وَعَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: «أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ اُبْسُطْ يَمِيْنَكَ فَلِأُبَايِعَكَ فَبَسَطَ يَمِيْنَهٗ فَقَبَضْتُ يَدِيْ فَقَالَ مَا لَكَ يَا عَمْرُو قُلْتُ أَرَدْتُ أَن أشْتَرِطَ قَالَ تَشْتَرِطُ مَاذَا قُلْتُ أَنْ يُغْفَرَ لِيْ قَالَ أَمَا عَلِمْتَ یَا عَمْرُو أَنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهٗ وَأَنَّ الْهِجْرَةَ تَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهَا وَأَنَّ الْحَجَّ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهٗ» رَوَاہُ مُسْلِمٌ وَالْحَدِيثَانِ الْمَرْوِيَّانِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ اللّٰهُ تَعَالٰى:«أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ». وَالْآخَرُ: «الْكِبْرِيَاءُ رِدَائَيْ» سَنَذْكُرُهُمَا فِي بَابِ الرِّيَاءِ وَالْكِبْرِ إِنْ شَاءَ اللهُ تَعَالیٰ
ترجمه.
روایت ہے عمر و ابن عاص سے ۱؎ فرماتے ہیں کہ میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا عرض کیا کہ اپنا ہاتھ بڑھایئے تاکہ آپ کی بیعت کروں ۲؎ آپ نے ہاتھ بڑھایا میں نے اپنا ہاتھ سمیٹ لیا ۳؎ فرمایا اے عمرویہ کیا میں نے عرض کیا کچھ شرط لگانا چاہتا ہوں فرمایا کیا شرط میں نے عرض کیا کہ میری بخشش ہوجائے ۴؎ فرمایا اے عمرو کیا تمہیں خبر نہیں کہ اسلام پچھلے گناہ ڈھادیتا ہے اور ہجرت پچھلے گناہ ڈھادیتی ہے اور حج بھی پچھلے گناہ ڈھا دیتا ہے ۵؎ یہ مسلم نے روایت کی اور وہ دو حدیثیں جو حضرت ابوہریرہ سے مروی ہیں۔فرماتے ہیں فرمایا الله تعالٰی نے کہ میں تمام شرکاء میں شرک سے غنی تر ہوں اور دوسری یہ کہ عظمت و بلندی میری چادر ہے ہم انہیںریا اور کِبر کے بابوں میں ذکر کریں گے ۶؎ اگر الله نے چاہا۔
شرح حديث.۱؎ آپ عمروبن العاص سہمی قریشی ہیں، ۵ھ میں خالد ابن ولیدرضی اللہ عنہ اور عثمان ابن طلحہ کے ساتھ مدینہ میں آکر اسلام لائے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عمّان کا گورنر مقرر فرمایا،آپ حضرت عمر و عثمان و معاویہ رضی اللہ عنہم کے عامل رہے،آپ فاتح مصر ہیں مصر ہی میں نوے سال کی عمر پا کر ۴۳ھ میں وفات پائی۔(اکمال)
۲؎ یہ بیعت اسلام ہے صحابہ کرام اسلام لاتے وقت حضور سے بیعت بھی کیا کرتے تھے یعنی استقامت کا وعدہ بیعت تو یہ بیعت تقویٰ،بیعت جہاد،بیعت شہادت کسی خاص مسئلے پر،بیعت اس کے علاوہ ہیں آج کل علی العموم مشائخ سے بیعت توبہ یا تقویٰ ہوتی ہے۔بیعت کے وقت شیخ کے ہاتھ میں ہاتھ دینا سنت ہے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا۔
۳؎ بے ادبی کے لیے نہیں بلکہ بندہ مختار مانتے تھے۔
۴؎ دیکھو بخشنا کام الله کا ہے اور شرط لگارہے ہیں رسول الله سے،ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم کو جنت عطا فرمائیے حضور ہمیں دوزخ سے نجات نصیب ہو۔
۵؎معلوم ہوا کہ ایمان اور نیک اعمال معافی گناہ کا ذریعہ ہیں،رب فرماتاہے:”اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ“مگر ان سے گناہ مٹتے ہیں نہ کہ حقوق العباد۔نو مسلم اسلام لاکر زمانۂ کفر کے قر ض بھی ادا کرے گا اور حدود و قصاص بھی،لہذا حدیث پر کوئی اعتراض نہیں۔یعنی یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ زمانۂ کفر میں ظلمًا قتل کرلو،لوگوں کے مال مارلو اور بعد میں کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوجاؤ سب معاف،یہ ناممکن ہے۔
۶؎ یعنی یہ دو حدیثیں مصابیح میں اسی باب میں تھیں مگر ہم پہلی حدیث “باب الریاء”میں اور دوسری”باب الکبر”میں لائیں گے کیونکہ یہ وہاں کے ہی مناسب ہیں۔یہ فقیران شاء اللّٰهُ ان حدیثوں کی شرح بھی وہیں عرض کرے گا۔
مأخذ. کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:28
حدیث نمبر 28
24
Apr