وَعَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ -صَلّٰى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: “مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ كَمَا تُنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ، هَلْ تُحِسُّونَ فِيهَا مِنْ جَدْعَاءَ؟ ثُمَّ يَقُوْلُ: فِطْرَتَ اللهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ ذٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ” مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ہر بچہ دین فطرت پر ہی پیدا ہوتا ہے ۱؎ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی عیسائی یا مجوسی بنادیتے ہیں ۲؎ جیسے جانور بے عیب بچہ جنتا ہے کیا تم اس میں کوئی ناک کان کٹا پاتے ہو۳؎ پھر فرماتے تھے کہ الله کی پیدائش ہے جس پر لوگوں کو پیدا فرمایا اللہ کی خلق میں تبدیلی نہیں ۴؎ یہ ہی سیدھا دین ہے۔(مسلم وبخاری)
شرح حديث.
۱؎ بچے سے مراد انسان کا بچہ ہے جیسا کہ اگلے مضمون سے ظاہر ہے،فطرت کے لفظی معنی ہیں چیرنا اور ایجادکرنا،یہاں اصلی اور پیدائشی حالت مراد ہے یعنی ہر انسان ایمان پر پیدا ہوتا ہے،عالم ارواح میں رب تعالٰی نے تمام روحوں سے اپنی ربوبیت کا اقرارکرایا سب نے بَلٰی کہہ کر اقرار کیا اس اقرار پر قائم رہتے ہوئے دنیا میں آئے یہ اقرار و ایمان سب کا فطری اور پیدائشی دین ہے۔
۲؎ یعنی بچہ ہوش سنبھالنے تک دین فطرت،توحیدوایمان پر قائم رہتا ہے ہوش سنبھالنے پر جیسا اپنے ماں باپ اور ساتھیوں کو دیکھتا ہے ویسا ہی بن جاتا ہے،ماں باپ بچے کے پہلے استاد ہیں،ان کی صحبت بچے کی طبیعت کے لیے سانچہ ہے۔اسی لیے ضروری ہے کہ اپنی لڑکیوں کے لیے اچھے خاوند اور لڑکوں کے لئے دیندار نیک بیویاں تلاش کرو تاکہ بچے نیک ہوں،اس لیے ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ظاہر ہوئی کہ حضور بت پرستوں اور بے علموں میں رہے مگر انہیں سنبھالاخود نہ بگڑے،معلوم ہوا کہ طبیعت محمدیہ ڈھلی ڈھلائی پیدا ہوئی تھی۔خیال رہے کہ یہاں یہودیت اور نصرانیت سے مراد یہ بگڑے ہوئے دین ہیں نہ کہ اصلی،وہ تو اپنے وقت میں عین ہدایت تھے۔
۳؎ روحانیت کو جسمانیت سےتشبیہ دےکرسمجھایا گیاہے کہ جیسے عام طور پرجانوروں کے بچےصحیح الاعضاء پیدا ہوتے ہیں پھر جسمانی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں،ایسے انسانی ارواح کا حال ہے۔
۴؎ یعنی قانون یہ ہے کہ ہر انسان ایمان اورعقیدۂ توحید پر پیدا ہو،یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ کوئی بچہ میثاق کے اقرارکو توڑ کر کافر ہو کر پیدا ہو لہذا آیت پر کوئی اعتراض نہیں۔خیال رہے کہ وہ میثاقی ایمان شرعًا معتبر نہیں۔اسی لیے کافر کا بچہ کافر مانا جاتا ہے کہ نہ اس کی نماز جنازہ ہو نہ اسلامی کفن و دفن اور نہ اسے بعد میں مرتد کہا جائے جس بچہ کو خضرعلیہ السلام نے قتل کیا اور فرمایا”اِنَّہ طُبعَ کَافِرًا“وہاں مراد ہے”قُدِّرَوَجُبِلَ”یعنی ہوش سنبھال کر کافر ہونا اس کے مقدر میں آچکا ہے۔لہذا یہ حدیث اس آیت کے خلاف نہیں اور نہ آیات میں تعارض ہے۔
مأخذ.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:90
حدیث نمبر 90
29
Apr