ایمان و کفر کا بیان, باب الایمان(مشکوۃ)

حدیث نمبر 8

وَعَنْہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيْهِ وَجَدَ بِهِنَّ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ: مَنْ كَانَ اللّٰهُ وَرَسُولُهٗ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا وَمَنْ أَحَبَّ عَبْدًا لَا يُحِبُّهٗ إِلَّا لِلّٰهِ وَمَنْ يَكْرَهُ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ بَعْدَ أَنْ أَنْقَذَهُ اللّٰهُ مِنْهُ كَمَا يُكْرَهُ أَنْ يُلْقٰى فِي النَّارِ (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ)

روایت ہے اُنہی سے فرماتے ہیں فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جس میں تین خصلتیں ہوں وہ ایمان کی لذت پالے گا ۱؎ الله و رسول تمام ماسواءسےزیادہ پیارے ہوں۲؎ جوبندےسےصرف الله کے لیے محبت کرے۳؎ جو کفر میں لوٹ جانا جب کہ رب نے اس سے بچالیا ایسا بُرا جانے جیسے آگ میں ڈالا جانا۴؎

شرح حدیث

۱؎ جیسےجسمانی غذاؤں میں مختلف لذتیں ہیں،ایسے ہی روحانی عذاؤں،ایمان و اعمال میں بھی مختلف مزے ہیں،اور جیسے ان غذاؤں کی لذتیں وہی محسوس کرسکتا ہےجس کے حواس ظاہری درست ہوں ۔ایسے ہی ان ایمانی غذاؤں کی لذتیں و ہی محسوس کرسکتا ہے جس کی روح درست ہو اور جیسے ظاہری حواس درست کرنے کی مختلف دوائیں ہیں،ایسے ہی ان حواس کے درست کرنے والی روحانی دوائیں ہیں۔اس حدیث میں ان ہی دواؤں کا ذکر ہے۔حضور جسمانی و روحانی حکیم مطلق ہیں۔جو ایمان کی حلاوت پالیتا ہے وہ بڑی بڑی مشقتیں خوشی سے جھیل لیتا ہے۔جاڑوں کی نماز،جہاد خنداں پیشانی سے ادا کرتا ہے،کربلا کا میدان اس حدیث کی زندہ جاوید تفسیر ہے،یہ لذت ہی ہر مشکل کو آسان کردیتی ہے،اسی سے رضا بالقضاء نصیب ہوتی ہے۔

۲؎ یعنی مال و دولت،زن فرزند وغیرہ تمام دنیاوی نعمتیں،اس میں قرآن،کعبہ و مدینہ منورہ وغیرہ داخل نہیں کہ ان کی محبت عین الله رسول کی محبت ہے۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضور سے الله والی محبت چاہئیے۔محبت کی بہت قسمیں ہیں:ماں سے محبت اورقسم کی ہے،بیوی سے اور طرح کی،اولاد سے اور طرح کی،بہن بھائی سے اور نوعیّت کی۔حضور سے محبت اسی نوعیت کی چاہئیے جس نوعیت کی الله سے ہو،یعنی محبت ایمانی وعرفانی۔ھُمَا فرمانے سے معلوم ہوا کہ الله رسول کے لیے ایک ضمیرتثنیہ آسکتی ہے۔جہاں ممانعت ہے وہاں برابری کے احتمال کے موقعہ پر ہے۔لہذا احادیث میں تعارض نہیں۔خیال رہے کہ یہاں محبت سے طبعی محبت مراد ہے نہ کہ محض عقلی۔
۳؎ یعنی بندوں سےمحض اس لیےمحبت کرے کہ رب راضی ہوجاوے،دنیاوی غرض اس میں شامل نہ ہو۔استاذ،شیخ،حتی کہ ماں باپ اولاد سے اس لئے محبت کرے کہ رضاء الٰہی کا ذریعہ ہیں اور سنت اسلام۔یہ محبت دائمی ہے،دنیاوی محبتیں جلد ٹوٹ جانے والی ہیں۔رب فرماتا ہے:اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَئِذٍۭ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیۡنَ۔
۴؎ یعنی کفر اور کفار سے طبعی نفرت ہوجاوے۔اسلام کی توفیق کو رب کی نعمت جانے،کفار سے ایسے بچے جیسے سانپ سے کہ سانپ دشمن جان ہے اور یہ لوگ دشمن ایمان۔