بڑے گناہ اور نفاق کی علامات(مشکوۃ)

حدیث نمبر 49

عَنْ عُمَرَ ابْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَ إِنَّمَا لِإِمْرِئٍ مَا نَوٰى فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهٗ إِلَی اللهِ وَ رَسُولِهٖ فَهِجْرَتُهٗ إِلَى اللهِ وَرَسُولِهٖ وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهٗ إِلٰى دُنْيَا يُصِيْبُهَا أَوْإِمْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا فَهِجْرَتُهٗ إِلٰى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ» (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ)
ترجمه.
روایت ہے عبداللہ ابن مسعود سے ۱؎ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا حضور کو ن سا گناہ ۲؎ بہت بڑا ہے اللہ کے ہاں فرمایا یہ کہ تم اللہ کا شریک ٹھہراؤ۔حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ۳؎ عرض کیا پھر کون سا گناہ۔فرمایا یہ کہ اپنی اولاد اس ڈر سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے ۴؎ عرض کیا پھر کون سا گناہ فرمایا یہ کہ اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو ۵؎ تب اللہ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت اتاری اور وہ جو خدا کے ساتھ دوسرے معبود کو نہیں پوجتے اور نہ اس جان کو ناحق قتل کریں جسے اللہ نے حرام کیا ۶؎ اور نہ زنا کریں۔
شرح حديث.
۱؎ آپ کی کنیت ابو عبدالرحمن اور ابن امّ عبد ہے،قبیلہ بنی حزیل سے ہیں،قدیم الاسلام اور جلیل القدر صحابی ہیں۔عمر فاروق سے پہلے اسلام لا ئے،صاحبِ ہجرتیں ہیں کہ اول حبشہ کی طرف اور پھر مدینہ پاک کی جانب ہجرت کی،بدر اور تمام غزوات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین بردار اور صاحب اسرار تھے،سفر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مسواک اور پانی لوٹا آپ کے ساتھ رہتا تھا۔عہد فاروقی میں کوفہ کے قاضی رہے،عہد عثمانی میں مدینہ پاک آگئے،ساٹھ سال سے زیادہ عمر پائی ۳۲ھمیں مدینہ پاک میں وفات ہوئی،جنت بقیع میں دفن ہوئے،خلفاء راشدین کے بعد بڑے فقیہ اور عالم صحابی آپ ہیں،امام ابوحنیفہ اکثر آپ ہی کی پیروی کرتے ہیں۔رضی اللہ تعالٰی عنہ۔
۲؎ شرعًا بری چیز کا نام گنا ہ ہے۔اس کی چار قسمیں ہیں:ایک وہ جو بغیر توبہ معاف نہ ہو،جیسے کفر و شرک۔دوسرے وہ جو نیک اعمال کی برکت سے بھی معاف ہوجائے،جیسے گناہ صغائر۔تیسرے وہ کہ جن کے بغیر توبہ معاف ہونے کی بھی امید ہو،جیسے حقوق اللہ کے کبیرہ گناہ۔چوتھے وہ کہ جن کی معافی کیلئے توبہ کے ساتھ مخلوق کو بھی راضی کرنا پڑے جیسے حقوق العباد۔(مرقاۃ)
۳؎ یعنی شرک و کفرکہ یہاکبر الکبائرہے۔
۴؎ جیسا کہ عرب میں دستور تھا کہ غریب لوگ خرچ کے خوف سے بیٹے اور بیٹیوں دونوں کو قتل کردیتے تھے۔چونکہ اس میں بے قصور جان کو قتل کرنا اور اپنے قرابت دار پر ظلم کرنا اور خدا کی رزاقیّت پر اعتقاد نہ کرنا تینوں باتیں جمع ہیں،اس لئے اس کا درجہ کفر و شرک کے بعدرکھا گیا۔
۵؎ کہ زنا خود گناہِ کبیرہ ہے اور اس میں پڑوسی کے حق کا برباد کرنا بھی ہے۔کیونکہ ہرشخص اپنے پڑوسی پر اعتماد کرتا ہے اورا س کے جان و مال آبرو کی حفاظت کو اپنا فرض سمجھتا ہے۔خیال رہے کہ یہاں گناہ کبیرہ صرف چار بیان فرمائے گئے۔ضرورت اور موقعہ کے لحاظ سےعبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ گناہ کبیرہ ۷۰ ہیں اور سعید ابن جبیر فرماتے ہیں کہ ۷۰۰ ہیں۔(مرقاۃ)یعنی گناہ کبیرہ کی انواع ۷۰ اور افراد ۷۰۰۔
۶؎ اس آیت میںحَرَّم اللہسے مراد مؤمن،کافر،ذمی اور مستامن ہیں۔اِلا بالحق میں ان جرموں کی طرف اشارہ ہے جن کی سزا قتل ہے جیسے مرتد ہوجانا،یا زنا،یا ظلمًا قتل یعنی اگر مؤمن ان تین میں سے کوئی جرم کرے گا قتل کیا جائے گا۔
مأخذ.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:49