مابقی احد الابرئتم منہ۲ یعنی خارجیوں نے اٹھ کر ان سے تبری کی جوابوبکر و عمر سے کم تھے یعنی عثمان وعلی رضی اللہ تعالی عنہم مگر ابوبکر وعمر کی شان میں کچھ کہنے کی گنجائش نہ پائی اور تم نے اے کوفیو۔ اوپر جست کی کہ ابوبکر وعمر سے تبری کی تواب کو ن رہ گیا خدا کی قسم ۔ اب کوئی نہ رہا جس پر تم نے تبرا نہ کہا ہو۔
والعیاذ باللہ رب العلمین اللہ اکبر (اور اللہ تعالی کی پناہ جو پروردگار ہے تمام جہانوں کا ، اللہ سب سے بڑا ہے ۔(ت)
(۲الصواعق المحرقۃ بحوالہ الحافظ عمر بن شبہ الباب الثانی دار الکتب العلمیۃ بیروت ص۷۹ )
امام زید شہید رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ ارشاد مجید ہم غلامان خاندان زید کو بحمد اللہ کافی و وافی ہے ، سید سادات بلگرام حضرت مرجع الفریقین ، مجمع الطریقین ، حبرشریعت ، بحر طریقت بقیۃ السلف ، حجۃ الخلف سیدنا ومولانا میر عبدالواحد حسینی زیدی واسطی بلگرامی قدس اللہ تعالی سرہ السامی نے کتاب مستطاب سبع سنابل شریف تصنیف فرمائی کہ بارگاہ عالم پناہ حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم میں موقع قبول عظیم پر واقع ہوئی ، حضرت مستفتی دامت برکاتہم کے جد امجدا ور اس فقیر کے آقائے نعمت ومولائے اوحد حضرت اسد الواصلین محبوب العاشقین سیدنا ومولونا حضرت سید شاہ حمزہ حسینی زیدی مار ہروی قد س سرہ القوی کتاب مستطاب کاشف الاستار شریف کی ابتدا میں فرماتے ہیں : باید دانست کہ درخاندان ماحضرت سند المحققین سید عبدالوحد بلگرامی بسیار صاحب کمال بر خاستہ اند قطب فلک ہدایت ومرکز دائرہ ولایت بود در علم صوری ومعنوی فائق واز مشارب اہل تحقیق ذائق صاحب تصنیف وتالیف ست ونسب ایں فقیر بچہار واسطہ بذات مبارکش می پیوند۱ جاننا چاہئےکہ ہمارے خاندان میں حضرت سند المحققین میر سید عبدالواحد بلگرامی بہت صاحب کمال شخصیت ہیں ۔ وہ فلک ہدایت کے قطب ، دائرہ ولایت کے مرکز ، ظاہری وباطنی علم میں فوقیت رکھنے والے ، اصل تحقیق کے گھاٹوں کو چکھنے والے صاحب تصنیف وتالیف ہیں۔ اس فقیر کا نسب چار واسطوں سے آپ تک پہنچتا ہے ۔( ت )
(۱ کاشف الاستارماثر الکرام از میر علی آزاد بلگرامی (لاہور ۱۹۷۱ءص ۲۵)
پھر بعد چند اجزاءکے فرماتے ہیں : شہر تصانیف اوکتاب سنابل ست در سلوک وعقائد حاجی الحرمین سید غلام علی آزاد سلمہ اللہ درماثر الکلام فی نویسد و قتے در شہر رمضان المبارک سنۃ خمس وثلثین ومائۃ و الف مولف اوراق در دار الخلافہ شاہجہاں آباد خدمت شاہ کلیم چشتی قدس سرہ راہ زیارت کرد ذکر میر عبدالواحد قدس سرہ درمیان آمد شیخ مناقب وماثر میر تادیر بیان کرد فرمود شبے درمدینہ منورہ پہلو بر ستر خواب گزا شتم در واقعہ می بینم کہ من وسید صبغۃ اللہ بروجی معا در مجلس اقدس رسالت پناہ صلی اللہ علیہ تعالی علیہ وسلم باریاب شدیم جمعے از صحابہ کرام واولیائے امت حاضر اند درینہا شخصے ست کہ حضرت باولت بہ تبسم شریں کردہ حرفہا میزند والتفات تمام دار ند چوں مجلس آخر شد از سید صبغۃ اللہ استفسار کر دم کہ ایں سید شخص کیست کہ حضرت ، با اوالتفاف بایں مرتبہ دار ند گفت میر عبد الواحد بلگرام ، وباعث مزید احترام اواینست کہ سنابل تصنیف او درجناب رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم مقبول افتادہ انتہی کلامہ انتہی مقالہ الشریف بلفظہ المنیف قدس اللہ تعالی سرہ اللطیف ۱ سلوک وعقائد میں آپ کی مشہور نصنیف کتاب سنابل ہے ۔ حاجی حرمین سید غلام علی آزاد ، اللہ انہیں سلامت رکھے ، ماثرالکلام میں لکھتے ہیں جس وقت ۱۱۳۵ھ میں رمضان المبارک میں مؤلف اوراق نے دار الخلافہ شاہجہاں آباد میں شاہ کلیم اللہ چشتی قدس سرہ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر آپ کی زیارت کی ، میر عبدالواحد کا ذکر درمیان کلام میں آگیا ۔حضرت شیخ نے کافی دیر تک میر صاحب کے فضائل ومناقب بیان کئے اور فرمایا کہ ایک رات میں مدینہ منورہ میں اپنے بستر پر لیٹا تو خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں اور سید صبغت اللہ بروجی اکٹھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس اقدس میں حاضر ہیں ، صحابہ کرام اور اولیاء امت کی ایک جماعت بھی حاضر ہے ، آپ کی مجلس اقدس میں ایک شخص موجود ہے اور آپ اس کی طرف نظر کرم کرتے ہوئے مسکرارہے ہیں اور اس سے باتیں کررہے ہیں اور اس کی طرف بھر پور توجہ فرمارہے ۔جب مجلس ختم ہوئی تو میں نے سید صبغت اللہ سے پوچھا یہ شخص کون ہے جس کی طرف حضور علیہ الصلوۃ والسلام اس قدر توجہ فرماتے ہیں ۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ میر عبدالواحد بلگرامی ہیں اور ان کے اس قدر احترام کی وجہ یہ ہے کہ کتاب سنابل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں مقبول ہوئی ہے۔ ان کا کلام ختم ہوا ۔ مقالہ شریف ان ہی کے بلند پایہ لفظوں میں ختم ہوا ۔ اللہ تعالی ان کے سر لطیف کو مقدس بنائے ۔(ت)
(۱ کاشف الاستار ص۴۱ ب اصح التواریخ از مولانا محمد میاں قادری مار ہروی خانقاہ بر کاتیہ مارہرہ ۱۳۴۷ء ۱ /۱۶۸ )
(ماثر الکلام از میر غلام علی آزاد بلگرامی لاہور ۱۹۷۱ءص ۲۹)