علم کا بیان, مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح

حدیث نمبر 262

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : “إِنَّ أُنَاسًا مِنْ أُمَّتِي سَيَتَفَقَّهُونَ فِي الدِّينِ وَيَقْرَؤُوْنَ الْقُرْآن يَقُولُونَ: نَأْتِي الأُمَرَاءَ فَنُصِيبُ مِنْ دُنْيَاهُمْ وَنَعْتَزِلُهُمْ بِدِينِنَا، وَلَا يَكُونُ ذَلِكَ، كَمَا لَا يُجْتَنَى مِنَ الْقَتَادِ إِلَّا الشَّوْكُ، كَذَلِكَ لَا يُجْتَنَى مِنْ قُرْبِهِمْ إِلَّا -قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ: كَأَنَّهُ يَعْنِي- الْخَطَايَا”. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ.
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت ابن عباس سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہ میری امت کے کچھ لوگ علم دین سیکھیں گے اور قرآن پڑھیں گے کہیں گے کہ ہم امیروں کے پاس جائیں ان کی دنیا لے آئیں اپنا دین بچالائیں ۱؎ لیکن ایسا نہ ہو سکے گا جیسے ببول کے درخت سے کانٹے ہی چنے جاتے ہیں ایسے ہی امیروں کے قرب سے(محمد ابن صباح نے فرمایا مطلب یہ ہے کہ)خطائیں ہی چنی جائیں گی ۲؎(ابن ماجہ)
شرح حديث.
۱؎ یعنی بعض علماء و قاری صاحبان بلاضرورت طمع نفسانی کی خاطر اور مال و عزت حاصل کرنے کے لیئے فاسق مالداروں اور حکام کے پاس جانا آنا و نشست و برخاست رکھیں گے محض دنیا کی غرض سے۔
۲؎ ہماری شرح سےمعلوم ہوگیا کہ امیروں سے فاسق اور بے دینی امیر مراد ہیں ان کے پاس علماء کا آنا جانا دین کے لیئے خطرناک ہے کہ وہ ان سے اپنی مرضی کے مطابق غلط فتوے حاصل کرتے ہیں جیسے کہ آج دیکھا جارہا ہے کہ فساق مالدار انتخاب کے موقعوں پر ووٹوں کے لیئے عالموں اور پیروں کو ناجائز استعمال کرلیتے ہیں۔دین دار امیروں کے پاس دینی فائدے کے لیئے علماء کا جانا جائز بلکہ بڑا فائدہ مند ہے۔یوسف علیہ السلام عزیز مصر کے افسر مال رہے،آپ کی برکت سے عزیز کو ایمان اور دنیا کو قحط سے امان مل گئی۔قاضی امام یوسف ہارون رشید بادشاہ کے قاضی القضاۃ رہے،آپ کی برکت سے بادشاہ کو تقوےٰ نصیب ہوا اور دنیا علم سے مالا مال ہوگئی۔یہ واقعات اس حدیث کے خلاف نہیں،محمد ابن مسلمہ فرماتے ہیں کہ پاخانہ پر بیٹھنے والی مکھی امیروں اور حاکموں کے دروازہ پر جانے والے عالم و قاری سے اچھی ہے کہ وہ نجاست لے کر آتی ہے اور یہ دین دیکر اورظلم لیکر آتے ہیں۔
مأحذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:262