وَعَنْ أَبِي أُمَامَةَ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَا الْإِيمَانُ قَالَ إِذَا سَرَّتْكَ حَسَنَتُكَ وَسَاءَتْكَ سَيِّئَتُكَ فَأَنْتَ مُؤْمِنٌ قَالَ يَا رَسُولَ الله ِ فَمَا الْإِثْمُ قَالَ إِذَا حَاكَ فِي نَفْسِكَ شَيْءٌ فَدَعْهُ رَوَاهُ أَحْمَدُ
ترجمه.
روایت ہےحضرت ابوامامہ سے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ایمان کیا ہے ۱؎ فرمایا کہ جب تمہیں اپنی نیکی خوش کرے اور اپنی برائی غمگین کرے تو تم کامل مؤمن ہو ۲؎ عرض کیا کہ یارسول اللہ گناہ کیا ہے۔فرمایا جو چیز تمهارے دل میں چبھے اسے چھوڑ دو۳؎ (احمد)
شرح حديث.
۱؎ یعنی مؤمن ہونے کی پہچان جس سے میں سمجھ سکوں کہ اب میں مؤمن ہوگیا۔
۲؎ سبحان اللہ کیا نفیس پہچان ہے ۳ قسم کے لوگ ہیں:(۱)غافل(۲)عاقل(۳)کامل۔غافل:وہ گناہوں پر خوش اور نیکی پر مغموم ہو،جیسے کفار یا بعض فسّاق۔عاقل:وہ جو نیکی کو اچھا اور گناہ کو اپنی عقل سے برا سمجھے مگر عملًا بے پرواہ ہو۔کامل:وہ جس کے قلب کا رنگ بدل گیا ہو نیکی پر ایسا خوش ہو جیسے بادشاہت مل گئی گناہ پر ایسا غمگین ہو جیسے سب مال و اولادتباہ ہوگئے یہ درجہ بہت اعلٰی ہے۔اللہ تعالٰی نصیب کرے۔
۳؎ یعنی مؤمن کا مل کا دل ہی گناہ و ثواب میں فرق کرلیتا ہے۔جیسے نفس انسانی مکھی ہضم نہیں کرتا قے کرلیتا ہے ایسے ہی نفس ایمانی گناہ برداشت نہیں کرتا۔یہ حدیث ان لوگوں کے لیے ہے جوان صحابی جیسے کامل مؤمن ہوں ہم جیسے گنہگاروں کے لیے نہیں،ہم تو بہت دفعہ برائیوں کو نیکیاں سمجھ لیتے ہیں۔
مأخذ.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:45
حدیث نمبر 45
24
Apr