وَعَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يَقُولُ: “إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَوْحَى إِلَيَّ أَنَّهُ مَنْ سَلَكَ مَسْلَكًا فِي طَلَبِ الْعِلْمِ سَهَّلْتُ لَهُ طَرِيقَ الْجَنَّةِ، وَمَنْ سَلَبْتُ كَرِيمَتَيْهِ أَثَبْتُهُ عَلَيْهِمَا الْجَنَّةَ،وَفَضْلٌ فِي عِلْمٍ خَيْرٌ مِنْ فَضْلٍ فِي عِبَادَةٍ، وَمِلَاكُ الدِّينِ الْوَرَعُ”. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي “شُعَبِ الإِيمَانِ”.
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت عائشہ سے کہ فرماتی ہیں میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ الله عزوجل نے مجھے وحی فرمائی ۱؎ کہ جو تلاش علم میں ایک راہ چلا تو میں اس پر جنت کا ایک راہ آسان کردوں گا۲؎ اور جس کی دو پیاری چیزیں میں لے لوں تو اس کو جنت دوں گا۳؎ اور علم کی زیادتی عبادت کی زیادتی سے بہتر ہے۴؎ کارخانہ دین کا نظام پرہیزگاری ہے ۵؎ اسے بیہقی نےشعب الایمان میں روایت کیا۔
شرح حديث.
۱؎ بطریقِ الہام یا بذریعۂ حضرت جبریل کہ مضمون رب کی طرف سے الفاظ حضور کے اسی کو وحی غَیْر مَتْلُو کہتے ہیں۔حدیث قدسی اور قرآن میں یہی فرق ہےکہ قرآن کی عبارت اورمضمون سب رب کی طرف سے ہے۔
۲؎ یعنی جوکسی ذریعہ سے علم طلب کرے خواہ اس کے لیئے سفرکرے یا دینی کتابوں کا مطالعہ رکھے وغیرہ اسے دنیا میں عبادت معرفت وغیرہ جنت کے راستوں کی توفیق ملے گی یا قیامت میں اسے پل صراط سے گزرنا،جنت میں پہنچنا آسان ہوگا۔مرقاۃ نے فرمایا کہ علم کے بغیر جنت کے تمام دروازے بند ہیں،علم دین ان دروازوں کی چابی ہے۔
۳؎ یعنی میں جس کی آنکھیں بیکار کرکے نابینا کردوں اور وہ اس پر صابر شاکر رہے تو اس صبر پر جنت ملے گی۔معلوم ہوا کہ دنیوی تکالیف خدا کی رحمتوں کا ذریعہ ہیں بشرط صبر۔
۴؎ یعنی علم کی تھوڑی زیادتی عبادت کی بہت سی زیادتی پر افضل ہے۔(اشعہ)
۵؎ خیال رہے کہ زہد اور تقوےٰ سےوَرَ عْ افضل ہے۔حرام،شبہات،طمع اور ریا سے بچنا ہرقسم کی عبادت کرناوَرَعْ ہے۔صرف حرام سے بچنا تقویٰ،غیرمتقی آدمی اپنے دین کا انتظام قائم نہیں رکھ سکتا۔
مأخذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:255
حدیث نمبر 255
12
Jun