وَعَنْهُ فِيمَا أَعْلَمُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ: “إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِئَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا”. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ.
ترجمه حديث.
روایت ہے انہی سے[ابو هريرة] میری دانست میں وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے راوی ۱؎ کہ فرمایا یقینًا الله تعالٰی اس امت کے لیے ہرسو برس پر ایک مجدد بھیجتا رہے گا جو ان کا دین تازہ کرے گا۲؎ (ابوداؤد)
شرح حديث
۱؎ یہ کلام کسی نیچے کے راوی کا ہے وہ فرماتے ہیں کہ میرا غالب گمان یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ نے یہ حدیث حضور سے روایت کی۔ ان کاخود اپنا قول نہیں۔
۲؎ یعنی اس امت کی یہ خصوصیت ہے کہ یوں تو اس میں ہمیشہ ہی علماء اور اولیاء ہوتے رہیں گے لیکن ہر صدی کے اول یا آخر میں خصوصی مصلحین پیدا ہوتے رہیں گے جو سنتوں کو پھیلائیں گے،بدعتوں کو مٹائیں گے،غلط تاویلوں کو دور کریں گے،صحیح تبلیغ کریں گا۔ خیال رہے کہ اس حدیث کی بنا پر بہت لوگوں نے اپنے خیال کے مطابق مجدّد گنائے ہیں۔کہ پہلی صدی میں فلاں،دوسری میں فلاں،بہت مفسد وں نے بھی اپنے آپ کو مجدّد کہا،مرزا غلام احمد قادیانی پہلے مجدّد ہی بنا تھا پھر نبی۔حق یہ ہے کہ اس سے نہ کوئی خاص شخص مراد ہے نہ کوئی خاص جماعت،کبھی اسلامی بادشاہ،کبھی محدثین،کبھی فقہاء،کبھی صوفیاء،کبھی اغنیاء،کبھی بعض حکاّم دین کی تجدید کریں گے،کبھی ایک،کبھی ان کی جماعتیں جو دین کی یہ خصوصی خدمت کرے وہی مجدد ہے،جیسے ایک زمانہ میں حضرت سلطان محی الدین اورنگ زیب عالمگیر رحمۃاللہ علیہ جنہوں نے اسلام سے اکبری بدعات کو دور فرمایا اور جیسے قطب الوقت حضرت مجدّد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃاللہ علیہ یا اس زمانہ میں عالم اعلٰی حضرت مولانا شاہ احمد رضاخاں صاحب بریلوی رحمۃاللہ علیہ کہ انہوں نے اپنی زبان اور قلم سے حق و باطل کو چھانٹ کر رکھدیا۔
مأخذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:247