وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلّٰى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ إِبْلِيسَ يَضَعُ عَرْشَهُ عَلَى الْمَاءِ ثُمَّ يَبْعَث سَرَايَاهٗ یَفْتِنُوْنَ النَّاسَ فَأَدْنَاهُمْ مِنْهُ مَنْزِلَةً أَعْظَمُهُمْ فِتْنَةً يَجِيءُ أَحَدُهُمْ فَيَقُولُ فَعَلَتُ كَذَا وَكَذَا فَيَقُولُ مَا صَنَعْتَ شَيْئًا قَالَ ثُمَّ يَجِيءُ أَحَدُهُمْ فَيَقُولُ مَا تَرَكْتُهُ حَتّٰى فَرَّقَتُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ امْرَأَتِهٖ قَالَ فَيُدْنِيْهِ مِنْهُ وَيَقُولُ نِعْمَ أَنْتَ قَالَ الْأَعْمَشُ أَرَاهُ قَالَ «فَيَلْتَزِمْهُ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت جابرسےفرماتے ہیں فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطان پانی پر اپنا تخت بچھاتا ہے ۱؎ پھر اپنے مختلف لشکر کو لوگوں میں فتنہ میں ڈالنے کے لیئے بھیجتا ہے ۲؎ ان میں قریب تر درجہ والا وہ ہوتا ہے جو بڑا فتنہ گرہو۳؎ ان میں سے آکر ایک کہتا ہے کہ میں نے فلاں فلاں فتنہ پھیلایاابلیس کہتا ہے کچھ نہیں پھر اور دوسرا آکر کہتاہے کہ میں نے فلاں کو اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک کہ اس میں اور اس کی بیوی میں جدائی نہ ڈال دی۴؎ فرمایا ابلیس اسے پاس بٹھاتا ہے اور کہتا ہے تو بہت ہی اچھا ہے اعمش فرماتے ہیں مجھے خیال ہے کہ فرمایا اسے چمٹا لیتا ہے ۵؎ (مسلم)
شرح حديث.
۱؎ روزانہ صبح کے وقت سمندر پر جب اپنا کاروبارشروع کرتا ہے مگر اس کا تخت سمندر میں ڈوبتا نہیں کہ وہ خود بھی آتشی ہے اس کا تخت بھی آتشی۔آج کشتیاں اور جہاز ڈوبنےسےمحفوظ ہیں۔
۲؎ سرایا سریہ کی جمع ہے بمعنی چھوٹی فوج جن کی تعداد پانچ افراد سے چارسو تک ہو۔ذریّتِ شیطان کی مختلف جماعتیں ہیں ان کے نام اور کام الگ الگ ہیں۔چنانچہ وضوء میں بہکانے والی جماعت کا نامولہان ہے،اور نماز میں ورغلانے والی جماعت کا نامخنزب ہے۔ایسے ہی مسجدوں میں،بازاروں میں،شراب خانوں میں،اس کی الگ الگ فوجیں رہتی ہیں۔
۳؎ یعنی ابلیس اپنی ذریّت میں سے اُسے اپنا قربِ خصوصی بخشتا ہے جو لوگوں میں بڑی گمراہی یا فتنہ پھیلا کر آئے۔
۴؎ اس طرح کہ طلاق واقع کرادی۔طلاق اگرچہ مباح چیز ہے مگر اکثر بہت فسادات کی جڑ بن جاتی ہے۔اس لیئے ابلیس اس پر خوش ہوتا ہے،اسی لیئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اَبْغضُ الحلالِ الطلاقُحتّی الامکان اس سے بچنا بہتر ہے۔یا مطلب یہ ہے کہ میں نے خاوند بیوی میں جدائی کرادی کہ خاوند کی عورت کو معلقہ کردیا نہ چھوڑے نہ بسائے یہ سخت جرم ہے۔رب نے فرمایا:”فَتَذَرُوھاا کَالْمُعَلَّقَۃِ” اس صورت میں حدیث بالکل واضح ہے۔
۵؎ اس حدیث سے دو مسئلے معلوم ہوئے:ایک یہ کہ جو شخص ناحق زوجین میں جدائی کی کوشش کرے وہ ابلیس کی طرح مجرم ہے،اس سے وہ عامل لوگ عبرت حاصل کریں جو تفریق زوجین کے لیئے تعویذوعملیات کرتے ہیں۔دوسرے یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ سے ابلیس وغیرہ کوئی چیز چھپی نہیں۔کیونکہ ظاہر یہ ہے کہ حضور مشاہدہ و ملاحظہ فرما کر یہ سب کچھ فرمارہے ہیں۔
مأخذ.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:71
حدیث نمبر 71
27
Apr