ایمان و کفر کا بیان, باب الایمان(مشکوۃ)

حدیث نمبر 27

وَعَنْ عُبَادَةَ ابْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهٗ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَأَنَّ عِيسٰى عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ اِبْنُ أَمَتِهِ وَكَلِمَتُهٗ أَلْقَاهَا إِلٰى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ وَالْجَنَّةُ وَالنَّارُ حَقٌّ أَدْخَلَهُ اللّٰهُ الْجَنَّةَ عَلٰى مَا كَانَ مِنَ الْعَمَلِ»(مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ)
ترجمه.
روایت ہے حضرت عبادہ ابن صامت سے فرماتے ہیں فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جوگواہی دے کہ اکیلے خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد الله کے بندے اور رسول ہیں ۱؎ عیسٰی الله کے بندے اور رسول اوراس کی بندی کے بیٹے ۲؎ الله کا کلمہ ہیں جو مریم میں ڈالا ۳؎ اور الله کی طرف سے روح ہیں ۴؎ اور جنت و دوزخ حق ہے الله اُسے جنت میں داخل کرے گا مطابق عمل کے ۵؎ (مسلم،بخاری)
شرح حديث.
۱؎ بندۂ اعلٰی اور رسول اکمل جن کی عبدیت سے الله کی ربوبیت چمکی اور جن کی رسالت رب کی الوہیت کا مظہر اتم ہے۔لہذا ان کی بندگی اور دوسروں کی بندگی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔اور بندوں کو اس پر ناز ہے کہ ہمارا رب الله ہے۔دستِ قدرت کو اس پر ناز ہے کہ میرے بندے محمدالرسول الله ہیں،فرماتا ہے:”ھُوَ الَّذِیۡۤ اَرْسَلَ رَسُوۡلَہٗ“اور بندے رب کو راضی کرنا چاہیں۔رب جناب مصطفےٰ کو راضی کرنا چاہے فرماتا ہے:”وَلَسَوْفَ یُعْطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی”اور بندے کشتیٔ اسلام میں پار لگنے کو سوار ہوئے،جناب مصطفےٰپار لگانے کو،جیسے جہاز کے مسافر اور کپتان کہ جہاز مسافروں کو پار لگاتا ہے اور کپتان جہاز کو،اسی لئے مسافر کرایہ دے کر جہاز میں بیٹھتے ہیں اور کپتان تنخواہ لے کر۔سواری ایک ہے مگر سواروں کی نوعیت میں فرق ہے،لہذا حضور (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نماز،کلمہ پڑھنے،حج و تلاوت قرآن کرنے سے یہ نہ سمجھو کہ حضور ہماری طرح مؤمن ہیں۔ان اعمال سے ہماری عزت ہےاور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کرنے کی وجہ سے ان اعمال کی عزت افزائی،ہمیں فخر ہے کہ ہم نماز پڑھتے ہیں،نماز کو فخرہے کہ حضور نے مجھے پڑھا۔
۲؎ یہ فرمان نہایت جامع ہے۔عیسائی جناب مسیح کو خدا کا بیٹا،اور بی بی مریم کو رب کی بیوی کہتے تھے۔یہودی جناب مسیح کی نبوت کے بھی انکاری تھے اور پاک بتول مریم کو تہمت لگاتے تھے۔اس ایک کلمہ میں دونوں کی نفیس تردید ہوگئی۔زمانہ موجودہ کے قادیانی آپ کو یوسف نجار کا بیٹا کہتے ہیں۔اور حضرت مریم کا نکاح ان سے ثابت کرتے ہیں۔اس میں ان کی بھی اعلٰی تردید ہے کہ اگر جناب مسیح باپ کے بیٹے ہوتے تو اسی طرف آپ کی نسبت ہوتی،قرآن نے بھی انہیں عیسیٰ بن مریم فرمایا حالانکہ فرماتا ہے:”اُدْعُوۡھُمْ لِاٰبَآئِہِمْ“۔
۳؎ اس طرح کہ حضرت جبرئیل نے باذن الٰہیکُن کہہ کر حضرت مریم کے سینہ پر پھونکا جس سے آپ حاملہ ہوگئیں۔خیال رہے کہ جناب مسیح کا لقب کلمۃﷲ ہے یا اس لیے کہ آپ کی پیدائش کلمہکن سے ہےرب فرماتا ہے:”اِنَّ مَثَلَ عِیۡسٰی عِنۡدَ اللّٰهِ “الخ،آدم علیہ السلام کو کلمۃ الله اس لیے نہیں کہتے کہ ان کے جسم کی پیدائش مٹی سے ہے۔صرف روح پھونکناکلمۂ کن سے رب فرماتا ہے:فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخْتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡمگر جناب مسیح کا جسم اور روح سب کُن سےنطفہ علقہ مضغہ کچھ نہیں۔(ازمرقاۃ)یا اس لیے کہ جناب مسیح ازسر تاپا الله کی حجت ہیں گویا سراپا کلمہ ہیں۔یا اس لیے کہ آپ ایک کلمہ دم کرکے بیماروں کو تندرست،مردوں کو زندہ کرتے تھے(اس سے بزرگوں کی جھاڑ پھونک ثابت ہوئی)یا اس لیے کہ آپ نے پیدا ہوتے ہی کلمہ پڑھا کہ کہا”اِنّی عَبدُ الله” الخ۴؎مِنہُ کیمِن تبعیضیہ نہیں اور اس کا معنی یہ نہیں کہ الله کا ٹکڑا ہیں بلکہ “من”ابتدائیہ ہے،یعنی الله کی جانب سے بلا واسطۂ نطفہ آپ کی پیدائش ہے۔آپ کا لقب روح الله بھی ہے یا اس لیے کہ آپ روح الامین جبرئیل کی پھونک سے پیدا ہوئے یا اس لیے کہ آپ مردہ دلوں کو روح ایمان بخشتے ہیں۔
۵؎ کہ اعلٰی درجے کے متقی کو جنت کا اعلٰی مقام عطا فرمائے گا اور ادنی متقی کو وہاں کا ادنی مقام، یہ ان لوگوں کے لئے ہے جنہیں جنت کسب سے ملے، جو دوسروں کے طفیل جنت میں جائیں گے وہ ان کے ساتھ رہیں گے۔جیسے مسلمانوں کے شیر خوار بچے اور بیویاں لہذا حضرت ابراہیم ابن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواج پاک جنت میں حضور( صلی اللہ علیہ وسلم )کے ساتھ ہوں گے۔خیال رہے کہ جنت میں داخلہ ایمان کی بنا پر ہوگا، وہاں کے مراتب اعمال کے مطابق۔ جنت کا داخلہ تین ۳ طرح کا ہے کسبی، وہبی، عطائی یہاں کسبی کا ذکر ہے۔
مأخذ. کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:27