تقدیر پر ایمان(مشکوۃ)

حدیث نمبر 95

وَعَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ: سُئِلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَنْ هَذِهٖ الآيَةِ: وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ اَلْآيَةْ ، قَالَ عُمَرُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلّٰى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْأَلُ عَنْهَا فَقَالَ: “إِنَّ الله خَلَقَ آدَمَ، ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ بِيَمِينِهِ، فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً، فَقَالَ: خَلَقْتُ هَؤُلَاءِ لِلْجَنَّةِ، وَبِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَعْمَلُونَ، ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ، فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً، فَقَالَ: خَلَقْتُ هَؤُلَاءِ لِلنَّارِ وَبِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ يَعْمَلُونَ”، فقَالَ رَجُلٌ فَفِيمَ الْعَمَلُ يَا رَسُولَ الله؟ فَقَالَ رَسُولُ الله صَلّٰى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : “إِنَّ الله إِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلْجَنَّةِ، اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلٍ مِنْ أَعْمَالِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَيُدْخِلُهُ بِهِ الْجَنَّةَ، وَإِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلنَّارِ، اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلٍ مِنْ أَعْمَالِ أَهْلِ النَّارِ فَيُدْخِلُهُ بِهِ النَّارَ”. رَوَاهُ مَالِكٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ
ترجمه حديث.
روایت ہے مسلم ابن یسار سے ۱؎ فرماتے ہیں کہ عمر ابن الخطاب سے آیت کے متعلق پوچھا گیا جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پیٹھوں سے ان کی ذریت نکالی۲؎الایۃ،حضرت عمر نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ سے یہ ہی سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ الله نے حضرت آدم کو پیدا فرمایا پھر ان کی پیٹھ کواپنے ہاتھ سے ملا ۳؎ تو اس سے ان کی اولادنکلی۴؎ تو فرمایا کہ انہیں میں نے جنت کی لیئے بنایا یہ جنتیوں کے کام کریں گے۵؎ پھر ان کی پشت ملی تو اس سے اولادنکلی۶؎ تو فرمایا انہیں میں نے آگ کے لیئے بنایا یہ لو گ دوزخیوں کے کام کریں گے ۷؎ ایک شخص بولا پھر عمل کا ہے میں رہا یارسول الله ۸؎ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یقینًا الله جس بندے کو جنت کے لیئے پیدا فرماتا ہے تو اس سے جنتیوں کے کام لیتا ہے یہاں تک کہ وہ جنتیوں کے اعمال میں سے کسی عمل پر مرتا ہے اس بنا پر اسے داخل فرماتا ہے جنت میں ۹؎ اور جب بندے کو دوزخ کے لیئے پیدا فرماتا ہے تو اس سے دوزخیوں کے کام لیتا ہے۱۰؎ تاآنکہ وہ دوزخیوں کے کاموں میں سے کسی کام پرمرتا ہے جس کی وجہ سے اسے دوزخ میں داخل فرماتا ہے ۱۱؎ (مالک ترمذی،ابوداؤد)
شرح حديث.
۱؎ آپ جُہَنِّی ہیں،جلیل القدر تابعی ہیں،اولیائے کاملین میں سے ہیں، ۱۰۰ھ میں آپ کا انتقال ہوا،حضرت عمر فاروق سے آپ کی ملاقات نہیں ہوئی،آپ تک یہ حدیث پہنچی ہے۔
۲؎ کہ اس کا مطلب کیا ہے اور اس نکالنے کی نوعیت کیا تھی۔
۳؎ یہ عبارت متشابہات میں سے ہے یعنی ان کی پشت مبارک پر توجہ قدرت فرمائی ورنہ رب ہاتھ کے ظاہری معنے اور داہنے بائیں سے پاک ہے،نطفہ مرد کی پیٹھ میں رہتا ہے،اس لیے توجہ پشت پر فرمائی گئی۔
۴؎ اس طرح کہ ہر رونگٹے کی جڑ سے پسینہ کے قطروں کی طرح ظاہر ہوئی،یہ واقعہ آدم علیہ السلام کے جنت میں جانے سے پہلے نعمان پہاڑ پر قریب عرفات شریف یا مکہ معظمہ اور طائف کے درمیان ہوا،بعض نے فرمایا کہ جنت سے تشریف لانے کے بعد ہوا اور یہ روحیں سفید رنگ کی تھیں۔
۵؎ یعنی اپنی خوشی وارادے سے نیکیاں کریں گے،ایمان پر مریں گے،جنت میں جائیں گے۔لہذا وہ لوگ ان اعمال میں مجبور نہیں۔خیال رہے کہ یہاں جنت کسبی مراد ہے،وہبی،عطائی طور پر بغیر اعمال بھی جنت ملے گی،جیسے مسلمانوں کے چھوٹے بچے یا مرتے وقت ایمان قبول کرنے والا۔
۶؎ سیاہ رنگ والی یہ کفار کی روحیں تھیں۔
۷؎ اس طرح کہ کفر پر مریں گے زندگی خواہ کفر پر گزری ہو یا ایمان پر۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آدم علیہ السلام کو اور حاضرین فرشتوں کو تمام جنتی اور دوزخی دکھائے گئے،بتادیئے گئے،انہی کو بتانے کے لیے یہ واقعہ کیا گیا ہمارے حضور کا علم آدم علیہ السلام سے کہیں زیادہ ہے لہذا حضور بھی ہر ایک کا انجام اور سعادت شقاوت جانتے ہیں،علوم خمسہ رب نے آپ کو بخشے۔یہ بھی معلوم ہوا کہ آدم علیہ السلام کی پشت میں اپنی تمام اولاد کی روحیں اور ان کے اجزاءاصلیہ موجود تھے۔بعض روایات میں ہے کہ مؤمنوں کی روحیں سفید تھیں انبیاء کی روحیں نہایت چمکدار۔
۸؎ کیونکہ اگر ہم جنتیوں میں سے ہیں تو کچھ بھی کریں جنت ہی پائیں گے،جنتی دوزخی ہونا جبری چیزہوئی ناکہ اختیاری۔
۹؎ یہ قاعدہ اکثریہ ہے کلیہ نہیں۔پہلے گزر چکا کہ بعض لوگ عمر بھر دوزخیوں کے کام کرتے ہیں،مرتے وقت نیک اعمال کرکے مرتے ہیں۔
۱۰؎ کام لینے کے معنی یہ ہیں کہ بندے کے دل کا رجحان برائیوں کی طرف ہوتا ہے جس سے وہ اپنی خوشی اور اختیار سے بدکاریاں کرتا ہے لہذا بندہ خلق میں مجبور ہے کسب میں مختار اورمستحق عذاب نار۔
۱۱؎ لہذا ہمیشہ نیکیاں کرنے کی کوشش کرو۔
مأخذ.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:95