وسوسہ اور برے خیالات(مشکوۃ)

حدیث نمبر 63

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «إِنَّ اللهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِيْ مَا وَسْوَسَتْ بِهٖ صُدُوْرُهَا مَا لَمْ تَعْمَلْ بِهٖ أَوْ تَتَكَلَّم»(مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ)
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں کہ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یقینًا اللہ تعالٰی نے میری امت سے ان کے دلی خطرات میں درگزر فرمادی ۱؎ جب تک کہ اس پر کام یا کلام نہ کرلیں ۲؎ (مسلم،بخاری)
شرح حديث.
۱؎ یعنی بُرے خیالات پر پکڑ نہیں یہ اس امت کی خصوصیّت ہے۔پچھلی اُمتوں میں اس پر بھی پکڑ تھی۔خیال رہے کہ بُرے خیالات اور ہیں،بُرا ارادہ کچھ اور،بُرے ارادے پر پکڑ ہے حتّی کہ ارادۂ کفر،کفر ہے۔شیخ عبد الحق فرماتےہیں کہ جو بُرا خیال دل میں بے اختیار اچانک آجاتا ہے اسے ہاجس کہتے ہیں یہ آنی فانی ہوتا ہے۔آیا اور گیا یہ پچھلی امتوں پر بھی معاف تھا ہم کو بھی معاف۔لیکن جو دل میں باقی رہ جائے وہ ہم پر معاف ہے اُن پر معاف نہ تھا اور اگر اس کے ساتھ دل میں لذت اور خوشی پیدا ہواسےھمّ کہا جاتا ہے۔اس پر بھی پکڑ نہیں اور اگر اس کے ساتھ کر گزرنے کا ارادہ بھی ہو تو وہ عزم ہے اس کی پکڑ ہے۔خیال رہے کہ ارادۂ گناہ اگرچہ گناہ ہے مگر اس پر حد نہیں۔ارادۂ زنا گناہ ہے،مگر زنا نہیں۔
۲؎ یعنی قولی گناہ میں کلام کا اعتبار ہے اور فعلی میں کام کا۔
مأخذ.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:63