ایمان و کفر کا بیان, باب الایمان(مشکوۃ)

حدیث نمبر 25

وَعَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمُعَاذٌ رَدِيْفُهٗ عَلَى الْرَحْلِ قَالَ: «يَا مُعَاذُ قَالَ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ وَسَعْدَيْكَ قَالَ يَا مُعَاذُ قَالَ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ وَسَعْدَيْكَ قَالَ يَا مُعَاذُ قَالَ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ وَسَعْدَيْكَ ثَلٰثًا قَالَ مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ صِدْقًا مِنْ قَلْبِهٖ إِلَّا حَرَّمَهُ اللّٰهُ عَلَى النَّارِ قَالَ يَا رَسُولَ الله أَفَلَا أُخْبِرُ بِهِ النَّاسَ فَيَسْتَبْشِرُوْا قَالَ إِذًا يَتَّكِلُوْا فَأَخْبَرَ بِهَا مُعَاذٌ عِنْدَ مَوْتِهٖ تَأَثُّمًا»
ترجمه.
روایت ہے حضرت انس سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کجاوہ پر تھے معاذ حضور کے ردیف تھے حضور نے فرمایا اے معاذ عرض کیا حاضر ہوں یا رسول الله خدمت میں فرمایا اے معاذ عرض کیا یارسول الله حاضر ہوں خدمت میں فرمایا اے معاذ عرض کیا حاضر ہو خدمت میں تین بار ۱؎ فرمایا ایسا کوئی نہیں جو گواہی دے کہ الله کے سوا معبود نہیں اور بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم الله کے رسول ہیں۔سچے دل سے ۲؎ مگر الله اسے آگ پر حرام فرمادے گا۔۳؎عرض کی یارسول الله تو کیا میں لوگوں کو اس کی خبر نہ دے دوں کہ وہ خوش ہوجائیں فرمایا تب تو وہ بھروسہ کر بیٹھیں گے ۴؎پھر حضرت معاذ نے گناہ سے بچنے کے لیے ۵؎ اپنی وفات کے وقت خبر دے دی۶؎
شرح حديث.
۱؎ حضرت معاذ کو تین بار پکارنا کچھ نہ فرمانا زیادتی شوق کے لیے تھا کہ حضرت معاذ کلام سننے کے پورے مشتاق ہوجائیں جو بات انتظار کے بعد سنی جاتی ہے خوب یاد رہتی ہے۔”لبیك وسعدیك”کا اردو میں مختصر ترجمہ یہ ہے کہ میں خدمت میں حاضر ہوں چھوٹے کو چاہئیے کہ بڑے کا ادب بہرحال کرے۔
۲؎ اس طرح کہ دل سے اس کو مانے اور زبان سے اقرار کرے،لہذا منافق اس بشارت سے علیحدہ ہے،اور ساتر یعنی دل کا مؤمن زبان سے خاموش اس پر شریعت میں اسلامی احکام جاری نہ ہوں گے۔خیال رہے کہ عمر میں ایک بار زبان سے کلمۂ شہادت پڑھنا فرض ہے اور مطالبہ کے وقت بھی ضروری۔
۳؎ اس طرح کہ وہ آگ میں ہمیشہ نہ رہے گا یا آگ اس کے دل و زبان کو نہ جلا سکے گی کیونکہ یہ ایمان اور شہادت کے مقام ہیں کافر کا قلب و قالب دونوں جلائے گی،رب فرماتا ہے:”تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْـِٕدَۃِ”یا حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو کافر مرتے وقت ایمان لائے اور کسی عمل کا موقع نہ پائے اس کے لیے یہ بشارت ہے۔بہرحال یہ حدیث نہ قرآن کے خلاف ہے،نہ دیگر احادیث کے کوئی مؤمن عمل سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔
۴؎ حضرت معاذ نے اس بشارت کی تبلیغ کی اجازت مانگی یہ معلوم کرنے کے لیے کہ یہ حکم تبلیغی امور میں سے ہے یا اسرار الہٰیہ میں سے۔شرعی احکام سب کے لیے ہیں،طریقت کے اسرار اہل کے لیے۔خیال رہے کہ عوام بشارت سن کر بے پرواہ ہوجاتے ہیں،مگر خواص بشارت پا کر زیادہ نیکیاں کرنے لگتے ہیں۔رب نے اپنے حبیب سے فرمایا”لِیَغْفِرَ لَکَ اللَّهُ”الخ تو حضور نے نیکیاں اور زیادہ کیں۔عثمان غنی سے فرمایا تھا کہ جو چاہو کرو تم جنتی ہوچکے تو ان کے اعمال اور زیادہ ہوگئے۔
۵؎ کہ حدیث شریف میں ہے جو علم چھپائے اسے آگ کی لگام دی جائے گی،قرآن شریف میں بھی علم چھپانے کی برائیاں مذکور ہیں۔
۶؎ یہ سمجھتے ہوئے کہ مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بشارت سے اس وقت منع کیاتھا جب اکثر لوگ نو مسلم تھےاور حدیث دانی کاملکہ کم رکھتے ،اب حالات بدل چکے ہیں،لوگ ذی شعور اور سمجھدار ہوگئے ہیں،یہ ہے اجتہاد صحیح۔
مأخذ. کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:25