وَعَنِ الأَحْوَصِ بن حَكِيمِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – عَنِ الشَّرِّ،فَقَالَ: “لَا تَسْأَلُونِي عَنِ الشَّرِّ وَسَلُونِي عَنِ الْخَيْرِ” يَقُولُهَا ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ: “أَلَا إِنَّ شَرَّ الشَّرِّ شِرَارُ الْعُلَمَاءِ، وَإِنَّ خَيْرَ الْخَيْرِ خِيَارُ الْعُلَمَاءِ”. رَوَاهُ الدَّارمِيُّ.
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت احوص ابن حکیم سے ۱؎ وہ اپنے والد سے راوی فرماتے ہیں کہ کسی نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے برائی کی بابت پوچھا ۲؎ تو فرمایا کہ مجھ سے برائی کی بابت نہ پوچھو بھلائی کے متعلق پوچھو تین بار فرمایا۳؎ پھر فرمایا آگاہ رہو کہ بدترین شریر برے علماء ہیں اور اچھوں سے اچھے بہترین علماء ہیں ۴؎(دارمی)
شرح حديث.
۱؎ تابعی ہیں،حضرت انس،عبدالله ابن یسر سے ملاقات کی ہے،روایات میں ضعیف ہیں،ان کے والد حکیم ابن عمیرصحابی ہیں۔
۲؎ یعنی گناہ اور اس کے اسباب کیا ہیں اور اس سے بچنے کا ذریعہ کیا۔خیال رہے کہ نیکیاں کرنے کے لیئے جاننا چاہئیں اور گناہ بچنے کے لیئے،علماء فرماتے ہیں کہ کفریات سیکھنا فرض ہے تاکہ ان سے بچے۔
۳؎ یعنی صرف برائیاں ہی نہ پوچھا کرو بھلائیاں بھی پوچھا کرو۔
۴؎ کیونکہ عالم کے بگڑنے سے عالَم بگڑ جاتا ہے اور عالم کے سنبھلنے سے عالَم سنبھل جاتاہے۔عالم مسلمانوں کے جہاز کا کپتان ہے،تر یگا سب کو لے کر اور ڈوبے گا تو سب کو لے کر،آج جتنے فرقے مسلمانوں میں بنے سب علماءسوء کی مہربانی سے اور اس کےباوجود اسلام اصلی رنگ میں موجود ہے علمائےخیرکی برکت سے۔
مأخذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:267
حدیث نمبر 267
12
Jun