وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «ثَلَاثٌ مِنْ أَصْلِ الْإِيمَانِ الْكَفُّ عَمَّنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ تُكَفِّرُهٗ بِذَنْبٍ وَلَا تُخْرِجُهٗ مِنَ الْإِسْلَامِ بِعَمَلٍ وَالْجِهَادُ مَاضٍ مُذْ بَعَثَنِيَ اللّٰهُ إِلٰى أَنْ يُقَاتِلَ آخِرُ هٰذِهٖ الْأُمَّةِ الدَّجَّالَ لَا يُبْطِلُهُ جَوْرُ جَائِرٍ وَلَا عَدْلُ عَادِلٍ وَ الْإِيْمَانُ بِالْأَقْدَارِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ
ترجمه.روایت ہے حضرت انس سے فرماتے ہیں کہ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزیں ایمان کی بنیاد ہیں ۱؎ جو لَااِلٰہَ اِلّا ﷲکہے اس سے زبان روکنا ۲؎ یعنی محض گناہ سے اُسے کافر نہ کہے۳؎ اور نہ اسے اسلام سے خارج جانے محض کسی عمل سے ۴؎ اور جہاد جاری ہے جب سے مجھے رب نے بھیجا یہاں تک۵؎ کہ اس امت کی آخری جماعت دجال سے جہاد کرے۶؎ جہاد کو ظالم کا ظلم، منصف کا انصاف باطل نہیں کرسکتا۷؎ اور تقدیروں پر ایمان ۸؎ (ابو داؤد)
شرح حديث.
۱؎ یعنی جس پر ایمان کی عمارت قائم ہے۔جن کے بغیر انسان مؤمن نہیں ہوسکتا۔
۲؎ اسے کافر نہ کہنا۔کلمہ پڑھنے سے مراد سارے اسلامی عقائد کا ماننا ہے جیسا کہ ہم بارہا عرض کرچکے۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم اہل قبلہ کو کافر نہیں کہتے اس کا بھی یہی مطلب ہے محض کلمہ پڑھ لینا،کعبہ کی طرف منہ کرلینا ایمان کے لئے کافی نہیں، منافقین یہ دونوں کام کرتے تھے مگر کافر تھے۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اُمّت کے ۷۳ فرقے ہوں گے ایک کے سوا سب جہنمی خوارج کی خبر دی کہ بڑے نمازی اور قرآن خوان ہوں گے مگر دین سے ایسے دور ہوں گے جیسے چھوٹا ہوا تیر کمان سے اس تفسیر کی تائید اگلے مضمون سے ہورہی ہے۔
۳؎ اس میں خوارج کی تردید ہے جو گناہ کبیرہ کو کفر اورگنہگار کو کافر کہتے ہیں۔یہ جملہ پچھلے مضمون کی تفسیر ہے یعنی گناہ بدعملی ہے کفر نہیں۔خیال رہے کہ بعض گناہ علامت کفر ہے،اس لئے فقہاء انہیں کفر قرار دیتے ہیں۔جیسے زنّار باندھنا،بت کو سجدہ کرنا،قرآن کریم کو گندگی میں پھینکنا،حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی کسی چیز کا مذاق اڑانا،بے ادبی کرتے ہوئے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر آواز بلند کرنا رب فرماتا ہے:”لَاتَعْتَذِرُوۡا قَدْکَفَرْتُمۡ بَعْدَ اِیۡمٰنِکُمْ” اور فرماتاہے:”فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوۡنَ“الخ،نیز فرماتا ہے: “اَنۡ تَحْبَطَ اَعْمٰلُکُمْ“الخ۔یہ گناہ اس لئے کفر ہیں کہ کفر کی علامتیں ہیں۔لہذا حدیث قرآن متعارض نہیں۔
۴؎ اس میں معتزلہ کا ردہے۔جوکہتے ہیں کہ گناہ کبیرہ والا نہ مؤمن ہے نہ کافربلکہ فاسق ہے۔حالانکہ کفرواسلام کے درمیان کوئی درجہ نہیں۔
۵؎ مدینہ طیّبہ کی طرف کیونکہ ہجرت سے پہلے جہاد فرض نہ تھا۔
۶؎ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی مسلمانوں کے ساتھ دجّال اور اس کی جماعت پر تلوار کا جہاد کریں گےکیونکہ عیسیٰ علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہوں گے۔چونکہ دجّال کے بعد تمام دنیا مسلمان ہوجائے گی،کوئی کافر نہ رہے گا اورحضرت عیسیٰ و امام مہدی کی وفات کے کچھ عرصہ بعد دنیا میں کفر ہی ہوگا کوئی مؤمن نہ رہے گا اس لیے یہ جہاد آخری ہوگا اس کے بعد کوئی جہاد نہ ہوگا۔خیال رہے کہ اگرچہ بعض پچھلی شریعتوں میں بھی جہاد تھا مگر اسلامی جہاد اور اس کے قوانین حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوکرقتلِ دجّال تک رہیں گے۔لہذاحدیث پر کوئی اعتراض نہیں۔
۷؎ یعنی ہرمنصف اور ظالم بادشاہ کے ساتھ مل کر کفّار پر جہاد کرو اس میں اشارۃ دو مسئلے بتائے گئے:ایک یہ کہ جہاد کے لیے سلطان اسلام یا امیر المسلمین شرط وجوب ہے۔دوسرے یہ کہ فاسق فاجر بادشاہ کے ماتحت بھی کفّار سے جہاد لازم ہے۔صحابہ کرام نے حجاج ابن یوسف جیسے فاسق حاکم کے ساتھ کفار پر جہاد کیے ہیں۔اس میں قادیانیوں کی تردید ہے جو کہتے ہیں کہ مرزا قادیانی نے جہاد منسوخ کردیا۔جہاد نماز کی طرح محکم اور ناقابل نسخ عبادت ہے۔جہاد کے بغیر کوئی قوم زندہ نہیں رہ سکتی۔رب فرماتا ہے:”وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ“۔
۸؎ تقدیر کی پوری بحث ہماری کتاب”تفسیرنعیمی”پارہ سوم میں ملاحظہ کرو۔یہاں صرف اتنا ہی سمجھ لو کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ اللہ کے علم اور اس کے ارادہ سے ہے ہم اپنے اعمال کے کاسِب ہیں،خالق نہیں۔لہذا ہم کسب میں مختار اورخلق میں مجبور ہیں نہ قادرمطلق نہ مجبور محض یہی مذہبِ اہلسنت ہے۔
مأخذ.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:59
حدیث نمبر 59
27
Apr