وَعَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ ثَوْبٌ أَبْيَضُ وَهُوَ نَائِمٌ ثُمَّ أَتَيْتُهُ وَقَدِ اسْتَيْقَظَ فَقَالَ: «مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ ثُمَّ مَاتَ عَلٰى ذَلِكَ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ قُلْتُ وَإِنْ زَنٰى وَإِنْ سَرَقَ قَالَ وَإِنْ زَنٰى وَإِنْ سَرَقَ قُلْتُ وَإِنْ زَنٰى وَإِنْ سَرَقَ قَالَ وَإِنْ زَنٰى وَإِنْ سَرَقَ قُلْتُ وَإِنْ زَنٰى وَإِنْ سَرَقَ قَالَ وَإِنْ زَنٰى وَإِنْ سَرَقَ عَلٰى رَغْمِ أَنْفِ أَبِي ذَرٍّ وَكَانَ أَبُو ذَرٍّ إِذَا حَدَّثَ بِهَذَا قَالَ وَإِنْ رَغِمَ أَنْفُ أَبِي ذَرٍ»(مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ).
ترجمه.
روايت هے حضرت ابوذر ۱؎ سے فرماتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۲؎ حضور پر چٹا سفید کپڑا تھا اور سورہے تھے کچھ دیر بعد پھر آیا تو آپ جاگ چکے تھے فرمایا کہ نہیں ہے کوئی بندہ جو لَااِلٰہ الا ﷲکہے ۳؎ پھر اسی پر مرجائے مگر جنت میں جائے گا۴؎ میں نے عرض کیا اگرچہ زنا اور چوری کرے فرمایا اگر چہ زنا اور چوری کرلے ۵؎میں نے کہا اگرچہ زنا اور چوری کرلے ۶؎ فرمایا اگرچہ زنا اور چوری کرے میں نے کہا اگرچہ زنا و چوری کرے فرمایا اگرچہ زنا و چوری کرے ابوذر کی ناک رگڑنے کے باوجود ۷؎ حضرت ابو ذر جب بھی یہ حدیث بیان کرتے تو کہتے تھے کہ اگرچہ ابوذر کی ناک رگڑ جائے ۸؎ (مسلم، بخاری)۱؎
شرح حديث .
آپ کا نام جندب ابن جنادہ،کنیت ابو ذر ہے،قبیلہ بنی غفار سے ہے،آپ پانچویں مسلمان ہیں،مکہ معظمہ میں آکر مسلمان ہوئے اور حضور کے حکم سے اپنی قوم میں چلے گئے،پھر غزوۂ خندق کے بعد مدینہ منورہ میں حاضر ہوئے اور حضور کے ساتھ رہے،پھر ربذہ میں قیام کیا اور وہیں خلافت عثمانیہ ۳۲ھ میں وفات پائی،آپ بڑے،زاہد،عابد،صحابی ہیں،مال جمع کرنے کے بڑے مخالف تھے،اسلام سے پہلے بھی الله کی عبادت کرتے تھے۔
۲؎ ایمان لانے کے لیے حضرت علی مرتضٰی کے ساتھ،آپ کے ایمان لانے کا عجیب و غریب واقعہ ہے جو کسی اور موقع پر بیان کیا جائے گا،یہاں کوئی اور حاضری مراد ہے،دوسرا احتمال زیادہ قوی ہے۔
۳؎ اس سے مراد سارے عقائد اسلامیہ کا مان لیناہے جیسے کہا جاتا ہے کہ نماز میں”الحمد”پڑھنا واجب ہے،یعنی ساری سورۃ یا اس وقت کلمہ پڑھنا ہی مؤمن کی علامت تھی،یا مطلب یہ ہے کہ جو کافرمرتے وقت کلمہ پڑھ کر مؤمن ہوجائے۔
۴؎ یا اول ہی سے گناہوں کی کچھ سزا پا کر یا شفاعت کے پانی سے صاف ہو کر،کیونکہ مؤمن کے لیے دوزخ میں ہمیشگی نہیں۔
۵؎ یعنی انہیں حرام جانتے ہوئے اپنے کو گنہگارسمجھ کر۔اس سے چند مسئلے معلوم ہوئے:ایک یہ کہ گناہ کبیرہ انسان کو اسلام سے نہیں نکالتے،دوسرے یہ کہ گناہ کبیرہ سے نیکیاں ضبط نہیں ہوتیں،کفر سے ہوتی ہیں،تیسرے یہ کہ جس کا خاتمہ ایمان پر ہوجائے وہ یقینًا جتنی ہےخواہ اول سے یا کچھ بعد۔
۶؎ تعجب کرتے ہوئے کیا اتنے بڑے گناہ پر بھی وہ جتنی رہے گا۔حضرت ابوذر کو حیرت ہوئی کہ گناہوں کا لتھڑا ہوا پاک و صاف جنت میں قدم کیسے رکھے گا۔یہ پتہ نہ تھا کہ شفاعت و رحمت کا پانی گندوں کو ستھرا کردیتا ہے۔
۷؎رَغمَِ رغامسے بنا ہے بمعنی مٹی اور خاک،عرب میں یہ لفظ ناپسندیدگی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔یعنی اگرچہ تم ناپسندیدگی کی بنا پر سوال کرتے کرتے زمین پر ناک بھی رگڑ دو جب بھی یہی حکم رہے گا۔
۸؎ تاکہ حدیث کے الفاظ پورے منقول ہوں یا بتقاضائے عشق کہ محبوب کاعتابانہ خطاب بھی عاشق کو پیارا معلوم ہوتا ہے۔بار باراسے یاد کرکے نیا لطف حاصل کرتا ہے۔خیال رہے کہ فاسق مؤمن آخر کار جنتی ہے،بے دین اور بدمذہب پر جنت حرام ہے،اس کے لیے دوزخ میں ہمیشگی ہے۔
مأخذ. کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:26
حدیث نمبر 26
24
Apr