علم کا بیان, مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح

حدیث نمبر 261

وَعَنْ عَوْنٍ قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: مَنْهُومَانِ لَا يَشْبَعَانِ صَاحِبُ الْعِلْمِ وَصَاحِبُ الدُّنْيَا، وَلَا يَسْتَوِيَانِ، أَمَّا صَاحِبُ الْعِلْمِ فَيَزْدَادُ رِضًى لِلرَّحْمَنِ، وَأَمَّا صَاحِبُ الدُّنْيَا فَيَتَمَادَى فِي الطُّغْيَانِ. ثُمَّ قَرَأَ عَبْدُ اللَّهِ كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى قَالَ: وَقَالَ: الآخَرُ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ. رَوَاهُ الدَّارمِيُّ.
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت عون سے ۱؎ فرماتے ہیں فرمایا حضرت عبدالله ابن مسعود نے کہ دو حریص سیر نہیں ہوتے علم والا اور دنیا والا مگر دونوں برابر نہیں ۲؎ علم والا تو الله کی رضا مندی بڑھا لیتا ہے اور دنیا والا سرکشی میں بڑھ جاتا ہے .
۳؎ پھرحضرت عبدالله نے یہ آیت تلاوت فرمائی خبردار ہو یقینًا انسان سرکشی کرتا ہے اس لیے کہ اپنے کو بے پرواہ جانتا ہے فرماتے ہیں اور دوسرے کے بارے میں فرمایا کہ الله کے بندوں میں الله سے علماء ہی ڈرتے ہیں ۴؎ (دارمی)
شرح حديث.
۱؎ آپ تابعی ہیں آپ نے حضرت ابن عباس،ابن مسعود،ابوہریرہ سے روایتیں لیں اور آپ سے امام زہری اور امام ابوحنیفہ نے روایتیں لیں۔
۲؎مَنْھُوْمٌ نَہُمٌ سے ہے بمعنی کھانے کی زیادہ رغبت،یعنی طالب علم اور طالب دنیا حریص دونوں ہیں مگر انجام میں فرق ہے۔
۳؎ صوفیاءکی اصطلاح میں دنیا وہ ہے جو رب سے غافل کرے۔منافقوں کی نماز دنیا تھی اور عثمان غنی کا مال عین دین،وہی یہاں مراد ہے۔لہذا حضرت سلیمان،عثمان غنی اور امام ابوحنیفہ جیسے مالداروں کو دنیادار نہیں کہاجاسکتا،ان کا مال رضائے رحمان کا ذریعہ ہے۔
۴؎ یعنی یہ میں محض اپنے رائے سے نہیں کہتا بلکہ رب تعالٰی نے دنیا دار کے ما ل کو زیادتی طغیان اور عالم کے علم کو زیادتی رحمت کا سبب بتایا۔
مأخذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:261