کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ جس کے پاس مال حرام ہو تو کیا اس پر بھی حج فرض ہوگا اور اگر حج فرض ہوگیا تھا اور مال حرام سے حج کیا تو کیا فرض ادا ہو جائے گا؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب
اللہ عزوجل کے حضور حلال مال ہی مقبول ہے ،حرام مال تو ویسے ہی وبال ہے۔ لہذا حرام مال سے حج قبول نہیں۔ حج اس پر ہی فرض ہوتا ہے کہ جو زاد راہ اور سواری پر قادر ہو البتہ اگر کسی کے پاس مال حلال کبھی اتنا تھا ہی نہیں کہ جس سے حج ہوسکے تو اس پر حج فرض ہوا ہی نہیں اور مال حلال اگر اس قدر موجود ہے کہ جس سے حج فرض ہوگیا تو اب اس کی ادائیگی میں مال حرام صرف کرنا حرام ہے اور وہ حج مردود ہونے کے سبب اس کو ثواب نہیں ملے گا البتہ فرض ساقط ہو جائے گا اور فرض ترک کرنے کا گناہ نہیں ملے گا۔
جامع ترمذی میں ہے
” لا یقبل اللہ الا الطیب “
ترجمہ:اللہ عز وجل صرف پاکیزہ چیز ہی قبول فرماتا ہے ۔( جامع الترمذی ، ابواب الزکوٰۃ ، باب ماجاء فی فضل الصدقۃ ، جلد 1 ، صفحہ 260 ، مطبوعہ لاھور )
صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے:
” قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: أيها الناس! إن اللہ طيب لا يقبل إلا طيبا “
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اے لوگو!بیشک اللہ تعالی پاک ہے اور صرف پاک چیزوں کو ہی قبول کرتا ہے۔ (الصحیح لمسلم،کتاب الزکوۃ ،ج02،ص703،مطبوعہ دار احیاء التراث العربی،بیروت)
ارشادالساری لعلی قاری میں ہے :
’’ جومالِ حرام لے کرحج کوجاتاہے، جب لبیک کہتاہے، توفرشتہ جواب دیتاہے:
”لالبیک ولاسعدیک وحجک مردودعلیک حتی تردمافی یدیک“
ترجمہ:نہ تیری حاضری قبول ،نہ تیری خدمت قبول اورتیراحج تیرے منہ پرمردود،جب تک تویہ حرام مال جوتیرے ہاتھوں میں ہے،واپس نہ دے۔ (ارشادالساری لعلی قاری،باب المترقات،ص323،مطبوعہ دار الکتاب العربی ،بیروت)
الترغیب و الترہیب میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث شریف مروی ہے :
” قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم :”اذا خرج بالنفقۃ الخبیثۃ فوضع رجلہ فی الغرز فنادیٰ : لبیک ، ناداہ منادٍ من السماء لا لبیک و لا سعدیک زادُک حرام و نفقتک حرام و حجک مأزور غیر مبرور “
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :بندہ جب حرام مال کے ساتھ حج کرنے کے لیے نکلتا ہے اور رکاب میں پاؤں رکھتا ہے ، تو پکارتا ہے:” لبیک ( یعنی یا اللہ عز وجل میں حاضر ہوں )“ تو آسمان سے ندا آتی ہے:”لا لبیک و لا سعدیک ( یعنی نہ تیری حاضری قبول ہے نہ تیری خدمت ۔ ) “ تیرا زادِ راہ اور تیرا نفقہ حرام ہے اور تیرا حج لوٹایا ہوا اور نامقبول ہے ۔( الترغیب و الترھیب ،الترغیب فی النفقۃ فی الحج و العمرۃ ، جلد 2 ، صفحہ 113 ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت )
ہدایہ میں ہے:
” الحج واجب علی الاحرار البالغین العقلاء الاصحاء اذا قدروا علی الزاد و الراحلۃ “
ترجمہ:آزاد ، بالغ ، عاقل ، تندرست لو گ جب زادِ راہ اور سواری پر قادر ہوں ، تو ان پر حج فرض ہے ۔(الھدایۃ ، کتاب الحج ، جلد 1 ، صفحہ 145 ، مطوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت )
در مختار میں ہے
” و قد یتصف بالحرمۃ کالحج بمال حرام “
ترجمہ: اور حج کرنا کبھی حرام ہوتا ہے جیسا کہ مالِ حرام سے حج کرنا ۔( رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الحج ، مطلب فیمن حج بمال حرام ، جلد 3 ، صفحہ 519 ، مطبوعہ کوئٹہ )
رد المحتار میں ہے
” ان الحج نفسہ الذی ھو زیارۃ مکان مخصوص الخ لیس حراما بل الحرام ھو انفاق المال الحرام قال فی البحر و یجتھد فی تحصیل نفقۃ حلال فانہ لا یقبل بالنفقۃ الحرام کما ورد فی الحدیث مع انہ یسقط الفرض عنہ معھا ولاتنافی بین سقوطہ وعدم قبولہ،فلایثاب لعدم القبول،ولایعاقب عقاب تارک الحج‘‘
ترجمہ:حج جومخصوص جگہوں کی زیارت کا نام ہے ، وہ حرام مال سے نہیں ہے ، بلکہ مالِ حرام خرچ کرنا حرام ہے بحر میں کہا ہے:حلال نفقہ حاصل کرنے کی کوشش کرے ، کیونکہ حرام نفقہ کے ساتھ حج قبول نہیں ہوتا جیسا کہ حدیث شریف میں ہے۔ اگرچہ حرام نفقہ کے ساتھ بندے سے فرض ساقط ہوجاتا ہے ۔ حج کے قبول نہ ہونے میں کوئی منافات نہیں ہے، حج کے مردود ہونے کی وجہ سے ثواب نہیں ملے گااورفرض حج ترک کرنے کاگناہ نہیں ملے گا۔ ( رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الحج ، مطلب فیمن حج بمال حرام ، جلد 3 ، صفحہ 519 ، مطبوعہ کوئٹہ )
فتح القدیر میں ہے
’’لایقبل الحج بالنفقۃ الحرام مع انہ یسقط الفرض معھا‘‘
ترجمہ:مال حرام سے کیاگیاحج قبول نہیں کیاجائے گا،باوجودیہ کہ ذمہ سے فرض ساقط ہوجائے گا۔ (فتح القدیر،کتاب الحج،جلد 05،صفحہ 01،مطبوعہ بیروت،لبنان)
فتویٰ رضویہ میں ہے :
” اگر اس کے پاس مالِ حلال کبھی اتنا نہ ہوا ، جس سے حج کر سکے اگرچہ رشوت کے ہزارہا روپے ہوئے ، تو اس پر حج فرض ہی نہ ہوا کہ مالِ رشوت مالِ مغصوب ہے ، وہ اس کا مالک ہی نہیں اور اگر مالِ حلال اس قدر اس کے پاس ہے یا کسی موسم میں ہوا تھا ، تو اس پر حج فرض ہے ، مگر رشوت وغیرہ حرام مال کا اس میں صرف کرنا حرام ہے اور وہ حج قابلِ قبول نہ ہوگا اگرچہ فرض ساقط ہوجائے گا ۔“( فتاویٰ رضویہ ، جلد 10 ، صفحہ 708 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )
فتاویٰ رضویہ میں ہے :
’’سودکے روپیہ سے جوکارِ نیک کیاجائے اس میں استحقاق ثواب نہیں…..اس روپے کواس صَرف میں اٹھانا،جائزنہیں، ہاں فرض ِ حج ذمہ سے اداہوجائے گا’’فان القبول شئی آخر غیرسقوط الفرض وکان کمن صلی فی ارض مغصوبۃ‘‘ترجمہ:کیونکہ کسی شے کاقبول ہونااورفرض ساقط ہوجانادونوں ایک نہیں ،بلکہ الگ الگ چیزیں ہیں یعنی قبولیت شے اورچیزہے اورسقوطِ فرض اورچیز،جیساکہ کوئی شخص ناجائزمقبوضہ زمین پرنماز پڑھے ،تواگرچہ فرض ساقط ہوجائے گا،مگرنماز مقبول نہ ہوگی۔‘‘ (فتاوی رضویہ،ج23، ص542،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن ،لاھور)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
ممبر فقہ کورس (الرضا قرآن وفقہ اکیڈمی)
23ذی القعدہ 1445ھ 31 مئی 2024ء
نظر ثانی :
مفتی محمد انس رضا قادری
─── ◈☆◈ ───