وسوسہ اور برے خیالات(مشکوۃ)

حدیث نمبر 72

وَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلّٰى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ أَيِسَ مِنْ أَنْ يَعْبُدَهُ الْمُصَلُّونَ فِيْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَلَكِنَّ فِي التَّحْرِيْشِ بَيْنَهُمْ» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
ترجمه حديث.
روایت ہے انہیں سے فرماتے ہیں فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ شیطان اس سے تو مایوس ہوچکا کہ عرب کے نمازی اسے پوجیں ۱؎ لیکن انہیں آپس میں بھڑکانے میں مشغول ہے ۲؎ (مسلم)
شرح حديث.
۱؎ یعنی عرب کے عام مسلمان اعمال شرکیہ نہ کریں گے یا علی العموم مرتد نہ ہوں گے،ایک آدھ آدمی کا کبھی مرتد ہوجانا اس کے خلاف نہیں۔عرب کو جزیرہ اس لیئے فرمایا کہ اسے بحر فارس و روم اور دجلہ وفرات نے گھیرا ہے،عرب کی لمبائی عدن سے شام تک ہے،چوڑائی جدہ سے ریف عراق تک۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پرصلوٰۃ وسلام اورمولود شریف،عرس،فاتحہ،ختم،حضور سے مدد مانگنا وغیرہ شرک نہیں کیونکہ یہ تمام چیزیں عام مسلمانان عرب کا ہمیشہ سے دستور ہیں اگر ان میں سے کوئی چیز شرک ہوتی تو عرب شریف کے مسلمانوں میں کبھی مروج نہ ہوتی۔یہ بھی معلوم ہوا کہ عجم کبھی عرب کی طرح محترم نہیں ہوسکتا۔ہر جگہ مسلمان علی العموم مرتد ہوسکتے ہیں وہاں کے مسلمان نہیں ہوسکتے۔خیال رہے کہ اگرچہ مسیلمہ کذاب نے عرب کے بہت مسلمانوں کو مرتد کرلیا مگر اس ارتداد کابفضلہٖ تعالٰی بقا نہ رہا ایک وقتی چیز تھی جو ختم ہوگئی جس کا اعتبار نہیں۔
۲؎یعنی عرب کو آپس میں لڑاتا بھڑاتا رہے گا۔چنانچہ آخر زمانۂ عثمانی سے جو اختلاف شروع ہوا وہ آج تک ختم ہونے میں نہیں آتا اگرچہ اتحاد عرب کے نعرے لگائے جارہے ہیں مگر اس کی حقیقت مفقود ہے۔
مأخذ.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:72