وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : “هَلْ تَدْرُونَ مَنْ أَجْوَدُ جُودًا؟ ” قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: “اللَّهُ تَعَالَى أَجْوَدُ جُودًا، ثُمَّ أَنَا أَجْوَدُ بَنِي آدَمَ، وَأَجْوَدُهُمْ مِنْ بَعْدِي رَجُلٌ عَلِمَ عِلْمًا فَنَشَرَهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَمِيرًا وَحْدَهُ، أَو قَالَ: أُمَّةً وَاحِدَةً”.
ترجمه حديث.
روایت ہے انس بن مالک سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کیا تم جانتے ہو کہ بڑا سخی کون ہے عرض کیا الله رسول جانیں ۱؎ فرمایا الله تعالٰی بڑا جوّاد ہے ۲؎ پھر اولاد آدم میں مَیں بڑا سخی داتا ہوں ۳؎ اور میرے بعد بڑا سخی وہ شخص ہے جو علم سیکھے پھر اسے پھیلائے
۴؎ وہ قیامت میں اکیلا امیر یا فرمایا ایک جماعت ہو کر آئے گا ۵؎
شرح حديث.
۱؎ یہ صحابہ کا ادب ہے کہ نہ تو”لَا”کہا نہ” بلیٰ”کہ ہاں جانتے ہیں تاکہ حضور پر پیش قدمی نہ ہوجائے۔اس سے معلوم ہوا کہ حضور کو الله سے ملا کر ذکر کرنا اور دونوں ہستیوں کے لیئے ایک ہی صیغہ لانا جائز ہے رب فرماتاہے:”اَغْنٰہُمُ اللّٰهُ وَرَسُولُہٗ”لہذا یہ کہہ سکتے ہیں الله اور رسول علیم وخبیر ہیں۔الله اور رسول نے غنی کردیا،الله اور رسول بھلا کریں وغیرہ۔
۲؎ محاورۂ عرب میں عمومًا سخی اسے کہتے ہیں جو خود بھی کھائے اوروں کو بھی کھلائے۔جوّاد وہ جو خود نہ کھائے اوروں کو کھلائے اسی لیئےالله تعالٰی کوسخی نہیں کہا جاتا ہے۔سخی کے مقابل بخیل ہے جو خودکھائے اوروں کو نہ کھلائے۔جوّاد کا مقابل مُمْسِكْ ہے جو نہ کھائے نہ کھانے دے۔الله تعالٰی کی تمام دنیوی اخروی نعمتیں دنیا کے لیئے ہیں اس کے لیئے نہیں۔
۳؎ یہ ارشاد فخرًا نہیں شکرًا ہے حضور ساری خلقت سے بڑے سخی ہیں چونکہ انسان اشرف الخلق ہے اس لیئے اس کا ذکر فرمایا حضور جودِ الٰہی کے مظہر ہیں،رب کی ساری ظاہری و باطنی نعمتیں حضور کے ہاتھوں خلق کو ملتی ہیں۔خود فرماتے ہیں الله دیتا ہے میں بانٹنے والا ہوں،اس حدیث میں الله تعالٰی اور حضور کی سخاوتیں بغیر قید ذکر ہوئیں ہیں اور ظاہر ہے کہ سخی وہی ہوگا جو مالک بھی ہو لہذا حضور مالک کونین ہیں۔
۴؎ یہاں رتبہ کی بعدیت مراد ہے نہ کہ زمانہ کی،لہذا اس میں صحابہ کرام اور تاقیامت علماء داخل ہیں،یعنی میری سخاوت کے بعد عالم دین کا درجہ ہے کہ مال کی سخاوت سے علم کی سخاوت افضل ہے اور کیوں نہ ہو کہ حضور ابر رحمت ہیں،علمائے دین اس کا تالاب۔خیال رہے کہ علماء کی سخاوت میں علم کی قید ہے حضور کی سخاوت بے قید،علم پھیلانا خواہ درس تدریس کے ذریعہ ہویا تصنیف کے ذریعہ۔
۵؎ یعنی اس دن عالم دین امام ہوگا اور سارے عابد نمازی شہید وغیرہ اس کے ماتحت کیونکہ جس نے جو نیکی کی عالم کے بتانے سے کی یا ایک عالم کو سارے مسلمانوں کے برابر ثواب ملے گا سب کے حج جہاد وغیرہ میں اس کا حصہ ہوگا یہ مطلب ہےامت واحدہ ہونے کا،رب فرماتا ہے:”اِنَّ اِبْرٰہِیۡمَ کَانَ اُمَّۃً”۔
مأخذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:259
حدیث نمبر 259
12
Jun