وَعَنْ أَبِيْ مُوْسٰى قَالَ قَامَ فِيْنَا رَسُوْلُ اللهِ صَلّٰى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَمْسِ كَلِمَاتٍ فَقَالَ: «إِنَّ اللهَ لَا يَنَامُ وَلَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَنَامَ يَخْفِضُ الْقِسْطَ وَيَرْفَعُهُ يُرْفَعُ إِلَيْهِ عَمَلُ اللَّيْلِ قَبْلَ عَمَلِ النَّهَارِ وَعَمَلُ النَّهَارِ قَبْلَ عَمَلِ اللَّيْلِ حِجَابُهٗ النُّوْرُ لَوْ کَشَفَہٗ لَأَحْرَقَتْ سَبْحَاتَ وَجْهِهٖ مَاانْتَهٰي إِلِيْهِ بَصَرُهٗ مِنْ خَلْقِهٖ » .رَوَاهُ مُسْلِمٌ
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت ابو موسیٰ سے فرماتے ہیں کہ ہم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ چیزیں بتانے کو قیام فرمایا ۱؎ کہ یقینًا الله تعالٰی نہ سوتا ہے نہ سونا اس کے لائق ہے ۲؎ پلہ یا رزق جھکاتا یا اٹھاتاہے ۳؎ اس کی بارگاہ میں رات کے اعمال دن کے اعمال سے پہلے اور دن کے اعمال رات کے اعمال سے پہلے پیش ہوجاتے ہیں ۴؎ اس کا پردہ نور ہے ۵؎ اگر پردہ کھول دے تو اس کی ذات کی شعاعیں(تجلیات) تاحدِ نظر مخلوق کو جلادیں۶؎(مسلم)
شرح حديث.
۱؎ یعنی آپ وعظ کے لیے کھڑے ہوئے اور وعظ میں یہ پانچ چیزیں بیان فرمائیں۔وعظ اور خطبہ کھڑے ہو کر کہنا سنت ہے۔خطبہ خواہ جمعہ کا ہو یا نکاح کا یا کوئی اور۔(کتب فقہ)
۲؎ کیونکہ نیند ایک قسم کی موت ہے اسی لیے جنت دوزخ میں نیند نہ ہوگی رب تعالٰی موت سے پاک ہے،نیز نیندتھکن اتارنے اور آرام کے لئے ہوتی ہے۔پروردگار تھکن سے پاک ہے ارشاد فرماتا ہے:”وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُغُوبٍ “اس میں ان مشرکین کا رد ہے جو کہتے تھے کہ الله تعالٰی دنیا بنا کر تھک گیا اب دنیا کا کام ہمارے بُت چلا رہے ہیں۔معاذ الله ! ۳؎ قسط کے لغوی معنے ہیں حصہ۔اب رزق کو بھی قسط کہتے ہیں اور ترازو کے پلے کو بھی،کیونکہ رزق حصے سے ملتا ہے اور ترازو بھی حصے کرتی ہے،رب تعالٰی فرماتا ہے:”وَزِنُوۡا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیۡمِ“یعنی کسی کو زیادہ روزی دیتا ہے اورکسی کو کم یا ایک ہی شخص کبھی غریب ہوتا ہے کبھی امیر،کبھی مؤمن،کبھی کافر،کبھی متقی،کبھی فاجر ایسے ہی ایک قوم کبھی غالب کبھی مغلوب۔
۴؎ کہ اعمال لکھنے والے فرشتے دنیا بھر کے اعمال دو وقتہ پیش کرتے رہتے ہیں۔یہ پیشی رب تعالٰی کی بے علمی کی وجہ سے نہیں جیسے حضور پر امت کے درود فرشتے پیش کرتے ہیں اس لیئے نہیں کہ حضور بے خبر ہیں۔
۵؎ یعنی الله تعالٰی نور ہے مخلوق کثیف،اس لیے مخلوق اسے نہیں دیکھ سکتی۔مرقاۃ میں ہے کہ ہمارے حضور نے اپنے رب کو دنیا میں اس لیئے دیکھ لیا کہ حضور خود نور ہوگئے تھے نیز حضور نے دعا مانگی تھی۔”وَاجْعَلنِی نُورًا“خدایا مجھے نور بنادے حضور کی دعا قبول ہوئی اور آپ نور ہوگئے۔
۶؎ فرشتوں کو بھی اور دیگر مخلوقات کو بھی نہیں یہ طاقت تو ہمارے حضور کی تھی کہ معراج میں عین ذات کو بغیرحجاب دیکھا اورپلک بھی نہ جھپکایارب تعالٰی فرماتاہے:”مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی“۔
مأخذ.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:91
حدیث نمبر 91
29
Apr