وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ عَبَّاسٍ: «وَلَا يَقْتُلُ حِيْنَ يَقْتُلُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ» . قَالَ عِكْرِمَةُ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: كَيْفَ يُنْزَعُ الْإِيمَانُ مِنْهُ قَالَ: هٰكَذَا وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهٖ ثُمَّ أَخْرَجَهَا فَإِنْ تَابَ عَادَ إِلَيْهِ هٰكَذَا وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهٖ وَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللهِ: لَا يَكُونُ هٰذَا مُؤْمِنًا تَامًّا وَلَا يَكُونُ لَهٗ نُورُ الْإِيمَانِ. هٰذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ. ترجمه.
حضرت ابن عباس کی روایت میں یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوتا کہ قاتل قتل کرنے کی حالت میں مؤمن ہو ۱؎ حضرت عکرمہ ۲؎ فرماتے ہیں کہ میں نے ابن عباس سے پوچھا کہ ان سے ایمان کیونکرنکل جاتا ہے آپ نے فرمایاایسے اور اپنی انگلیوں کوگتھی کر دیاپھر انگلیوں کو نکالا۳؎ کہ اگر توبہ کرے تو ایمان اس طرح لوٹ آتاہے ۴؎ پھر انگلیاں گتھی کریں ابو عبداللہ فرماتے ہیں ۵؎ کہ یہ لوگ کامل مؤمن نہیں رہتے اور نہ اُن میں نور ایمانی رہتاہے۔یہ بخاری کے الفاظ ہیں۔
شرح حديث.
۱؎ قتل سے مراد ظلمًا عمدًا قتل ہے۔لہذا حدیث واضح،ورنہ مجرم کو کبھی قتل کرنا عبادت ہے۔
۲؎ عکرمہ ابن(ابوجہل)نہیں ہیں،بلکہ عبدﷲ ابن عباد کے آزاد کردہ غلام آپ کے خادم اور کاتب ہیں۔(مرقاۃ)
۳؎ یعنی نور ایمانی مؤمن کے رگ و ریشہ میں ایسے سرایت کیا ہوتا ہے جیسے گتھی ہوئی انگلیاں مگر ان گناہوں کے وقت وہ نور اور ایمانی حیا بالکل نکل جاتے ہیں۔
۴؎ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ ہر گناہ کی توبہ علیحدہ ہے۔لہذا حقوق العبد کی توبہ میں حق کا ادا کردینا شرط ہے۔حسن بصری فرماتے ہیں کہ اس قسم کے مجرم اچھے القاب سے نہ پکارے جائیں”اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا اوراَوْلِیَآءَہ الْمُؤْمِنُوۡنَ“کے خطاب سے محروم ہیں۔ اب ان کے خطاب چور،زانی اور فاسق ہیں۔(مرقاۃ)
۵؎ یعنی محمد بن اسمعیل امام بخاری رحمۃ ﷲ علیہ۔
مأخذ. کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:54
حدیث نمبر 54
27
Apr