وعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: «دُعِيَ رَسُولُ اللهِ صَلّٰى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلٰى جِنَازَةِ صَبِيٍّ مِنَ الْأَنْصَارِ فَقُلْتُ يَا رَسُوْلَ اللهِ طُوْبىٰ لِهٰذَا عُصْفُوْرٌ مِنْ عَصَافِيْرِ الْجَنَّةِ لَمْ يَعْمَلِ السُّوْءَ وَلَمْ يُدْرِكْهُ فقَالَ أَوَ غَيْرُ ذٰلِكَ يَا عَائِشَةُ إِنَّ اللهَ خَلَقَ لِلْجَنَّةِ أَهْلًا خَلَقَهُمْ لَهَا وَهُمْ فِي أَصْلَابِ آبَائِهِمْ وَخَلَقَ لِلنَّارِ أَهْلًا خَلَقَهُمْ لَهَا وَهُمْ فِيْ أَصْلَابِ آبَائِهِمْ».رَوَاهُ مُسْلِمٌ
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے ۱؎ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک انصاری بچہ کے جنازے کی دعوت دی گئی میں نے عرض کیا اسے خوشخبری ہوکہ وہ جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیاہے۲؎ جس نے نہ تو گناہ کیا نہ گناہ کا وقت پایا فرمایا اے عائشہ اس کے سوابھی ہوسکتا ہے۳؎ الله نے کچھ جنت والے پیدا کیئے ہیں جنہیں ان کے باپ کی پیٹھوں میں جنت کے لیئے بنایاکچھ آگ والے پیدا کیئے جنہیں ان کے باپ کی پیٹھوں میں دوزخ کے لیئے بنایا۴؎ (مسلم)
شرح حديث.
۱؎ اُمُّ المؤمنینہیں،ابوبکر صدیق کی صاحبزادی،آپ کی والدہ امّ رومان بنت عامر ابن عویمر ہیں،نبوّت کے دسویں سال شوال کے مہینہ میں ہجرت سے تین سال قبل حضور کی زوجیت میں آئیں،سات برس کی عمر میں ہجرت سے ۱۸ ماہ کے بعد شوال کے مہینہ میں نو سال کی عمر میں رخصت ہوئیں،نو سال تک حضور کے ساتھ رہیں،حضور کی وفات کے وقت آپ کی عمر شریف اٹھارہ سال کی تھی۔حضور نے آپ کے سوا کسی کنواری بیوی سے نکاح نہیں فرمایا،آپ فقیہہ،فصیحہ،حدیث کی حافظہ،قرآن کی بہترین مفسّرہ تھیں۔حضور نے آپ کے سینہ پر وفات پائی اور آپ کے حجرہ میں دفن ہوئے،جب آپ کو تہمت لگائی گئی تو آپ کی بریّت میں ۱۹ آیات اُتریں شعریعنی:
ہے سورۂ نور جن کی گواہ اُن کی پُر نور صورت پہ لاکھوں سلام
آپ سے ۱۲۱۰ احادیث مروی ہیں،آپ نے ۱۷ رمضان منگل کی شب ۵۷ہجری میں ۵۳ سال کی عمر پاکر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانۂ امارت میں وفات پائی۔حضرت ابوہریرہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی،جنت البقیع میں دفن ہیں۔فقیر نے قبر انور کی زیارت کی ہے۔
۲؎ کہ جہاں چاہے وہاں کے باغات میں سیرکرے شہداء کی طرح۔
۳؎ یعنی اس کے جنتی ہونے کا یقین نہیں ہوسکتا ہے کہ یہ کسی اور چیز کے لیئے پیدا کیا گیا ہو۔خیال رہے کہ یہ حدیث اس آیت سے منسوخ ہے۔”واَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ“الایہ۔مسلمانوں کے بچے اپنے ماں باپ کے ساتھ ہی رہیں گے کفار کے بچوں میں اختلاف ہے اس کی تحقیق کے لیئے ہمارا حاشیۃُ القرآن دیکھو۔
۴؎ یعنی جو جہاں کے لیئے بنایا گیا ہے وہیں پہنچے گا عمل کرے یا نہ کرے اس کے متعلق ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ بغیر عمل جنت عطائی یا وہبی طریقہ سے بھی مل جائے گی مگر اللہ (تعالٰی) کے فضل و کرم سے یہ بعید ہے کہ بغیرگناہ کسی کو جہنم میں بھیجے۔فرماتا ہے:”وَمَا تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا کُنۡتُمْ تَعْمَلُوۡنَ” ابن حجر فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کے بچوں کے جنّتی ہونے پر اجماع ہے اور کفّار کے بچوں کا جنّتی ہونا قول جمہور ہے۔اور یہ حدیث منسوخ ہے۔
مأخذ.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:84
حدیث نمبر 84
29
Apr