علم کا بیان, مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح

حدیث نمبر 250

وَعَنْهُ مُرْسَلًا قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – عَنْ رَجُلَيْنِ كَانَا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ: أَحَدُهُمَا كَانَ عَالِمًا يُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ ثُمَّ يَجْلِسُ فَيُعَلِّمُ النَّاسَ الْخَيرَ، وَالآخِرُ يَصُومُ النَّهَارَ وَيَقُومُ اللَّيْلَ أَيُّهُمَا أَفْضَلُ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : “فَضْلُ هَذَا الْعَالِمِ الَّذِي يُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ ثُمَّ يَجْلِسُ فَيُعَلِّمُ النَّاسَ الْخَيْرَ عَلَى الْعَابِدِ الَّذِي يَصُومُ النَّهَارَ وَيَقُومُ اللَّيْلَ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ”. رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.
ترجمه حديث.
روایت ہے انہی سے مرسلًا ۱؎ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ان دو شخصوں کے بارے میں پوچھا گیا جو بنی اسرائیل میں تھے ایک تو عالم تھا۲؎ جو صرف فرائض پڑھتا تھا پھر بیٹھ جاتا تھا۔لوگوں کو علم سکھاتا۳؎ اور دوسرا دن کو روزہ رکھتا رات بھر عبادت میں کھڑا رہتا ۴؎ ان دونوں میں بہتر کون ہے ؟حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ عالم جو صرف فرض نماز پڑھ کر بیٹھ جاتا پھر لوگوں کو علم دین سکھاتا اس کی بزرگی اس عابد پر جو دن کو روزہ اور رات کو قیام کرتا ۵؎ ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ادنی پر ۶؎(دارمی)
شرح حديث.
۱؎ خواجہ حسن بصری صحابی کا ذکر یا تو اس لیئے چھوڑتے ہیں کہ حدیث کے راوی بہت صحابہ ہوتے ہیں کس کس کا نام لیں یا اس لیئے کہ انہیں حدیث کی صحت پر یقین ہوتا ہے۔غرضکہ ان جیسے بزرگوں کا ارسال معتبر ہے اور ان کی مرسل روایتیں مقبول۔(ازمرقاۃ)
۲؎ یعنی اس کا علم عبادت پر غالب تھا اور زیادہ اوقات علمی خدمات میں گزرتے تھے،جیسا کہ اگلے مضمون سے ظاہر ہے۔خیال رہے کہ یا تو ان دو شخصوں کے واقعے عرب میں مشہور تھے یا حضور نے ہی بیان فرمائے ہوں گے۔
۳؎ علم سے علم دین مراد ہے خواہ پڑھاتا تھا یا دینی کتب تصنیف کرتا تھا یا دونوں کام۔
۴؎ یعنی صائم الدھر اور قائم اللیل تھا شاید ان کے دین میں یہ جائز ہوگا،اسلام میں سال میں پانچ روزے حرام ہیں شوال کی پہلی اور بقرعید کی دسویں سے تیرھویں تک۔
۵؎ جواب میں اتنی دراز عبادت کا فرمانا عالم کی شان لوگوں کے ذہن نشین کرانے کے لئے ہے ورنہ اتنا کافی تھا کہ پہلا دوسرے سے افضل ہے۔
۶؎ اس کی شرح پہلے گزر چکی کہ یہ مثال نوعیت کے بیان کے لئے ہے،یعنی جس قسم کی بزرگی مجھ کو تم پر حاصل ہے اس قسم کی بزرگی عالم کو عابد پر ہے جیسے رب نے فرمایا:”مَثَلُ نُوۡرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ”الآیہ،لہذا اس سے یہ لازم نہیں کہ عالم نبی کے برابر ہوجائے۔خیال رہے کہ علم دین یا فرض عین ہے یا فرض کفایہ اور زیادہ عبادت نفل ہے،نیز عالم کا نفع مخلوق کو ہے اور عابد کا نفع صرف اپنے کو،لہذا عالم عابد سے افضل ہے۔آدم علیہ السلام عالم تھے،فرشتے لاکھوں سال کے عابد مگر سجدہ عابدوں نے عالم کو کیا۔
مأخذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:250