وسوسہ اور برے خیالات(مشکوۃ)

حدیث نمبر 64

وَعَنْهُ قَالَ: جَاءَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى النَّبِيِّ فَسَأَلُوهُ: إِنَّا نَجِدُ فِي أَنْفُسِنَا مَا يَتَعَاظَمُ أَحَدُنَا أَنْ يَتَكَلَّمَ بِهٖ. قَالَ: «أَوَ قَدْ وَجَدْتُمُوْهٗ» قَالُوْا: نَعَمْ. قَالَ: «ذٰلِكَ صَرِيْحُ الْإِيْمَانِ» . رَوَاهُ المُسْلِمُ
ترجمه حديث.
روایت ہے انہیں سےفرماتے ہیں کہ حضور کے صحابہ میں سے کچھ حضرات حضورصلی اللہ علیہ سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے پوچھنے لگے کہ ہم اپنے دلوں میں ایسے خیالات محسوس کرتے ہیں کہ انہیں بیان کرنا بہت بڑا گناہ معلوم ہوتا ہے ۱؎ فرمایاکہ کیا تم نے یہ بات پائی ہے ۲؎ عرض کیا ہاں فرمایا یہ کھلا ہوا ایمان ہے ۳؎ (مسلم)
شرح حديث.
۱؎ یہ صحابہ کے کمال ایمان کی دلیل ہے کہ وسوسہ پر عمل کرنا تو کیا معنی اسے زبان پر لاتے بھی گھبراتے ہیں۔
۲؎ وسوسہ یا اُسے بڑا برا سمجھنا۔
۳؎ یعنی وسوسے آنا کمال ایمان کی دلیل ہےکیونکہ چوربھرے گھر میں ہی جاتا ہے اورشیطان مؤمن کی فکر میں زیادہ رہتا ہے۔حضرت علی مرتضیٰ فرماتے ہیں:کہ جونماز وسوسہ سے خالی ہو وہ نماز یہودونصاریٰ کی ہے۔(مرقات)یا وسوسوں کو بُراسمجھنا عین ایمان ہےکیونکہ کافرتو انہیں اچھا سمجھ کر اس پر ایمان لے آتے ہیں۔
مأخذ.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:64