ایمان و کفر کا بیان, باب الایمان(مشکوۃ)

حدیث نمبر 29

عَنْ مْعَاذٍ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلْنِيْ الْجَنَّةَ وَيُبَاعِدْنِيْ مِنَ النَّارِ قَالَ لَقَدْ سَأَلْتَ عَنْ أَمْرٍ عَظِيْمٍ وَإِنَّهُ لِيَسِيرٌ عَلٰی مَنْ يَسَّرَهُ اللّٰهُ تَعَالٰي عَلَيْهِ تَعْبُدُ اللهَ وَلَا تُشْرِکْ بِهٖ شَيْئًا وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِيْ الزَّكَاةَ وَتَصُوْمُ رَمَضَانَ وَتُحِجُّ الْبَيْتَ ثُمَّ قَالَ أَلَا أَدُلُّكَ عَلٰى أَبْوَابِ الْخَيْرِ الصَّوْمُ جُنَّةٌ وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِيئَةَ كَمَا تُطْفِئُ الْمَاءُ النَّارَ وَصَلٰوةُ الرَّجُلِ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ قَالَ ثُمَّ تَلَا ( تَتَجَافٰی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ)حَتَّى بَلَغَ (يَعْمَلُونَ)
ثُمَّ قَالَ أَلَا أَدُلُّكَ بِرَأْسِ الْأَمْرِ وَعُمُوْدِهٖ وَذِرْوَةِ سَنَامِهٖ قُلْتُ بَلٰى يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ رَأْسُ الْأَمْرِ الْإِسْلَامُ وَعُمُودُهُ الصَّلٰوةُ وَذِرْوَةُ سَنَامِهٖ الْجِهَادُ ثُمَّ قَالَ أَلَا أُخْبِرُكَ بِمِلَاكِ ذٰلِكَ كُلِّهٖ قُلْتُ بَلٰی يَا نَبِيَّ اللهِ فَأَخَذَ بِلِسَانِهٖ فَقَالَ كُفَّ عَلَيْكَ هٰذَا فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ الله وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُوْنَ بِمَا نَتَكَلَّمُ بِهٖ فَقَالَ ثَكُلَتْكَ أُمُّكَ يَا مُعَاذُ وَهَلْ يَكُبُّ النَّاسَ فِي النَّارِ عَلٰی وُجُوهِهِمْ أَوْ عَلٰى مَنَاخِرِهِمْ إِلَّا حَصَائِدُ أَلْسِنَتِهِمْ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ
ترجمه.روایت ہے حضرت معاذ(ابن جبل)سے فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا ۱؎ یارسول الله مجھے ایسا کام بتائیے جو مجھے جنت میں داخل اور دوزخ سے دور کردے ۲؎ فرمایا تم نے بڑی چیز پوچھی۳؎ ہاں جس پر الله آسان کرے اُسے آسان ہے ۴؎ الله کو پوجو ۵؎ اورکسی چیز کو اس کا شریک نہ جانو نماز قائم کرو،زکوۃ دو،رمضان کے روزے رکھو،کعبہ کا حج کرو ۶؎ پھر فرمایا کیا میں تم کو بھلائی کے دروازے نہ بتادوں ۷؎ روزہ ڈھال ہے ۸؎ خیرات گناہوں کو ایسا بجھاتی ہے جیسے پانی آگ کو ۹؎ اور درمیانی رات میں انسان کا نماز پڑھنا ۱۰؎ پھر یہ تلاوت کی کہ ان کی کروٹیں بستروں سے الگ رہتی ہیں ۱۱؎ (یعملونتک)پھر فرمایا کہ میں تمہیں ساری چیزوں کا سر،ستون،کوہان کی بلندی نہ بتادوں ۱۲؎ میں نے کہا ہاں یارسول الله ۱۳؎ فرمایا تمام چیزوں کا سراسلام ہے اور اس کا ستون ۱۴؎ نماز اور کوہان کی بلندی جہاد ہے ۱۵؎ پھر فرمایا کہ کیا تمہیں ان سب کے اصل کی خبر نہ دے دوں ۱۶؎ میں نے عرض کیا ہاں یا نبی الله پس حضور نے اپنی زبان مبارک پکڑ کر فرمایا کہ اسے روکو ۱۷؎ میں نے عرض کیا کہ یا نبی الله کیا زبانی گفتگو پر بھی ہماری پکڑ ہوگی ۱۸؎ فرمایا تمہیں تمہاری ماں روئے اے معاذ ۱۹؎لوگوں کو اوندھے منہ آگ میں نہیں گراتی مگر زبانوں کی کٹوتی ۲۰؎ یہ حدیث احمد ترمذی ابن ماجہ نے روایت کی۔
شرح حديث.۱؎ غزوۂ تبوک میں دوپہر کے وقت جب سخت گرمی تھی،جب تمام صحابہ الگ الگ درختوں کے نیچے ٹھہرے اور میں نے حضور کے ساتھ آرام کیا۔(مرقاۃ)
۲؎ یہ اسناد مجازی ہے جنت،دنیا،دوزخ سے بچانا رب کا کام ہے۔چونکہ عمل اس کا ذریعہ ہے اس لیے اسے فاعل قرار دیا گیا لہذا یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضور جنت دیتے ہیں،دوزخ سے بچاتے ہیں،ہمارے اعمال سے حضور کا توسل زیادہ قوی ذریعہ ہے۔
۳؎ کیونکہ آگ سے بچنا جنت میں پہنچنا بڑی نعمتیں ہیں تو ان کا ذریعہ بھی بڑا ہی ہوگا۔
۴؎ یعنی یہ ذریعہ بتانا مجھ کو آسان ہے کہ رب نے مجھ کو ہر شے پر مطلع کیا ہے یا وہ اعمال اسی پر آسان ہوں گے جس پر الله کرم کرے،ڈھیلا خود نیچے گرتا ہے کسی کے اٹھائے سے اوپر ہوتا ہے،ہماری پیدائش مٹی سے ہے ہمارا بھی یہی حال ہے۔
۵؎ یعنی اسلام لاؤ جو ساری عبادتوں کی جڑ ہے کیونکہ عبادات کا ذکر تو آگے آرہا ہے یہاں مضارع بمعنی امر ہے نہ کہ بمعنی خبر۔
۶؎ اس طرح کہ نماز روزانہ پانچ وقت،روزہ ہرسال رمضان میں،زکوۃ ہر سال،اگر مال ہو حج عمر میں ایک مرتبہ۔ظاہر یہ ہے کہ یہاں صرف فرائض مراد ہیں جن پر جنتی ہونا موقوف ہے۔
۷؎ یعنی وہ نیک اعمال جو بہت سی نیکیوں کا ذریعہ ہیں جیسے روزہ نفس توڑنے کا ذریعہ ہے نفس ٹوٹ جانے پر انسان بہت سی نیکیاں کرسکتا ہے۔کیونکہ روکنے والا نفس ہی ہے۔
۸؎ جس کی برکت سے روزہ دار تک گناہوں کا تیر نہیں پہنچتا اور شیطان کا راستہ بند ہوجاتا ہے۔
۹؎ چونکہ خیرات میں الله کی عبادت بھی ہے اور بندوں کا نفع بھی،غریبوں کی حاجت روائی بھی،اس لئے کہ یہ گناہوں کو مٹانے میں اکسیر ہے،جو بندوں پر مہربان ہو رب اس پر مہربان ہوتا ہے۔
۱۰؎ یعنی نماز تہجد،نمازپنجگانہ کے بعد یہ نماز بہت اعلٰی ہے اور نمازوں میں اطاعت غالب ہے اس نماز میں عشق،نیز یہ نماز رب نے خاص حضور کے لیے بھیجی،حضور کے طفیل سے ہمیں ملی،فرماتا ہے:”فَتَہَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ“۔
۱۱؎ یعنی عشاء کے بعد کچھ سولیتے ہیں،پھر اٹھ کر تہجد پڑھتے ہیں،تہجد کے لیے پہلے سولینا شرط ہے ورنہ بستروں کا ذکر نہ ہوتا،بعد تہجد بھی سونا سنت ہے،یہ بھی اسی آیت سے ثابت ہے یعنی بستر بچھے ہوتے ہیں مگر وہ مصلے پر ہوتے ہیں۔
۱۲؎ یہاں دین کو اونٹ سے تشبیہ دی گئی،پھر اس کے لیے سر پاؤں اور کوہان ثابت کیا گیا جیسا استعارہ بالکنایہ اور تخلیل میں ہوتا ہے۔
۱۳؎ یہ سوال جواب سائل کو شوق دلانے کے لئے ہیں کیونکہ انتظار کے بعد جو شے حاصل ہو خوب یاد رہتی ہے۔
۱۴؎ چیز سے مراد دین ہے۔دینداری اسلام کے بغیر نہیں قائم رہ سکتی،جیسے سر کے بغیر زندگی اور نماز سے دین کو قوت و بلندی ہے،جیسے ستون سے چھت کی۔
۱۵؎ جہاد چونکہ دشوار ہے اور جہاد ہی سے دین کی زینت و رونق ہے،جیسے کوہان سے اونٹ کی زینت اور کوہان تک پہنچنا کچھ مشکل بھی ہوتا ہے۔جہاد بمعنی مشقت ہے یہ لِسان،سنان،اقلام سبھی سے ہوتا ہے،کافروں پر جہا د سہل ہے مگر اپنے نفس پر مشکل یہ کلمہ سب جہادوں کو شامل ہے۔
۱۶؎ملاک وہ ہے جس سے کسی چیز کا نظام اور قوام قائم ہو،یعنی اصل اصول۔
۱۷؎ کہ پہلے تو لو بعد میں بولو،زبان کو لگام دو،رب نے چھونے کے لیے دو ہاتھ،چلنے کے لیے دو پاؤں،دیکھنے کے لیے دو آنکھیں،سننے کے لیے دو کان دیئے،مگر بولنے کے لیے زبان صرف ایک ہی دی کہ کلام کم کرو کام زیادہ۔
۱۸؎یعنی بات تو معمولی چیز ہے۔اس پر کیا پکڑ چوری،زنا،قتل وغیرہ جرم قابل گرفت ہیں مگر وہ زبان سے نہیں ہوتے۔
۱۹؎ عرب میں یہ لفظ محبت و پیار میں بھی کہا جاتا ہے۔جیسے بچوں سے مائیں پیار میں کہتی ہیں۔اے رُڑجانئیں،اڈپڈ جانئیں اردو میں مارے ہتیارے،ارے مٹ گئے وغیرہ یعنی توگم جائے یا مرجائے اور ماں تجھے رو رو کر ڈھونڈ ے یا یاد کرے۔
۲۰؎ کیونکہ ہاتھ پاؤں سے اکثر گناہ ہی ہوتے ہیں۔مگر زبان سے کفر،شرک،غیبت،چغلی،بہتان سب کچھ ہوتے ہیں جو دوزخ میں ذلت و خواری کے ساتھ پھینکے جانے کا ذریعہ ہیں۔حصائد وہ جگہ ہے جہاں کھیت کا ٹ کر رکھا جاتا ہے یعنی کھلیان یا کٹوتی انسان کا ہر لفظ نامۂ اعمال میں لکھا جاتا ہے۔وہ دفتر گویا اس کا کھلیان ہے۔
مأخذ. کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:29