تقدیر پر ایمان(مشکوۃ)

حدیث نمبر 94

وَعَنْ عُبَادَةِ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صَلّٰى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ الْقَلَمَ فَقَالَ لَهٗ اُكْتُبْ فَقَالَ مَا أَكْتُبُ قَالَ اُكْتُبِ الْقَدَرَ فَكَتَبَ مَا كَانَ وَمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى الْأَبَدِ».رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِسْنَادًا
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت عبادہ ابن صامت سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے رب نے جو چیز پہلے پیدا کی وہ قلم تھا ۱؎ پھر فرمایا اس کو لکھ بولا کیا لکھوں ۲؎ فرمایا تقدیر لکھ تب اس نے جو کچھ ہوچکا اور جو ہمیشہ تک ہوگا لکھ دیا ۳؎ (ترمذی)ترمذی نے فرمایا یہ حدیث مسندًا غریب ہے۔
شرح حديث.
۱؎ یہ اولیّت اضافی ہے یعنی عرش،پانی ہوا اور لوح محفوظ کی پیدائش کے بعد جو چیز سب سے پہلے پیدا ہوئی وہ قلم ہے۔مرقاۃ میں اس جگہ ہے کہ سب سے پہلے نور محمدی پیدا ہوا،وہاں اولیّت حقیقیہ مراد ہے،بعض لوگ کہتے ہیں کہ حقیقت محمدیہ ہی قلم ہے اس صور ت میں یہاں اولیت حقیقی ہے۔
۲؎ اس عبارت میں کسی تاویل کی ضرورت نہیں،ہر چیز میں رب سے عرض معروض کرنے کی طاقت ہے قرآن کریم فرماتا ہے:”اِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ”حضور کے فراق میں لکڑیاں روئی ہیں اور آپ سے لکڑی اور پتھروں نے گفتگو کی ہے۔
۳؎ ہوچکا فرمانا اپنے زمانۂ پاک کے لحاظ سے ہے،تحریر کے وقت کوئی نہ ہوچکا تھا،ہر چیزمستقبل تھی۔ہمیشہ سے مراد قیامت تک کے واقعات ہیں جو متناہی ہیں مابعد قیامت غیر متناہی،جیسا کہ عبد الله ابن عباس کی روایت میں ہے یہ تحریر لوح محفوظ پر”ن”دوات سے ہوئی،اس قلم دوات کی حقیقت رب العزت ہی جانتا ہے،یہ لکھنا رب کے اپنے یاد رکھنے کے لیے نہ تھا،بلکہ ان مقبولوں کو بتانے کے لیے تھا جن کی نگاہ لوح محفوظ پر ہے۔جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں اس سے اولیاء اورانبیاء کا علم غیب ثابت ہوتا ہے۔
مأخذ.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:94