وَعَنْ عِمْرَانَ ابْنِ حُصُيْنٍ: إِنَّ رَجُلَيْنِ مِنْ مُزَيْنَةَ قَالَا: يَا رَسُولَ اللهِ! أَرَأَيْتَ مَا يَعْمَلُ النَّاسُ الْيَوْمَ وَيَكْدَحُونَ فِيهِ؟ أَشَيْءٌ قُضِيَ عَلَيْهِمْ وَمَضٰى فِيهِمْ مِنْ قَدَرٍ سَبَقَ، أَوْ فِيمَا يَسْتَقْبِلُوْنَ بِهٖ مِمَّا أَتَاهُمْ بِهٖ نَبِيُّهُمْ وَثَبَتَتِ الْحُجَّةُ عَلَيْهِمْ فَقَالَ: لَا، بَلْ شَيْءٌ قُضِيَ عَلَيْهِمْ وَمَضٰى فِيهِمْ، وَتَصْدِيقُ ذٰلِكَ فِيْ كِتَابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا .رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت عمر ان ابن حصین سے ۱؎ کہ مزینہ کے دوشخصوں نے عرض کیا کہ یارسول الله فرمایئے تو کہ جو کچھ لوگ آج عمل کررہے ہیں اور جن میں مشغول ہیں کیا یہ ایسی چیز ہے جس کا ان پر فیصلہ ہوچکا ہے اور جس چیز کی تقدیر ان میں گزر چکی ہے یا اس میں ہے جسے آیندہ کریں گے جو ان کے پاس پیغمبر لائے جو دلیل ان پر قائم ہوچکی ۲؎ حضور نے فرمایا نہیں بلکہ عمل وہ چیز ہے جس کا ان پر فیصلہ ہوچکا اور تقدیر گزر چکی ۳؎ اس کی تائید الله کی کتاب میں بھی موجود ہے۔قسم جان کی اور اس کے درست فرمانے کی اور اس کی کہ اس کے دل میں ڈال دی بدکاری و پرہیزگاری ۴؎(مسلم)
شرح حديث.
۱؎ آپ کی کنیت ابونجید ہے،خزاعی ہیں،کعبی ہیں،خیبر کے سال حضرت ابوہریرہ کے ساتھ ایمان لائے،بصرہ میں قیام رہا، ۵۲ ھ میں وہیں انتقال ہوا،جلیل القدرصحابی ہیں،آپ ۳۰ سال بیمار رہے،اس زمانے میں آپ کو فرشتے سلام کرنے آتے تھے۔(مرقات واشعہ)
۲؎ خلاصۂ سوال یہ ہے کہ آیا تحریر پہلے ہے اورتقصیر بعد میں یا اس کا عکس کہ پہلے ہم خود کام کرلیتے ہیں پھر آیندہ لکھا جاتا ہے،تحریر سے مراد تحریر تقدیر ہے نہ کہ نامۂ اعمال کی تحریر،کہ یہ لکھائی تو یقینًا عمل کرلینے کے بعد ہی ہوتی ہے۔خیال رہے کہ قدریہ کاعقیدہ یہ ہے کہ قضاوقدر کچھ چیزنہیں،نہ پہلے کچھ لکھا گیا ہے۔ہم مستقلًا قادرمطلق ہوکر اعمال کرتے ہیں پھر ان کی تحریر ہوتی ہے یہ سخت بے دینی ہے۔
۳؎ یعنی ہمارے اعمال اس تحریروتقدیر کے بعداس کے مطابق ہیں اس کا عکس نہیں یہی مذہب اہلسنت ہے۔
۴؎ وجہ استدلال یہ ہے کہ یہاں”اَلھَمَ“ماضی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ الہام عملی سے کہیں پہلے ہوچکا ہے۔
مأخذ.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:87
حدیث نمبر 87
29
Apr