بڑے گناہ اور نفاق کی علامات(مشکوۃ)

حدیث نمبر 53

وَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «لَا يَزْنِي الزَّانِي حِيْنَ يَزْنِيْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلَا يَسْرِقُ السَّارِقُ حِيْنَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِيْنَ يَشْرَبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلَا يَنْتَهِبُ نُهْبَةً يَرْفَعُ النَّاسَ إِلَيْهِ فِيْهَا أَبْصَارَهُمْ حِيْنَ يَنْتَهِبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلَا يَغُلُّ أَحَدُكُمْ حِيْنَ يَغُلُّ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَإِيَّاكُمْ إيَّاكُمْ»(مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ)
ترجمه.
روایت ہے انہیں سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں ہوتا کہ زانی زنا کرنے کی حالت میں مؤمن ہو ۱؎ اور نہ یہ کہ چور چوری کرنے کی حالت میں مؤمن ہو اور نہ یہ کہ شرابی شراب پینے کی حالت میں مؤمن ہو اور نہ یہ کہ ڈاکوڈکیتی کرنےکی حالت میں مؤمن ہوکہ لوگ اپنے مال کو ترستی نگاہ اٹھا کر دیکھتے رہ جائیں ۲؎ اور نہ یہ کہ خائن خیانت کرنے ۳؎ کی حالت میں مؤمن ہو لہذا ان سےبچو،ان سےبچو۔ (مسلم،بخاری)
شرح حديث.
۱؎ ان تمام مقامات میں یا تو کمال ایمان مراد ہے یا نور ایمان،یعنی ان گناہوں کے وقت مجرم سے نور ایمان نکل جاتا ہے ورنہ یہ گناہ کفر نہیں نہ انکا مرتکب مرتد،اگر اسی حالت میں مارا جائے تو وہ کافر نہ مرے گا۔حدیث شریف میں ہےوِان زَنٰی وِان سَرَقَ یہی تفسیر اگلی حدیث میں آرہی ہے۔
۲؎ اس ڈاکوکو یعنی ظاہر ظہور مال لوٹ لے اور مالک دفع پرقادر نہ ہوں یا اپنے مال کو یعنی حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے رہ جائیں کہ ہائے ہمارا مال چل دیا۔ڈکیتی میں تین جرم ہوئے:غیر کے مال پر ناجائز قبضہ ظاہرظہور دوسرے کا مال چھین لینا،دل کی سختی کہ لوگوں کی حسرت اور آہ و بکا پر ترس نہ کھائے۔لہذا یہ گناہوں کا مجموعہ ہوئی،مؤمن کی شان کے خلاف ہے۔
۳؎ غلول مال غنیمت میں خیانت کرنے کو کہتے ہیں۔کبھی مطلقًا خیانت پر بول دیا جاتا ہے یہاں دوسرے معنی زیادہ ظاہر ہیں۔
مأخذ.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:53